مارچ ۲۰۰۸

فہرست مضامین

ڈاکٹرشجاعت علی برنی ؒ

روشن غنی | مارچ ۲۰۰۸ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

جمعرات ۷ فروری ۲۰۰۸ء کا سورج طلوع ہوا تو طائف کی بلندیوں پر چمکنے والے   اُس سورج کو بھی اپنے ساتھ لے گیا جس نے قرآن و سنت سے اکتسابِ نور کیا تھا اور جو اِس  نور کو لے کر دنیا کے اُفق اُفق پر طلوع ہوتا اور روشنیوں کی بارش برساتا تھا۔ کتنے ہی دل تھے  جن میں اُس نے اپنی کرنوں کی حدت سے ایمان کی جوت جگا دی تھی اور کتنے ہی دماغ تھے   جن میں اُس نے علم و عرفاں کی قندیلیں روشن کی تھیں۔ کسے پتا تھا کہ یہ سورج یوں اچانک  کہیں جاکر چھپ جائے گا اور طائف کی چوٹیوں کو خیرباد کہہ کر جنت المعلٰی میں جا ڈوبے گا___ انا للّٰہ وانا اِلیہ رٰجعُون

سورج بن کر زندگی گزارنے والے یہ داعی الی اللہ ڈاکٹر شجاعت علی برنی تھے۔ پاکستان سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ امراضِ نفسیات کی اختصاصی تعلیم امریکا سے حاصل کی اور پھر وہیں پریکٹس بھی کرنے لگے۔ بیوی بچے تھے، اپنا مکان تھا اور پریکٹس بھی کامیاب تھی۔ لیکن اُن کی نظر  تو اِس مادی دنیا سے آگے بڑھ کر آخرت کی کامیابیوں کی متلاشی تھی۔ اس لیے جب اُن کے  بچے ذرا بڑے ہوئے تو اُنھیں اُن کی تعلیم و تربیت کی فکر ہوئی اور انھوں نے یہ تہیہ کرلیا کہ وہ انھیں امریکا کے ماحول میںنہیں رہنے دیں گے، بلکہ کسی مسلمان ملک میں جاکر رہیں گے تاکہ بچے مسلمانوں کے ماحول میں پروان چڑھ سکیں۔ اب چونکہ وطن عزیز کے علاوہ کسی اور مسلمان ملک میں جانے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا، اس لیے اُنھوں نے پاکستان واپسی کا پروگرام بنالیا۔ اُن کے دوستوں کو پتاچلا تو اُنھوں نے انھیںسمجھانا شروع کیااور مخلصانہ نصیحت کی کہ امریکا چھوڑ کر نہ جائیں۔ یہاں آپ کا اپنا مکان ہے، کلینک ہے اور اب آپ کے کمانے کے دن ہیں۔ رہی بچوں کی تعلیم و تربیت تو اُس کے لیے یہاں سے بہتر انتظام اور کہاں ہوسکتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی نظر جو کچھ دیکھ رہی تھی ،اُن کے دوستوں کی نظر وہ کچھ دیکھنے سے قاصر تھی۔ اسی اثنا میں جب وہ پاکستان آنے کی تیاری کر رہے تھے، ایک دن کلینک جاتے ہوئے گاڑی میں ریڈیو پر سعودی عرب کے حوالے سے کچھ سنا، کلینک پہنچ کر رابطے کے لیے بتائے گئے نمبر پر فون کیا اور پھر مزید اطمینان کے لیے اُن کے پاس گئے___ تقریباً ۳۰ ہزار سعودی ریال ماہانہ تنخواہ کی پیش کش کی گئی تھی۔ لیکن آپ نے اُسے فوراً قبول کرنے کے بجاے اپنے بھائی ڈاکٹر فرحت علی برنی سے مشورہ کرنے کے لیے فون کیا جو کنگ عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ میں پڑھاتے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ لگتا ہے کوئی دھوکا ہے۔ اس لیے کہ اتنی بڑی تنخواہ تو یہاں بڑے بڑے لوگوں کی بھی نہیں ہے، لہٰذا آپ ابھی دستخط نہ کریں۔ دو تین دن کے بعد جب ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ فون کیا تو اُن کے بھائی نے بتایا کہ میں نے پتا کیا ہے، دھوکے کی کوئی بات نہیں ہے۔ طائف میں ایک فوجی ہسپتال کے لیے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، آپ فوراً دستخط کیجیے اور تشریف لے آیئے۔ اس طرح آپ کی نیت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ایک مسلمان ملک میں آپ کے لیے رہنے کاانتظام کردیا، بلکہ مکہ مکرمہ کے قریب طائف کے تاریخی شہر کوآپ کا مسکن بنایا  اور وہاں کے بہترین ہسپتال الہدیٰ میں آپ کواپنی خدمات انجام دینے کا موقع دیا۔

ڈاکٹر صاحب نے صرف اِسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں یا پھر ہسپتال میں دکھی انسانیت کے امراض کا علاج کر کے اُس کے چہرے پر مسکراہٹوں کے پھول کھلا دیں، بلکہ اُنھوں نے انسانیت کی روحانی تسکین کا سامان ضروری سمجھا۔ انسانیت کی اصل خدمت اُن کی نظر میں یہی تھی کہ اُسے خدا سے ملا دیا جائے اور اُسے رحمۃ للعالمین محمدمصطفی    صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھائے ہوئے راستے پر گامزن کردیا جائے۔ آپ نے اس کے لیے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ کبھی تحریر و تقریر سے کام لیا، تو کبھی گفتگوئوں اور ملاقاتوں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اُترنے کی کوشش کی۔ پھر آپ کی یہ کاوشیں صرف ایک مقام تک ہی محدود نہ رہیں، بلکہ جہاں جہاں تک آپ پہنچ سکتے تھے، پہنچے اور بندگیِ رب کی دعوت دیتے ہوئے بندگانِ خدا کے دلوں کو سوزوگداز سے آشنا کیا۔

عام طور پر لوگ تقریروں کے ذریعے ہی دعوت کا کام کرتے ہیں مگر آپ نے اس مقصد کے لیے پروجیکٹر کی مدد سے ورکشاپوں کا انعقاد بھی کیا، بلکہ اس طریقۂ دعوت و تربیت کو سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے درمیان آپ ہی نے متعارف کرایا۔ آپ کا یہ پروگرام انتہائی مؤثر ہوا کرتا تھا۔ موضوعات ایسے ہوتے جو وقت کی ضرورت ہوتے تھے۔ الفاظ ایسے ہوتے جو دل میں اُتر جاتے تھے۔ الفاظ کی ادایگی اس جذبے کے ساتھ ہوتی کہ جو کچھ آپ کہتے تھے، اس پر صرف دماغ ہی نہیں، دل بھی لبیک کہتا تھا، اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ جو کچھ آپ پیش کرتے تھے قرآن و سنت کی سند سے پیش کرتے تھے۔ آپ کے دلائل قرآن کی آیتیں اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہوتی تھیں۔ پروگرام سے پہلے اور بعد جو وقت ہوتا تھا اس میں آپ شرکا کے ساتھ اس طرح گھل مل جاتے تھے جیسے برسوں سے جان پہچان ہو۔

خاکساری، انکساری اور تواضع میں اپنی مثال آپ تھے۔ میں نے آپ کو غریب، مزدور اور اَن پڑھ لوگوں کے ساتھ فرش پر اس طرح بیٹھے ہوئے اور اُن کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ جیسے وہ آپ کے دفتر کے ساتھی ہوں۔

آپ نے اتنا وسیع ظرف پایا تھا کہ علم وعمل میں آپ سے کم تر درجے کا شخص بھی اگر کبھی آپ کی کسی بات پر اعتراض کرتا تھا یا دینی حوالے سے آپ کی معلومات میں کوئی اضافہ کرنا چاہتا تھا تو اُس کی بات نہ صرف یہ کہ خوشی سے سنتے، بلکہ اِس طرح اُس کے ممنونِ احسان ہوتے   کہ جیسے پہلی بار آپ کے علم میں یہ بات آئی ہو حالانکہ آپ اُس بات کو اُس کی پوری جزئیات کے ساتھ پہلے سے جانتے ہوتے تھے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ ہر کام میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہو۔ اس لیے کسی بھی کام کے بارے میں اگر آپ کو پتا چلتا کہ یہ سنت کے مطابق نہیں ہے تو اُسے فوری طور پر چھوڑنے میں آپ کو کوئی تامل نہیں ہوتاتھا۔ دعوتِ دین کے سلسلے میں بھی وہ یہ کہتے تھے کہ  رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اس لحاظ سے بھرپور اور عمیق مطالعہ کرنا چاہیے۔ خود مجھ سے اُنھوں نے ایک دفعہ کہا کہ سیرت پر بے شمار کتابیں لکھی جانے کے باوجود اِس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی آپؐ کی زندگی کا نئے سرے سے مطالعہ کرے اور آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے وہ لعل و گہر ڈھونڈ کر لائے کہ جن کی وجہ سے ۲۳ سال کی قلیل مدت میں آپؐ  نے دنیا کا سب سے بڑا انقلاب برپا کردیا تھا۔

جب بھی ڈاکٹر صاحب یاد آتے ہیں، محترم خرم مرادؒ کی یہ بات یاد آتی ہے کہ دنیا میں بے شمار خوب صورت چیزیں ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک دل موہ لینے والے نظارے ہیں۔    بل کھاتے دریا، گنگناتی ندیاں اور اُچھلتی آبشاریں ہیں۔ برف پوش چوٹیاں اور گُل پوش وادیاں ہیں اور ٹھنڈے میٹھے پانی کے اُبلتے چشمے اور بہتے جھرنے ہیں۔ لیکن اِن ساری خوب صورت چیزوں میں سب سے خوب صورت چیز اگر کوئی ہوسکتی ہے تووہ ایک اچھا انسان ہے۔ میرے خیال میں محترم ڈاکٹر شجاعت علی برنی پر یہ بات ۱۰۰ فی صد صادق آتی ہے۔ آخر ایسا کیوں نہ لگتا، وہ خوش مزاج بھی تھے اور باوقار بھی، فعال اور متحرک بھی تھے اور صاحبِ فہم و فراست بھی، طبیعت میں تفنن بھی تھا اور کردار کی پختگی بھی، باتوں میں پھولوں کی خوشبو بھی تھی اور شبنم کی ٹھنڈک بھی، ایمان کی حدت بھی تھی اور جذبوں کی فراوانی بھی___ اُن کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی، سکون ملتا تھا، تحریک پیدا ہوتی تھی اور ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔

میں اُن کی کس کس بات کو یاد کروں۔ ایک دفعہ ایک پروگرام میں ساتھیوں کو کھانا کھلانے کی سعادت میں مَیں بھی دوسرے کچھ ساتھیوں کے ساتھ شریک تھا اور اپنی اس سعادت پر پھولے نہیں سما رہا تھا کہ دُور دُور سے ساتھی جمع ہوئے ہیں اور اُن کی خدمت کا موقع میسر آیا ہے۔ اِس خوشی کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا چاق و چوبند بھی محسوس کر رہا تھا حالانکہ اس سے   پہلے میں کچھ غیرفعال سا ہوگیا تھا اور کم ہمتی کا شکار تھا۔ سوچتا تھا کہ کچھ کرنے کاوقت شاید گزر گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے میری خوشی اورفعالیت کو محسوس کیا اور کھانے کے بعد جب مل کر بیٹھے تو کہنے لگے کہ میں سوچ رہا تھا کہ یہ نوجوان کون ہے، جو اِس قدر مستعد اور متحرک ہوکر خدمت میں لگا ہوا ہے۔ اُنھوں نے کچھ اِس انداز سے یہ جملہ کہا کہ مجھے یوں لگا کہ شاید میں واقعی پھر سے زندہ ہوگیا ہوں، حالانکہ اس سے پہلے بطور نصیحت لمبی لمبی گفتگوئیں سن چکاتھا لیکن کسی گفتگوکا    وہ اثر نہیں ہوا تھا جو اُن کے اِس ایک جملے کا ہوا۔

اُن کی فعالیت کا یہ عالم تھا کہ پہلی ملاقات میں اُن کو جس قدر مستعد، چاق و چوبند اور فعال دیکھا تھا آخری وقت تک وہ اسی طرح فعال رہے، بلکہ ابھی چند دن پہلے جب اُن سے فون پر بات ہوئی تو اُن کی آواز اتنی جان دار تھی کہ فوراً اُس کے پیچھے اُن کی متحرک شخصیت نظر آنے لگی۔ اُن کی بلندہمتی اور مستعدی کا اندازہ آپ اس سے لگایئے کہ اُن کے قریب رہنے اور اُن سے بے شمار ملاقاتوں کے باوجود مجھے یہ پتا نہ چل سکا کہ اُن کو دل کی تکلیف ہے۔ اُنھوں نے کبھی نہ بزبانِ قال یہ ضرورت سمجھی کہ اپنی تکلیف کے بارے میں ہمیں بتائیں اور نہ کبھی اُن کے حال سے یہ ظاہر ہوسکا کہ اُنھیں کوئی پریشانی بھی ہے۔ وہ ہروقت جس طرح کمربستہ، چاق و چوبند اور مستعد رہتے تھے، اُس سے نہ یہ خیال آتا تھا کہ اُن کو کسی بیماری کی شکایت ہوگی اور نہ یہ خیال آتا تھا کہ اُن کی اتنی عمر ہوگی۔ اُنھوں نے ۷۲سال کی عمر پائی لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ       وہ بوڑھے تھے۔ اس لیے کہ اُن کے کسی کام میں بھی بڑھاپا پن نظر نہیں آتا تھا۔ میں نے اُن کو اِس حالت میں بھی پروگرام کنڈکٹ کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ براہِ راست ڈیوٹی کرکے پروگرام میں تشریف لائے ہیں، لیکن اُن کے چہرے پر نہ تھکاوٹ کے کوئی آثار ہیں اور نہ پژمردگی کا کوئی احساس بلکہ ہمیشہ کی طرح تروتازہ، مستعد اور چاق و چوبند ہی نظر آتے۔

یوں تو ہزاروں لوگوں کو اُنھوں نے متاثر کیا ہے لیکن میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اُن سے زیادہ ملنے، سننے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ میرے غریب خانے کو کئی دفعہ اُن کی قدم بوسی کا اعزاز حاصل ہوا ہے اور میرے دل نے اپنے نہاں خانے میں اُن کی کتنی ہی یادیں اور کتنی ہی خوب صورت تصویریں محفوظ کی ہیں جن کو الفاظ کا جامہ پہنانا میرے اس دل فگار لیکن تہی دست قلم کے بس کی بات نہیں۔ کسی کے الفاظ مستعار لے کر صرف اتنا کہتا ہوں کہ    ؎

حاصل رہا ہے مجھ کو ملاقات کا شرف

مٹی کا اِک چراغ تھا سورج سے فیض یاب

یہ سوچ کر دکھ ضرور ہوتا ہے کہ اب وہ اِس دنیا میں نہیں رہے، اور اُن سے اِس     ارضِ فانی پر دوبارہ ملاقات نہیں ہوسکے گی، لیکن دعوتِ دین کا کام کرتے ہوئے تو جگہ جگہ    اُن سے ملاقات ہوگی، قدم قدم پر اُن کی یادیں رہنمائی کریں گی اور ہر سنگِ میل پر اُن کا سراپا مثال بن کر سامنے آئے گا۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کسی نے کہا ہے    ؎

النَّاسُ صِنفَانِ مَوتٰی فِی حَیَاتِھِم

وَآخَرُونَ بِبَطْنِ الْاَرْضِ اَحْیَائُ

یعنی لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو اپنی زندگی میں بھی مُردہ ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو مر کر بھی زندہ رہتے ہیں___ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں، اُن کے خیالوں میں زندہ رہتے ہیں، اُن کی باتوں اور گفتگوئوں میں زندہ رہتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُن کے ہرہر عمل میں زندہ رہتے ہیں۔