آج سے ۱۴ سو سال پہلے چھٹی صدی عیسوی میں، تاریخ کا وہ حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا، جس کی مثال اور نظیر نہ انسان نے پہلے کبھی دیکھی تھی، اور نہ اُس کے بعد دیکھی۔ اس حیرت انگیز واقعے کو مؤرخین انفجار(explosion)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ چند صحرا نشینوں نے جن کے پاس ایک مشن، دعوت اور پیغام تھا، صرف۳۰سال کے عرصے میں گردو پیش کی دنیا میں اس پیغام کو غالب اور سربلند کر دیا۔
سیدنا عثمان غنیؓ کے زمانے میں یہ پیغام کاشغر، ٹریپولی، لیبیا ، تیونس، شمالی افریقہ کے تمام علاقوں تک پہنچ چکا تھا، اور صرف۱۰۰ سال کے عرصے میں ایک طرف اسپین تک اور دوسری طرف دریاے سندھ کی وادی سے گزرتے ہوئے، ہندستان کے مشرقی ساحل کو چھوتے ہوئے چین کے ساحل تک اس کو ماننے والے، اپنی دعوت پہنچا چکے تھے۔ اتنی سرعت اور تیزی کے ساتھ، اتنی عظیم الشان توسیع کی کوئی مثال انسانی تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔ ایک مستشرق کے الفاظ میں لاالہ الاللہ کے برقی نعرے نے عرب کے بدوئوں میں وہ قوت بھر دی، کہ۱۰۰ سال میں ایک یتیم بچے محمدؐ، کا نام صحرائوں، شہروں ، دیہاتوں، پہاڑوں، اور وادیوں میں، ہر جگہ گونج رہا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا؟ کیا اس کے پیچھے کوئی معاشی یاسیاسی عوامل تھے؟ کیا صحراے عرب سے نکلنے والے لوگوں کو فتح عالم کا شوق تھا؟ کیا اُن کی نگاہیں مال غنیمت کی تلاش میں تھیں؟ کیا وہ سکندر اور چنگیز کی طرح دنیا کو اپنا باج گزار بنانے، شہروں کو تاخت و تاراج کرنے اور سروں کے مینار کھڑے کرنے کے لیے نکلے تھے؟
شاید ہمارا اور آپ کا، ملت اسلامیہ اور پوری انسانیت کا، اور ساری دنیا کا مستقبل اسی سوال کے جواب پر منحصر ہے۔ اسی میں انسانیت کے لیے بھی بشارت ہے، اور اُمت مسلمہ کے لیے روشن اور تابناک مستقبل کی نوید بھی۔ اس لیے کہ آج کی دُنیا، چھٹی صدی عیسوی کی دُنیا کی طرح ایک زبردست اضطراب اور بحران کا شکار ہے۔ انسان نے جس پیمانے پر سائنس اور ٹکنالوجی کی دنیا میں ترقی کی ہے، اسی حساب سے یہ اضطراب اور بحران بھی سنگین تر ہے۔
چھٹی صدی عیسوی کی دنیا کے نقشے پراگر نگاہ ڈالیں تو بظاہر زندگی کا کوئی پہلو خالی نہیں تھا۔ حکومتوں کی جگہ حکومتیں تھیں، قانون کا نفاذ تھا، عدالتیں کام کر رہی تھیں، تجارتی قافلے ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا کرتے تھے، محلات اپنی جگہ پر موجود تھے، درس گاہیں اور مدرسے بھی قائم تھے، اور خانقاہوں میں اللہ کے آگے گریہ و زاری کرنے والے راہب بھی تھے___ اس کے باوجود انسانیت موت کے کنارے پر کھڑی تھی۔
آج کا عالم بھی اسی طرح کے سنگین بحران اور ایسے ہی اضطراب سے دو چار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمِ پیر مر رہا ہے اور دنیا بڑی بے چینی کے ساتھ ایک جہاںِ نوکی منتظر ہے! اس سے کسی کو انکار نہیں ہے، کہ اس وقت دنیا کو ایک جہاںِ نو کی ضرورت ہے۔ اس سے اختلاف تو ہو سکتا ہے کہ کس طرح کا جہان نو، کس کا جہان نو اور وہ کس کے ہاتھوں برپا ہوگا، لیکن اس سے کسی کواختلاف نہیں ہے کہ عالم پیر موت سے ہم کنار ہے، اور دنیا کی نجات ایک جہانِ نو کی تعمیر میں مضمر ہے۔ یہاں تک کہ وہ بھی جو پچھلے ۳۰۰ سال سے اس عالَم کے حکمران اور امام ہیں، جنھوں نے اس عالم پیر کو جنم دیا ہے، اس کی تشکیل اور تعمیر کی ہے، اور ترقی کی اس منزل تک پہنچایا ہے، جن کے ہاتھوں میں آج بھی زمانے کی باگ ڈور اور زمام کار ہے، وہ بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ایک نیوورلڈ آرڈر ، نیا عالمی نظام ناگزیر ہے۔ اس اعتراف میں یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ اولڈ ورلڈ آرڈ، اب انسان کے کام کا نہیں رہا، اور اب اس کو ایک نئے عالمی نظام اور ایک جہانِ نو کی ضرورت ہے۔
یہ جہان نو اس لیے بھی ضروری ہے کہ پرانا عالمی نظام گذشتہ ۳۰۰ سال میں انسان کو اس مقام پر لے آیا ہے، جہاں اس کے مصائب و آلام، مسائل اور پریشانیاں اور رنج و الم انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے قومیں اٹھتی تھیں، ایک علاقے کو فتح کرتی تھیں اور قتل و غارت مچاتی تھیں، مگر یہ ایک حد تک ہوتا تھا۔ آج یہ صورت حال ہے کہ انسان، اس پوزیشن میں ہے، کہ وہ بٹن دبائے تو پوری دنیا، تہہ و بالا ہو جائے، اور اس بٹن پر انسان کا ہاتھ ہے۔
یہ صدی انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ خوں ریز صدی ہے، جتنا خون اس صدی میں بہا ہے انسانی تاریخ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ انسان نے ایک ایٹم بم سے لاکھوں انسان فنا کے گھاٹ اُترتے دیکھے ہیں۔ جنگ عظیم میں ، ڈھائی کروڑ انسانوں کو مرتے، اور اپاہج ہوتے دیکھا ہے۔چند چھوٹے چھوٹے علاقوں پر مسلسل بمباری سے، لاکھوں انسانوں کو مرتے دیکھا ہے۔ انسان نے جبر کے جو نظام قائم کیے، ان کے ہاتھوں لاکھوں انسان بے گھر ہوئے، مصیبتیں اٹھائیںاور بہت سے اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ نسل اور رنگ کے بتوں پر بڑی تعداد میںانسانی جانیں بھینٹ چڑھائی گئیں۔واضح رہے کہ یہ جانیں مذہب اور خدا کے نام پر بھینٹ نہیں چڑھائی گئیں، جو خوں ریزی کے لیے بدنام ہیں۔ آج کے آزر نے اس دور کے لیے وطن اور قوم پرستی کا جو نیا بت تراشا ہے،اس نے انسانیت کو خون کے اندر نہلا دیاہے۔ آج ہر جگہ اسی وجہ سے خون بہہ رہا ہے، لوگ قتل ہو رہے ہیں، گھر سے بے گھر ہو رہے ہیں۔ یہ سب فساد اسی وجہ سے ہے۔
بظاہر معیشت ترقی کی معراج پر نظر آتی ہے، لیکن یہ پانی کے بلبلے کی طرح ہے۔ اگر آج سارے ممالک اپنا قرض دینے سے انکار کر دیں اور بنک میں روپیہ رکھنے والے سب لوگ بنک کے دروازے پر آجائیں کہ ہمارا روپیہ ہمیں دے دو، تو اس غبارے کی ہوانکل کر رہ جائے گی اور معاشی نظام تباہ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ سیاسی نظام بھی جو بڑی محنت اور مشقت کے ساتھ تیار کیا گیا ہے، اور جس میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی، آج لوگ اس سے بھی مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ انسان کی روح پیاسی ہے، اس آب حیات کے لیے جو اس کو اس درد و الم سے نجات دے، اور موت کی آغوش سے نکال کر زندگی سے ہم کنار کر دے۔
یہ جہانِ نو کس طرح پیدا ہو گا؟ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ اس عالم پیر کے معمار، سیاست دان، مدبر و مفکر اور اخبار نویس اور تجزیہ نگار پکار پکار کر کہہ رہے ہیں، کہ اگلا تصادم تہذیبوں کا تصادم ہو گا، اور یہ تصادم مغرب اور اسلام کا تصادم ہو گا۔ امریکا کے نائب صدر، امریکا کے سابق صدرنکسن،ناٹوکے کمانڈر،سب کی زبان پر ہے کہ پچھلے ایک ہزار سال بھی اسلام سے مقابلہ کرتے گزرے، اور شاید اگلے ہزار سال بھی اسی میںگزریں۔ کمیونزم کی موت کے بعد اب یہ کش مکش اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان ہے۔ ۱۴ سو سال سے جو کش مکش اور تصادم دونوں تہذیبوں کے درمیان ہے، اور جس میں اسلام کے ہزار سالہ غلبے کے بعد مغرب نے برتری حاصل کی، لیکن صرف ۳۰۰ سال میں وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اب پھر شاید وہی شیر بیدار ہو رہا ہے جس نے ۱۴سوسال پہلے نکل کر دنیا میں غلبہ حاصل کیا تھا، اور اس کی زمامِ کار اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی۔
اُمت مسلمہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہر جگہ اِنھی طاقتوں کی دست نگر ہے جو اس کی گردن پر حکمران پیرتسمہ پا کی طرح مسلط ہیں اور مغربی تہذیب کی مقلد اور پیرو ہیں۔ وہ تو غلبۂ اسلام کاخواب بھی نہیں دیکھ سکتی۔ ہمارے پاس نہ ایٹم بم ہیں، نہ فوج، نہ بنک کا نظام ہے نہ سڑکیں، نہ موٹروے اور کارخانے ___ پھر ہم کیسے مغرب کے لیے خطرہ اور چیلنج ہیں؟ لیکن مغرب کے ہر آدمی کی زبان پر یہی الفاظ ہیں کہ آیندہ دور کی کش مکش اور تصادم ، اسلام اور مغرب کے درمیان ہے۔ اب یہ تصادم، نظریات (یعنی کمیونزم، فاشزم اور کپٹل ازم وغیرہ) کی بنیاد پر نہیں ہوگا،اور نہ رنگ اور نسل کا تصادم ہوگا، بلکہ یہ تصادم تہذیبوں کے درمیان ہوگا۔ تہذیبیں مذہب سے وجود میں آتی ہیں، اور دنیا کے اندر دو ہی مذہب ہیں جو عالم گیر مشن کے علم بردار ہیں: ایک اسلام، اور دوسرا عیسائیت۔ عیسائیت نے مغربی تہذیب کی بنیاد رکھی ہے، اور اسلام نے ملت اسلامیہ کی ، جب کہ آیندہ معرکہ ان دونوں کے درمیان ہونے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جومسلمان بھی حالات پر نظر رکھتے ہیں، جن کی نظر تاریخ پر ہے، جو تاریخ کی اندرونی کش مکش سے واقف ہیں، وہ بہت پہلے سے یہ بات دیکھ رہے ہیں، کہ یہ وہ واقعہ ہے جو ظہور پذیر ہونے والا ہے۔ وہ اس کا انجام بھی دیکھ رہے ہیں، کہ اب دنیا کا مستقبل اسلام ہے،یعنی وہ پیغام جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم آج سے ۱۴ سو سال پہلے عرب میں لے کر آئے تھے غالب آکر رہے گا۔ اقبال نے کہا تھا ع
جہان نو ہو رہا ہے پیدا، وہ عالم پیر مر رہا ہے،
اسے لطیفہ سمجھیے یا ایک دل چسپ بات کہ برطانیہ کے ایک موقر ہفت روزہ اکانومسٹ نے ایک مضمون شائع کیا۔ اس نے لکھا کہ اتفاق سے ایک تاریخ کی کتاب دست یاب ہوئی ہے، جو آج سے ہزار سال بعد کی لکھی ہوئی کوئی کتاب یا تورات ہے۔ اس میں لکھا تھا کہ کمیونزم کے زوال کے بعد جو موقع مغرب کے ہاتھ آیا تھا، وہ اس نے ضائع کر دیا، اور ۲۰۱۱ء میں ایک انقلاب سعودی عرب میں آیا جس کی وجہ سے وہاں ایک اسلامی جمہوری حکومت قائم گئی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ مسلمان ممالک جمع ہوگئے، خلافت قائم ہو گئی، اور خلافت کا چین کے ساتھ اتحاد ہو گیا، اور بالآخر پوری دنیا پر یہ خلافت غالب آگئی۔۲۱۰۰ء تک یہ واقعہ ظہور پذیر ہوگا۔ گویا مستقبل کے آئینے میں آج کے زمانے کے بارے میں پیش گوئی کی جا رہی ہے۔
یہ وہ حقیقت ہے جو بالکل عیاں ہے۔ یہ وہی بات ہے جس کی طرف ابتدا میں اشارہ کیا گیا تھا کہ نبوت کے زیر اثر، صحراے عرب میں اٹھنے والا یہ سیلاب ایک اتفاقی حادثہ تھا، یا یہ مشیت اور اس انقلاب کو برپا کرنے والی ہستی محمدؐکا ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا؟ کیا ان کے مشن میں یہ بات شامل تھی کہ وہ امامت عالم سنبھالیں گے، اور ایک عالم گیر انقلاب برپا کریں گے، یا ان کا کام محض تزکیۂ نفوس، اہل عرب کو پیغامِ حق سنانا تھا اور جس کو ماننا ہے مانے، اور جس کو نہیں ماننا نہ مانے۔
ہمارے سیرت نگار ولادت نبویؐ کا واقعہ بڑے دل آویز اور معنی خیز الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ جس رات حضوؐر اس دنیا میں تشریف لائے، کسریٰ کے محل کے مینارے گر گئے، آتش کدہ فارس بجھ گیا، اور دریاے ساوہ خشک ہو گیا۔ بعض کے نزدیک یہ استعارے کی زبان ہے اور بعض کے نزدیک یہ واقعات فی الواقع پیش آئے تھے۔ یہ حقیقت ہو یا استعارے کی زبان، بلکہ اگر استعارے کی زبان ہو تو اور بھی معنی خیز ہے، تاہم یہ واقعہ اس بات کی خبر دے رہا ہے کہ ولادت نبویؐ ہی اس بات کی علَم بردار اور پیش خیمہ تھی، کہ عالم میں انقلاب آئے، عالمی طاقتیں سرنگوں ہوجائیں، اور گمراہی اور جاہلیت کے آتش کدے بجھ جائیں، اور کسریٰ کی عظیم الشان سلطنت پارہ پارہ ہو جائے۔
خود نبی کریمؐکی یہ صحیح حدیث موجودہے، کہ میں اپنی ماں آمنہ کا خواب ہوں۔ حضرت آمنہ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میرے پیٹ سے ایک روشنی نکلی، جس سے پوری ارض شام روشن ہو گئی۔ ارض شام سے مراد محض ملک شام نہیں ہے۔ ارض شام تو سارے انبیا کی سرزمین ہے، اور اس وقت کی ارض شام آج کے شام کے برابر نہیں تھی۔ اس میں پورا شام، لبنان، اردن ، فلسطین اور عراق کا ایک حصہ شامل تھا، اور یہیں سے ساری دنیا کو ہدایت ملی۔ عیسائیت اگر آج دنیا کے ایک بڑے حصے میں پہنچ چکی ہے تو اس کا مولد ارض شام ہے۔ لہٰذا وہ روشنی جو بطن مادر ہی سے ارض شام کو روشن کر رہی تھی، وہ ایک عالم گیر ہدایت اور عالم گیر مشن کی علم بردار نہ تھی تو اور کیا تھی!
تمام سیرت نگار بیان کرتے ہیں کہ ابتدا ہی سے آپؐ کی دعوت کا ایک اہم عنصر یہ تھا کہ توحید کی دعوت اگر قبول کروگے، یہ ایک کلمہ اگر تم مجھ سے قبول کر لو گے، تو عرب و عجم تمھارے سامنے سرنگوں ہو جائیں گے۔ ایک سیرت نگار لکھتے ہیں کہ یہ اس زمانے میں ایک سلوگن بن گیا تھا، اور لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے کہ یہ مٹھی بھر لوگ، یہ غلام، یہ فاقہ مست جن کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہے، کوئی حکومت اور سلطنت نہیں ہے، عرب و عجم کے مالک بن جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ لوگ اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ گویا یہ عالم گیر مشن نبوت کے پہلے ہی لمحے سے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
سراقہ بن جعشم کو خبر ملتی ہے کہ قریش کے دو مفرور سردار قریب سے گزر رہے ہیں۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوا، اور ۱۰۰ اونٹوںکے لالچ میں انھیں پکڑنے کے لیے پہنچ گیا۔ جب وہ قریب آیا تو آپؐ نے اللہ سے دعا کی۔ اس کے نتیجے میں اس کے گھوڑے کے پائوں زمین کے اندر دھنس گئے۔ سیرت نگاروں کے مطابق یہ واقعہ تین دفعہ پیش آیا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ مقابلہ تو کسی اور ہستی سے ہے ، چنانچہ اس نے کہا کہ حضوؐر امان نامہ لکھ دیجیے۔ آپؐ نے امان نامہ لکھوایا اور پھر فرمایا کہ سراقہ میں وہ وقت دیکھ رہا ہوں کہ جب کسریٰ کے کنگن تمھارے ہاتھوں میں ہوں گے۔
ذرا تصور کیجیے، کس پریشانی کا عالم تھا، کیسی بے سروسامانی تھی، مستقبل کا کچھ اندازہ نہ تھا، بے یقینی کی کیفیت تھی مگر اس وقت بھی خوش خبری کسریٰ کے کنگن کی دی جا رہی ہے۔
خندق کی کھدائی کے دوران ایک چٹان اس قدر سخت تھی کہ کسی سے نہ ٹوٹی۔ حضوؐرپیٹ پر پتھر باندھے اپنے صحابہؓ کے ساتھ کھڑے تھے۔ آپؐ کو بلایا گیا۔ آپؐ نے ایک کدال ماری تو ایک روشنی بلند ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے شام کے خزانے دکھائے گئے ہیں اور یہ میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔ دشمن سر پہ کھڑا ہے، چاروں طرف سے ۲۴ ہزار کا لشکر گھیرے ہوئے ہے، اور ایک خندق کے علاوہ کوئی دفاع نہیں ہے، اس موقع پر بھی آپؐ فرماتے ہیں کہ مجھے شام کے خزانے دکھائے گئے ہیںجو میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔ دوسری کدال مارنے پرفرمایا کہ مجھے ایران کے خزانے دکھائے گئے ہیںجو میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔ تیسری دفعہ فرمایا کہ یمن کے خزانے دکھائے گئے ہیں جو میرے لیے فتح کر دیے گئے ہیں۔گویا چار دانگ عالم میں یہ سب نبوت کے لیے، مفتوح ہونے والے ہیں۔ یہ عزم و ارادہ اور یقین اس کیفیت میں تھا، جس کا نقشہ میں نے آپ کے سامنے کھینچا ہے۔
صلح حدیبیہ کے بعد بھی عرب سرنگوں نہیں ہوا تھا، مکہ فتح نہیں ہواتھا، اور مدینہ کی اسلامی ریاست مکمل نہ ہوئی تھی، لیکن آپؐ نے فوراً اپنے گردو پیش کی ہر عالمی طاقت کو دعوت نامہ بھیج دیا۔ ایک مہینے کے اندر ذوالحجہ کے مہینے میں، گردو پیش کی چھوٹی بڑی کوئی حکومت ایسی نہیں تھی جہاں آپؐ کی دعوت نہ پہنچی ہو۔ یہاں تک کہ قیصر کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ ہاں، یہ سچے نبی ؐ ہیں اور جس جگہ آج میرا تخت ہے، ایک دن اس جگہ ان کا پیغام پہنچے گا۔
یہ محض بشارتیں اور پیش گوئیاں نہیں تھیں بلکہ اگر غور کریں تو یہ ایک مشن تھا اور ایک ذمہ داری تھی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا تھا، اور کہا تھا کہ اعلان کردو: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ (الاعراف۷:۱۵۸)‘اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ پھر فرمایا کہ یہ قرآن اللہ نے اس لیے اتارا ہے کہ قرآن لانے والا (رسولؐ اللہ) سارے جہانوں کے لیے آگاہ کرنے والا، نذیر بن کر آئے (الفرقان ۲۵:۱)۔ اسی طرح فرمایا کہ ہم نے تم کو رحمتہ للعالمینؐ بنا کر بھیجا ہے۔ تم خاتم النبیینؐ ہو، تمھارے بعد اب کوئی اور نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ تمھاری نبوت ابد تک کے لیے ہے۔ یہ نبوت نہ صرف عرب کے لیے ہے، بلکہ سارے عالم کے لیے ہے۔ ہر قوم، ہر زبان ، ہر رنگ، ہر نسل کے لیے یہی نبوت ہے، اور اسی کا پیغام ہے۔ تمھارا جسد خاکی تو زمین میںدفن ہوگا لیکن تمھارا پیغام، تمھاری نبوت ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس کے لیے موت نہیں ہے۔ اس لیے کہ نبوت اور رسالت کا پیغام اگرمحفوظ نہ رہے تو نبیؐکی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی لیے اس پیغام کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے اٹھا رکھا ہے۔
ہم خاتم النبیینؐ کے لیے نعرے بھی لگاتے ہیں، کانفرنسیں بھی کرتے ہیں، جو نہیں مانتے ان کو غیر مسلم بھی قرار دیتے ہیں، لیکن جو ماننے والے ہیں، ان کے لیے خاتم النبیین میں معانی کا جو ایک جہان پوشیدہ ہے، اس سے ہم واقف نہیں ہیں۔ اگر کوئی خاتم النبیینؐ آچکا ہو اور اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، مگر ہم نہیں جانتے کہ اب نبوت کی ذمہ داری کس کے اوپر ہے اور اس نے نبوت کے عالم گیر مشن کی دعوت کس کے سپرد کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاط (البقرہ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت ِوسط‘ بنایا ہے، تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عالم گیر فتوحات، یہ ۱۰۰ سال کے عرصے میں اسپین سے لے کر چین تک محمد رسولؐ اللہ کے نام کا پکارا جانا، یہ دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کا پہنچ جانا، یہ تاریخ کا سب سے حیرت انگیز انفجار یا کوئی حادثہ نہیں۔ یہ عرب سے نکلنے والے بدوئوں کا شوق جہانگیری نہیں تھا، جس کے نتیجے میں تاریخ کا یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا، یہ تو نبوت کی فطرت کا تقاضا تھا، کہ یہ واقعہ ظہور پذیر ہو۔ وہ نبوت جو عالمی نبوت تھی، وہ نبوت جو خاتمِ نبوت تھی، اس کی فطرت کے اندر یہ پنہاں تھا، کہ یہ ساری دنیا کے اوپر چھائے، اور اس پیغام کو ساری دنیا تک پہنچائے۔
مولانا عبدالقدوس گنگوہی ہندستان کے ایک مشہور صوفی تھے۔انھوں نے کہا کہ محمدعربیؐ تو آسمان پر چلے گئے اور حق کے پاس پہنچ کر واپس آ گئے۔ اگر میں جاتا تو واپس نہ آتا۔ اس پراقبالؒکہتے ہیں کہ یہی فرق ہے مزاج نبوت اور مزاجِ تصوف میں۔ تصوف کی منزل حق ہے۔ وہ حق کے پاس پہنچ کر فنا ہو جاتا ہے۔ نبوت کی منزل حق نہیں، وہ حق سے حق لے کر لوٹتا ہے۔ پھر وہ اپنے آپ کو زمانے کی رو میں جھونک دیتا ہے، اور تاریخ ساز قوتوں کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنے تصورات اور عقائد کی ایک نئی دنیا تعمیر کرتا ہے۔ یہ نبوت کا مزاج ہے اور یہ اس امت کا مزاج بھی ہونا چاہیے، جو اس مشن کی علم بردار ہے جو مشن نبی کریمؐ نے مکمل فرمایا، اور اس امت کے سپرد کر دیا۔
آج انسان کو جن مصائب اور مشکلات کا سامنا ہے، جس الم ، درد اور کرب سے وہ دوچار ہے، روز مرہ زندگی جس طرح پریشانی، عدم اطمینان اور بے چینی کا شکار ہے، جس کا اظہار چہروں سے بھی ہوتا ہے اور زندگیوں سے بھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان نے اپنا حقیقی معبود کھو دیا ہے اور جھوٹے معبود جو دیوی دیوتائوں سے بھی بدتر ہیں، ان کا وہ پجاری بن گیا ہے۔ یہی دراصل اس کے مصائب اور آلام کی جڑ ہے۔ ان حالات میں حضوؐرکا پیغام ، کہ یہ ایک کلمہ ہے، اس کو مجھ سے لے لو تو عرب و عجم تمھارے زیر نگیں ہوںگے___ یہی دراصل وہ چیز ہے، جس سے انسانی زندگی کا قبلہ متعین ہوتا ہے، مقصد زندگی کا تعین ہوتا ہے، اور اسی سے انسانیت کی شیرازہ بندی ہوتی ہے۔
برطانیہ میں دو لڑکوںنے جن کی عمریں۱۰،۱۰ سال تھیں، ایک ڈھائی سال کے بچے کو اغوا کر لیا۔ اس کو خوب مارا، اس کا سر کچل ڈالا، ٹکڑے ٹکڑے کر تھیلی میں بند کیا اور ایک جگہ ڈال دیا۔ جب بچے کی لاش ملی تو شور مچ گیا،کہ ۱۰سال کے لڑکوں نے اس قدر ظلم، وحشت ، اور سفاکیت کے ساتھ اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔اس موقع پر برطانوی وزیر داخلہ نے کہا کہ دراصل ہماری کوئی سمت نہیں رہی، ہمارا کوئی قبلہ نہیں رہا، ہمارے سامنے کوئی مقصدنہیں جس کے لیے ہم جئیں۔
مغرب اس کرب سے دو چار ہے۔ ہر جگہ یہی نظر آتا ہے۔ خاندان بکھر رہے ہیں، single parentخاندان ہیں،جن میں ایک مرد یا ایک عورت اور عموماً بے چاری عورت ہی کو مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ مرد تو لطف اندوز ہو کر بھاگ جاتا ہے۔ بس عورت ہی ماں ہے ، اور وہی باپ۔ ایسے خاندانوں کی تعداد کثرت سے بڑھتی جا رہی ہے۔
اکانومسٹ نے کمیونزم کے زوال کے بعد دنیا کے مستقبل کے حوالے سے ایک تجزیہ کیا کہ تاریخ کے وہ کون سے واقعات ہیں جو فی الواقع تاریخ ساز واقعات ہیں؟ اس نے بہت سے واقعات کی فہرست گنوائی، اور اس میں ہجرت کا واقعہ بھی شامل کیا۔ اس کی اتنی انصاف پسندی تسلیم کریں کہ اس نے ہجرت کے واقعے کو بھی تاریخ ساز واقعات میں شمار کیا ہے۔ اس کے بعد کمیونزم کے زوال کا تذکرہ کرتا ہے کہ یہ تو چند سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے بلکہ ایک ہی تہذیب کے اندر الٹ پھیر ہے۔ کیا آیندہ تاریخ کوئی کروٹ بدلنے والی ہے، کوئی نیا موڑ مڑنے والی ہے، اور کسی انقلاب سے دو چار ہونے والی ہے اور کن مسائل کے گرد تاریخ کی یہ نئی تبدیلی آئے گی___ اس حوالے سے وہ لکھتا ہے کہ یہ وہ مسائل ہیں جن کا دعویٰ اسلامی بنیاد پرست بھی کر تے ہیں اور عیسائی بنیاد پرست بھی۔ اگر دنیا نے اب کوئی کروٹ بدلی ، تو یہ ان مسائل کے گرد ہوگی، جو بظاہر نگاہوں کے سامنے نہیں ہیں، ابھی پردہ غیب میں ہیں اور جو غیبی علوم ہیں (یعنی خدا، رسالت اور آخرت وغیرہ) ، ان کے گرد اَب تاریخ نئی کروٹ بدلنے والی ہے۔ مگر وہ اس بات پر مسرت کا اظہار کرتا ہے کہ نہ عیسائی بنیاد پرست اس کے اہل نظر آتے ہیں اور نہ مسلمان بنیاد پرست ہی اس کے اہل ہیں، کہ وہ تاریخ کا رخ موڑ دیں، نئی تاریخ رقم کریں اور انسانیت کی زمام کار سنبھال لیں، اور اس کو اس کے مستقبل سے ہم کنار کر دیں۔فی الواقع دنیا ایک جہانِ نو کی تعمیر کی منتظر ہے۔
اُمت محمدیؐ کے اس عالمی مشن اور عالمی پیغام کا دوسرا حصہ جو اس پیغام کا لازمی نتیجہ اور تقاضا تھا، وہ انسانی وحدت ہے، یعنی یہ کہ انسان ایک ہے۔انسانوں کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا، ان کو ناقابلِ عبور دیواروں اور فصیلوں میں نہیں بانٹا جا سکتا، اور اگر بانٹا جائے گا تو انسان ان جھوٹے خدائوں کے پھیر میں آکر سب کچھ کھو بیٹھے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف نبی کریمؐ نے یوں اشارہ کیا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، اگر کسی کو بڑائی حاصل ہے تو وہ تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ یہ خدا پرستی کا، لاالہ الا اللہ کا منطقی نتیجہ تھا، اور یہ اسلام کا سب سے بڑا contributionہے، سب سے بڑی خدمت ہے، جو اس نے انسانیت کی ہے۔
انسان کی وحدت کی بنیاد اگر مادی چیزوں ، رنگ، نسل، زبان اور خون پر ہو، تو یہ ایسی دیواریں ہیں جو کوئی ڈھا نہیں سکتا۔ کالا آدمی چاہے کہ گورا ہو جائے تو نہیں بن سکتا۔ اگر گورا چاہے کہ کالا ہوجائے تو رنگ نہیں بدل سکتا۔ جو آدمی ہندستان میں پیدا ہوا ہے اور چاہے کہ پاکستان میں پیدا ہو جائے، یہ ممکن نہیں۔ اگر کسی کی مادری زبان پنجابی ہے تو اردو نہیں بن سکتی، اردو ہے تو پنجابی نہیں بن سکتی۔ یہ ناقابل عبور چیزیں ہیں، لیکن عقیدہ آدمی کے اپنے اختیار میں ہے۔ جب چاہے بدل سکتا ہے، جب چاہے سرحد کے ادھر ادھر جا سکتا ہے، اور جب چاہے کسی عالم گیر قوت میں شامل ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انسان کی وحدت کی بنیاد مادی اور زمینی چیزوں سے بالاتر ہوکر آفاقی چیزوں میں رکھی جودل و دماغ میں بستی ہیں اور انسان ان کو جب چاہے قبول کر لے اور نتیجتاً ایک انسانیت وجود میں آ سکتی ہے، اور فی الواقع آئی بھی۔
دنیا اس بات کی معترف ہے کہ گئے گزرے مسلمان جو اگرچہ آپس میں لڑتے ہیں، ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں ، قومی عصبیت برتتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی مسلمانوں کے اندر جو یگانگت، وحدت اور قوت ہے، اس کی کوئی مثال دنیا کی کوئی دوسری قوم پیش نہیں کرسکتی۔ آدمی انڈونیشیا کی مسجد میں داخل ہو جائے، یا واشنگٹن میں، وہ ایک ہی زبان میں خطبہ سنے گا۔ وہ انڈونیشیا کے کسی گھر میںجا کر کھانا کھائے یا واشنگٹن میں، دستر خوان، شراب اور سؤر کے گوشت سے پاک ہو گا، اور لوگ داہنے ہاتھ سے اس لیے کھا رہے ہوں گے کہ محمدعربیؐنے ۱۴ سو سال پہلے یہی فرمایا تھا۔ کیا کسی شخص نے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انسانوں کے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے پر اتنا گہرا اثر ڈالا ہے، جتنا حضوؐر نے ڈالا ہے۔ یہ وحدت و یگانگت اسلام کا عطیہ ہے جو رنگ،نسل اور زبان، ان سب فصیلوں کو عبور کرکے، انسان کو انسان سے جوڑتی ہے اور ایک وحدت بناتی ہے۔ یہ محمد عربیؐ کے عالمی مشن اور پیغام کی دوسری نمایاں خصوصیت ہے۔
اُمت محمدیؐ کے عالمی مشن کی تیسری نمایاں صفت عدل و قسط کا قیام ہے۔ جب ہم شہادت کا لفظ بولتے ہیں تو اس کے ساتھ حق کا لفظ بولتے ہیں، یعنی شہادت حق۔ قرآن نے جہاں بھی شہادت کا ذکر کیا ہے، بعض جگہ اسی کی وضاحت نہیں کی کہ کس بات کی شہادت دو، مثلاً فرمایا:
تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ(البقرہ۲:۱۴۳) تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جائو۔
کس چیز کے گواہ بن جائو، یہاں یہ بیان نہیں فرمایا، اور جہاں یہ بیان فرمایا تو اس کے لیے قسط کا لفظ استعمال فرمایا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِز (المائدہ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید۵۷:۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
اَلرَّحْمٰنُo عَلَّمَ الْقُرْاٰنَo خَلَقَ الْاِنْسَانَo عَلَّمَہُ الْبَیَانَo اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍo وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِoوَالسَّمَآئَ رَفَعَھَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَo (الرحمٰن۵۵:۱-۷) نہایت مہربان (خدا) نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے۔ اُسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔ آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔
جولوگ کہتے ہیں کہ حق اور انصاف کی بات کرنا، اسلام کا مزاج نہیں، وہ اسلام اور نبوت کے مزاج سے ناواقف ہیں۔ حق وہ بھی ہے جو مجموعی طور پر حق ہے، اور تواصوابالحق میں وہ حق بھی شامل ہے جو ایک انسان کا دوسرے انسان پر ہے۔ ایک موقع پر حضوؐرنے یہ فرمایا کہ اسلامی معاشرے میںعدل اور انصاف کا یہ عالم ہوگا کہ زیورات سے لدی ایک عورت تنہا سفر کرے گی اور اسے اللہ کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہوگا۔یہ دراصل آپؐ نے اس معاشرے کا ذکر کیا ہے جہاں پر کوئی کسی کے حق پر ڈاکا نہیں ڈال سکتا۔ کوئی کسی کی جان، مال اور عزت و آبرو پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔یہی انسانی حقوق کا خلاصہ ہے۔
دراصل یہ وہ پیغام ہے جو آج بھی بڑی کشش رکھتا ہے۔ اس میں بڑی دل آویزی اور دل کشی ہے، اور لوگ اس کو قبول کرتے ہیں۔ یہ جو کش مکش ہونے والی ہے، جس کے لیے اسٹیج تیار ہو رہا ہے، جس کی پیش گوئی خود ارباب مغرب کر رہے ہیں، یہ کش مکش آج کا حقیقی چیلنج ہے۔ دنیا دیکھنا چاہتی ہے کہ کیا محمد عربی ؐکی نبوت کے ماننے والے یہ اہلیت رکھتے ہیں ، کہ ایک دفعہ پھر تاریخ کا دھارا موڑ دیں، زمانے کا رخ بدل دیں، اور انسانیت جو بتدریج ہلاکت و تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے، اس کو موت سے بچا سکیں اور ایک نئی زندگی سے ہم کنار کر سکیں۔ اگر کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اور خاتم النبیینؐ تشریف لا چکے ہیں اور آپؐ کی نبوت زندہ ہے، تو کیا اس نبوت کا حیات بخش خطاب دنیا کو سنایا نہ جائے گا؟ کیا دنیا پھر اس سے ہم کنار نہ ہو سکے گی؟
ہندستان کے ایک اخبار میں ایک ہندو عورت کا بڑا درد ناک خط چھپا۔ اس عورت نے مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے کہ تم نے ہمارے ہاں ۸۰۰ سال حکومت کی۔ مگر تم نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ قرآن میں کیا لکھا ہے، نہ اپنے عمل سے بتایا، نہ زبان سے بتایا کہ قرآن کا کیا پیغام ہے۔ اب میں قرآن پڑھ کر واقف ہو چکی ہوں کہ تمھارے اوپر اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری ڈالی تھی اور سپرد کی تھی کہ اس پیغام کو لوگوں تک پہنچائو۔ میں قیامت کے روز تمھاری گردن پکڑوں گی، اور کہوں گی کہ یہ وہ تیرے بندے ہیں جن کے پاس قرآن مجید بھی تھا اور نبوت کا پیغام بھی مگر انھوں نے ہمیںاس سے ناآشنا رکھا، اور ہم کو معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ اسلام کیا ہے۔
آج ہر جگہ یہ معرکہ برپا ہے۔ اب اسلام اور مغرب کے معرکے کی سرحدیں مغرب کے جغرافیائی خطے تک محدود نہیں رہیں۔ اَب مغرب کی سرحدیں ریاض اور جکارتہ میں بھی ملیں گی، اور کراچی اور قاہرہ میں بھی۔ اسی طرح اب اسلام کی سرحدیں واشنگٹن، لندن، پیرس اور یورپ کے اندر بھی نظر آئیں گی۔ مشیت الٰہی سے یہ حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمان یورپ میں موجود ہیں۔ مشیت الٰہی تو اسی طرح کام کرتی ہے، جہاں عقل کام نہیں کر سکتی۔
حضوؐرکی پیش گوئی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان فلسطین کے مقام پر جنگ ہوگی۔ اس پر ایک محدث نے کہا کہ یہ ضعیف، موضوع اورگھڑی ہوئی روایت معلوم ہوتی ہے۔ فلسطین میں تو یہودی ہیں ہی نہیں، ان کی مسلمانوں کے ساتھ آخر جنگ کیسے ہوگی؟ جب آدمی عقل پر انحصار کرتا ہے، تو ایسے ہی نتائج نکالتا ہے۔ یہودی گذشتہ ۶۰سال میں دنیا کے گوشے گوشے سے کھینچ کھینچ کر اس علاقے میں پہنچائے جا رہے ہیں۔ روس سے آرہے ہیں، ایتھوپیا سے آ رہے ہیں، یورپ سے آ رہے ہیں، ہر جگہ سے ان کو جمع کیا جا رہا ہے۔
میری نظر میں، ۱۴ سو سال کی تاریخ میں یہ تیسرا موقع ہے کہ آج مغرب کے چپے چپے پر مسلمان موجود ہیں۔ وہ برطانیہ جہاں ۳۵سال پہلے صرف چار مسجدیں تھیں، اب وہاں پر ۵۰۰سے لے کر ہزار مساجد کااندازہ ہے۔ امریکا کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں مساجد کے گنبد اور مینار نظر آتے ہیں۔ اب انگلستان کی سڑکوں پر اذان کی آواز بھی سنائی دیتی ہے، وہ آواز کہ جس کے بارے میں ونسٹن چرچل کا بیٹا یہ کہتا ہے کہ مجھے تو اس گھڑی سے خوف محسوس ہوتا ہے کہ جب ہماری سڑکوں پر اذان کی آواز سنائی دے گی، اورآج وہ سنی جا رہی ہے۔ پروپیگنڈا یہ ہے کہ اسلام سب سے بدتر مقام عورت کو دیتا ہے، حالانکہ مسلمان ہونے والوں میں دوتہائی عورتیں ہیں اور ایک تہائی مرد۔
ہر شخص جانتا ہے کہ یہ ہونا ہے۔ اس لیے یورپ کو ایک طرف اسلامی دنیا کا خطرہ ہے، اور دوسری طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ہی گھر کو بھر رہے ہیں، جہاں جائیں مسلمان نظر آتے ہیں۔ چنانچہ وہ تعصب اور تنگ نظری کا وہ مظاہرہ کر رہے ہیں کہ جس کی مثال بھی مشکل سے ملے گی۔
بوسنیا تو ہے ہی ایک خونچکاں داستان، یورپ میںلڑکیاں چہرے پر نقاب نہیں لے سکتیں، سرپر اگر اسکارف باندھیں، تویہ بھی منع ہے۔ آزادیِ راے، حریتِ فکر اور جمہوری حقوق کے علَم بردار یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں کہ لڑکیاں سر پر اسکارف باندھ لیں۔ وہ یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں کہ لڑکیاں اسکرٹ کے بجاے شلوار پہن کر اسکولوں میں چلی جائیں۔ اسکولوں کے باہر مظاہر ے ہوئے، کہ ان لڑکیوں کو شلوار پہننے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ یہ پاکستان اور ایران کے کٹرملا نہیں تھے بلکہ یہ مغرب کے روشن خیال شہری تھے جو اس پر احتجاج کر رہے تھے کہ کسی کو اپنی مرضی سے لباس پہننے، اپنی مرضی سے سر ڈھانپنے کا حق کیسے دیں؟
اب وہ اسلام کو یہ دعوت دے رہے ہیں کہ کسی طریقے سے اسلام اور مغرب کے درمیان کچھ مفاہمت ہونی چاہیے۔ لیکن یہ مفاہمت کس شرط پر ہو؟
ایک لکھنے والا لکھتا ہے اور پہلے وہ پورے ۱۴ سو سال کا نقشہ کھینچتا ہے کہ کس طرح اسلام اور مغرب نجران کے عیسائیوں سے لے کر مسلسل تصادم سے دو چارہیں، اوراسلام نے وہ چرکے لگائے ہیں، وہ داغ دیے ہیں، وہ زخم لگائے ہیں کہ ہم بھول نہیں سکتے۔ مصر، شام، عراق،بیت المقدس جہاں حضرت مسیحؑ پیدا ہوئے لیبیا، الجزائر، تیونس، یہ عیسائیت کے بڑے مضبوط گڑھ تھے۔ عیسائیت کے بڑے بڑے زعما شمالی افریقہ میں پیدا ہوئے ہیں، یورپ میں نہیں۔ ابتدائی چوتھی پانچویں صدی کے ان کے سب بڑے علما اور فضلا لیبیا، تیونس اور الجزائریا میں پیدا ہوئے ہیں۔ اسلام ایسا آیا کہ ۳۰سال کے عرصے میں سب کو بے دخل کر دیا۔ یہ کش مکش تو جب سے چلی آ رہی ہے، اب تو انسانیت کے مستقبل کا انحصاراس کش مکش پر ہے۔
وہ مزید لکھتا ہے کہ دو بڑی تہذیبیں آپس میں مفاہمت کر لیں، اور مفاہمت اس وقت ہوسکتی ہے، جب مسلمان دو چیزوں کے بارے میں اپنی تعلیمات میں تبدیلی کرنے کو تیار ہوجائیں۔ ذرا سوچیے کہ وہ دو چیزیں کیا ہو سکتی ہیں؟ کیا توحید، آخرت یا رسالت کے بارے میں، نہیں، بلکہ وہ سزائوں کے بارے میں اور عورت کی حیثیت کے بارے میں ہیں۔ اگر ان دوچیزوں کے بارے میں مسلمان اپنی تعلیمات میںترمیم کرنے کو تیار ہو ں تو ہماری ان کی مفاہمت ہو سکتی ہے، اور اگر تیار نہ ہوں تومفاہمت نہیں ہو سکتی۔ آدمی حیران ہو تاہے کہ یہ کیا مطالبات ہیں، کہ ان کی بنیاد پر تہذیبوں کے درمیان انسانیت کے مستقبل کے لیے مفاہمت کی دعوت دی جا رہی ہے۔ آگے چل کر وہ کہتا ہے کہ اس کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ مسلمان اس قرآن کو دوحصوں میں تقسیم کرلیں۔ ایک وہ حصہ ہے جو مکہ میںنازل ہوا، جس میں توحیدو رسالت اور یتیموں اوربیوائوں کی امدادکی دعوت دی گئی ہے۔ یہ تو مشترک انسانی چیزیں ہیں ، وہ سر آنکھوںپر۔ ایک وہ حصہ ہے جو مدینہ میں نازل ہوا اور جس میں ریاست ’سیاست‘ قانون، خاندان، عورتوں اور سزائوں کے بارے میں احکام ہیں۔ یہ نعوذ باللہ حضوؐر نے بحیثیت ایک مدبر اور قانون دان کے خود کیا ہے، اسے بدلا جا سکتا ہے۔ گویا جس طرح عیسائیت میں شریعت کو ختم کیا گیا تھا، اسی طرح اسلام میں بھی شریعت کو ختم کر دیا جائے۔ یہ ہے وہ پوشیدہ حقیقت جو آج سامنے آ گئی ہے۔ علامہ اقبال نے بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا کہ مغرب کا دل اسی سے لرزتا ہے کہ کہیں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق شرع پیغمبری آشکارا نہ ہو جائے ع
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
دراصل یہ وہ دور ہے کہ جو شرع پیغمبریؐ کے نمو کا دور ہے۔ وہ شرعِ پیغمبر جو انسانیت کو اس آبِ حیات سے ہم کنار کرے گی،جسے قرآ ن نے شِفَـآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ، (یونس ۱۰:۵۷) کہا ہے۔ وہ شفار ہے ان سارے امراض کے لیے، جن کا انسانیت آج شکار ہے۔ یہ کس کے ہاتھوں ہوگا، یہ میں نہیں کہہ سکتا، لیکن میرا بھی دل چاہتا ہے کہ یہ سعادت ہمارے حصے میں آئے، بشرطیکہ ہمیں اس کا ادراک اور احساس ہو۔
یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے جو ہم نے اپنے ذمے لیا ہے۔ مکہ میں مٹھی بھر آدمی تھے اور ایک کلمے کی دعوت تھی، مگر اس وقت بھی ان کی نگاہیں قیصر و کسریٰ کے خزانوں اور محلات پر تھیں۔ اس ادراک کے بغیر ان چھوٹے کاموں کے اندر وہ عظمت نہیںپیدا ہو سکتی، جو کہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ صدقے کی ایک سونے کی گٹھلی کو لیتا ہے اور اس کو اتنا بڑھاتا ہے کہ احد پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ مگر اللہ نے ایک فرق بھی ملحوظ رکھا ہے، اس کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے:
لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ط اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْٓ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا ط وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ط وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ o (الحدید۵۷:۱۰) تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنھوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے، اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔
لہٰذا جب فتح اور غلبے کی علامات نظر آنے لگیں، اس وقت کا ادراک اور احساس رکھنا اور شعور رکھنا اور تاریخ جو کچھ پیش کر رہی ہے اس کا فہم ضروری ہے۔ یہ اُمت محمدیؐ کے عالمی مشن کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اس کے نتیجے میںآج بھی چھٹی صدی عیسوی کا یہ معجزہ ظہور پذیر ہو سکتا ہے۔
اگر ہم آگے بڑھ کر اس کام کو نہ اٹھائیں گے تو سیدنا مسیحؑ کی تمثیلی زبان میں کہ دولھا کے انتظار میںکنواریاں چراغ لیے انتظار کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ دولہا آیا اور گھر میں داخل ہو گیا، کچھ سو گئی تھیں اور کچھ کا تیل ختم ہو گیا تھا اور وہ اس کے ساتھ اندر نہیں جا سکیں۔
جب تاریخ کا دولہا اسلام کی بارات لے کر آئے گا، تو کون ہوگا جس کے چراغ میں تیل جل رہا ہوگا، اور کون ہوگا کہ جو جاگ رہا ہوگااور کون ہوگا جو تاریخ کے اس لمحے پر اپنا کردار ادا کرے گا___ اس کا علم یا تو علام الغیوب کو ہے یا تاریخ اس کا فیصلہ کرے گی۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اگر تم اس فرض کو ادا نہ کرو گے تو پھر وہ کیا کرتا ہے:
وَ اِنْ تَـتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ لا ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْo (محمد ۴۷:۳۸) اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
یہ ہے وہ دعوت کہ جو آج اس امت کے سامنے موجود ہے۔ اس پکار پر لبیک کہنے میں اس اُمت کا مستقبل بھی ہے، اور انسانیت کا مستقبل بھی اسی سے وابستہ ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کا شعور وادراک عطا کرے اور اس راہ پر چلنے کی توفیق دے،آمین! (کیسٹ سے تدوین: امجدعباسی)
کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور۔ قیمت: ۷ روپے، سیکڑے پر خصوصی رعایت