تمام دنیاوی امور میں اﷲ تعالیٰ ہی حَاکِم (ruler) اور شَارِع (law giver)ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی حاکمِ اعلیٰ (sovereign) ہے۔ اللہ کے بارے میں یہ عقیدہ کافی نہیں ہے کہ وہ خَالِق (creator)ہے اور ربّ (sustainer) ہے۔ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ اُسے خالق بھی تسلیم کیا جائے اور ربّ بھی، مالک بھی تسلیم کیا جائے اور بادشاہ بھی، صاحبِ تصرّف بھی تسلیم کیا جائے اور حاکم اور شارع بھی۔ آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے دی جانے والی شریعت کے ہر فیصلے کو تسلیم کرنا بھی لازمی اور ضروری ہے ، کیونکہ ’تکوینی اقتدار‘ کے ساتھ ساتھ ’تشریعی اقتدار ‘بھی اﷲ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔ اسی کو توحید تشریع یا توحید حاکمیت کہا جاسکتا ہے۔ جو ہستی آسمانوں پر حکمرانی کر رہی ہے ، صرف اُسی کو ہی اِس کرۂ ارض پر حکمرانی کا حق حاصل ہے۔
ہمارے دور میں‘ جب کہ جمہوریت اور سیکولرزم کی صدائیں ہر طرف بلند ہو رہی ہیں اور اسلامی عقائد اور اسلامی ثقافت و تہذیب پر تابڑ توڑ حملے مسلسل کیے جارہے ہیں ، ہر پڑھے لکھے مسلمان کے لیے لازمی اور ضروری ہوگیا ہے کہ وہ حاکمیتِ الٰہی (توحیدِ تشریع) کے عقیدے کو ٹھیک ٹھیک سمجھے۔ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ اللہ کو صرف خالق ہی نہیں‘ بلکہ رب بھی تسلیم کیا جائے۔ خالق و رب ہی نہیں‘ بلکہ اُسے حاکم اور شارع بھی تسلیم کیا جائے۔ بحیثیت حاکم اور بحیثیت شارع نہ صرف اُس کی تکوینی حاکمیت تسلیم کی جائے بلکہ تشریعی حاکمیت کو بھی مانا جائے۔
مغرب یہ چاہتا ہے کہ وہ اِسلام کو عیسائیت کی طرح چرچ اور مسجد میں محدود کر دے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ قرآن و سنت کے مطابق دنیا میں کہیں کوئی حکومتِ الٰہیہ قائم ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ قرآن و سنت کے قوانین کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک میں عدالتی نظام قائم ہو۔ وہ تو چاہتا ہے کہ سُود پر مشتمل معاشی نظام کو مسلمان ردّ نہ کر دیں اور غیر سودی نظامِ معیشت کو اپنے اپنے ملکوں میں رائج اور نافذ کریں۔
مغربی جمہوریت ، ایک مادر پدر آزاد جمہوریت ہے، جو کسی روحانی اور اَخلاقی حدود و قیود کی پابند نہیں۔ اس میں عوام کو اور عوام کے منتخب نمایندوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہر قسم کے فیصلے کرسکیں۔ اسلام ایسی آزاد جمہوریت کا قائل نہیں۔ جمہوریت میں عوام الناس کی رائے کو ریفرنڈم کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے ، یا عوام کے منتخب نمایندوں کی رائے کو پارلیمنٹ میں دیکھا جاتا ہے۔
دستورِ پاکستان میں قراردادِ مقاصد کے ذریعے حاکمیتِ الٰہیہ کو تسلیم کیا گیا ہے‘ اور آٹھویں ترمیم کے ذریعے اِسے دستور کا ایک مستقل حصہ قرار دیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ہر اُس قانون کا جائزہ لے ، جو قرآن و سنت سے متصادم ہو۔ یہ چیز مغرب کی نگاہ میں بری طرح کھٹکتی ہے اور مختلف طریقوں سے اس کی یہ کوشش ہے کہ اِس دستور کو ترکی کی طرح سیکولر بنا دیا جائے۔
سیکولرزم کا مطلب لامذہبیت یا لادینیت نہیں ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ سیکولرزم مذہب کو گھر ، مسجد اور عبادت خانوں تک محدود کر دیتا ہے۔ سیکولرزم کا توحیدِ ربوبیت اور توحیدِ اُلوہیت سے کوئی جھگڑا نہیں ہے ، لیکن وہ توحیدِ تشریع‘ یعنی حاکمیت الٰہی کی مخالفت کرتا ہے۔ اسلام اور سیکولرزم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
سیکولرزم یہ گوارا نہیں کرتا کہ ایک سیکولر اسٹیٹ میں اسلامی سزائیں (حدود) نافذ ہوں۔ سود پر پابندی ہو ، موسیقی اور رقص پر پابندی ہو ، عریانی اور فحاشی پر پابندی ہو ، البتہ سیکولرزم عبادات کی اجازت دیتا ہے ، چنانچہ وہ تصوف کو پروان چڑھاتا ہے جس کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ مغرب کی سیکولر دنیا کے نزدیک تصوف ایک ایسا فلسفہ ہے ، جس سے اُن کے سیاسی اور مالی مفادات پر زد نہیں پڑتی اور وہ تصوف کے ساتھ پُرامن بقاے باہمی کے اُصولوں پر کار بند رہ سکتی ہے۔ اس کے برخلاف سیکولرزم کی اسلامی شریعت (Islamic Law) سے ازلی دشمنی ہے۔ سیکولرزم کے نقطۂ نظر سے فوج داری قوانین ، معاشی قوانین ، عائلی قوانین وغیرہ میں ، خدا اور مذہب کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ ان تمام امور میں عوام کی رائے ، اُن کی خواہشاتِ نفس اور اُن کے نمایندوں کی رائے ہی حاکمِ اعلیٰ ہے۔
ہر مسلمان پر یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ جس اللہ نے ہمیں نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اُسی نے چورکا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ جس اللہ نے ہمیں روزوں اور حج کا حکم دیا ہے ، اُسی نے امیروں سے زکوٰۃ وصول کرنے‘ غیر شادی شدہ زانی مرد و خواتین کو کوڑے لگانے اور شادی شدہ زانی مرد وخواتین کو رجم کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس اللہ نے ہمیں سچ بولنے کا اور امانتوں کا پاس و لحاظ کرنے کا حکم دیا ہے ، اُسی نے ہمیں وصیت اور وراثت کے احکام دیے ہیں۔ اُسی نے سود ، فحاشی ، عریانی اور زنا کو حرام ٹھیرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے بعض کو قبول کر کے ، بعض کو مسترد نہیں کیا جاسکتا اور نہ اسلام کو صرف ذاتی اعمال تک محدود کیا جاسکتا ہے۔ اسلام ایک نظامِ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ شارع ہے ، وہ عبادات کا بھی حکم دیتا ہے اور معاشرتی قوانین کا بھی، وہ معاشی قوانین کا بھی حکم دیتا ہے اور اَخلاقیات کی تعلیم بھی۔ وہ ایک مضبوط اجتماعیت پر مبنی ریاست (state) کا حکم بھی دیتا ہے ، جہاں اسلام کا نظامِ عدل رائج ہو۔
حکمرانی ، اقتدار اور بادشاہت ، اللہ ہی کی ہے ، جس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اِس حقیقت کا نام ’توحیدِ ملوکیت ‘ ہے۔ اِسی کا دوسرا نام ’توحیدِ حاکمیت‘ ہے۔درج ذیل آیات پر غور کیجیے:
لَـہُ الْمُلْکُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ ج (الزمر ۳۹: ۶) بادشاہی اسی کی ہے ، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے۔
لَـہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ والْاَرْضِ (الزمر ۳۹:۴۴) آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا وہی مالک ہے۔
وَلَـمْ یَـکُنْ لَّـہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ (الفرقان ۲۵:۲) بادشاہی میں اُس کا کوئی شریک نہیں (وہ تنہا حکومت کر رہا ہے)۔
بِیَدِہٖ مَـلَـکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ (یٰٓس ۳۶:۸۳) ہر چیزکی بادشاہی ، اسی کے ہاتھ میں ہے۔
مَلِکِ النَّاسِ o (الناس ۱۱۴:۲) انسانوں کا بادشاہ ہے۔
لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِo (الشورٰی ۴۲:۴۹) زمین اور آسمانوں کی بادشاہی صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔
خیال رہے کہ زمین کی بادشاہت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ فرعونوں ، نمرودوں اور بالادست ریاستوں کے حکمرانوں کو سوپر پاور سمجھنا شرک فی الملوکیت ہے۔ کمزور مسلمان ، کافروں کی قوت سے مرعوب ہو جاتے ہیں ، لیکن اللہ نے ہمیں قرآن میں حکم دیا ہے کہ:
لَا یَـغُـرَّنَّـکَ تَـقَـلُّبُ الَّذِینَ کَـفَرُوْا فِـی الْبِلاَدِ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۹۶) دنیا کے ملکوں میں ، خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت ، تمھیں کسی دھوکے میں مبتلا نہ کر دے۔
ہمارے زمانے میں بھی ، جب کمزور مسلمان امریکہ کی عراق پر ، اور روس کی شیشان کے شہر گروزنی پر بمباری ، تسلّط اور مسلمانوں کی مسکینی ، بدحالی ، شکست خوردگی، بے بسی اور لاچاری کے مناظر کو اخبارات میں پڑھتے ہیں اور ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں تو ان بڑی طاقتوں کے جاہ و جلال سے مرعوب ہو کر اُمّتِ مسلمہ کے مستقبل سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ لیکن اﷲ کے وہ شیر ، جن کی نگاہوں میں اﷲ کی قوت ، طاقت ، اقتدار ، بادشاہی اور ملوکیت سمائی رہتی ہے ، دنیا کی طاقتوں کو تنکے سے بھی حقیر سمجھتے ہیں۔ خود کو اﷲ کی فوج کا سپاہی سمجھ کر باطل کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔ اﷲ کے کلمے کو بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اﷲ ہی کو تنہا صاحبِ اقتدار سمجھتے ہیں۔ اُسی سے ڈرتے ہیں۔ یہی توحیدِ حاکمیت یا توحیدِ ملوکیت ہے۔
توحیدِ تشریع ، توحیدِ حاکمیت کے حوالے سے ، درج ذیل نکات پر مشتمل قرآنی آیات پر غور کیجیے:
خالق ھی کو حکم و امر کا حق حاصل ھے
اَلَالَـہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط تَبٰـرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰـلَمِیْنَ o (الاعراف ۷:۵۴) سن لو ! اُسی کی ’ خلق‘ ہے اور اسی کا ’اَمر‘ ہے ، بڑا بابرکت ہے اللہ ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔
اِس آیت سے معلوم ہوا کہ خالق ہی کو‘ حاکم و آمر ہونے کا حق حاصل ہے۔
بَلْ لِّـلّٰہِ الْاَمْرُ جَمِیْـعًا ط(الرعد ۱۳:۳۱) بلکہ سارا اَمرو اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔
یُـدَبِّـرُ الْاَمْرَ ط (یونس ۱۰:۳) (اللہ ہی) کائنات کا انتظام چلا رہا ہے (اَوامر اور اَحکامات کی تدبیر کر رہا ہے)۔
یَـتَـنَـزَّلُ الْاَمْرُ بَـیْـنَـھُنَّ لِتَـعْـلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ لا (الطلاق ۶۵:۱۲) ان (زمین اور آسمانوں ) کے درمیان ’حکم‘ نازل ہوتا رہتا ہے (یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جارہی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ ہی خالق بھی ہے اور حاکم بھی۔ اللہ ایسا حاکم ہے ، جس کے ہاتھ میں سارے اختیارات ہیں۔اللہ ہی مدبّر ہستی ہے۔ وہ ایسا مدبّر ہے ، جو اپنی حکمت اور دانائی کو اپنی قدرت اور طاقت سے دنیا میں نافذ کر کے رہتا ہے۔
اِسی لیے اُسے بہترین حاکم خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ اور اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ کہا گیا۔
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ o (المآئدۃ۵:۴۴) اور جو لو گ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی کافر ہیں۔
(قرآن میں دوسری جگہ ایسے لوگوں کو فاسق اور ظالم بھی کہا گیا ہے۔)
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ط (الانعام ۶:۵۷) فیصلے (حکم) کا سارا اختیار ، اللہ ہی کو ہے۔
اَلَالَہُ الْحُکْمُ قف وَ ھُوَ اَسْرَعُ الحٰسِبِیْنَ (الانعام ۶:۶۲) خبردار ہو جائو ! فیصلے کے سارے اختیارات اسی کو حاصل ہیں۔ اور وہ حساب لینے میںبہت تیز ہے۔
مندرجہ بالا آیات میں مشرکینِ مکہ کے خود ساختہ قوانینِ حلال و حرام کا اِبطال بھی کیا گیا ہے۔ سورئہ شوریٰ میں ، اللہ تعالیٰ نے اِن سے سوال کیا ہے:
اَمْ لَـھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَـہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَـا لَـمْ یَـاْذَنْ بِـہِ اللّٰہُ ط (الشوریٰ ۴۲:۲۱) کیا ان کے کچھ شریک خدا ہیں ، جنھوں نے ان کے لیے وہ دین ٹھیرایا ہے ، جس کا اذن اللہ نے نہیں دیا۔
سورئہ شوریٰ کی اس آیت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱- مشرکین مکہ کا عقیدہ تھا کہ شرکاء (یعنی الِھۃ ، غیرُ اللّٰہ اور مِن دُونِ اللّٰہ) نے دین کی شریعت سازی کی ہے۔
۲-مشرکینِ مکہ کے اس عقیدے اور اس شریعت کی اللہ تعالیٰ نے ہرگز اجازت نہیں دی۔
۳- الدین سے مُراد ، محکومیت ، اِطاعت ، سپردگی اور بندگی ہے ، جس میں اِسلام کے سارے احکام بھی شامل ہوتے ہیں ، اور اِس جنس کی ساری دیگر چیزیں بھی۔
۴- شَرَعُوْا لَھُمْ ’’ اُن کے لیے قانون سازی کی ‘‘ سے مُراد ، حلال و حرام کے احکام اور وہ دیگر تمام احکام ہیں ، جو احکامِ الٰہی سے متصادم ہوتے ہیں۔
وَھُوَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ط لَہُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ ز وَلَـہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ o (القصص ۲۸:۷۰) اور وہ اللہ ہی ہے، جس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ، دنیا اور آخرت میں اسی کے لیے تعریف ہے۔ حکم دینا ، اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جائو گے۔
اللہ تعالیٰ نہ صرف حاکم ہے ، بلکہ خَیْرُ الْحَاکِمِیْن ہے ، اَحکمُ الْحَاکِمِیْن ہے۔ وہ خَیْرُ الْفَاصِلِین ہے۔ فرمایا گیا :
وَھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ o (الاعراف ۷:۸۷) اور وہی (اللہ) سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
اَلَـیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ o (التین ۹۵:۸) کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟
دنیا میں دیکھا گیا ہے کہ بعض عدالتیں ماتحت ہوتی ہیں اور اُن کے اوپر بڑی عدالتیں ہوتی ہیں جنھیں ہم سیشن کورٹ ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کہتے ہیں۔ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کو بڑی عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسا آخری حاکم ہے ، جس کے فیصلوں کے بعد کوئی اُن میں ترمیم نہیں کر سکتا‘ اِضافہ نہیں کر سکتا اور نظرثانی نہیں کر سکتا۔ وہ آخری اتھارٹی ہے۔ دنیا کی عدالتوں میں مقدمات کئی کئی سالوں تک لٹکتے رہتے ہیں ، لیکن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں فی الفور فیصلے کیے جاتے ہیں۔ فرمایا گیا:
وَاللّٰہُ یَحْکُمُ لَا مُعَـقِّبَ لِحُکْمِہٖ ط وَھُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِo (الرعد ۱۳:۴۱) اللہ حکومت کر رہا ہے ، کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے اور اُسے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔
وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّـقَوْمٍ یُّـوْقِـنُـوْنَo (المآئدۃ ۵:۵۰) اللہ پر یقین رکھنے والوں کے نزدیک ، اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟
دنیا کی عدالتوں میں دیکھا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ جج ہوتے ہیں اور جیوری کے کئی ممبر ہوتے ہیں ، جج آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں۔ بعض اوقات فیصلے متفقہ ہوتے ہیں اور بعض اوقات کثرتِ رائے کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ لیکن اللہ کی عدالت اِن سب سے مختلف ہے۔ اُس کے فیصلے تمام تر عدل پر مبنی ہوتے ہیں ، جس میں غلطی کا کوئی اِمکان نہیں ہوتا۔ اُس کی شہادت مکمل ہوتی ہے۔ اُس کا علم ہر چیز پر محیط ہوتا ہے۔ وہ نیتوں سے بھی واقف ہوتا ہے۔ اُسے اپنی حکومت میں اور اپنے احکامِ حکومت میں نہ کسی سے مشورہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ وہ کسی کو اپنے فیصلوں میں شریک کرتا ہے۔ یہی بات سورۃ الکھف میں بیان کی گئی ہے:
وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِـہٖٓ اَحَدًا o (الکھف ۱۸:۲۶) اور وہ اپنی حکومت اور اپنے احکامِ حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
معلوم ہوا کہ وہ اپنے حکم و اختیار میں کسی کو ساجھی نہیں بناتا ، کیونکہ وہ خود علیم و حکیم ہے ، اُسے کسی اور سے مشورے کی حاجت نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہی حاکمِ مطلق ہے۔ وہ کسی کے دبائو میں نہیں ہے‘ نہ وہ کسی کے ڈر سے عدل و انصاف کا خون کرتا ہے‘ اور نہ کسی کی محبت اور مروّت میں ظلم پر مبنی فیصلہ کرتا ہے۔ دنیا کی عدالتوں پر اور عدالتوں کے فیصلوں پر ظالم حکمرانوں اور دیگر لوگوں کا دبائو ہوتا ہے‘ جس کی وجہ سے وہ عدل سے اِنحراف کرتی ہیں۔ لیکن یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہیں۔ فرمایا گیا:
اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْـدُ o (المآئدۃ ۵:۱) یقینا اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، حکم دیتا ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اصل شارع ہے۔ صرف اُسی کے فیصلے حق پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور وہی ایک ہستی ایسی ہے ، جو ۱۰۰ فی صد صحیح فیصلے کر سکتی ہے۔قرآن کہتا ہے:
اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ ط یَـقُصُّ الْحَقَّ وَھُوَ خَـیْـرُ الْفٰصِلِیْـنَ o (الانعام ۶:۵۷) نہیں ہے کسی اور کا فیصلہ اور قانون ، مگر اللہ کا (یعنی فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے) ، وہی امرِ حق بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِط اَمَرَ اَلاَّ تَـعْـبُدُوْٓا اِلَّا ٓ اِیَّاہُط (یوسف ۱۲:۴۰) فرماںروائی اور اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ، اُس کا حکم ہے کہ خود اُس کے سوا ، تم کسی کی بندگی اور اطاعت نہ کرو!
زمین و آسمان میں اُسی کی حکومت ہے‘ یعنی تکوینی حکومت بھی اُسی کی ہے اور تشریعی حکومت بھی اُسی کی ہونی چاہیے۔ جبری دنیا میں بھی اُسی کی حکومت ہے اور اِختیاری دنیا میں بھی اُسی کی حکومت ہونی چاہیے۔ تکوینی حکومت بھی ہر قسم کے عیب سے پاک ہے اور اُس کی شریعت بھی عیب سے پاک ہے۔ چونکہ وہ حکیم اور علیم ہے ، اسی لیے ہر دو دائروں میں اس کے احکام کامل علم اور کامل حکمت پر مشتمل ہیں۔ چنانچہ اس نکتے کو سورۃ الزخرف میں کھولا گیا ہے:
وَھُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِلٰـہٌ وَّ فِـیْ الْاَرْضِ اِلٰـہٌ ط وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ o (الزخرف ۴۳:۸۴) وہی ایک ، آسمان میں بھی اِلٰہ ہے اور زمین میں بھی اِلٰہ ، اور وہی حکیم و علیم ہے۔
وَالسَّمَآئَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ o (الرحمٰن ۵۵:۷) آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔
وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَo (الرحمٰن۵۵:۹) انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تو لو ! اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو !
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ ص (النور ۲۴:۲) زانیہ عورت اور زانی مرد ، دونوں میں سے ہر ایک کو ۱۰۰ کوڑے مارو!
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَھُمَا (المآئدۃ۵:۳۸) اور چور خواہ عورت ہو یا مرد ، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو !
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْـقِصَاصُ فِی الـْقَتْلٰی ط اَلـْحُرُّ بِالْـحُرِّ وَالْـعَبْدُ بِالْـعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی ط (البقرۃ ۲:۱۷۸) تمھارے لیے قتل کے مقدموں میں ، قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے ، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے ، اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔
وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ط (البقرۃ ۲:۲۷۵) حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔
معلوم ہوا کہ سود کی حرمت ، جان کے بدلے جان کے قصاص کا حکم ، چوروں اور زنا کرنے والوں کی سزائیں وغیرہ وغیرہ‘ یہ سب اُسی کا تشریعی قانون ہے۔
شارعِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی عطا کردہ شریعت و قانون کے مطابق‘ عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔چنانچہ فرمایا گیا:
وَ اِنْ حَکَمْتَ فَـاحْکُمْ بَـیْـنَھُمْ بِالْقِسْطِ ط (المآئدۃ ۵: ۴۲) اور (اے نبیؐ !) فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو!
وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَـیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْـعَـدْلِط (النسآء ۴: ۵۸) اور (اے مسلمانو! ) جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو!
قرآنِ مجید میں نازل کردہ وحیِ جلی اور اَحادیث میں بیان کردہ وحیِ خفی ، دونوں کے نزول کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ علیم و حکیم عادل اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق دنیاوی فیصلے کیے جائیں۔ کہا گیا :
اِنَّـآ اَنْـزَلْـنَــآ اِلَـیْکَ الْـکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِـتَحْکُمَ بَـیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ ط (النسآء ۴: ۱۰۵) اے نبیؐ ، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے، تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے ، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو!
سچے اور مخلص مسلمان اللہ تعالیٰ کو شارع مان کر ، اُس کی شریعت کے قوانین کے مطابق ہی سارے فیصلے کرتے ہیں۔ اپنے تمام اِختلافی معاملات کو قرآن و سنت کی طرف پھیرتے ہیں۔ اِس کے برخلاف ، منافقین اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے فیصلوں سے پہلوتہی کرتے ہیں اور جی چراتے ہیں۔ سورۂ آل عمران میں منافقین کی اِس روش پر روشنی ڈالی گئی ہے:
یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِـیَحْکُمَ بَـیْـنَھُمْ ثُـمَّ یَـتَـوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّـنْـھُمْ (اٰلِ عمرٰن ۳: ۲۳) اُنھیں جب کتابِ الٰہی کی طرف بلایا جاتا ہے ، تاکہ وہ اُن کے درمیان فیصلہ کرے ، تو ان میں سے ایک فریق اِس سے پہلو تہی کرتا ہے۔
سچے اور مخلص مسلمانوں ، ججوں اور حکمرانوں پر ، ہمیشہ اہلِ باطل کا دبائو ہوتا ہے کہ وہ اہلِ باطل کی خواہشات کے مطابق فیصلے کریں اور اللہ کے قانون کو پسِ پشت ڈال دیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی واضح طور پر حکم دیا کہ وہ مَا اَنْـزَلَ اللّٰہُ کے مطابق فیصلے کریں‘ اور لوگوں کی خواہشات (اَھْوَآئَ ھُمْ)کی پیروی نہ کریں۔ معلوم ہوا کہ تحکیمِ اِلٰہی کے راستے میں ، اہلِ باطل کی خواہشاتِ نفسانی رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
وَاَنِ احْکُمْ بَـیْـنَھُمْ بِمَآ اَنْـزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَـتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ (المآئدۃ ۵:۴۹) اے نبی ؐ ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ، اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو! اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
فَاحْکُمْ بَـیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَـتَّبِعِ الْھَوٰی (صٓ ۳۸:۲۶) لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر ! اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر!
منافقین کے طرزِ عمل کے بالکل برعکس ، سچے اور مخلص مسلمان ، اللہ تعالیٰ کی شریعت کے فیصلوں کو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہہ کر قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِـہٖ لِـیَحْکُمَ بَـیْـنَھُمْ اَنْ یَّـقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ط (النور ۲۴:۵۱) ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسولؐ کی طرف بلائے جائیں ، تاکہ رسول ؐ ان کے مقدمے کا فیصلہ کریں تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔
ہمارے حکیم خالق نے ، ہماری بھلائی کے لیے ، قرآن و سنت میں ، حکمت پر مبنی احکام عطا فرمائے ہیں۔ اِن حکیمانہ احکام و قوانین سے ہٹ کر جو لوگ فیصلہ چاہتے ہیں وہ گویا جاہلیت کے قوانین اور ایامِ جاہلیت کے رسم و رواج کے مطابق فیصلے چاہتے ہیں۔ یہی وہ سوال ہے ، جو سورئہ مائدہ میں اُٹھایا گیاہے۔ حُکْمُ اللّٰہ کے مقابلے میں حُکْمُ الْجَاھِلِیَّۃ ہوتا ہے ، جو باپ دادا کی رسومات اور بدعات پر مشتمل ہوتا ہے۔
اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِـیَّـۃِ یَـبْـغُوْنَط (المآئدۃ ۵:۵۰) تو کیا پھر یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟
اپنے وقت کی ظالم و جابر ، سرکش و متکبر ، بے لگام قوتیں ، جن کے ہاتھ میں اقتدار اور فیصلوں کا اختیار ہوتا ہے ، مخلص مسلمانوں پر اپنے ظالم قوانین مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں ، لیکن سچے مسلمان ، طاغوت کی عدالت کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور وہ اپنے تمام اِختلافی معاملات کے لیے مَا اَنْزَلَ اللّٰہ سے رجوع کرتے ہیں۔ اِس کے برخلاف منافقین ، اپنے دنیاوی فائدوں کے لیے اپنے معاملات کے فیصلوں کے لیے طاغوتی عدالتوں سے فریاد کرتے ہیں۔ فرمایا گیا :
یُرِیْـدُوْنَ اَنْ یَّـتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَـدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّـکْـفُرُوْا بِـہٖط (النسآء۴:۶۰) مگر (یہ منافقین ) چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے ’طاغوت کی طرف‘ رجوع کریں ، حالانکہ انھیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
یہاں غیر اسلامی قوانین اور غیر اسلامی عدالتوں کو طاغوت کہا گیا ہے ، جو اللہ کے نازل کردہ احکام سے متصادم ہوتی ہیں۔
ایک مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو حَکَم، یعنی جج تسلیم کرے ، جب کہ ہمارے پاس اللہ کی طرف سے نازل کردہ تفصیلی کتاب موجود ہے۔ چنانچہ خود محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ سوال کرایا گیا :
اَفَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْـتَـغِیْ حَکَمًا وَّھُوَ الَّذِیْٓ اَنْـزَلَ اِلَـیْـکُمُ الْـکِتٰبَ مُفَصَّلًا ط (الانعام ۶: ۱۱۴) تو کیا میں اللہ کے سوا ، کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں ؟ حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمھاری طرف کتاب نازل کر دی ہے؟
سورۂ ممتحنہ میں دارالاسلام کی شہریت کے قوانین بیان کیے گئے ہیں۔ دارُ الکفر اور دارُالاسلام میں مقیم افراد کے حق مہرکے تبادلے کے احکام کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ ہجرت کرنے والی خواتین کو جانچنا اور پرکھنا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اِن نئی مہاجرات میں کوئی جاسوس ہو۔ ان تمام احکام کو اللہ کا حکم (حُکْمُ اللّٰہ)کہا گیا۔ یہ سارے قوانین اللہ کے علم اور اللہ کی حکمت و دانائی پر مبنی ہیں۔ اِن قوانین کا مقصد بھی اِسلامی ریاست کو مضبوط کرنا اور مسلمانوں کے اِجتماعی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِط یَحْکُمُ بَـیْـنَکُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo (الممتحنۃ ۶۰:۱۰) یہ اللہ کا حکم ہے ، وہ تمھارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ریاست اور شہریت کے قوانین بھی توحیدِ حاکمیت‘ یعنی تشریع کا حصہ ہیں۔
سورئہ مائدہ میں مَا اَنْـزَلَ اللّٰہکے مطابق فیصلہ نہ کرنے والوں کو الْکَافِرُوْن اور الظَّالِمُوْن اور الْفَاسِقُوْن کہا گیا ہے۔ فرمایا گیا :
وَمَـنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْـزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ o (المآئدۃ ۵:۴۴) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی کافر ہیں۔
وَمَـنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْـزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ o (۵:۴۵)
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی ظالم ہیں۔
وَمَـنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْـزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ o (۵:۴۷)
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں ، وہی فاسق و گناہ گار ہیں۔
چیزوں کو حلال یا حرام کرنا بھی ، اللہ تعالیٰ کا تشریعی اختیار ہے ، چنانچہ فرمایا گیا:
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ط (النحل ۱۶:۱۱۶) اور یہ جو تمھاری زبانیں ، جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام ، تو اس طرح کے حکم لگا کر ، اللہ پر جھوٹ نہ باندھو!
اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ o (النحل ۱۶:۱۱۶) جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں ، وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے۔
قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَّـآ اَنْزَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّـنْـہُ حَرَاماً وَّ حَلٰلاً ط قُلْ آٰللّٰہُ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اللّٰہِ تَفْتَرُوْنَo (یونس ۱۰: ۵۹) اے نبی ؐ ! ان سے کہیے ! تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمھارے لیے اتارا تھا ، اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھیرالیا۔ ان سے پوچھیے ! اللہ نے کیا تم کو اس کی اجازت دی تھی ؟
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ج(التحریم ۶۶:۱) اے نبی ؐ ! آپؐ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں ، جو اللہ نے آپؐ کے لیے حلال کی ہے؟
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ط (المآئدۃ ۵:۸۷) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جو پاک چیزیں اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہیں ، انھیں حرام نہ کر لو‘ اور حد سے تجاوز نہ کرو۔
مشرکینِ مکہ توحیدِ خالقیت اور توحیدِ ربوبیت کے قائل تھے ، لیکن توحیدِ اُلُوہیت اور توحیدِ حاکمیت یعنی توحیدِ تشریع کے منکر تھے۔ سورئہ انعام میں ان کے شِرک فی التشریع کی تفصیل بیان کی گئی ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدے کے عین برعکس توحید فی التشریع کی وضاحت کی ہے۔
مشرکینِ مکہ کے شرک فی التشریع کے سلسلے میں مندرجہ ذیل مثالیں دی گئی ہیں:
۱-مشرکینِ مکہ اپنی کھیتیوں اور اپنے چوپایوں میں اللہ کا حصہ بھی مقرر کرتے تھے اور اپنے دیگرشرکا کا حصہ بھی مقرر کرتے تھے۔(الانعام ۶:۱۳۶)
۲- بعض مویشیوں اور بعض کھیتیوں کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ یہ ممنوع ہیں۔ (۶:۱۳۸)
۳-بعض چوپایوں کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ ان پر سواری حرام ہے اور بعض پر یہ اللہ کا نام نہیں لیتے تھے۔ (۶: ۱۳۸)
۴- بعض جانوروں کے پیٹ میں پائے جانے والے (زندہ) بچوں کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ یہ صرف اُن کے مردوں کے لیے حلال ہیں اور عورتوں کے لیے حرام ہیں ، البتہ اگر یہ بچہ مُردہ پیدا ہوتا تو مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے حلال ہو جاتا۔
توحید فی التشریع کے سلسلے میں مندرجہ ذیل مثالیں دی گئی ہیں:
۱- اُن جانوروں کا گوشت جائز ہے ، جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ (۶:۱۱۸)
۲-اُن جانوروں کا گوشت ناجائز بھی ہے اور فسق بھی ، جن پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا۔ (۶:۱۲۱)
۳- مُردار ، بہتا خون ، سور کا گوشت اور وہ جانور ، جو غَیرُ اللّٰہ کے لیے نامزد کیا گیا ہو‘ کے سوا وحی میں کوئی چیز حرام نہیں ہے۔ (۶:۱۴۵)
۴- شرک ، والدین کی نافرمانی ، اولاد کا قتل ، ظاہری اور باطنی فحاشی ، اور قتلِ نفس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھیرایا ہے۔ (۶:۱۵۱)
شریعت ساز اور قانون ساز
مندرجہ ذیل آیت پر غور کیجیے اور اَرباب، یَعْـبُدُوا اور اِلٰہ کے الفاظ پر خصوصی توجہ فرمائیے:
اِتَّخَذُوْٓا اَ حْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ج وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا ج لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَطسُبْحٰنَہُ (التوبۃ ۹:۳۱)
انھوں نے (یعنی یہودیوں نے) ا پنے علما اور درویشوں کو ، اللہ کے سوا ، اپنا رَب بنا لیا ہے ا ور اسی طرح (عیسائیوں نے ) مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک ’معبود‘ کے سوا کسی کی ’عبادت‘ (بندگی) کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا ، وہ جس کے سوا ، کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے‘ بے عیب پاک ہستی ہے۔
اس آیت میں‘ علما اور درویشوں کی عبادت سے مراد، ان کی اطاعت ہے۔ قرآن و سنت کے مقابلے میں ، علما ، صوفیا، تارکُ الدّنیا فقرا (رُھبان) اور گوشہ نشینوں کے ارشادات کو ماننا اور اُن پر عمل کرنا، شِرک فی الحکم ہے۔ قرآن و سنت کے حلال وحرام کے اُصولوں کو ترک کر کے ، اَحبار (علما) اور رُھبان (راہب صوفیا) کے تصنیف کردہ حلال و حرام کوماننا بھی شرک ہے اور اُن کو اَرباب بنانے کے مترادف ہے ، جیسا کہ مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں نبی کریم ؐ نے حضرت عدی ؓ بن حاتم سے وضاحت فرمائی۔
فقہاے امت ، علماے کرام اور ماہرینِ قانونِ شریعتِ اِسلامی ، ذیلی اور فروعی امور میں ، قرآن و سنت کے سائے تلے ، نئے مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کر سکتے ہیں۔ لیکن اجتہاد کے صحیح ہونے کے لیے تین شرائط ضروری ہیں:
۱- اجتہاد کسی نصِ قرآنی کے خلاف نہ ہو۔
۲- اجتہاد کسی حدیثِ متواتر اور حدیثِ صحیح کے خلاف نہ ہو۔
۳- اجتہاد اجماعِ امت کے خلاف نہ ہو۔
مغربی جمھوریت اور تشریعی توحید
عوام کے بااعتماد نمایندوں کے ذریعے نظامِ سلطنت کو چلانا جمہوریت ہے۔ اسلام اس کا مخالف نہیں۔ ظاہر ہے خلفاے راشدین ؓ بھی صحابہ کرام ؓ کے بااعتماد نمایندے تھے اور انھوں نے بلاجبرو اِکراہ ‘ ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، لیکن ’ مغربی جمہوریت ‘ ایک بالکل مختلف چیز ہے۔
مغربی جمہوریت کی رو سے ، عوام کے با اعتماد نمایندوں کی اکثریت کو پارلیمنٹ یا اسمبلی میں خدائی قانون اور تشریعی قوانین میں تغیر و تبدل کے اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں۔ یہ شرک فی التشریع ہے۔ اسلام پارلیمنٹ کی ایسی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ البتہ اگر پارلیمنٹ ، خدائی قانون اور تشریعی قوانین کے ماتحت رہ کر ، فروعی معاملات میں مندرجہ بالا تین شرائط کے مطابق قانون سازی کرے تو اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔