یورپ اور امریکا میں عیسائیوں کی کم ہوتی، اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاملے کو سرسری انداز سے دیکھنے والے حضرات، ان مسلم دانش وروں پر جو اس کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہیں، طنزیہ فقرے کستے ہیں کہ: ’’مسلمان تو بس اسی بات پر خوش ہوئے جارہے ہیں کہ مغرب اور دنیا بھر میں ان کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے‘‘۔ معلوم ہونا چاہیے کہ بات اتنی سرسری سی بھی نہیں ہے۔ آبادی کے اُتارچڑھائو، اور توازن و عدم توازن کے تہذیبی و تمدنی اثرات ہوتے ہیں۔
سادہ سی بات یہ ہے کہ اگر کسی دیگر مذہب کے اضافۂ آبادی سے مغربی ملک میں ان کی اپنی مقامی و دیرینہ آبادی اقلیت میں تبدیل ہوجاتی ہے، نتیجتاً وہاں کی معاشرت، مذہب ، طرزِ تعمیر، کاروبار، اور تعلیم و سیاست وغیرہ سب پر نمایاں اثرات چھوڑتی ہے۔ جیساکہ ہم یورپ کے بعض علاقوں میں آج نمایاں طور پر دیکھ رہے ہیں کہ وہاں حیران کن طور پر مسجدوں کے مینار، حجاب و نقاب اور اُردوو عربی الفاظ ۵۰ اور ۶۰ کے عشروں کے مقابلے میں بہت زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔
یورپ میں صنعتی احیا کے بعد سے معاشرے کی اخلاقی و دینی قدروں میں جو زوال تیزی کے ساتھ رُونماہوا تھا، اس میں معاش کے بعد سب سے مرکزی توجہ ’عورت‘ ہی پردی گئی تھی۔ اس دور کی عام گھریلو عیسائی عورت کو راہِ راست سے ہٹاکر محض بازار کی جنس بنائے جانے کی ہمہ گیر مہم کے پیچھے جو قوتیں تھیں، ان میں ’یہودی‘ سرفہرست تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے پسِ پردہ ’آبادی گھٹائو اور عیش کرو‘ کا نعرہ کارفرما تھا۔ اس مقصد کے لیے ترغیب، رنگینی، انعامات،تحریص، دھونس اور دھمکی کے تمام حربے استعمال کیے۔ دُوراندیشی کی صفت سے محروم عورت بہرحال اس دامِ ہم رنگ میں پھنستی چلی گئی۔ نہ صرف یہ کہ وہ گھر سے باہر نکلی، بلکہ لباس کو بھی مختصر کیا، نہ صرف یہ کہ تمام عشوہ و ادا سے خود کو لیس کیا، بلکہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں بچوں کو جنم دینے سے بھی وہ کترانے لگی۔ مادّہ پرست (یا مادَہ پرست) عناصر نے اس کا وہ سب سے بڑا جذبہ بھی بالآخر اس سے سلب کرلیا جس کی وجہ سے خالقِ کائنات نے اسے تمام مخلوقِ انسانی پر فضیلت عطا کی تھی، یعنی اس کا ’جذبۂ مادری‘ ۔
کم از کم دو سو برس پہلے اُٹھنے والی ’آبادی کم کرو‘ کی اس مہم پر کم اور زیادہ مسلسل عمل کرتے رہنے کے باعث مغرب کی صورتِ حال اب یہ ہوچکی ہے کہ پورے براعظم یورپ، اور براعظم شمالی امریکا میں مقامی عیسائی آبادی آج نمایاں ترین قلت کا شکار ہو رہی ہے جسے دیکھ کر ان کے ماہرین، اپنے ہی آباواجداد کے اس فلسفیانہ نعرے پر سر پکڑے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں۔
وہ بجا طور پر سوچ رہے ہیں کہ آج اگر ان کی آبادی کی صورتِ حال اس قدر پریشان کن ہے تو مزید تین چار عشروں کے بعد، یعنی ۲۰۵۰ء یا ۲۰۶۰ء تک پہنچ کر تو ان کے اکثر بڑے شہر ازخود مسلم شہروں میں تبدیل ہوجائیں گے اور ان کی حیثیت اپنے ہی شہروں میں ’اقلیت‘ کی شکل اختیار کرلے گی۔
ماضی کی مغربی آبادی کی خصوصیات کا مطالعہ اگر کسی نے کیا ہو تو اسے نظر آئے گا کہ آج سے محض سوسال پہلے تک مغربی گھرانوں، حتیٰ کہ خود بادشاہوں تک کے ہاں بھی آٹھ آٹھ اور دس دس اولادیں ہوا کرتی تھیں۔ ملکہ وکٹوریا برطانیہ (۱۸۹۱ء-۱۹۰۱ء) کے نو بچے تھے، جب کہ اس کے بیٹے جارج پنجم کے ہاں چھے بیٹے تھے ۔
لیکن بُرا ہو اس تصورِ مساوات، اور نام نہاد آزادیِ نسواں کی تحریک کا، جس نے مغرب کی عقلوں پر گذشتہ دوسو برسوں سے آج تک پردہ ڈال رکھا ہے۔ کسی قوم کی بربادی میں اس سے بڑاعامل اور کیا ہوگا کہ اس کی پوری کی پوری آبادی کی عقلوں پر محض چند سرغنہ ماہر افراد قبضہ کر کے بیٹھ جائیں اور اسے ہربات صرف اپنے ہی نقطۂ نظر سے سوچنے پر مجبور کردیں۔ سارے مغرب میں صورتِ حال آج یہی ہے۔ اگرچہ تمام عیسائی قوم قلت ِ آبادی کے شدید مسئلے سے دوچار ہے، لیکن افسوس کہ اب اس کی اصلاح بھی نہیں کی جاسکتی۔
صورتِ حال کی بہتر تفہیم کی خاطر گھٹتی ہوئی اس آبادی کی چند مثالیں رسائل و جرائد سے اخذ کر کے ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔ اعداد و شمار آگاہ کرتے ہیں کہ:
اس مختصر جائزے کے بعد اب ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ تحلیل ہوتی ہوئی مغربی، اور اضافہ پاتی ہوئی مسلم آبادی کے اثرات مغربی دنیا پر کیا پڑ رہے ہیں؟
حقائق اور اعداد و شمار آگاہ کر رہے ہیں کہ آبادی کے اس اُلٹ پھیر کے نتیجے میں یورپی ممالک کے قوانین میں مسلمانوں کے لیے گنجایشیں نکالی گئی ہیں۔ ان کی تہذیب میں مسلم تہذیب نے راستے بنائے ہیں، اذانوں اور مسجدوں کی کثرت ہوئی ہے، حجاب،پردہ اور داڑھی ہر جگہ نمایاں نظر آنے لگے ہیں۔ مدارس اور دارالعلوموں کا سلسلہ جاری ہوا ہے۔ رمضان کے روزے اور تراویح کا چلن وسیع ہوا ہے۔ ذرائع ابلاغ، خصوصاً ٹی وی چینلوں پر مسلم علما، اسکالرز اور دیگر اہم شخصیتیں پیش ہونے لگی ہیں۔ ان کے لیے خصوصی پروگرام نشر کیے جانے لگے ہیں۔ ان کی سرکاری کابینائوں میں مسلم وزرا کا تقرر بھی ہونے لگا ہے۔ مذکورہ تبدیلیوں میں سے چند ایک کا ذکر اب ہم یہاں علیحدہ سے بھی کریں گے۔
مغربی دنیا میں چونکہ حلال خوراک کا تصور نہیں ہے ، اس لیے وہاں منتقل ہونے والے مسلمان تاحیات سبزی اور انڈوں پر گزارا نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے اِکّا دکّا حلال ذبیحوں اور طعام گاہوں کا رواج شروع ہوا، جس کے بعد اب حال یہ ہے کہ حلال کھانے اور ذبیحے والا گوشت وہاں پہلے کی نسبت زیادہ آسانی سے دستیاب ہے۔
مستندحلال فوڈز کے ادارے بھی قائم ہونے لگے ہیں۔ اس طرز کے ادارے نہ صرف یہ کہ اسلامی دنیا میں قائم ہیں بلکہ خود یورپی ممالک اور امریکا میں بھی موجود ہیں۔ حلال خوراک کی مقبولیت کا حال یہ ہے کہ ان مصنوعات کی عالمی صنعت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
ایک خبر کے مطابق عالمی منڈی میں حلال خوراک کا حجم دو کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے (جنگ، کراچی ۲۷ ؍اپریل۲۰۱۴ء)۔ ادھر جرمنی میں ’حلال کنٹرول‘ کمپنی گذشتہ چودہ برسوں سے کام کر رہی ہے، جو پورے یورپ میں مختلف مصنوعات کے حلال اور اسلامی معیار کے مطابق ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ ’فوڈ اینڈ نیوٹریشن کونسل آف امریکا‘ کے مطابق امریکا میں حلال مصنوعات کی قومی منڈی کی مالیت ۲۰؍ارب ڈالر ہے۔ (روزنامہ جنگ، کراچی، ۱۶مارچ ۲۰۱۴ء)
روایتی اور استحصال پسندانہ سودی بنکاری نے دنیا بھر کے لوگوں کو جو معاشی و ذہنی نقصان پہنچایا ہے، اس کے نتائج سے وہ چیخ اُٹھے ہیں۔ اس کا متبادل صرف اسلامی غیرسودی بنکاری ہی تھا، جسے پہلے پہل بعض عرب ممالک نے، اور بعدازاں پاکستان اور ملیشیا وغیرہ نے بھی اختیار کیا۔ تاہم اب حال یہ ہے کہ خود مغربی بنکوں نے بھی عرصہ دراز سے اسے اپنے ہاں رواج دیا ہوا ہے۔ اکثر بڑے بنکوں نے مسلم اور مقامی سرمایہ کاروں کی سہولت کی خاطر غیرسودی شعبے قائم کردیے ہیں جن کی سربراہی مسلم دنیا کے معروف اسکالر کر رہے ہیں۔
فروری ۲۰۱۴ء تک کی رپورٹ کے مطابق ۵۸ (مسلم و غیرمسلم) ممالک میں ۴۰۰ اسلامی مالیاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں تکافل کمپنیاں شامل نہیں ہیں۔ دوسری طرف موجودہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بیان دیا ہے کہ: ان کا ملک اسلامی بنکاری کو خوش آمدید کہنے میں فخر محسوس کرے گا۔ (روزنامہ جنگ، کراچی، ۳۰؍اکتوبر ۲۰۱۳ء)
مغربی دنیا داڑھی اور پردے سے جس قدر ’وحشت زدہ‘ رہتی تھی، اسی قدر وہاں ان کا رواج بڑھ رہا ہے۔ مسلم دنیا سے مغرب کی جانب نقل مکانی کی شرح جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، پردے اور حجاب پر جمی رہنے والی خواتین، اور داڑھی رکھنے پر اصرار کرنے والے مرد بھی اس برہنہ معاشرے میں نمایاں نظر آرہے ہیں۔ نوائے وقت کراچی کی ایک خبر (۱۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ء) کے مطابق پیرس کے ایک نواحی علاقے ’بیلیولی‘ میں متعدد مسلم خواتین پردے میں دکھائی دیتی ہیں، جس سے یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ یورپ کے مسلمان تارکینِ وطن کے باعث وہاں مسلم کلچر کو ’غلبہ‘ حاصل ہو رہا ہے۔ مصری خاتون مروۃ الشربینی شہید پر جرمنی میں عین عدالتی کارروائی کے دوران جو اپنے شوہر کے ساتھ نقاب میں گواہی دے رہی تھی کہ ایک گورے جنونی نے حملہ کر کے اسے شہید اور اس کے شوہر کو زخمی کردیا تھا۔
ایک اور خبر کے مطابق لندن میں ایک جج نے مسلم ’نقاب پوش‘ خاتون کی گواہی قبول کرلی۔ خاتون نے کہا کہ وہ عدالت میں سب کے سامنے اپنا نقاب نہیں اُٹھا سکتی کیونکہ اس کا مذہب اسے ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ جواب میں عدالت نے کہا کہ وہ اس کے عقائد کا تحفظ کرے گی اور اس کا چہرہ محض بند کمرے ہی میں دیکھے گی، تاکہ فیصلے پر پہنچنے میں آسانی ہو۔ (جنگ، کراچی، ۱۷ستمبر ۲۰۱۳ء)
ایک خبر کے مطابق ریاست نیویارک میں مسلم پولیس افسروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خبر کے مطابق دونوں محکموں کے پولیس افسران میں ایسے نوجوان بھی ہیں جو نماز، روزے اور حج و عمرے کی ادایگی کے لیے علانیہ چھٹیاں کرتے ہیں، جب کہ بعض پولیس افسران باقاعدہ روزے رکھ کر بھی اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ روزنامہ جنگ (۳جولائی ۲۰۱۳ء) کے امریکا میں متعین نمایندے کی ایک رپورٹ کے مطابق نیویارک پولیس نے ایک کتابچہ تیار کیا ہے جس کا نام ہی Commanders Guidelines for Ramzan ہے اور اس میں غیرمسلم پولیس افسروں کی تفہیم کے لیے مسلمانوں کی ادایگیِ عبادت کی پوری تفصیل دی گئی ہے۔
اسی طرح پروٹسٹنٹ چرچ آف انگلینڈ نے کہا ہے کہ: برطانیہ کے چند علاقوں میں اسلامی قوانین کو شامل نہ کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے۔ برطانوی اسکالر ڈاکٹر رووِن نے راے دی ہے کہ اسلامی شریعت کے کچھ حصے اختیار کرنے سے برطانیہ میں سماجی ارتباط میں مدد ملے گی۔ (روزنامہ جسارت اور اُمت، کراچی، ۹فروری ۲۰۰۸ء)
مغربی ممالک میں مسلم آبادی کے مناسب اضافے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ممالک کی حکومت پر مناسب سیاسی و مذہبی دبائو ڈال سکتے ہیں، جب کہ حکومت بھی اس اثر کو محسوس کرسکتی ہے۔ امریکا میں یہودی اپنی اس حیثیت سے خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں اور دبائو ڈال کر اپنے مطالبات منواتے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دینے کی بیرونی ممالک کی حکمت عملی مسلم دشمنی کے علاوہ اس کی کم و بیش ایک ارب کی آبادی کا رُعب بھی ہے جس کے باعث انھیں وہاں ایک عظیم مارکیٹ دستیاب ہوتی ہے۔
مسلم دنیا میں خواتین کے عبایا کو جس قدر فروغ حاصل ہو رہا ہے، مغربی فیشن ڈیزائنر بھی عبایا کی مارکیٹنگ کے لیے ازخود ڈیزائننگ اور نمایش کر رہے ہیں، جس سے عبایا اور اسکارف کو خود بخود عالمی شہرت اور طلب حاصل ہورہی ہے۔ سلمیٰ نامی ایک عالمی فیشن ڈیزائنر خاتون بیان کرتی ہیں کہ عربی ملبوسات و عبایا، مغربی خواتین میں بھی راہ بنانے لگے ہیں۔ (روزنامہ جنگ، اپریل ۲۰۱۴ء)
مغربی ممالک میں چونکہ تحریر و تقریر کی خاصی آزادی ہے۔ اس لیے وہاں کے دعوتی اور جوشیلے نوجوان مرد و خواتین اب کھلے عام سڑکوں اور بازاروں میں اسٹال لگاکر Islam - The Religion of Today کے نمایاں بیج لگاکر مسیحیوں، ہندوئوں اور یہودیوں کو انفرادی طور پر دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے پاس انگریزی ترجمہ شدہ خوب صورت قرآنِ مجید ہوتے ہیں جو وہ اپنے مخاطبین کو بلامعاوضہ ہدیہ کرتے ہیں۔ اسی طرح وہاں کے نومسلم مقامی افراد بھی اپنی تحریروں، تقریروں ، کانفرنسوں اور ٹی وی مذاکروں کے ذریعے دعوتِ دین کے کام کو فروغ دینے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بعض جوشیلے مقامی خواتین و حضرات تو کھلے عام یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ہم خود اپنے ملک میں بھی ’شریعت‘ نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بیان کرنا بھی یہاں ضروری ہے کہ مغرب میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہی کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ اب ان کی قومی زبانوں میں اُردو اور عربی الفاظ بھی داخل کیے جانے لگے ہیں، مثلاً جہاد، اُمہ، رمضان، اُخوت وغیرہ۔ فرید زکریا اپنی کتاب ’امریکا کے بعد کی دنیا‘ میں آگاہ کرتے ہیں کہ امریکا کی ایجادات میں بے پناہ اضافہ اس وجہ سے بھی ہو رہا ہے کہ غیرملکی آبادی (بشمول مسلمان) وہاں کثرت سے پائی جاتی ہے (ص۱۸۳)۔ یہی نہیں بلکہ امریکا میں پینٹاگون، ناسا اور خود امریکی افواج میں بھی مسلم ماہرین اپنی خدمات انجام دیتے نظر آرہے ہیں۔
مغرب میں مسلم اثرات و دعوت کے بڑھتے ہوئے ان اثرات کی ایک بڑی وجہ وہاں پائی جانے والی تحریر و تقریر کی آزادی، اور عمومی رواداری و برداشت کا عنصر ہے ، تاہم کچھ حکمتیں اللہ تعالیٰ کی اپنی بھی ہیں۔ مغربی دنیا چاہے یا نہ چاہے، اسلام تو ان کے شہروں اور ملکوں میں بالادست ہوکر ہی رہے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ اسلام کا ظہورِ ثانی بھی اب خود انھی کے اپنے ممالک سے ہو۔