محتاط گفتگو
سوال: حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد میں ایک نوجوان شہید ہوا۔ جب دیکھا گیا تو بھوک کے سبب اس کے پیٹ سے پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اُس کی ماں اُس کی لاش پر آئی اور اس کے منہ سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہنے لگی: بیٹا جنت مبارک ہو! حضور اکرمؐ نے پوچھا: تمھیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ شاید وہ بے فائدہ گفتگو کرتا ہو اوراس کا حساب اس کے ذمے باقی ہو۔ غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ شہیدبھی اُس وقت تک جنت میں نہیں جائے گا جب تک دنیا میں اُس نے جو گفتگو کی ہے اس کا حساب نہ دے دے۔ (از مولانا سفیر حسنؒ، آفات اللسان کیسٹ)
میں نے جب سے یہ کیسٹ سنا ہے بہت زیادہ پریشان ہوں۔ کچھ عرصے تک تو میں بالکل خاموش ہوگئی تھی مگر میرا تو کیا کسی بھی فرد کا بالکل خاموش رہنا ممکن نہیں ہے۔ دعوت کے میدان میں بھی یہ ہنر بہت کارآمد رہتا ہے مگر حدود کا پاس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ میری گفتگو کا بنیادی مقصد دعوت ہی ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے اگر پہلے ہلکی پھلکی گفتگو کے ذریعے دوستی کرلی جائے تو آگے اپنی بات بہت جلد اثرات دکھاتی ہے۔ اب مجھے بہت زیادہ فکر نے گھیر رکھا ہے۔ واقعی زیادہ گفتگو کے چند ہی فائدے ہیں باقی سب نقصانات ہی نقصانات___ پوچھنا یہ ہے کہ معتدل راہ کیا ہے اور اب تک جو فضول گفتگو کرچکی، اُس کا تدارک کیسے کروں؟
جواب: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو جن اہم صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان میں لسان کے ساتھ بیان و ابلاغ، نصیحت اور کلمۂ حق کا اظہار کرنے کی نعمتیں شامل ہیں۔ قول بمعنی گفتگو اور قول بمعنی وعدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ انبیاے کرام کے حوالے سے قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ انھیں اپنی قوم کی زبان میں پیغام پہنچانے اور ابلاغ سے نوازا گیا، اور حضرت موسٰی ؑکی دعا سے قرآن ہرمسلمان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ اپنے رب سے نہ صرف حق کے لیے سینے کو کشادہ کرنے اور آسانی پیدا کرنے کی دعا کرے، بلکہ ساتھ ہی یہ بات بھی کہے کہ اس کی زبان کی گرہ کو دُور کردیا جائے۔ لیکن گرہ دُور کرنے اور زبان درازی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قبیلے میں بچپن گزارا وہ اپنی فصاحت و بلاغت میں ممتاز تھا۔ اسی لیے آپؐ جب خطاب فرماتے تو مختصر ترین الفاظ میں وضاحت کے ساتھ اپنے مخاطب کی صلاحیت کے لحاظ سے اظہارِ خیال فرماتے۔ آپؐ کے تمام خطبات مختصر اور جامع ہوتے تھے۔ اس لیے آپؐ کی پیروی کرتے ہوئے ایک داعی کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ حق کا ابلاغ کرتے وقت بات غیرضروری طور پر طولانی نہ ہو۔
قرآن کریم نے انسانوں سے گفتگو کرنے کے حوالے سے ہدایت فرمائی ہے کہ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ۲:۸۳)، یعنی انسانوں سے بھلی بات کہنا۔ بھلی بات کہنا اور حق کی دعوت دینا انبیاے کرام کا اُسوہ ہے۔ اس کام میں آسان زبان کا استعمال ہمیشہ میٹھا بول اور زبان کی بے احتیاطیوں سے اپنے آپ کو بچانا ہر داعی کا فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان کے غلط استعمال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اُمت مسلمہ کو متنبہ فرمایا۔ مشہور حدیث ہے کہ جس نے دو چیزوں کی احتیاط کا وعدہ کیا، یعنی زبان اور شرم گاہ، تو صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم اس سے جنت کا وعدہ فرماتے ہیں۔
زبان کی بے احتیاطیوں میں سب سے زیادہ مہلک چیز غیبت ہے۔ قرآن کریم نے سورۃ الحجرات میں اس طرف متوجہ کرتے ہوئے ایک ایسی مثال سے بات کو سمجھایا جسے کوئی صاحب ِ ایمان بھول نہیں سکتا، یعنی غیبت کرنا ایسا ہے جیسے اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ ایک حدیث میں حضوؐر نے یہ بات بھی فرما دی : زانی کی توبہ تو قبول ہوسکتی ہے لیکن غیبت کرنے والے کی توبہ کبھی قبول نہیں ہوسکتی جب تک وہ شخص جس کی غیبت کی گئی ہے، اسے معاف نہ کردے۔
زبان کی بے احتیاطیوں میںجھوٹی شہادت دینا حدیث پاک کی روشنی میں شرک کے برابر ہے۔ اسی طرح کسی کی تضحیک کرنا، نام بگاڑنا یا چغلی کھانا بھی زبان کی بے احتیاطیوں میں شامل ہیں۔ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چغلی کھانے والاجنت میں داخل نہیں ہوگا (مسلم)۔ زبان سے غیرمہذب بات نکالنا، فحش گوئی کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ حضرت ابودرداء ؓسے مروی ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: سب سے وزنی چیز جو قیامت میں میزان میں رکھی جائے گی مومن کا حسنِ اخلاق ہے اور اللہ اُس شخص سے بُغض رکھتا ہے جو زبان سے بے حیائی کی بات نکالتا ہے اور بدزبانی کرتا ہے۔ (ترمذی)
اسی حوالے سے مذاق میں غلط بیانی کرنا اور جھوٹ بولنا بھی شامل ہے کیونکہ جب ایسا کرنا ایک شخص کی عادت بن جاتا ہے تو پھر اس کے سچ اور جھوٹ میں تمیز نہیں کی جاسکتی۔ ایک حدیث صحیح میں منافق کی جو چار خصلتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے تین کا تعلق زبان کی بے احتیاطی سے ہے، یعنی جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، اور جب کسی بات پر جھگڑا ہوجائے تو گالی پر اُتر آئے۔ (عن عبداللہ ابن عمرؓ، بخاری و مسلم)
ایک داعی کے لیے بہت ضروری ہے کہ جہاں وہ زبان کی ان بے احتیاطیوں سے بچے وہاں وہ مثبت طور پر زبان کی اچھائیوں کو اختیار کرے جن میں سب سے پہلی بات اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دعوت دینے سے قبل اس کی حمدوتوصیف کے ساتھ یہ دعا کرنا کہ وہ حق بات کہنے کی توفیق دے۔ پھر بات کو اچھے انداز سے مختصر ترین پیرایے میں سادہ اور پُراثر الفاظ میں ادا کرنا دعوت کی حکمت کے اجزا ہیں۔
زورِ بیان اور زورِ تحریرکا مطلب نہ طوالت ہے، نہ مشکل الفاظ کا استعمال کرنا، نہ مقفّع و مسجّع گفتگو کرنا، بلکہ مخاطب کی صلاحیت کے مطابق اچھے انداز میں اپنی بات کا پہنچانا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی نسخہ ایسا نہیں ہے جس کے استعمال سے یہ صلاحیت ایک شخص میں پیدا ہوجائے۔ یہ خصوصیت صرف خلوصِ نیت سے، اللہ کو خوش کرنے کے جذبے کے ساتھ مسلسل کوشش ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ غیرضروری گفتگو سے احتراز سنت ہے اور جو شخص بھی دعوت الی اللہ کا کام کر رہا ہو، اسے الفاظ کے انتخاب اور استعمال میں فکروعقل کا استعمال کرنے کے بعد ہی کوئی بات کرنی چاہیے۔ ہروقت اور ہر بات پر بولنا، نہ حکمت کا تقاضا ہے، نہ دعوت کے لیے مفید۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جو خاموش رہا، وہ سلامت رہا، اور جو سلامت رہا نجات پا گیا‘‘ (بخاری)۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ چپ سادھ لیں اور صرف کانوں کا استعمال کریں۔ اس کا واضح مفہوم قرآن کی اس آیت کی تشریح ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ وَلْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا (النسآئ۴:۹) یعنی حق بات کہنا۔
زمین پر ہونے والے بہت سے فسادات کی جڑ زبان ہی ہوتی ہے۔ زبان کے استعمال ہی سے ایک شخص دائرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اسی کے غلط استعمال سے کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ صحیح استعمال کے نتیجے میں ذمہ داری کا اقرار کرکے رشتۂ نکاح میں جڑ جاتا ہے اور غیرضروری اور نامناسب استعمال کر کے رشتے کے ٹوٹنے تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کے خلاف تمسخر اور بے عزتی کی باتیں کرتی ہے تو بعض اوقات نوبت جنگ تک آجاتی ہے۔ اسی کا صحیح استعمال دلوں کو جوڑتا ہے، رشتوں کا احترام سکھاتا ہے، معاشرے میں محبت اور امن پیدا کرتا ہے۔ ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے یوں وابستہ کردیتا ہے جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہو۔
اسی بنا پر نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔ زبان سے ایسی بات نکالنا جس سے اللہ کے بندوں کو تکلیف ہو، دعوت کے مقاصد کے منافی ہے لیکن ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، حق کا اظہار کرنا، دین کی دعوت دینے کے لیے موعظۂ حسنہ کا اختیار کرنا، حکمت کے ساتھ اپنی بات کا سمجھانا، ایک مومن اور تحریکی کارکن کے لیے فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی بات دل میں اُترنے والی ہونی چاہیے، نہ کہ انسانوں کو دُور کرنے والی۔
برادرم مولانا امیر الدین مہر نے اس موضوع پر ایک کتاب گفتگو کا سلیقہ کے نام سے تحریر کی ہے، اس کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔(ڈاکٹر انیس احمد)
س : صدقے کا مفہوم کیا ہے؟ اگر اسلامی لٹریچر کی اشاعت اور ترسیل کے لیے رقم خرچ کی جائے تو کیایہ بھی صدقہ یا صدقۂ جاریہ ہوگا؟وضاحت فرما دیں۔
ج: ’صدقہ‘ کسی انسان اور کسی مسلمان کی حاجت کو پورا کرنے کا نام ہے، چاہے وہ مال کی شکل میں ہو یا کسی بھی طرح کی اعانت کی صورت میں۔ جب کوئی شخص اپنا مال تعلیم و تبلیغ میں خرچ کرتا ہے تو وہ صدقہ کرتا ہے۔ جس طرح بھوکے کو کھانا کھلانے، پیاسے کو پانی پلانے، بے لباس کو لباس دینے میں صرف کرنا صدقہ ہے، اسی طرح انسانی ہدایت اور دعوت کی مد میں توسیع و اشاعت لٹریچر کے لیے صرف کرنا بھی صدقہ ہے۔ ہدایت انسان کی ضرورت ہے، بلکہ تمام ضروریات سے بڑی ضرورت ہے۔ انسان ہدایت سے محروم ہو تو اس کی آخرت برباد ہوتی ہے جو دائمی زندگی ہے۔ اس لیے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاے علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیاے علیہم السلام نے تکلیفیں برداشت کیں، مصیبتیں جھیلیں، دعوت و تبلیغ اور جہاد میں زندگیاں صرف کردیں، انسانوں پر سب سے زیادہ رحمت ان کے ذریعے ہوئی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے اپنی رحمت قرار دیا۔ اسلام کے غلبے نے بدامنی کی جگہ امن، بھوک وافلاس کی جگہ مال و دولت کی فراوانی اور ذہنی افلاس کی جگہ علمی بلندی عطا کی۔ دس بیس بھوکوں کوکھانا کھلانے کا اتنا فائدہ نہیں جتنا چند گمراہ لوگوں کو ہدایت دینے سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ’’تیرے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو یہ تیرے لیے سرخ اُونٹوں سے بہتر ہے‘‘۔(بخاری)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی فوت ہوجائے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین کام جاری رہتے ہیں۔ صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے (مسلم)۔لٹریچر میں مال خرچ کرنا، مالی صدقۂ جاریہ بھی ہے اور علمی صدقۂ جاریہ بھی۔ اس لیے دوہرے اجرکا موجب ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کا ایسا عمل اور نیکیاں جو اس کی موت کے بعد اسے پہنچتی ہیں، یہ ہیں: علم جس کی تعلیم دی اور اسے پھیلایا، نیک اولاد، قرآن جو وراثت میں چھوڑا، مسجد جسے تعمیر کیا تھا ،یا گھرجو مسافروں کے لیے تعمیر کیا تھا، یا نہر چلا دی تھی، یا صدقہ جس کے لیے زندگی میں صحت کی حالت میں مال نکالا تھا۔ یہ چیزیں اس کی موت کے بعد بھی اسے پہنچتی ہیں (ابن ماجہ)۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی ہر حاجت پورا کرنے اور ایسا کام کرنے جس سے انسانوں اور مسلمانوں کو نفع ہو، صدقہ قرار دیا ہے۔
حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحاب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اللہ! مال دار لوگ سارا اجر لے گئے۔ وہ نمازیں پڑھتے ہیں جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اور اپنے زائد مال کو صدقہ کرتے ہیں (اس طرح ان کا کام بڑھ گیا)۔ آپؐ نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے تمھیں موقع نہیں دیا کہ صدقہ کرو۔ ہر تسبیح صدقہ ہے (تسبیح کا فائدہ خود تسبیح کرنے والے اور دوسرے لوگوں کو پہنچتا ہے)، ہر تحمید صدقہ ہے، ہر لا الٰہ الا اللہ صدقہ ہے، بھلائی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ بیوی کے پاس جانا بھی صدقہ ہے (کہ گناہ سے بچ گیا، جس کا اسے اور معاشرے کو فائدہ پہنچا)۔
صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایک آدمی اپنی شہوت کی تسکین کا سامان کرتا ہے تو اس میں بھی صدقہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: بتلائو اگر وہ اپنی شہوت کی تسکین ناجائز راستے سے کرتا تو اسے گناہ نہ ہوتا؟ فرمایا: کیوں نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: اسی طرح صحیح راستے سے تسکین کرنے کا ثواب ہے۔ (مسلم)
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے: کُلُّ مَـعْرُوْفٍ صَـدَقَـۃٌ ، ’’ہر بھلائی صدقہ ہے‘‘ (مسلم)۔ ابن عمرؓ سے روایت ہے: مَنْ کَانَ لَـہٗ مَالٌ فَلْیَتَصَدَّقْ مِنْ مَّالِـہٖ وَمَنْ کَانَ لَـہٗ قُوَّۃٌ فَلْیَتَصَدَّقْ مِن قُوَّتِـہٖ وَمَنْ لَّـہٗ عِلْمٌ فَلْیَتَصَدَّقْ مِنْ عِلْمِہٖ (ابن مردویہ بحوالہ جامع العلوم والحکم شرح جوامع الکلم)’’جس کے پاس مال ہے وہ اس کا صدقہ کرے، جس کے پاس قوت ہے وہ قوت کا، اور جس کے پاس علم ہے وہ علم کا صدقہ کرے‘‘۔ حضرت حسن بصری کی مرسل روایت جس کو ابن ابی الدنیا نے نقل کیا ہے: وَ اِنَّ مِنَ الصَّدَقَۃِ اَنْ تُـسْلِمَ عَلَی النَّاسِ وَاَنْتَ طَلِیْقُ الْوَجْہِ (شرح جوامع الکلم) ’’لوگوں کو خندہ پیشانی سے سلام کرنا صدقہ ہے‘‘۔ اس حدیث کی سندمیں اگرچہ کچھ ضعف ہے لیکن مسلم کی صحیح روایت کہ ’’ہربھلائی صدقہ ہے‘‘ جامع ہے جو اس حدیث کے مضمون پر بھی حاوی ہے اور اس مضمون کی دوسری بہت سی احادیث بھی ہیں۔ اس لیے یہ روایت بھی معتبر شمار ہوگی۔ ترمذی میں حضرت ابوذرؓ کی اسی روایت میں یہ بھی اضافہ ہے: ’’جنگل و بیابان میں ناواقف کو راستہ بتلا دینا بھی صدقہ ہے‘‘۔
ان احادیث سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ تعلیم دینا، رہنمائی کرنا، بھلائی کا حکم کرنا، منکر سے روکنا صدقہ ہے۔ پس جو آدمی لٹریچر کے ذریعے خلقِ خدا کی تعلیم و تربیت، رہنمائی، غلبۂ اسلام کی کوشش کرے گا وہ صدقۂ جاریہ میں مال خرچ کرے گا۔ اسے مال خرچ کرنے کا ثواب بھی ملے گا کہ یہ مالی صدقہ ہے، اور تعلیم و رہنمائی کا اجر بھی ملے گا کہ یہ بھی صدقہ ہے۔ واللّٰہ اعلم!(مولانا عبدالمالک)
س : میرے زرعی رقبے میں ٹیلی فون ٹاور نصب ہوا ہے، شاید اس پر بھی زکوٰۃ ہو، مگر مجھے علم نہیں کہ اس پر زکوٰۃ کیسے ادا ہوگی؟ معاہدہ اس طرح ہوا ہے ۷۲ہزار سالانہ اور ہرسال ۶ فی صد اضافہ ہوگا اور اس میں اپنا خرچ اور گورنمنٹ کا ٹیکس وہ کاٹ لیں گے۔ اس دفعہ انھوں نے کٹوتی کے بعد۷۲ ہزار کے بجاے ۶۸ہزار روپے دیے ہیں۔ سردست میں مقروض بھی ہوں۔ اسی طرح دکانوں اور مکانوں کا کرایہ، یا ایسے پلاٹ جو بغرضِ کاروبار خریدے گئے ہوں، ان پر کب اور کس طرح زکوٰۃ ادا کی جائے؟
ج : ٹاور پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اس سے آپ کو جو رقم ملے، اگر قرض سے زائد ہو تو اس پر زکوٰۃ دے دیں بشرطیکہ کرایے کی رقم قرض کی ادایگی کے بعد اس قدر زیادہ ہو کہ اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہو، یا مزید رقم جو آپ کے پاس بچی ہوئی ہو اُسے بھی ساتھ ملا دیا جائے، اور اگر مجموعی رقم پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہو تو ایسی صورت میں زکوٰۃ دی جائے گی۔ پلاٹوں کی سال بہ سال قیمت لگائی جائے اور پس انداز کی ہوئی رقم کے ساتھ ملا کر اس کی زکوٰۃ بھی ادا کی جائے۔(ع-م)