اکتوبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اکتوبر۲۰۰۷ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

چند منفی عائلی رویے

سوال:  میرے شوہر ایک سخت مزاج اور تنہائی پسند انسان ہیں۔ انھیں میرا خواتین سے زیادہ ملنا جلنا بھی پسند نہیں۔ ہم لوگ دیارِغیر میں ہیں جہاں انسان ویسے ہی تنہائی اور ڈپریشن کا شکار رہتا ہے۔ میرے چار بچے ہیں‘تین لڑکیاں اور ایک لڑکا۔ جب سب سے چھوٹی بیٹی اسکول جانے لگی تو تنہائی کی وجہ سے مجھے زیادہ ہی ڈپریشن ہونے لگا۔ تنہائی اور دیگر وجوہ کے علاوہ ایک وجہ دوسرے لڑکے کی خواہش بھی تھی۔ میں نے اپنے شوہر سے بچے کی خواہش کا ذکر کیا تو انھوں نے سختی سے ڈانٹ دیا۔ میں احتیاطی تدابیر اختیار کرتی تھی جو میں نے اپنے شوہر کو بتائے بغیر چھوڑ دیں اور نتیجے میں ہمارے ہاں ایک اور بیٹی پیدا ہوگئی۔ اس بیٹی کی پیدایش کو دو سال ہونے کو ہیں‘ لیکن میرے شوہر نے میری زندگی عذاب بنارکھی ہے کہ تم نے مجھے دھوکا دیا ہے‘ تم گناہ گار ہو۔اب تو مجھے بھی لگتا ہے کہ جیسے میں گناہ گار ہوں۔ میرا علم بہت محدودہے۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں‘ کیا میں نے ایسا کر کے واقعی کوئی گناہ کیا ہے؟ اگر لڑکا ہوجاتا تو شوہر کا مزاج اتنا نہ بگڑتا لیکن یہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔ میرے شوہر پانچ وقت کے نمازی اور بہت پرہیزگار انسان ہیں لیکن اس بات کو سننا بھی پسند نہیں کرتے کہ بیٹیاں دوزخ کی آگ سے ماں باپ کے لیے ڈھال ہوں گی۔ ہروقت مجھے طعنے دیتے ہیں کہ کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ زیادہ بچے پیدا کر کے تم جنت کے زیادہ قریب ہوگئی ہو۔ وہ ایسی کوئی نصیحت یا قرآن کی بات جو ان کے اپنے مفادات کو متاثر کرے‘ سننا پسند نہیں کرتے۔ بعض اوقات میں سوچتی ہوں‘ یہ کیسی نمازیں ہیں جو ایک آدمی کو انسان اور سچا مسلمان نہیں بنا سکتیں۔

بسااوقات خودکشی کا خیال آتا ہے۔ تنگ دستی کے علاوہ بھی بہت سے مسائل انسان کو مرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ خاص طور پر شوہر اور سسرال والوں کے رویے ہمارے معاشرے میں ایک عورت کی زندگی اجیرن کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ کیا کسی بھی قسم کے حالات میں خودکشی کی کوئی صورت نکلتی ہے؟ اگر آپ صبر کی تلقین کریں گے تو کیا اس کی بھی کوئی حد ہے‘ جب کہ میں اپنی ساس کو ۷۰ سال کی عمر میں بھی اپنے سسر کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھتی ہوں۔ اب کوئی کہاں تک صبر کرے؟

جواب: آپ کے سوالات ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے بعض ایسے نازک پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں جو بظاہر اسلام کی دعوتِ انقلاب میں مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلے سوال کا تعلق ہمارے معاشرتی رویوں کے ساتھ ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اچھے خاصے دین دار مرد بھی اپنی نمازوں‘ نفلی روزوں اور قیام اللیل کے باوجود اپنی بیوی اور خاص طور پر بیٹیوں کے حوالے سے منفی اور خلافِ شریعت رویوں کا شکارہیں۔ قرآن کی دعوت رویوں کو تبدیل کرنے کی دعوت ہے کہ انسان کا رویہ اپنے خاندان کے ساتھ کیا ہو اور وہ اللہ کی بندگی کے دعوے کو کس طرح اپنے طرزِعمل سے ثابت کرے۔

خاندان میں بچیوں کی پیدایش پر ہونے والا ردعمل آج سے نہیں قبل اسلام ہی سے ایک معاشرتی مسئلہ رہا ہے۔ قرآن کریم نے انتہائی جامع اور بلیغ انداز میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ ’’جب سورج لپیٹ دیا جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے… اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘ (التکویر۸۱:۱-۹)۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت آدمؑ کی بیٹی پر جو ظلم قبل از اسلام ہوتا رہا اور جس کی پشت پر مرد کا خودساختہ بڑائی‘ اَنا اور صنفِ نازک کو اپنے سے کم تر سمجھنے کا تصور تھا‘ اس باطل فکر کو ختم کر کے انسانوں کو صحتِ فکری کے ساتھ نیا اندازِ فکردیا جاسکے۔ قرآن کریم نے سورۂ نساء کے آغاز میں انسان کے خودساختہ تصوراتِ برتری جنس کو رد کرتے ہوئے یہ اصول بیان فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے‘ اس لیے ترکیبی طور پر مرد اپنی برتری اور عورت کی کم تری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔

پھر ایک قدم آگے جاکر یہ اصول بھی سمجھا دیا کہ فوقیت اور برتری کی بنیاد کیاہوگی: محض جنسی فرق یا تقویٰ اور عملِ صالح؟ ساتھ ہی یہ بات بھی تعلیم فرما دی کہ شوہر بیوی سے اپنا حق مانگتے ہوئے اللہ کا تقویٰ اختیار کرے‘ اللہ کا باغی بن کر اور اس کی ہدایات کی من مانی تاویل کرکے آمر اور جابر نہ بن جائے بلکہ اپنے جائز حق ِ زوجیت کو بھی اللہ کے خوف اور رضا کی بنیاد پر مانگے۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ(النساء ۴:۱) ’’اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو‘ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو‘‘۔

یہ اسلام کا انقلابی کارنامہ تھا کہ اس نے اجتماعیت اور خاندانی زندگی کو عبادت کا درجہ دیا‘ جب کہ غیراسلامی ذہن کل بھی اور آج بھی عبادات سے مراد ذاتی روحانی اعمال لیتا رہا ہے اور عائلی اور معاشرتی معاملات کو اپنے رواج اور روایات کی بنا پر طے کرتا رہا ہے۔ اگر کسی خاندان میں عورت کو گھر کی خادمہ اور شوہر کے پائوں کی جوتی سمجھنے کی روایت رہی ہے‘ تو نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کے باوجود‘ اسلام اس طرزِعمل سے بالکل بری ہے۔

آپ کو اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے آپ کو اور آپ کے شوہر کو ایک سے زائد بچیاں دیں۔ اگر ان کی صحیح تربیت کی جائے تو خاتم النبیین‘ صادق الامین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق اس کا اجر جنت کا وعدہ ہے۔ یہ کوئی طفل تسلی نہیں‘ یہ اُس ہستی کا فرمان ہے جس کے لیے قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء ۴:۸۰) ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی ‘ اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی‘‘۔

شریعت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تحفظِ نسل ہے اور سورئہ نساء کی پہلی آیت میں جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے‘ یہ بات بھی فرمائی گئی ہے کہ’’ اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے ایک مرد اور عورت سے بہت سے افراد کو زمین پر پھیلا دیا‘‘۔ گویا ازواج کا ایک مقصد اولاد میں برکت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ایسی عورت سے شادی کی جائے جو نیکی میں دوسروں سے بڑھ کر ہو اور جو زیادہ اولاد کا ذریعہ بنے۔ اس لیے آپ کی خواہش کہ ایک سے زائد بچے ہوں‘ ایک جائز خواہش کے ساتھ ساتھ سنت پر عمل کی بنا پر ان شاء اللہ اعلیٰ اجر کا باعث بھی ہوگی۔ اب یہ فیصلہ آپ خود کرلیں کہ جس کام پر اللہ کے رسولؐ خوش ہوں‘ اس کا کرنا اچھا ہے یا شوہر کی ایک ایسی خواہش پوری کرنا جس سے اللہ کے رسولؐ کی خواہش ٹکراتی ہو۔

شوہر کی اطاعت ہو یا والدین کی اطاعت‘ دونوں کے لیے شارع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا اصول یہ ہے کہ اللہ کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہوگی (لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق)۔ اس لیے آپ کا زیادہ اولاد کی خواہش کرنا شوہر کی نافرمانی میں شمار نہیں کیا جاسکتا‘ نہ اسے دھوکے سے حمل ٹھیرا لینا کہا جاسکتا ہے۔ قرآن وسنت نے شوہر اور بیوی کے تعلق کو سکون‘ لذت اور حصولِ اولادِ صالح‘ تینوں کے مجموعی عمل سے تعبیر کیا ہے۔ یہ رشتۂ زوجیت کے عناصرترکیبی ہیں اور شوہر اور بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق میں شامل ہیں۔ جو چیز حقوق میں شامل ہو‘ اس کا کرنا مقبول‘ اور نہ کرنا مردود ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کے شوہر کو‘ اگر ان کے دل میں خدا کا خوف ہے‘ خدا کے حضور اپنے انجام سے ڈرنا چاہیے۔

آپ کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ ایک کے مقابلے میں تین بچیوں اور ایک بچے کے والدین کی حیثیت سے آپ اور آپ کے شوہر دونوں جنت کے زیادہ مستحق ہوگئے ہیں‘ کیونکہ نبی کریم ؐنے دو یا تین بچیوں کی صحیح اسلامی تربیت کرنے پر ایسے والدین کے لیے جنت کی بشارت دی ہے‘ اور ہمارا ایمان ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد حق و صداقت پر مبنی ہے۔

دین سے دُور اور قرآن و سنت سے براہ راست وابستہ نہ ہونے کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عبادت کا ایک بہت محدود تصور رواج پاگیا ہے جس میں صرف نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کو کُل عبادات سمجھ لیا گیا ہے۔ بلاشبہہ بندوں کا اللہ پر حق یہی ہے کہ اس کی عبادت اس کے بتائے ہوئے طریقے سے کی جائے لیکن وہ خود یہ فرماتا ہے کہ بندوں کا حق اداکرنا بھی عبادت ہے‘ بلکہ بعض اوقات معروف عبادات سے زیادہ اجر کا باعث ہے۔ حقوق العباد میں والدین‘ بیوی ‘ بچے‘ رشتے دار‘ پڑوسی‘ حتیٰ کہ اجنبی بھی شامل ہیں۔ بعض بظاہر مادی کام‘ مثلاً ایک شخص کا اکل حلال حاصل کرنا‘ اپنی منکوحہ سے اپنی ضرورت پورا کرنا بھی عبادت کا حصہ ہے‘ اور اللہ تعالیٰ کی بندگی اور رسولؐ کی اطاعت کا مظہر ہے۔

اسی بنا پر شیطان کا سب سے زیادہ مہلک وار حقوق کے معاملے ہی میں ہوتا ہے۔ وہ خصوصی طور پر شوہر اور بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالنے اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادایگی میں ٹانگ اڑا کر خوش ہوتا ہے۔ اسلام نے جتنا حق اولاد کی پیدایش کے بارے میں شوہر کو دیا ہے‘ اتنا ہی بیوی کو دیا ہے‘ حتیٰ کہ ایک حدیث میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اگر شوہر اپنا مادہ بیوی کے جسم سے باہر خارج کرنا چاہتاہو تو بیوی کی اجازت سے ایسا کرے۔ گویا یہ بیوی کا حق ہے‘ یہ محض شوہر کی مرضی کی بات نہیں ہے۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اسلام عقدِنکاح اور شادی کے بعد شوہر اور بیوی کو ایک    اکائی میں پیوستہ خاندان سمجھتا ہے۔ اب وہ محض دو افراد نہیں ہیں بلکہ ایک متحد خاندان ہیں۔ اس لیے مقابلہ انفرادی حقوق میں نہیں ہوتابلکہ اب خاندان کے حقوق کے پیش نظر ایک دوسرے کے ساتھ ایثار و قربانی‘ محبت و احترام اور لطف و عنایت کے ساتھ معاملات کیے جاتے ہیں۔ حقوق العباد سے نظری واقفیت اگر رویے اور طرزِعمل میں تبدیلی پیدا نہ کرے تو ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لیتے ہوئے احتسابِ نفس اور استغفار کے ساتھ شعوری طور پر اپنے طرزِعمل کی اصلاح کی فکر کرنا چاہیے۔

آپ کا دوسرا سوال پہلے سوال ہی کا نتیجہ ہے۔ اولاً، اگر آپ کے سسرصاحب آپ کی معمرساس کے ساتھ سختی کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو ان کا یہ عمل قرآن و سنت کے منافی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو اپنے اہلِ خانہ سے محبت و احترام سے پیش آتا ہے وہ اعلیٰ کردار کا انسان ہے‘ اور پھر فرمایا کہ میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سب سے زیادہ شفقت کرتا ہوں۔

خودکشی کا تعلق تین امور کے ساتھ ہے‘ اولاً: ایک شخص کا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قوت کا  انکار کرتے ہوئے یہ سمجھنا کہ معاملے کا حل اس کے اپنے ہاتھ میں ہے‘ اور چونکہ وہ اپنی حد تک  حصولِ مقصد میں ناکام ہوچکا ہے اس لیے مایوسی کی بنا پر خود کو ختم کرسکتا ہے۔ ثانیاً: ایک شخص کا یہ سمجھنا کہ اس کی جان اس کی اپنی پیداکردہ ہے‘ وہ اس کا مالک ہے۔ اس کا جسم اس کی ملکیت ہے‘ وہ اسے جب چاہے کسی کے حوالے کردے یا خود ختم کردے۔ ثالثاً: اس کا یہ سمجھنا کہ اس کے ساتھ جو معاملہ درپیش آیا ہے وہ اتنا سنگین ہے کہ اس سے زیادہ اور کوئی سنگینی نہیں ہوسکتی اور یہ شدتِ احساس اسے اپنی جان کو ضائع کرنے کا حق دیتی ہے۔ اگر عقلی طور پر دیکھا جائے تو یہ تینوں بنیادیں غلط اور باطل ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت ایک سکتے میں آئے ہوئے شخص ہی کو نہیں بلکہ اگر وہ چاہے تو ایک مُردے کو بھی زندہ کرسکتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تذکرے میں قرآن کریم اس کی شہادت فراہم کرتا ہے۔ اس بناپر قرآن و سنت خودکشی کو حرام قرار دیتے ہیں۔ کسی بھی جان کا  اِلا بالحق ضائع کرنا قرآن وسنت کی رو سے حرام ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا تذکرہ ہمیں بتاتا ہے کہ شدید ترین تکلیف میں بھی صبرجمیل ہی اسلام ہے۔

اگر کسی کو اس دنیا میں تکالیف اور ہرقدم پر طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہرہر تکلیف کے بدلے میں اللہ نے اپنے بندے سے ۱۰ سے ۷۰گنا زیادہ اجر کاوعدہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ قابلِ غور بات ہمارے معاشرے میں بظاہر دین دار شوہروں کا غیراسلامی رویہ ہے جس میں وہ اسلام کے نام پر بیویوں کو اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل پر مجبور کرتے ہیں۔

یہ خواتین کے اسلامی حقوق کی کھلی پامالی ہے۔ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی خلاف ورزی ہے۔ یہ قرآن کے دیے ہوئے صالح نظام خاندان و معاشرے سے بغاوت ہے۔ ہم ہمیشہ خواتین کو صبر کی تلقین کرتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مرد اپنے رویے اور طرزعمل کو قرآن و سنت کے علم کی بنا پر‘ محض سنی سنائی کہانیوں کی بنا پر نہیں‘درست کریں اور بیویوں کے حقوق کی پامالی سے بچ کر اپنے آپ کو آخرت کی سخت جواب دہی سے بچائیں۔ عائلی معاملات میں مردوں کی تعلیم خواتین کو نصیحت سے کم اہم نہیں ہے جسے ہم نے مکمل طور پر فراموش کر رکھا ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کے شوہر کو توفیق دے کہ وہ اپنی زیادتی پر شرمندہ ہوکر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں اور اللہ کے رسولؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیوی اور بیٹیوں کو وہ مقامِ احترام دیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملِ مبارک تھا۔(ڈاکٹر انیس احمد)

اجتماعی شب بیداری یا بدعت: ایک وضاحت

س: ’رسائل و مسائل‘ (اگست ۲۰۰۷ء) میں اجتماعی شب بیداری کو بدعت بلکہ مکروہ کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کی علّت یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی بھی عبادت کو جو انفرادی طور پر مطلوب ہو‘ ازخود بلادلیل اجتماعی شکل دینا اور قرین ثواب سمجھنا بدعت ہے‘ لیکن ایسی بدعت جو عبادت کی انفرادی شکل کو اجتماعی شکل دے مکروہ کا درجہ رکھتی ہے۔ لہٰذا  اجتماعی شب بیداری مکروہ شمار ہوگی۔ اجتماعی شب بیداری جس میں فہم قرآن‘ سماعت قرآن اور درس قرآن و حدیث ہوتا ہے‘ کسی بھی طرح انفرادی طور پر نہیں کی جاسکتی۔ پھر مولانا نے اپنی علّت کی کوئی سند بھی تحریر نہیں فرمائی۔

اجتماعی شب بیداری تعلیم و تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے جسے عصرِحاضر کی اسلامی تحریکوں نے اپنا کر ہزاروں افراد کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا ہے۔ میرے خیال میں کسی ایسی راے سے اجتناب کیا جائے جو دعوت کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ ہمیں ان تمام اقدامات کی حمایت کرنا چاہیے جن سے خیر کا پہلو نکلتا ہو‘ جو دعوت کے فروغ کا باعث بنیں۔ رات بھر کیبلز دیکھنے کے بجاے اگراجتماعی طور پر کسی سورہ کا ترجمہ پڑھ لیا جائے تو اس سے بدعت کا پہلو نہیں نکلتا۔ اگر اجتماعی تہجد میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور قبروں پر جانا اسوۂ رسولؐ ہے تو درس قرآن و حدیث کو بدعت یا مکروہ قرار دینا کسی طور پر بھی موزوں نہیں ہے۔ اگر بیان شدہ علّت کو درست تسلیم کرلیا جائے تو اسلامی تحریکوں کے دعوت و تبلیغ کے تمام طریقے مکروہ و بدعت قرار پائیں گے۔

ج: اسلامی تحریک کی اجتماعی شب بیداری تعلیم و تربیت کی نوعیت رکھتی ہے اور تعلیم و تربیت کے لیے اجتماع کی تاریخ مقرر کرنا اور اس کو پروگرام کے مطابق عملی جامہ پہنانا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے۔ اس کے متعلق سوال نہیں کیا گیا تھا اور نہ اس کا جواب دیا گیا ہے۔ سوال قبرستان میں ایک مخصوص رات کو جانے اور قبروں سے لپٹ کر رونے اور اس اجتماعی عمل کو ثواب سمجھنے کے متعلق ہے۔ اگر اسے ثواب نہ سمجھا جائے‘ انفرادی عبادت اور اجتماعی کو یکساں سمجھا جائے‘ اور کوئی مکروہ اعمال بھی نہ کیے جائیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا ہے۔

آپ نے جس صورت کا سوال میں ذکر کیا ہے اور اسلامی تحریک کی جو شب بیداریاں ہیں وہ انتظامی اور تربیتی نوعیت کی ہیں۔ ان کو دینی ضرورت سمجھا جاتا ہے‘ اور اسی لیے وہ بدعت نہیں ہیں۔ لوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام مسلمانوں کی صواب دید پر ہے۔اس کے لیے اگر وہ کوئی انتظام کریں تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی آزادی اور اختیار کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن مختلف جائز صورتوں کو جن کو شریعت نے اجتماعی شکل نہیں دی‘ اپنی طرف سے ان کو ثواب کی بنیاد پر اجتماعی شکل دینا بدعت ہے۔ تراویح کی جماعت شریعت کی روشنی میں کی گئی ہے۔ تہجد کی جماعت اتفاقاً اگر ہوجائے تو قباحت نہیں لیکن اس کا پروگرام بناکر اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا‘ اور اسے انفرادی عبادت سے زیادہ باعثِ ثواب سمجھنا درست نہیں ہے۔ اُمت میں اجتماعی تراویح تو ہے مگر اجتماعی تہجد نہیں ہے۔ جواب کی یہ عبارت بالکل واضح ہے: ’’کسی بھی عبادت کو جو انفرادی طور پر مطلوب ہو ازخود بلادلیل اجتماعی شکل دینا اور اسے ثواب سمجھنا بدعت ہے‘‘۔

آپ نے اسلامی تحریک کی جن اجتماعی شب بیداریوں کا ذکر کیا ہے‘ ان کے متعلق یہ بات نہیں سمجھی جاتی کہ وہ انفرادی طور پر مطلوب ہیں اور ان کو عبادت کا درجہ بھی نہیں دیا جاتا بلکہ تعلیم و تربیت کاوسیلہ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ ازخود بلادلیل نہیں ہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کی محفلیں ان کی دلیل ہیں‘ اور اجتماعی پروگرام کو ثواب کا درجہ نہیں دیا جاتا کہ اس طرح کریں تو ثواب ہے اور کسی دوسری رات کو کسی اور طرح کریں تو اس میں ثواب نہیں ہے۔

اس طرح تربیتی پروگرام کے بعد اتفاقاً قبرستان میںجانا درست ہے۔ مگر یہ نہ سمجھا جائے کہ اس طرح اجتماعی شکل میں جانا مغفرت اور ثواب کا باعث ہے اور انفرادی شکل میں جانے کا ثواب کم ہے۔ ثواب کی کمی زیادتی کے لیے قرآن و حدیث سے دلیل چاہیے جو ہمیں نہیں ملتی۔ اگر ضعیف حدیث ہوتی تب بھی فرق کیا جا سکتا تھا‘ لیکن یہاں اجتماعی زیارتِ قبور کے بارے میں ضعیف حدیث بھی نہیںہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صحابہؓ کو اہتمام کے ساتھ اجتماعی طور پر لے کر زیارتِ قبور کے لیے نہیں گئے۔ پس اتفاقاً کوئی اعتراض نہیں‘ البتہ اجتماعی شکل کو ثواب کا درجہ   دے کر اس کا اہتمام کرنا مناسب نہیں ہے۔ امید ہے کہ آپ جواب کا دوبارہ مطالعہ کریں گے تو آپ پر بات واضح ہوجائے گی۔ یہ بات میں نے اپنی راے کی بنیاد پر نہیں‘ فقہا کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں لکھی ہے‘ اور اجتماعی شکل کے بارے میں جو انتہاپسندانہ راے ہے اس کی بھی تردید کی ہے۔ البتہ مکروہ کے ساتھ تنزیہی کا لفظ رہ گیا ہے جو خلافِ اولیٰ کے قریب کی نامناسب صورت کو کہا جاتا ہے‘ اس کا اضافہ کرلیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح بات کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق سے نوازے۔ (مولانا عبدالمالک)