’کلام نبویؐ کی کرنیں‘ اور ’قناعت‘ (فروری ۲۰۰۸ئ) مؤثر تحریریں ہیں اور ذاتی اصلاح پر اُبھارتی ہیں۔ محترم عبدالغفار نے غزہ کو دورِحاضر کا ’شعب ابی طالب‘ قرار دے کر فلسطینی بھائیوں پر توڑے جانے والے مظالم، مصیبتوں اور آزمایش کی صحیح ترجمانی کی ہے۔
’نائن الیون: پردہ اُٹھ رہا ہے!‘(فروری ۲۰۰۸ئ) کے ضمن میں آپ کے قارئین کے لیے یہ امر دل چسپی کا باعث ہوگا کہ انھی دنوں جاپانی پارلیمنٹ میں اسی موضوع پر ایک چشم کشا مباحثہ ہوا جسے ساری دنیا نے سرکاری چینل این ایچ پر دیکھا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن یوکی ہی سافوتیجا نے وزیراعظم سے چبھتے ہوئے سوال کیے، پینٹاگون کی تصاویر دکھا کر بتایا کہ جہاز کے ٹکرانے سے نسبتاً بہت چھوٹا سوراخ ہوا، جب کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ سامنے کے لان میں جہاز کاکوئی ٹکڑا بھی نہیں ہے۔ یہ تصویر موقع پر موجودہ فائرمین نے کھینچی تھی۔ انھوں نے امریکی ایئرفورس کے ایک افسرکا یہ تبصرہ بھی دکھایا کہ میں نہیں مان سکتا کہ جو شخص پہلی بار ان جہازوں کو اڑا رہا ہو وہ ایسی کارروائی کیسے کرسکتا ہے۔ پینٹاگون میں ۸۰ سے زائد سکیورٹی کیمرے نصب ہیں مگر جہاز کے ملبے کی کوئی بھی تصویر دستیاب نہیں ہے۔ فوتیجا نے ایک فائرمین اور جاپانی ریسرچ ٹیم کے انٹرویو بھی پیش کیے جن کے مطابق عمارت بم دھماکوں سے اڑائی گئی ہے، جہاز ٹکرانے سے عمارت کا اس طرح گرنا ممکن نہیں (تفصیل کے لیے دیکھیے ویب سائٹ: truthnews.us/?p=1705)۔ اس طرح انھوں نے امریکی حکمرانوں کی بدنیتی اور حقائق چھپانے کی روش واضح کی۔ ممبران کا کہنا تھا کہ ہمیں امریکی فوج کو تیل فراہم کرنے کے بجاے اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ افغان عوام امن کے ساتھ اور پریشانیوں سے محفوظ رہتے ہوئے زندگی بسر کرسکیں۔ کیا اب بھی وار آن ٹیرر میں شرکت کا کوئی جواز ہے؟
’احتجاج اور ردّعمل کا غیرمتوازن اظہار‘ (فروری ۲۰۰۸ئ) میں بجاطور پر توجہ دلائی گئی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے سانحے کے بعد بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ، جلائوگھیرائو اور لوٹ مار ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تھی اور حکومت کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا، جب کہ انھیں متوقع ردّعمل کا اندازہ بھی تھا۔ معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا تقاضا ہے کہ وسیع پیمانے پر اصلاح اخلاق اور رجوع الی اللہ کی مہم چلائی جائے۔
’انسانی وسائل کی ترقی‘ (دسمبر ۲۰۰۷ئ) اُمت کی ضرورت، وقت کا تقاضا اور اہلِ علم کو غوروفکر کی دعوت ہے۔ کتنے ہی علوم اور مضامین ایسے ہیں جنھیں جدید دنیا کے علوم وفنون اور انکشافات سے بیان کیا جاتا ہے، جب کہ اسلام میں یہی مضامین کہیں تفصیل سے، کہیں اشارے و کنایے سے اور کہیں وضاحت و شرح سے بیان کیے گئے ہیں، البتہ زبان و الفاظ اور اصطلاحات مختلف ہیں۔
ڈی این اے پر مضمون (جنوری ۲۰۰۸ئ) رسالے میں آنا اور اس کا عام کرنا قابلِ ستایش ہے۔ یہ مضمون بڑا چشم کشا اور معلوماتی ہے۔ اس کے مطالعے کے بعد تقدیر کا مسئلہ خودبخود حل ہوجاتا ہے اور بہت سی پیچیدگیاں سلجھ جاتی ہیں۔ایسے معرکہ آرا مضامین شائع کرنے پر مبارک باد دینے کو جی چاہتا ہے۔
’چہرے نہیں نظام بدلیں‘ (جنوری ۲۰۰۸ئ) پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے مولانا مودودی نے موجودہ دور کے لیے ہی لکھا ہے۔ بلاشبہہ اس نظام کے بدلنے کی سعی لازم ہے لیکن طریقۂ کار سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا ’انتخابی تماشا‘ میں شرکت کرکے اور اسمبلیوں تک پہنچ کر کچھ کرسکتے ہیں، یا بائیکاٹ کرکے اِس باطل نظام کو ختم کرسکتے ہیں؟ پوری قوم پریشان ہے۔
’وفاقی شرعی عدالت کا ایک تاریخی فیصلہ‘ اور ’نظریۂ ضرورت: قانون اور انصاف کا خون‘ (جنوری ۲۰۰۸ئ) جیسے مضامین عام آدمی کے علم میں اضافے کا موجب ہیں۔ ایسی باتیں اُمید دلاتی ہیں کہ کہیں روشنی بھی ہے، اتنی مایوسی نہیں۔ ’ڈی این اے، تخلیق الٰہی کا کرشمہ‘ نے تو جیسے ایمان ہی تازہ کردیا۔
نام ور مغربی سائنس دان (جنوری ۲۰۰۸ئ) پر تبصرہ نظر سے گزرا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایجادات اور کلیات کو حل کرنے کا سہرا صرف مغربی سائنس دانوں کے ہی سر نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے مسلمان سائنس دان یہ کرچکے ہیں۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ سائنس ایک مشترکہ میراث انسانیت ہونے کے سبب مسلمان اپنی ان علمی کاوشوں کے ہوتے ہوئے دُور کیوں ہوگئے؟ اس کا ایک سبب یہی ہے کہ مسلمان حکومتوں نے ناانصافی، ظلم و تعدی کا بازار گرم کیا اور اغیار ہم پر قابض ہوگئے۔ آج بھی ظلم وستم اور اہلِ علم کی بے توقیری کی روش عام ہے۔ اگر ہم نے ایک مسلم سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر کو پروان چڑھایا ہے تو اس پر ظلم وستم ڈھا کر اس کی زندگی کو ہی اجیرن بنادیا گیا ہے۔ کیا اسی کا نام علم دوستی ہے!