عبدالغافر صلاح


۱۰ جون ۲۰۱۴ء کے بعد سرزمینِ عراق نے خطے کے تمام ممالک کی توجہ اپنی طرف مبذول کیے رکھی۔ ان ایام میں تنظیم الدولہ الاسلامیہ فی العراق والشام (داعش) نے ضلع نینویٰ کے انتظامی مرکز اور عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کرلیا جس کی آبادی ۱۰لاکھ نفوس سے زائد ہے۔ شمال مغربی بغداد میں ضلع صلاح الدین اور اس کے انتظامی مرکز تکریت، مغربی عراق کے ضلع انبار اور اس کے انتظامی مرکز رمادی پر اپنا تسلط قائم کرلیا۔ اس کے ساتھ پٹرول مہیا کرنے والے بیش تر علاقے پر بھی تنظیم نے کنٹرول حاصل کرلیا۔ یہ تمام کارروائی فلوجہ شہر کو مسلسل محاصرے میں رکھنے اور اس کے ہزاروں شہریوں کو ہجرت پر مجبور کیے رکھنے کے بعد عمل میں آئی۔ حالیہ چند مہینے امن و امان کی صورت حال کے اعتبار سے بہت خوف ناک گزرے۔ اس طرح حکومتی افواج کی پسپائی کے نتیجے میں دارالحکومت بغداد کی طرف رسائی کا راستہ تنظیم کے لیے آسان ہوتا نظر آرہا تھا۔      چند ہفتوں کے درمیان یہ عمل اس سُرعت سے مکمل ہوا کہ عراق کے ایک تہائی رقبے پر داعش نے اپنی اتھارٹی قائم کرلی، اور بغداد میں بھی اپنی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے۔

اس حیرت انگیز تیزرفتار کامیابی پر تنظیم کے ترجمان ابو محمد العدنانی کے اعلانِ قیامِ خلافت نے ہرشخص کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ انھوں نے حلب (شام) سے لے کر دیالی (عراق) تک خلافت ِاسلامیہ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی تنظیم کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے منصب ِ خلافت پر متمکن ہونے کا مژدہ بھی سنایا۔

داعش کا یہ اعلان بظاہر غیرمعمولی حد تک غیرمعقول ہے مگر جن حالات میں یہ اعلان سامنے آیا اس نے پورے عالمِ اسلام کی توجہ حاصل کرلی۔ اس میں شک نہیں کہ عراق اور شام دیگر عرب ممالک کی نسبت زیادہ ابتر سیاسی صورتِ حال سے گزررہے ہیں۔ بیرونی طاقتوں نے اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے ملک کے انسانی و مادی وسائل کو بے دریغ تباہ و برباد کیا ہے۔ ربع صدی قبل ایران کے ساتھ تصادم میں اس کی قوتوں کو ضائع کرنے کا کھیل کھیلا گیا اور بعدازاں صدام حسین کی ’انانیت‘ کو زیر کرنے اور خلیج میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ ظلم و ستم اور جبروقہر کی یہ تاریخ نئے سے نئے باب رقم کرتی جارہی ہے، حتیٰ کہ انسانی حقوق کی پامالی اور فرقہ وارانہ تصادم نے انسانی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ شیعہ سُنّی فسادات کو ہوا دینے کے لیے اس طرح کا اعلان جلتی پر تیل کا کام کرگیا۔ چونکہ داعش کے نام اور تذکرے کے ساتھ ہمیشہ سُنّی کا لفظ ضرور استعمال کیا گیا ہے، لہٰذا یہ بات اس خدشے کو حقیقت میں بدلتی نظر آئی کہ اس سے لازماً شیعہ سُنّی تصادم کو ہوا ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عراق کے شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی نے بھی داعش کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔

اس اعلان کے بعد جس خوف ناک صورت حال کے پیدا ہونے کا خدشہ تھا اس کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے علماے اسلام کے عالمی اتحاد (الاتحاد العالمی لعلما المسلمین) نے اپنے فوری ردعمل کا اظہار کیا۔ اتحاد نے شرعی طور پر اس اعلان کا جائزہ لیا اور ایک جامع بیان جاری کیا جس میں کہا گیا: عالمی اتحاد براے علماے مسلمین نے ’الدولہ الاسلامیہ‘ نامی تنظیم کی طرف سے جاری کی گئی تصریحات کا بغور جائزہ لیا ہے۔ یہ تنظیم عراق کے اندر دیگر عراقی طاقتوں کے ساتھ ہی وجود میں آئی تھی اور مقصد عراق کے اہلِ سنت اور ملک کے مظلوم انسانوں کی مدافعت تھا۔ یہ بات باعث ِ مسرت تھی اور ہم نے اس جمعیت کو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی بناپر خوش آمدید کہا۔ مگر جلد ہی اس تنظیم کی دیگر تنظیموں اور ملکی قوتوں سے علیحدگی عمل میں آگئی اور انھوں نے ’اسلامی خلافت‘ کے قیام اور ’خلیفۃ المسلمین‘ کی نامزدگی کااعلان یہ کہتے ہوئے کیا کہ دنیا بھر کے مسلمان بھی اس خلیفہ کی بیعت کریں اور اس کا حکم مانیں۔ اتحاد ان تمام اُمور کو شرعی اور دنیوی کسی بھی معیار پر درست نہیں سمجھتا۔ اتحاد کے نزدیک اس کے نقصانات زیادہ اور فوائد کم ہیں۔ اس طرح کے   اُمور دیگر تنظیموں اور ملکوں کے سامنے انتشار و انارکی کا دروازہ کھول دیتے ہیں کہ ہر کوئی کھڑا ہو اور ازخود خلافت قائم کرنے کا اعلان کردے۔ اس طرح تو خلافت اسلامیہ کا مقدس مفہوم ہی داغ دار ہوکر رہ جائے گا۔ یہ بہت بڑا خطرہ ہے اور دشمن کے منصوبوں کے سوا یہ کسی کی خدمت نہیں۔

اتحاد نے یہ بھی کہا کہ خلافت ِ اسلامیہ کے معنی و مفہوم کو ایک ایسی تنظیم کے ساتھ جوڑنا جو لوگوں میں تشددپسند مشہور ہو، منفی ذہنیت کی حامل ہو، ایسا عمل کبھی بھی اسلام کی خدمت نہیں ہوسکتا۔

داعش کے موصل پر قبضے سے سیاسی وعسکری اور امن و سلامتی سے متعلق کئی سوالات کھڑے ہوگئے کہ داعش کن لوگوں پر مشتمل ہے اور عراق کے اتنے وسیع علاقے پر کیسے قابض ہوگئی ہے؟   یہ کیسے قائم ہوئی اور پروان چڑھی؟ اس کے حمایتی اور معاون کون ہیں اور اس کی حرکت کا راز کیا ہے؟ اسے مالی امداد کہاں سے ملتی ہے؟

داعش کی تشکیل کا سلسلہ عراق میں ابومصعب الزرقاوی اردنی کی قائم کردہ تنظیم ’التوحیدوالجہاد‘ سے ملتا ہے۔ ابومصعب کی یہ تنظیم ۲۰۰۴ء میں قائم ہوئی تھی۔ ۲۰۰۶ء میں زرقاوی نے القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی بیعت کرلی۔ زرقاوی اسی سال امریکی افواج کے ایک حملے میں جاں بحق ہوگیا۔ اس کے بعد ابوحمزہ المہاجر تنظیم کا سربراہ مقرر ہوا اور ساتھ ہی ابوعمر البغدادی کی سربراہی میں تنظیم ’دولۃ العراق الاسلامیۃ‘ کی تشکیل بھی عمل میں آگئی۔ ۱۹؍اپریل ۲۰۱۰ء کو ابوعمر البغدادی اور ابوحمزہ المہاجر امریکی و عراقی افواج کے ہاتھوں مارے گئے۔ کوئی ۱۰ دن بعد تنظیم کی شوریٰ کا اجلاس ہوا جس میں ابوبکر البغدادی کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا۔

داعش کی تشکیل ۲۰۱۳ء میں ہوئی۔ یہ عراقی تنظیم ’دولۃ العراق الاسلامیہ‘ اور شام میں مصروفِ عمل مسلح تنظیم ’جبھۃ النصرۃ‘ کے درمیان جنگی معرکہ برپا ہونے کے بعد قائم ہوئی۔ یہ جنگی سرگرمیاں ان کے درمیان موجودہ برس بھی جاری رہیںا ور بالآخر دونوں تنظیموں کا اتحاد ہوگیا اور نتیجتاً ’الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام‘ قائم ہوئی۔

داعش کا سب سے پہلا قدم القاعدہ سے اپنے سابقہ تعلقات اور وفاداریوں سے دست کش ہوجانا تھا، خصوصاً ایمن الظواہری سے لاتعلق ہونا ضروری خیال کیا گیا کیونکہ اُن کی راے تنظیم کی سرگرمیاں صرف عراق تک محدود رکھنے کی تھی۔ داعش کی افرادی قوت کا اندازہ شام اور عراق دونوں ممالک میں ۱۲ سے ۱۵ ہزار تک بتایا جاتا ہے۔ تاہم اس بات میں شک نہیں کہ یہ خطے کی سب سے بڑی مسلح تنظیم ہے۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں اور تجزیہ نگاروں کی آرا کے مطابق داعش کو مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کئی ایک ہیں۔ امریکا سمیت کئی مسلم ممالک بھی اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ یقینا سب کے مقاصد اپنے اپنے ہیں۔ ایک روسی تجزیہ نگار نے وائس آف رشیا میں لکھا ہے  کہ داعش کا امیر اور نامزد خلیفہ ۲۰۰۴ء میں امریکی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور ’بوکا‘ چھائونی میں اُسے رکھا گیا۔ ۲۰۰۹ء میں امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں اُسے رہا کیا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق بغدادی امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں کام کرتا ہے۔ ’بوکا‘ چھائونی کے ایک سابق انسپکٹر نے بتایا کہ بغدادی کو یہاں سے عراقی افواج کے حوالے کیا گیا تھا جس نے اُسے رہا کردیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق داعش نے موصل پر قبضے کے دوران ۴۰۰ ملین ڈالر اکٹھے کیے۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ شہریوں سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔ مالی اور اسلحی طور پر داعش دنیا کی امیرترین مسلح تنظیم ہے جس پر دہشت گردی کا الزام ہے۔

بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکا اس وقت شامی حکومت کے خلاف مسلح مزاحمت میں اضافے کو پسند نہیں کرتا۔ دوسری طرف ایرانی سرگرمیوں کا بھی اُسے احساس ہے جو روس کے تعاون سے ہوتی ہیں اور یہ خلیجی دوست ممالک کے لیے باعث ِ تشویش ہیں۔ وہ ایک طرف عراق میں اپنے مقاصد کے تحفظ کے لیے داعش کے مقاصد کو تقویت دے رہا ہے۔ دوسری طرف یوکرائن میں بھی روس امریکا کش مکش جاری ہے جس سے عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

داعش کی مسلح سرگرمیوں کے بارے میں بیش تر تجزیہ نگاروں کی راے ہے کہ عراق میں جو کچھ ہوا ہے یہ نوری المالکی کی ظالمانہ و وحشیانہ سیاسی کارروائیوں کا ردعمل ہے جو اس نے اہلِ سنت کے خلاف روا رکھیں۔ سیاسی میدان کو اہلِ سنت کے لیے بالکل بند رکھا۔ اس مسئلے کے حل کے مواقع پیدا نہ ہونے دیے۔ سوال یہ ہے کہ داعش اُس وقت بھی موجود اور طاقت ور تھی لیکن اس نے دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر اہلِ سنت کے حقوق کی جدوجہد میں کیوں حصہ نہ لیا؟ ممکن ہے داعش کے قیام سے ایک بڑا خطرہ جنم دے کر عراق کے اہلِ سنت کی سیاسی جدوجہد کو کچلنا مقصود ہو۔

اس صورتِ حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو کئی امکانات اور خدشات دکھائی دیتے ہیں:

 اس عمل سے عراق کی تقسیم کا ہدف حاصل کرنا بھی مقصود ہوسکتا ہے کہ عراق کو تین مملکتوں میں، یعنی شیعہ، سُنّی اور کرد ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ مئی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کُرد اور سُنّی نمایندوں کی طرف سے اس طرح کے مطالبات سامنے آچکے ہیں۔ مثال کے طور پر سوڈان کی تقسیم کو دیکھا جاسکتا ہے۔

دوسرا امکان یہ ہوسکتا ہے کہ ایک طرف شیعہ اور ایران کی طاقت کو کچلا جائے تو دوسری طرف سُنّی اور خلیج کی قوت کو توڑا جاسکے۔ ماضی میں ایران عراق تصادم اس کی مثال ہے۔ جب ان دونوں محاذوں پر خطے کے اندر انتشار و افتراق پیدا ہوجائے گا تو عالمی اہداف اور مقاصد کا حصول آسان تر ہوگا۔ نئے اتحادوں اور دوستیوں کے تناظر میں ایک نیا خطہ تشکیل دیا جائے گا۔ اس کی مثال بھی ماضی کے ’سائیکس -پیکو‘ معاہدے میں موجود ہے۔ لیکن اب معاہدے کے فریق یقینا مختلف ہوں گے۔ اس منظرنامے میں عراق کے سُنّی علاقے کو اُردن کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا اور شیعہ علاقے کو کویت اور ایران کے ساتھ، جب کہ کرد علاقہ ترکی کے ساتھ، شامل ہوجائے گا۔   مگر اس تقسیم کو امریکا قبول نہیں کرے گا، لہٰذا اس کا راستہ روکنے کے لیے اقدامات کرنا اُس کی ضرورت ہے۔

داعش کی سرگرمیوں سے عراق و شام دونوں ممالک کے اندر ایسی دائمی کش مکش برپا کرنا بھی مقصود ہوسکتا ہے جو افغانستان اور صومالیہ جیسی صورت حال پیدا کیے رکھے کہ مسلح قوتیں مستقل تصادم میں مصروف رہیں۔

ایک امکان یہ ہوسکتا ہے کہ امریکا اگر اپنے مقاصد کو پورا ہوتا نہ دیکھے تو نہ چاہتے ہوئے بھی آخری چارئہ کار کے طور پر اپنی افواج کو عراق میں اُتار دے۔ یہ بھی اُسی وقت ہوسکتا ہے جب عراقی سیاسی و انتظامی صورت حال امریکی مہروں کے کنٹرول سے باہر نکل جائے اور ملک کا انتظامی اختیار متشدد اسلامی طاقتوں کے ہاتھ میں چلا جائے۔

گذشتہ ربع صدی کے دوران عراق میں جو کچھ پیش آیا ہے یہ اس ملک کی غیرمعمولی اسٹرے ٹیجک اہمیت کی بنا پر ہوا ہے۔ دشمنانِ اُمت نے اپنے استعماری اہداف کے حصول کے لیے کھربوں ڈالر یہاں صرف کیے ہیں۔ یہ ’سرمایہ کار‘ آسانی اور سہولت سے تو اپنے اہداف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ لہٰذا ممکن نہیں کہ اتنی بڑی عسکری تحریکیں ان قوتوں کی براہِ راست نگرانی اور مداخلت سے بچ جائیں۔ ادھر ایران نے اپنے مفادات کے لیے اور شام میں نفوذ حاصل کرنے کے لیے بے پناہ دولت اور وسائل خرچ کیے ہیں، حتیٰ کہ اس نے ان روابط اور تعلقات کی بھی قربانی دے دی ہے جو اس نے ربع صدی کے دوران اُمت کے ساتھ استوار کیے ہیں۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ شام کی اسٹرے ٹیجک اہمیت ایران کے لیے عراق کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

شام کے اندر مزاحمت کاروں کی قوت ایک لاکھ سے زائد ہے۔ وہ مسلسل د و سال سے اس حکومت کے خلاف سخت معرکے میں مصروف ہیں۔ ہرقسم کا اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ مقامی چھائونیاں بھی بنا رکھی ہیں مگر وہ عراق کے اندر جاری مزاحمت کی نسبت آدھی کامیابی بھی حاصل نہیں کرپائے ، جب کہ عراق میں مزاحمت کاروں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔

گذشتہ ایام میں ارضِ عراق کے اندر جو کچھ واقع ہوا ہے یہ عراقی افواج کی پسپائی اور ہزیمت و شکست نہیں ہے بلکہ یہ سرنڈر ہے جو عراقی افواج کے اس سرنڈر سے کامل اور عجیب مشابہت رکھتا ہے جو اس نے امریکی حملے کے سامنے کیا تھا۔ افواج کے یونٹ اپنے کمانڈروں اور سالاروں سے الگ ہوگئے اور انھوں نے سویلین کے اندر چھپنے اور فوجی وردیاں اُتارنے کا مظاہرہ کیا۔ اب کئی سال بعد یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ سرنڈر جنگ سے بہت پہلے طے ہوچکا تھا۔

حالیہ واقعات اور داعش کی پیش قدمیوں اور عراقی افواج کی پسپائی نے یقینا بہت سے شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔ صرف داعش ہی منظر پر موجود ہے۔ وہ تنہا اپنی عسکری و سیاسی کارروائیوں کی کامیاب منصوبہ بندی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ بات بطور خاص توجہ طلب ہے کہ مشکل میدانِ جنگ میں قصبات و شہروں کے اُوپر اس کا قبضہ، حتیٰ کہ بغداد اور نجف و کربلا جیسے مقدس شیعہ مقامات پر کنٹرول حاصل کرلینا، داعش کی عسکری و افرادی قوت اور جنگی حکمت عملی کے تناظر میں ممکن نہیں ہے۔ یہ بات تنظیم کے پیچھے خفیہ ہاتھ اور اس کے نام اور خود تنظیم کو استعمال کرنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک تجزیہ نگار نے اس کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بغداد ۲۰۱۳ء کے اوائل میں دیرالزور میں شامی تیل کے مسئلے پر اور شمالی کردوں کی آزادی کے قضیے پر امریکا سے مزید تعاون کرتا تو یہ ممکن تھا کہ امریکا مالکی سے منہ نہ پھیرتا اور اُسے زیادہ طویل وقت دے دیا جاتا۔

مارچ ۲۰۱۳ء میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے مطالبہ کیا کہ عراق شام کو اسلحی امداد دینا بند کرے۔ تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اُس دوران امریکی اسلحہ عراق کے اندر داعش کو دیا جاتا رہا۔ ۲۲؍اپریل ۲۰۱۳ء کو وزراے خارجہ کے یورپی اتحاد کے ۲۷ ارکان نے اس قرارداد سے اتفاق کیا کہ شام کے جن علاقوں پر مزاحمتی تحریک کا قبضہ ہے وہاں سے آنے والے تیل کی برآمد پر پابندیاں ختم کردی جائیں۔ مقصد تحریکِ مزاحمت کی حربی جدوجہد کو مالی امداد کی فراہمی آسان بنانا تھا۔

چند ماہ سے ذرائع ابلاغ عراقی حالات و واقعات کی ایسی تصویر دکھاتے رہے ہیں جو حقائق کو ایک دوسرے ہی رنگ میں پیش کرتی ہے۔ داعش کا مسئلہ ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کرکے عراق کے اندر اہلِ سنت کی اصل اور حقیقی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سُنّی مزاحمت کے حقیقی کرداروں سے اُن کا کردار چھین کر داعش کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔  زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ یہ حوادث و واقعات اُمت مسلمہ اور عراق کے دشمنوں کا کھیل ہے۔

یہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نقصان بہرحال اُمت مسلمہ ہی کا ہوگا۔ کوئی دینی حکومت کبھی ایسا امتیازی سلوک روا نہیں رکھ سکتی جس میں اپنے ہی دینی بھائیوں کے انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہو۔ عنانِ حکومت کسی سُنّی اکثریت کے ہاتھ میں ہو یا شیعہ اکثریت کے ہاتھ میں عدل و انصاف اورتحمل و برداشت اگر حکومت کا وتیرا نہیں، تو ایسی حکمرانی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ حکومت جمہوریت کا ثمر ہو یا نظامِ خلافت کا، اس کے ناگزیر تقاضوں کو اگر پورا نہ کیا جائے تو نہ جمہوریت میں خیر ہوگی اور نہ خلافت کسی کے لیے باعث ِ کشش رہے گی۔

نائیجیریا مسلم اکثریت کا ملک ہے۔ یہاں وقفے وقفے سے دھماکوں، اغوااور دیگر جرائم کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ان کارروائیوں کا شکار بے گناہ شہری بنتے ہیں۔ جان سے ہاتھ دھونے والے یہ افراد مسلم بھی ہوسکتے ہیں اور عیسائی بھی۔ گذشتہ اپریل میں دارالحکومت ابوجا کے نواح میں دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا جس میں ۲۰۰ سے زائد شہری لقمۂ اجل بن گئے۔ اس کے بعد ۲۲۳ طالبات کا اغوا عمل میں آیا جس کی ذمہ داری وہاں کی تشدد پسند تنظیم ’بوکوحرام‘ نے قبول کی ہے۔

’بوکوحرام‘ کا مفہوم ’ہوسا‘ قبائل کی زبان میں ہے:’’مغربی تعلیم حرام ہے‘‘۔ یہ تنظیم اپنی سرگرمیاں ملک کے شمال میں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ اسلامی شریعت کے نفاذ کی دعوے دار ہے۔ قانونی طور پر یہ تنظیم اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق کھو بیٹھی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں نائیجیریا کے شمال میں بورنو کے علاقے میں ایک دینی مدرس اور عالم محمد یوسف کی قیادت میں یہ تنظیم قائم ہوئی۔ ’بوکوحرام‘ ایک پُرامن اور اصلاحی تنظیم تھی۔ اس کا مطالبہ ملک پر مسلط صلیبی حکومت کی مغرب زدگی سے نجات حاصل کرنا تھا۔ مگر افسوس کہ اس کے قائدین نے دین و سیاست کا درست فہم نہ رکھنے کے باعث مسلمانوں کے لیے بہت سی مشکلات اور پریشانیاں کھڑی کردیں۔ اس طرح انھوں نے صلیبی حکومت کو نائیجیریا کی اسلامی بستیوں اور شہروں میں قتل و غارت کے درجنوں مواقع فراہم کردیے۔ ہزاروں لوگ موت کی نیند سلا دیے گئے اور ہزاروں اسیر بنا کر پسِ دیوارِ زنداں ڈال دیے گئے۔

تنظیم کے قیام کے کچھ عرصے بعد یہ خبریں ملنے لگیں کہ بعض مغربی ممالک اس تنظیم کو اسلحہ اور مالی وسائل فراہم کر رہے ہیں۔ تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ یہ تحریک چھوٹے چھوٹے گروپوں کے بجاے ایک بڑی اور مؤثر تنظیم بن جائے۔ یہ تنظیم دراصل اُن طلبہ نے تشکیل دی تھی جو مغربی نظامِ تعلیم کو اختیار کرنے سے انکاری تھے۔ ان کے ساتھ بعض نام نہاد بہی خواہ بھی بیرونی ممالک سے ساتھ  مل گئے تھے۔ تنظیم نے اپنی پُرامن شناخت کو اُس وقت بالاے طاق رکھ دیا جب ۲۰۰۹ء میں اس کے رہنما محمد یوسف کو ملک کی امن فورسز نے ایک مسلح تصادم میں گرفتار کرلیا اور بعدازاں قتل کرکے میڈیا پر اعلان کیا کہ حکومت نے امن فورسز کے ذریعے ’بوکوحرام‘ کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔

’بوکوحرام‘ کا دنیا کی مشہور ریڈیکل تنظیموں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں، خصوصاً القاعدہ کے ساتھ تو کبھی کوئی رابطے دریافت نہیں ہوسکے۔ دراصل معاملہ بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات اور نائیجیریا کے اندر تیل کی دولت سے وابستہ ہے۔ ۲۰۰۴ء میں ترک صحافی ابراہیم قرہ گل نے اس موضوع پر ’’پینٹاگان کا خفیہ منصوبہ ___ عنقریب کہاں کہاں تصادم رُونما ہوں گے‘‘ کے عنوان سے تجزیہ کیا تھا۔ یہ تحریر عراق پر امریکی حملے کے بعد لکھی گئی۔ انھوں نے اُس وقت نائیجیریا کو تصادم کا اگلا مرکز قرار دیا تھا۔ یہ بھی کہا کہ یہ بحران کئی سال سے مسلسل جاری ہے اور جاری رہے گا، حتیٰ کہ ملک تقسیم ہوکر رہے گا۔ قرہ گل نے طالبات کے موجودہ اغوا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بوکوحرام‘ اس ناپاک جنگ کا ایک حصہ ہے۔ اس منظرنامے کا مزید طویل ہونا ملکی وسائل کو تقسیم کے عمل سے گزارنا ہے، یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تصادم برپا کرکے اس مقصد کو حاصل کیا جائے گا۔

تیل کی دولت نائیجیریا کے شہریوں کے لیے یقینی طور پر بے پناہ اہمیت کی حامل ہے مگر یہ بین الاقوامی تسلط اور انتشارپسندی کا باعث بھی ہے۔ اس سے ملک کے اندر سیاسی اور علاقائی مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ وزیرمالیات ندیدی عثمان کہتی ہیں کہ پٹرول نے ہمیں بے کار بنادیا ہے۔ میں جب چھوٹی تھی تو یہ سیکھا تھا کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے عقل اور محنت سے کام لوں ، جب کہ پٹرول کے دور کی موجودہ نسل اس امر کا اہتمام نہیں کرتی، حتیٰ کہ سوچتی تک نہیں۔ نائیجیریا کے  سابق صدر ’اوباسانچو‘ نے بذاتِ خود انھی خیالات کا اظہار ۲۰۰۳ء میں ایک بڑے عوامی جلسے میں  کیا تھا کہ: ہمیں گیس اور پٹرول نے اندھا کردیا ہے اور ہماری روایات و اقدار سے دُور دھکیل دیا ہے، بلکہ ہمیں ان سے وحشت ہوتی ہے اور ہم اس معاملے میں سخت دل ہوگئے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق امریکا براعظم افریقہ کے مغرب میں واقع ممالک خصوصاً نائیجیریا کے اندر پٹرول کو بہت اہم خیال کرتا ہے۔ یہ خطہ ۶۰ لاکھ بیرل یومیہ تیل پیدا کرتا ہے۔ اس طرح  یہ ایندھن کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے اہم ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کو  عدم استحکام سے دوچار رکھا جاتا ہے۔ ادھر نائیجیریا اُن ممالک میں سرفہرست ہے جو امریکا کو تیل برآمد کرتے ہیں۔ نائیجیریاکا تیل امریکا کے لیے پانچواں بڑا مرکز قرار پاتا ہے کیونکہ یہاں سے اُسے ۱۵لاکھ بیرل تیل روزانہ مہیا ہوتا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک بھی امریکا کے ساتھ نائیجیریا سے تیل حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ دونوں کے مفادات ’اتحاد و اتفاق‘ کی سطح پر نہیں ہیں بلکہ برطانیہ سمجھتا ہے کہ وہ طویل عرصہ نائیجیریا پر قابض رہا ہے، لہٰذا اس کا حق فائق ہے۔ اس کے ساتھ ہی اُسے یہ امر بھی فائدہ پہنچاتا ہے کہ نائیجیریا دولت ِ مشترکہ کا رکن بھی ہے۔ برطانیہ کی قدیم ترین کمپنی ’کان شیل‘ بھی نائیجیریا کے ان علاقوں میں ایک عرصے سے موجود ہے جہاں تیل کے کنویں ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانیہ اپنی ضرورت کا ۱۰ فی صد تیل نائیجیریا سے لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ اس خطے کو اہمیت دیتا ہے اور پُرامن تعاون کا خواہش مند بھی ہے اور اس کے لیے کوشاں بھی۔

اس منظرنامے کو پیش نظر رکھیں تو اغواشدہ طالبات کی رہائی کے لیے عالمی واویلے کی   حقیقت سمجھ آتی ہے۔ امریکی صدر اوباما کی بیوی نے ’یومِ ماں‘ کے موقع پر ان طالبات کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کو بہت زیادہ اُچھالا۔ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے بھی اس معاملے میں تمام تر حمایت اور تعاون کا یقین دلایا۔ ’بوکوحرام‘ کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا اظہار کیا۔ برطانیہ اور اسرائیل نے بھی اس معاملے میں اپنی اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ معروف مصری کالم نگار ڈاکٹر حلمی القاعود نے لکھاہے: محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے شرپسند اس وقت نائیجیریا کی ان طالبات کی رہائی کو بہانہ بناکر نائیجیریا کے اندر اپنے  براہِ راست داخلے کی تیاری میں ہیں۔وہ اپنی افواج کی موجودگی کو لامحدود عرصے تک وہاں یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل سب نے طالبات کو رہا کرانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ انسانی حقوق کے نام نہاد عالمی محافظوں کو شام، برما، فلسطین، مصر اور دیگر ممالک میں انسانی حقوق پامال ہوتے بھی دکھائی دینے چاہییں جہاں یہ حقوق ہیں تو انسانی مگر مسلمانوں کے لیے نہیں!