کوسووا یا کوسووو، نام لینے میں بھی البانوی مسلمانوں اور سرب مسیحیوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ سرب آخر میں ’واو‘ پڑھتے ہیں اور البان ’الف‘۔ لیکن اصل اختلاف شناخت اور آزادی کا ہے اور یہ اختلاف بہت قدیم ہے۔
۲۸جون ۱۳۸۹ء کو دارالحکومت پر سٹینا کے شمال میں دونوں طرف سے لاکھوں کی تعداد میں افواج جمع تھیں۔ ایک جانب عثمانی علَم کے سایے تلے، سلطان مراد کی قیادت میں مسلمان، اور دوسری طرف صلیبی پرچموں تلے سربیا، کروواٹیا، مولڈیویا، آسٹریا،بوسنیا اور البانیا کے شہزادوں، بادشاہوں کی قیادت میں مسیحی، ۱۳ دن کی خوف ناک جنگ کے بعد عثمانی لشکر فتح یاب ہوا۔ مسیحی افواج کا قائد سربی شہزادہ ’لازار‘ مارا گیا۔ بعدازاں سلطان مراد کو بھی ایک سرب فوجی نے زہریلے خنجر کے وار کر کے ابدی نیند سلا دیا، لیکن بلقان کا علاقہ کئی صدیوں تک عثمانی خلافت کے زیرسایہ پروان چڑھتا رہا۔ اہلِ علاقہ عثمانیوں کی آمد سے بھی دو صدیاں پیش تر اسلامی تعلیمات سے آشنا ہونا شروع ہوگئے تھے اور البانوی و بوسنوی (بوشناق) نسل کے افراد، بڑی تعداد میں قبولِ اسلام کرچکے تھے۔ تب یہاں ’بوگومیل‘ کے نام سے ایک مسیحی فرقہ پایا جاتا تھا جو عقیدۂ تثلیث کا انکاری ہونے کے باعث کیتھولک اور آرتھوڈوکس دونوں کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنتا تھا۔ عثمانیوں کی آمد کے بعد بوگومیل فرقے کے لوگ باقی فرقوں اور قبائل کی نسبت زیادہ تیزی سے اسلام کی پناہ میں آتے چلے گئے۔
عثمانی خلافت کے اضمحلال اور بالآخر خاتمے کے زمانے میں دیگر خطوں کی طرح بلقان کی مختلف ریاستوں کی تشکیل نو اور یورپی ممالک میں ان کی بندربانٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ۱۸۶۷ء میں سربیا کی ریاست وجود میں آئی۔ ۱۸۷۸ء میں ریاست البانیا کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ ۱۹۱۲ء میں جنگ بلقان کا آغاز ہوا تو کوسووا اور سنجق سمیت البانیا کے نصف علاقے کو اس کا حصہ ماننے سے انکار کردیا گیا۔ البانوی مسلمانوں کا بہیمانہ قتلِ عام کیا گیا اور بالآخر پہلی عالمی جنگ کے بعد ۱۹۱۸ء میں سربیا نے کوسووا اور سنجق کواپنی قلم رو میں شامل کرلیا۔ پھر عظیم تر سرب ریاست کے قیام کا خواب دیکھنے والے متعصب سرب ۱۹۲۸ء میں قائم ہونے والے یوگوسلاویہ کے اصل کرتا دھرتا بن گئے۔ سرب نسل کے غلبے کے لیے کوئی ایسا موقع نہ جانے دیا گیا کہ جب کسی نہ کسی بہانے مسلمان آبادی پر ناقابلِ بیان مظالم کے پہاڑ نہ توڑے گئے ہوں۔ صرف دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی اڑھائی لاکھ مسلمان لقمۂ اجل بنا دیے گئے۔ اس کے باوجود اس وقت یوگوسلاویہ میں باقی بچ جانے والی مسلم آبادی کی تعداد ۲۰لاکھ تھی۔ ۱۰ لاکھ تو صرف بوسنیا ہی میں تھے اور باقی سنجق، مقدونیا، کوسووا اور دیگر علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے۔
عثمانی لشکر اور صلیبی افواج کے درمیان تاریخی معرکے کے ٹھیک ۶۰۰سال بعد یعنی ۲۶جون ۱۹۸۹ء کو دسیوں ہزار سرب باشندے اس جنگ کی یاد منانے کے لیے جمع تھے اور سرب صدر سلوبووان میلوسوووچ ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا: ’’معرکۂ کوسووو ابھی ختم نہیں ہوا، سرب عوام اپنے کامل حقوق واپس لے کر رہیں گے‘‘۔ اس نے سابقہ یوگوسلاویہ میں البانیا کی خودمختار حیثیت کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یورپی غیرسرب آبادی کے لیے آزمایشوں کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھ دی۔ نئے سرے سے مسلم آبادی کا ناطقہ بند کرنے کا آغاز کردیاگیا، انھیں ملازمتوں سے فارغ کردیاگیا، ان کی کمپنیاں اور کاروبار بند کردیے گئے۔ مدارس وجامعات سے نکال دیے گئے اور انھیں موت یا گرفتاریوں کی نذر کردیا گیا تاکہ وہ یا تو اس خطے سے نکل جائیں یا پھر دنیا ہی سے کوچ کرجائیں۔
کوسووا کے مسلمانوں نے اس صورت حال کا سامنا صبروثبات اور ممکنہ مزاحمت کے فیصلے سے کیا۔ ابراہیم روگووا اور ہاشم تاچی نام کی دو شخصیات نے کوسووا کے مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ ابراہیم پُرامن جدوجہد پر یقین رکھتے تھے، جب کہ ہاشم مسلح مزاحمت کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ ابراہیم نے ’البانوی جمہوری اتحاد‘ کے نام سے پارٹی قائم کی اور پُرامن سیاسی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے کوسووا میں ستمبر۱۹۹۱ء میں عوامی ریفرنڈم کروا دیا۔ مسلمانوں نے اپنی آزادی کا فیصلہ و اعلان کردیا لیکن اس اعلان آزادی کو نہ تو سربیا نے قبول کیا اور نہ ہی عالمی برادری نے اس کی پشتیبانی کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کی۔ البتہ کوسووا کے عوام نے مئی ۱۹۹۲ء کو ابراہیم روگووا کو جمہوریہ کوسووا کا صدر منتخب کرلیا۔
پُرامن جدوجہد، کوسووا کی آزادی اور سرب مظالم سے نجات کے لیے عملاً کوئی تبدیلی واقع نہ کرسکی، تونوجوانوں نے ہاشم تاچی کی قیادت میں خود کو عسکری لحاظ سے بھی تیار و منظم کرنا شروع کردیا۔ بوسنیا کی صورت حال نے اس تیاری کی ضرورت مزید واضح کردی۔ بوسنیا نے بھی ۲۹فروری اور یکم مارچ ۱۹۹۲ء کو اپنے عوامی ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا فیصلہ و اعلان کیا تھا۔ لیکن بوسنیا کی ۳۲ فی صد سرب آبادی نے نہ صرف اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ۶۸ فی صد مسلمان آبادی کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا بلکہ چند روز کے اندر اندر دارالحکومت سرائیوو سمیت مختلف مسلم آبادیوں پر بم باری شروع کردی اور پھر عظیم تر سربیا کے قیام کے لیے کوشاں میلوسووچ نے درندگی، خوں خواری اور وحشی پن کے تمام الفاظ کو مظالم کی صحیح عکاسی سے محروم کردیا۔ چار سال تک بوسنیا میں قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ بلامبالغہ لاکھوں جانیں فنا کے گھاٹ اُتار دی گئیں، ۵۰ ہزار سے زائد مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی اور مہذب ہونے کی دعوے دار پوری دنیا تماشائی بنی رہی۔
ہاشم تاچی اور ان کے ساتھیوں نے بوسنیا کی اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اپنی عسکری تیاریوں کو مزید مربوط و منظم کیا لیکن یہ ساری تیاریاں سرب وحشی پن کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی تھیں۔ ۱۹۹۶ء میں بوسنیائی قیامت کا طوفان تھما تو سربوں نے ۱۹۹۸ء میں کوسووا کا محاذ گرم کردیا۔ یہاںبھی جب دسیوں ہزار مسلمانوں کواجتماعی قبروں میں زندہ یا مُردہ دفن کردیا گیا اور ہرطرف تباہی کا راج ہوگیا تو ۱۹۹۹ء میں طرفین کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا گیا لیکن سربوں نے مذاکرات کے نتائج کو بھی ماننے سے انکار کردیا۔ بالآخر ناٹو افواج نے کوسووا سے سرب افواج کونکالنے کے لیے فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ ۷۸ روز کے فضائی حملوں کے بعد سرب افواج نے کوسووا کا علاقہ خالی کیا تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد ۱۲۴۴ منظور کی۔ ۳۹ملکوں سے ۵۰ ہزار فوجی امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی کی زیرقیادت کوسووا کے پانچ الگ الگ علاقوں میں متعین کیے گئے اور کوسووا کی شناخت اور مستقبل کے تعین کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوگیا۔
گذشتہ نو برس سے اقوام متحدہ کاعبوری انتظامی مشن UNMIK (United Nations Interim Administration Mission in Kosovo) کے نام سے کوسووا کے معاملات چلا رہا ہے۔ ساتھ ساتھ ریاستی ڈھانچے کی تشکیلِ نو جاری ہے۔ سربیا کے ساتھ بھی مذاکرات کے لاتعداد دور چل چکے ہیں لیکن کوسووا کی آزادی کے سلسلے میں کسی مفاہمت تک نہ پہنچا جاسکا۔ بالآخر طرفین کو مزید ۱۲۰ روز کی حتمی تاریخ دے دی گئی کہ ۱۰دسمبر ۲۰۰۷ء تک بہرصورت کوئی فیصلہ کرلیں۔ یہ مہلت بھی گزر گئی لیکن سربیا اسی ہٹ دھرمی پر اڑا رہا کہ ’’کوسووا ہمارا اَٹوٹ انگ ہے‘‘۔ اسی دوران نومبر ۲۰۰۷ء میں کوسووا کے عام انتخابات ہوگئے اور سرب مظالم کے خلاف مسلح جدوجہد کا سربراہ ہاشم تاچی کوسووا کا وزیراعظم منتخب ہوگیا۔ اپنے انتخاب کے فوراً بعد انھوں نے بیان دیا کہ ۱۰دسمبر ۲۰۰۷ء کے بعد ہم کسی بھی وقت اعلانِ آزادی کرسکتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہمارے اس حق سے محروم نہیں کرسکتی۔
امریکا اور یورپی ممالک نے کوسووا کے حق آزادی کی بھرپور سرپرستی کی ہے۔ اقوام متحدہ کے نمایندہ مارٹی اھٹساری نے بھی یہی فارمولا پیش کیا کہ کوسووا کو آزاد ہوجانا چاہیے۔ اس کا اپنا دستور، اپنا پرچم اور اپنا قومی ترانہ ہونا چاہیے اور اسے عالمی تنظیموں اور اداروں کا رکن بننا چاہیے۔ پہلے تو خیال تھا کہ شاید کوسووا کا اعلان آزادی اقوام متحدہ کی کسی قرارداد کے ذریعے کیا جائے گا لیکن جب روس نے کوسووا کی آزادی کی بھرپور مخالفت کی تو کوسووا کی پارلیمنٹ نے خودہی یہ اعزاز حاصل کرلیا۔ ۱۷فروری بروزاتوار پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا، قرارداد آزادی پیش کی گئی، ۱۲۰ارکان اسمبلی میں سے ۱۰۹ حاضر ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا، اور وزیراعظم ہاشم نے اپنے جذبات سے معمور خطاب میں اعلان کیا کہ ’’آج کے بعد سربیا کبھی کوسووا پر حکمرانی نہیں کرسکے گا‘‘۔ اعلانِ آزادی کے الفاظ تھے: ’’ہم اپنی قوم کے منتخب نمایندگان و رہنما، کوسووا کی آزاد و خودمختار، جمہوری ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔ اسپیکر یعقوب کراسنیکی نے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ’’آج کوسووا نے اپنی سیاسی حیثیت تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اب ہم آزادی، استقلال اور اپنی مرضی کی مالک ایک ریاست ہیں۔
۱۹۱۲ء میں بلقان سے عثمانی افواج کی واپسی سے لے کر اب تک گذشتہ ۹۶برس سے اہلِ کوسووا نے یہ خواب آنکھوں میں سجایا ہوا تھا کہ کوئی دوسرا ان پر اپنی حکمرانی نہ کرے، بالآخر اس خواب کی تکمیل ہوئی۔ اعلان آزادی کے ساتھ ہی اہم عالمی قوتوں نے کوسووا کو آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنا شروع کردیا ہے۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ترکی، آسٹریلیا سمیت اب تک ۱۸ ممالک، کوسووا کو تسلیم کرچکے ہیں۔ روس، اسپین، قبرص، اسپین اور رومانیہ نے اس آزادی کی سختی سے مخالفت کی ہے۔ چین اور انڈونیشیا نے بھی یہ کہتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے کہ اس سے نسلی تقسیم وانتشار کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ روس اور چین کی مخالفت کا ایک اہم سبب چیچنیا اور تبت جیسی دیگر ریاستوں اور خطوں کو دعواے آزادی سے روکنا بھی ہے۔
نومولود کوسووا کو اعلان آزادی کے باوجود بے حد گمبھیر خطرات کا سامنا ہے۔ درندہ نما سلوبودان میلوسووچ کے بھائی بوری سلاف نے روس میں بیٹھ کر دھمکی دی ہے کہ ’’ہمیں کوسووا کی بازیابی کے لیے نئی جنگ لڑنا ہوگی‘‘۔ ۲۱فروری کی سہ پہر بلگراد میں مظاہرہ کرتے ہوئے سربوں نے بھی تقریباً ایسی ہی زبان استعمال کی ہے۔ انھوں نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بولتے ہوئے اسے آگ لگا دی۔ یہ بھی دھمکی دی جارہی ہے کہ کوسووا میں مقیم ۷ فی صد سرب آبادی کے ذریعے وہاں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جائے گی اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ غزہ کی طرح کوسووا کا مکمل محاصرہ کردیا جائے گا۔ کوسووا نئے دوراہے پر کھڑا ہے، آزادی کی حفاظت یا پہلے سے بھی بدتر خوں ریزی جس کا دائرہ پھیلتے پھیلتے خدانخواستہ کسی عالمی نزاع تک جاپہنچے۔ واضح رہے کہ پہلی دوعالمی جنگوں کی ابتدائی چنگاریاں بلقان ہی سے پھوٹی تھیں۔ پہلا امکان زیادہ قوی ہے۔ روس اور سربیا کی دھمکیاں اب دھمکیوں سے زیادہ گیدڑ بھبھکیاں ہیں۔
کوسووا کا اعلانِ آزادی جہاں ایک طرف وہاں کے عوام کے عزم و ارادے کا مظہر ہے وہیں امریکا اور یورپ کے مقاصد و طمع کی تکمیل بھی ہے۔ کوسووا روس کا پچھواڑا ہے، مشرقی یورپ میں مسلسل سرایت کرتے ہوئے امریکا اور یورپ، روس کے گرد اپنا حصار مضبوط تر کرتے آرہے ہیں۔ کوسووا معدنی وسائل کے اعتبار سے دنیا کا مال دار خطہ ہے۔ یہاں سونا، چاندی، سکّہ اور کوئلہ پایا جاتا ہے۔ ۱۰ہزار ۹سو مربع کلومیٹر مساحت پر مشتمل اس ریاست میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ۱۰ ارب ۸۰ کروڑ کیوبک میٹر کوئلے کے ذخائر ہیں۔ ۱۰مارچ کو یورپی ممالک اور امریکی نمایندگان کی موجودگی میں کوسووا کی آزادی کا عالمی سطح پر اعلان ہوجائے گا۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ کے بجاے یورپی انتظامیہ کوسووا کے معاملات کی اصل ذمہ دار بن جائے گی۔ اگرسابق الذکر اسباب و علل نہ ہوتیں تو امریکا و یورپ یقینا کبھی ایسا ’مبارک‘ قدم نہ اٹھاتے جو فلسطین، کشمیر، چیچنیا سمیت آزادی کے ہر خوگر کے لیے ایک مثال اور حجت بن جائے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان شون میکورمیک سے دریافت کیا گیا۔ کیا امریکا کوسووا کی طرح فلسطین کابھی یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ وہ بھی اپنی پارلیمنٹ اور عوام کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کردے؟ شون نے کہا: ’’مشرق وسطیٰ کا تنازعہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی امید ابھی باقی ہے۔ کوسووا میں مذاکرات ناکام ہوگئے تھے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ فلسطین میں تو ۶۰سال گزرنے کے باوجود مذاکرات سے اُمید باقی ہے کوسووا میں نوسال کے بعد ہی یہ اُمیدیں مایوسی میں بدل گئیں…؟
کوسووا کی ۲۵ لاکھ آبادی میں سے ۹۰ فی صد مسلمان ہیں لیکن اب شاذونادر ہی ان کی اسلامی شناخت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ اور سیاسی رہنما ۹۲ فی صد البانوی النسل آبادی ہی کا ذکر کرتے ہیں۔ یہاں امریکا اور یورپ کا مفاد تھا تو انھوں نے مسلم کوسووا کی آزادی کا کڑوا گھونٹ بھی پی لیا، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں مسلم ممالک کا کردار کیا ہے؟ بدقسمتی سے وہ ابھی تک آزاد کوسووا کو تسلیم کرنے کے لیے بھی آگے نہیں آسکے۔ سابق الذکر ۱۸ممالک جنھوں نے کوسووا کو تسلیم کیا ہے، میں سے صرف ترکی مسلم ملک ہے، دوسرا ملک افغانستان ہے اسے اپنے فیصلے خود کرنے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی، امریکا خود ہی کرلیتا ہے۔ آج اگر مسلم ممالک بالخصوص پاکستان، کوسووا کوتسلیم کرتے ہوئے وہاں کے مسلم عوام کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات کی بنیاد مستحکم کرلیں، تو اس کے دُور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ علاوہ ازیں کشمیر اور فلسطین کے بارے میں بھی مغربی ممالک کے عوام کے سامنے ہمارا اخلاقی موقف مضبوط ہوگا۔