مارچ ۲۰۰۸

فہرست مضامین

اسلام اور جمہوریت فکری اور عصری جھت

پروفیسر خورشید احمد | مارچ ۲۰۰۸ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

(دوسری اور آخری قسط)

مغربی جمھوریت اور اسلامی شوریٰ : ایک موازنہ

مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں بہتر ہوگا کہ دونوںنظاموں کے درمیان بعض بنیادی اختلافات کا تعین کر لیا جائے اور ایسے مشترکہ امور کی بھی نشان دہی کر لی جائے جن میں ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

اسلام کی حکمت عملی بے مثال ہے۔ اسلام انسان کو، اس کے روحانی اور اخلاقی وجود اورشخصیت کو مرکز بناتا ہے۔ ہر فرد کی، روحانی بالیدگی، اخلاقی ترقی اور سعادت کی زندگی ہی   اسلامی نظام کا اصل مقصد ہے۔ تبدیلی کا عمل کسی فرد کے اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی داخلی سطح پر شروع ہوتا ہے۔ اس کا آغاز ایک فرد میں اخلاقی حس بیدار ہونے سے ہوتا ہے جو ایک باکردار اور منصفانہ معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ مسلم اُمّہ ایک عالم گیر برادری ہے۔ اسی وسیع تر اُمّہ میں چھوٹے گروپ، بستیاں اور ریاستیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اس کے باوجود وہ سب ایک ہی تسبیح کے دانے ہیں۔ اسلام ایک ایسے مہذب معاشرے کی تعمیر کرتا ہے، جو صحت مند اور فعّال اداروں سے عبارت ہوتا ہے۔ ریاست انھی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہ نہایت اہم اور کئی اعتبار سے دوسرے سب اداروں سے بلند تر ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اسلام میں سب سے بالا ادارہ اُمت مسلمہ کا ہے، اورباقی سب ادارے ہر ہر مسلمان (فرد) کی تقویت کے ساتھ اُمت مسلمہ کے استحکام کے ستون ہیں۔

اسلامی معاشرے کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی اصولوں میں مکمل ہم آہنگی ہوتی ہے اور یہ سب مل کر ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کرتے ہیں جو نظریاتی سطح پر توحید و ایمان، اتباعِ سنت، فکری یگانگت اور عدل و احسان کے حسین امتزاج کا مظہر ہوتا ہے۔ یہ معاشرہ انسانی مساوات، اخوت، باہمی تعاون، سماجی ذمہ داری، انصاف اور سب کے لیے مساوی مواقع کی روایات کے خمیر سے تعمیر کیا جاتا ہے۔ یہ قانون کا پابند معاشرہ ہوتا ہے جس میں ہررکن کے حقوق اور فرائض کا احترام کیا جاتا ہے جن میں اقلیتوں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں۔ ریاست کا مقصد معاشرے کے ہر رکن کی خدمت اور انسانوں کے درمیان عدل کا قیام ہے۔ اسلامی معاشرے میں آمریت اور استبدادی مطلق العنان حکومت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

اسلامی ریاست سیکولر جمہوریت سے بالکل مختلف ہوتی ہے، کیونکہ اسلامی ریاست عوام کے اقتدارِ اعلیٰ کا نظریہ تسلیم نہیں کرتی۔ مسلم ریاست میں اللہ تعالیٰ ہی قانون ساز ہے اور شریعت ہی ریاست کا قانون ہے۔ جو بھی نئے نئے مسائل درپیش ہوں، ان سے نمٹنے کے لیے شریعت کے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے حل دریافت کیے جاتے ہیں۔ یہ بات سیکولر جمہوریت اور مسلم ریاست کے درمیان سب سے بڑا اختلاف ہے۔

جہاں تک قانون کی حکمرانی کے اصول، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، عدلیہ کی آزادی، اقلیتوں کے حقوق، ریاست کی پالیسیوں اور حکمرانوں کے عوام کی خواہش کے مطابق انتخاب کا تعلق ہے، اسلام اپنے دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے ان سب امور کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ان میں سے بعض امور کے متعلق اسلام اور مغربی جمہوریت کے درمیان بعض مشترک بنیادیں موجود ہیں اور ان تمام میدانوں میں مسلمان اپنے معاصر مغربی ممالک کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی مسلمانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن دونوںنظاموں کے قوانین کے منابع اور فطرت میں چونکہ بنیادی اختلاف ہے، لہٰذا ان اساسی امور میں دونوں نظام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور اپنا جداگانہ تشخص اور مزاج رکھتے ہیں۔

اسلامی ریاست میں شریعت کو بالادستی حاصل ہے۔ اس کے باوجود یہ کوئی مذہبی حکومت نہیں ہوتی، جیسی کہ تاریخ میں مذکور فرعونوں، بابلیوں، یہودیوں، مسیحیوں، ہندوئوں یا بودھوں کی حکومتیں گزرچکی ہیں۔

ان مذہبی حکومتوں اور اسلامی حکومت میں بنیادی فرق ہے۔ یہ مذہبی حکومتیں اگرچہ  ’خدائی حکومت‘ کی دعوے دار تھیں، لیکن وہ ’خدائی حکومت‘ ایک مخصوص مذہبی طبقے کی حکومت ہوتی تھی،جس کے حکمران کا ہر لفظ قانون تھا، جسے نہ تو کوئی چیلنج کر سکتا تھا اور نہ اس کے خلاف آواز بلند کر سکتا تھا۔ مگر اسلام میں ایسا کوئی حاکم مذہبی طبقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اور جواس کی مرضی ہے، وہ قرآن و سنت کی صورت میں موجود ہے۔ شریعت کا سبھی کو علم ہے۔ یہ کوئی ایسا خدائی راز نہیں ہے جس کاعلم صرف پادریوں کی طرح صرف مفتی یا  مذہبی رہنما کو ہو۔ اسلام میں ایساہرگز کوئی امکان نہیں کہ لوگوں کا کوئی گروہ دوسروں پر اپنی ذاتی مرضی ٹھونس سکے یا اللہ کے نام پر دوسروں پر اپنی ترجیحات کو نافذ کر سکے۔ اسلامی نظام میں قوانین کھلے بحث و مباحثے کے بعد ہی تشکیل دیے جاتے اور نافذ کیے جاتے ہیں۔ سب لوگ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں۔

  • بنیادی فرق: ان دونوں نظاموں کے درمیان اختلافات مختصراً یہ ہیں:

ا - شریعت جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اوررضا کی حامل اور اس کا مظہر ہے، بالکل اصل صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔ اس میں کسی نوع کی کوئی آمیزش نہیں ہوئی اور نہ بدلے ہوئے حالات میں کسی تبدیلی یا کسی کی مداخلت سے اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔

ب- اسلام میں مذہبی متوسلین کا کوئی طبقہ نہیں اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ترجمان ہے۔ اللہ کی رہنمائی مکمل ہو چکی، اب یہ اُمّہ کا کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کو سمجھے، اس کا ادراک کرے اور انسانی معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اس پر عمل پیرا ہو۔

ج- فرد معاشرے کا بنیادی عنصر ہے۔ اسلام، فرد کی آزادی، قانون کی حکمرانی ،  مخالفانہ آرا اور مخالفوں کی توقیر کی ضمانت خود دیتا ہے۔ اہل دانش اور عوام آزادی کے ساتھ اپنے مسائل پر بحث مباحثہ کر سکتے ہیں اور باہم مشاورت کے ذریعے ان کا حل نکال سکتے ہیں۔ پوری اسلامی فقہ ایک ایسے عمل کے ذریعے فروغ پذیر ہوئی ہے، جس کے دوران اُمّہ اور اس کے نمایندوں نے عام بحث مباحثے میں حصہ لیا۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کا انسانوں کی طبیعی اور دنیاوی مشکلات و مسائل سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور وہ انصاف اور سماجی بہبود کے اصولوں کے مطابق ان مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔

بلاشبہہ جسے زندگی کا سیکولر (دنیاوی) حصہ کہا جاتا ہے اس سے اسلام اور مسلمانوں کا تعلق ہے لیکن اسلامی اور سیکولر رویوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دنیا کی ساری زمین میرے لیے مسجد کی مانند ہے، چنانچہ دنیا کے تمام حصوں اور علاقوں سے اسلام کا گہرا تعلق ہے۔ اسلام نہ شرقی ہے اور نہ غربی، بلکہ صحیح معنوں میں ایک عالم گیر اور آفاقی نظام ہے۔ اسلامی نظام، انسانی زندگی کے تمام روحانی اور دنیاوی معاملات پر محیط ہے۔ اس حد تک اسلام کاسیکولرزم سے کوئی تنازع نہیں ہے۔ مغرب میں سیکولرزم کے غلبے کی وجہ مذہب کا سیکولر معاملات سے لاتعلق ہوجانا اور دنیاوی زندگی کو شیطانی قوتوں کے حوالے کر دینا تھا۔ یہ پوری تحریک دراصل ان مذہبی روایات کا رَدّعمل تھی جن کی رو سے سیکولر دنیا کو نظرانداز کیا گیا اور اپنے دائرۂ عمل کو صرف روحانی دنیا تک ہی محدود رکھا گیا تھا۔

اسی طرح سیکولرزم کی تحریک کو تقویت دینے والا ایک دوسرا سبب مذہبی عدم رواداری تھی جس میں جبر کے ذریعے ایک مذہب بلکہ ایک فرقے کے نظریات کو دوسرے تمام فرقوں پر مسلط کیا جاتا تھا اور ایک سے زیادہ نقطہ ہاے نظر کو کفر اور بغاوت قرار دیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اسلام تکثیر (pluralism) اور رواداری کے اصول کو تسلیم کرتا ہے۔ تمام انسانوں کو پیشے اور مذہب کے معاملے میں انتخاب کا حق دیتا ہے اور ثقافتی کثرت اورکسی بھی سماج کے اندازِ حیات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اسلام کی منشا کے مطابق ہے۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘۔

سیکولرزم سے اسلام کا بنیادی اور جوہری اختلاف اس کے اس دعوے کے باعث ہے کہ سیکولرزم، مذہب سے کسی نوع کے تعلق، اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی اور مطلق اخلاقی اقدار کے بغیر تمام انسانی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ یہ بات زندگی کے بارے میں اسلامی رویے کے بالکل برعکس ہے۔ انھی وجوہ کی بنا پر اسلام اور سیکولرزم، دو بالکل مختلف دنیائوں کی نمایندگی کرتے ہیں۔

اگرچہ اب کمیونزم اور فاشزم کوئی غالب سیاسی نظریات نہیں رہے، لیکن ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو ان دونوں نظریات کے مختلف پہلوئوں سے اتفاق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں نظریات مغربی تہذیب و تمدن کے تناظر میں بعض تاریخی اور سماجی و سیاسی حالات کی پیداوار ہیں۔ ان کی تہ میں ریاست کی مطلق العنانیت کا تصور کارفرما رہا ہے۔ مگر یہ دونوں نظریات بھی مختلف النوع آمریت ہی کے نمایندے تھے اور ان کے تحت بھی مطلق العنان حکومت ہی قائم ہوتی رہی۔ اگرچہ ان دونوں نظاموں میں انتخابات اور پارلیمنٹ کے قیام کاڈھونگ بھی رچایا جاتا رہا۔

اسلام میں یک طرفہ یا مطلق العنان اقتدار کا کوئی تصور نہیں۔ اسلام میں ریاست تو اُمت ہی کا ایک ادارہ اور شعبہ ہوتا ہے۔ وہ فرد کی مرکزیت، اس کے حقوق اور سیاسی فیصلوں میں فرد کے کردار کی توثیق کرتا ہے۔ اسلامی ریاست، قانون کی تخلیق ہوتی ہے۔حکمران، ریاست کے دوسرے شہریوں کی طرح ہی قانون کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی ریاست اپنے عمّال اور کارپردازوں کو وہ خصوصی مراعات اور تحفظات بھی فراہم نہیں کرتی جو کئی مغربی ملکوں کے عمّال کو عام طور پر حاصل ہوتی ہیں۔

اسلام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ مقدس امانت ہیں۔ فرد کو معاشرے کی بنیادی اکائی اور ایک پاک باز مخلوق تصور کیا جاتا ہے، جو اپنے اعمال کے لیے آخرکار اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ ہر انسان ایک قابل احترام وجود ہے اور اخلاقی طور پر اپنے تمام اعمال اور پسند و ناپسند کے لیے دنیا اور آخرت میں بھی   جواب دہ ہے۔ فرد کو معاشرے میں عقل و دانش اور سماجی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنا رویہ متعین کرنا ہوتا ہے، لیکن وہ ریاست کی مشین کا کوئی بے جان پرزہ نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے اسلام کے سیاسی نظم اور ہمارے دور کے مطلق العنان اور آمرانہ نظاموں کے درمیان بے حد فرق ہے۔

اسی تقابلی تجزیے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام ، دوسرے سیاسی نظریات کی بعض باتوں میں مماثلت اور مشابہت کے باوجود، بے مثال ہے۔ اسلام، اساسی اعتبار سے ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں رہتے ہوئے ایک اچھے اور نیک انسان کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ تو کسی اجڈ معاشرے میں پھنس گیا ہے یا جانوروں کے کسی باڑے میں دھکیل کر بند کر دیا گیا ہے۔ اسلام تمام انسانوں کی ذہنی اور مادی نشوونما، ساتھ ساتھ، چاہتا ہے تاکہ انسان امن اور انصاف کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔ زندگی کی اعلیٰ اقدار و نظریات کی پرورش کر سکیں، جن کے نتیجے میں وہ اس دنیا اور پھر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور الوہی سعادت کے حق دار ٹھیرسکیں۔ اسلامی ریاست ایک نظریاتی، تعلیمی اور مشاورتی بنیادوں پر مبنی ریاست ہوتی ہے جو ایک ایسا سماجی و سیاسی ڈھانچا فراہم کرتی ہے جس میں حقیقی جمہوریت پھل پھول سکتی ہے۔ اس میں ایک طرف مستقل اقدار کا دائمی فریم ورک ہے جس میں پوری سیاسی اور اجتماعی زندگی مرتب ہوئی ہے تو دوسری طرف اجتہاد کے ذریعے وقت کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کابھرپور سامان ہے۔

مجھے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ مسلمان اپنی تاریخ میں اس نظریے پر مکمل طور پر عمل کرسکے ہیں۔ بلاشبہہ خلافت راشدہ اس کا عملی نمونہ اور ایک مکمل مثالیے (paradigm )کا مظہر تھا مگر بعد کے ادوار میں اصل ماڈل سے انحراف اور انحراف کے بعد اصل کی طرف مراجعت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا ہے۔ البتہ اصل ماڈل ہی تمنائوں کا محورو مرکز رہا ہے اور آج بھی اسی آورش کی روشنی میں تعمیرنو کی جدوجہد مطلوب ہے۔

احیاے اسلام اور جمھوریت

تاریخ میں پہلی بار معاصر مسلم دنیا کو ایک منفرد چیلنج کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کو اقتدار اور بالادستی حاصل نہیں رہی اور پوری مسلم دنیا نوآبادیاتی حکمرانوں کے پائوں تلے دبی ہوئی ہے۔ نوآبادیاتی اور سامراجی غلبے کی اس طویل، اندھیری رات کے دوران، جو تقریباًدو صدیوں پر محیط ہے، مسلمانوں کو ذہنی، اخلاقی، معاشی اور ثقافتی طور پر بھی سخت نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ اس طویل ابتلا کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ وہ اسلامی ادارے بتدریج ٹوٹ پھوٹ اور انحطاط کا شکار ہوگئے، جن کے باعث مسلم دنیا تقریباً ۱۲ صدیوں تک اپنے پائوں پر کھڑی رہی اور اندرونی و بیرونی چیلنجوں کاکامیابی سے مقابلہ کرتی رہی۔ سامراجی حکومتوں کے ادوار ہی میں مغرب سے درآمدشدہ کئی ادارے اسلامی مملکتوں میں رائج کیے گئے۔ اسے دوسروں کو نام نہاد تہذیب سکھانے کے مشن کاحصہ  (white man's burden) قرار دیا گیا لیکن درحقیقت یہ سامراج کا بدترین استحصالی عمل تھا۔ چنانچہ اس استحصال کی وجہ سے قانون، عدلیہ، معیشت، تعلیم، انتظامیہ، زبان و ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیر، غرض معاشرے کے تمام عناصر کو زبردستی مغربیت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔

نوآبادیاتی ، سامراجی نظام کے دوران مسلم معاشرے کے اندر سے ایک نئی قیادت پیدا کی گئی، جسے مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے ’بابو کلاس‘کا نام دیا ہے۔ یہ لوگوں کا ایک ایسا طبقہ تھا جس کی جڑیں اپنے مذہب، ثقافت اور تاریخ میں نہیں تھیں اور جس نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے سایے میں اپنا نیا تشخص بنانے کی کوشش کی۔ اس طبقے نے نہ صرف حکمرانوں کی اقدار اور اخلاقی طرزِ عمل اپنانے کی سعی کی، بلکہ مقامی اور بیرونی مفاد پرستوں سے مل کر حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ بھی کیا۔ غیر ملکی غلامی سے نجات کے لیے عوامی تحریک بنیادی طور پر، آزادی کے تصور اور ایمان کی قوت سے عبارت تھی۔ مسلم دنیا میں نیشنلزم کی قوتوں نے بھی اسلامی تشخص قائم کر لیا تھا لیکن    اس ’بابو طبقے‘ اور اس کے زیراثر حلقوں نے مغربی اقدار ہی کو حرزِ جاں بنائے رکھا اور شعوری یا   غیرشعوری طور پر سامراجی قوتوں کے ایجنٹوں کا کردار ادا کیا۔(۲۱) آزادی کے بعد، ان ملکوں میں اقتدار بڑی حد تک اسی مغرب زدہ قیادت کے ہاتھ میں آیا یا لایا گیا جن کی سیاسی تربیت بھی سامراجی دور میں ہوئی تھی۔ اس قیادت کا تعلق مغرب کی ثقافت اور ان کے سیاسی عزائم ہی سے برقرار رہا۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ عالم اسلام میں صرف سرحدوں کا تعین ہی غیر ملکی سامراجی آقائوں نے نہیں کیا تھا،بلکہ نئے ادارے اور نئی قیادت بھی سامراجی دور ہی کی پیداوار تھی۔ عالم اسلام میں اس وقت جو بحران اور بے اطمینانی محسوس کی جا رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی صورت احوال ہے۔

احیاے اسلام اور سیاسی عمل میں عوامی شرکت اور ان کے ذریعے تبدیلی کا عمل جو جمہوریت کی روح ہے ایک ہی صورت حال کے دو پہلو ہیں۔ اقتدار میں موثر عوامی شرکت اور اسلامی تصورات کے مطابق معاشرہ، نیز مسلم سیاست کی تشکیلِ نو بھی اسی عمل کا حصہ ہیں۔ یہ کام صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان باہمی اعتماد، ہم آہنگی اور تعاون موجود ہو۔ لیکن   جن حکمرانوں نے سامراجی آقائوں ہی سے اقتدار کی وراثت پائی ہے ان کی نظریاتی،اخلاقی اور سیاسی سوچ عوام سے مختلف ہے۔ حکمران معاشرے اور اس کے اداروں کو مغربی اقدار و نظریات اور مغرب کے نظریاتی نمونوں، سیکولرزم ، قوم پرستی، سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظم کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ’زیرتسلط‘ ملکوں میں ایسے قوانین، ادارے اور پالیسیاں روبہ عمل لانا چاہتے ہیں جو مغربی نمونوں سے اخذ کی گئی ہیں مگر عوام یہ سب کچھ اپنے ایمان (عقائد)، اقدار اور امنگوں کے منافی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر حصولِ آزادی کے باوجود حکومتی نظام بعض استثنائوں کے ساتھ جابرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی رہا۔

تاریخ کا سبق تو بڑا ہی واضح ہے اور وہ یہ کہ: مسلمان ممالک کو سیکولر مملکت بنانا اور مغربی رنگ میں رنگنا، یک طرفہ اور جابرانہ قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ اقتدار میں عوام کی شرکت حقیقی جمہوری نظام اور اسلام میں کوئی عدم مطابقت نہیں بلکہ عوام کی آزادی، بنیادی حقوق، اقتدار میں عوام کی شرکت پر مبنی جمہوریت اور اسلامی نظام فطری حلیف ہیں۔ اصل تصادم تو عوام کی اسلامی امنگوں اور حکمران طبقے کے سیکولر مغربی نظریات اور پالیسیوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر جابرانہ اور استبدادی قوت کے بغیر غیر اسلامی نظریات و تصورات اور قوانین مسلط نہیں کیے جا سکتے۔ اصل تضاد ان دونوں (اسلامی اور مغربی) تصورات میں ہے اور حقیقی جمہوریت مغربی سیکولر بلڈوزر کا پہلا شکار ہے۔ امریکا کے ایک ماہر عمرانیات فلمر ایس سی نارتھ روپ (F.C. Northrop) نے گہرے شعور کے ساتھ کہا ہے: ’’مجھے یقین ہے کہ یہی وجہ ہے جو اس قسم کے (مثلاً سیکولر) قوانین عام طور پر پہلے آمر حکمران ہی نافذ کرتا ہے۔ ایسے قوانین کسی عوامی تحریک کا نتیجہ تو ہو نہیں سکتے کیونکہ عوام تو پرانی روایات کے حامل ہوتے ہیں‘‘۔(۲۲)

پروفیسر ویلفرڈ کینٹ ول اسمتھ نے پاکستان کی صورت حال کے حوالے سے نہایت دل چسپ بات کہی ہے: ’’کوئی مملکت جب صحیح معنوں میں جمہوری مملکت بن جاتی ہے تو وہ اپنی فطرت کا اظہار کرتی ہے، چنانچہ ایک مشرقی ملک کی حیثیت میں وہ جتنی جمہوری ہو گی، اتنی ہی مغربی رنگ سے دُور ہوتی چلی جائے گی… یہاں تک کہ اگر پاکستان ایک حقیقی جمہوری ملک بن جائے توجس حد تک وہ جمہوری ہو گا اسی حد تک اسلامی بھی ہوگا‘‘۔(۲۳)

کینٹ ول اسمتھ نے تو بڑے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ اسلام کے بغیر جمہوریت محض ایک بے معنی نعرہ ہے جو کسی طور بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ یوں جمہوریت اپنے اسلامی ہونے کے حوالے سے ان (مسلم اُمّہ) کی اسلامی ریاست کی تعریف کا حصہ بن جاتی ہے۔(۲۴)

ایسپوزیٹو اوروال بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں میں دونوں رجحانات، یعنی احیاے اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور یہ ان ریاستوں کے کردار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ وہ معاصر مسلمانوں کے ذہن کا مطالعہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بہت سے مسلم (اسکالر) اسلامی جمہوریت کی وضاحت میں سرگرمی سے مصروف ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ عالمی سطح پر مسلم ریاستوں میں مذہبی احیا اور جمہوری عمل ایک دوسرے کی تکمیل کر رہے ہیں۔(۲۵)

حال ہی میں دواسکالروں ڈیل ایکل مین اور جیمز پسکا ٹوری نے ’مسلم سیاست‘ کے حوالے سے ایک مطالعاتی رپورٹ میں تجویز کیا ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جمہوریت کے بارے میں جو خیالات پائے جاتے ہیںاور جو ان کی اپنی اقدار اور امنگوں کے مطابق ہیں، ان پر نئے زاویوں سے غور کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں میں، اسلامی ریاستوں پر مغربی طرز کی جمہوریت کا پیوند لگانے کے خلاف جو نفرت پائی جاتی ہے ، اسے بھی پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ ان دونوں اسکالروں نے اپنی بات اس طرح ختم کی ہے:

مسلم سیاست کا ازسرنو جائزہ لینے کے لیے ان چیلنجوں کو پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے، جو مستقبل قریب میں پالیسی سازوں کو درپیش ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ صرف مغرب زدہ اشرافیہ کی بات نہ سنی جائے بلکہ بہت سی دیگر مسلم آوازوں پر بھی توجہ دی جائے۔ اس جانب پہلا قدم، یہ معلوم کرنا ہے کہ مسلمانوں میں سندجواز اور عدل کے تہذیبی تصورات کیا ہیں؟ یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ مذہبی یا غیر مذہبی منصفانہ حکومت کا تصوربھی متعین نہیں  ہے۔ مسلمانوں کے ان تصورات کی تفہیم بعض لوگوں کے اس ناروا تاَثر کو دُور کرنے میں ممد ثابت ہو گی کہ دوسری اقوام کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات اکثر معاندانہ ہوتے ہیں اور مسلمانوں کا طرزِ حکومت لازماً جابرانہ اور آمرانہ ہوتا ہے۔(۲۶)

اسلام اور مسلم اُمہ نے آمرانہ اور جابرانہ حکومت کو کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ مسلمانوں میں جہاں کہیں بھی آمرانہ حکومتیں ہیں، وہ نوآبادیاتی سامراج اور مغرب زدگی کا نتیجہ ہیں۔ ان کا مسلمانوں کے تصورات، تاریخ یا اُن کی امنگوں اور آرزوئوں سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمان، مغرب کی سیکولر جمہوریت کو اپنے اصولوں، اقدار اور روایات سے بیگانہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی ان شان دار روایات سے ہم آہنگی محسوس کرتے ہیں جس کا تعلق اقتدار میں عوام کی شرکت جس کے نتیجے میں انصاف کی حکمرانی، ہر سطح پر مشاورت کا عمل، فرد کے حقوق اور حق اختلاف کی ضمانت سے ہے ۔ وہ اس کو اشد ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور سیاسی ثقافت میں تکثیر کا تسلسل یقینی ہو، ان کے بارے میں ان کے اپنے تصورات اور تاریخی روایت ہے۔ چنانچہ اسلام اور جمہوریت کی اس حقیقی روح میں کوئی تصادم یا تضاد نہیں۔ بعض مسلم ممالک میں جو آمرانہ اور جابرانہ حکومتیں نظر آ رہی ہیں،وہ ان غیر ملکی اور اوپر سے بذریعہ طاقت ٹھونسی گئی روایات کا حصہ ہیں، جن کے خلاف جدوجہد میں احیاے اسلام کی قوتیں مصروف ہیں۔ اسلام اور حقیقی جمہوریت ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ چنانچہ استبدادانہ اور جابرانہ حکومتیں خواہ شہری ہوں یا فوجی آمریت، نام نہاد جمہوری ہو یا موروثی، یہی جمہوریت کی نفی اور بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ایسی حکومتیں مغربیت اور لادینیت کا ثمرہ ہیں، اسلام کا نہیں۔ اسی طرح عوامی جمہوریت سے انکار اور اسے دبا کر رکھنے کا عمل اسلام کا نہیں، لادینیت اور مغرب زدگی کا ایجنڈا ہے۔ اسلامی احکام اور مسلم عوام کی مرضی، خواہشات اور امنگیں تو ایک ہی ہیں۔ جمہوری عمل یقینا نفاذ اسلام میںناگزیر پیش رفت ہے۔ اسلامی امنگوں کی تکمیل جمہوری عمل کے آگے بڑھنے ہی سے ممکن ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد کے عالم اسلام کی حالیہ تاریخ میں آمرانہ نظام، سیکولرزم یاسوشلزم ایک ساتھ آگے بڑھے ہیں، جب کہ احیاے اسلام، آزادیِ جمہور اور اقتدار میں عوام کی شرکت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔

نوآبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کے لیے مسلم اُمہ آج بھی اپنے جمہوری حقوق، اپنے اندازِ سیاست، ، اپنے تصورات، امنگوں اور نظریات کی روشنی میں اپنے عوام کی اقتصادی حالت بہتر بنانے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ مسلم اُمہ ایسے احکام، نظریاتی جبر اور ایسے جمہوری نمونوں کے تحت زندگی گزارنے سے انکاری ہے جو اس کے دین سے متصادم ہوں، اس کی اقدار کے منافی ہوں۔ اس کی تاریخ سے لگّا نہ کھاتے ہوں، اور اس کی روایات کے علی الرغم ہوں۔ اگر جمہوریت کا مطلب کسی قوم کا حق خود ارادیت اور اپنے بَل پر تکمیلِ خودی ہے، تو یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے اسلام اور مسلمان روزِ اوّل سے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ وہ نہ تو اس سے زیادہ کچھ چاہتے ہیں اور نہ اس سے کم پر راضی ہوںگے۔


حواشی

۲۱- ایچ اے آر گب، Modern Trends in Islam میں لکھتے ہیں کہ ’’نیشنلزم … اپنی مغربی توضیح میں صرف ان دانش وروں تک محدود ہے جن کا مغربی افکار سے براہِ راست یا گہرا ربط ہے۔ مگر قوم پرستی کے اس نظریے کی جب عام ذہن تک رسائی ہوئی تو اس کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہوئی اور اس تبدیلی سے قدیم جبلی محرکات اور مسلم عوام کی قوت محرکہ کے دبائو کی وجہ سے بچنا ممکن بھی نہ تھا‘‘ ( Modern Trends in Islam شکاگو، شکاگو یونی ورسٹی پریس، ۱۹۴۷ئ، ص ۱۱۹)۔ ولفرڈ سی اسمتھ Islam in Modern History میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں میں کبھی قومیت کی سوچ نے ارتقا نہیں پایا جس کا مفہوم وفاداری یا کسی ایسی قوم کے لیے تشویش کا پایا جانا ہو، جو اسلام کی حدود کو پامال کر رہی ہو… ماضی میں صرف اسلام ہی نے لوگوں کے اندر اس قسم کا نظم و ضبط، تحریک اور قوت پیدا کی ہے‘‘۔ (Princeton N.J ۱۹۵۷ئ، ص ۷۷)۔

۲۲-  فلمر ایس- سی نورتھروپ، Colloquium on Islamic Culture (پرنسٹن، ۱۹۵۳ئ) ، یونی ورسٹی پریس، ص ۱۰۹۔

۲۳- ولفرڈ- سی اسمتھ، Pakistan as an Islamic State (لاہور، ۱۹۵۴ئ) ، ص ۵۰۔

۲۴- ایضاً، ص ۴۵۔

۲۵- جان ایسپوزیٹو ، جان وول، op.cit ص ۲۱۔