نائیجیریا مسلم اکثریت کا ملک ہے۔ یہاں وقفے وقفے سے دھماکوں، اغوااور دیگر جرائم کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ان کارروائیوں کا شکار بے گناہ شہری بنتے ہیں۔ جان سے ہاتھ دھونے والے یہ افراد مسلم بھی ہوسکتے ہیں اور عیسائی بھی۔ گذشتہ اپریل میں دارالحکومت ابوجا کے نواح میں دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا جس میں ۲۰۰ سے زائد شہری لقمۂ اجل بن گئے۔ اس کے بعد ۲۲۳ طالبات کا اغوا عمل میں آیا جس کی ذمہ داری وہاں کی تشدد پسند تنظیم ’بوکوحرام‘ نے قبول کی ہے۔
’بوکوحرام‘ کا مفہوم ’ہوسا‘ قبائل کی زبان میں ہے:’’مغربی تعلیم حرام ہے‘‘۔ یہ تنظیم اپنی سرگرمیاں ملک کے شمال میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ اسلامی شریعت کے نفاذ کی دعوے دار ہے۔ قانونی طور پر یہ تنظیم اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق کھو بیٹھی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں نائیجیریا کے شمال میں بورنو کے علاقے میں ایک دینی مدرس اور عالم محمد یوسف کی قیادت میں یہ تنظیم قائم ہوئی۔ ’بوکوحرام‘ ایک پُرامن اور اصلاحی تنظیم تھی۔ اس کا مطالبہ ملک پر مسلط صلیبی حکومت کی مغرب زدگی سے نجات حاصل کرنا تھا۔ مگر افسوس کہ اس کے قائدین نے دین و سیاست کا درست فہم نہ رکھنے کے باعث مسلمانوں کے لیے بہت سی مشکلات اور پریشانیاں کھڑی کردیں۔ اس طرح انھوں نے صلیبی حکومت کو نائیجیریا کی اسلامی بستیوں اور شہروں میں قتل و غارت کے درجنوں مواقع فراہم کردیے۔ ہزاروں لوگ موت کی نیند سلا دیے گئے اور ہزاروں اسیر بنا کر پسِ دیوارِ زنداں ڈال دیے گئے۔
تنظیم کے قیام کے کچھ عرصے بعد یہ خبریں ملنے لگیں کہ بعض مغربی ممالک اس تنظیم کو اسلحہ اور مالی وسائل فراہم کر رہے ہیں۔ تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ یہ تحریک چھوٹے چھوٹے گروپوں کے بجاے ایک بڑی اور مؤثر تنظیم بن جائے۔ یہ تنظیم دراصل اُن طلبہ نے تشکیل دی تھی جو مغربی نظامِ تعلیم کو اختیار کرنے سے انکاری تھے۔ ان کے ساتھ بعض نام نہاد بہی خواہ بھی بیرونی ممالک سے ساتھ مل گئے تھے۔ تنظیم نے اپنی پُرامن شناخت کو اُس وقت بالاے طاق رکھ دیا جب ۲۰۰۹ء میں اس کے رہنما محمد یوسف کو ملک کی امن فورسز نے ایک مسلح تصادم میں گرفتار کرلیا اور بعدازاں قتل کرکے میڈیا پر اعلان کیا کہ حکومت نے امن فورسز کے ذریعے ’بوکوحرام‘ کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔
’بوکوحرام‘ کا دنیا کی مشہور ریڈیکل تنظیموں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں، خصوصاً القاعدہ کے ساتھ تو کبھی کوئی رابطے دریافت نہیں ہوسکے۔ دراصل معاملہ بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات اور نائیجیریا کے اندر تیل کی دولت سے وابستہ ہے۔ ۲۰۰۴ء میں ترک صحافی ابراہیم قرہ گل نے اس موضوع پر ’’پینٹاگان کا خفیہ منصوبہ ___ عنقریب کہاں کہاں تصادم رُونما ہوں گے‘‘ کے عنوان سے تجزیہ کیا تھا۔ یہ تحریر عراق پر امریکی حملے کے بعد لکھی گئی۔ انھوں نے اُس وقت نائیجیریا کو تصادم کا اگلا مرکز قرار دیا تھا۔ یہ بھی کہا کہ یہ بحران کئی سال سے مسلسل جاری ہے اور جاری رہے گا، حتیٰ کہ ملک تقسیم ہوکر رہے گا۔ قرہ گل نے طالبات کے موجودہ اغوا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بوکوحرام‘ اس ناپاک جنگ کا ایک حصہ ہے۔ اس منظرنامے کا مزید طویل ہونا ملکی وسائل کو تقسیم کے عمل سے گزارنا ہے، یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تصادم برپا کرکے اس مقصد کو حاصل کیا جائے گا۔
تیل کی دولت نائیجیریا کے شہریوں کے لیے یقینی طور پر بے پناہ اہمیت کی حامل ہے مگر یہ بین الاقوامی تسلط اور انتشارپسندی کا باعث بھی ہے۔ اس سے ملک کے اندر سیاسی اور علاقائی مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ وزیرمالیات ندیدی عثمان کہتی ہیں کہ پٹرول نے ہمیں بے کار بنادیا ہے۔ میں جب چھوٹی تھی تو یہ سیکھا تھا کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے عقل اور محنت سے کام لوں ، جب کہ پٹرول کے دور کی موجودہ نسل اس امر کا اہتمام نہیں کرتی، حتیٰ کہ سوچتی تک نہیں۔ نائیجیریا کے سابق صدر ’اوباسانچو‘ نے بذاتِ خود انھی خیالات کا اظہار ۲۰۰۳ء میں ایک بڑے عوامی جلسے میں کیا تھا کہ: ہمیں گیس اور پٹرول نے اندھا کردیا ہے اور ہماری روایات و اقدار سے دُور دھکیل دیا ہے، بلکہ ہمیں ان سے وحشت ہوتی ہے اور ہم اس معاملے میں سخت دل ہوگئے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریکا براعظم افریقہ کے مغرب میں واقع ممالک خصوصاً نائیجیریا کے اندر پٹرول کو بہت اہم خیال کرتا ہے۔ یہ خطہ ۶۰ لاکھ بیرل یومیہ تیل پیدا کرتا ہے۔ اس طرح یہ ایندھن کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے اہم ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار رکھا جاتا ہے۔ ادھر نائیجیریا اُن ممالک میں سرفہرست ہے جو امریکا کو تیل برآمد کرتے ہیں۔ نائیجیریاکا تیل امریکا کے لیے پانچواں بڑا مرکز قرار پاتا ہے کیونکہ یہاں سے اُسے ۱۵لاکھ بیرل تیل روزانہ مہیا ہوتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک بھی امریکا کے ساتھ نائیجیریا سے تیل حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ دونوں کے مفادات ’اتحاد و اتفاق‘ کی سطح پر نہیں ہیں بلکہ برطانیہ سمجھتا ہے کہ وہ طویل عرصہ نائیجیریا پر قابض رہا ہے، لہٰذا اس کا حق فائق ہے۔ اس کے ساتھ ہی اُسے یہ امر بھی فائدہ پہنچاتا ہے کہ نائیجیریا دولت ِ مشترکہ کا رکن بھی ہے۔ برطانیہ کی قدیم ترین کمپنی ’کان شیل‘ بھی نائیجیریا کے ان علاقوں میں ایک عرصے سے موجود ہے جہاں تیل کے کنویں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانیہ اپنی ضرورت کا ۱۰ فی صد تیل نائیجیریا سے لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ اس خطے کو اہمیت دیتا ہے اور پُرامن تعاون کا خواہش مند بھی ہے اور اس کے لیے کوشاں بھی۔
اس منظرنامے کو پیش نظر رکھیں تو اغواشدہ طالبات کی رہائی کے لیے عالمی واویلے کی حقیقت سمجھ آتی ہے۔ امریکی صدر اوباما کی بیوی نے ’یومِ ماں‘ کے موقع پر ان طالبات کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کو بہت زیادہ اُچھالا۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے بھی اس معاملے میں تمام تر حمایت اور تعاون کا یقین دلایا۔ ’بوکوحرام‘ کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا اظہار کیا۔ برطانیہ اور اسرائیل نے بھی اس معاملے میں اپنی اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ معروف مصری کالم نگار ڈاکٹر حلمی القاعود نے لکھاہے: محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے شرپسند اس وقت نائیجیریا کی ان طالبات کی رہائی کو بہانہ بناکر نائیجیریا کے اندر اپنے براہِ راست داخلے کی تیاری میں ہیں۔وہ اپنی افواج کی موجودگی کو لامحدود عرصے تک وہاں یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل سب نے طالبات کو رہا کرانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ انسانی حقوق کے نام نہاد عالمی محافظوں کو شام، برما، فلسطین، مصر اور دیگر ممالک میں انسانی حقوق پامال ہوتے بھی دکھائی دینے چاہییں جہاں یہ حقوق ہیں تو انسانی مگر مسلمانوں کے لیے نہیں!