عربی کا مشہور اور بڑا سچا مقولہ ہے کہ ’’عالِم کی موت پورے عالَم کی موت کے مترادف ہے‘‘۔ دنیا میں روشنی علم اور اہلِ علم و تقویٰ کے وجود سے ہے اور زندگی میں سب سے بڑا خسارہ ارباب علم و تقویٰ کی محبت سے محرومی اور ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے نتیجے میں رونما ہوتا ہے‘ اور اگر رخصت ہونے والا عالِم شخصی طور پر آپ کا استاد‘ محسن اور مربی بھی ہو تو پھر یہ نقصان اور بھی سِوا ہوجاتا ہے۔ میرے لیے ہی نہیں‘ تحریک اسلامی‘ تحریک اہلِ حدیث اور عالمِ اسلام کے ہزاروں طالبانِ علم کے لیے استاد محترم مولانا عبدالغفارحسنؒ کا ۲۲ مارچ ۲۰۰۷ء کو اس دنیاے فانی سے ابدی زندگی کی طرف کوچ ایک ایسا ہی سانحہ ہے۔ اِنَّا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی تقریباً ایک صدی پر پھیلی ہوئی دینی‘ علمی‘ دعوتی اور تربیتی خدمات کو قبول فرمائے‘ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے‘ اور جنت میں ان کے درجات کو بلند فرمائے‘ اللھم اغفرلہٗٗ وارحمہٗ۔
مولانا عبدالغفار حسنؒ سے میری پہلی حقیقی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب وہ جماعت اسلامی کے شعبۂ تربیت کے ناظم مقرر ہوئے۔ میں اس وقت جمعیت کے ناظم اعلیٰ کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کو دیکھنے کا اس سے پہلے بھی بارہا موقع ملا تھا لیکن وہ سرسری سلام و دعا سے زیادہ نہ تھا‘ اس لیے اس کا کوئی خاص نقش دل و دماغ پر نہیں۔ البتہ ۱۹۵۴ء سے ملاقاتوں اور استفادے کا جو سلسلہ شروع ہو وہ میری زندگی کا بڑی قیمتی سرمایہ ہے۔ فطری طور پر جس پہلی ملاقات کا میں ذکر کررہا ہوں اس کا موضوع جمعیت کی تربیت گاہوں میں مولانا عبدالغفار حسنؒ کی شرکت اور ہمارے پورے تربیتی پروگرام کو مرتب کرنے کے لیے ان کے مشورے اور ہدایات تھیں۔ مولانا کے علم اور خصوصیت سے علمِ حدیث کا رعب تو پہلے سے تھا لیکن اس ملاقات کی سب سے نمایاں یاد مولانا کی طبیعت کی سادگی‘ جس پر معصومیت کی چھاپ نمایاں تھی اور غرورعلم کی جگہ کسرنفسی اور سب سے بڑھ کر طلبہ کے لیے شفقت اور ان کے سارے ہی مطالبات کو بے چوں و چراں تسلیم کرکے دل موہ لینے والی ادا تھی۔مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک بار بھی انھوں نے ہمارے کسی مطالبے کا جواب نفی میں دیا ہو۔
۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۶ تک مجھے مولانا مرحوم سے جمعیت کے پروگراموں کے سلسلے میں بارہا ملنے‘ گھنٹوں استفادہ کرنے‘ اور پھر دو روزہ تربیت گاہ سے بڑھ کر ایک ہفتہ اور دس دس دن کی تربیت گاہوں میں ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ بالعموم وہ ہمارے ساتھ ہی قیام فرماتے۔ درسِ حدیث اور اصولِ حدیث تو ان کے خاص موضوع تھے ہی مگر درسِ قرآن اور تربیتی موضوعات پر بھی باقاعدہ تقاریر کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی نشستوں میں ہماری رہنمائی فرماتے اور کبھی کسی سوال پر کبیدہ خاطر نہ ہوتے۔ ان کے علم کے ساتھ ان کی سیرت‘ ان کی سادگی اور ان کی شفقت کا ہم سب پر گہرا اثر تھا۔ خرم بھائی [خرم مراد] تو ان کے گرویدہ تھے ہی‘ لیکن ہم سب بھی ان کی شخصیت کے اسیر تھے۔
مولانا عبدالغفار حسنؒ کے جماعت میں آنے کے بعد بہت تھوڑا عرصہ قریبی تعلقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ ماچھی گوٹھ میں ان سے کئی بار گفتگو ہوئی اور معاملات کا حل نکالنے کے لیے ملاقاتیں ہوئیں۔ پھر کوٹ شیرسنگھ کی طویل شوریٰ کے دوران جس میں نئے دستور کی تدوین ہوئی برابر ملاقاتیں رہیں۔ بدقسمتی سے اس کے بعد مولانا عبدالغفار حسنؒ جماعت سے مستعفی ہوکر مولانا عبدالرحیم اشرف کے ساتھ فیصل آباد چلے گئے لیکن الحمدللہ اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً ان سے ملنے اور استفادے کا موقع ملتا رہا۔ جب وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں استاذ حدیث تھے‘ اس زمانے میں مجھے پروفیسر عبدالغفور اور جناب صادق حسین کے ساتھ مسجدنبویؐ میں اعتکاف کی سعادت حاصل ہوئی۔ ہر روز ہی مولانا سے ملاقات ہوتی اور ہم ان سے استفادہ کرتے۔ کئی بار انھوں نے درسِ قرآن دیا اور ہمارے بہت سے سوالات کا جواب دیا اور اشکال کی گرہ کشائی فرمائی۔
جمعیت کے زمانے میں مولانا سے حدیث کا سبقاً سبقاً درس لینے کا موقع بھی ملا۔ تقریباً ۸۰احادیث ہم نے ان سے پڑھیں اور کمالِ شفقت سے ایک بار تربیت گاہ کے آخری پروگرام میں فرمایا کہ حدیث کی روایت کے سلسلے کی آخری کڑی وہ خود ہیں۔یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نسلاً بعد نسل ۲۴ سلسلوں سے‘ وہ چند احادیث جن کا انھوں نے ہمیں درس دیا ہے‘ بلافصل ہم تک بھی پہنچ گئی ہیں اور اس طرح مولانا عبدالغفار حسن کے توسط سے ہم بھی وہ خوش نصیب ہیں جو اپنی ساری کمزوریوں اور محرومیوں کے باوجود اس ذہبی سلسلہ سے مربوط ہوگئے ہیں۔ اس وقت مولانا کے اس فیض خاص پر ہم سب پھولے نہیں سمائے۔ بعد میں ان کی کتاب عظمتِ حدیث میں روایت کے اس پورے سلسلے کو دیکھا تو اور بھی خوشی ہوئی کہ اس طرح ہم کو بھی مولانا کے توسط اور ان کی شاگردی کی نسبت سے اس سلسلے کا دامن تھامنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
مولانا عبدالغفار حسنؒ کی پیدایش ۲۰جولائی ۱۹۱۳ء کو ضلع رہتک (مشرقی پنجاب) میں ہوئی۔ انھوں نے دارالحدیث رحمانیہ دہلی سے درس نظامی کی تکمیل اور دورہ حدیث کیا۔ پھر لکھنؤ یونی ورسٹی سے ۱۹۳۵ء میں فاضل ادب عربی اور ۱۹۴۰ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے مولوی فاضل کی سندات حاصل کیں۔ دارالحدیث رحمانیہ دہلی‘ مدرسہ رحمانیہ بنارس اور مدرسہ کوثرالعلم مالیرکوٹلہ میں درس وتدریس کی خدمات انجام دیں۔
ترجمان القرآن کے ذریعے مولانا مودودیؒ سے تعلق قائم ہوا اور ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی تو گو تاسیسی اجلاس میں شریک نہ ہوسکے مگر خط کے ذریعے تاسیسی ارکان میں شامل ہوئے۔ ۱۹۴۸ء میں پاکستان ہجرت کی۔ کچھ عرصہ راولپنڈی میں جماعت کی تربیت گاہ میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ مولانا مودودیؒ کی پہلی گرفتاری کے موقع پر ایک ماہ کے لیے قائم مقام امیرجماعت کی ذمہ داری ادا کی۔ اس کے بعد بھی دو بار قائم مقام امیرجماعت کی حیثیت سے تحریک کی خدمت اور قیادت کی۔ ۱۹۴۳ء سے مرکزی شوریٰ کے رکن رہے اور ۱۹۵۷ء تک جماعت سے وابستہ رہے۔ طریق کار کے بارے میں کچھ اختلاف اور انتخابی سیاست سے اصولی بے زاری کے سبب جماعت سے الگ ہوئے لیکن جماعت کے مقصد‘ یعنی اقامتِ دین کے باب میں کبھی کسی تحفظ کا اظہار نہیں کیا۔ جماعت کے اور خصوصیت سے مولانا مودودیؒ کے علمی کام کے ہمیشہ معترف رہے اور کلمۂ خیر کہتے رہے۔ یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے جماعت جمعیت کے بعد بھی وہ اپنے انداز میں اسی مقصد کی خدمت میں آخری وقت تک مصروف رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنے لیے درس و تدریس کا راستہ اختیار کیا۔ فیصل آباد میں جامعہ تعلیمات اسلامیہ اور مدینہ یونی ورسٹی میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں نوسال رہنمائی کے فرائض انجام دیے۔ تحریک ختم نبوت کے دوران ۱۱ ماہ سنت یوسفی ادا کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور جیل میں بھی درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ کا اس طرح اہتمام کیا کہ جیل مدرسہ میں تبدیل ہوگیا۔
مولانا عبدالغفار حسنؒ کی زندگی بڑی سادہ اور پاک صاف تھی۔ وہ سلف کا نمونہ تھے اور انھیں دیکھ کر اور ان سے گفتگو کرکے ایمان میں اضافہ ہوتا تھا۔ ان کی حکمت بھری مگر بڑی آسان‘ ہلکی پھلکی اور دل نشین باتیں دل پر نقش ہوجاتی تھیں۔ توازن اور میانہ روی مولانا کی زندگی کا شعار تھی۔ کتاب ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ دنیا سے ان کو بس اتنی دل چسپی تھی جتنی روح اور بدن کے رشتے کو باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ دنیا کو خدا کے دین کے مطابق بدلنے کے لیے جس جدوجہد اور کوشش کی ضرورت ہے‘ وہ ان کی زندگی کا مشن تھا۔ میرا پہلا اور اصل رشتہ تو ان سے شاگردی اور تحریکی رفاقت کا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں یہ خوشی بھی لکھی ہوئی تھی کہ ان کے پوتے ڈاکٹر اسامہ حسن کا عقد میری بیٹی سلمیٰ سے ہوا اور اس طرح ہمارے خاندانوں میں بھی ارتباط کی ایک اور خوش گوار صورت پیدا ہوگئی۔
یہ مولانا عبدالغفار حسنؒ کی خوش نصیبی ہے کہ ان کے خاندان میں کم از کم پانچ پشتوں تک علم کی شمع بلافصل روشن رہی ہے۔ ان کے دادا مولانا عبدالجبار عمرپوری بڑے جیدعالمِ دین اور استادعصر تھے۔ ان کے والد مولانا حافظ عبدالستار عمرپوری کم عمری کے باوجود علمی دنیا میں نام پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مولانا عبدالغفار حسنؒ خود اپنے عصر کے اہلِ علم و تقویٰ میں اُونچا مقام رکھتے ہیں اور ان کے صاحبزادے خصوصیت سے ڈاکٹر صہیب حسن‘ ڈاکٹر سہیل حسن اپنے اپنے میدان میں علم کی شمعیں روشن کیے ہوئے ہیں۔ ان کا پوتا ڈاکٹراسامہ حسن انگلستان کی ایک یونی ورسٹی میں انفارمیشن ٹکنالوجی کا استاد ہے۔ وہ بھی‘ الحمدللہ علم دین کے حصول اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں سرگرم ہے۔ یہ اللہ کا بڑا فضل اور انعام ہے جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے‘ذٰلک فضل اللّٰہ یؤتی من یشاء۔