اکتوبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اکتوبر۲۰۰۷ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

احمد سلمان ‘ایبٹ آباد

رمضان المبارک کی آمد پر حسب روایت ترجمان القرآن (ستمبر ۲۰۰۷ء) میں اس مناسبت سے خصوصی تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ سید مودودیؒ نے بجا توجہ دلائی ہے کہ اسلامی انقلاب کی راہ میں اصل رکاوٹ دعوتِ دین کی تڑپ میں کمی ہے۔ مولانا عبدالمالک نے احادیث کے انتخاب میں رمضان کے فیوض وبرکات کا اختصار سے جائزہ پیش کرکے عمدہ تذکیر کی۔ ’تہجد کے انعام‘ مؤثر اور عمل کی ترغیب دلانے والی تحریر ہے۔    نماز میں تعدیل ارکان سے عموماً غفلت برتی جاتی ہے‘ صحیح توجہ دلائی گئی ہے۔ ’تجوید و قرأت کی فضیلت‘ میں جہاں خوش الحانی کی تاکید اور صحیح نہ پڑھنے پر قرآن کی لعنت کا سزاوار ٹھیرایا جانے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے‘ وہاں یہ پہلو وضاحت طلب ہے کہ جو لوگ اہلِ زبان نہیں وہ کوشش کے باوجود بہرحال مخارج کی اس طرح ادایگی نہیں کرسکتے جس طرح کہ کی جانی چاہیے تو ان کا کیا معاملہ ہوگا؟

شفیق الرحمٰن انجم ‘قصور

’پاکستان کے تعلیمی نظام میں امریکی مداخلت‘ (ستمبر۲۰۰۷ء) یقینا ایک غورطلب تحریر ہے۔ نصابِ تعلیم جو ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہ بھی طاغوتی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا بن چکا ہے۔ ’روشن خیالی‘ کے نام پر نصابِ تعلیم میں رد و بدل کرکے نئی نسل کو اسلام کے نظریۂ حیات سے دُور کیاجا رہا ہے اور ذہنی غسل کے ذریعے غیرمحسوس طور پر مغربی تہذیب کا نفوذ کیا جا رہا ہے جو نہایت تشویش کا باعث ہے۔ پاکستان میں احیاے اسلام کی تحریکوں کوچاہیے کہ اس مذموم طاغوتی سازش کا صحیح ادراک کرتے ہوئے اس محاذ کو کھلا نہ چھوڑیں۔ اس سے نئی نسل ہی نہیں خود پاکستان کا مستقبل بھی وابستہ ہے۔

ڈاکٹر مختار احمد ‘بہاول پور

’رسائل و مسائل‘ (ستمبر ۲۰۰۷ء) میں ’ایک سے زائد حج‘ کے تحت علامہ یوسف قرضاوی کی تحریر   نظر سے گزری۔ اس میں اُمت مسلمہ کے مفاد کے پیش نظر ایک اہم پہلو کی طرف بجا توجہ دلائی گئی ہے۔ اس کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔

بریگیڈیر (ر) ایم شفیع خاں ‘لاہور

’پاکستان فیصلہ کن دوراہے پر‘ (اگست ۲۰۰۷ء) ہماری انتہائی گراوٹ کی صحیح تصویر ہے۔ اگر مولانا حضرات کی کچھ غلطیاں بھی ہوں‘ تب بھی یہ holocaust اُن حدود سے کوسوں باہر ہے۔

۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء پونچھ شہر پر حملہ ناکام ہونے کے بعد جو میری مخالفت کے باوجود کیا گیا تھا‘ مجھے راجوری پر حملے کی اجازت ملی۔ سازوسامان پہنچایا گیا۔ میرے منصوبے میں سب سے پہلے توپ خانے سے راجوری پر پمفلٹ گرانا تھا تاکہ سویلین شہر سے باہر ایک کھلے علاقے میں چلے جائیں اور سویلین آبادی کسی طرح آپریشن کی زد میں نہ آئے۔ مگر یحییٰ خان نے بھی ایوب خان کی طرح تقریر پڑھی اور لڑکھڑاتی زبان سے ہندستان کو دھمکی دی اور جنگ بندی ہوگئی۔ ہمارا آپریشن یادوںتک رہ گیا۔ اسلام پر چلنے والے لوگ اخلاق کے علاوہ اپنی اچھائی کیسے ثابت کرسکتے ہیں کہ دشمن بھی اُس کا اعتراف کرے۔

لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا قتل عام‘ اتنی معصوم روحوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا حکم صرف ہلاکو خان ہی دے سکتا تھا۔ پاکستان کی ہستی اور آئیڈیالوجی کو بے عزت کرنے کا قبیح کارنامہ کیسے سرزد ہوا۔ یہ مکروہ ترین حرکت شاید کوئی کافر بھی نہ کرتاسواے اسرائیلیوں کے۔ اس دکھ کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔

عبدالرقیب‘چنائی‘ بھارت

’مسلم ریاست میں دعوت و جہاد کامنہج‘ (اگست ۲۰۰۷ء) کے لیے ڈاکٹر اختر حسین عزمی قابلِ مبارک باد ہیں۔ موصوف نے تبلیغ و تعلیم اور عملی جہاد کے درمیان آج کی صورت حال میں احتجاج اور راے عامہ کو  ہموار کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اور طریقۂ کار کی نشان دہی قرآن اور سیرت و سنت رسولؐ اور فقۂ اسلامی کے حوالوں سے کی ہے۔ اس سے فکروعمل کے لیے نئے دریچے کھلیںگے‘ نیز نہ صرف مسلم ریاستوں میں بلکہ خود ہمارے ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں‘ نئے انداز سے کام کرنے کا نقشہ بن سکتا ہے۔

آصف محمود ‘لاہور

’مسلم ریاست میں دعوت و جہاد کا منہج‘ میں موجودہ صورت حال میں تبدیلی کے لیے آئینی جدوجہد کی اہمیت کو خوب اُجاگر کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر مزید لکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلام کے لیے دردِ دل رکھنے والے جدید ریاست کی تشکیل میں آئینی اداروں اور دستوری جدوجہد کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔