اکتوبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

قصہ ’کشکول‘ ٹوٹنے اور قرضوں کے انبار بڑھ جانے کا!

پروفیسر خورشید احمد | اکتوبر۲۰۰۷ | شذرات

Responsive image Responsive image

 اونٹ بے چارہ تو ویسے ہی بدنام ہے کہ جسے دیکھو فٹ سے کہہ دیتا ہے: ’اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی‘۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے بینکر وزیراعظم جناب شوکت عزیز کی حکومت کے دعووں اور کارناموں پر زمینی حقائق کی روشنی میں نظر ڈالیے تو اونٹ سے ہمدردی بڑھ جاتی ہے کہ بے داد کے اصل مستحق کون ہیں اور بدنام کون!

’کشکول ٹوٹنے‘ کی بات گذشتہ چند سال سے اس تکرار کے ساتھ کہی گئی ہے کہ اب، جب کہ الیکشن کے موسم کی آمد آمد ہے‘ ہر سرکاری ترجمان کی زبان پر اس طرح رواں ہے کہ لوگ اسے حکمرانوں کا تکیہ کلام سمجھنے پر مجبورہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس حکومت کے کارپرداز ہٹلر کے وزیراطلاعات (بہ الفاظ صحیح تر دروغیات) کے اس ’نسخۂ کیمیا‘ پرعمل پیرا ہیں کہ ’’ایک جھوٹ کا اس تکرار سے اظہار کرو کہ لوگ اسے سچ ماننے لگیں‘‘۔

جس طرح صد ربش اور امریکی انتظامیہ نے خصوصیت سے نائن الیون کے بعد ہر محاذ پر اور خصوصیت سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ (امریکا کی سلامتی کو خطرہ اور’عراق کے عام تباہی کے اسلحہ‘ (weapons of mass destruction) کے عنوان سے جس ڈھٹائی سے تھوک کے بھائو غلط بیانیوں کو اپنی پالیسی کا مؤثر آلہ بنایا ہے اسی طرح جنرل پرویز مشرف ، وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کے اشتہار بازوں نے’معاشی فتوحات‘ کا سماں باندھا ہوا ہے لیکن وہ ابراہم لنکن کے اس تاریخی قول کو شاید بھول گئے کہ ’’سب انسانوں کو کچھ دیر کے لیے اور کچھ افراد کو بڑی دیر تک بے وقوف بنایا جاسکتا ہے مگر تمام انسانوں کو مستقل طورپر جھانسہ دینا ممکن نہیں‘‘۔ انسانی کیفیات اور تاریخ دونوں کا فیصلہ ہے کہ جھوٹ اورغلط بیانی خواہ کیسی ہی تکرار اور کتنی ہی تحدّی سے کی جائے بالآخر اس کا پردہ چاک ہوکر رہتا ہے اور پھر دونوں کا دودھ کاد ودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔ جادو سر چڑھ کر بولے یا نہ بولے مگر سچ کابالآخر بول بالا ہوکر رہتا ہے اور یہی اللہ کا قانون بھی ہے کہ جب حق ظاہر ہوجاتا ہے تو پھر باطل کے لیے پادر ہوا ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس لیے کہ باطل کا تو مقد ر ہی ہے کہ حق کی آمد پردم دبا کر میدان چھوڑ دے۔(جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا )۔

اگست ۲۰۰۷ء میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے پاکستان پر قرضوں کی اصل بوجھ کے جو اعدادوشمار شائع کیے ہیں وہ ’کشکول توڑدینے‘ کے فسانے کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ چار سال میں‘ یعنی ۲۰۰۳ء سے مئی ۲۰۰۷ء تک موجودہ حکومت نے بیرونی ممالک اور اداروں سے ۱۵ ارب ڈالر (۱۵ بلین ڈالر) کے نئے قرضے حاصل کیے ہیں۔ اب‘ یعنی اگست ۲۰۰۷ء میں بیرونی قرضوں اور ذمہ داریوں کا کل حجم ۴۰ارب ڈالر (۴۰بلین ڈالر) سے متجاوز ہے۔ لطف یہ ہے کہ ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۷ء کے چار برسوں میں پاکستان نے ۷ء۹ ارب ڈالر کی مالیت کے قرض واپس بھی کیے ہیں جس کے نتیجے میں ۲۰۰۳ء میں کل بیرونی قرضہ جو اس وقت ۳۵ء۳۳بلین ڈالر تھا کم ہوکر ۶۴ء۲۳ارب ڈالر ہوجانا چاہیے تھا مگر ۱۵ارب ڈالر سے زائد کے نئے قرضے لے لیے گئے جن کی وجہ سے یہ دوبارہ ۶۹۹ء۳۸ بلین ڈالر کی حدوں کوچھونے لگا‘ اور  اس میں اگر دوسری غیر ملکی ذمہ داریوں (liabilities) کا اضافہ کر لیا جائے تو اگست ۲۰۰۷ء میں  وہ ملک جس کے کشکول توڑنے کے ڈھول پیٹے جارہے ہیں ۱۷۲ء۴۰ بلین ڈالر کا مقروض تھا۔  واضح رہے کہ اس وقت ان قرضوں کی وجہ سے صرف سود کی مد(debt-servicing) میں پاکستان کو ۳۱۴ء۳ بلین ڈالر سالانہ ادا کرنا پڑ رہے ہیں جو دراصل نئے قرضے لے کر ادا کیے جاتے ہیں اور قرض کا اصل بار نہ صرف کم نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھ جاتا ہے اور سب سے بڑا ظلم یہ کہ اس  گراں باری کے باوجود ملک کی پیداوار ی صلاحیت (productive capacity) میں کوئی حقیقی اضافہ نہیں ہوتا۔

جنرل پرویز کی حکومت کے دور میں بیرونی قرضوں اور کل بیرونی ذمہ داریوں کا موازنہ کیا جائے تو صورت حال یہ بنتی ہے:

                ۲۰۰۰ء   ۲۰۰۷ء

  • بیرونی قرضہ جات                ۴۶۹ء۳۲ بلین ڈالر  ۶۹۹ء۳۸ بلین ڈالر
  • مجموعی مقروضیت‘ یعنی بیرونی قرضہ جات +بیرونی ذمہ داریاں  ۹۷۶ء۳۴بلین ڈالر   ۱۷۲ء۴۱بلین ڈالر

 اگر ہم ایک نظرمیں کشکول ٹوٹنے کی کرامات کو دیکھنا چاہیں تو کچھ یہ تصویر سامنے آتی ہے:

واضح رہے کہ ملک میں کی جانے والی جس بیرونی سرمایہ کاری کا بڑا شور ہے وہ ملک کی عام صنعتی پیداوار بڑھانے کا قرارواقعی ذریعہ نہیں بنی بلکہ اس کا سارا بہائو سروس انڈسٹری کی طرف سے جس میں برقی مواصلات (telecommunications) اور بنکاری کو مرکزی اہمیت حاصل ہے یا اسٹاک ایکسچینج میں سٹّے (speculation) پر مبنی سرمایہ کاری ۔

تازہ اعدادوشمار کی روشنی میں یہ ادارے نفع کی شکل میں جو مبادلہ خارجہ ملک سے باہر لے جارہے ہیں وہ ۲۰۰۷ء میں ایک بلین ڈالر کے قریب ہوگیا ہے اورسال گذشتہ میں اس رقم میں ۶۰فیصدی اضافہ ہوا ہے۔

 اس کے ساتھ اگر ملکی قرضہ جات (domestic debt) پر بھی نگاہ ڈال لی جائے تو ہماری ’فاقہ مستی‘ کی تصویر مکمل ہوجاتی ہے۔ اس حکومت نے اسٹیٹ بنک کے تازہ اعدادوشمار   کے مطابق جولائی ۲۰۰۶ء سے مئی ۲۰۰۷ء تک صرف ۱۱ مہینوں میں ۳۴ء۳۰۲ ارب روپے کے قرضے لیے جس کے نتیجے میں حکومت پر قرض کا کُل بار بڑھ کر ۵۹۹,۲ ارب روپے ہوگیا جو اگر  ڈالر کی شکل میں ظاہر کیا جائے تو ۶ء۴۲ بلین ڈالر بن جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں بیرونی اور    ملکی قرضوں کا بوجھ ۷ء۸۲ بلین ڈالر سے متجاوز ہے۔ اس کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ   یہ قرضے ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے سلسلے میں بڑا محدود کردار ادا کر رہے ہیں اوریہ اربوں روپے بڑی حد تک سرکار کی شاہ خرچیوں اور ملک میں ہر سطح پر کرپشن کی وجہ سے صرف  دولت مندوں اور مفاد پرست طبقات کی ہوس زر اندوزی کی نذر ہورہے ہیں‘جب کہ بوجھ ملک کے ۱۶ کروڑ عوام پر پڑ رہا ہے جس سے ان کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔ تشویش کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس صورت حال کو پیدا کرنے کا بڑا سبب بجٹ کا خسارہ ہے جو ۰۳-۲۰۰۲ء میں ۱۳۴ارب روپے تھا،جو ۰۷-۲۰۰۶ء میں بڑھ کر ۵۳ء۳۷۷ ارب روپے ہو چکا ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی تجارت کا خسارہ ہے جو اس سال ۱۷ بلین ڈالر سے زیادہ ہے اور توازن ادایگی (balance of payments) کا خسارہ ۶ارب ڈالر سے بھی بڑھ گیا ہے۔

ایک طرف قرضوں کا یہ پہاڑ ہے اور تجارت اور ادایگیوں اور بجٹ کا خسارہ ہے اور دوسری طرف عوا م کی غربت اور بھوک۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق ۲ ڈالر یومیہ فی کس آمدنی کو بنیاد بنایا جائے تو ملک کی کل آبادی کا ۷۳ فی صد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔بے روزگاری جو ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ۵فی صد سے کچھ زیادہ تھی اب بڑھ کر ۷ اور ۸ فی صد ہو چکی ہے۔ اور مہنگائی کا یہ حال ہے کہ غریب تو غریب متوسط طبقے کے لیے بھی زندگی کی کم سے کم ضروریات بھی پورا کرنا محال ہے___کیا یہی وہ معاشی فتوحات ہیں جن کی خاطر اس جرنیلی آمریت نے ملک کی آزادی، سلامتی اور حاکمیت تک کو امریکا کی گرفت میں دے دیا ہے؟