مارچ ۲۰۰۸

فہرست مضامین

امریکی مسلم خواتین کا نیا محاذ

رضی الدین سید | مارچ ۲۰۰۸ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

امریکا یا یورپ میں بالخصوص ستمبر ۲۰۰۱ء سے مسلمان کے طور پر زندگی گزارنا عملی طور پر ایک جرم بن گیا ہے۔ ان کے خلاف بے شمار قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ بظاہر ان اقدامات کا مقصد ’انتہاپسندوں‘ پر قابو پانا ہے لیکن عملاً تمام ہی مسلمان شک وشبہے کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔ سیکورٹی چیک کے بہانے انھیں الگ کھڑا کردیا جاتا ہے، جب کہ بعض کو تو جہاز سے بھی اُتار لیاجاتا ہے۔ سیکڑوں مسلمانوں کومحض شبہے میں گرفتار کر کے ان کی زندگیوں کو تباہ کردیاگیا ہے جیساکہ  گذشتہ ماہ لندن کی ۲۳ سالہ ثمینہ ملک کو محض جہادی شاعری کی بنیاد پر دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا۔ امریکا اور کینیڈا میں مسجدوں اور اسلامی طرز کے اسکولوں کو غنڈا گردی کا نشانہ بنایاگیا ہے اور حجاب پہننے والی خواتین پر آوازے کسے جاتے ہیں۔ ان اقدامات کو مغرب میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں جائز قرار دیا جاتا ہے۔ 
اس ناروا سلوک پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسکولوں اور جامعات میں مسلم طلبہ کوجب اس بنیاد پر نماز کی سہولت فراہم کرنے سے انکار کیاگیا کہ تعلیمی ادارے سیکولر بنیادوں پر قائم ہیں تو مقامی طلبہ کی ایک تنظیم ’اونٹاریو فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس‘ نے تعلیمی اداروں پر چھا جانے والے ’اسلامو فوبیا‘ کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا ہے۔
امریکی مسلم خواتین کی ایک تنظیم نیشنل ایسوسی ایشن آف مسلم امریکن وومن، ناما (NAMAW) نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے باقاعدہ قانونی جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔ اس تنظیم نے امریکی محکمۂ انصاف کے پاس جنوری ۲۰۰۷ء میں امریکی عربوں اور مسلمانوں کے خلاف صہیونی لابی کی حرکتوں پر مبنی ایک شکایت درج کرائی تھی جس میں سول رائٹس ڈویژن کے سربراہ مارک کیپل ہوف سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ اس امر کی تحقیقات کرائے کہ کئی شخصیات اور اداروں نے قانون نافذ کرنے والے امریکی اداروں کو گمراہ کن اور حدسے زیادہ سیاسی اطلاعات فراہم کی ہیں جن کا مقصد امریکی عربوں اور مسلمانوں کے خلاف مالی، سماجی، قانونی اور سیاسی ماحول پیدا کرنا ہے تاکہ ان کے ساتھ مذہبی امتیاز پر مبنی پالیسی بنائی جاسکے اور انھیں پوچھ گچھ کے مرحلوں سے گزارا جاسکے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ اس وجہ  سے مسلمانوں کو ان کے جائز آئینی حقوق سے بھی دستبردار کیا جا رہاہے۔
ناما کسی ایسے فرد یا ادارے کو براہِ راست نامزد کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتی جسے وہ امریکی عرب اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا اور ان کی ساکھ متاثر کرنے کا ملزم گردانتی ہو۔ اس کے نزدیک اس جرم کا ارتکاب کرنے والی شخصیات وتنظیمات میں امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (AIPAC)، امریکن جیوش کمیٹی (AJC)، اینٹی ڈیفامیشن لیگ (ADL)، امریکن جیوش کانگرس (AJC)، جیوش کونسل آن پبلک افیئرز (JCPA) ہیں، اور شخصیات میں اسٹیوایمرسن، ڈینیل پائپس، ریٹاکاٹز، اسٹیون شوائز اور ایوئن کوہل مین وغیرہ شامل ہیں۔ ان تنظیمات اور شخصیات نے ایسی تقریریں اور بیانات نشر کیے جن کی بنیاد پر امریکی عربی اور عام مسلمانوں کے خلاف معاندانہ ماحول پیدا ہوا اور انھیں شہری آزادیوں اور حقوق سے دستبردار ہونا پڑا۔
اپنی عرضداشت میں ناما کی چیئرپرسن ڈاکٹر انیسہ عبدالفتاح نے مذکورہ شخصیات کی تقریروں، تحریروں اور بیانات کو منسلک کیا ہے جن کے باعث بعض اوقات نفرت انگیزی کی انتہا کردی گئی ہے، اور سرکاری محکمہ جات کو مسلمانوں کے خلاف مغالطے میں مبتلا کیا گیا ہے جن میں امریکی کانگریس بھی شامل ہے۔ اس نفرت انگیز مواد کی نشرواشاعت کا مقصد یہ تھا کہ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف ایسے قوانین منظور کروائے جائیں جن سے ان کے آئینی حقوق پر ڈاکا ڈالا جاسکے۔ عرضداشت میں خصوصی طور پر یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس کے سابقہ بورڈ ممبر ڈینیل پائپس کے ایک حالیہ مضمون کاحوالہ دیا گیا ہے جو نیویارک پوسٹ کی ۲۶دسمبر ۲۰۰۶ء کی اشاعت میں بعنوان ’فاشسٹوں اور کمیونسٹوں کو شکست دینے کے بعد کیا اب مغرب ’اسلام پسندوں‘ کو بھی شکست دے سکتا ہے؟‘ شائع ہوا ہے۔ واضح رہے کہ ڈینیل پائپس اسلام دشمنی کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ اس نے خود کہا تھا کہ اسلام پسند، مقدس اسلامی قوانین، یعنی شریعت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر انیسہ عبدالفتاح لکھتی ہیں: ’’اگر ہم ڈینیل کی مذکورہ تعریف کو قبول کرلیں جیساکہ امریکا میں قانون نافذ کرنے والے اور پالیسی بنانے والے اداروں نے عام طور پر اسے قبول کیا ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا دنیا کے ہرمسلمان حتیٰ کہ خود مذہب اسلام سے بھی حالتِ جنگ میں ہے۔ ڈینیل پائپس کے نزدیک مسلمانوں کی قانونی سرگرمیاں، ان کی غیرقانونی سرگرمیوں سے کہیں زیادہ دُور رس چیلنج کو جنم دیتی ہیں کیونکہ اس طرح امریکا میں سیاسی معاملات میں صہیونی اجارہ داری پر زد پڑتی ہے۔
کسی بھی قسم کا ابہام باقی نہ رہنے دینے کے لیے ڈاکٹر فتاح نے امریکی محکمۂ انصاف کو دوٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ:
۱- یہودی تنظیموں اور سرگرم افراد نے یہاں امریکا میں مسلمانوں، عربوں اور سفیدفام  قوم پرست تنظیموں پر مشتمل اپنے ’دشمنوں‘ کی ایک فہرست تیار کی ہے جس میں ان افراد اور گروپوں کو نامزد کیا گیا ہے جو اسرائیلی ریاست کے لیے خطرہ یادشمن تصورکیے جاتے ہیں۔
۲- ان یہودی تنظیموں نے مسلمانوں، عربوں اور خود اسلام کے خلاف راے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے مالی وسائل اور سیاسی اثر ورسوخ کو استعمال کیا ہے تاکہ سیاسی مقاصد کے لیے انھیں غیرمؤثر کیا جائے، انھیں جائز آئینی و قانونی حقوق سے محروم کیا جائے اور اسلام کی عطاکردہ آزادی پر قدغن لگائی جائے۔
ناما کی طرف سے دائر کردہ اس کی درخواست میں امریکی محکمۂ انصاف سے استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ شکایات کی تحقیقات کی جائیں اور اس قسم کے اقدام کے خاتمے کے لیے ضروری کارروائی کی جائے، تاہم سیاسی اثروسوخ کی بنا پر صہیونی لابی کے خلاف کوئی مناسب اقدام اٹھائے جانے کی امید کم ہے ۔ لیکن نتائج کی پروا کیے بغیر ناما اور اس کی چیئرپرسن کے اس اقدام کی داد ضرور دی جانی چاہیے کہ انھوں نے صہیونی لابی کے نفرت انگیز اقدام کو سرکاری سطح پر نمایاں کیا ہے جس کی وجہ  سے کئی عشروں سے امریکی پالیسیاں صہیونیوں کی یرغمال بنی ہوئی ہیں۔
_______________