یہ ایک حقیقت ہے کہ اہلِ ایمان کی مدد کے لیے فرشتے نازل ہوتے ہیں‘ ان کے لیے دعاے رحمت و مغفرت کرتے ہیں‘ مدح و ثنا کرتے ہیں اور ان پر سلام بھیجتے ہیں۔ قرآن میں اس کا ذکر آیا ہے۔ ہم یہ مقامات پیش کر رہے ہیں۔(ادارہ)
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ج (حٰم السجدۃ۴۱:۳۰-۳۱) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘ یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ’’ نہ ڈرو‘ نہ غم کرو‘ اور خوش ہو جائو اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دُنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی‘‘۔
فرشتوں کا یہ نزول ضروری نہیں ہے کہ کسی محسوس صورت میں ہو اور اہلِ ایمان اُنھیں آنکھوں سے دیکھیں یا ان کی آواز کانوں سے سنیں۔ اگرچہ اللہ جل شانہ‘ جس کے لیے چاہے فرشتوں کو علانیہ بھی بھیج دیتا ہے‘ لیکن بالعموم‘ اہلِ ایمان پرخصوصاً سخت وقتوں میں جب کہ دشمنانِ حق کے ہاتھوں وہ بہت تنگ ہو رہے ہوں‘ ان کا نزول غیرمحسوس طریقے سے ہوتا ہے‘اور اُن کی باتیں کان کے پردوں سے ٹکرانے کے بجاے دل کی گہرائیوں میںسکینت و اطمینانِ قلب بن کر اُترتی ہیں۔ بعض مفسرین نے فرشتوں کے اِس نزول کو موت کے وقت‘ یا قبر‘ یا میدانِ حشر کے لیے مخصوص سمجھا ہے۔ لیکن اگر اُن حالات پر غور کیا جائے جن میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں تو اس میں کچھ شک نہیں رہتا کہ یہاں اس معاملے کو بیان کرنے کااصل مقصد اِس زندگی میں دین حق کی سربلندی کے لیے جانیں لڑانے والوں پر فرشتوں کے نزول کا ذکر کرنا ہے‘ تاکہ انھیں تسکین حاصل ہو‘ اور ان کی ہمت بندھے‘ اور ان کے دل اس احساس سے مطمئن ہوجائیں کہ وہ بے یارومددگار نہیں ہیں بلکہ اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ ہیں۔ اگرچہ فرشتے موت کے وقت بھی اہلِ ایمان کا استقبال کرنے آتے ہیں‘ اور قبر ( عالمِ برزخ) میں بھی وہ ان کی پذیرائی کرتے ہیں ‘ اور جس روز قیامت قائم ہوگی اس روز بھی ابتداے حشر سے جنت میں پہنچنے تک وہ برابر اُن کے ساتھ لگے رہیں گے‘ لیکن ان کی یہ معیت اسی عالم کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہ جاری ہے ۔ سلسلۂ کلام صاف بتا رہا ہے کہ حق و باطل کی کش مکش میں جس طرح باطل پرستوں کے ساتھی شیاطین واشرار ہوتے ہیں اسی طرح اہلِ ایمان کے ساتھی فرشتے ہوا کرتے ہیں۔ ایک طرف باطل پرستوں کو ان کے ساتھی ان کے کرتوت خوش نمابنا کر دکھاتے ہیں اور انھیں یقین دلاتے ہیں کہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جو ظلم و ستم اور بے ایمانیاں تم کر رہے ہو‘ یہی تمھاری کامیابی کے ذرائع ہیں اور انھی سے دنیا میں تمھاری سرداری محفوظ رہے گی۔ دوسری طرف حق پرستوں کے پاس اللہ کے فرشتے آکر وہ پیغام دیتے ہیں جو آگے کے فقروں میں ارشاد ہو رہا ہے۔
یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جو دنیا سے لے کر آخرت تک ہر مرحلے میں اہلِ ایمان کے لیے تسکین کا ایک نیا مضمون اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اِس دنیا میں فرشتوں کی اس تلقین کا مطلب یہ ہے کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی بالادست اور چیرہ دست ہوں‘ اُن سے ہرگز خوف زدہ نہ ہو اور حق پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اور محرومیاں بھی تمھیں سہنی پڑیں‘ ان پر کوئی رنج نہ کرو‘ کیونکہ آگے تمھارے لیے وہ کچھ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہے۔ یہی کلمات جب موت کے وقت فرشتے کہتے ہیں توان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جارہے ہو وہاں تمھارے لیے کسی خوف کا مقام نہیں ہے‘ کیونکہ وہاں جنت تمھاری منتظر ہے‘ اور دنیا میں جن کو تم چھوڑ کر جارہے ہو ان کے لیے تمھیں رنجیدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘ کیوں کہ یہاں ہم تمھارے ولی و رفیق ہیں۔ عالمِ برزخ اور میدانِ حشرمیں جب فرشتے یہی کلمات کہیں گے تواس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہاں تمھارے لیے چین ہی چین ہے‘ دنیا کی زندگی میں جو حالات تم پر گزرے ان کا غم نہ کرو‘ اور آخرت میں جو کچھ پیش آنے والاہے‘ ا س کا خوف نہ کھائو‘ اس لیے کہ ہم تمھیں اُس جنت کی بشارت دے رہے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔(تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۴۵۴-۴۵۶)
ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِط وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا o تَحِیَّتُھُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ وَ اَعَدَّ لَھُمْ اَجْرًا کَرِیْمًا o(الاحزاب ۳۳:۴۳-۴۴)وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمھارے لیے دُعاے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمھیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے‘ وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے۔ جس روز وہ اس سے ملیں گے اُن کا استقبال سلام سے ہو گا اور اُن کے لیے اللہ نے بڑا باعزت اجر فراہم کر رکھا ہے۔
اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ کفار و منافقین کی ساری جلن اور کڑھن اُس رحمت ہی کی وجہ سے ہے جو اللہ کے اِس رسول کی بدولت تمھارے اُوپر ہوئی ہے۔ اُسی کے ذریعے سے ایمان کی دولت تمھیں نصیب ہوئی‘ کفر و جاہلیت کی تاریکیوں سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آئے‘ اور تمھارے اندر یہ بلند اخلاقی و اجتماعی اوصاف پیدا ہوئے جن کے باعث تم علانیہ دوسروں سے برتر نظر آتے ہو۔ اسی کا غصہ ہے جو حاسد لوگ اللہ کے رسولؐ پر نکال رہے ہیں۔ اس حالت میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کر بیٹھنا جس سے تم خدا کی اس رحمت سے محروم ہو جائو۔ صلٰوۃ کا لفظ جب علٰی کے صِلیکے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی رحمت‘ مہربانی اور شفقت کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکہ کی طرف سے انسانوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی دعاے رحمت کے ہوتے ہیں‘ یعنی ملائکہ انسانوں کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ تو اِن پر فضل فرما اور اپنی عنایات سے انھیں سرفراز کر۔ ایک مفہوم یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ کا یہ بھی ہے کہ یشیع عنکم الذکرالجمیل فی عباد اللّٰہ‘ یعنی اللہ تعالیٰ تمھیں اپنے بندوں کے درمیان نام وری عطا فرماتا ہے اور تمھیں اس درجے کو پہنچا دیتا ہے کہ خلقِ خدا تمھاری تعریف کرنے لگتی ہے اور ملائکہ تمھاری مدح و ثنا کے چرچے کرتے ہیں۔
اصل الفاظ ہیں: تَحِیَّتُھُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ، ’’ان کا تحیّہ اس سے ملاقات کے روز سلا م ہو گا‘‘۔ اس کے تین مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ خود السلام علیکم کے ساتھ ان کا استقبال فرمائے گا‘ جیسا کہ سورئہ یٰسٓ میں فرمایا: سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ (۳۶:۵۸)۔ دوسرے یہ کہ ملائکہ ان کو سلام کریں گے‘ جیسے سورئہ نحل میں ارشاد ہوا : اَلَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلَامٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ،’’ جن لوگوں کی رُوحیں ملائکہ اس حالت میں قبض کریں گے کہ وہ پاکیزہ لوگ تھے‘ اُن سے وہ کہیں گے کہ سلامتی ہو تم پر‘ داخل ہوجائو جنت میں اپنے اُن نیک اعمال کی بدولت جو تم دنیا میں کرتے تھے‘‘ (۱۶:۳۲)۔ تیسرے یہ کہ وہ خود آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے‘ جیسے سورئہ یونس میں فرمایا: دَعْوٰھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّہُتُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ،’’وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ خدایا‘ پاک ہے تیری ذات‘ ان کا تحیّہ ہو گا سلام‘ اور اُن کی تان ٹوٹے گی اس بات پر کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے‘‘ (۱۰: ۱۰)۔ (ایضاً‘ ص ۱۰۴-۱۰۵)
اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ج (المومن ۴۰: ۷) عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے‘ اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں‘ سب اپنے رب کی حمدکے ساتھ اس کی تسبیح کررہے ہیں۔ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دُعاے مغفرت کرتے ہیں۔
یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفارِ مکّہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں ‘ اور ان کے مقابلے میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ اِن گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو‘ تمھارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمھارے حامی ہیں اور تمھارے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجاے عرشِ الٰہی کے حامل اور اس کے گرد و پیش حاضر رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوندی کے عام اہل کار تو درکنار‘ وہ ملائکہ مقربین بھی جو اس سلطنت ِکے ستون ہیں اور جنھیں فرماںرواے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے ‘ تمھارے ساتھ گہری دل چسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔ پھر یہ جو فرمایا گیاکہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعاے مغفرت کرتے ہیں‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے‘ اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے ان خاکی انسانوں سے دل چسپی پیدا ہوئی ہے جو انھی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ فرشتوں کے اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے‘ مگر انھوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ وحدہ‘ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انھیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سراطاعت جھکاتے ہوں۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلافِ جنس اور بُعدِمقام کے باوجود اُن کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہوگیا۔(ایضاً، ص ۳۹۴)