مارچ ۲۰۰۸

فہرست مضامین

کتاب نما

| مارچ ۲۰۰۸ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

حمدباری تعالیٰ (مجموعۂ حمد)، ابوالامتیاز ، ع س، مسلم۔ ناشر: مقبول اکیڈیمی ،لاہور۔ صفحات: ۲۷۹۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

اُردو شعرا نے عام طور پر حصولِ برکت کے طور پر حمد باری تعالیٰ کو اپنے مجموعوں اور کلیات کی زینت بنایا ہے۔ اسی طرح نثر کی بعض کتابوں میں بھی اسے ذریعۂ خیروبرکت سمجھتے ہوئے شامل کیا گیا ہے۔ مجموعی نظر ڈالی جائے تو اُردو شاعری میں حمدیہ مجموعے انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔     یہ مجموعہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بہت عمدہ کوشش کی ہے جو اُردو شاعری میں کئی لحاظ سے    اہم قرار دی جاسکتی ہے۔ جناب مسلم کو ہندی، فارسی اور عربی زبانوں پر جو دسترس حاصل ہے اور جس خوب صورتی سے وہ مذکورہ زبانوں کے الفاظ کو نگینوں کی طرح جڑتے ہیں ان پر آتش کا یہ شعر صادق آتا ہے    ؎

بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا

حمد لکھنا بھی نعت کی طرح آسان نہیں،نعت نگار کو دو دھاری تلوار پر چلنا پڑتا ہے۔  جناب مسلم نے صراط مستقیم پر چلتے ہوئے قرآن و حدیث کو سامنے رکھا ہے اور اسی کی بدولت ان کا قلم کہیں ڈگمگانے نہیں پایا۔

اس حمدیہ مجموعے میں ڈاکٹر ریاض مجید کا مقالہ شامل ہے، اس سے نہ صرف اس صنفِ شاعری کے بارے میں قیمتی معلومات فراہم ہوتی ہیں بلکہ اس سے ع س مسلم کی اس صنف سے دل چسپی اور خاص طور پر علم عروض پر ان کی گرفت کی پختگی بھی سامنے آتی ہے۔ انھوں نے اس مجموعے میں بعض نئی تراکیب وضع بھی کی ہیں۔ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے نہ صرف حمد کہنے کی تحریک دلائی ہے جو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے، بلکہ اس کا ایک عمدہ نمونہ بھی ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ (محمد ایوب لِلّٰہ)


دروسِ سیرت، ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی۔ مترجم:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔ صفحات: ۷۱۲۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔ ڈسٹری بیوٹرز: کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، اُردوبازار، لاہور۔ فضلی بک، سپرمارکیٹ،اُردو بازار، کراچی۔

زیرتبصرہ کتاب السیرۃ النبویۃ کا اُردوترجمہ ہے، جس میں حضور اکرمؐ کی نبوی حیثیت کو نمایاں کرتے ہوئے مغربی فکری گمراہیوںکی تردید کی گئی ہے۔ ڈاکٹر محمدسعید رمضان البوطی شام کے مشہور عالم دین ہیں اور عصری مسائل کو دینی  نقطۂ نظر سے جدید عام فہم اسلوبِ بیان میں پیش کرنے کی خداداد صلاحیت کے مالک ہیں۔

کتاب میں حیات النبی کے درخشاں واقعات کو اگرچہ روایتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔  مصنف کا زیادہ زور مستشرقین اوران کے ہم فکر مشرقی اہلِ علم کی ان گمراہ کن آرا کی تردید پر ہے، کہ جن سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضور اکرمؐ صرف ایک مصلح انسان تھے۔ مصنف نے کتاب کے تمہیدی مباحث میں تاریخ نویسی کے اسلامی اسلوب کو واضح کرتے ہوئے تاریخ نگاری کے جدید نقطۂ نظر پر فاضلانہ بحث کی ہے اور مغربی فکر کے جدید اسلوب تجزیہ و تحلیل کی تردید کی ہے، جس میں حیات النبیؐ کے واقعات کو اس لیے شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ ان کی عقلی توجیہہ نہیں ہوتی اور یہ واقعات جدید سائنسی اصولوں پرپورے نہیں اُترتے (ص ۴۸)۔ اس طرزِ فکر کی مثال دیتے ہوئے مصنف نے محمدحسین ہیکل کا یہ دعویٰ پیش ہے: ’’میں اپنی اس کتاب میں سیرت اور حدیث کی کتابوں کا پابند نہیں ہوں، بلکہ میں نے بہتر سمجھا کہ اسے علمی انداز میں پیش کروں‘‘۔ (ص ۴۹)

کتاب میں اس نقطۂ نظر کی تردید کی گئی ہے۔اعتراضات کے جواب میں مصنف کا استدلالی اسلوبِ بیان، عالمانہ اور عام فہم ہے۔ عبارت سادہ اور لفظی و معنوی الجھائو سے پاک ہے۔ اُردو زبان میں اس انداز کی سیرت نگاری کا رواج ابھی عام نہیں ہوا۔ مترجم نے عربی سے اُردو ترجمہ مہارت سے کیا ہے۔ (ظفرحجازی)


نبی کریمؐ کے لیل و نہار، امام حسین بن مسعود بغوی۔ترجمہ و تشریح: حافظ زبیر علی زئی۔ ناشر : حدیبیہ پبلی کیشنز، رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات : ۵۶۰۔ قیمت (مجلد): ۳۰۰ روپے۔

زیرنظر کتاب سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگہی کے لیے ایک منفرد کاوش ہے۔ بنیادی طور پر یہ امام بغویؒ کی عربی تالیف الانوار فی شمائل نبی المختار کا ترجمہ ہے۔ مؤلف نے سیرت کے روایتی اسلوب سے ہٹتے ہوئے سیرت و سوانح کے واقعات کو ایک ترتیب سے بیان کرنے کے بجاے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی سیرت اور آداب و شمائل کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے، اور روز مرہ زندگی میں اسوئہ حسنہ سے عملی راہ نمائی دی ہے۔

ایک ہزار سے زائد احادیث کے اس مطالعے کو مختلف ابواب کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ نبی کریمؐ کے معجزات اور منفرد اوصاف و شمائل، آپؐ کا سراپا، رہن سہن، لباس، کھانا پینا اور اخلاقِ عالیہ اور طہارت و نظافت کا دل آویز تذکرہ ہے۔ اسلامی معاشرت اور ازدواجی زندگی کے پہلو کو بھی جامع انداز میں سمویا گیا ہے۔ ’ادعیۂ ماثورہ‘ کے تحت نبی کریمؐ کی دعائوں کا عمدہ انتخاب ہے جسے روزمرہ معمول بنانا حبِ رسولؐ کے ساتھ ساتھ خیروبرکت کا باعث بھی ہوگا۔ نبی کریمؐ کے  مرض الموت اور رفیقِ اعلیٰ کو لبیک کہنا، زندگی کے آخری لمحات اور تدفین کے مناظر اشک بار کردیتے ہیں۔ آخری باب احیاے سنت، اتباع رسولؐ اور محبت مصطفی کے لیے راہ نمائی اور اسوہ پر مبنی ہے اور دعوتِ عمل دیتا ہے۔

نبی کریمؐ کی سیرت کا نمایاں ترین پہلو دعوت اور احیاے اسلام کی جدوجہد ہے، جسے ایک باب کے تحت بیان کیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ اس پہلو سے تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ تخریج کے ذریعے احادیث کی صحت و ضعف، حوالوں اور اعراب کے خصوصی اہتمام سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔ ترجمے کااسلوب دل نشیں اور عام فہم ہے۔ اپنے موضوع پر ایک مفید علمی اضافہ ہے۔ (امجد عباسی)


سیرتِ اصحابِ عشرہ مبشرہؓ، عبدالرشید عراقی۔ ناشر: علم و عرفان پبلشرز، ۳۴-اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۸۲۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

مشاہیرِاسلام یا اکابرِاُمت (بالخصوص محدثین اور علما و فقہا) کی سوانح نگاری فاضل مصنف کا خاص موضوع ہے۔ زیرنظر کتاب میں انھوں نے اُن ۱۰ نفوسِ قُدسی کے سوانح حیات کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے جن کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر جنت کی بشارت دی تھی، یعنی حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح، حضرت زبیر بن العوام، حضرت طلحہ بن عبیداللہ، حضرت سعید بن زید اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔

دراصل قرآن حکیم میں عمومی طور پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سبھی صحابۂ کرامؓ کو جنت کا حق دار ٹھیرایا ہے (التوبہ ۹:۱۰۰، الانفال ۸:۷۴-۷۵) لیکن ان صحابہ میں ایک ایسی جماعت بھی تھی جو اپنی مہتم بالشان دینی خدمات، اپنے غیرمعمولی فضائل و مناقب اور بارگاہِ رسالت میں تقرب کی بنا پر خصوصی اہمیت اور مرتبے کی حامل تھی۔ اصحابِ عشرہ مبشرہ اسی مقدس جماعت کے معزز ارکان تھے۔ فاضل مؤلف نے ان بزرگوں کے سوانح حیات مستند حوالوں کے ساتھ بڑی تفصیل سے قلم بند کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے جو عرق ریزی اور تحقیق کی ہے، وہ لائقِ تحسین و ستایش ہے۔ ان کا اسلوبِ نگارش محققانہ ہونے کے ساتھ بہت سادہ، دل کش اور عام فہم ہے۔ اس سے پہلے اس موضوع پر دو تین اور کتابیں بھی ہماری نظر سے گزر چکی ہیں۔ یہ کتاب ان میں قابلِ قدر اضافہ ہے۔ کتاب میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں کھٹکتی ہیں (طالب ہاشمی)۔ [۱۶فروری ۲۰۰۸ء کو رحلت فرما گئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین]


Islam and The Secular Mind ، سیدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمہ و تدوین: طارق جان۔ اہتمام: ورلڈ آف اسلام ٹرسٹ،اسلام آباد۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۷، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-فون: ۶۳۴۹۸۴۰۔ صفحات: ۲۴۰۔مجلد مع اشاریہ، قیمت: ۳۰۰ روپے۔

مغربی تہذیب کا طاقت ور مظہر سیکولرزم، ایک کثیرجہتی یلغار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہی سیکولرزم جسے ڈاکٹر انیس احمد اپنے فاضلانہ تعارفی مضمون میں: ’ایک جعلی (pseudo) مذہب‘ (ص ۱-۲۰) قرار دیتے ہیں۔ اس لامذہبی کے مذہب نے خصوصاً اسلام کے خلاف انتہادرجے کا متعصبانہ رویہ اختیار کیا ہے، جس میں یہودیت، نصرانیت اور ہندومت ایک دوسرے کے اتحادی نظر آتے ہیں۔

عہدحاضر میں نام نہاد ’تہذیبی تصادم‘ (جو درحقیقت یک طرفہ مغربی، عسکری، معاشی، مذہبی، سماجی اور فکری یلغار ہے) کے احوال کو موجودہ عہد کے عظیم اسلامی مفکر سیدابوالاعلیٰ مودودی، ہر پہلو سے زیربحث لائے ہیں۔ انھوں نے دلیل، دانش، انصاف اورمنطق سے اس مسئلے کی اخلاقی و انسانی بنیادوں کو واضح کیا ہے۔ اگرچہ مولانا مودودی،مغربی تہذیب کے خودغرضانہ، لادینی اور اباحیت پسندانہ پہلوئوں کو موضوع بحث بناتے ہیں، لیکن وہ مغربی تہذیب کی ان ترقیات و مقدمات  کا بھی کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں، جنھوں نے انسانی فلاح کے لیے کئی حیرت انگیز کارنامے انجام دیے ہیں۔ تاہم وہ برملا یہ بات واضح کرتے ہیں، کہ جب انسان آخرت کی جواب دہی کے احساس سے عاری ہوجاتا ہے تو پھر اس کے بہت سے تعمیری ارادوں پر بھی حیوانی جبلت غلبہ حاصل کرلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیب مغرب کے نزدیک برتری کی معراج کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے والا ہی فاتح عالم ہے۔ گذشتہ دو صدیوں کے دوران میں مغرب پر اسی حیوانی جبلت کا پھریرا لہرا رہا ہے۔

کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر خورشیداحمد نے بتایا ہے: ’’ان مضامین میں مولانا مودودی نے مغرب کے اس تصور کا تجزیہ کیا ہے، جس کے تحت وہ معاشرے میں مذہب اور الہامی رہنمائی کو چیلنج کرتا ہے‘‘ (ص xi )۔ مولانا مودودی نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’[مغربی تہذیب نے] نظام زندگی کے ہرشعبے سے مذہب کو عملاً بے دخل کردیا، اور اس کا دائرہ صرف شخصی عقیدہ و عمل تک محدود کرکے رکھ دیا۔ یہ بات تہذیب مغرب کے اصولوں میں داخل ہوگئی کہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق، قانون، علم فن، غرض اجتماعی زندگی کے کسی شعبے میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ

اس تہذیب کے رگ رگ میں خدا بیزاری اور لامذہبیت (سیکولرزم) کی ذہنیت پیوست ہوگئی ہے (اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۴۳۷-۴۳۸)۔ مغربی تہذیب کے تجزیاتی مطالعے کے لیے مولانا مودودی نے ردعمل کا شکار ہونے کے بجاے توانا لہجے،     مضبوط قلم، روشن ذہن اور کھلے ضمیر سے انسانوں کے دلوں پر دستک دی۔ معروف ترقی پسند دانش ور فیض احمدفیض نے درست کہا تھا: ’’تہذیب مغرب پر تنقید کے حوالے سے دیگر علما کے مقابلے میں سیدمودودی کا نقطۂ نظر زیادہ معتدل ہے۔ وہ اکثر و بیش تر استدلال عقلی توجیہہ سے کرتے ہیں،  محض روایتی طریقے سے نہیں۔ انھوں نے تہذیب مغرب پر جذباتی انداز سے نہیں بلکہ غیرجذباتی اوراستدلالی انداز سے تنقید کی ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس تہذیب کا ایک مرکزی ستون سیکولرزم ہے۔

فاضل مرتب و مترجم طارق جان نے مولانا مودودی کی دو معرکہ آرا کتب تنقیحات اور تفہیمات سے آٹھ مضامین کو منتخب کیا ہے۔ یہ انتخاب قابلِ داد ہے اور تدوین و ترجمے کا معیار اور اسلوب قابلِ رشک ہے۔ مرتب نے نہ صرف مولانا مودودی کی ان سدابہار تحریروں کا شُستہ   اور رواں انگریزی ترجمہ کیا ہے، بلکہ مولانا مودودی کے استدلال اور مقدمے کی تائید کے لیے،     اپنے حواشی میں ڈھائی سوسالہ انگریزی لٹریچر کو کھنگال کر مغربی دانش ور اور فلسفیوں کی تحریروں سے   قیمتی حوالے پیش کیے ہیں۔ یہ تائید مزید مولانامودودی کی تنقید مغرب کی مؤثر معاونت کرتی ہے۔ مولانامودودی کے رفقا میں سے پروفیسر عبدالحمید صدیقی، خرم مراد اور پروفیسر خورشیداحمد نے تہذیب مغرب کے مطالعہ و تحقیق کی جس روایت میں کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں، آج طارق جان نے اسی سلسلۃ الذہب کے ایک قابلِ ذکر دانش ور کی حیثیت سے یہ قیمتی خدمت انجام دی ہے۔

اسلام اینڈ دی سیکولر مائنڈ علمی، فکری، سماجی، تاریخی اور فلسفیانہ حوالے سے خاصے کی چیز ہے جس میں مولانا مودودی نے: ’’ذہنی غلامی، الٰہی اور لادینی قانون،اسلام پہ ’نظرثانی‘، عقل پرستی کے زعم، ڈاوینی ارتقا، مغربی تہذیب کو درپیش چیلنج وغیرہ کوموضوع بحث بنایا ہے۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے فی الواقع اسے شایانِ شان طریقے سے شائع کیا ہے۔ عالمی سطح پر تو اس کتاب کی پذیرائی ہوگی ہی، لیکن خود پاکستان کے سیکولر دانش وروں تک اس کتاب کا پہنچایا جانا وقت کی ضرورت ہے۔ (سلیم منصور خالد)

مسلمان اور سائنس، سراج الدین ندوی۔ ناشر: ملت اکیڈیمی، ۲۳۳-سی، ابوالفضل انکلیو، ۱۱-شاہین باغ، جامعہ نگر، نئی دہلی۔ صفحات: ۴۲۴۔ قیمت: ۱۴۰ بھارتی روپے۔

زیرنظر کتاب میں ۲۶۵ سائنس دانوں کے کوائف، خاندانی پس منظر ،ان کے کارنامے  کسی قدر ان کے اور اس دور کی عمومی کیفیات بیان کی گئی ہیں۔ ان میں موجودہ دور کے مسلمان   سائنس دانوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

مصنف نے مسلمان سائنس دانوں کی تصانیف کے بارے میں بہت اہم معلومات فراہم کی ہیں، یعنی یہ کہ وہ اب کہاں ہیں، یا کہاں طبع ہوئی ہیں جیسے حجاج بن مطر کی اقلیدس کو کوپن ہیگن میں،یا طبی انسائی کلوپیڈیا فردوس الحکمت، عربی کے علاوہ سریانی میں لکھی گئی اور اب اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔

زیرنظر کتاب سے پتا چلتا ہے کہ ڈٹمار نے ۱۸۸۴ء میں ایک اہم تحقیق کے بعد سمندری پانی میں حل شدہ نمکیات کی تفصیل فراہم کی مگر ثابت بن قرۃ دانی نے سمندری پانی کے نمکین ہونے کے اسباب کا تذکرہ بہت پہلے کیا تھا۔ اسی طرح زلزلے کے اسباب، زمین کے قطر کا درست تعین، سیلاب روکنے کے آلات وغیرہ ایسی تمام تفصیلات کتاب کے آخری باب ’اہم ایجادات و انکشافات ایک نظر میں‘ میں فراہم کردیے گئے ہیں۔

یہ بات کلی طور پر درست نہیں ہے کہ ’ترقی یافتہ اقوام کے اہلِ علم، اسپین کی اسلامی جامعات میں تعلیم حاصل کر کے مسلمانوں کے ورثے کواپنے ساتھ لے گئے اور سائنس کی اوجِ ثریا تک پہنچے۔ انھوں نے مسلمانوں کی ایجادات و انکشافات کو اپنی جانب منسوب کر کے مسلمان سائنس دانوں کی کاوشوں کا سہرا بھی اپنے سر باندھ لیا۔ جارج سارٹن کی تصانیف، یا ۱۵ جلدوں میں شائع ہونے والی اے ڈکشنری آف سائنٹفک بابو گرافیز میں مسلمان سائنس دانوں کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔ جابر بن حیان کو باباے کیمیا، ابن الہیثم کو باباے بصریات کا خطاب اہلِ مغرب ہی نے دیا تھا۔

سراج الدین ندوی نے نہایت محنت سے ایجادات کی تصاویر اور خود سائنس دانوں کی تصاویر حاصل کر کے شائع کی ہیں جو آیندہ کام کرنے والوں کے لیے ابتدائی مآخذ کا کام انجام دیں گی۔ پوری کتاب میں بہت سے دل چسپ اور عبرت ناک واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں جو کتاب کی افادیت میں اضافے کا سبب بنے۔ (ڈاکٹر وقار احمد زبیری)


ماہنامہ سیارہ، لاہور، سالنامہ ۲۰۰۷ئ، مدیر: حفیظ الرحمن احسن۔ ناشر: ایوانِ ادب، چوک اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۴۲۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

محترم نعیم صدیقی کا جاری کردہ سیارہ گاہے بگاہے بعض ادبی رسالوں کی ضخیم اشاعتوں کی یاد دلاتا ہوا شائع ہوتا رہتا ہے۔ اسے پاکستان میں ادب اسلامی سے وابستہ اہلِ قلم کا نمایندہ رسالہ کہا جاسکتا ہے۔ اس اشاعت خاص میں حمدیہ اور نعتیہ کلام، مضامین، نظموں اور افسانوں کے ساتھ ایک خصوصی گوشہ بیاد اقبال ہے، اور دوسرا گوشۂ خاص بھارت کے مشہور دانش ور اور         ادبی نقّاد ڈاکٹر عبدالمغنی کی یاد میں مرتب کیا گیا ہے۔ ۳۶ کتب پر تبصرہ لکھا گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ رسالہ عام ادیبوں اور طلبہ اور طالبات کے مطالعے میں آئے، چند مخصوص لوگوں تک محدود نہ رہے۔(مسلم سجاد)


تعارف کتب

  • السلام اے سبز گنبد کے مکیںؐ، ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی۔ملنے کا پتا: نشیمن مارکیٹ، میڈیکل روڈ، علی گڑھ ۲۰۲۰۰۲، بھارت۔ صفحات: ۳۲۔ قیمت: ۱۰ بھارتی روپے۔[اُردو زبان میں منظوم سلام لکھنے کی مستحکم روایت ہے۔ احمدرضا خان بریلوی، اکبر وارثی میرٹھی، ماہرالقادری اور حفیظ جالندھری کے سلام معروف ہیں۔ زیرنظر منظوم سلام بے احتیاطی اور فکری بے اعتدالی سے پاک ایک پُراثر عقیدت نامہ بھی ہے اور پیامِ بیداری بھی۔ متواتر کئی برسوں سے زائرین حرم نبویؐ کے توسط سے روضۂ رسولؐ پر پیش کیا جا رہا ہے۔]
  • سیکولرزم اور اسلام، پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی۔ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈیمی، کراچی۔ تقسیم کنندہ:     مکتبہ معارف اسلامی ، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا ، کراچی-۷۵۹۵۰۔صفحات: ۴۰۔ قیمت: ۲۰ روپے۔ [مصنف نے بڑی جامعیت سے سیکولرزم اور اسلام کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ اللہ جل شانہٗ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے مسلمان کے لیے یہ نظریہ سمِ قاتل ہے۔ ڈاکٹر علوی نے سیکولرزم کی تعریف وتشریح اور اس کی بنیادوں کی وضاحت کے بعد بتایا ہے کہ کس طرح وہ ماورائی ماخذ (metaphysical source) سے نجات، فطرت سے تصادم، سیاست کی عدمِ تقدیس اوراقدار کے   عدمِ استقلال پر اپنی فکری عمارت تعمیر کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات اس کے بالکل برعکس ہیں۔]
  • ماہنامہ ذوق و شوق ، کراچی، مدیر: محمدعارف قریشی۔ پتا: پوسٹ بکس نمبر ۱۷۹۸۴۔ گلشن اقبال، کراچی۔ ۷۵۳۰۰۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۱۸ روپے، سالانہ ۳۲۰ روپے ۔[بچوں کے لیے تعمیری اور صحت مند رسائل میں ایک خوب صورت اضافہ۔ مولانا رفیع عثمانی کی سرپرستی مشمولات کے معیاری اور اصلاحی ہونے کی ضمانت ہے۔ متنوع تحریریں علم کا ذوق اور عمل کا شوق بڑھانے والی ہیں۔ خوش ذوقی ہر صفحے سے عیاں ہے۔]