اس فتنۂ عظیم [قادیانیت] سے جو لوگ ’رواداری‘ برتنے کا ہمیں مشورہ دے رہے ہیں وہ صرف یہی نہیں کہ رواداری کے معنی اور اس کے حدود نہیں جانتے، اور صرف یہی نہیں کہ وہ اسلام سے ناآشنا ہیں، بلکہ درحقیقت وہ بڑی نیک نیتی مگر بڑی نادانی و بے فکری کے ساتھ مسلم ملّت کی قبر کھودنا چاہتے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے حق میں تو ان کی یہ غلطی قطعی طور پر ہلاکت کا پیغام ہے اور اِس ریاست کا کوئی بڑے سے بڑا بدخواہ بھی اس کے ساتھ وہ بدخواہی نہیں کرسکتا جو یہ رواداری کے پیغمبر کر رہے ہیں۔
یہ ملک مسلمانوں کی متفقہ قومی خواہش سے بنا ہے اور اسی وقت تک یہ ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے قائم ہے جب تک مسلمانوں کی متفقہ قومی خواہش اس کی پشت پناہ ہے۔ دنیا کے دوسرے مسلم ممالک میں، جہاں زبان ایک ہے، نسل ایک ہے، اور جغرافی حیثیت سے قومی وطن یک جا ہے، مسلمانوں کو اپنی قومیت کے لیے اسلام کے سوا دوسری بنیادیں بھی مل سکتی ہیں۔ مگر پاکستان جس میں نہ نسل ایک، نہ زبان ایک، اور جغرافی حیثیت سے جس کے دو ٹکڑے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع ہیں، یہاں قومیت کی کوئی دوسری بنیادی تلاش کرنے والا اور اس کو ممکن سمجھنے والا صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو لاطائل خیالات کی دنیا میں رہتا ہو اور جسے عملی سیاست کی ہوا تک نہ لگی ہو۔ یہاں مسلمانوں کے لیے بناے وحدت اسلام کے سوا اور کوئی نہیں ہے، اور اسلام میں بھی صرف ایک ختم نبوت وہ چیز ہے جو اس وقت عملاً بناے وحدت بنی ہوئی ہے۔ اس بنیاد کو رواداری کی مقدس دیوی کے آستانے پر بھینٹ چڑھا دیجیے، پھر دیکھیے کہ کون سی طاقت اِس عمارت کو مسمار ہونے سے بچاسکتی ہے۔ آج اِس اجراے سلسلۂ نبوت کے اثرات زیادہ تر پنجاب تک محدود ہیں، اس لیے اس کے پورے کرشمے ہماری قومی قیادت کو نظر نہیں آتے۔ مگر جب یہ فتنہ اپنی تبلیغ سے دوسرے صوبوں تک پھیل جائے گا تب ان عقلاے روزگار کو رواداری کے معنی اچھی طرح معلوم ہوجائیں گے۔ (’مولانا مودودی کا تحقیقاتی عدالت میں تیسرا بیان‘، ترجمان القرآن،جلد۴۲، عدد۳، رمضان المبارک ۱۳۷۳ھ،جون ۱۹۵۴ء، ص۲۲-۲۳)