فون کی گھنٹی بجی‘ فون اٹھایا تو نبیلہ کی رندھی ہوئی آواز سنائی دی: باجی مسعودہ افضل فوت ہوگئیں۔ مجھے یقین نہ آیا۔ مسعودہ آپا کے گھر نمبر ملایا تو اُن کی بہو نے اس بات کی تصدیق کردی۔ اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔یوں لگا جیسے میں گھنی چھائوں سے تپتے صحرا میں پہنچ گئی ہوں۔ گھریلو مسائل ہوں یا تحریکی مصروفیات‘ حقیقت میں وہ ہم دونوں بہنوں کے لیے گھنی چھائوں تھیں۔ کبھی سوچا ہی نہ تھا وہ اتنی جلدی آرام کی نیند سو جائیں گی۔ بھاگتی دوڑتی مسعودہ آپا ہروقت فاستقبوا الخیرات کی عملی تصویر بنی نظر آتیں۔ کبھی آرام سے بیٹھے‘ سوتے اور سستاتے ہوئے نہ دیکھا۔ اس وقت ملاقات کے لیے جانا ہے‘ اب درس دینا ہے‘ اب قرآن کلاس ہے‘ شام کو اجتماع ہے‘ اور ساتھ ساتھ گھروالوں کی دل جوئی‘ بچوں کی تربیت اور بہوؤں کو جماعت اسلامی کے ساتھ منسلک کرنے کی فکردامن گیر رہتی۔ اسی طرح بھاگتے دوڑتے بہت ساری بہنوں اور بیٹیوں کو روتا ہوا چھوڑ کر اللہ کے گھر اپنی ابدی قیام گاہ چلی گئیں۔
مسعودہ آپا کا تعلق تحریکی گھرانے سے تھا۔ آپا جی اُم زبیر رشتے میں ان کی خالہ لگتی تھیں۔ تاہم جماعت اسلامی کا لٹریچر اُنھوں نے اپنے بیٹوں کے ذریعے پڑھا۔ ابتدائی طور پر اسلامی جمعیت طلبہ سے متاثر ہوکر دعوت دین کا کام شروع کیا۔ بعد میں جماعت اسلامی کے ساتھ باقاعدہ منسلک ہوگئیں اور وقت گزرنے کے ساتھ جماعت کے ساتھ اُن کی محبت اور رشتہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔حلقہ خواتین لاہور کی نائب ناظمہ بھی رہیں۔ انھوں نے باقاعدہ طالبہ کی حیثیت سے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ جب بی اے میں پہنچیں تو امتحانات سے قبل ہی شادی ہوگئی اور پھر گھریلو مصروفیات کی وجہ سے تعلیم مکمل نہ کرسکیں۔
اللہ نے اُنھیں بیٹی نہیں دی تھی مگر وہ سیکڑوں بیٹیوں کی ماں تھیں۔ لاہور میں پورے ٹائون شپ کے علاقے میں مسعودہ باجی سے قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنے والی لڑکیاں اُنھیں بیٹیوں سے زیادہ عزیز تھیں۔ جو طالبہ ایک مرتبہ اُن کے درس میں آنا شروع کردیتی‘ اُ س سے ہمیشہ تعلق رکھتیں۔ خوشی غمی میں شرکت اور ضروریات کا خیال رکھنا‘ اخلاقی‘ فکری اور مالی امداد یہاں تک کہ اُس طالبہ کے تمام گھروالے بھی مداح ہوجاتے کہ تمھاری استاد تم سے کتنا پیار کرتی ہے۔ بہت ساری خواتین کو جماعت اسلامی کے پروگرام میں شرکت کی اجازت صرف مسعودہ باجی کے اخلاق کی وجہ سے مل جاتی تھی کہ تمھاری درس والی باجی نے بلایا ہے تو ہم انکار نہیں کرسکتے۔
انتخابات کے دنوں میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے جو لوگ بہت اعتراضات کرتے اور ووٹ دینے سے انکار کردیتے‘ جب اُن کے ہاں مسعودہ باجی چلی جاتیںتو گھروالے فوراً کہہ دیتے کہ اب آپ آگئی ہیں تو ہم انکار نہیں کرسکتے۔ ٹائون شپ کے حلقے میں جماعت کے ووٹ بنک میں ان کا کلیدی کردار تھا۔
اُن کی زندگی بھی قابلِ رشک تھی اور موت بھی۔ جمعہ کا مبارک دن‘ ہفتوں کی شدید گرمی کے بعد اللہ نے بارش برسائی اور موسم ٹھنڈا ہوگیا اور اُن کی وفات کے بعد مسلسل تین دن بارش ہوئی اور موسم خوش گوار رہا۔ اللہ نے روح سعید کی تمام علامتیں دکھا دیں تاکہ قریب کے افراد سمجھ لیں کہ اللہ کو کس طرح کے بندے پسند ہیں۔ انھیں ہر وقت ایک ہی فکر تھی کہ دین کی دعوت آگے پہنچ جائے۔ جس تک دعوت پہنچا دی ہے‘ اُسے جماعت اسلامی میں شامل کرلوں۔ اِسی مقصد کے لیے دوستی‘ اسی کے لیے رشتہ داری‘ اسی کے لیے محبت‘ اسی کے لیے خوشی اور غمی میں شرکت۔ دل جوئی‘ تحفے تحائف‘ ضرورت مند کی مدد‘ غرض ہر ذریعہ اختیار کرتیں۔ چپکے سے مدد کردیتی تھیں لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دینا کہ یہ جماعت اسلامی کی طرف سے ہے۔ کسی ضرورت مند کو ایک سوٹ بھی دیا تو یہ کہہ کر دیا کہ یہ جماعت اسلامی کی طرف سے ہے۔ کسی کو ڈھیر سامان بھی دیا تو یہی کہا۔
ہمیشہ ہرکام نظم سے پوچھ کر کیا۔ ڈسٹرکٹ کونسل کی ممبر منتخب ہوئیں تو کچھ حلقوں اور افراد کی طرف سے مطالبات آئے مگر انھوں نے یہی جواب دیا کہ جو میرا نظم کہے گا۔ زندگی کی آخری رات بھی اُن کا فون آیا کہ ناظمہ ضلع کا فون نہیں مل رہا تم بتائو مجھے کیا کرنا ہے۔ میں نے تو متعلقہ فرد سے کہہ دیا ہے کہ جیسا میرا نظم کہے گا‘ میں خود کوئی فیصلہ نہیں کروں گی۔
مسعودہ باجی سے ہمارا تعلق کوئی دو چار روز کا نہیںتھا۔ ۱۸برس پہلے کی بات ہے جب ہم لوگ ٹائون شپ منتقل ہوئے۔ اُس وقت پورے ٹائون شپ میں ایک رکن جماعت صفیہ آپا تھیں اور ہمارے گھر کے قریب مسعودہ باجی درسِ قرآن دیا کرتی تھیں۔ ایک دن جماعت اسلامی کا جھنڈا دیکھ کر ہمارے گھر آگئیں اور درس کی دعوت دی۔ اُس وقت تک ہم لوگ بھی کسی درس یا کلاس کے حلقے سے واقف نہ تھے۔ ابوجماعت کے کارکن تھے‘ اس لیے نام کی حد تک واقفیت تھی۔ جب ہم نے مسعودہ باجی کے درس میں جانا شروع کیا تو ایک دن وہ جمعیت طالبات کی ناظمۂ حلقہ کو ڈھونڈ لائیں اور ہم دونوں بہنوں کو جمعیت میں شامل کروا دیا۔ ہماری جمعیت میں شمولیت کے بعد بھی اُن کا یہ مطالبہ برقرار رہا کہ درس میں ضرور آنا ہے۔ اُن کی محبت اور چاہت کی وجہ سے جب تک وہ حلقہ قائم رہا ہم دونوں بہنیں باقاعدگی سے شریک ہوتی رہیں۔ اسی دوران حمیرا احتشام کراچی سے ٹائون شپ شفٹ ہوئیں تو ان تینوں نے مل کر ٹائون شپ کو جماعت اسلامی کا گڑھ بنا دیا۔ اس وقت ٹائون شپ کے حلقے میں ۱۸ خواتین ارکان اور ۳۰۰کے قریب کارکنان ہیں۔
جمعیت میں چلے جانے کے باوجود ہمارا مسعودہ باجی کے ساتھ اُسی طرح تعلق قائم رہا۔ دن میں بعض اوقات دو تین بار ملاقات ہوجاتی۔ ملاقاتیں کرنے اکٹھے نکلتے‘ درس دینے اکٹھے جاتے‘ خوشی غمی میں شرکت کرنے جاتیں تو ہم میں سے کسی ایک کو ساتھ لے جاتیں اور واپسی پر چھوڑنے آتیں تو دو چار منٹ ضرور بیٹھ کر جاتیں۔ شام کو پانچ بجے درس ہوتا تو تین بجے ہماری طرف آجاتیں۔ کہتیں تم لوگ تو سوتے نہیں ہو‘ بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ اُن کی گفتگو کبھی دنیاداری کی نہیں ہوتی تھی۔ جو کتاب پڑھی ہوتی اُس کے ڈائری پر لیے ہوئے نوٹس پڑھ کر سناتیں۔ اِسی طرح تفسیر کے نوٹس اور اکثر اوقات ڈائری پر پورے پورے واقعات لکھے ہوئے پڑھ کر سناتیں‘ تبادلۂ خیال کرتیں۔ اگر کوئی دنیاوی گفتگو یا کسی کی برائی کرنے کی کوشش کرتا تو اُسے منع کردیتیں۔ میں نے ۱۸سال کے عرصے میں کبھی انھیں کسی کی برائی کرتے نہیں سنا۔
ملاقاتوں کے لیے اکثر پیدل جاتیں اور بعض اوقات زیادہ چلنے سے پائوں میں چھالے پڑجاتے۔ جب ہم لوگ منع کرتے تو کہتیں یہ چھالے قیامت کے دن گواہی دیں گے۔ دوپہر میں جب تپتی دھوپ میں گھر سے نکلتیں تو ہمیشہ یہ کہتیں کہ اس کے بدلے اللہ جہنم کی آگ سے بچالے۔ اُنھیں ہرلمحے موت کی تیاری‘جنت کی طلب اور جہنم کا خوف دامن گیر رہتا۔
اگر کبھی اُن کے دوپٹے‘ پرس‘ ڈائری وغیرہ کی تعریف کردیتے تو فوراً اصرار کے ساتھ دے دیتیں کہ تمھیں پہنا ہوا تو یہ مجھ سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ اگر کبھی کسی ضرورت کا تذکرہ کردیتے تو اُسے پورا کرنے کی دُھن سوار ہوجاتی۔ وفات سے دو دن پہلے میں نے کہا مسعودہ باجی دفتر کے لیے فی ظلال القرآن اور معارف القرآن لے دیں۔ کہنے لگیں رمضان میں مل جائے گا‘ ان شاء اللہ! زندگی کی آخری رات ان کا فون آیا: حمیرا‘ تم نے پتا نہیں کس خلوص سے مانگا تھا۔ فی ظلال القرآن کا سیٹ آگیا ہے‘ کل تمھارے دفتر پہنچا دوں گی اور کچھ دنوں میں معارف القرآن کا بھی آجائے گا۔
کسی پریشانی کا پتا چل جاتا تو بہت دعائیں کرتیں۔ تقریباً سال پہلے کی بات ہے میرے پاس گھریلو کام کے لیے معاون نہ تھی جب پتا چلا تو بہت دعائیں کرتیں‘ کوشش کرتیں پھر فون کر کے پوچھتیں حمیرا‘ کام والی مل گئی ہے؟ میں تو تمھارے لیے صلوٰۃ حاجت پڑھ کردعا کرتی ہوں کہ اللہ کرے تمھیں معاون مل جائے تاکہ تم دعوت دین کا کام سہولت سے کرسکو۔
جب بھی مجھے امی کی طرف جانا ہوتا تو ضرور ہی ملنے آتیں (حالانکہ مرکز میں بھی عموماً ملاقات ہوجاتی تھی)۔ اُنھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم ملنے آجائو‘ ہمیشہ خود ہی بھاگی ہوئی آتیں۔ اگر میں کہتی بھی کہ مسعودہ باجی‘ میں آجاتی ہوں تو کہتیں مجھے زیادہ اجر مل گیا اور تمھارا وقت بچ گیا۔ میں توسوچتی ہوں تمھاری بڑی مصروفیت ہے‘ اس لیے تمھیں مشکل نہ ہو‘ تمھارا وقت قیمتی ہے۔ جب بھی ملتیں تو بہت سارے کام اور منصوبے مع مسائل ہوتے جن پر گفتگو ہوتی۔ ہرچھوٹی بڑی بات پر جب مشورہ مانگتیں تو مجھے بڑی شرمندگی ہوتی۔ میں کہتی: مسعودہ باجی آپ تو میری استاد ہیں۔ آپ سے ہم نے قرآن سنا‘ آپ نے مجھے درس دینا‘ ملاقات کرنا سکھایا اور جمعیت اور جماعت کی دعوت دی۔ آپ اس طرح سے چھوٹی چھوٹی باتیں نہ پوچھا کریں۔ اس پر کہتیں کہ مجھے بات کرکے تسلی ہوجاتی ہے۔ بغیر مشورے کے کام کرنا مشکل لگتا ہے۔ یہ روش آخری دم تک رہی۔
وہ میری استاد بھی تھیں اور محسن بھی‘ ماں بھی تھیں اور دوست بھی۔ یقینا وہ نعمت بھری جنت میں چلی گئیں اور اپنے رب سے انعامات پا رہی ہوں گی۔ لیکن ہمارے لیے وہ ایک خلا چھوڑ گئیں جو کوئی اور پُر نہیں کرسکتا۔ اُن کے بہت سے محاسن ہیں جن کو لکھنا میرے جیسے کم علم کے لیے ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی سعی و جہد کو قبول فرمائے۔ اُن کی حقیقی اور روحانی اولاد کو اُن کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین