صدرمملکت عبداللہ گل کی اہلیہ ہوں، وزیراعظم طیب اردوگان کی صاحبزادیاں ہوں، منتخب رکن پارلیمنٹ مروہ قاوقچی ہوں یا دیگر کروڑوں ترک خواتین، کسی کو بھی یہ اجازت نہیں کہ وہ تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر یا سرکاری تقریبات میں جاتے ہوئے سر ڈھانپ سکیں۔ چہرے کا پردہ نہیں صرف سر اور گردن کو دوپٹے یا اسکارف سے ڈھانپ لینا ہی اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی پاداش میں ہزاروں طالبات کو حصولِ تعلیم سے محروم کیا جاچکا ہے۔ وزیراعظم اردوگان کے لیے بھی ممکن نہیں ہوسکا کہ اپنی دو بیٹیوں کے سر ڈھانپ کر کالج میں داخلہ دلوا سکیں۔ ہاں، اگر کوئی خاتون اپنا لباس مختصر کرنا چاہے تواس پر کوئی قدغن نہیں، اسے ایسا کرنے سے روکنے والے بنیاد پرست، تاریک خیال اور سیکولر ریاست دشمن قرار پائیں گے۔ خلافت اسلامی کے آخری امین، ۹۹ فی صد مسلم آبادی پر مشتمل ترکی کے درودیوار سیکڑوں ایسے مناظر کے گواہ ہیں کہ سر ڈھانپے نوجوان بچیوں کو دھکے مار کر تعلیمی اداروں سے نکالا جا رہا ہے۔ یہ بھی ہوا کہ طالبات اپنے اس ایمان کے باعث کہ حجاب امرخداوندی ہے، سر، گردن اور سینے پر باوقار اسکارف اوڑھ کر آئیں، لیکن اپنی مادر علمی کی دہلیز پر آنسو بہاتے ہوئے اسکارف نوچ کر بیگ میں چھپا لیا کہ ایسا نہ کیا تو حصولِ علم سے محروم کردی جائیں گی۔
پردے کے مخالفین میں ایک عجیب تضاد پایا جاتا ہے، جس معاشرے میں پردہ کرنا، نہ کرنے سے زیادہ آسان ہو، وہاں یہ ’فلسفہ‘ رواج دیا جاتا ہے کہ یہ تو انسان کا ذاتی مسئلہ ہے کوئی دوسرا کیسے اسے اس بارے میں کچھ کہہ سکتا ہے، بندہ جانے اور اس کا رب جانے یا پھر یہ کہ یہ تو معمولی اور چھوٹی سی بات ہے، اس کا بتنگڑ کیوں بناتے ہو… وغیرہ لیکن ترکی جیسے معاشرے میں کہاجاتا ہے: پردہ ایک مخصوص عقیدے کی علامت ہے، پردہ بنیاد پرستی کی نشانی ہے، پردہ رجعت پسندی کی طرف لے جاتا ہے، پردہ ترقی پسندی اور روشن خیالی کے منافی ہے، پردہ دہشت گردی کی انتہاتک لے جاتا ہے۔ ترکی ہی نہیں تیونس، تاجکستان اور ازبکستان جیسے کئی مسلمان ملکوں میں، جہاں بھی اسلام پسندی کے خلاف سرکاری محاذ آرائی عروج پر ہوتی ہے، سب سے پہلا نشانہ پردے ہی کو بنایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں سے صرف فرانس ایسا ملک ہے جہاں تعلیمی اداروں یا سرکاری دفاتر میں اسکارف اوڑھ کر جانا قانوناً ممنوع ہے۔ جرمنی نے بھی اس راہ پر قدم اٹھائے ہیں، اس کے ۱۲ صوبوں میں سے سات میں اسکارف پر پابندی ہے۔ اسپین میں عام انتخابات ہونے والے ہیں، انتخابی مہم میں اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی نے اعلان کیا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوگئی تو تعلیمی اداروں میں اسکارف پر پابندی لگا دے گی۔
ترک عوام اور بالخصوص خواتین نے ان پابندیوںاور جبر سے نجات کی ہرممکن کوشش کی، لیکن روشن خیالی اور سیکولر ریاست کو بنیاد بناکر ان تمام کوششوں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ صدآفریں کہ خواتین نے اپنے حق اور اپنی کوششوں سے دست برداری قبول نہیں کی۔ لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر مظاہرے کیے، تعلیمی اداروںاور سرکاری ملازمتوں سے باہر آتے ہی خود کو اسکارف کی زینت سے آراستہ کیے رکھا۔ عرصے تک ایک انوکھا مظاہرہ یہ بھی کیا کہ ہراتوار کی صبح فجر کی نماز استنبول میں واقع صحابی رسولؐ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر سے ملحق مسجد اور میدان میں ادا کی۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلم خواتین اپنے کنبوں سمیت منہ اندھیرے آتیں اور آس پاس کی تمام سڑکیں رب کے حضور سجدہ ریز، اللہ کی ان بندیوں سے بھر جاتیں۔
۲۰۰۲ء میں انصاف و ترقی پارٹی بھاری اکثریت سے برسرِاقتدار آئی تو اس نے وعدہ کیا کہ وہ حجاب سے پابندی ختم کردے گی، کیونکہ یہ پابندی خود سیکولرزم کے ان دعووں کے بھی منافی ہے جن میں ہر شخص کو اپنے لباس اور عقیدے کی آزادی دینے کی بات کی جاتی ہے۔ لیکن سعی کے باوجود یہ پابندی ختم نہیں کی جاسکی۔ صدارتی انتخابات کا مرحلہ آیا تو عبداللہ گل پر سب سے بڑااعتراض ہی ان کی اہلیہ کا باحجاب ہونا تھا۔ اعتراض اور معرکہ یہاں تک پہنچا کہ کئی بار پولنگ کے بعد بالآخر اسمبلی برخاست ہوگئی۔ دوبارہ عام انتخابات بھی ’انصاف و ترقی‘ کی جیت پر منتج ہوئے تو صدارتی معرکے میں پھر حجاب ہی کو اصل وجہ نزاع بنانے کی کوشش کی گئی۔ عوامی تائید کی لہر کے سامنے مخالفین کی ایک نہ چلی اور باحجاب خاتونِ اول ایوانِ صدر کی زینت بن گئیں۔ اس سے قبل جب ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی کی طرف سے مروہ قاوقچی رکن اسمبلی منتخب ہوئی تھیں تو مخالفین کے منع کرنے کے باوجود وہ اسکارف سمیت ایوان میں داخل ہوگئیں، آسمان سر پر اُٹھالیا گیا، دہائیاں دی گئیں کہ اتاترک کی روح کو گھائل کردیا گیا، بالآخر مروہ کو اسمبلی چھوڑنا پڑی۔
اب ایک ایک کر کے اتاترک کی باقیات السیئات سے نجات مل رہی ہے۔ ۷فروری کو اسی پارلیمنٹ میں ایک دستوری ترمیم پیش کی گئی جس میں براہِ راست تو حجاب یا اسکارف کا کوئی ذکر نہیں تھا لیکن اصل ہدف حجاب کی بتدریج بحالی ہی تھا۔ عمومی تصور یہ ہے کہ ترکی دستور حجاب پر کوئی براہِ راست ممانعت عائد کرتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں درحقیقت ۱۹۲۶ء میں جاری قانونِ ہیئت کی ایک شق کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اتاترک نے اس قانون کے ذریعے ہر مردوزن پر مغربی لباس فرض کردیا تھا تاکہ ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت دیا جاسکے۔ اس ضمن میں خواتین کو پابند کردیا گیا کہ وہ سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں لمبااسکرٹ اور شرٹ پہنا کریں۔ا گرچہ اس میں یہ نہیں کہاگیا تھا کہ سرڈھانپنے کی اجازت نہیں ہوگی لیکن عملاً ایسا ہی کیا جاتا رہا۔ ۱۹۸۰ء کے فوجی انقلاب کے بعد ترک یونی ورسٹیوں کے سربراہوں نے مل کر ایک فیصلہ جاری کردیا کہ آیندہ کوئی طالبہ یونی ورسٹی کی عمارت میں اسکارف لے کر نہیں آسکے گی، تب سے یہ معرکہ اپنے عروج پر جاپہنچا۔ کئی شہروں میں ہنگامے ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں طالبات و خواتین کو جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ کئی طالبات اور ان کے خاندان ترکی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ایک تنہا خاتون ہدی کایا اپنی تین بچیوں اور ایک صاحبزادے سمیت پاکستان آکر بھی رہیں۔ تقریباً ایک سال قیام کے بعد واپس گئیں تو جاتے ہی پھر گرفتار ہوگئیں، مقدمہ چلا اور سب کو کئی سال کی سزا بھگتنا پڑی۔ جرم صرف یہی تھا کہ نہ تو یونی ورسٹی میں حجاب اُتارنے پر راضی تھیں اور نہ تعلیم سے محروم رہنے پر تیار ، بلکہ اس پر احتجاج کرتی تھیں۔ پھر ۱۹۹۷ء میں صدر سلیمان ڈیمرل نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے صراحت کے ساتھ تعلیمی اور سرکاری اداروں میں اسکارف لینے پر پابندی عائد کردی۔
فروری کو پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی دستوری ترمیم میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ ’’کوئی شخص یا ادارہ کسی ایسی بنیاد پر کسی کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روک سکے گا کہ جس کا ذکر ترک دستور میں نہیں ہے‘‘۔ اس ترمیم پر ۹فروری کو ووٹنگ ہوئی تو ۵۵۰ کے ایوان میں سے ۴۰۳ ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ دستوری ترمیم کے لیے ۳۶۷ ووٹ درکار تھے لیکن ’قومی تحریک پارٹی‘ نامی ایک سیکولر جماعت نے بھی اردوگان کی پارٹی کا ساتھ دیا۔ ایک سیکولر جماعت کا حجاب کی راہ سے رکاوٹیں ختم کرنے میں ساتھ دینا سب کے لیے حیرت کا باعث بنا۔ تجزیہ نگار اس فیصلے کی توجیہہ یہ کر رہے ہیں کہ ’قومی تحریک پارٹی‘نے عوامی تائید حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا ہے۔ سیکولر جماعتوں نے یہ ترمیم سامنے آنے پر ۱۷شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر اس کے خلاف مظاہرے کیے، لیکن یہ بات سب جانتے تھے کہ اب ترمیم کا راستہ روکنا کسی کے بس میں نہیں۔ ’قومی تحریک‘ نے فیصلہ کیا کہ حجاب کے حق میں بڑھتی ہوئی عوامی لہرسے اپنا حصہ حاصل کیا جائے۔ دوسری اور زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ ترکی کی سیکولر پارٹیوںنے جان لیا ہے کہ ’انصاف و ترقی‘ کی مخالفت اس کی مزید شہرت و تقویت کا باعث بنتی رہی ہے۔ اب کوئی اور راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ قومی تحریک پارٹی کے نائب صدر ٹوسکای نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم نے انصاف و ترقی کی اس دستوری ترمیم کا ساتھ اس لیے دیا ہے تاکہ اسے اس سے زیادہ حسّاس اور اہم ترامیم سے روکا جاسکے۔ واضح رہے کہ انصاف و ترقی آیندہ برس ترکی کے نئے دستور کا مسودہ پیش کرکے اس پر عوامی ریفرنڈم کروانا چاہتی ہے۔
۹فروری ۲۰۰۸ء کو اسمبلی سے منظوری کے دو ہفتے کے اندر اندر اس پر صدر جمہوریہ کی منظوری درکار تھی۔ صدر یہ منظوری دو ہفتے کے دوران کسی بھی وقت دے سکتا تھا لیکن انھوں نے آخری روز، یعنی ۲۳فروری کو دستخط کیے اور یہ ترمیم دستور کا حصہ بن گئی۔ تحمل اور صبر کا یہ رویہ بھی انصاف پارٹی کی حکمت عملی کا ایک تعارف کرواتا ہے۔ حالیہ ترمیم سے صرف یونی ورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی طالبات پر سے پابندی ختم ہوئی ہے، تعلیم کے تمام ابتدائی مراحل میں ابھی یہ پابندی باقی ہے اور یونی ورسٹیوں کی اساتذہ و ملازمین بھی اسکارف لے کر یونی ورسٹی نہیں آسکتیں۔ دیگر سرکاری اداروں میں بھی یہ پابندی بدستور باقی ہے لیکن یہ ایک آغاز ہے اور اتاترک کی راہ پر چلنے والوں کے لیے انتہائی تہلکہ خیز آغاز۔
اب اصل سوال ترک فوج اوردستوری عدالت کا ہے۔ فوج کے سربراہ نے تو یہ بیان دے کر فی الحال خاموشی اختیار کرلی ہے کہ ’’پردے کے بارے میں فوج کا موقف معلوم و معروف ہے، اسے بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں‘‘۔ لیکن دستوری عدالت کا موقف فی الحال مجہول بھی ہے اور خطرناک بھی۔ اس کا فیصلہ ناقابلِ اپیل اور حتمی ہوتا ہے اور اس پر کٹڑ اسلام دشمن سیکولر حاوی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال یہ ہے کہ بھرپور عوامی رو کو دیکھتے ہوئے دستوری عدالت بھی خاموش رہنے ہی میں عافیت سمجھے گی۔ عدالت کو بھی یہ خدشہ ہے کہ اگر اس جزوی ترمیم کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو کہیں اردوگان فوراً ہی نئے دستور کا مسودہ ریفرنڈم کے لیے پیش نہ کردیں کہ جس میں خود دستوری عدالت کا کردار بھی محدود کرنا پیش نظر ہے۔ ترکی میں گذشتہ پون صدی سے جاری سیاسی و ثقافتی کش مکش اب حسّاس دور میں داخل ہوگئی ہے۔ عوام کی بھرپور اکثریت اسلامی شعائر کا احترام کرنے پر زور دے رہی ہے۔ حالیہ دستوری ترامیم کے بارے میں جب سروے کروایا گیا تو ۷۰ فی صد عوام نے اس کے حق میں رائے دی۔ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ یہ حمایت کسی عمومی معاشرتی ماحول یا وراثتی روایات کی بنیاد پر مبنی نہیں ہے۔ اسکارف کی حمایت کرنے والوں میں سے ۶۱ فی صد نے بتایا کہ وہ اس لیے حمایت کر رہے ہیں کہ اسلام حجاب کا حکم دیتا ہے۔
وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ،(الصف ۶۱:۸) اللہ اپنا نور مکمل کرکے رہے گا خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔