ہندستان میں اشاعت اسلام کی تاریخ ایک جامع اور وسیع موضوع ہے۔ اس موضوع پر اگرچہ بہت سی مفصل کتب موجود ہیں لیکن ایسی کتاب کی جو مستند مراجع کے ساتھ یک جا اور قابلِ اعتماد تفصیل فراہم کرسکے کمی تھی۔ مفتی محمدمشتاق تجاروی کی یہ کتاب اسی مقصد کے حصول کی جانب ایک مستحسن کاوش ہے۔
ہندستان میں اشاعتِ اسلام کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ یہ درحقیقت انفرادی کاوشوں کا ثمرہ ہے (ان میں بھی صوفیہ کا کردار نمایاں ہے) اور قبولِ اسلام بھی زیادہ تر انفرادی سطح پر ہوا ہے۔ ان کاوشوں کو چار گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: صوفیہ‘ علما‘سلاطین اور تجار۔ ’صوفیہ کی تبلیغی خدمات‘ کے تحت اشاعتِ اسلام میں صوفیہ کی گراں قدر خدمات‘ ان کا طریق تبلیغ و حکمت عملی اور اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے‘ نیز معروف صوفیۂ کرام کی خدمات کا مختصر اور جامع تعارف بھی دیا گیا ہے۔ صوفیہ کے بعد علماے کرام کی تبلیغی خدمات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے میں ایک دل چسپ پہلو یہ اُبھر کر سامنے آتا ہے کہ مسلم حکومت کے عہد عروج میںتبدیلیِ مذہب کے واقعات کم ہوئے اورعہدزوال میں اسلام کی اشاعت بڑی تیزی سے ہوئی (ص ۷۸)۔ ۱۹۳۳ء کے پہلے ۵۰ سالوں میں تقریباً ۶۱ لاکھ لوگوں نے اسلام قبول کیا... پروفیسر آرنلڈ کے بقول سالانہ ۶لاکھ تک لوگوں نے اسلام قبول کیا (ص ۹۶)۔ دورِ زوال میں تبلیغی مساعی کا سہرا زیادہ تر علما کے سر جاتا ہے۔ معروف علماے کرام کی خدمات کا مختصر جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
سلاطین کی تبلیغی خدمات کے جائزے میں یہ بات واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ اشاعتِ اسلام میں سلاطین کانمایاں کردار نہ تھا۔ مسلمان سلاطین پر جبریہ اور جزیے کے ذریعے اشاعت اسلام‘ نیز جنگی قیدیوں کو جبریہ مسلمان کیا گیا جیسے اعتراضات کا ٹھوس دلائل سے رد کیا گیا ہے۔
ایک باب مسلمان تاجروں کی تبلیغی خدمات اور ان کے اثرات پر مبنی ہے۔ ہندستان میں اشاعتِ اسلام کا پہلا تعارف عرب تاجر تھے۔ ان کی معاشرت‘ حسنِ سلوک اور کردار نے اشاعتِ اسلام میں نمایاں کردار ادا کیا اور ذات پات پر مبنی معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے۔
مصنف نے صوفیہ اور بزرگانِ دین کی تبلیغ اور اصلاح کے علاوہ مسلم معاشرے کے لیے اُن کی بعض سیاسی اور معاشرتی خدمات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً جب مغلوں نے ملتان پر حملہ کیا (۱۲۷۳ء) تو حضرت بہائوالدین زکریاؒ نے ایک لاکھ روپے دے کر شہر کو اُن کی لوٹ مار سے بچایا۔ شیخ جلال الدین سلہٹ نے مسلمان سلطان سکندر آف بنگال نے جب گائے کے ذبیحہ کے مسئلے پر قتل ہونے والے مسلمان بچے کا بدلہ لینے کے لیے حملہ کیا تو شیخ نے ۳۶۰ مریدین کے ہمراہ اُن کے ساتھ جنگ میں شرکت کی۔ (ص ۴۰-۴۱)
اس کتاب کی اشاعت سے جہاں ہندستان میں اشاعتِ اسلام کے موضوع پر ایک مختصر‘ جامع اور مستند مطالعہ سامنے آیا ہے‘ وہاں یہ صوفیہ‘ علما‘ حکمرانوں اور تاجروں کے لیے بھی اشاعتِ اسلام اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے غوروفکر اور تحریک کا باعث ہوگا۔ (عرفان احمد)
اسلام اور مغرب کی کش مکش‘ تہذیبوں کا چیلنج‘ بنیاد پرستی‘ دہشت گردی اور تہذیبی اور ثقافتی یلغار جیسی اصطلاحات زبانِ زدعام ہیں۔ اس سلسلے میں خاص بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی واشنگٹن کی قیادت میں ثقافتی‘ عسکری اور سیاسی یلغار کے خلاف یہ کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے کہ یہ مغربی تہذیب کا کیا دھرا ہے۔ البتہ اس حقیقت کو تسلیم کر لینے میں کوئی عار نہیں کہ مغربی تہذیب کے فکری ارتقا‘ بتدریج نشوونما اور طاقت ور قوتِ نافذہ کے بارے میں عالمِ اسلام میں اور بالخصوص اُردو زبان و ادب میں ٹھوس مطالعہ نہیں ہوا‘ اور نہ کسی تحقیقی ادارے نے اس کو باقاعدہ موضوع تحقیق بنایا ہے (وسائل کی کمی نہیں‘ اصل مسئلہ ترجیحات کا ہے)۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد اس موضوع نے ایک نئی جہت لی ہے اور قرآن‘ پیغمبرؐاسلام‘ غزوات‘ صحابہؓ کے جھگڑے‘ شیعہ سُنّی کی تفریق‘ زکوٰۃ‘ وراثت‘چار شادیوں کا حق‘ جہاد‘ ذِمّیوں کے حقوق جیسے الزامات پس منظر میں چلے گئے ہیں اور اسلام دہشت گردی کا ہم معنی قرار پایا اور پھر مسلمان کو دہشت گردی کی نشوونما میں شریک ٹھیرایا جا رہا ہے۔ اسلام اور مغرب کی اس تہذیبی کش مکش میں شدت آتی جارہی ہے۔ اسلام کو درپیش اس چیلنج کا کیسے سامناکیا جائے___ زیرنظر کتاب اس کا ایک علمی و تحقیقی جواب ہے۔
بنیادی طور پر یہ کتاب سہ روزہ دعوت، دہلی کی اشاعتِ خاص ہے جسے پرواز رحمانی نے مرتب کیا ہے‘ اور ایک اہم علمی ضرورت کو پورا کرنے کے پیش نظر منشورات نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔اس کتاب میں ۲۰ مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ مغرب کے تاریخی کردار‘ تہذیبی چیلنج‘ امریکی زوال‘ دہشت گردی‘ عصری چیلنج‘ احیاے اسلام کی تحریک‘ عقلیت پسندی‘ نظامِ معاشرت‘ یہودیت اوردورِ جدید اور دیگر اہم موضوعات زیربحث لائے گئے ہیں۔
شہناز بیگم کا اٹھایا گیا یہ سوال اہم ہے کہ مختلف مذاہب‘ عقائداور فلسفے نے عورت کو کیا حق دیا؟ اس کا تقابلی مطالعہ کیوں نہیں کیا گیا؟ فضیل الرحمن ہلال عثمانی کا تجزیہ ہے کہ جب آپ مغربی سائنس و ٹکنالوجی استعمال کریں گے تو آپ کو اُن کی اخلاقیات بھی استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے علی الرغم راستہ اختیار کرناچاہیے۔ ظفرالاسلام خان نے فرانس فوکویاما اور ہن ٹنگٹن کے پیش کردہ نظریات کا پردہ چاک کیا ہے۔ سیدعبدالباری کا خیال ہے کہ مغرب کے تہذیبی استعمار کی راہ اگر کوئی نظریہ اور تہذیبی تصور روک سکتا ہے تو وہ اسلام ہے۔ خرم مراد اور پروفیسر خورشید احمد کے مقالات بھی شاملِ اشاعت ہیں۔
اس کتاب کے مطالعے سے جہاں کئی اور موضوعات غوروفکر اور تحقیق کے لیے اُبھریں گے وہاں غلبۂ اسلام کی عالم گیر جدوجہد سے وابستہ قیادت اور کارکن بھی کئی نئے موضوعات پر سوچنے کی راہیں پائیں گے۔ (محمد ایوب منیر)
بیروت کے ایک ادارے دارالمعروفہ نے امام ابن قیمؒ کی معروف کتاب اعلام الموقعین کا ایک حصہ فتاویٰ رسولؐ اللّٰہ کے نام سے شائع کیا تھا۔ زیرنظر کتاب اُس کا ترجمہ ہے لیکن ابویحییٰ محمدزکریا نے اصل مصادر و مراجع سے رجوع کر کے پوری تحقیق کے بعد کتاب مرتب کی ہے۔ پھر ابواب اور فصلوں کی ترتیب میں بھی حسبِ ضرورت ردوبدل کیا گیا ہے۔
کتاب میں ان احادیث کو بلحاظ موضوع جمع کیا گیا ہے جن میں نبی کریمؐ نے وقتاً فوقتاً زندگی کے مختلف امور و مسائل پر صحابہ کرامؓ کے سوالات کے جواب دیے۔ جملہ ذخیرئہ فتاویٰ کو ۲۵ابواب (عقیدہ‘ ایمان اور توحید‘ تفسیرقرآن‘ افضل اعمال‘ نبوت اور وحی‘ طہارت‘ نماز‘ موت اور میت‘ روزہ‘ زکوٰۃ و خیرات‘ حج‘ ذکرِالٰہی‘ نکاح‘ میراث‘ کسبِ معاش اور جہاد وغیرہ) کے تحت ضمنی عنوانات کے تحت مرتب کیا گیا ہے۔ یہ ترتیب سوال جواب کی شکل میں ہے۔ سوال اُردو اور جواب میں پہلے حدیث کا عربی متن‘ پھر اُردو ترجمہ دیا گیا ہے۔پاورق حواشی میں اسناد اور حوالے درج ہیں۔
بلاشبہہ کتاب بڑی محنت سے مرتب کی گئی ہے۔ کتابت اور آرایش کا انتظام بھی خوب ہے۔ ص ۳۸۸ پر’کبیرہ گناہوں کا بیان‘ کے زیرعنوان ایک سوال (یارسولؐ اللہ! کبیرہ گناہ کیا ہیں؟) کے جواب میں عربی متن حدیث پانچ سطروں میں اور اس کا ترجمہ چھے سطروں میں درج ہے‘ اور یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ یہ ’بہت سی احادیث کا مجموعہ ہے‘۔ بعدازاں اس کی تشریح میں ۱۸۴ کبیرہ گناہوں کی فہرست دی گئی ہے جس کے مطابق ’نمازی کے سامنے سے گزر جانا بھی کبیرہ گناہ‘ ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس مختصر حدیث سے اتنی طویل فہرست کیسے اخذ کی گئی ہے؟ بحیثیت مجموعی کتاب لائقِ مطالعہ اور مفید ہے۔ عام قاری کو قابلِ قدر رہنمائی ملے گی۔(رفیع الدین ہاشمی)
قادیانیت اور ختم ِنبوت کے موضوع کے حوالے سے محمد متین خالد کا نام محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ اس موضوع پر آپ کی متعدد وقیع کتب سامنے آچکی ہیں۔ اب انھوں نے تحفظ ختم نبوت کی اہمیت و فضیلت پر ایک عمدہ کتاب شائع کی ہے۔
’مقامِ مصطفیؐ ‘باب سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے جو آپؐ کا ایمان افروزاور حبِ رسولؐ سے سرشار تذکرہ ہے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں‘ جھوٹے مدعیانِ نبوت اور ان کے خلاف صحابہؓ کا جہاد‘ مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت اور ہرزہ سرائیاں جیسے موضوعات بھی زیربحث آئے ہیں۔ حبِ رسولؐ اور عشقِ رسولؐ پر مبنی ایمان افروز واقعات اور عظیم شخصیات کا تذکرہ کتاب کا جہاں دل چسپ اور اہم حصہ ہے وہاں اجمالاً تاریخ سے آگہی بھی دیتا ہے (چند نام: علامہ محمد اقبال‘ ثناء اللہ امرتسری‘ انورشاہ کشمیری‘ احمد علی لاہوری‘ عطاء اللہ شاہ بخاری‘ظفر علی خاں‘ شورش کاشمیری‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ پیر کرم شاہ ازہری‘ عامر عبدالرحمن چیمہ شہید وغیرہ)۔ گستاخانِ رسولؐ سے مسلمانوں کا رویہ اور ان کے انجام پر بھی ایک باب ہے۔ مصنف نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ قادیانیوں کا مکمل سماجی اور معاشی بائیکاٹ کیاجائے۔ اس لیے کہ رواداری کی اجازت صرف ان کافروں کے لیے ہے جو محارب اور موذی نہ ہوں۔ قادیانی اپنی شرانگیزیوں کے باعث اس زمرے میں نہیں آتے(ص ۲۸۰)۔ آخر میں تحفظ ختمِنبوت کی اہمیت کے پیش نظر اسے فریضہ امربالمعروف ونہی عن المنکر قرار دیتے ہوئے رہنمائی دی گئی ہے کہ کیسے اس فرض کو ادا کیا جائے۔ بلاشبہہ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ (امجد عباسی)
محمودعالم کے سات مضامین اور ۱۹ کتب پر تبصروں کا یہ مجموعہ محمد عارف اقبال نے مرتب کیا ہے۔ محمودعالم مرحوم ہندستان اور سعودی عرب میں مختلف تعلیمی اور علمی اداروں میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کتاب کے مضامین پڑھ کراندازہ ہوتا ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کے لیے ایک دردمند دل رکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے سامنے میزان قرآن و حدیث ہی ہے۔ ’اہلِ قلم کی اخلاقی ذمہ داریاں‘ اس مجموعے کا ایک اہم مضمون ہے جس میں انھوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ قلم کو اللہ تعالیٰ نے بطور امانت انسان کے سپرد کیا ہے۔ اس کے ذریعے عدل و انصاف‘ امن و امان اور خیروفلاح مقصود ہونا چاہیے نہ کہ فاسقانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اس کی حُرمت کو پامال کیا جائے۔
محمودعالم کے خیال میں اُمت مسلمہ کے زوال پر ایک افسوس اور نوحہ توکیا جا رہا ہے لیکن اسے زوال سے نکالنے کے لیے کوئی قابلِ ذکر کوشش نظر نہیں آتی ماسوا چند افراد (شکیب ارسلان‘ علامہ اقبال اور مولانا مودودی) کی اہم کوششوں کے۔ دورِحاضر کے سربراہانِ حکومت اور راہنما اُمت کو پستی سے نکالنے کے بجاے تہذیب مغرب کی غلامی پر رضامند رہنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔ ان کے مضامین میں خاصا تنوع ہے (مطالعۂ کتب کیوں اور کیسے؟ اہلِ قلم کی اخلاقی ذمہ داریاں‘ کلامِ حافظ میں اخلاقی اور روحانی تعلیمات‘ تفسیرقرآن: ایک جائزہ‘ انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ)۔
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے محمودعالم کا موضوع اعلیٰ انسانی اخلاقی اقدار ہیں اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیراہونا ہے۔ زوال اُمت پر فاتحہ خوانی کرنے کے بجاے شکیب ارسلان‘ علامہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کو اپنا کر نئی صبح کی نوید کا پیغام دینا فرضِ اولیں ہے۔(محمد ایوب لِلّٰہ)
محترم قاضی حسین احمد نے بطور امیرجماعت اسلامی پاکستان‘ جماعت کی مرکزی شوریٰ کے اجلاسوں (دسمبر ۱۹۸۷ء تا جنوری ۲۰۰۶ء) میں جو افتتاحی اور اختتامی تقریریں کیں‘ انھیں حافظ شمس الدین امجد نے مرتب کیا ہے۔ ان تقریروں میں بنیادی طور پر‘ اجلاس سے متصل گزرے ہوئے قومی و ملّی حالات پر تبصرہ ہے۔ چونکہ بڑے مسائل (کشمیر‘ افغاستان‘ فلسطین‘ پاکستان میں آئینی معاملات اور آمریت و جمہوریت کا قضیہ وغیرہ) ایک ہی نوعیت کے رہے ہیں‘ البتہ ان مسائل سے منسلک افراد کے نام بدلتے رہے ہیں‘ اس مناسبت سے مسئلے کے ساتھ متعلقہ افراد کے رویے بھی زیربحث آئے ہیں۔بہ ایں ہمہ ۱۹ برس کے واقعات پر جماعت اسلامی کے موقف کو جاننے کا یہ ایک ماخذ ہے۔ (سلیم منصور خالد)
لال مسجد اور جامعہ حفصہ اسلام آباد پر مسلط کیے جانے والے خونیں آپریشن کا تذکرہ ایک مدت تک ہمارے دینی‘ سیاسی اور اجتماعی مباحث کا حصہ بنا رہے گا۔ زیرنظر کتب کے مرتبین نے اس سانحے کے فوراً بعد قومی اخبارات میں شائع ہونے والے مختلف کالموں اور مضامین کو اس انداز سے مرتب کردیا ہے‘ کہ زمانے کی فصل کے باوجود مستقبل میں قاری یہ دیکھ سکے گا اور محسوس کرسکے گا کہ رنج و الم کی اس فضا میں اہلِ قلم اور خصوصاً کوچۂ صحافت سے وابستہ افراد نے کس انداز سے اسے دیکھا‘ محسوس کیا اور بیان کیا۔ (س-م-خ)
جامعہ عثمانیہ‘ پشاور کے مہتمم مولانا مفتی غلام الرحمن کی مشرق وسطیٰ کے دو اہم ممالک شام اور اُردن کی روداد سیروسیاحت جو العصر کی خصوصی اشاعت ’ارض قرآن نمبر‘کے نام سے شائع کی گئی ہے۔دمشق‘ حلب‘ حمص اور ان کے نواحی علاقوں کے آثار‘ مساجد‘ مقابر اسی طرح اُردن کے مختلف علاقوں‘ شہروں‘ عمارتوں کی زیارت کی تفصیل دی گئی ہے۔ شام اور اُردن میں صحابہ کرامؓ کثیرتعداد میں مدفون ہیں۔ مفتی صاحب نے بلال حبشیؓ، امیرمعاویہؓ، خالد بن ولیدؓ، زیدبن حارثہؓ، جعفر بن ابی طالبؓ، عبداللہ بن روادؓ، ابوعبیدہ بن الجراحؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ وغیرہ اور بعض اکابر اُمت (ابن عربی‘ صلاح الدین ایوبی اور امام نووی وغیرہ) کے مقابر و مزارات دیکھیے۔ بعض تاریخی مقامات‘ مثلاً: اصحابِ کہف کا غار‘ پیٹرا کی عمارتیں‘ جنگِ موتہ کا میدان‘ بحرمردار‘ میدانِ یرموک وغیرہ کا مشاہدہ بھی کیا۔ شام کے ایک پُرفضا مقام نبع فیجہ میں ساری رونق خوش ذائقہ پانی کی فراوانی سے ہے۔ بتاتے ہیں کہ سیاحت کے فروغ کے لیے ہوٹلوں میں شراب پیش کی جانے لگی تو چشمے خشک ہونے لگے اور کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ شراب بند کرنے پر دوبارہ پانی کی فراوانی ہوگئی۔ اسلوب واضح‘ دل چسپ اور نیم عالمانہ مگر رواں دواں ہے۔ (ر-ہ)