روزہ ایک عظیم عبادت اور دین کے ان ستونوں میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے جن پر اس کی پوری عمارت مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روزہ اللہ رب العزت کا اپنے بندوں پر ایک بہت ہی عظیم الشان انعام ہے اور اس نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
اللہ کے اس انعام کا ایک پہلو ایسا ہے جو اسے عبادات اور احکام ِالہی میں منفرد بنا دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ وہ عمل ہے جس کا گواہ اللہ اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔نماز عماد الدین ہے مگر وہ دل کی حضوری کے ساتھ جسم کے ایسے اعمال و اظہارپر مشتمل ہے جن کی وجہ سے جماعت ہی میں نہیں ، تنہائی میں، حتیٰ کہ گھر کی چار دیواری میں ادا کی جانے والی نماز بھی دوسروں کی نظر سے اوجھل نہیں ہو سکتی۔ حج تو پوری دنیا کے مسلمانوں کا ایک اجتماع ہے ہی۔ اس طرح زکوٰۃ اگر مکمل اخفا کے ساتھ ادا کی جائے تب بھی کم از کم ایک شخص، یعنی اس کا وصول کرنے والا تو اس راز میں شریک ہو ہی جاتا ہے۔ لیکن روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس کا گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر ایک شخص سب کے ساتھ سحری کرے اور سب کے ساتھ افطار کرے، تب بھی تنہائی میں اس کے کھانے پینے سے احتراز کرنے کا گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر ایک شخص دنیا کو دھوکا دینے کے لیے روزے کے تمام اجتماعی آداب کا احترام کرے لیکن تنہائی میں کھا پی لے، تو دنیا کی کوئی آنکھ اس کے روزے پر شک نہیں کرے گی، البتہ اللہ اس کی حرکات سے بخوبی واقف ہوگا۔
روزہ صرف اللہ کے لیے ہے اور وہی اس کا گواہ ہے۔ اس طرح بندے کے رب سے تعلق کا یہ پہلو روزے کی امتیازی شان ہے ___کہ جلوت اور خلوت سب اللہ کے حکم اور اس کی رضا کے پابند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ اپنے تمام اجتماعی پہلوؤں کے باوجود صرف اللہ ہی کی رضا کے لیے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رب کریم نے یہ مژدہ بھی سنا دیا ہے کہ صرف وہ اس کا اصل اجر دینے کا ذمہ دار ہے۔ گویا روزہ بندے اور رب کے بلاواسطہ تعلق کا عنوان ہے اور صرف رب کا بندہ بن جانے کی علامت ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو اسے اسلام کی روح اور اس کے اصل جوہر کا مظہر بناتی ہے ۔
صرف اللہ کا بندہ بننے اور اس کی رضا کے لیے بھوک پیاس اور شہوت کی جائز ذرائع سے تسکین سے بھی اجتناب، انسان کو تقویٰ کی اس نعمت سے مالا مال کرتا ہے جو دنیا اورآخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے، اور جو انسان میں وہ صلاحیت پیدا کرتا ہے، جو اسے اللہ کی ہدایت سے فیض یاب ہونے میں ممد و معاو ن ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی ہدایت کے لیے جن کو اہل قرار دیا ہے وہ اصحا بِ تقویٰ ہی ہیں (البقرہ ۲:۲)۔ روزہ انسان کے اندر وہ تقویٰ پیدا کرتا ہے جو اسے ہدایت ربانی سے مستفید ہونے اور اس کا علَم بردار بننے کے لائق بنا تا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo (البقرہ ۲:۱۸۳) ’’اے ایمان لانے والو تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تمھارے اندر تقویٰ پیدا ہو سکے‘‘۔ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے اور روزے اور قرآن کا تعلق ایک جان اور دو قالب جیسا ہے۔ شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَــیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ(البقرہ ۲:۱۸۵) ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر بیان کرنے والی ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے‘‘۔
ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ نزول قرآن کا آغاز غار حرا میں ہوا جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل عبادت فرماتے اور روزے رکھتے تھے، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب تورات سے نوازا گیا تو ان ایام میں آپ بھی روزے کا اہتمام فرما رہے تھے۔ روزہ اور قرآن کا یہی نا قابلِ انقطاع تعلق ہے جس کا تجربہ اور جس کی شہادت امت مسلمہ ماہِ رمضان میں قرآن سے تعلق کی تجدید کرکے کرتی ہے۔ اس طرح روزہ ہماری زندگیوں میں ہدایت ربانی کوحرز جان بنانے کا ذریعہ ا ور وسیلہ بن جاتا ہے__ یہ اللہ کا عظیم ترین انعام نہیں تو اور کیا ہے؟
اس انعام الٰہی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ روزے کی حقیقت کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے اور محض روایتاً یا مسلم معاشرے کے ایک معمول کے طور پر نہیں بلکہ پورے شعور کے ساتھ اور اس کے مقاصد اور آداب کے پورے اِدراک اور اہتمام کے ساتھ روزہ رکھا جائے، نیز رمضان میں حاصل کی جانے والی تربیت کی روشنی میں سال کے باقی ایام گزارے جائیں۔ جس طرح چارجنگ کے بعد گاڑی کی بیٹری اپنا کام ٹھیک ٹھیک انجام دیتی ہے، اسی طرح انسانی جسم اور زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے رمضان کے روزے اور قرآن سے تجدیدعہد، انسانی جسم وجان کی بیٹری کو چارج کرتے ہیں اور پھر باقی ۱۱مہینے اس قوت کے سہارے یہ گاڑی رواں دواں رہتی ہے ___ اس سے بڑا انعام ہمارے رب کی طرف سے اور کیا ہو سکتا ہے؟
بندہ کے اپنے رب سے تعلق کے تین پہلو ہیں: پہلا اور سب سے اہم رب کو پہچاننا ، اس سے عہد وفا باندھنا، ہر لمحے اس عہد کا ادراک رکھنا اور ہر دوسری غلامی اور وفا داری سے نجات پا کر صرف اللہ ، اپنے خالق اور مالک کا بندہ بن جانا ہے۔ دوسرا پہلو فرد کی اپنی ذات کی تربیت ، تزکیہ اور ترقی ہے تا کہ وہ اپنے رب کے انسانِ مطلوب سے زیادہ سے زیادہ قربت حاصل کر سکے۔ اس کے لیے نمونہ اللہ کے پیارے رسولؐ کا اسوۂ مبارکہ اور سنت ِمطہرہ ہے۔ اپنی ذات کی مسلسل اصلاح اور صفاتِ محمودہ کے رنگ میں اپنے کو رنگنے اور صفاتِ مذمومہ سے بچنے کی مسلسل کوشش اصلاحِ ذات اور بندگیِ رب کا اولیں اور مستقل تقاضا ہے۔ اس تعلق کا تیسر اپہلو دنیا اور اس کے رہنے والوں سے تعلق کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ اللہ کی ہدایت ہی یہ رہنمائی بھی دیتی ہے کہ دوسرے انسانوں، معاشرہ، ریاست، انسانیت اور کائنات ، ہرایک سے کس طرح معاملہ کیا جائے تا کہ اللہ کی رضا حاصل ہو، اور حق و انصاف کے قیام کے ذریعے انسانوں کی زندگی خیر و فلاح کا نمونہ بن جائے۔
اسلام ان تینوں جہتوں کے باب میں صحیح تعلق اور صحیح رویے کا نام ہے۔ یہ سب اللہ کی بندگی کے ایک ہی دائرے کا حصہ ہیں اور کسی بھی جہت کو نظرانداز کرنا یا عبدیت کے دائرے سے باہر تصور کرنا شرک، بغاوت اور طاغوت کا بندہ بننے کے مترادف ہے۔ روزہ ان تینوں میدانوں میں بیک وقت بندہ کا تعلق اپنے رب سے جوڑنے اور اس تعلق کی روشنی میں زندگی کے ہر دائرے اور پہلو کو ہدایت الٰہی کے مطابق گزارنے اور نور ربانی سے منور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔