۱- اسلام موجودہ زمانے کی جمہوریت سے سیکڑوں برس پہلے عورتوں کے حق راے دہی کوتسلیم کرچکاہے۔ اسلامی حکومت میں ہر بالغ عورت کو ووٹ کا حق اسی طرح حاصل ہوگا جس طرح ہربالغ مرد کو یہ حق دیاجائے گا۔
۲- اسلام عورتوں کو وراثت اورمال وجایداد کی ملکیت کے پورے پورے حقوق دیتا ہے۔ ان کو اختیار ہے کہ وہ اپنے روپے کو تجارت و صنعت میں لگائیں اور اس سے جو نفع ہو، اس کی بلاشرکت غیرے مالک ہوں، بلکہ اگر ان کے پاس وقت بچتا ہو تو ان کو اس کا بھی حق ہے کہ بطور خود کوئی کاروبار یا کوئی محنت مزدوری کریں۔ اس کی آمدنی کی ملکیت پوری طرح انھی کو حاصل ہوگی۔ ان کے شوہروں اور باپوں کو ان کے املاک پر کسی قسم کے اختیارات ازروے شرع حاصل نہیں ہیں۔
۳- اسلامی حکومت میں یہ ناقص ازدواجی قانون، جو انگریزی دور میں یہاںرائج رہا ہے اور جس نے بہت سی مسلمان عورتوں کے لیے دنیا کی زندگی کو دوزخ کی زندگی بنا رکھا ہے، بدل دیا جائے گا اور اسلام کا حقیقی قانون ازدواج جاری کیا جائے گا جو عورتوں کے حقوق اور مفاد کی پوری حفاظت کرتا ہے۔
۴- اسلامی حکومت میں عورتوںکو تعلیم سے محروم نہیں رکھا جائے گا جیساکہ غلط فہمیاں پھیلانے والے لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے، بلکہ اُن کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا جائے گا۔ یہ انتظام یقینا آج کل کے گرلز اسکولوں اور گرلز کالجوں کے طرز پر نہ ہوگا اور مخلوط تعلیم کے اصول پر تو ہرگز نہیں ہوگا، بلکہ اس میں اسلامی حدود کی پوری پابندی کی جائے گی مگر ہرصورت ہر شعبے میں اُونچے معیار کی زنانہ تعلیم کے انتظامات ضرور کیے جائیں گے۔
۵- ہم مسلمان عورتوں کو ضروری فوجی تعلیم دینے کا بھی انتظام کریں گے اور یہ بھی ان شاء اللہ اسلامی حدود کو باقی رکھتے ہوئے ہوگا۔ انسان درندگی کی بد سے بدتر شکلیں اختیار کر رہا ہے۔ ہمارا سابقہ ایسی ظالم طاقتوں سے ہے جنھیں انسانیت کی کسی حد کو بھی پھاند جانے میں تامل نہیں ہے۔ کل اگر خدانخواستہ کوئی جنگ پیش آجائے تو نہ معلوم کیا کیا بربریت ان سے صادر ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو مدافعت کے لیے تیار کریں اور ہرمسلمان عورت اپنی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرنے پر قادر ہو۔انھیں اسلحے کا استعمال سیکھنا چاہیے، انھیں تیرنا آتا ہو، سواری کرسکتی ہوں، سائیکل اور موٹر چلا سکیں، فسٹ ایڈ جانتی ہوں۔ پھر وہ صرف اپنی ذاتی حفاظت ہی کی تیاری نہ کریں، بلکہ ضرورت ہو تو جنگ میں مردوں کا ہاتھ بھی بٹاسکیں۔ ہم یہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن اسلامی حدود کے اندر کرنا چاہتے ہیں۔ ان حدود کو توڑ کر نہیں کرنا چاہتے۔ (’اسلام اور اس کے تقاضے‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۳۱، عدد۳، رمضان ۱۳۶۷ھ، جولائی ۱۹۴۸ئ، ص ۲۶-۲۹)