دوسرا اعتراض‘ جو پبلک میں تو دبی زبان سے مگر نجی صحبتوں میں بڑی کافرانہ جسارتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے‘ یہ ہے کہ اسلامی قانون میں بہت سی چیزیں قرونِ وسطیٰ کی تاریک خیالی کے باقیات میں سے ہیں جنھیں اس مہذب دور کے ترقی یافتہ اخلاقی تصورات کسی طرح برداشت نہیں کرسکتے‘ مثلاً ہاتھ کاٹنے اور درّے مارنے اور سنگسار کرنے کی وحشیانہ سزائیں۔
یہ اعتراض سن کر بے اختیار ان حضرات سے یہ کہنے کو جی چاہتا ہے ؎
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
جس دور میں ایٹم بم استعمال کیا گیا ہے‘ اس کے اخلاقی تصورات کو ترقی یافتہ کہتے وقت آدمی کو کچھ تو شرم محسوس ہونی چاہیے۔ آج کا نام نہاد مہذب انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے اس کی مثال تو قدیم تاریخ کے کسی تاریک سے تاریک دور میں بھی نہیں ملتی۔ وہ سنگسار نہیں بم بار کرتا ہے۔ محض ہاتھ ہی نہیں کاٹتا‘ جسم کے پرخچے اُڑا دیتا ہے۔ درّے برسانے سے اس کا دل نہیں بھرتا‘ زندہ آگ میں جلاتا ہے اور مُردہ لاشوں کی چربی نکال کر ان کے صابن بناتا ہے۔ جنگ کے ہنگامۂ غیظ و غضب ہی میں نہیں‘ امن کے ٹھنڈے ماحول میں بھی جن کو وہ سیاسی مجرم‘ یا قومی مفاد کا دشمن‘ یا معاشی اغراض کا حریف سمجھتا ہے ان کو دردناک عذاب دینے میں وہ آخر کون سی کسر اُٹھا رکھتا ہے؟ ثبوت جرم سے پہلے محض شبہے ہی شبہے میں تفتیش کے جو طریقے اور اقبالِ جرم کرانے کے جو ہتھکنڈے آج کی مہذب حکومتوں میں اختیار کیے جا رہے ہیں وہ کس سے چھپے ہوئے ہیں... فرق جو کچھ واقع ہواہے وہ دراصل اخلاقی قدروں میں ہے۔ ان کے نزدیک جو جرائم واقعی سخت ہیں اُن پر وہ خوب عذاب دیتے ہیں اور دل کھول کر دیتے ہیں‘مثلاً ان کے سیاسی اقتدار کو چیلنج کرنا‘ یاان کے معاشی مفاد میں مزاحم ہونا۔ لیکن جن افعال کو وہ سرے سے جرم ہی نہیں سمجھتے‘ مثلاً شراب سے ایک گونہ بے خودی حاصل کرلینا‘یا تفریحاً زنا کرلینا‘ ان پر عذاب تو درکنار‘سرزنش اور ملامت بھی انھیں ناگوار ہوتی ہے۔ اور جرم نہ سمجھنے کی صورت میں لامحالہ وہ ناگوار خاطر ہونی ہی چاہیے۔ (’اسلامی قانون‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن‘ جلد۳۱‘ عدد۳‘ رمضان ۱۳۶۷ھ‘ جولائی ۱۹۴۸ء‘ ص ۶۲-۶۳)