سوال: ہم چند دوست احباب نے ایک ٹرسٹ قائم کیا ہے‘ جس کا بنیادی مقصد غریب عوام کو علاج معالجے اور طبی سہولیات کی فراہمی ہے۔ اس ٹرسٹ کا ذریعہ آمدن زکوٰۃ اور صدقات ہیں۔ اسی سے ٹرسٹ کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ درج ذیل امور میں ہماری رہنمائی کریں:
۱- کیا ہم اس رقم سے ٹرسٹ کے جائز اور ضروری اخراجات‘ مثلاً دوائیں‘ ڈاکٹر اور سٹاف کی تنخواہیں پورا کرسکتے ہیں؟
۲- کیا عوام کے لیے مختلف امراض کے بارے میں معلوماتی پمفلٹ اس رقم سے شائع کر سکتے ہیں؟
۳- فری میڈیکل کیمپ اور امورِ صحت سے متعلق پروگرام کے انعقاد کے لیے اخراجات اس سے پورے کرسکتے ہیں؟
۴- کیا اس زکوٰۃ کی رقم کو ٹرسٹ کے مفاد میں اس کی آمدن بڑھانے کے لیے وقتی طور پر زمین کے کاروبار میں لگا سکتے ہیں؟
۵- کیا اس رقم کو ٹرسٹ کا ہسپتال یا ڈسپنسری بنانے کے لیے زمین اور اس کی عمارت کے لیے خرچ کیا جا سکتا ہے؟
جواب: زکوٰۃ کے مصارف قرآن پاک میں مقرر کردیے گئے ہیں‘ اس لیے ان میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی‘ اور نہ کسی کو اس میں کمی بیشی کا اختیار ہے۔ زکوٰۃ سے جو ٹرسٹ قائم کیا جائے اس کا پروگرام ایسا ہو کہ صرف فقرا و مساکین پر اسے صَرف کیا جائے۔ زکوٰۃ کی رقم کو تعمیرات پر نہیں لگایا جاسکتا‘ نہ ہسپتال کے لیے دیگر سامان اس سے خریدا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کوئی ایسا ٹرسٹ قائم کرتے ہیں جس میں زکوٰۃ کی رقم صرف کی جائے‘ تو صرف ایسی صورت میں قائم کیا جاسکتا ہے‘ جب کہ آپ ٹرسٹ کی ایک مد میں زکوٰۃ جمع کریں اور دوسری مد میں عطیات‘ عمارت‘ ہسپتال کا سازوسامان‘ ڈاکٹروں کی تنخواہیں عطیات سے پورا کریں‘اور فقرا و مساکین کے لیے دوائیں اور علاج کے اخراجات‘ ایکسرے اور آپریشنز وغیرہ کی فیس زکوٰۃ کی مد سے ادا کریں تاکہ زکوٰۃ کی رقم صرف مستحقین پر صَرف ہو۔ عمارت‘ ہسپتال کا سازوسامان اگر آپ زکوٰۃ سے خریدیں گے تو یہ اس لیے صحیح نہ ہوگا کہ اس سازوسامان سے غریب کے ساتھ امیر بھی استفادہ کرے گا۔ زکوٰۃ کی رقم سے خرید کردہ سازوسامان کا استعمال امیرکے لیے درست نہیں ہے‘ الا یہ کہ اس سازوسامان کے استعمال کا عوض امیر سے لے کرزکوٰۃ فنڈ میں جمع کیا جائے اور اس کو فقرا و مساکین پر صَرف کیا جائے۔ البتہ ڈاکٹر کی فیس اور جو خرچ غریب کے علاج کی مد میں آئے‘ اسے زکوٰۃ کی رقم سے ادا کیا جا سکتا ہے۔
آپ اپنے ٹرسٹ کو مذکورہ اصولوں کے مطابق قائم کریں۔ موجودہ صورت حال میں آپ کا ٹرسٹ اس معیار پر پورا نہیں اُترتا جو زکوٰۃ کی رقم جمع کرنے اور صَرف کرنے کے لیے ضروری ہے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)
س : اپنے مرحومین کے ایصالِ ثواب کی خاطر ہم نے ایک فنڈ قائم کیا ہے تاکہ صدقۂ جاریہ کا ایک نظام بنا سکیں۔ اس فنڈ کا طریقۂ کار یہ ہے کہ ہم چند رشتہ داروں نے مل کر ایک اسلامی بنک میں جوائنٹ اکائونٹ کھولا ہے۔ اس اکائونٹ میں صدقہ‘ خیرات‘ عطیات اور چندے کی نیت سے نکالی جانے والی رقم جمع کی جاتی ہے۔ یہ رقم یا سرمایہ ہم خود‘ اپنے خاندان اور اپنے اعزہ و اقربا سے مندرجہ بالا اکائونٹ میں جمع کرتے ہیں۔ یہ اکائونٹ چند حضرات کے مشترکہ کنٹرول میں ہے اور جمع شدہ سرمایہ کسی کی بھی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ بطورِ امانت اُن کے پاس ہے۔ ہم اس سرمائے کو اسلامی بنکوں کے ذریعے سود سے پاک سرمایہ کاری میں لگاتے ہیں‘ اور جو منافع حاصل ہوتا ہے‘ وہ کسی فلاحی مقصد میں بہ نیت ایصالِ ثواب استعمال کرلیتے ہیں۔
اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ اس اکائونٹ میں مندرجہ بالا مقصد کے لیے ہم کن کن مدات کی رقم وصول کرسکتے ہیں؟ اگر ہم اس سرمائے اور اس کے نفع کو محض ایک مقصد‘ یعنی امراضِ جگر و گردہ میں مبتلا مستحق مریضوں اور اس کام سے منسلک ہسپتالوں کے لیے استعمال کریں تو کیا زکوٰۃ کی رقم سے بھی اس فنڈ کی اعانت کی جاسکتی ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا طریقۂ کار سے جو سرمایہ حاصل ہوتا ہے اُسے ہم پانچ سالوں کے دورانیے کے لیے مختلف حلال منافع بخش اسکیموں میں لگا رہے ہیں۔ کیا اس سرمائے پر زکوٰۃ واجب ہے؟
ج: آپ نے فقرا ومساکین اور نادار لوگوں کی خدمت کے لیے جو اسکیم بنائی ہے وہ قابلِ قدر اور قابلِ تقلید ہے۔ تمام صاحب ِ حیثیت لوگ حاجت مندوں کو روٹی کپڑا‘ رہایش‘ علاج اور تعلیم کے وسائل فراہم کرنے کے لیے اس طرح کی اسکیمیں بنائیں تو اسلامی تہذیب و ثقافت کا احیا ہوگا۔
اصلاً یہ کام تو حکومت کا ہے۔ گذشتہ ادوار میں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات کی روشنی میں زکوٰۃ و عشر اور بیت المال کا جو نظام ترتیب دیا گیا‘ ان سفارشات کو اصل شکل میں نافذ کرنے کے بجاے ترمیم کرکے ناقص شکل میں نافذ کیا گیا۔جس کے نتیجے میںزکوٰۃ و عشر اور بیت المال کا نظام غریبوں کی ضروریات کا کفیل بننے میں ناکام رہا ہے۔
آپ اپنی اس اسکیم کو مستحقینِ زکوٰۃ‘ غربا اور نادار لوگوں کی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے تک محدود رکھیں تو اس اسکیم میں زکوٰۃ بھی جمع کرسکتے ہیں۔ اگر امراضِ جگر و معدہ وغیرہ کے لیے مختص رکھنا چاہیں تو ایسا بھی کرسکتے ہیں‘ لیکن اس سلسلے میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ رقم کسی ہسپتال کو دینے کے بجاے براہِ راست مریض جو زیرعلاج ہے اس کو نقد یا اس شکل میں دیں کہ اخراجات کے بل جو آپ کو دیے جائیں ان کی ادایگی ہسپتال میں کردیں۔ مریض کو ہسپتال میں داخل کرتے وقت ہسپتال کے ساتھ طے ہوجائے کہ بلوں کی ادایگی ہمارے ذمہ ہوگی‘ اس لیے بل ہمیں دیے جائیں اور اگر مریض کو علاج کے علاوہ ضروری اخراجات کے لیے رقم کی ضرورت ہو تو آپ اس کی ادایگی براہِ راست مریض کو کردیں۔
یہ رقم چونکہ فقرا کو دینے کی نیت سے مشترکہ اکائونٹ میں جمع ہے‘ مالکوں کی ملکیت سے نکل چکی ہے لیکن کسی فقیر کی ملکیت میں بھی نہیں آئی‘ اس لیے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ جو بھی نفع ہوگا وہ سب کا سب فقرا و مساکین کو مل جائے گا۔
البتہ اس رقم کو اکائونٹ اور کاروبار میں لگاکر منجمد نہ رکھا جائے‘ بلکہ جس مقصد کے لیے جمع کیا ہے اس پر خرچ بھی کیا جائے اور اتنا خرچ کیا جائے جس سے ایک آدمی کی وہ ضرورت جس کو پورا کرنے کے لیے آپ رقم صرف کر رہے ہیں‘ پوری ہوجائے اور وہ کسی دوسرے کا محتاج نہ رہے۔ تھوڑے افراد کی پوری خدمت‘ زیادہ کی ناقص خدمت سے بہتر ہے۔ آپ جگر و گردے کے علاوہ کسی دوسری بیماری یا دوسری ضروریات کو پورا کرنے کا منصوبہ بھی بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے یہی اصول پیشِ نظر رہے کہ ضرورت مند کو براہِ راست نقد یا فیس کی شکل میں ادایگی کی جائے‘ یا اتنی رقم دے دی جائے جس سے وہ معقول کاروبار کرسکے۔
اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کے خاندان کو خدمتِ خلق کی برکت دنیا میں عزت و وجاہت اور آخرت میں دوزخ کی آگ سے بچائو کی صورت میں عطا فرمائے۔ آمین!(ع-م)
س: میں پیدایشی طور پر بصارت سے محروم ہوں لیکن میں نے اپنی معذوری کو رکاوٹ نہ بننے دیا اور پی ایچ ڈی کرنے میںکامیاب ہوگیا اور اچھی ملازمت بھی مل گئی۔ میری والدہ میری تعلیم کے حق میں نہیں تھیں کہ اس سے دماغ پر زور پڑے گا اور اس پر وہ کچھ ناراض سی ہیں۔ والدصاحب کا تعلق بھی تحریک سے تھا اور والدہ بھی تحریک سے وابستہ ہیں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ کا رویہ میرے مقابلے میں دوسرے بھائیوں سے زیادہ ہمدردانہ ہوگیا اور میری اہلیہ سے بھی ناراض رہنے لگیں۔ میں نے والدہ کی خوشی کے لیے طرح طرح سے کوشش کی‘ جس کا دوسرے لوگ بھی اعتراف کرتے ہیں لیکن والدہ کی ناراضی دُور نہ ہوئی۔
دیگر اہلِ خانہ سے میرا رویہ ہمیشہ جانثارانہ اور ایثار پر مبنی رہا۔ بہت سے مواقع پر میں نے بڑھ چڑھ کر معاونت بھی کی۔ اس سب کے باوجود ایک موقع پر والدہ کی ناراضی مجھے مشتعل کرگئی اور کچھ تلخی ہوگئی۔ چھوٹے بھائی نے مجھے گھر سے چلے جانے کا حکم دیا‘ جب کہ والدہ اور دیگر بہن بھائی خاموش رہے۔ مجھے مجبوراً گھر چھوڑنا پڑا۔ ان حالات میں‘ میں نے بنک سے سود پر قرض لے کر ایک چھوٹا سا مکان لیا۔ اب میں مزید قرض تلے دبا جا رہا ہوں۔ سخت ذہنی دبائو میں ہوں‘ رہنمائی فرمایئے۔
ج: آپ کے خط سے جہاں آپ کی ذہنی کوفت اور پریشانی کا اظہار ہوتا ہے وہاں اس سے کہیں زیادہ آپ کے پُرعزم ہونے‘ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد‘ صلہ رحمی اور قطع رحمی سے اجتناب اور والدہ صاحبہ اور اپنے بھائی بہنوں کے لیے ایثار و قربانی کے جذبے کا پتا چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہترین اجر اس دنیا میں اور آخرت میں دے۔
مسئلہ میری نگاہ میں‘ آپ کی اہلیہ اور آپ کے بھائیوں کی بیویوں کے طرزِعمل میں اختلاف کا نہیں ہے بلکہ دعوتِ اسلامی‘ نظمِ جماعت اور حقوق العباد میں باہمی تعلق کا ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام سے لے کر آج تک تحریک اسلامی نے جن بنیادی امور پر زور دیا ہے‘ ان میں اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ساتھ ساتھ‘ خاندان میں دعوت و اصلاح کو بھی یکساں اہمیت دی ہے۔ فرد کی اصلاح کے ساتھ خاندان اور معاشرے کی اصلاح آخرکار تبدیلیِ قیادت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ لیکن عملاً ہوا یہ ہے کہ شاید تحریک کے نظامِ تربیت میں توسیع دعوت‘ تبدیلیِ معاشرہ اور تبدیلیِ اقتدار زیادہ مرکزیت اختیار کرگئے اور خاندان کے ادارے کی اصلاح کو کارکنوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا۔چنانچہ ایک جانب ایک کارکن خلوصِ نیت اور اپنی تمام تر قوت کے ساتھ تحریک کی دعوت پھیلانے اور نظم کی اطاعت میں مطلوبہ سرگرمیوں میں تو مصروف ہوگیا لیکن وہ اپنے گھر میں مروجہ روایات‘ برادری اور خاندان کے رواج سے اپنے آپ کو آزاد نہ کرسکا۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں آپ کے والد آپ کی پیدایش سے قبل جماعت کے رکن بن چکے تھے اور بعد میں آپ کی والدہ بھی رکن بن گئیں‘ یعنی انھوں نے مطلوبہ نصابِ کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد شعوری طور پر تحریکِ اسلامی کی دعوت پر لبیک کہا‘ اور اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اجتماعات میں شرکت‘ دعوتی سرگرمیوںمیں حصہ اور دیگر فرائض کی ادایگی کا عہد کیا لیکن دعوت کے ایک بنیادی اور اہم نکتے‘ یعنی معاملات کو وہ ترجیح نہ دی جاسکی جس کا وہ مستحق ہے۔
ترجمان القرآن کے قاری اکثر اپنے سوالات کے ذریعے جو مسائل اٹھاتے ہیں وہ معاملات کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ مثلاً خصوصاً شوہر کا بیوی کے ساتھ سلوک‘ یا والدین کے ساتھ اولاد کا معاملہ‘ یا شادی کے بعد ایک شادی شدہ جوڑے اور سسرالی رشتے داروں کے ساتھ ان کے تعلقات۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعلق باللہ اور تبدیلیِ زمام کار میں اپنی کوشش اور کاوش میں ہم اتنے مصروف ہوجاتے ہیں کہ معاملات سے متعلق بہت سی باتیں نظر سے محو ہوجاتی ہیں۔
اس طویل تمہید کے بعد جو سوالات آپ نے اٹھائے ہیں ان کے حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ والدہ کی زیادتی کے باوجود اب‘ جب کہ آپ الگ گھر میں رہ رہے ہیں‘ ان سے تعلق اور ان کے احترام میں کمی نہ آنے دیں۔
دوسری بات یہ کہ جو کچھ آپ کے چھوٹے بھائی بہنوں نے آپ کے ساتھ کیا‘ وہ سراسر ناانصافی اور ظلم ہے‘ لیکن اس کے باوجود آپ ان کی اس زیادتی کو اللہ کی خوشی کے لیے معاف کرتے ہوئے‘ ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں‘ کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع تعلقی کرنے والے رشتے دار سے جڑنے کا حکم دیا ہے۔
تیسری بات یہ کہ جن حالات میں آپ نے بنک سے سود پر قرض لے کر مکان لیا ہے وہ بظاہر اضطرار‘ کی تعریف میں آتے ہیں۔ کوشش کیجیے کہ آپ جلد اس حالتِ اضطرار سے نکل سکیں۔ تحریکی ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ اس قرض سے نکالنے کے لیے آپ کے ساتھ تعاون کریں۔
اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ محترمہ کو اپنی غلطی کا احساس دلائے اور وہ کشادگیِ قلب کے ساتھ آپ سے شفقت و محبت سے پیش آسکیں۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س : میرے والد اور سسر کی بہت اچھی دوستی تھی جس کی وجہ سے والدصاحب نے ہم دونوں بہنوں کی منگنیاں چھوٹی عمر میں ہی ان کے دو بیٹوں سے کردیں۔ میری شادی منگنی کے چار سال بعد ہوگئی۔ منگنی کے وقت میری امی چھوٹی بہن کے لیے راضی نہ تھیں۔ ایک تو اُس کی عمر کی وجہ سے‘ دوسرا یہ کہ ہماری طرف خاندان سے باہر رشتہ کم دیا جاتا ہے۔ لیکن والدصاحب اور سسر کے اصرار پر یہ رشتے طے ہوگئے۔
شادی کے کچھ عرصے بعد میرے والد صاحب بیمار ہوئے اور اسی بیماری کے دوران انھوں نے چھوٹی بہن کے رشتے سے انکار کردیا جس پر میرے سسر ناراض ہوگئے اور مجھے بھی واپس بھیجنے کا کہا۔ مگر میں نے جانے سے انکار کردیا۔ اس پر انھوںنے کہا کہ تم اُن سے کوئی تعلق نہیں رکھو گی۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ اسی دوران میرے والدصاحب بہت بیمار ہوگئے حتیٰ کہ ان کی وفات پر بھی مجھے جانے کی اجازت نہیں ملی۔
آج اس واقعے کو دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے‘ میرے سسر الحمدللہ میرے ساتھ بہت اچھے ہیں مگر ان کے دل میں اُن سب کے لیے نرمی نہیں آتی۔ وہ بظاہر مجھے کہتے ہیں کہ تم پر کوئی پابندی نہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ بچیاں نہیں جائیں گی۔ میں اُن کو چھوڑ کر بھی نہیں جانا چاہتی اور سسر کی اجازت کے بغیر بھی جانا ٹھیک نہیں لگتا۔ اگرچہ میرے شوہر کی طرف سے مجھ پر ایسی کوئی پابندی نہیں لیکن عملاً یہ مشکلات کا باعث ہوگا۔ میری والدہ اب کافی پریشان رہتی ہیں۔ براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
ج: آپ کے سسرصاحب نے ‘ گو وہ عموماً اچھا طرزعمل رکھتے ہیں اور آپ نے بھی ان کے لیے تعریفی کلمات لکھے ہیں‘ عصبیت جاہلیہ کی بنا پر آپ کو آپ کے والد صاحب کی بیماری کے دوران ان کی عیادت اور وفات پر دعاے مغفرت میں شرکت سے محروم رکھ کر اپنے آپ پر اور آپ پر ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں معاف کرے۔ اسی بات کو صاحب قرآن نے قطع رحمی کہہ کر پکارا ہے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے‘ خواہ کسی قسم کی رنجش کیوں نہ ہو‘ تین دن سے زائد اپنے آپ کو کاٹ رکھنے کا حق نہیں ہے۔ انھیںچاہیے کہ وہ استغفار کریں اور آپ کو اپنی والدہ سے ملنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں۔ یہ بھی ظلم ہی کی ایک شکل ہے کہ بچیوں کو لے کر نہ جائو۔
آپ کے شوہر کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگروہ اپنے والد کی اطاعت اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کریں گے تو یہ اللہ اور رسولؐ سے بغاوت کے مترادف ہے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے والد کو اس ظلم سے روکیں اور خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہ کریں۔ آپ کے والد کی وفات پر آپ کو روک کر آپ کے سسر اور شوہر دونوں نے آپ پر اور اپنے اُوپر بہت سخت زیادتی کی ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اللہ کی راہ میں صدقات اور اللہ سے توبہ و استغفار کے ذریعے اپنی غلطی کی تلافی کی کوشش کریں۔(ا-ا)
س: میرے شوہر حافظ قرآن ہیں۔ میری چار بیٹیاں ہیں۔ بچیوں کو حفظ کرانے کا ارادہ اور خواہش اُن کی پیدایش سے ہی میرے دل میں تھی۔ مگر اکثر لوگ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ بچیوں کے حفظ کے معاملے میں احتیاط کرو‘ وہ سنبھال نہیں پائیں گی۔ اس خواہش کی وجہ سے اُن کے لیے ایسے اسکول کا انتخاب کیا تھا جہاں حفظ کا اہتمام تھا اور ساتھ میں تھوڑا سا ماحول بھی نظر آیالیکن اطمینان نہیں۔ رہنمائی فرمائیں۔
ج: والدین پر اولاد کا یہ حق ہے کہ وہ ان کی صحیح اسلامی تربیت کریں کیونکہ حدیث کی روشنی میں وہ اولاد پر راعی بنائے گئے ہیں اور انھیں اس کا جواب اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا۔ اس لیے بچیوں کی صحیح اسلامی تربیت آپ پر اور آپ کے شوہر پر فرض ہے۔ یہ بات بے بنیاد ہے کہ لڑکیاں قرآن کریم کے حفظ کا حق صحیح ادا نہیں کرسکتیں۔ قرآن وسنت کی تمام تعلیمات بغیر کسی جنسی تفریق کے مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ اہتمام ضرور کریں کہ کسی ایسی قاریہ سے حفظ کرائیں جو اپنے طرزِعمل سے انھیں قرآن کے قریب لاسکے‘ کیونکہ بعض معلمین اپنے طرزِعمل کی وجہ سے بچوں کو قرآن کے مطلوبہ طرزِعمل سے دُور کردیتے ہیں۔(ا-ا)