جمہوریہ چاڈ اقوام متحدہ، افریقی اتحاد کی تنظیم (OAU) اور اسلامی کانفرنس کا رکن ہے۔ یہاں مسلمان اکثریت (۵۷ فی صد) میں ہیں۔ چاڈ میں اس وقت خانہ جنگی جاری ہے۔ دنیابھر میں اس کی خبریں منظرعام پر آرہی ہیں۔ چاڈ ایک تو افریقی ملک ہے، دوسرے فرانسیسی استعمار کے زیرتسلط رہنے کی وجہ سے انگریزی بولنے والے ممالک کے برعکس فرینکوفون (فرانسیسی زبان) برادری کا رکن ہے۔ اسی وجہ سے انگریزی استعمار میں رہنے والے علاقوں کے برعکس فرانسیسی نوآبادیات والے علاقوں میں زیادہ متعارف ہے۔ یہ علاقہ بنیادی طور پر مسلمانوں کا ملک تھا۔ فرانسیسی استعمار نے ۱۹۰۰ء میں یہاںقبضہ کیا اور مسلمان حکمران ربیح الزبیر کو حکومت سے بے دخل کردیا۔ الزبیر کا اپنا تعلق بھی چاڈ سے نہیں تھا۔ وہ سوڈان کا حکمران تھا جس نے ۱۸۸۳ء کو اس علاقے کی تین مقامی بادشاہتوں کو یکے بعد دیگرے فتح کیا۔ فرانسیسی استعمار کے خلاف اس وقت سے ہی مقامی آبادی نے جدوجہد شروع کر دی تھی لیکن انھیں عملاً آزادی ۱۹۶۰ء میں حاصل ہوئی۔ یہ آزادی بھی فی الحقیقت براے نام ہی تھی کیونکہ فرانس نے اپنی فوجیں اور دیگر ادارے یہاں آزادی کے بعد بھی مسلط رکھے، جو اب تک پوری طرح معاملات میں دخیل ہیں۔
بدیشی آقائوں نے جاتے ہوئے مسلمان اکثریت کے اس ملک کا پہلامقامی حکمران جنوب کے ایک عیسائی فرنکوئیس ٹومبل بائی کو بنایا۔چاڈ خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے، جس کا رقبہ پاکستان سے تقریباً ڈیڑھ گنا ہے (چاڈ ۱۲لاکھ ۸۴ہزار مربع میل، پاکستان ۸ لاکھ ۹سو ۴۰ مربع میل) اور آبادی صرف ایک کروڑ ۱۰ لاکھ ہے۔ چاڈ کی سرحدیں جن ملکوں سے ملتی ہیں، ان میں نائیجیریا، لیبیا،سوڈان، سنٹرل افریقن ری پبلک، کیمرون اور نائیجر، چھے ممالک شامل ہیں۔ اس کے دوہمسایے نائیجیریا اور سوڈان براعظم افریقہ میں آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بالترتیب سب سے بڑے ملک ہیں۔ چاڈ میں آزادی کے بعد مسلسل افراتفری اور جنگ و جدال رہا ہے۔ شمال میں بسنے والے مسلمان، جو ملکی آبادی کا ۶۰ فی صد ہیں، اقلیت کی حکومت میں خود کو مطمئن نہیں پاسکتے تھے۔ وہ شروع سے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ جب کوئی شنوائی نہ ہوئی تو وہ بغاوت پر مجبور ہوگئے۔ وقتاً فوقتاً باہر کے ممالک بھی اس خانہ جنگی میں شریک ہوتے رہے۔
ملک کا پہلا صدر فرنکوئیس ۱۹۷۵ء میں ایک بغاوت کے دوران قتل کردیا گیا۔ اس کامیاب بغاوت کے بعد جنرل فیلکس مالوم ملک پر قابض ہوگیا، یہ بھی ایک عیسائی تھا۔ ۱۹۷۹ء میں ایک باغی لیڈر گوکونی عیدی جو مسلمان تھا، برسراقتدار آگیا۔ بدقسمتی سے چاڈ میں اس کے بعد بھی حالات معمول پر نہ آئے۔ چاڈ میں فوجی بغاوت، عوامی خانہ جنگی اور افراتفری مسلسل جاری رہی۔اس عرصے میں ایک اور مسلمان حسین ہبرے جو پہلے وزیردفاع تھا، بھی کچھ عرصے کے لیے برسرِاقتدار رہا۔ اسے لیبیا کی حمایت حاصل تھی۔ موجودہ حکمران ادریس ڈیبی ۱۹۹۰ء میں برسرِاقتدار آیا۔ وہ بھی ایک زمانے میں کمانڈر اِن چیف اور وزیردفاع رہ چکا تھا جو حکومت سے الگ ہوکر خانہ جنگی اور فرانس و لیبیا کی حمایت کے نتیجے میں برسرِاقتدار آیا۔ وہ فرانس کا تربیت یافتہ ہے۔ چاڈ معدنی دولت سے مالامال ہے، یہاں پٹرولیم، یورینیم اور سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن ابھی تک پوری طرح سے انھیں استعمال میں نہیں لایا گیا۔ مغربی ممالک پٹرول اور دوسری قیمتی معدنی دولت یورینیم پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ ایک معاہدے کے تحت چین بھی تیل کی تلاش اور انتفاع کے لیے صحرائی علاقے میں کھدائی کر رہا ہے۔
موجودہ حکومت کے خلاف بغاوت اچانک نمودار نہیں ہوئی، یہاں کئی سالوں سے مسلح مزاحمت کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ اس سال کے آغاز میں باغی دستوں نے بڑی قوت کے ساتھ ملک کے دارالحکومت انجمینا پر اچانک حملہ کیا اور پورے دارالحکومت پر ان کا قبضہ ہوگیا۔ محض صدارتی محل اور اس کے آس پاس کے کچھ محدود علاقے ان کی دست رس سے باہر رہ گئے۔ صدر کی حفاظت کے لیے فرانس کے کئی ہزار فوجی دستے دارالحکومت میں پہلے سے موجود ہیں۔ میراج طیاروں کی مدد اور فضائی کور سے ان فرانسیسیوں نے باغی جنگجوئوں کو صدارتی محل سے دُور دھکیلنے میں وقتی کامیابی تو حاصل کرلی لیکن ابھی تک حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ موجودہ صدر ادریس دیبی اب تک برسرِاقتدار آنے والے تمام حکمرانوں سے زیادہ عرصہ یعنی تقریباً اٹھارہ سال سے حکمران اور سیاہ وسفید کا مالک ہے۔ وہ اپنے مغربی آقائوں کی طرف سے پیش کردہ ہر معاہدے پر دستخط کرتا چلا آرہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی ذاتی دولت میں توبے پناہ اضافہ ہوا لیکن عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملا۔ پٹرول، سونے اور یورینیم جیسی قیمتی معدنی دولت کے باوجود چاڈ بھوک و افلاس اور قحط و بربادی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ یو این او کے تیار کردہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس کے مطابق اس کا شمار دنیا کے ۱۸۰ ممالک میں سے پانچ غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔
چاڈ کا ایک دوسرا بڑا مسئلہ سوڈان کے جنوبی علاقے دارفور میں جاری لڑائی کی وجہ سے مہاجرین کی آمد رہا ہے۔ اس وقت دارفور سے آئے ہوئے دو لاکھ سے زیادہ مہاجرین یہاں مقیم ہیں۔ سوڈانی حکومت کے خلاف دارفور میں گذشتہ کئی برسوں سے جو شورش برپا ہے اس کے پیچھے مغربی منصوبہ سازوں کی سازشیں شامل ہیںاور سوڈانیوں کے خیال میں چاڈ سے حملہ آور اس خانہ جنگی میں حکومت کے خلاف باغیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف چاڈ حکومت اپنے ملک میں پھیلی ہوئی بغاوت کو سوڈان کے کھاتے میں ڈالتی ہے اور اس کے اس دعوے کو مغربی دنیا بھی درست تسلیم کرتی ہے۔چاڈ کے مسلمان موجودہ حکمران کو جو ان کا ہم مذہب ہونے کے باوجود مکمل طور پر فرانس کا ہم نوا اور اس کی تہذیب کا دل دادہ ہے، شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کا تعلق بھی ایک چھوٹے سے قبیلے زگاوہ (Zagawa) سے ہے جو ملک کی آبادی کا صرف ڈیڑھ فی صد بنتا ہے۔
موجودہ بغاوت اگرچہ ان دنوں زیادہ منظرعام پر آگئی ہے مگر اس کی جڑیں ماضی میں دُور تک جاتی ہیں۔ ۱۹۹۸ء میں موجودہ صدر کے سابق وزیردفاع یوسف توجومی (Togoimi) نے مسلح بغاوت کی تھی جو دو تین سال مسلسل جاری رہی۔ اس دوران ملک کے بیش تر حصوں پرباغیوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ ۲۰۰۲ء میں لیبیا کے صدر معمر قذافی نے مصالحت کی کوشش کی، مگر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی، تاہم وقتی طور پر باغی تحریک پس منظر میں چلی گئی۔ قذافی صاحب نے چاڈ کے ساتھ الحاق کرنے کی بھی کوشش کی تھی اور ۱۹۸۱ء میں لیبیا کے فوجی دستے چاڈ بھیجے گئے تھے۔ ملک کی عام آبادی نے قذافی صاحب کی اس کاوش کو شک اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ یوں الحاق کا یہ منصوبہ دم توڑگیا اور لیبی فوجوں کو ۱۹۸۳ء میں ملک سے نکل جانے کا حکم ملا مگر وہ خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۱۹۸۷ء تک چاڈ کے شمالی علاقوں میں براجمان رہے۔ معمرقذافی پر چاڈ کی آبادی کم ہی اعتماد کرتی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر فرانس اور دیگر مغربی قوتوں کی سرپرستی حاصل نہ ہو تو موجودہ حکومت ایک دن میں ختم ہوجائے۔ حالات کا اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ عالمی ادارے اور مغربی حکومتیں چاڈ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں۔ وہ اپنی مرضی ہی کے حکمرانوں کو یہاں مسلط رکھیں گی خواہ موجودہ صدر کی صورت میں یا اس کے متبادل کے طور پر۔ آپ حیران ہوں گے کہ چاڈ سے جو پٹرول نکلتاہے، وہ عالمی بنک کے قرضوں کی سرمایہ کاری سے کیمرون کی بندرگاہ کریبی (Karibi) تک ۷۰۰ میل لمبی پائپ لائن کے ذریعے پہنچا دیا جاتا ہے۔ وہاں سے عالمی بنک مختلف ممالک کو عالمی منڈی کے بھائو پر فروخت کردیتا ہے۔ اس سے چاڈ کو محض ساڑھے ۱۲ فی صد رائلٹی ملتی ہے جو صریح ظلم ہے۔ اس میں سے بھی جنوری ۲۰۰۶ء میں عالمی بنک نے ۱۲۵ ملین ڈالر کی رائلٹی کئی عذر ہاے لنگ کو جواز بناکر منجمد کردی۔ اس کے علاوہ ایک سابقہ معاہدے کے مطابق فراہم کی جانے والی ۱۲۴ ملین ڈالر کی امداد بھی روک لی گئی۔ یوں ملک کی اس دولت پر بھی مقامی آبادی کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ ظلم جب تک دنیا میں جاری رہے گا، انسانیت آزادی اور چین کا سانس کیسے لے سکے گی؟ تیسری دنیا میں نہ معاشی آزادی ہے، نہ سیاسی حریت۔ دنیا ایک حقیقی انقلاب کی پیاسی ہے۔ سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوبے بغیر انقلاب نہیں آسکتا۔