سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اس کا حق ادا کیا۔ ان کی تحریر یں قرآن و حدیث، اسلامی افکار اور جدید و قدیم لٹریچر کے گہرے مطالعے کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ آج کے دور کا اہم ترین موضوع ’معاشیات‘ اور ’اسلامی معاشیات‘ قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطیٰ کے علما کی تحریروں میں تو نظر آتاہے، لیکن علامہ ابن خلدون ؒ کے بعد کے اَدوار میں مغرب کے اسکالروں کی تحریریں ہی نظر آتی ہیں۔ مسلمان علما نے اس موضوع پر بہت کم لکھا۔
سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس موضوع پر لکھا اور لکھنے کا حق ادا کیا۔ ان کے بعد ان کے رفقا نے اس موضوع پر خوب لکھا۔ آج اس موضوع پر ہزاروں کتابیں، کتابچے اور مقالات لکھے جاچکے ہیں۔ سیّد مودودیؒ نے اس موضوع پر ۱۹۳۰ء کے عشرے میں لکھنا شروع کیا۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے تک مولانا کی تحریروں کو پروفیسر خورشیداحمد نے معاشیاتِ اسلام کے قالب میں ڈھالا اور اس کتاب کی تدوین کی۔ بعدازاں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ لاہور سے شائع ہوا۔
First Principles of Islamic Economics ،معاشیاتِ اسلام کاایک جدید اور جامع ترجمہ ہے۔ احمد امام شفق ہاشمی نے خوب صورت اور جامع انگریزی میں یہ ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب میں اسلامی معاشیات کے تقریباً تمام ہی نظری مباحث موجود ہیں۔ سیّد مودودیؒ نے دورِجدید کے تناظر میں قرآن و سنت کی روشنی میں معاشی مسائل پر بحث بھی کی ہے اور جدید ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کے جوابات بھی دیے ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے فلاح کے اسلامی تصور کی وضاحت بھی کی ہے اور دیگر معاشی نظاموں سے موازنہ بھی، خصوصاً نظامِ سرمایہ داری سے۔ قرآن پاک کی معاشی تعلیمات کا نچوڑ بھی پیش کیا ہے اور اسلام کے معاشی فلسفے پر بحث بھی کی ہے۔ اسلامی معاشی نظام کے مقاصد کے ساتھ معاشی زندگی کے اسلامی اصول بھی بیان کیے ہیں۔ اسلامی معاشی نظام کے اہم خدوخال بیان کرتے ہوئے زمین کی ملکیت کے اسلامی تصور، سود کی حُرمت اور اس کے دلائل، زکوٰۃ کا نظریہ اور عملی اطلاق کی صورتیں، سماجی انصاف (Social Justice) کی ضرورت و اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ دورِ جدید کے مسائل متعلقہ محنت و مزدور، انشورنس اور قیمتوں کے تعین (price control)کے بارے میں اسلامی تعلیمات پیش کی ہیں۔ دورِ جدید میں اسلامی معاشی قوانین کی تشکیل جدید پر بحث سے اس کتاب کا اختتام ہوتا ہے۔
یقینا یہ کتاب انگریزی دان طبقے ، جامعات کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ محققین کی لائبریری میں ایک قابلِ قدر اضافہ ثابت ہوگی۔سرورق جاذبِ نظر ہے۔(ڈاکٹر میاںمحمد اکرم)
’’قاضی حسین احمد تاریخِ پاکستان کے بڑے آدمیوں میں سے تھے‘‘۔ ممکن ہے اس جملے پر بعض لوگ چونکیں اور انھیں اس بیان کو تسلیم کرنے میں کچھ تامّل ہو اور وہ سوال کریں: وہ کیوں ایک بڑے آدمی تھے؟
اس کی متعدد وجوہ ہیں: وہ ایک بڑی دینی اور سیاسی پارٹی (جماعت اسلامی) کے سربراہ تھے۔ ایک ایسی جماعت کے سربراہ جس نے قیامِ پاکستان کے مقاصد اور نصب العین (لاالٰہ الا اللہ کا نفاذ، بصورتِ اسلامی شریعت) کو تروتازہ رکھا، اور ایک ایسی جماعت کے سربراہ، کہ جس نے دوسری پارٹیوں کی طرح وسائلِ پاکستان کولوٹ کر،اپنی جیبوں میں منتقل نہیں کیا، اور ایک ایسی جماعت کے سربراہ جس نے پاکستان کی بقا اور تحفظ کے لیے عملاً سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور اس پر اپنے نوجوانوں کی جانیں تک نچھاور کردیں۔ پھر قاضی حسین احمد کو ایک سیاسی پارٹی کی سربراہی وراثت میں نہیں ملی تھی، بلکہ وہ اپنی صلاحیتوں کی بناپر اپنی جماعت کے سربراہ مقرر کیے گئے تھے۔ ان کا شمار اس لیے بھی بڑے آدمیوں میں ہونا چاہیے کہ انھوں نے سیاست دانوں کی طرح، پارلیمنٹ کا ممبر ہونے کے باوجود مادی وسائل اور پلاٹ جمع نہیں کیے تھے اور وہ کسی بنک کے نادہندہ بھی نہیں تھے۔ جب پاکستان کے دفاع کی بات کی جائے گی تو پاکستان کے ساحلوں تک پہنچنے کے عزائم رکھنے والے سرخ ریچھ کو افغانستان کی سرحد پر روکنے اور پھر وہیں سے اس کا منہ پھیرنے کی منصوبہ بندی میں بھی قاضی صاحب نے بہت بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
زیرنظر کتاب عزیزجہاں، قاضی حسین احمدؒ اسی بڑے آدمی کو خراجِ تحسین کی ایک صورت ہے۔ یہ اُن چھوٹے بڑے مضامین کا مجموعہ ہے جو قاضی صاحب کی وفات کے بعد لکھے گئے، اخبارات اور رسائل میں چھپے اور بعض تقاریب میں بھی پڑھے گئے اور بعض مکالمے ٹیلی ویژن پر بھی ہوئے۔ لکھنے والوں میں مرحوم کے اہلِ خانہ، عالمی رہنما اور قائدین، جماعتی رفقا، ملکی، سیاسی و دینی قائدین اور اہلِ علم و قلم شامل ہیں۔ حکومتوں کے عہدے دار، سیاسی پارٹیوں کے سربراہ، اسلامی تحریکوں کے قائد، صحافی، ادیب، حتیٰ کہ قاضی صاحب اور جماعت اسلامی کے نظریاتی مخالفین نے بھی قاضی صاحب کی نیک نفسی، اعتدال، درویشی اور بے لوثی کی تعریف و تحسین کی ہے۔ بلاشبہہ قاضی حسین احمد کی زندگی سعادت کی زندگی تھی اور ان کا رخصت ہوجانا غمگین کردینے والا تھا۔ انھوں نے اپنے کردار اور اخلاق سے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا اور کروڑوں دلوں میں اپنے لیے جگہ بنائی۔ زیرنظر کتاب بتاتی ہے کہ دلوں میں جگہ کیسے بنائی جاتی ہے!
بظاہر یہ کتاب متفرق مضامین کا مجموعہ ہے، مگر یہ ایک بڑے شخص کی داستانِ حیات ہے۔ قاضی حسین احمد نے صرف جماعت اسلامی ہی کی قیادت نہیں کی، بلکہ آگے بڑھ کر مسلم دنیا اور عالمی اسلامی تحریکوں کو درپیش بڑے بڑے مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہے۔ انھوں نے دنیا کے مختلف خطوں (افغانستان، کشمیر، بوسنیا، فلسطین، چیچنیا وغیرہ) کے مظلوم اور مقہور مسلمانوں کے دکھ درد کو محسوس کیا اور حتی المقدور طرح طرح سے ان کی مدد کرتے رہے۔ قاضی صاحب کے بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ انقلابی نظریات رکھتے تھے اور جماعت کے اجتماعی مزاج میں کچھ تبدیلیوں کے محرک بھی تھے۔یہ ایک بحث کا موضوع ہے مگر اس میں شبہہ نہیں کہ قاضی صاحب کے دورِ امارت میں اوّل تا آخر جماعت کا مقصد اور نصب العین اور لائحۂ عمل کبھی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا۔
’عزیزِ جہاں‘ کی ترکیب الطاف گوہر نے سیّدمودودی کے لیے استعمال کی تھی، مگر قاضی حسین احمد کے لیے بھی یہ بالکل درست اور صحیح ترکیب ہے، کیوں کہ وہ سیّدمودودی کے جا نشین تھے۔ جمال عبداللہ عثمان نے کتاب کو مرتب کیا اور شاہد اعوان (انڈسٹری، اسلام آباد) نے قابلِ رشک ذوقِ جمال سے اسے ڈیزائن کر کے شائع کیا ہے۔ کتاب کا معیارِ کتابت و طباعت لائقِ تحسین ہے۔ اس میں شامل بہت سی رنگین تصاویر میں بہت سی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)
قرآنِ مجید کی ہدایت کسی ایک عہد تک محدود نہیں بلکہ یہ ہردور کے انسانوں کے لیے سرچشمۂ ہدایت ہے۔ قرآنِ مجید کی منصوص تعلیمات بغیر کسی تبدیلی کے ہر دور میں موجود رہی ہیں۔ نص میں تغیر و تبدل نہیں ہوا۔ ہر دور کی متغیر تہذیب سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے قرآنی نصوص کی تعبیر و تفسیر کا کام جاری رہا۔ اس تفسیری و تشریحی کام نے ہر دور میں بدلے ہوئے حالات کے باوصف قرآنی ہدایات سے روشنی حاصل کی اور قرآن پر عمل کے لیے راہیں نکالیں۔ یہی کاوش تنقیح و تحقیق اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ فقہاے اسلام کا طرئہ امتیاز بنی۔
زیرتبصرہ کتاب کے بعض مضامین میں مصنف نے مختلف مباحث پر قرآنی نقطۂ نظر سے بات کی ہے اور بعض عنوانات کے تحت انھوں نے اپنے افکارونظریات بھی پیش کیے ہیں۔ جن عنوانات پر انھوں نے اپنی راے پیش کی ان میں سے چند ایک یہ ہیں: ہدایت و ضلالت میں انتخاب کی آزادی، تعبیرنصوص میں قدیم اور جدید منہج، قوم، اُمت اور ملّت کے قرآنی اطلاقات اور ہماری شناخت، کیا غیرمذاہب کے تمام پیروکار باطل پرست ہیں؟ عذابِ الٰہی اور فطری حوادث کے مابین فرق، نفاذِ شریعت کے قرآنی اصول، قتلِ عمد میں قصاص و دیت، حقیقت ربا اور اس کی اطلاقی نوعیت، امام اعظم کی قرآن فہمی کے چند نظائر، موت و حیات کا قرآنی و مغربی تصور، مسئلہ نسخ اور شاہ ولی اللہ دہلوی۔ تمام مضامین میں قرآنی فکر ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے اور تنقیح و تفہیم سے کام لیا گیا ہے۔
بعض مباحث میں علما کے نقطۂ نظر کا اختلاف موجود ہے۔ مصنف نے ایسے مباحث کو واضح کر کے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے، مثلاً ایمان اور عمل کے تلازم کی بحث (ص۲۷)۔ بعض علما ایمان اور عقیدے کو ترجیح دیتے ہیں اور بعض کے نزدیک عمل کے بغیر عقیدہ متحقق نہیں ہوتا۔ مصنف نے دونوں کو ایک دوسرے کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ مشینی ذبیحے پر بھی علما نے اپنی آرا پیش کی ہیں۔ یورپ اور امریکا میں الیکٹرک شاک سے جانور کو بے ہوش کرکے ذبح کیا جارہا ہے۔ مصنف کے خیال میں اس طرح جانور کا خون پوری طرح خارج نہیں ہوتا۔ قرآن کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ذبح میں جانور کے خون کا مکمل اخراج اور تکبیر ضروری ہے۔
مصنف نے’نصوص‘ کی تعبیر کے حوالے سے بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ مسلمانوں میں جب سے مسلکی تعبیر کی ترویج ہوئی تب سے اختلاف راے نے تشدد کی صورت اختیار کرلی۔ بعدازاں یہی تشدد منافرت میں بدل گیا۔ مسلکی تعبیر میں غلو سے اختلافات کا بازار گرم ہوا تو یہ ملّت اسلامیہ کے انتشار اور اس کے زوال کا باعث بنا۔ مصنف نے قدیم و جدید مناہج تعبیر سے کام لیتے ہوئے اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ تعبیرنصوص کے لیے روایت و درایت کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے۔ مصنف کی آرا سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، یہ اختلاف، راے کا اختلاف ہوگا، اسے کسی مسلکی تنگ نظری یا متجددین کی آزاد خیالی پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کاوش بہرحال آج کے حالات میں ایک نئی آواز ہے جس میں قرآنی بصیرت اور خدمت کا جذبہ شامل ہے۔
مصنف کو احساس ہے کہ وہ مشکل پسندی کا شکار ہیں، تاہم وہ مطمئن ہیں کہ صحافتی زبان اور علمی زبان دو مختلف اسلوبِ بیان کی حامل ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ وہ خداداد بصیرت سے کام لے کر قرآنی معارف و بصائر سے اُردوخواں طبقے کو مستفید کرتے رہیں گے۔(ظفرحجازی)
زیرنظر کتاب ایک انتہائی حساس موضوع پر لکھی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص پیدایشی طور پر کسی مہلک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہو یا پھر عمر کے کسی حصے میں وہ مسلسل مہلک بیماری کا شکار ہوجائے اور اس کے شفایاب ہونے کی کوئی ممکنہ صورت نہ نظر آئے، یہاں تک کہ اس کی مثل مثلِ مُردہ کے ہوجاتی ہے کہ اپنا کوئی کام وہ خود نہیں کرسکتا۔ اس کی ساری ضرورتوں کی تکمیل اس کے قریب ترین رشتہ دار انجام دیتے ہیں۔ مریض یا تو مکمل بے حس اور بے حرکت ہو، جیسے کومے یا برین ہیمرج اور فالج کی مخصوص حالتیں ہوسکتی ہیں، یا پھر شدت تکلیف سے مسلسل کراہ رہا ہو اور ایڑیاں رگڑ رہا ہو۔ ایسے میں کسی مناسب تدبیر کے ذریعے یا پھر اس کے علاج معالجے کو روک کر اسے موت کی آغوش میں پہنچاناقتل بہ جذبۂ رحم کہلاتا جے جسے علمِ طب کی اصطلاح میں Euthanasia کہا جاتا ہے یا پھر انگریزی میں Mercy Killing سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ قتل بہ جذبۂ رحم کی عموماً تین قسمیں بیان کی گئی ہیں: ۱-رضاکارانہ ۲- غیررضاکارانہ۳- نادانستہ۔اسی طرح قتل بہ جذبۂ رحم کے لیے مختلف طریقے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر مفتی محمد شمیم اختر قاسمی نے مذکورہ موضوع کا واقعی حق ادا کردیا ہے۔ زیرنظر کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ قتل بہ جذبۂ رحم کے ساتھ ساتھ باب سوم میں خودکشی کا تصور اور اسلام میں اس کا حکم، اور باب چہارم میں مریض، معالج اور اقربا کے حقوق و ذمہ داریاں بھی بیان کی گئی ہیں۔ آخر میں اسلام کا شرعی نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ مریض کی موت کے لیے ایسا اقدام حرام ہے، نیز اس ضمن میں علما کی آرا اور فقہی اداروں کا موقف اور ضمنی مباحث بھی پیش کیے گئے ہیں۔ غرض یہ کتاب اپنے موضوع کا بخوبی احاطہ کرتی ہے۔(حافظ ساجد انور)
تذکارِ بُگویہ کی جلد اوّل و دوم پر ترجمان (نومبر۲۰۱۱ء) میں تبصرہ شائع ہوچکا ہے۔ اب جلد سوم(خطوط، حالات اور خدمات ۱۸۸۳ء-۲۰۱۰ء) منظرعام پر آئی ہے۔
بھیرہ کے خانوادۂ بُگوی کے علما اور اکابر کی علمی، دینی، سیاسی اور تحقیقی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ ۱۰۰ سال پہلے برپا ہونے والی تحریکوں (خلافت اور ترکِ موالات) میں ضلع سرگودھا کے علما کے کردار اور جدوجہد کو مصنف نے تفصیل سے پیش کیا ہے۔ خواجہ ضیاء الدین سیالوی نے گھر میں مستورات کا تیارکردہ دیسی کھدّر کا لباس پہنا اور اسے رواج دیا۔ مریدوں کو تلقین کی کہ سرکاری ملازمت ترک کر دیں۔ مولانا ظہوراحمد بگوی نے ڈیڑھ سال تک سی کلاس میں قید ِ بامشقت کاٹی۔
ماہ نامہ شمس الاسلام ، بھیرہ کے حوالے سے بھی کتاب میں مختلف النوع لوازمہ یک جا کیا گیا ہے۔ زیرنظر جلد میں سیکڑوںخطوط بھی شامل ہیں، جن پر حواشی و تعلیقات کے ساتھ مکتوب نگاروں کے مختصر حالات اور تحریکِ خلافت اور تحریکِ ترکِ موالات کے جاں نثاروں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ خطوط میں ایک پورے عہد کی تاریخ موجود ہے۔ ان سے علما کی ذہنی قابلیت، بعض کا ادب اور شاعری سے لگائو، اُمورِ شریعت میں ان کا تفقّہ، ان کی دینی غیرت اور آزادی کی تحریکوں میں ان کی دل چسپی ظاہر ہوتی ہے، اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عقیدے کے لحاظ سے مختلف مکاتب ِ فکر کے علما بیش تر معاملات میں یک سو تھے اور ان میں رواداری اور برداشت زیادہ تھی۔ تاریخ، سیاسیات، اور اسلامیات کے طالب علموں کے لیے اس کتاب میں بہت قیمتی لوازمہ موجود ہے۔خطوں کی تعداد ۶۸۰ اور سکین شدہ (scanned) خطوں اور دستاویزات کی تعداد ۳۰۰کے لگ بھگ ہے۔ مؤلف نے کمالِ محنت اور تحقیق سے لوازمہ جمع کر کے مرتب کیا ہے۔ قلمی رجسٹروں اور دستاویزات سے بھی مدد لی گئی ہے۔ سکین شدہ دستاویزات کی موضوع وار فہرست اور آخر میں ان کے عکس شامل کردیے ہیں۔اس سے قارئین اور تحقیق کاروں کے لیے استفادہ آسان ہوگیا ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
ادبی دنیا میں گراں قدر خدمات انجام دینے والے اساتذہ کی خدمات اور عظمت کے اعتراف میں ارمغان پیش کرنے کی روایت دیگر زبانوں کی طرح اُردو میں بھی موجود ہے۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے ۱۹۵۵ء میں اپنے استاد ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کی خدمت میں مجموعۂ مقالات پیش کیا۔ اُس وقت سے اب تک اُردو میں تقریباً دو درجن ارمغان پیش کیے جاچکے ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر بھارت میں پیش کیے گئے ہیں۔ ارمغان عموماً کسی ادارے یا مجلس کی طرف سے تیار کیا جاتا ہے۔ زیرنظر ارمغان ڈاکٹر ہاشمی کو ۲۰ نام وَر اساتذہ اور علما (اسکالرز) پر مشتمل ایک ’مجلس سپاس‘ نے پیش کیا ہے جس کے سربراہ سرگودھا یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی بنیادی شناخت ایک معلم اور محقق کی ہے۔
زیرنظر ارمغان چھے حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ اقبال و اقبالیات پر ممتاز دانش وروں کے مقالات پر مشتمل ہے۔ دوسرے، تیسرے اور چوتھے حصے میں ملکی و غیرملکی ممتاز محققین کے تحقیقی مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔ پانچویں اور چھٹے حصے میں ہاشمی صاحب کے سوانحی حالات اور ادبی سرگرمیوں اور تحقیقی کارناموں کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے۔ نیز ان کی علمی دل چسپیوں کی مناسبت سے (اقبالیات، مودودیات، اسلام، اُردو تحقیق و تنقید، تاریخ پر ۲۵ مقالات شاملِ اشاعت ہیں۔ ارمغان کی روایت یہی ہے۔ یہ مقالات چار زبانوں (اُردو، انگریزی، ترکی ، فارسی) میں ہیں۔ لکھنے والوں میں پاکستان، بھارت، ایران اور ترکی اور جاپان کے نام وَر اساتذہ شامل ہیں۔یاد رہے کہ ان کی زیرنگرانی پی ایچ ڈی اور ایم فل کے ۳۰ سے زائد اور ایم اے کے ۴۴ سے زائد تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں۔
یہ کتاب کئی حوالوں سے اُردو میں ارمغانِ علمی کی روایت میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔ ہاشمی صاحب مزاجاً کم آمیز، شہرت سے گریز پا، گوشہ نشین اور کام میں مگن آدمی ہیں۔ ان کے بہت سے اور باصلاحیت شاگردان موجود ہیں(ڈاکٹر عطش درانی، ڈاکٹر محمدایوب صابر، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر راشد حمید، ڈاکٹر زاہدمنیرعامر، ڈاکٹر اختر النساء، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر ارشد محمود خان اور ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم وغیرہ)لیکن یہ سعادت ڈاکٹر خالدندیم کے حصے میں آئی اور انھوں نے محبت، محنت اور جاں کاہی سے یہ فریضہ بخوبی نبھایا ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)