اکتوبر۲۰۰۷

فہرست مضامین

مستقبل کا چیلنج اور ہم

خرم مراد | اکتوبر۲۰۰۷ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

’مستقبل‘ کا لفظ اپنے اندر بڑی کشش اور دل فریبی رکھتا ہے۔ مستقبل بنانے کے لیے ہم ساری زندگی تگ و دو کرتے ہیں‘ اور اپنی زندگی کے بہترین سال اپنے مستقبل کی تعمیر میں صرف کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں اُس چیز کی محبت رکھ دی ہے جو فوری ملنے والی ہو‘ جو نفعِ عاجل ہو‘ اور یہ محبت اس امتحان کے لیے ضروری تھی جس میں اس کو ڈالا گیا ہے‘ وہاں اس نے اس کی فطرت میں مستقبل کی آرزوئوں‘ تمنائوں اور خوابوں کے لیے جدوجہد‘ کوشش اور قربانی کا جذبہ بھی رکھ دیا ہے۔ یہ دونوں چیزیں مل کر انسانی وجود کی تخلیق کو تکمیل کا درجہ عطا کرتی ہیں۔

حال اور مستقبل‘ آج اور کل کے لحاظ سے اگر ہم انسانوں کو اور انسانی گروہوں کو تقسیم کرنا چاہیں تو دو قسم کے گروہ نظر آئیں گے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو حال مست ہیں‘جن کی نظر آج کے نفع پر ہوتی ہے‘ جو آج کا کام آج کر کے لمبی تان کر سوتے ہیں اور جن کے نصیب میں آج کی روٹی آئے تو وہ اس کو اپنے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی نگاہ مستقبل پر مرکوز کردیتے ہیں۔ آج کے ہرلمحے اور اپنی ہرکوشش کا نتیجہ وہ مستقبل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تقسیم بہت واضح اور صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہے اور اس میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ہے۔

اسلام ، مستقبل کے لیے جستجو

اگر ہم مختصر الفاظ میں اسلام اور مسلمان کی تعریف کرنا چاہیں تو یہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتی کہ اسلام مسلمان کو مستقبل کے لیے جینے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ مستقبل جس کا وجود موت کی سرحد سے بھی ماورا ہے‘ اور جو اتنا عظیم الشان ہے کہ زمین و آسمان بھی اس کے وسعت میں سماجائیں۔ قرآن مجید کی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ دوڑو‘ بھاگو ‘سعی اور کوشش کرو اور ایک دوسرے سے سبقت لے جائو اور آگے بڑھو۔ حرکت خود مستقبل کی طرف لے جاتی ہے۔ گویا مسلمان وہ ہے کہ جو اپنے حال کے ہرلمحے پر اس طرح سے نگاہ ڈالتا ہے کہ کل اس کا کیا نتیجہ نکلنے والاہے۔

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ج (الحشر ۵۹:۱۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ سے ڈرو‘ اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل  کے لیے کیا سامان کیا ہے۔

قرآن کی دعوت یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔ ہرانسان یہ دیکھے کہ اس نے آج‘ کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ یہ کل وہ ہے جو زندگی کی سرحد سے ماورا اپنا وجود رکھتی ہے اور جو زندگی کی سرحد کے اس پار پائی جاتی ہے۔ لہٰذا جس کی فطرت ہی میں ایک واضح مستقبل کی تعمیر ہو‘ وہ صرف آج کے نفع‘ آج کی سعی اور جدوجہد پر قانع نہیں ہوسکتا‘ اس کی نگاہ ہمیشہ کل پر رہے گی۔

ایک تحریک، ایک جدوجھد

یہ بھی واضح رہے کہ اسلام کے معنی تحریک کے ہیں‘ جب کہ تحریک کے معنی حرکت اور جدوجہد کے ہیں۔ حرکت کے معنی ایک زمانے سے دوسرے زمانے کی طرف سفر کے بھی ہیں‘ یعنی حال سے مستقبل کی طرف سفر۔ تحریک وہ ہے جو مستقبل کی طرف سفر جاری رکھے۔ اگر وہ حال پر قانع ہوکر رہ جائے اور حال ہی کی کارکردگی پر مطمئن رہے تو یہ تحریک نہیں بلکہ جمود ہے۔ تحریک کی نگاہ ہمیشہ آنے والے کل پہ ہوگی۔ آنے والا کل‘ آج کی اس کی جدوجہد کو بارآور کرے اور نتیجہ خیز بنائے‘ یہی اس کا مقصود ہوگا۔

اگر زمانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو رات اور دن کی گردش ایک ایساعمل ہے جو مسلسل حال کے لمحات کو ماضی میں بدلتا ہے‘ مستقبل کو حال بنا دیتا ہے‘ اور مستقبل کا اگلا لمحہ آپ کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے۔ آج تک وقت کی حقیقت اور ماہیت کو کوئی نہیں سمجھ سکا۔ یہ وقت کا وہ پھیر ہے جس سے ہم سب واقف ہیں کہ گھڑی ٹک نہیں کرتی کہ حال ماضی بن جاتا ہے‘ مستقبل حال‘ اور مستقبل کا نیا لمحہ سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ مستقبل کا یہ لمحہ ایک سیکنڈ کے برابر بھی ہوسکتا ہے‘ ایک برس کے برابر بھی ہوسکتا ہے اور یہ صدیوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے۔ اس سب کے باوجود ہر آن وقت کے ماضی‘ حال اور مستقبل میں بدلنے سے مفر کی کوئی صورت نہیں۔ انھی لمحات میں سے بعض لمحات ایسے آتے ہیں کہ ایک لمحے میں ہزاروں مہینوں کا کام ہوجایا کرتا ہے اور ایک بالکل نئے مستقبل کی بنیاد پڑجاتی ہے۔ اس طرح بعض لمحات ایسے آتے ہیں کہ ایک لمحے کی غفلت مستقبل کی منزل کو صدیوں دُور کر دیا کرتی ہے۔

وہ انسان جنھوں نے اپنا دامن اسلام کے ساتھ وابستہ کیا ہو‘ اپنے وقت‘ اپنی کوششوں اور اپنی مساعی کی اس قدروقیمت سے کبھی غافل نہیں ہوسکتے۔ آج دنیا تاریخ کے جس موڑ پرکھڑی ہے‘ وہ کچھ ایسا ہی لمحہ ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے کہ جب لمحے بھر کی غفلت انسان کوا پنے مستقبل سے صدیوں دُور پھینک سکتی ہے‘ اور ایک لمحے کی محنت اور توجہ انسان کواپنی منزل سے قریب بھی کرسکتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا زیر و زبر ہورہی ہے اور ہر طرف تغیر وتبدل کا عمل جاری ہے۔ ایسی کیفیت میں اسلامی تحریک کے لیے‘ جو عالمی انقلاب کا خواب دیکھ کر وجود میں آئی اور جس نے امامت عالم پر   اپنی نگاہیں جمائیں‘ اور جس نے دنیا کو نئی تہذیب و تمدن سے آشنا کرنے کے لیے انسانوں کی ایک نئی ٹیم بنانے کا کام اپنے ذمے لیا‘ سوچنے کا لمحہ ہے کہ وہ کہاں کھڑی ہے‘ اور اسے کیا کرنا چاہیے کہ وہ تاریخ کے اس چیلنج کا جواب دے سکے‘ جواُسے اس کی منزل سے قریب کردے۔

اُمت مسلمہ کا عروج و زوال

تاریخ کے اس چیلنج کو بہت مختصراً سمجھنے کے لیے ذرا ذہن میں اس تصویر کو تازہ کیجیے کہ جب چھٹی صدی عیسوی کے ایک دن‘ صبح صادق سے چند لمحے پہلے‘ اللہ تعالیٰ نے غارِحرا میں اپنی ہدایت کی پہلی چند کرنیں اپنے محبوبؐ کے قلبِ مبارک میں داخل کیں تو دراصل انسانیت کا مستقبل ایک روشن صبح کے اندر تبدیل ہوگیا۔ یہ صبح ایک ہزار سال تک رہی۔ اگرچہ اس میں تاریکی کے دور بھی آئے لیکن ایک ہزار برس تک اسی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین دنیا کے امام اور قائد بنے رہے۔ یہ ابھی تین چار سو سال پہلے کی بات ہے کہ وہ امامت کے اس منصب سے دست بردار ہونے لگے اور اس سے دست کش ہوتے چلے گئے۔ وہ مغرب کہ جہاں وہ کبھی ایک دفعہ شمال سے آئے اور فرانس کے وسط تک پہنچے‘ اور ایک دفعہ مغرب سے آئے اور جرمنی کی سرحدوں تک دستک دی‘ وہی مغرب کھڑا ہوااور اس نے ان کو ایک ایک کر کے انھی علاقوں میں مغلوب کرنا شروع کردیا جہاں وہ غالب اور حکمران تھے۔ انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ ہندستان‘ مصر‘ عراق‘ شام‘ فلسطین‘ تیونس‘ الجزائر‘ مراکش‘ نائیجیریا‘ سینیگال‘ افریقہ‘ ایشیا‘ یورپ‘ غرض کوئی جگہ باقی نہ رہی جہاں پر اُمت مسلمہ کو امامت کے منصب سے بے دخل نہ کردیا گیا ہو۔

جتنا حیرت انگیز انقلاب چھٹی صدی عیسوی کا تھا جس کو ایک مستشرق یوں بیان کرتا ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کی صدا نے عرب کے بسنے والے بدوؤں اور گلہ بانوں کو اس جذبے سے سرشار کیا کہ ۱۰۰سال کے عرصے میں اسپین کے مرغزاروں سے لے کر چین کے ساحل تک مکہ کے یتیم بچے   محمد بن عبداللہ کا نام پکارا جانے لگا اور آوازہ بلند ہونے لگا۔ ایسا معجزہ تاریخ نے کبھی نہیں دیکھا۔

تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ وہی محمد رسولؐ اللہ کے پیرو اور متبعین ایک ایک کر کے ایک ایک علاقے سے اپنی امامت اور حکومت سے بے دخل کردیے گئے۔ ایک لکھنے والے کے الفاظ میں‘ ۱۹۲۰ء میں‘ یہ عالم تھا کہ اگر نگاہ دوڑائی جائے تو ساری دنیا میں صرف چار مسلم ممالک براے نام آزاد تھے جو اس وقت بڑے غیراہم ملک تھے‘ اور وہ تھے سعودی عرب‘ یمن‘ افغانستان اور ترکی۔ ان ملکوں کے حکمرانوں کے بارے میں بھی آج یہ کہاجاتا ہے کہ یہ مغربی طاقتوں کے بعض صورتوں میں آلۂ کار تھے اور بعض صورتوں میں تنخواہ دار تھے۔ یہ حال تھا اس صدی کی ابتدا میں مسلم دنیا کا۔

امامتِ عالم کا چیلنج

تحریک اسلامی جو امامتِ عالم کے منصب پر اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہے‘ جو عالمی انقلاب کا علَم ہاتھ میں تھام کر آگے بڑھی ہے‘ آج وہ خواہ کتنے ہی مسائل میں گھری ہوئی ہو‘ اس بات سے آنکھیں نہیں چرا سکتی کہ بالآخر اس کا مقابلہ مغرب کی اسی غالب تہذیب سے‘ قوت اور عسکری طاقت سے‘ علم و فن اور ترقی سے ہے جو اب مغرب کے جغرافیائی حدود کے اندر محدود  نہیں ہے بلکہ جکارتہ‘ ریاض‘ قاہرہ اور کراچی میں بھی اپنا وجود اور غلبہ رکھتی ہے۔ اس کی زبان بولی جاتی ہے۔ اس کے ادارے قائم ہیں۔ دستور اور پارلیمنٹ‘ عدالت اور بنک اور کاروبار اور تجارت‘ سب پر اسی کی چھاپ‘ اسی کی مہر اور اسی کا غلبہ ہے۔

اسلامی تحریک کے وہ داعی جو اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو آج کے مسائل میں بری طرح گھرا ہوا اور محصور سمجھتے ہیں‘ اگر وہ اپنے ماضی کے اس نعرے اور اس دعوت کو اپنے ذہن میں تازہ رکھیں کہ ہم دنیا کی امامت اور ساری دنیا میں انقلاب لانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں‘ تو وہ سمجھ سکتے ہیں کہ کتنا بڑا چیلنج ہے جو ان کو درپیش ہے۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ مستقبل آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے‘ وہ ملت اسلامیہ کا منتظر ہے‘ لیکن مستقبل کی حیثیت من و سلویٰ کی نہیں ہے کہ وہ خودبخود آپ کی گود میں آن گرے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی فرد‘ کسی قوم‘ اورکسی تہذیب کے لیے کوئی ایسا مستقبل نوشتۂ تقدیر نہیں کیا ہے کہ جواس کو خودبخود حاصل ہوجائے۔ مستقبل اسی کا ہے جو اس کے لیے جدوجہد کرے‘ اس کے لیے محنت اور بھرپور کوشش کرے۔

وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی o وَاَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرٰی o (النجم ۵۳: ۳۹-۴۰) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے‘ اور یہ کہ اس کی سعی عن قریب دیکھی جائے گی۔

گویا انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ جدوجہد کرتا ہے۔ پھر جیسے جیسے گردش لیل و نہار حال کے لمحات کو ماضی اور مستقبل کو حال بناتی چلی جائے گی‘ اس جدوجہد کے نتائج و ثمرات سامنے آتے چلے جائیں گے‘ اور سواے اپنے کیے اور کمائی کے کوئی چیز سامنے نہیں آئے گی۔

اسلام اور مغرب کی کش مکش

اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس کو علامہ اقبال نے آج سے نصف صدی سے بھی پہلے بڑے واضح الفاظ میں شیطان کی زبان سے ادا کروایا تھا    ؎

جانتا ہے ، جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فتنۂ فردا نہیں ، اسلام ہے

یہ اس زمانے کی بات ہے جب کوئی کمیونزم کے زوال کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن شاعر کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ ابلیسیت کے نظام کے لیے اگر کوئی فتنہ ہے تو وہ اسلام اور ملّت اسلامیہ ہے کہ جو اس کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ مگر مغرب کے کتنے ہی مرثیے پڑھے جائیں‘ اس کی خرابیوں کو کتنا ہی کھول کھول کر بیان کیا جائے اور اس پر کتنے ہی تبرے کیوں نہ بھیجے جائیں اوراس کے خلاف کتنے ہی نعرے کیوں نہ بلند کیے جائیں‘ لیکن یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ مغرب کبھی خودبخود زوال پذیر نہیں ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے اسلام اورمسلمانوں کے لیے جو مستقبل لکھ دیا ہے‘ وہ صرف محنت‘ بلندنظری‘ قوتِ اجتہاد اور جہادو قربانی سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ اس کی اور کوئی صورت نہیں ہے۔ تحریکِ اسلامی جو امامتِ عالم پر نگاہ رکھتی ہے اور وہ انقلاب لانا چاہتی ہے جو ساری دنیا کو  اپنی لپیٹ میں لے لے‘ جو تہذیب و تمدن کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کے لیے اٹھی ہے‘ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اس کا ادراک رکھے اور فہم حاصل کرے کہ دراصل کرنے کا کام کیاہے؟

اگر ہم نبی کریمؐ کی زندگی پر غور کریں یا سید مودودیؒ کے افکار کا جائزہ لیں تو اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام ساری انسانیت کے لیے اورسارے عالم کے لیے نجات کا علَم بردار ہے۔ اسی طرح جس تحریک کا اسلامی تحریک ہونے کا دعویٰ ہو‘ اس کی نگاہ بھی تنگ دائروں کے اندر محصور ہوکر نہیں رہ سکتی۔ جس کی نگاہ آخرت میں اس جنت کے اُوپر ہو جس کی وسعت میں زمین و آسمان سما جائیں‘ اس کی نظر‘ اس کی فکر‘ اس کی جدوجہد اور اس کی سرگرمیاں دنیا میں تنگ نظری کا شکار نہیں ہوسکتی ہیں۔

آج دنیا عرصۂ محشر میں ہے اور اُمت بھی عرصۂ محشر میں ہے۔ یہ دورجدید جس سے ہم گزر رہے ہیں‘ اس کی چند خصوصیات کا بھی مختصراً آپ کے سامنے ذکر کرتا چلوں۔

تغیر حالات پر نظر

آج کے دور میں جس تیزی سے تغیرات برپا ہو رہے ہیں‘ اس کا کوئی تصور آج سے ۱۰۰سال پہلے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بات کسی محدود خطے کی ہو یا ذرائع ابلاغ کی وسعت کی‘انسانی آبادی کی ہو یا انسانی وسائل کے استعمال کی‘ سائنسی ترقی کی ہو یا قدرت کے رازوں کے انکشاف کی‘ تغیرو تبدل کی جو رفتار اس صدی میں ہے ‘ وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ایک اندازے کے مطابق پہلے جو کام ایک سال میں ہوا کرتا تھاوہ اب ایک ایک گھنٹے میں ہوجاتا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جنھیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

اسی کے نتیجے میں جو دوسری تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کرئہ ارض جو بہت سے براعظموں پر مشتمل ہے‘ ایک چھوٹا سا گائوں بن کر رہ گیا ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں کوئی واقعہ رونما ہوجائے‘  چند لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بات پہنچ جاتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ مسلمان قائد بحراوقیانوس کے ساحل پر کھڑے ہوکر کہتا تھا کہ اے خدا! اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ سمندر کے پار بھی زمین ہے‘اور وہ امریکا کی زمین تھی‘ تو میں اپنے گھوڑے سمندر میںڈال دیتا اور اس سرزمین تک جاپہنچتا۔ اس وقت دنیا اس قدر بٹی ہوئی اور اتنے فاصلوں پر تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے ناواقف تھے۔ مگر آج کی دنیا میں‘ کسی ملک‘ کسی گوشے اور افریقہ کے کسی تاریک ترین جنگل میں ہونے والا واقعہ بھی پوری دنیا کی آنکھوں سے چھپا نہیں رہ سکتا۔ یہ وہ دو چیزیں ہیں کہ جو بالکل واضح اور صاف طور پر ہمارے سامنے ہیں۔

اُمت محمدیؐ کا مشن اور خواب

مستقبل کی یہ منزل ہمارے افکار اور ہماری تحریک میں اس لیے نہیں آگئی ہے کہ ہمارے لٹریچر میں موجود ہے بلکہ پوری کی پوری سیرت رسولؐ اسی بات پر گواہ اور شاہد ہے۔

ہمارے سیرت نگار جس واقعے کو انتہائی مبالغے کی زبان میں یوں اداکرتے ہیں کہ جب حضوؐر اس دنیا میں تشریف لائے تو فارس کے آتش کدے بجھ گئے اور کسریٰ کے مینار گرگئے مگر استعارے کی یہ زبان چند برسوں میں ایک حقیقت بن گئی۔

مکہ میں جو چند مٹھی بھر آدمی کوڑوںاور پتھروں کی زد میںتھے ان کو یہ خوشخبری سنائی جاتی تھی کہ پورا عرب تمھارے قدموں میںہوگا اور عجم تمھارے زیرنگیں ہوگا۔ خانہ کعبہ کی دیوارسے  ٹیک لگائے جب حضوؐر سے صحابہ کرامؓ آکر شکایت کرتے کہ اب تو مظالم کی حد ہوگئی ہے‘ دعا کیجیے تو ان کو یہ خواب دکھایا جاتا کہ ایک وقت آئے گا کہ ایک تنہا عورت عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کرے گی اور کوئی اس کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔

جب دو آدمی مدینے کا سفر کر رہے تھے جو ہماری زبان میں ہجرت کا سفر تھا‘ اور ہمارے دشمنوں کی زبان میں دو آدمی اپنی جان بچا کر دشمنوں سے بھاگ رہے تھے اوراس وقت جب سراقہ نے ان کو دیکھ لیا تو یہ خواب بھی دکھایاگیا کہ سراقہ کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔

غزوئہ خندق کے موقع پر سارا عرب اُمنڈ آیا تھا اور مدینہ پر چڑھ دوڑا تھا اور مدینہ کے مٹھی بھرانسان اس وقت ہلاکت کی زد میں تھے‘ جب کہ چند گز کی خندق تھی جوان کو ہلاکت سے بچائے ہوئے تھی۔ اس وقت بھی خندق کی کھدائی کے دوران جب ایک سخت چٹان پر کدال کی ضرب لگنے پر چنگاریاں نکلتی ہیں تو ارشاد ہوتا ہے کہ مجھے قیصر کے خزانے دکھائے گئے ہیں۔ دوسری ضرب پڑتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ مجھے کسریٰ کے خزانے دکھائے گئے ہیں۔ غرض مٹھی بھر جماعت بھی اس سے غافل نہیں تھی کہ یہ کام محض مکہ اور مدینہ کا نہیں ہے‘ یا محض عالمِ عرب کا نہیں ہے بلکہ یہ کام تو پورے عالم میں انقلاب برپا کرنے کا ہے۔

جو تحریک اور جماعت حال میں گم ہوکر رہ جائے‘ وہ بالآخر ماضی کے اوراق کا ایک نقش  بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں جو تحریک اور جماعت مستقبل کے لیے کمربستہ ہوکر جدوجہد کرے اوروہ صفات اپنے اندر پیدا کرے جس سے مستقبل کے چیلنج کا مقابلہ ہوسکتا ہے‘ بالآخر اللہ کی مشیت اس کے لیے مستقبل کو مقدر کر دیتی ہے۔

مغربی تھذیب کا چیلنج

عصرحاضر میں‘ اُمت مسلمہ کو درپیش آج کے چیلنج میں اصل حیثیت مغرب کی ہے۔ مغرب سے میری مراد وہ جغرافیائی خطہ نہیں ہے جس کو ہم یورپ کے نام سے پکارتے ہیں‘بلکہ مغرب کی  وہ تہذیب ہے جو جکارتہ سے لے کر رباط تک ہر مسلمان ملک میں سرایت کرچکی ہے‘ اس کے قلب میں داخل ہوچکی ہے‘ اس کے گھروں میں داخل ہورہی ہے‘ اس کی عورتیں اور بچے اس کی زد میں ہیں۔

ایک امریکی پروفیسر کے الفاظ میں: آپ کہتے ہیں کہ ہماری تہذیب و تمدن آپ کے ہاں سے رخصت ہوچکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کہیں چلے جائیں آپ کو جین اور کوکاکولا دونوں چیزیں نظر آئیںگی۔ ہماری تہذیب سے اگر کوئی بچا ہو تو وہ کوکاکولا کی کشش سے اپنے آپ کو  نہیں بچاسکتا‘اور کوئی نوجوان ہو تو وہ جین پہننے سے باز نہیں رہ سکتا۔

مغرب کو بھی اسلام سے ایک ہزار سال تک اسی چیلنج سے سابقہ رہا ہے۔ مغرب کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ایک ہزار سال تک مغرب کے سوچنے والے‘ مغرب کے سیاست دان اور حکمران‘ سب کو اسی بات کی فکر تھی کہ اسلام اور مسلمانوں سے کیسے بچا جاسکے۔ ایک زمانہ تھا کہ یورپ میں مائیں اپنے بچوں کو یہ کہہ کر ڈرایا کرتی تھیں کہ ذرا ٹھیک رہوورنہ ترک آجائیں گے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب اسپین میں تہذیب کی شمعیں اور جنوب میں عثمانیوں کی تلوار‘ دونوں ایک پیغام تھے اور مغرب اس سے لرزہ براندام تھا۔ پھر ۱۸ویں صدی میں وہ لمحہ بھی آیا کہ مغربی مفکرین نے کہا کہ اب وہ خطرہ ٹل چکا ہے۔ وہ وحشی‘ وہ بدو‘وہ بکریاںچرانے والے‘ وہ کھجوروں کے کاشت کار جوعرب سے نکل کر آئے تھے اور جنھوں نے ایک ہزار سال تک سسلی‘ اسپین‘ ہنگری‘ یوگوسلاویہ‘ بلغاریہ اور مشرق وسطیٰ میں حکومت کی‘ اور بیت المقدس پر قبضہ کیا اور فلسطین کو ہم سے چھین لیا___ اب ہمیں ان سے کوئی خطرہ نہیں۔

ابھی ۲۰ویں صدی ختم ہونے کو نہیں آئی تھی کہ مغرب کو اس بات کا احساس ہوا کہ چھٹی صدی میں جو تہذیب‘ جوتمدن‘ جو عقیدہ اور جو نظام دنیا کے سامنے آیا تھا وہ آج بھی اپنے اندر اتنی قوت رکھتا ہے کہ قوموں کی قوموں کو کھڑا کرسکتا ہے۔ انقلابِ ایران سے خواہ ہمیں اختلاف ہو یا اتفاق اور اس انقلاب کی خرابیاںاپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس انقلاب کے بعد مغرب اور اسلام کا تعلق اب وہ نہیں ہوسکتا جو ۱۰۰سال سے تھا۔ اس لیے کہ مغرب نے اس بات کو بخوبی جان لیا ہے کہ اسلام میں اتنی قوت ہے کہ وہ ایک پوری قوم کو اُٹھا کرکھڑا کرسکتا ہے جو ان کے مہرے کو اٹھاکر پھینک دے اور ان کے نظام کو درہم برہم کردے۔ ۱۹۷۸ء کے بعد سے کتابوں کا ڈھیر لگ گیا۔ مفکرین‘ مدبرین‘ سیاست دانوں کے بیانات کا طومار بندھ گیا کہ اب اگر خطرہ ہے تو اسلام اور مسلمانوں سے ہے۔

اسلام اور مغرب کے حوالے سے درپیش اس چیلنج کے چند پہلو بہت اہم ہیں جو ہمارے سامنے رہنے چاہییں۔ یہ ہماری گفتگو کے تین حصوں، یعنی ’مستقبل، چیلنج اور ہم‘ میں سے تیسرے لفظ ’ہم‘ جو میری نظر میں اس گفتگو کا سب سے اہم حصہ ہے‘ کی وضاحت پر بھی مبنی ہوگا۔

مستقبل کا ادراک

مستقبل کے چیلنج کا سامنا بھی وہی لوگ کرسکتے ہیں جواس کاادراک اور اس کا شعور رکھیں۔ اگر اس بات کو پوری طرح سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس کا خواب دیکھیں کہ کل ہمارا ہوگا۔ جو لوگ اُونچے اُونچے خواب نہیں دیکھ سکتے وہ دنیا میں بڑے بڑے کام بھی نہیں کرسکتے۔ میںنے آپ کو وہ خواب دکھائے جو غارِحرا سے لے کر غزوۂ خندق تک دیکھے جاتے رہے اور دکھائے جاتے رہے۔ اگر ایک حوالے سے ان خوابوں کو دیکھا جائے تو جنون کی حد تک وہ پاگل پن دکھائی دیں گے اور لوگ کہتے تھے کہ یہ مجنون ہے‘ پاگل ہے (نعوذباللہ)‘ ایسی باتیں کرتا ہے کہ  سارا عرب و عجم‘ قیصروکسریٰ کے سارے خزانے ہمارے زیرنگیں ہوں گے‘ اور کسریٰ کے کنگن   سراقہ کے ہاتھوں میں ہوں گے۔ یہ خواب کون دیکھ سکتا تھا اور کہاں پورا ہوسکتے تھے لیکن اس خواب کو عام خواب کے معنوں میں نہ لینا چاہیے‘ اس لیے کہ نبی کے خواب بھی سچے ہواکرتے ہیں۔

آج بھی وہی اسلامی تحریک مستقبل کی تعمیر کرسکتی ہے جو اپنے نبی کی طرح یہ خواب دیکھے کہ لندن‘ واشنگٹن‘ ماسکو‘سب ہمارے ہیں‘ہمارے بن سکتے ہیں اور یہ ہمارا مقدر ہیں۔ لیکن یہ ہم کو اس وقت ملیں گے جب ہم اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کریں گے۔

مستحق کا لفظ آیا تو اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں اور آپ کے سامنے یہ چیز رکھوں کہ وہ کون سے ضروری پہلو ہیں کہ جن کے بغیر ہم مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ نہیں کرسکتے اور یہ مستقبل ہمارا نہیں بن سکتا۔ میں مشہور برطانوی ہفت روزہ اکانومسٹ کے ایک تجزیے کا تذکرہ کروں گا۔ جب کمیونزم کا زوال ہوا تو اس نے ایک مختصر مگر جامع تجزیہ پیش کیا کہ تاریخِ عالم میں وہ کون سے بڑے بڑے واقعات ہوئے کہ جنھوں نے تاریخ کا رخ پلٹ دیا اور انسان کو ایک نئی زندگی اور نئے مستقبل سے روشناس کیا۔ اس نے اس میں ہجرت کے واقعے کا بھی حوالہ دیا کہ یہ واقعہ بھی ایسا تھا کہ جس نے تاریخ کا رخ پلٹ دیا اور بدل کر رکھ دیا۔

اس تجزیے کے مطابق کمیونزم کا زوال کوئی ایسا واقعہ نہیں کہ جس سے انسان کی قسمت یا تقدیر بدل جائے۔ پھر وہ لکھتا ہے کہ وہ کون سے مسائل ہیں کہ جن کے گرد آنے والی دنیا میں انقلاب برپا ہوگا اور انسانیت کے لیے نیا مستقبل نئے سرے سے تعمیر ہوگا۔ وہ کہتاہے کہ یہ وہ مسائل ہیں جو غیب کی دھند میں پوشیدہ ہیں جن کی طرف مسلمان بنیاد پرست اور عیسائی بنیاد پرست دونوں اشارہ کر رہے ہیں۔ ان مسائل کا تعلق سیاست اور معیشت سے نہیں ہے بلکہ ان کا تعلق  عالمِ غیب ‘ یعنی خدا‘ آخرت اور رسالت وغیرہ سے ہے۔ مذہبی حوالے سے بظاہر یہ بات بڑی  خوش آیند ہے لیکن آگے چل کر وہ لکھتا ہے کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ مسلمان بنیاد پرست اور نہ عیسائی بنیاد پرست اس کے اہل دکھائی دیتے ہیں کہ وہ انسانیت اور دنیا کو اس نئے مستقبل سے روشناس کروا سکیں جس کی کلید ان کے ہاتھوں میں ہے اور جس کے گرد دنیا میں انقلاب برپا ہونے والا ہے۔ ان میں وہ بصیرت اور قوت نظر نہیں آتی‘و ہ قوت اجتہاد نہیں پائی جاتی کہ وہ دنیا کے تہذیب و تمدن کے امام بن کر دنیا کو ایک نئے مستقبل سے روشناس کروا سکیں۔

میں نے اس تجزیے کا تذکرہ اس لیے بھی کیا کہ یہ پہلو بھی نگاہوں کے سامنے رہے کہ  اہلِ مغرب مسلمانوں کے بارے میں اور دنیا کے مستقبل کے حوالے سے کیا سوچ رہے ہیں۔

امامتِ عالم اور وسعت

جس کو ساری انسانیت کا امام بننا ہو‘ اس کو ہر لحاظ سے اپنے اندر وسعت پیدا کرنا ہوگی اور ایک دنیا کو اپنے اندر سمونا ہوگا اور ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اسے اپنے دل کے اندر وسعت پیدا کرنا ہوگی‘ وہ وسعت کہ جس میں سارے لوگ سماجائیں‘ دماغ کی وسعت کہ جو سارے افکار کامقابلہ کرسکے‘ عمل کی وسعت کہ جوسارے انسانوں کو اپنے اندر سمیٹ سکے۔ جس کا دل تنگ ہو‘ جس کی نظر تنگ ہو‘ جس کا دماغ محدود ہو‘ جو اپنے ناک سے آگے نہ دیکھ سکتا ہو‘وہ ساری دنیا کا امام نہیں  بن سکتا۔ صحابہ کرامؓ قیصروکسریٰ کے دربار میں کھڑے ہوکر کہا کرتے تھے کہ ہم تو اس لیے آئے ہیں کہ تم کو دنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعت تک پہنچا دیں۔

جو اس جنت کا طلب گار ہو جس کی وسعت میں زمین وآسمان سما جائیں‘ نہ اس کا دل تنگ ہوسکتا ہے نہ نگاہ‘ نہ اس کا دماغ تنگ ہوسکتا ہے نہ فکر سطحی اور نہ اس کی نظر محدود ہوسکتی ہے۔ جس طرح ایک پرندہ سب انڈوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپالیتا ہے‘ اسی طرح وہ سارے انسانوں کواپنے ساتھ لے کرچل سکتا ہے۔ اس کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ہرقسم کے حالات اور ماحول میں اپنے مشن کے اوپر‘ اپنے موقف کے اوپر تمام انسانوں کو جمع کرسکے۔ لہٰذا امامتِ عالم  کے لیے مقاصد میں‘ دل میں‘ فکر میں‘ نظر میں اور رویوں میں تنگی کے بجاے وسعت ناگزیر ہے۔ اسی لیے یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ دین تو ہے ہی اس لیے کہ اس کے اندر سب لوگوں کو سمیٹ لیا جائے۔ یہ لوگوں کو بھگانے یا کاٹ پھینکنے کے لیے نہیں آیا۔یہ تو آیا ہی اس لیے ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے۔ اسی بات کے پیش نظر نبی کریمؐ نے بشروا ولا تنفروا کی ہدایت کی‘ یعنی خوش خبری کی شیرینی سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچو اور متنفر مت کرو۔ اس لیے کہ مسلمانوں کو تو ساری دنیا کا امام بننا ہے۔ لہٰذا وہ معمولی معمولی بحثوں اور مسائل اور تنگ نظری کے اندر مبتلا نہیں ہوسکتے۔

اگر مسلمانوں کی ۴۰۰ سال کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھا جائے تو جب مسلمان ایک کے بعد ایک ملک فتح کرتے ہوئے دنیا کے امام بنتے چلے جارہے تھے‘ ان کے درمیان اختلافات بھی تھے (سقیفہ بنی ساعدہ سے اختلافات شروع ہوگئے تھے)‘ جو سیاسی بھی تھے اور فقہی بھی‘ مگر ان سب کے باوجود وہ ایک تھے۔ چار امام اور بہت سے سیاسی اختلافات ہونے کے باوجود ان کے اندر وسعت تھی کہ وہ لوگوں کو اپنے اندر سمیٹ سکیں۔ اگر چند سو آدمی پورے اسپین پر غلبہ حاصل کرسکتے تھے اور چند سو آدمی پورے ہندستان پر غلبہ پاسکتے تھے‘ اورچند تاجر جاکر ہندستان کے ساحل‘ ملایشیا اور انڈونیشیا‘ ہرجگہ اسلام پھیلا سکتے تھے تو اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ ان کے دل و نگاہ میں وسعت تھی۔ وہ لوگوں کو اپنے اندر سمیٹ سکتے تھے‘ اپنے اندر جذب کرسکتے تھے۔ ہررنگ‘ ہر مسلک اور ہرقسم کے انسانوں کو اپنے ساتھ لے کر چل سکتے تھے۔ اس لیے کہ جس کو امامتِ عالم کا منصب سنبھالنا ہو‘ اس کا ناگزیر تقاضا وسعت قلبی اور اختلافات کے باوجود لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔

دعوتِ عام اور راے عامہ کی تشکیل

امامتِ عالم کے منصب کے حصول کے لیے اس سے کوئی مفر نہیںکہ اسلامی تحریک   دعوتِ عام کے میدان میں اُتر جائے۔ سید مودودیؒ نے پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی یہ کہا تھا کہ اب ہماری تحریک دعوتِ عام اور توسیع کے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اب ہماری منزل اپنی دعوت کو بڑے پیمانے پر پھیلانا ہے‘ جلد سے جلد پھیلانا ہے‘ لوگوں تک پہنچنا ہے اور اپنے آپ کو وسیع سے وسیع تر کرنا ہے۔ اب یہی ہماری منزل ہے۔ انھوں نے تحریک اسلامی اوراس کا آیندہ لائحہ عمل میں یہ بات کھول کر بیان کی ہے۔

جماعت اسلامی کے قیام کے ایک ہی سال کے بعد سید مودودیؒ نے اس بات کو واضح انداز میں بیان فرما دیا تھا کہ جس طرح تعمیری کاموں کے بغیر کوئی اسلامی انقلاب رونما نہیں ہوسکتا‘ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ عامۃ الناس میں اسلام پھیلائے بغیر کوئی انقلاب برپا ہوسکے۔ اربوں انسانوں کو ہماری دعوت اور پیغام سے واقف ہونا چاہیے۔ کروڑوں انسانوں کو اس حد تک اس سے متاثر ہونا چاہیے کہ وہ اس کو حق مانیں اور اس کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس کے بغیر نہ اس ملک میں انقلاب آسکتا ہے اور نہ دنیا میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ چنانچہ دعوتِ عام ملک میں اور   ملک سے باہر‘ اس کا خواب انھوںنے جماعت اسلامی کے قیام کے بالکل ابتدائی دور میں بھی  دکھایا تھا اور اس کے بعدبھی دکھایا۔ یہ وہ مرحلہ ہے کہ جس کو طے کیے بغیر اس کا کوئی امکان نہیں کہ امامتِ عالم کا منصب اور آج کے دور کے چیلنج کا ہم مقابلہ کرسکیں۔

انبیاے کرام ؑکا اسوہ کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ میری مثال ایسی ہے کہ کہیں آگ جل رہی ہو اور تم لوگ ہو کہ پروانوں کی طرح دوڑ دوڑ کر اس آگ میں گر رہے ہو‘ اور میں ہوں کہ کمر سے پکڑپکڑ کر تمھیں اس آگ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔

جو لوگ انبیا ؑکے اس مقام سے واقف ہوں اور جو نبیؐ کی دی ہوئی اس تمثیل کو ذہن میں رکھتے ہوں اور یہ جانتے ہوں کہ وہ آگ بھڑک رہی ہے جس میں دنیا کی قومیں سر کے بل گر رہی ہیں کہ جن کو کمر سے پکڑ پکڑ کر بچانا ہماری ذمہ داری ہے‘ وہ آخر اس جذبے سے کیسے خالی ہوسکتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو ہمیں لوگوں کو اس آگ میں گرنے سے بچانا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کہا ہے‘جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔ یہی وہ تعریف ہے جو ہم اپنے لٹریچر میں‘ اپنی تقریروں میں اور اس آیت میں سنتے ہیں:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

شاید ان دو لفظوں کے اندر جو وسعت اور گہرائی ہے اس پر ہم نے پوری طرح غور نہیں کیا ہے۔ یہ اُمت تو برپا ہی ساری انسانیت کے لیے کی گئی ہے۔ یہ محض اپنے لیے برپا نہیں کی گئی ہے‘ یہ صرف پاکستانیوں کے لیے نہیں کی گئی ہے‘ بلکہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہے‘ یہ سارے انسانوں کے لیے برپا کی گئی ہے۔ لہٰذا اس کی دعوت سارے انسانوں کے لیے عام ہونی چاہیے۔

معاشرتی بگاڑ اور اسلامی معاشرے کا قیام

وہ لوگ جنھیں ایک معاشرے کو بدل کر ایک نئے معاشرے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینا ہو‘ ایک نئے معاشرے کی قیادت کو سنبھالنا ہو‘ ان کے لیے بھی‘ اور جسے سارے عالم کی قیادت سنبھالنا ہو‘ اس کے لیے بھی یہ مسئلہ ہے کہ سارے کے سارے انسان کبھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے‘ ایک معیار کے نہیں ہوسکتے۔ اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس بات کو ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ساری کی ساری بھیڑیں یا تو سفیدہوں یا کالی۔ عملاً صورت حال تو یہ ہوگی کہ    کالی اورسفید بھیڑوں کے درمیان ۹۹ فی صد بھیڑیں وہ ہوں گی ‘ جن کی سفید اور کالی کھالوں کے اوپر سیاہ اور سفید دھبے موجود ہوں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال انسانی معاشرے کی بھی ہے۔

انسانی معاشرے کو اس صورت حال سے کوئی مفر نہیں۔ مدینے کے معاشرے میں عبداللہ بن ابی جیسے رئیس المنافقین بھی تھے اور ضعیف الایمان لوگ بھی تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو میدانِ جہاد میں نبی کریمؐ کو تنہاچھوڑکر پلٹ آیا کرتے تھے‘ اور وہ لوگ بھی تھے کہ حضوؐرمنبر پر کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے ہیں اور وہ آپؐ کو چھوڑ کر مالِ تجارت کے لیے دوڑ پڑتے تھے۔ ان سارے لوگوں کی مثالیں قرآن مجید کے اندر موجود ہیں۔

یہ کبھی ممکن نہیں ہے کہ پورے کا پورا معاشرہ ایک رنگ میں‘ ایک معیار پر قائم ہوجائے۔ لہٰذا جن کو معاشروں کو لے کر چلنا ہو‘ جن کو پوری کی پوری ریاستوں کو لے کر چلنا ہواور جن کو سارے کے سارے عالم کو اپنے ساتھ لے کرچلنا ہو‘ ان کو اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنا ہوگی کہ وہ ہرقسم کے انسانوں کو اپنے ساتھ لے کر چل سکیں۔ گناہ گار بھی آئیں تو شفقت پائیں اور گناہ سے مغفرت اور نجات پائیں۔

یہ ایک عملی دشواری ہے کہ ایک بگڑے ہوئے معاشرے کو بدلناہے اوراس بگڑے ہوئے معاشرے کے انسانوں کی اصلاح کے ذریعے انھیں ایک قوت میں ڈھالنا ہے۔ بظاہر یہ ایک متضاد بات ہے۔ اسی لیے بعض دفعہ لوگ مایوس ہوجاتے ہیں کہ عوام ایسے ہیں‘ جاہل ہیں‘ کالانعام ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کے ذریعے یہاں پر اسلامی انقلاب برپا ہوجائے۔ تحریک اسلامی کو تو ابھی اسی ملک کے عوام سے واسطہ درپیش ہے۔ اگر ہم عالمی چیلنج کا سوچیں تو افریقہ کے جنگلات میں‘ نیویارک اور واشنگٹن میں اور ٹوکیو میں‘ ساری دنیا میں بسنے والے انسانوں سے ہمیں معاملہ کرنا ہے۔ ان سب تک ہمیں محمدرسولؐ اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔ انھیں کس طرح سے ایک قوت میں ڈھالنا ہے‘ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جو اُمت مسلمہ کو درپیش ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: دو ہی طریقوں سے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُوْمِنِیْنَ o (انفال ۸:۶۲)

وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے تمھاری تائید کی۔

مومنین کی یہ جماعت انسانوں ہی کے ذریعے بن سکتی ہے۔ حضوؐر کی روش ہمارے سامنے ہے۔ ہرطرح کے لوگ آتے تھے اور آپؐ  سے فیض پاتے تھے۔ کمزور بھی آتے تھے اور گناہ گار بھی اور مضبوط ایمان والے بھی‘ سب مل کر آپؐ  کے ساتھ کام کرتے تھے جو آپؐ  کے پیش نظر تھا۔

ایک روشن مثال

سیدقطبؒ اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں‘ آخری پارے میں ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہیںاور اس سے آپ کے سامنے پورا منظر آسکتا ہے کہ کس طرح معاشروں کو چلایا جاسکتا ہے اور معاشروں پر غالب آیا جاسکتا ہے۔

ایک شخص حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی ضرورت کا اظہار کیا اور کہا کہ میری کچھ مدد کیجیے۔ آپؐ نے اس کی کچھ مدد کی مگر وہ اس کی نظر میں کم اور ناکافی تھی۔ اس پر اس نے کہا: آپؐ  اچھے آدمی نہیں ہیں‘ آپؐ کا قبیلہ بھی اچھا نہیں ہے‘ آپؐ  فیاض نہیں ہیں اور آپؐ  کے آباواجداد بھی فیاض نہیں تھے۔ اس نے بہت کچھ کہہ ڈالا۔ یہ سن کر صحابہ کرامؓ کے چہرے غصے سے سرخ ہوگئے اور ہونے بھی چاہییں تھے۔ وہ اس کو مارنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے مگر آپؐ  نے ان کو روک دیا۔

یہ کہہ کرآپؐ  اپنے حجرے میں چلے گئے۔ پھر اس آدمی کو بھی اندر بلایا اور اس کو مزید کچھ دیا اور کہا کہ اب تو خوش ہو۔ اس نے کہا کہ آپؐ  بڑے اچھے آدمی ہیں‘ بڑے فیاض ہیں‘ بڑے اچھے خاندان کے ہیںاور آپؐ  سے بہتر کوئی آدمی نہیں۔ حضوؐر نے فرمایا: اچھا‘ ابھی باہر جو بات تم نے کہی تھی‘ میرے ساتھی اس سے بہت ناراض ہیں۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کل تم پھر آئو اور جو بات تم نے ابھی کہی ہے ان سب کے سامنے بھی دہرائو۔ اس نے کہا کہ مجھے کیا تامل ہے‘ میں آجائوں گا۔

اگلے دن آپؐ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ آدمی پھر آیا۔ آپؐ نے پورا واقعہ    صحابہ کرامؓ کے سامنے بیان کیا کہ کل یہ شخص آیا تھااوراس نے جو بات کہی تھی اس سے تمھیں رنج ہوا تھا۔ اب یہ کچھ اور بات کہتا ہے وہ بھی تم سن لو۔ جب اس نے کل والی بات دہرائی اورحضوؐر کی فیاضی بیان کی تو صحابہؓ بہت خوش ہوئے۔

اس پر آپؐ  صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہوئے اور یہ بات ہم سب کے لیے بہت اہم اور بہت غور طلب ہے۔ آپؐ  نے فرمایا کہ میری اور تمھاری مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی اُونٹنی کا مالک ہو اوروہ اس اُونٹنی پر سوار ہوا تو وہ بے قابو ہوگئی‘ اور اس کے ساتھی ڈنڈے لے کر اس اُونٹنی کو قابو میں کرنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑ پڑے۔ مگر وہ انھیں دیکھ کر مزید بدک گئی۔ اس پر مالک نے ان سے کہا کہ ٹھیرجائو۔ اس اُونٹنی کا معاملہ تم میرے اُوپر چھوڑ دو‘ میںاس کو سدھار لوں گا۔ اس کے بعد اس اُونٹنی کے مالک نے اپنے ہاتھ میں کچھ چارہ لیا اور وہ اس اُونٹنی کو دکھایا۔ جب اُونٹنی نے دُور سے چارہ دیکھا تو وہ پلٹ آئی اور آہستہ آہستہ قریب آتی گئی۔ جب وہ مالک کے بالکل قریب آگئی تو مالک نے چارہ اس کے سامنے ڈال دیا۔ جب وہ چارہ کھانے میں مصروف ہوگئی تو اس نے اس کے اُوپر کجاوہ کسا‘ اس پر بیٹھا اور اپنی منزل کی طرف چل پڑا۔

ان الفاظ کے اندر جوحکمت پوشیدہ ہے ان پر غور کیجیے۔ ان معاشروں پر کجاوہ کس کر سواری کرنے کے لیے اور ان پر بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہونے کے لیے‘اور ان کی قیادت سنبھالنے کے لیے‘ ان کی باگ ڈور اپنے ہاتھ لینے کے لیے ہمیں اُونٹنی کے اس مالک کی طرح بننا پڑے گا جس کی مثال سیرت کے اس واقعے کے اندر موجود ہے۔

صلاحیت اور استعداد کا لحاظ

ایک اور پہلو جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ سب سے اچھا دین وہ ہے جو ’حنیفیت‘ اور ’سہل‘ پر مبنی ہو۔ حنیفیت یہ ہے کہ آدمی صرف اللہ کاہوجائے اور ’سہل‘ کا مطلب آسانی ہے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہرشخص پر اس کی استطاعت کے مطابق بوجھ ڈالا جائے۔ کسی پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ اس پہلو کو بھی ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔

جب کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے تھے‘ اور یدخلون فی دین اللّٰہ افواجا کا منظر تھا تو ایک وفد حضوؐر کے پاس آیا۔ ایک شخص نے حضوؐر سے پوچھا کہ آپؐ  کا قاصد ہمارے پاس آیا اوراس کا یہ کہنا ہے کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بناکر بھیجا ہے۔ کیا وہ سچ کہتا ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: ہاں‘ وہ سچ کہتا ہے۔ اس نے آپؐ  کو قسمیں دے دے کر پوچھا کہ کیا واقعی آپؐ  کو اللہ نے رسول بنایا ہے؟ پھر وہ کہتا ہے کہ کیا نماز پڑھنے کا حکم واقعی اللہ نے آپؐ  کو دیا ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: ہاں۔ پھر وہ روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھتا ہے کہ کیا واقعی آپؐ  کو اللہ نے حکم دیا ہے؟ آپؐ   نے فرمایا: ہاں۔ اس طرح اس نے حج اور دوسری چیزوں کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر یہی آپؐ  کو اللہ نے حکم دیا ہے تو میں ان پانچ ارکان میں نہ کمی کروں گا نہ زیادتی۔ اس کے بعدوہ چلا گیا۔ جب وہ چلا گیا تو حضوؐر نے فرمایا کہ اگر تمھیں کسی ایسے آدمی کو دیکھنا ہو جو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تو اس شخص کو دیکھ لو۔ مگر سب سے یہی مطالبہ نہیں تھا۔ بعض لوگوں سے یہ مطالبہ تھا کہ تم کسی سے کچھ نہ مانگو گے‘ یہاں تک کہ اگر گھوڑے کا کوڑابھی نیچے گرجاتا تو وہ دوسروں سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر ہمیں دے دو بلکہ خود نیچے اُتر کر اٹھا لیتے تھے۔ بہت سوںسے جان ومال کی بیعت اور عہد لیا جاتا تھا۔

گویا آپؐ ہر ایک سے اس کی صلاحیت اور استعداد کے مطابق معاملہ فرماتے۔ لہٰذا سب کو ایک سانچے میں فٹ نہیں کیا جاسکتا بلکہ مختلف انسانوں کی مختلف سوچ‘ مزاج‘ صلاحیت اور استعداد کی بنا پر الگ الگ معاملہ کیا جانا چاہیے۔ ایک ہی ڈنڈے سے سب کو ہانکنا خلافِ حکمت ہے۔

زندگی کی دائروں میں تقسیم

دین کی حنیفیت اور اس کے یسر ہونے میں ایک نہایت اہم بات ہے جو ہمیشہ نظروں کے سامنے رہنی چاہیے۔ وہ یہ کہ ہم بار بار یہ بات کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے اور  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ دین کا کوئی گوشہ اسلام کے دائرے سے باہر نہیں۔ کھانا کھانا بھی ثواب تھااور پانی پینا بھی۔ شعروشاعری بھی حج کے راستے میں ہوا کرتی تھی اور حج پر جاتے ہوئے پوری پوری رات شعر سنتے گزرجایا کرتی تھی۔ یہ خلفاے راشدین کا واقعہ ہے۔ یہاں تک کہ میاں بیوی کے تعلق کے بارے میں بھی آپؐ  نے فرمایا کہ یہ بھی اجروثواب کا باعث ہے۔ گویا کوئی بھی چیز دین سے باہر نہیں۔ یہاں تک کہ آپؐ  نے جب دو تہوار مقرر فرمائے تو آپؐ  نے فرمایا: کھیل کود‘ کھاناپینا اور تفریح بھی دین میں شامل ہے۔

زندگی کو دو حصوں میں نہیں بانٹا جاسکتا کہ دین پر عمل کرنا ہو تو تحریک میں آئو اور اگر باقی دنیوی کام کرنے ہوں تو تحریکی دائرے سے باہر جاکر کرو۔ کوئی تحریک اس طرح پورے کے پورے انسانوں کو لے کر نہیں چل سکتی۔ پھر اس کا حشر یہ ہوتا ہے کہ لوگ بٹ جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک حصہ تو اقربا‘ رشتہ داروں‘ شادی بیاہ کی مجلسوںاور دیگر گھریلو ذمہ داریوں کے لیے   ہوتا ہے جہاں وہ دین کی ہدایت اور احکام کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں‘ جب کہ دوسرا دائرہ دعوت دین اور تنظیم اور اس کی سرگرمیوں پر مبنی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنی زندگی کے ایک دور میں‘ نوجوانی کے عالم میں‘ تحریک کے کارکن بن جاتے ہیں‘ ۲۴ گھنٹے اسی کام میں لگاتے ہیں۔ دوسری طرف جیسے ہی عملی زندگی کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں تو اکثریت ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہوجاتی ہے۔ پھروہ پوری زندگی کو دین کے دائرے میں رہتے ہوئے نباہ نہیں پاتے اور دینی و دنیاوی تقسیم کا شکار ہوجاتے ہیں۔ میں محض کارکنوں کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم عام انسانوں کو ساتھ لیے بغیر انقلاب نہیں لاسکتے۔ جب بھی انقلاب لانا ہوگا تو عام انسانوں کی پوری زندگی کو دین کے ماتحت لانا ہوگا یہ دینی و دنیاوی تقسیم کو لازماً ختم کرنا ہوگا۔

تدریج اور اجتھاد

اللہ اور اس کے رسولؐ نے اس بات کو واضح فرما دیا ہے کہ دین میں کچھ چیزیں ہیں کہ جو فرائض کا درجہ رکھتی ہیں اور کچھ نوافل کا۔ دونوں کا مقام و مرتبہ ایک جیسا نہیں ہے۔ اس بات کو ایک حدیث میں بھی واضح کیا گیا ہے جو امام نوویؒ نے اربعین نووی میں درج کی ہے کہ کچھ چیزیں ہیں جو فرائض کے طور پر آئی ہیں‘ ان فرائض کو کبھی ضائع مت کرنا۔ کچھ چیزیں ہیں کہ اللہ نے ان کو حرام قرار دیا ہے‘ ان حرام چیزوں میں کبھی نہ پڑنا۔ اللہ نے کچھ حدود عائد کردی ہیں‘ ان حدود سے باہر نہ نکلنا۔ ممکن ہے کہ حدود کی بات پوری طرح سمجھ میں نہ آئے۔ اس بات کو ایک مثال سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ سڑک پر ٹریفک کے لیے لائن بنی ہوتی ہے۔ گاڑی کو اس لائن میں چلانا ہوتا ہے اور ٹریفک سگنل کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔ اب کوئی تیزچلے یا آہستہ یا رُک جائے‘ اسے ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا ہوتی ہے اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے گاڑی چلانا ہوتی ہے۔

اسی طرح زندگی میں اسلام نے کچھ حدود مقرر کردی ہیں‘ لہٰذا ان کی پابندی کرنا ہوگی۔ ایک بڑے دائرے میں اللہ تعالیٰ خاموش رہا ہے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ یہ اس لیے نہیں ہے کہ اللہ سے کوئی غلطی ہوگئی‘ یا یہ کہ وہ بھول گیا ہے‘ بلکہ یہ تمھارے لیے باعثِ رحمت ہے۔ لہٰذا زندگی کے معاملات میں ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔

اسلام کے پیغام سے پوری انسانیت کو روشناس کرانے کے لیے اور ایک عالمی انقلاب برپا کرنے کے لیے اجتہاد بھی ناگزیر ہے۔ سیدمودودیؒ کے الفاظ میں: تہذیب و تمدن کے وہ معمار جن کے اندر اجتہاد کی یہ صلاحیت ہوکہ وہ ہرمسئلے کو اسلام کی روشنی میں حل کرسکیں‘ جو نت نئے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں ڈھونڈ سکیں‘ وہی دنیا کے امام بن سکیں گے۔ لہٰذا دورِ جدید میں جہاں تغیر، تبدل کی رفتاراتنی تیزہے وہاں اجتہاد بھی ناگزیر ہے۔

عالمی راے عامہ کی تشکیل

سید مودودیؒ نے ایک موقع پر فرمایا تھا اور روداد جماعت اسلامی حصہ اول میں ان کے یہ الفاظ موجود ہیں کہ کسی ایک ملک میں اسلامی انقلاب نہیں آسکتا جب تک کہ بین الاقوامی سطح پر  اسلام کے حق میں راے عامہ ہموار نہیں کی جاتی ہے۔ انھوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب  ڈش انٹینا اور ٹیلی ویژن نہیں تھا۔ جب جٹ ہوائی جہاز نہیں تھااور پلک جھپکنے میں ایک خبردنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک نہیں پہنچتی تھی۔ یہ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا جب انھوںنے خداداد بصیرت کے تحت یہ فرمایا تھا: مسقبل کے چیلنج اور عالمی اسلامی انقلاب کے پیش نظر عالمی راے عامہ کی تشکیل کی اہمیت آج کل سے زیادہ ہے بلکہ ناگزیر ہے۔

خدا کی نصرت

آخری بات جو میں سمجھتا ہوں کہ ضروری ہے اور جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے اور جس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا‘ وہ ہے: لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں پوری کوشش کرنی ہے لیکن قوت صرف اللہ کے پاس ہے اور اس کی مدد کے بغیر کوئی معرکہ سر نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کے دل اس کے ہاتھ میں اس طرح ہیں کہ جس طرح دو انگلیوں کے درمیان ہوں۔ وہ چاہے تو پلک جھپکنے میں لوگوں کے دل پلٹ سکتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنے حصے کی پوری محنت کرنا ہے۔

فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْص وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰیج (الانفال ۸:۱۷) پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اوراے نبیؐ،تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔

درحقیقت کام کرنے والی ذات وہی ہے‘ ہم تو صرف بہانہ ہیں۔ لیکن اس بہانے کو اپنی پوری قربانی‘ جدوجہد‘ اجتہاد‘ جہاد‘وسعتِ نظر‘ وسعتِ قلب اور اس شعور اور ادراک سے کرنا ہے کہ یہ ہمارا خواب ہے اور اس خواب کی تعبیر ہم ہیں۔ اگر عرب کے بدو اور چرواہے دنیا کے امام بن سکتے ہیں توکوئی وجہ نہیں ہے کہ آج ہزاروں لاکھوں لوگ جو اسلام کی پکار پر جمع ہوچکے ہیں وہ دنیا کے امام نہ بن سکیں۔ یہ دروازہ کھلا ہوا ہے اور منتظر ہے کہ کب ہم اس میں داخل ہوں۔میری نظر میں یہ وہ صفات ہیں جن کے بغیر اس عظیم الشان چیلنج کا جواب نہیں دیا جاسکتا جو آج ہمارے دروازے پردستک دے رہا ہے۔(کیسٹ سے تدوین: امجد عباسی)