مارچ ۲۰۰۸

فہرست مضامین

عوام کا فیصلہ __ قیادت کا امتحان

پروفیسر خورشید احمد | مارچ ۲۰۰۸ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابی نتائج پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ملک کی قیادت، خصوصیت سے نومنتخب قیادت، عوام کی واضح راے اور ان کے جذبات، احساسات اور توقعات کے مطابق اپنا کردار ادا کرتی ہے اور ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی مؤثر کوشش کرتی ہے، جس میں شخصِ واحد کی حکمرانی کے آٹھ برسوں نے اسے پھنسا دیا ہے تو یہ  دن ایک تاریخی موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔

اس لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ عوام کی راے اور سوچ دراصل ہے کیا۔  یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کی سوچ اور رجحان کا صحیح صحیح تعین کیا جائے اور ان انتخائی نتائج کا گہری نظر سے تجزیہ کرکے اس پیغام کا ٹھیک ٹھیک ادراک کیا جائے جو عوام نے دیا ہے۔ ایک اور پہلو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے، اور وہ یہ کہ انسانی معاملات میں مشیت الٰہی کے بنیادی قوانین کی کارفرمائی ہے۔ انسان اپنی سی کوشش کرتا ہے مگر: ’’اللہ تعالیٰ کی اپنی تدبیر ہوتی ہے اور بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب رہتی ہے‘‘ (اٰل عمرٰن ۳:۵۴)۔ حکمرانوں اور ان کے بیرونی آقائوں نے کیا نقشہ بنایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس نقشے کو درہم برہم کردیا اور ایک دوسرا ہی    نقشہ سب کے سامنے آگیا___ اگر اب بھی یہ قوم اور اس کی قیادت غیبی اشاروں کی روشنی میں نئے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھاتی، ماضی کی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتی اور واضح امکانات کے حصول میں کوتاہی کرتی ہے تو یہ ناقابلِ معافی جرم ہوگا۔

انتخابی نتائج کا تجزیہ

اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ پورا انتخابی عمل (process) پہلے دن سے خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا اور اس کا اعتراف اور ادراک بھی بڑے پیمانے پر ہوچلا تھا۔ عالمی مبصرین ہوں یا حقوقِ انسانی کی ملکی اور غیرملکی تنظیمیں، سب نے اعتراف کیا ہے کہ عدلیہ کی برخاستگی، میڈیا پر پابندیاں، الیکشن کمیشن کا جانب دارانہ کردار، من پسند عبوری حکومت کی تشکیل، ووٹوں کی فہرستوں میں گڑبڑ، انتظامی عملے کا تعین اور تبادلے، مقامی حکومتوں کی کارگزاریاں،  غرض ہرپہلو سے کچھ خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے سارے انتظامات کیے گئے تھے۔ الیکشن کے دن بڑے پیمانے پر کُھل کھیلنے کا پورا پورا اہتمام تھا، مگر مختلف وجوہ سے اس کھیل کے آخری مرحلے میں بازی پلٹ گئی اور چند مقامات (خصوصیت سے کراچی اور بلوچستان وغیرہ میں مخصوص نشستیں) کے سوا نقشہ بدل گیا اور عوام نے اس انداز میں اپنی راے کا اظہار کیا کہ ’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘ والی کیفیت پیدا ہوگئی۔ لیکن ناسپاسی ہوگی اگر ریکارڈ کی خاطر ان اسباب اور عوامل کا تذکرہ نہ کیا جائے جو کھیل کو اُلٹ پلٹ کرنے کا ذریعہ بنے۔

ا- کُل جماعتی جمہوری اتحاد نے جس اصولی موقف کو اختیار کیا اور انتخابی عمل کے ناقابلِ قبول ہونے کی وجہ سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، اس کی وجہ سے انتخابات میں دھاندلی کا ایشو مرکزی حیثیت اختیار کرگیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے بھی اس مسئلے کو اس حد تک اٹھایا کہ دھاندلی کی صورت میں ۱۹فروری سے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ اس دبائو کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔

ب- بیرونی مبصرین اور صحافیوں کی موجودگی اور میڈیا کا فوکس جس میں یہ دبائو روز بہ روز بڑھتا رہا کہ انتخابات کے دن بڑے پیمانے پر دھاندلی ناقابلِ برداشت ہوگی۔ حکومتی، صحافتی اور عوامی سطح پر اس عالمی دبائو نے بھی اپنا اثر ڈالا۔

ج- فوج کے چیف آف اسٹاف کا یہ اعلان کہ انتخابات میں فوج کا کوئی کردار نہیں اور فوج صرف امن و امان میں مدد کے لیے موجود رہے گی۔

د- قواعد میں یہ تبدیلی کہ انتخابی نتائج ریٹرنگ افسر سیاسی نمایندوں کی موجودگی میں مرتب کریں گے اور ان کی تصدیق شدہ کاپی پولنگ اسٹیشن پر ہی امیدوار کے نمایندوں کو دے دی جائے گی، تاکہ انتخابی نتائج کو تبدیل نہ کیا جاسکے۔

ان چاروں عوامل کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ ’انتخابی انجینیری‘ (engineering)اور ’قبل از انتخاب دھاندلی‘ کے باب میں جو کچھ ہونا تھا وہ تو ہوگیا، لیکن انتخابات کے روز دھاندلی میں بیش تر مقامات پر نمایاں فرق پڑا۔

  • چنیدہ دھاندلی تو ضرور ہوئی لیکن پورے انتخابی عمل کو اُلٹ پلٹ کرنے اور پہلے سے طے شدہ نتائج کو مسلط کرنے کا کھیل ناکام ہوگیا۔

عوام کا فیصلہ

دوسرا بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ عوام نے جس راے کا اظہار کیا ہے اور جس شدت سے کیا ہے، وہ کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں، اس پر ہم ذرا تفصیل سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

ملک اور ملک سے باہر اس امر کا اعتراف توسب کر رہے ہیں کہ یہ انتخاب عملاً پرویز مشرف، ان کی حکومت (اعوان و انصار) اور ان کی پالیسیوں کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک کے تمام ہی اخبارات اور نیوز چینلوں نے بالاتفاق اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ قوم کی جس راے کا اظہار گذشتہ ایک سال سے راے عامہ کے جائزوں کی صورت میں ہورہا تھا، انتخابات کے ذریعے عوام نے اس پر مہرتصدیق ثبت کردی اور ثابت ہوگیا کہ ملک کے ۸۲ فی صد عوام نے پرویز مشرف کی صدارت اور ان کا ساتھ دینے والی پارٹیوں کو رد کردیا ہے اور تمام     بے قاعدگیوں، سرکاری سرپرستی اور جزوی دھاندلیوں کے باوجود صرف ۱۸ فی صد آبادی نے    ان لوگوں کی تائید کی ہے جو مشرف صاحب کے ساتھ تھے۔ نیز صدرمشرف کی کابینہ کے ۲۳ وزرا  اورمسلم لیگ (ق) کے صدر سمیت سب کے تاج زمیں بوس کردیے۔ یہ وہ کیفیت ہے جسے حتمی طور پر  مسترد کرنا کہتے ہیں۔

یہی وہ کیفیت ہے جس کا اعتراف نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے الیکشن کے بعد اپنے نمایندوں کی رپورٹوں کے علاوہ اپنے ادارتی کالموں میں بھی کیا ہے کہ یہ عوام کا فیصلہ (verdict )ہے اور مشرف کو نوشتۂ دیوار کو پڑھنے کامشورہ دیا ہے کہ پاکستانی عوام نے ان کے صدارتی مینڈیٹ کو غیرآئینی (illegitmate) قرار دیا ہے: ’’انھوں نے سابق جرنیل کو بھاری اکثریت سے مسترد کرنے کا پیغام دیا ہے‘‘۔

یہی بات انگلستان کے اخبارات خصوصیت سے دی ٹائمز، دی گارجین اور دی انڈی پنڈنٹ نے لکھی۔ ان سب کا پیغام ایک ہی ہے، جسے دی انڈی پنڈنٹ نے ۲۱فروری کے اداریے کے الفاظ میں بیان کیا ہے:

پاکستان کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ کثیرجماعتی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی طرف واپسی ہے۔ پاکستان کے گذشتہ عشرے نے اگر کوئی سبق سکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ آمریت انتہاپسندی کو ختم نہیں کرتی بلکہ اس کونشوونما دیتی ہے۔ فوجی حکومت استحکام کا صرف ایک فریب فراہم کرتی ہے۔ ہمارے مفاد میں ہے کہ یہ پاکستان میں واپس نہ آئے۔ (دی انڈی پنڈنٹ، ۲۱ فروری ۲۰۰۸ئ)

لیکن سب سے دل چسپ تبصرہ روزنامہ نیوزڈے کا ہے جو ریکارڈ پر لانا مفید ہوگا:

پاکستان میں ووٹرز نے اس ہفتے صدر پرویز مشرف کو ایک سراسیمہ کردینے والی شکست سے دوچار کردیا، اور اس طرح اس خطرناک ملک میں جمہوری حکومت کو بحال کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ درحقیقت پیر کے پاکستان کے انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے صدر جارج بش تھے۔ (نیوزڈے، ۲۲فروری ۲۰۰۸ئ)

امریکا اور یورپ کے اخبارات اور سیاسی مبصرین نے اپنے اپنے نقطۂ نظر سے بات کی ہے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نئی چالیں تجویز کی ہیں جو اس تحریر میں زیربحث نہیں، البتہ جو بات ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ الیکشن کے نتائج کو ملک اور ملک سے باہر پرویزمشرف، ان کے سیاسی طرف داروں اور ان کے بین الاقوامی پشتی بانوں اور ان کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں سے پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت کی طرف سے مکمل برأت کا اظہار سمجھا گیا ہے۔ اس نوشتۂ دیوار کے سوا کوئی اور نتیجہ نکالنا عقل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ چودھری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید، چودھری امیرحسین، شیخ رشیداحمد، اعجازالحق بھی کھلے بندوں کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پرویزمشرف کی پالیسیاں خصوصیت سے لال مسجد کا خونی المیہ، امریکا کی اندھی اطاعت، بلوچستان اور وزیرستان کی فوج کشی، آٹے، چینی اور بجلی کا بحران لے ڈوبے۔

ان انتخابات سے صرف ایک ہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے اور وہ وہی ہے جس کا اظہار پاکستانی عوام بار بار عوامی جائزوں کی شکل میں کر رہے تھے کہ:

  • مارچ ۲۰۰۷ء کے بعد سے پرویز مشرف کا نام پاکستان کے آج تک کے حکمرانوں میں سب سے زیادہ نامقبول ترین شخصیت اور عوامی نفرت کی علامت بن گیا ہے، یعنی ایک ایسا حکمران جس سے عوام جلد از جلد نجات چاہتے ہیں اور اس کے اقتدار کو کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہ پرویز مشرف کے دل کا چور ہی تھا جس نے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی وردی میں ایسی اسمبلیوں سے جو اپنی مدت عمر پوری کرچکی تھی اپنا انتخاب کرایا اور جب عدلیہ      سے اس ڈرامے کو خلافِ دستور قرار دیے جانے کا خطرہ نظر آیا تو سپریم کورٹ ہی پر ضرب لگا دی اور عدالت عالیہ کے ۵۳ ججوں کو فارغ کردیا۔ اب عوام نے اس اسمبلی کے ارکان کو رد کر کے صدارتی الیکشن کے سارے کھیل کو ایک فراڈ قرار دے دیا اور اس انتخاب کے ناقابلِ قبول ہونے پر مہرتصدیق ثبت کردی۔
  • پرویزمشرف کی نامقبولیت اور ان سے بیزاری اور نفرت کی وجہ ان کی وہ پالیسیاں   بھی ہیں، جو انھوں نے اپنے زعم میں پاکستان کے ’مفاد‘ میں اور پاکستانی قوم کی نگاہ میں محض اپنے ذاتی مفاد اور امریکا کی غلامی میں اختیار کی ہیں جن میں سرفہرست نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں شرکت ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کی فوج کو جھونک دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں قبائلی علاقوں میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، اور دونوں طرف سے تباہی مچائی جارہی ہے۔ فوج اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور وہ جو قوم کے بازوے شمشیرزن تھے اب  اپنی ہی فوج، سرکاری اداروں اور عام شہریوں کے خلاف خون خرابے میں ملوث نظر آرہے ہیں۔

پرویز مشرف کا ردعمل

پرویز مشرف حقائق کو تسلیم نہ کرنے کی روش پر قائم ہیں اور جس نفسیاتی کیفیت کا مظاہرہ کررہے ہیں،وہ انتہائی خطرناک ہے۔ شاید یہ ان کی شخصیت کا خاصّہ ہے اس لیے کہ اپنی خودنوشت میں اپنے بچپن کا جو نقشہ خود انھوں نے کھینچا ہے، اس میں وہ ایک ’داداگیر‘ کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ انھیں قوت کے جا وبے جا استعمال کا شوق ہے اور اس کھیل کو وہ اپنی حکمت عملی سمجھتے ہیں۔   ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دوسروں کی تحقیر و تضحیک میں ان کو لطف آتا ہے۔ ان کے اس ذہن کی عکاسی اس انٹرویو تک میں دیکھی جاسکتی ہے جو الیکشن سے صرف تین دن پہلے انھوں نے جمائما خان کو دیا ہے اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی اصل شخصیت کو سمجھنے میں مددگار ہے۔ اس انٹرویو میں    وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جن سیاسی لیڈروں کو وہ کرپٹ اور قوم کو لوٹنے والا کہتے تھے اور جن پر گرفت اور ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کا دعویٰ کرکے وہ اقتدار پر قابض ہوئے تھے، ان کو    معافی دینے، ان سے سمجھوتہ کرنے اور ان کے ساتھ اشتراکِ اقتدار کے لیے وہ آمادہ ہوئے تھے اور یہ صرف انھوں نے امریکا اور برطانیہ کے دبائو میں اور صرف اپنی کرسی کو بچانے کے لیے کیا ہے۔

اس انٹرویو میں انھوں نے مسلم لیگ (ق) اور  ایم کیو ایم کے بارے میں اس اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ اگلی حکومت وہ بنائیں گے اور ساتھ ہی انھوں نے راے عامہ کے سارے جائزوں کا مذاق اڑایا تھا اور پورے میڈیا کی راے پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ یہ بھی فرمایا کہ یہ سب میرے مخالف ہیں۔ اگر کوئی ان کا دوست ہے اور ان کے خلاف نہیں وہ مغربی اقوام کے لیڈر ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے، جمائما لکھتی ہیں:

درحقیقت ان کے مطابق جو لوگ ان کے مخالف نہیں ہیں، وہ صرف مغربی لیڈر ہیں جو مکمل طور پر ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد بھی پرویزمشرف کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں اور نہ انھیں اپنی ناکامی کا کوئی احساس ہے۔ اب بھی وہ امریکا کی بیساکھیوں کی تلاش میں ہیں، جس کا بین ثبوت وہ مضمون ہے جو موصوف نے امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے۔ اس مختصر مضمون کو پڑھ کر سرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ اس مظلوم ملک کے حکمرانوں کی سوچ کی سطح کس قدر پست ہے۔

مضمون کا عنوان ہے: A Milestone on The Road to Democracy لیکن اس مضمون میں انتخابات کا جو پیغام خود حضرت کے لیے ہے اس کا کوئی شعور اور احساس ہی نہیں بلکہ اس ہٹ دھرمی کا اظہار ہے کہ وہ صدر رہیں گے اور اپنے تین مقاصد، یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ، جمہوریت کے استحکام اورمعاشی ترقی کے تحفظ کا پھر اعادہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

میں ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے نئی منتخب حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔

 اس مضمون کا اصل مقصد امریکا کی تائید حاصل کرنا اور اپنے اور امریکا کے مقاصد کی    ہم آہنگی کا اظہار ہے:’’لیکن ہماری کامیابی کے لیے ضروری ہوگا کہ امریکا کی مسلسل حمایت  حاصل رہے‘‘۔

نہ کوئی خود احتسابی ہے، نہ عوام کے فیصلے کا کوئی احساس یا شعور ہے، نہ اپنی ناکامیوں کا کوئی ادراک ہے اور جس بیرونی مداخلت، قومی حاکمیت اور غیرت کی قربانی کے خلاف قوم اُٹھ کھڑی ہوئی اسی غلامی کو مستحکم کرنے اور اس میں امریکا کی مدد حاصل کرنے کی بھیک اس مضمون میں مانگی گئی ہے۔ خود فوج کے بارے میں ایک جملہ ایسا ہے جو ان کے ذہن کا غماض ہے:

ہماری مسلح افواج پُرعزم ہیں، پیشہ ور ہیں اور ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور سیاسی نظام کو برقرار رکھنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔

افواجِ پاکستان کی ذمہ داری، وطن کا دفاع اور امن عامہ کے قیام میں اس وقت   معاونت ہے کہ جب دستور کے تحت سیاسی قیادت اس کو طلب کرے۔ سیاسی نظام کا تحفظ نہ فوج کی ذمہ داری ہے اور نہ فوج اس کی اہل ہے، بلکہ وہ تو سیاست میں کسی صورت میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کرتی ہے، اس کی محافظ کیسے ہوسکتی ہے لیکن پرویز مشرف آج بھی اسے سیاسی نظام کا ضامن قرار دے رہے ہیں۔

اس مضمون کا مرکزی موضوع بھی وہی ہے جو امریکی صدر بش کا پسندیدہ مضمون ہے، یعنی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ۔ حالانکہ پاکستان کا اصل مسئلہ فوج کی بے جا مداخلت، شخصی حکمرانی کا عفریت، انصاف کا فقدان، عدالت پر جرنیلی یلغار، معاشی ناانصافی، غربت،   بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔ علاقائی ناہمواریاں اور مرکز اور صوبوں میں تصادم کی کیفیت اور  فوجی قوت کا اپنی ہی آبادی کے خلاف استعمال ہے۔ الیکشن کا اصل ایشو اور حاصل مشرف بش کے ایجنڈے کو مسترد کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نیوزڈے نے ادارتی کالم میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۸فروری کے انتخابات میں صدر پرویز مشرف ہی نہیں جارج بش بھی شکست کھا گئے ہیں۔

انتخابی نتائج کا تقاضا

اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے اور انتخابات کے نتائج کا تقاضا ہے کہ پرویز مشرف اپنی شکست تسلیم کریں اور سیدھے سیدھے استعفا دیں۔ نیز ان کی جن پالیسیوں کے خلاف عوام نے اپنے فیصلے کا اظہار کر دیا ہے ان پر بھی بنیادی طور پر نظرثانی ہو، جس میں اہم ترین یہ ہیں:

۱- پاکستانی عوام شخصی آمریت اور سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف ہیں اور وہ حقیقی جمہوری نظام کے قیام کے داعی اور طرف دار ہیں۔ پرویز مشرف نے جو طرزِ حکمرانی اختیار کیا وہ ناقابلِ قبول ہے۔ مشرف کے ساتھ ان کا دیا ہوا نظام، پالیسیاں اور ان کا اندازِ کار عوام نے رد کردیا ہے۔آئی آر آئی اور گیلپ دونوں کے سروے بھی عوام کے اس رجحان کے عکاس ہیں، یعنی ۶۹ فی صد نے کہا کہ سیاست میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور ۷۵ فی صد نے کہا کہ مشرف استعفا دے دیں۔

۲- الیکشن میں بنیادی ایشو چیف جسٹس اور عدالت عالیہ کی بحالی اور نظامِ عدل کو اس کی اصل دستوری بنیادوں پر مرتب اور مستحکم کرنا ہے۔ یہ تحریک ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو شروع ہوئی ہے اور ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کو قوم نے اس تحریک کی تائید کرکے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ ہمیں یہ بات کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ جن جماعتوں کو عوام نے جتنا بھی مینڈیٹ دیا ہے، وہ بنیادی طور پر عدلیہ کی آزادی اور بحالی کے حق میں اور پرویز مشرف کے خلاف ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے حق میں تائیدی لہر کی اصل کارساز قوت یہی ہے ___ ایک مغربی صحافی نے درست لکھا ہے کہ: ’’اصل ووٹنگ تو دو ناموں پر ہوئی ہے، حالانکہ وہ بیلٹ پیپر پر لکھے ہوئے نہیں تھے۔ لیکن اصل انتخاب انھی کے درمیان تھا، یعنی ’چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری‘ اور ’صدر پرویز مشرف‘۔ عوام کی بھاری اکثریت نے جسٹس افتخارمحمد چودھری کی تائید کی اور پرویزمشرف کا پتا. ّ کاٹ دیا‘‘۔ یوں عدالت کی بحالی اور آزادی ہی اس بحث کا اصل عنوان ہے اور دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی اس کا اصل مقصد اور محور ہے۔

۳- تیسرا بنیادی ایشو جو ان انتخابات میں زیربحث آیا ہے اس کا تعلق اس شرمناک صورتِ حال سے ہے جو امریکا کی بالادستی اور ملک پر کھلی اور خفی مداخلت سے پیدا ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے اب ہماری آزادی اور حاکمیت ہی خطرے میں ہے۔ چند بلین ڈالروں کے عوض پاکستانی افواج کو عملاً امریکا کے لیے کرائے کا لشکر (mercenary) بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کی   نام نہاد جنگ میں ہم نے اپنے کو آلودہ کرلیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمارے اپنے ملک میں دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے حالانکہ اس جنگ میں شرکت سے پہلے یہ کوئی مسئلہ نہ تھا۔    راے عامہ کے ایک عالمی ادارے کے جائزے کی رو سے عوام کی نگاہ میں اہم ترین مسئلہ مہنگائی   اور بے روزگاری ہے۔ ۵۵ فی صد افراد مہنگائی کو اور ۱۵ فی صد بے روزگاری کو اصل مسئلہ قرار دیتے ہیں، جب کہ تمام زوردار پروپیگنڈے کے باوجود دہشت گردی کو صرف ۱۲ فی صد نے اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے۔

تفصیل میں جائے بغیر ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب امریکا کا عمل دخل ہماری پالیسی سازی، ہماری سرحدوں کی بے حرمتی، ہماری سرزمین کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے اور پاکستان کی قیادت کی تلاش اور سیاسی جوڑ توڑ کی سرگرمیوں تک میں ہے۔ ان انتخابی نتائج نے پرویز مشرف کے اس غلامانہ رویے، خوف اور دبائو کے تحت رونما ہونے والے دروبست کو تبدیل کرنے اور پوری خارجہ پالیسی کو درست سمت دینے کا پیغام دیا ہے۔ اس انتخاب کے ذریعے عوام نے پوری قوت کے ساتھ پاکستانی قوم کے امریکی جنگ کا حصہ بننے سے اپنی براء ت کا اعلان کردیا ہے۔ پاکستانی عوام یہ چاہتے ہیں کہ اپنے مسائل کو اپنی اقدار اور روایات کے مطابق حل کریں اور دوسروں کی جنگ میں حرام موت مرنے کا راستہ اختیار نہ کریں۔

۴- قوم پرویز مشرف اور ان کی معاشی ٹیم کی مسلط کردہ معاشی پالیسیوں سے بھی نالاں ہے۔ نمایشی ترقی اور اس کے ڈھول پیٹنے سے کچھ عرصے تک تو عوام کو دھوکا دیا جاسکتا ہے، لیکن جب مغرب کے سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات اور مفادات پر مبنی پالیسیوں کے تلخ نتائج  لوگوں کے سامنے آتے ہیں تو پھر پروپیگنڈے کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ توانائی کا میدان ہو یا زرعی پیداوار کا، صنعت و حرفت کا مسئلہ ہو یا تجارتی اور ادایگی کے توازن کا، ضروریاتِ زندگی کی فراہمی  کا مسئلہ ہو یا اشیاے ضرورت کی قیمتوں کا، قرضوں کا بوجھ ہو یا افراطِ زر کے مسائل، دولت کی   عدمِ مساوات کی بات ہو یا صوبوں اور علاقوں کے درمیان تفاوت کی کش مکش___ غرض ہر پہلو سے عام آدمی کی معاشی مشکلات بڑھ گئی ہیں، کم نہیں ہوئیں اور جن ’کارناموں‘ کا شور تھا وہ سب ایک ایک کر کے پادر ہوا ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اب ملک پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کا بار ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور غربت کم ہونے کو نہیں آرہی۔ تجارتی خسارہ اب ۱۸ ارب ڈالر سالانہ کی حدوں کو چھو رہا ہے اور  جن بیرونی ذخائر کی دھوم تھی اب ان کے لالے پڑگئے ہیں۔

۵- بھارت کے تعلقات کا ڈھول تو بہت پیٹا گیا مگر حاصل کچھ نہیں ہوا، البتہ قیمت بہت بڑی ادا کی گئی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اصولی موقف کی تبدیلی کے نتیجے میں کشمیری عوام مایوس ہوئے ہیں اور تحریکِ مزاحمت کمزور پڑگئی ہے۔ مشرف کی افغانستان کی پالیسی بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔ اسرائیل سے دوستی کے اشارے اور اُمت مسلمہ کے مسائل سے بے توجہی اس دور کا شعار رہی ہے۔ جس طرح امریکا سے تعلقات کے مسئلے اور خارجہ پالیسی پر قوم نے نظرثانی اور بنیادی تبدیلیوں کی خواہش کا اظہار کیا ہے اسی طرح خارجہ سیاست کے دوسرے پہلو بھی نظرثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کی وحدت ہی پاکستان اور تمام مسلم ممالک کی قوت ہے۔

۶- نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر ایک طرف قوم میں نظریاتی کش مکش اور تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف دینی احکام، اقدار اور آداب سے روگردانی، سیکولرزم کے فروغ کی کوشش اور مغربی تہذیب و ثقافت اور ہندوکلچر کو عام کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے، جس سے معاشرے میں تہذیبی انتشار رونما ہوا ہے۔

۷-  صوبائی حقوق کی پامالی، صوبوں کو ان وسائل سے محروم رکھنا جو ان کا حق اور ان میں پائے جانے والے معاشی ذخائر کا حاصل ہیں، نیز علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ جماعتوں اور گروہوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے جن کا سب سے بڑا نقصان ملک میں  مرکز اور صوبوں کے درمیان فاصلوں کا بڑھنا ہے۔

یہ وہ سات بڑے بڑے پالیسی ایشوز ہیں، جن پر انتخابات میں قوم نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے اور اب سیاسی قیادت کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف کی دی ہوئی پالیسیوں کو کس طرح تبدیل کریں، تاکہ ملک و قوم ان مقاصد کی طرف پیش رفت کرسکیں جن کے قیام کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔

انتخابی نتائج کا بنیادی پیغام تو یہی ہے البتہ ان بنیادی پہلوئوں کے ساتھ ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ جہاں عوام نے پرویزمشرف، ان کے ساتھیوں، ان کے بیرونی سرپرستوں اور ان کی ملکی پالیسیوں کو رد کیا ہے ، وہاں انھوں نے کسی ایک سیاسی جماعت کو حکمرانی کا مکمل اختیار (مینڈیٹ) نہیں دیا، بلکہ دو بڑی جماعتوں کو اس طرح کامیاب کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کے بغیر مستحکم سیاسی دروبست قائم نہیں کرسکتیں۔ ہماری نگاہ میں اس کی حکمت یہ ہے کہ عوام نے ان جماعتوں کے منشور کی اس طرح تائید نہیں کی جس طرح عام سیاسی ماحول میں کسی ایک رخ کو متعین کیا جاتا ہے۔ اس منقسم اختیار (split mandate) کا تقاضا یہ ہے کہ تمام جماعتیں مل کر پہلے اس بگاڑ کی اصلاح کریں، جو پچھلے آٹھ برسوں میں واقع ہوا ہے۔اس کے ساتھ منشوروں کے مشترک نکات پر کام ہو، تاکہ بنیادی آئینی اصلاحات کے بعد پھر قوم کی طرف رجوع ممکن ہو تاکہ وہ سیاسی پارٹیوں کو ان کی پالیسیوں کی روشنی میں حکمرانی کا نیا مینڈیٹ دے سکیں۔

یہ ایک عبوری دور ہے، اور اس دور میں زیادہ سے زیادہ قومی مفاہمت پیدا کرنے اور مشترکات کے حصول کو اصل ہدف بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس منقسم حق حکمرانی سے عوام کی راے کا یہی رخ ظاہر ہوتا ہے۔ مشرف دور کی بدانتظامی، بے اعتدالی اور لاقانونیت کی اصلاح اور مستقبل میں منصفانہ اور غیرجانب دارانہ انتخابات کے نظام کا قیام اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ اسی طرح دستور کی روشنی میں فوج کے صرف دفاعی کردار کو مستحکم بنانا اور خارجہ پالیسی کی ملّی اُمنگوں کے مطابق تشکیل نو ہے۔اس ایجنڈے پر عمل کرنے میں نئی اسمبلیوں اور سیاسی قیادت کا اصل امتحان ہے۔ ہماری توقع اور دعا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے دونوں بڑی پارٹیاں اصل توجہ ان ترجیحات پر دیں گی جو عوام کے اس مینڈیٹ کا حاصل ہیں۔ خود ان کو بھی اس کا کچھ ادراک ہے جس کا اظہار میثاقِ جمہوریت کی متعدد دفعات سے ہوتا ہے۔ نئی قیادت کی اصل ذمہ داری ملک میں عدلیہ کی بحالی، دستوری نظام کے قیام، آزادیوں کے تحفظ اور فیصلہ سازی میں پارلیمنٹ اور عوام کی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ اسی میں ان کا امتحان ہے اور جو وقت ان کو حاصل ہے وہ بھی کم ہے۔

اے پی ڈی ایم کی حکمت عملی اور اثرات

ان انتخابی نتائج کے حصول میں عوام، تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے اس کا اعتراف اور ادراک ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کُل جماعتی جمہوری اتحاد (APDM) نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان جماعتوں نے اصولی بنیادوں پر انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اور اسمبلیوں میں اپنی نشستوں کی قربانی دے کر جو قومی خدمت انجام دی ہے اس کا اظہار اور اعتراف ضروری ہے۔

  • پہلی چیز یہ ہے کہ بائیکاٹ کی اس مہم کی وجہ سے ملک اور ملک کے باہر ۱۸فروری کے انتخابات میں دھاندلی کے منصوبے اور پروگرام کا پردہ چاک ہوا۔ جن جماعتوںنے حصہ لیا انھوں نے بھی اسے ایشو بنایا اور اعلان کیا کہ اگر حکمرانوں نے اپنی پسند کے نتائج قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کی تو اس کے بڑے خطرناک نتائج ہیں۔ اس مہم نے دھاندلیوں کے لیے سدِجارحیت (deterrent ) کا کام کیا اور اس طرح جس کھیل کی پوری تیاری کی گئی تھی اور کہیں کہیں وہ ہاتھ  کی صفائی دکھائی بھی گئی مگر جس پیمانے پر خطرہ اور پروگرام تھا وہ نہیں ہوسکا۔ یوں انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے روکنے میں ایک اہم رول اس بائیکاٹ کی تحریک کا ہے جو خود ایک بڑی قومی خدمت ہے۔
  • بائیکاٹ کی تحریک کا دوسرا اور سب سے اہم نتیجہ یہ ہوا کہ ملکی سیاست اور انتخابات کا ایجنڈا تبدیل ہوگیا۔ پارٹیوں کے منشوروں کے بجاے اصل مسئلہ پرویزی آمریت اور حقیقی جمہوریت میں انتخاب کا بن گیا۔ عدلیہ کی آزادی اور ۲نومبر کی پوزیشن میں اس کی بحالی سب سے ضروری موضوع قرار پایا۔ جو جدوجہد چیف جسٹس نے ۹مارچ ۲۰۰۷ء کے پُرعزم فیصلے، وکلابرادری اور سول سوسائٹی کی ملک گیر جدوجہد سے شروع ہوئی تھی، وہ الیکشن کا اصل موضوع اور فیصلہ کن سوال بن گئی۔ بائیکاٹ کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ عدلیہ کی اپنی اصل شکل میں بحالی، دستور کی بالادستی اور الیکشن کمیشن کی خودمختاری کا اہتمام ہو۔ انتخابات میں عوام نے یک آواز ہوکر جس چیز کے حق میں ووٹ دیا وہ عدلیہ کی بحالی، فوج کی سیاست سے دُوری، شخصی آمریت کا خاتمہ اور انتخابی عمل کی شفافیت ہے۔ بائیکاٹ کی مہم نے سیاسی بحث کو زبان اور موضوع دیا اور قوم نے یکسوئی کے ساتھ اس پر اپنا واضح فیصلہ دے دیا، گویا    ؎

ہم نے جو طرز فغاں کی تھی قفس میں ایجاد

فیض، گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھیری ہے

  • بائیکاٹ کی مہم کا تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ قومی اور علاقائی جماعتیں باہم شیروشکر ہوکر   اصولی بنیادوں پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئی ہیں، اور ان کے درمیان فکری ہم آہنگی اور یگانگت کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ وہ قیادت جس کی حب الوطنی پر شبہہ کیا جاتا تھا، وہ پشتینی حب وطن کا دعویٰ کرنے والوں سے بھی آگے نکل گئی اور ۱۹۷۳ء کے دستور اور مرکز اور صوبوں میں انصاف اور ادایگی حقوق کی بنیاد پر اشتراکِ عمل کی بنیادیں مستحکم ہوئیں۔ محمودخان اچکزئی، قاضی حسین احمد، عمران خان، ڈاکٹر عبدالحی بلوچ، ڈاکٹر قادرمگسی، عابد حسن منٹو ایڈووکیٹ اور دوسرے رہنمائوں نے ملک کے طول و عرض میں ایک ہی زبان میں گفتگو کی اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری اور وفاقی پاکستان کو مستحکم کرنے کی دعوت عام دی۔ سیاست میں ایک تیسری فورس جو اصول اور انصاف کی علَم بردار ہو، پوری قوت سے روپذیر ہوئی اور جو انھی مقاصد کے حصول کی جدوجہد جاری رکھنے اور نئی قیادت کو بائیکاٹ اور انتخاب میں شرکت کرنے والی جماعتوں کے مشترک ایجنڈے پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کرنے کی خدمت انجام دے رہی ہے۔ انتخاب کے بعد اے پی ڈی ایم کی قیادت نے ایک جملے میں سیاست کے رنگ کی اس تبدیلی کا اعلان کردیا ہے کہ جن مقاصد کے لیے ہم نے بائیکاٹ کیا اور آپ نے الیکشن میں شرکت کا دعویٰ کیا اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ان مشترک مقاصد کے لیے جدوجہد کریں اور ان کے حصول کو یقینی بنائیں، اور اگر الیکشن میں حصہ لینے والے اس معیار پر پورے نہیں اُترتے تو وہ بھی قوم کے احتساب کے لیے تیار رہیں۔

ملک کی سیاست میں اصولوں کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد اور اشتراکِ عمل کی یہ ایک زریں مثال قائم ہوئی ہے، جس سے ہماری سیاست پر مستقل اور دُور رس اثرات مرتب ہوںگے۔

لادینی قوتوں کی کامیابی کا بے بنیاد دعویٰ

یہاں ہم ایک مسئلے پر مزید کلام کرنا چاہتے ہیں، جس کا تعلق اس سطحی بحث سے ہے جو ملک کے نام نہاد، لبرل اہلِ قلم اور خصوصیت سے بیرون ملک صحافی اور تھنک ٹینک کر رہے ہیں،  اور وہ یہ کہ: ’’ان انتخابات میں دینی قوتوں کو شکست ہوئی ہے اور لبرل اور سیکولر جماعتیں نئی طاقت کے ساتھ اُبھری ہیں‘‘۔ یہ ساری بحث ایک خاص سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جارہی ہے اور   زمینی حقائق کو یکسرنظرانداز کرکے مفیدمطلب نتائج نکالے جارہے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی جماعت نے سیکولرزم کواپنے منشور میں بطور ہدف کے پیش نہیں کیا۔ سب نے پاکستان کے دستور پر حلف لیا ہے اور اس دستور کی بالادستی قائم کرنے کو اپنا اولین ہدف قرار دیا ہے اور یہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور ہے۔ قرارداد مقاصد اس کا دیباچہ ہی نہیں، ایک قابلِ نفاذ (operational ) حصہ ہے۔ دستور میں اس ریاست کا ہدف قرآن وسنت کی بالادستی اور اسلام کے دیے ہوئے احکام و اقدار کے مطابق نظامِ حکومت کو چلانا قرار دیا گیا ہے اور یہی ریاست کے بنیادی اصولِ حکمرانی قرار پائے ہیں۔ بلاشبہہ ہرجماعت کا حق ہے کہ اس اسلامی فریم ورک میں اپنی سوچ کے مطابق اپنی ترجیحات اوران کے حصول کے لیے پروگرام کا اعلان کرے۔ لیکن اسے سیکولرزم اور لبرلزم اور اسلام کے درمیان انتخاب کی شکل دینا صرف خلط مبحث ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور کا بھی پہلا نکتہ یہی ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اسلامی نظریۂ حیات ہی کو اپنا مقصد قرار دیا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ووٹ ملنے سے محض لبرلزم اور سیکولرزم کی فتح اور دینی قوتوں کی شکست ہے، کیسے درست ہوسکتا ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ اگر کوئی چیز مسترد ہوئی ہے تو وہ پرویز مشرف اور ان کی جماعت مسلم لیگ (ق) ہے، جو روشن خیالی اور نام نہاد ’جدیدیت‘ کی خودساختہ علَم بردار تھی۔     یہ عجیب دعویٰ ہے کہ پرویزمشرف کو تو قوم نے ردکردیا مگر ان کے لبرلزم اور روشن خیالی کو رد نہیں کیا،   یہ تضاد نہیں تو کیا ہے؟

تیسری بات یہ ہے کہ دین اور دنیا اور مذہب اور سیاست کے رشتے کے اسلامی تصور اور مغربی تصور کو گڈمڈ کیا جا رہا ہے۔ مغرب کے لبرلزم میں الہامی ہدایت اور مذہبی اقدار واحکام کا تعلق فرد کی ذاتی زندگی سے ہے اور اجتماعی زندگی میں اس کا کوئی رول نہیں، جب کہ اسلام انسان کی پوری زندگی کو الہامی ہدایت کی روشنی سے منور کرتا ہے۔ شریعت کے معنی محض مغربی اصطلاح میں قانون کے نہیں، جس کے نفاذ کا انحصار ریاست کی قوت قاہرہ پر ہوتا ہے، بلکہ وہ پوری زندگی کے لیے ہدایت پر مشتمل ہے۔ وہ شریعت جو عقیدہ اور عبادات کے ساتھ انفرادی، خاندانی، اجتماعی، سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی زندگی کے لیے بھی رہنمائی دیتی ہے۔ اس رہنمائی کے بڑے حصے پر عمل فرد اور معاشرہ کسی ریاستی قوت کے استعمال کے بغیر کرتا ہے، تاہم اس شریعت کا ایک حصہ    وہ بھی ہے جس کے لیے ریاستی قوت اور عدالت کا نظام کام کرتا ہے۔ مسلمان پوری دنیا میں    اپنے مذہب اور دین کو زندگی میں مرکزی اہمیت دیتے ہیں اور اپنی اجتماعی زندگی کو بھی شریعت کے نور سے منور کرنا چاہتے ہیں۔

راے عامہ کے وہی جائزے جو سیاسی پسند و ناپسند کے بارے میں ہوا کے رخ کو ظاہر کرتے ہیں، وہی زندگی کے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہیں جن کا خلاصہ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب Voice of the People 2006 میں دیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں ۸۴ فی صد اپنے کو مذہبی قرار دیتے ہیں۔ گیلپ ہی نے اپنے ایک دوسرے سروے میں Gallup World Poll: Special Report on Muslim World  کی سیریز میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ان کے سروے کے مطابق آبادی کے ۴۱ فی صد نے یہ کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ شریعت ملکی قانون کا واحد سرچشمہ(only source) ہو، جب کہ مزید ۲۷فی صد نے کہا ہے کہ شریعت کو ایک سرچشمہ (one of the sources) ہونا چاہیے، اور شریعت کو قانونی ماخذ کے طور پر ضروری نہ سمجھنے والوں کی تعداد صرف ۶فی صد ہے۔ سروے کے مصنف لکھتے ہیں:

ہمارے مطالعے سے ظاہر ہونے والا ایک سب سے زیادہ واضح امر وہ غیرمعمولی اہمیت ہے جو مسلمان اپنے دین کو دیتے ہیں۔ اپنی ذاتی رہنمائی کے لیے بھی اور بحیثیت مجموعی معاشرے کی ترقی کے لیے بھی۔ اس سے بھی زیادہ (ہمارے لیے تعجب انگیز بات یہ تھی کہ) مسلمان خواتین اس بات سے متفق نظرآتی ہیں کہ پبلک پالیسی اسلامی اصولوں کی رہنمائی میں طے ہونا چاہیے۔

یہ ہیں اصل زمینی حقائق___ اور اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ مذہبی ووٹ اور مذہبی جماعتوں کا ووٹ ایک چیز نہیں۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت زندگی کے اجتماعی معاملات بشمول قانون، دین کی رہنمائی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اس حقیقت پر انتخابی نتائج کی سیاسی تقسیم سے پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔

چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے ووٹ کے بارے میں بھی جو دعوے کیے جاتے ہیں، وہ مناسب تحقیق کے بغیر اور تمام ضروری معلومات کو حاصل کیے بغیر کیے جاتے ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ماضی میں دینی جماعتوں کو ۲ سے ۵ فی صد تک ووٹ ملتا تھا حالانکہ یہ صریحاً    غلط بیانی ہے۔ مثلاً ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں تین دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹ کُل ووٹوں کا تقریباً ۱۵ فی صد تھے۔ کراچی میں ۱۹۷۰ء میں مذہبی جماعتوں کا کُل ووٹ ۴۵ فی صد تھا۔ صوبہ سرحد میں دینی جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب ۱۹۷۰ء میں ۳۳ فی صد تھا۔ ۱۹۸۸ء ۱۹۹۰ء میں صرف جمعیت علماے اسلام نے شرکت کی تھی، جب کہ جماعت اسلامی آئی جے آئی کا حصہ تھے۔ تب صرف جمعیت علماے اسلام کے ووٹ ۱۹۸۸ء میں ۱۱ فی صد اور ۱۹۹۰ء میں ۲۰ فی صد تھے۔ ۱۹۹۳ء میں کُل ووٹ جو دینی جماعتوں نے حاصل کیے ۲۴ فی صد تھے، جو ۲۰۰۲ء میں متحدہ مجلس عمل کی صورت میں کُل صوبے کے ووٹوں کا ۴۵ فی صد تھا۔ (ملاحظہ ہو، گیلپ پاکستان کی رپورٹ، The Story of 8 Elections and the Calculus of Electoral Politics in Pakistan During 1970-2008)

کُل پاکستانی سطح پر یہ تناسب نکالنے میں مختلف دقتیں ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق اس حقیقت سے بھی ہے، کہ دوسری بڑی جماعتیں پاکستان کی بیش تر نشستوں پر امیدوار کھڑے کرتی ہیں، جب کہ دینی جماعتوںنے بالعموم ایک محدود تعداد میں امیدوار کھڑے کیے ہیں اور اس طرح پورے ملک میں ان کا ووٹ اس انتخابی گنتی میں شامل نہیں ہوپاتا۔

پانچویں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے شرکت نہیں کی۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ عوام نے اس کو ووٹ نہیں دیے۔ عملاً متحدہ مجلس عمل  کی صرف ایک جماعت، یعنی جمعیت علماے اسلام (ف)نے حصہ لیا، اور بلاشبہہ اسے ۲۰۰۲ء بلکہ اس سے پہلے کے ادوار کے مقابلے میں بھی کم ووٹ ملے۔ مگر اس کی بڑی وجہ من جملہ دوسری وجوہ کے یہ ہے کہ راے دہندگان نے جے یو آئی (ف) کو مشرف انتظامیہ سے منسلک سمجھا اور اسے مشرف کے بلوچستان آپریشن اور اکبربگٹی کے قتل پر اس کی طرف سے کسی بڑے عملی اقدام سے احتراز، نیز اسمبلیوں سے استعفے، سرحداسمبلی کے تحلیل کرنے میں تاخیر،  بلوچستان میں ق لیگ کے ساتھ شرکت اقتدار وغیرہ کی وجہ سے پرویز مشرف سے قرب کی قیمت اداکرنا پڑی۔ بلاشبہہ اس نے بائیکاٹ میں شرکت نہ کرکے یہ نقصان اٹھایا، اور اس کی الیکشن میں شرکت کا رشتہ برسرِاقتدار قوتوں (establishment) سے اس کے تعلق سے جوڑا گیا۔ حقیقت جو بھی ہو لیکن عملاً دوسری وجوہ کے ساتھ اسے زیادہ نقصان اس مسخ شدہ تصور کے باعث ہوا۔ تمام اہم سیاسی تجزیہ نگار اس پہلو کا کھلے بندوں اظہار کر رہے ہیں۔ مثلاً معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی، ایم ایم اے کی حکومت کی ناکامی کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

ایم ایم اے کی صفوں میں غیرمعمولی انتشار کی وجہ سے بھی بہت سے لوگوں میں مایوسی کی کیفیت تھی۔ راے دہندگان صدر جنرل مشرف کے تمام اتحادیوں کو سزا دینا چاہتے تھے اور ایم ایم اے کو بھی کچھ سبق سکھایا، کیونکہ انھوں نے ان دستوری ترامیم کو آسان بنانے میں کردار ادا کیا جن سے فوجی آمر کو نجات ملی اور اس کے تمام افعال کو تحفظ ملا۔     اس کے ایک حصے جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ (دی نیوز ، ’نیوفرنٹیئر‘ رحیم اللہ یوسف زئی، ۲۴ فروری ۲۰۰۸ئ، اسپیشل رپورٹ، ص ۳۳)

رحیم اللہ یوسف زئی دی نیوز میں اپنے ایک دوسرے مضمون میں اس بات کا دوٹوک انداز میں یوں اظہار کرتے ہیں:

ایم ایم اے جو درحقیقت جماعت اسلامی کے انتخابات سے بائیکاٹ کے بعد صرف مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) ہوکر رہ گئی تھی، اسے مشرف کا ساتھ دینے اور اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں وعدوں کو پورا نہ کرنے پر سزا دی گئی ہے۔ (دی نیوز، ۲۳ فروری ۲۰۰۸ئ)

پروفیسر محمد وسیم ڈان میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

جے یو آئی (ف) کو مشرف کی بالواسطہ تائید کی وجہ سے عوامی راے دہندگان کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کے متنازع کردار اور صدارتی انتخاب سے پہلے ۶اکتوبر ۲۰۰۷ء کو سرحداسمبلی کی تحلیل کے مسئلے کی وجہ سے اسے ووٹوں اور عوام میں اپنے مقام کے حوالے سے مہنگی قیمت ادا کرنا پڑی۔ (ڈان، ۲۴ فروری ۲۰۰۸ئ)

یہ صرف چند تبصرہ نگاروں کی راے نہیں، عام تاثر اور ووٹروں کی بڑی تعداد کا یہی احساس تھا اور لفظی تاویلوں اورقانونی موشگافیوں سے اسے فرو نہیں کیا جاسکتا۔

ان حالات میں جے یو آئی (ف) کے ووٹوں اور سیٹوں کی کمی کو دینی جماعتوں سے نااُمیدی، اور ان کے صفایا کے دعوے کرنا، حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ویسے بھی انتخابی سیاست میں مختلف انتخابات میں ووٹوں میں زیادتی اور کمی سے ہرجماعت کو گزرنا پڑتا ہے اور کسی ایک انتخاب کی بنیاد پر ایسا فتویٰ دینے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ خود پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کا ووٹ بنک ۱۹۷۰ء میں ۳۹ فی صد تھا جو ۱۹۹۷ء میں ۲۲ فی صد رہ گیا تھا۔ اسی طرح تمام مسلم لیگوں کا مجموعی ووٹ بنک ۱۹۷۰ء میں صرف ۲۳ فی صد تھا جو  ۱۹۹۷ء میں ۴۶ فی صد تک پہنچ گیا تھا۔ اے این پی ہر انتخاب میں ایسے ہی نشیب و فراز کا تجربہ کرتی رہی ہے۔دنیا کے دوسرے ممالک کے تجربات بھی اس سے مختلف نہیں۔ اس لیے کسی ایک انتخاب کی بنیاد پر اس طرح کے فتوے دینا علمی اعتبار سے بہت کمزور بات ہے۔

بات صرف جے یو آئی (ف) کے اس امیج اور اس کے نقصانات ہی کی نہیں۔ جہاں بھی ووٹرز نے عدلیہ کے معاملے میں اور پرویز مشرف کے لیے نرم گوشے کا احساس پایا ہے ضرور سزا  دی ہے۔ مشہور قانون دان بابر ستار دی نیوز میں اپنے ایک مضمون میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وکلا کے بائیکاٹ کا احترام نہ کرنے والے وکلا کا کیا انجام ہوا،لکھتے ہیں کہ جب خود پی پی پی  کے ایم این اے زمردخاں نے جو چیف جسٹس کی تحریک میں پیش پیش تھے اور اعتزاز احسن کے ساتھ چیف جسٹس کی گاڑی کے ڈرائیور تک کی خدمت انجام دے رہے تھے وکلا کے فیصلے کے خلاف انتخاب میں شرکت کی تو وہ قومی اسمبلی پر اپنی سیٹ باقی نہ رکھ سکے (دی نیوز، ۲۳ فروری ۲۰۰۸ئ)۔ اس عوامی رو کو جو نہ سمجھ سکا اسے اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔

قیادت کا امتحان اورجھد مسلسل

آخر میں ہم یہ صاف لفظوں میں کہنا چاہتے ہیں کہ اس وقت ملک کی پوری سیاسی قیادت کا امتحان ہے اور اے پی ڈی ایم کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح اس نے قربانی دے کر ملک کی سیاست کو صحیح ایشوز سے روشناس کرایا ہے، اسی طرح نئے حالات میں ان اہداف و مقاصد کو  حاصل کرنے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیار کرے۔ اگر نومنتخب جماعتیں ان مقاصد کے لیے کام کرنے کی نیت اور جذبہ دکھاتی ہیں تو تمام دینی اور سیاسی قوتوں کو ان سے تعاون اور ان مقاصد کے حصول کو آسان بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اگر مناسب موقع دینے کے بعد بھی یہ اس سلسلے میں پس و پیش دکھاتی ہیں تو پھر ان کی ذمہ داری ہے کہ پُرامن جمہوری   اور عوامی دبائو کے ذریعے انھیں عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنے پر مجبور کریں۔ ججوں، وکلا،   سول سوسائٹی اور سیاسی کارکن سب کا ہدف اور منزل ایک ہے اور وہ حقیقی جمہوریت کا قیام ہے جس کے مقاصد یہ ہونے چاہییں:

  • ۲ نومبر ۲۰۰۷ء کی عدلیہ کی بحالی
  • پی سی اور اور ایمرجنسی کے نام پر دستور کا جو تیاپانچا کیا گیا،اس کی بحالی
  • پارلیمنٹ کی بالادستی کا قیام
  • فوج کی مداخلت کے راستوں کی بندش
  •  بنیادی حقوق اور خصوصیت سے اظہار راے کی آزادی کا تحفظ
  •  معاشی پالیسیوں میں تبدیلی
  •   فوجی کارروائیوں کا خاتمہ اور مذاکرات کے ذریعے تشدد کا حل
  •  پارلیمنٹ میں مکمل بحث کی روشنی میں خارجہ پالیسی کی تشکیل جدید۔

۱۸ فروری کے انتخابات میں قوم نے ایک لڑائی میں فتح پائی ہے، مگر یہ جدوجہد ابھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک جمہوریت کی مکمل بحالی اور دستور کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مؤثر پیش رفت نہیں ہوتی۔ ۱۸فروری کے نتائج نے ایک نئی صبح کے طلوع کے امکانات کو روشن کردیا ہے لیکن یہ صبح اسی وقت ہماری قومی زندگی کو روشن کرسکے گی جب اس کے استقبال کے لیے قوم اس طرح کوشش نہ کرے جس طرح ۹مارچ ۲۰۰۷ء سے رات کی تاریکی کو  ختم کرنے کے لیے کرر ہی ہے۔ ابھی منزل کی طرف صرف ایک قدم اٹھایا گیا ہے۔ منزل ابھی  دُور ہے اور مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کی دعوت دے رہی ہے۔ فرد ہو یا قوم جدوجہد اور سعی مسلسل کے بغیر وہ اپنی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔

وَاَنْ لَّـیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَـا سَعٰیo وَاَنَّ سَـعْیَہُ سَوْفَ یُـرٰیo          (النجم ۵۳: ۳۹-۴۰) اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اُس نے سعی کی ہے، اور یہ کہ اُس کی سعی عنقریب دیکھی جائے گی۔