مارچ ۲۰۰۸

فہرست مضامین

عظیم کارنامہ

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | مارچ ۲۰۰۸ | حکمت مودودی

Responsive image Responsive image

ہم مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے رہنما ہیں اور ہمیشہ کے لیے ہیں۔ بظاہر یہ بہت بڑی بات ہے جوکسی انسان کے متعلق کہی جاسکتی ہے مگر جس بلندپایۂ ہستی کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے، اس کا کارنامہ واقعی ایسا ہے کہ اس کے لیے یہ قول مُبالغہ نہیں بلکہ عین حقیقت ہے۔

دنیا کے رہنما میں اولین صفت یہ ہونی چاہیے کہ اس نے کسی خاص قوم یا نسل یا طبقے کی بھلائی کے لیے نہیں، بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کیا ہو۔ ساری قوموں کے انسان کسی ایک شخص کو اپنا لیڈر صرف اسی صورت میں مان سکتے ہیں، جب کہ اس کی نگاہ میں سب قومیں اور سب انسان یکساں ہوں۔ وہ سب کا خیرخواہ ہو اور اپنی رہنمائی میں کسی طرح ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دے۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں یہ صفت بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ آپؐ کی زندگی کسی قوم پرست یا وطن پرست کی زندگی نہ تھی بلکہ ایک محبِّ انسانیت کی زندگی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ کے عہد میں حبشی، ایرانی، رومی، مصری اور اسرائیلی اُسی طرح آپؐ کے رفیق کار بلکہ جاں نثار بنے جس طرح عرب۔ آپؐ کے بعد بھی دنیا کے ہر ملک اور ہرنسل کے لوگ آپؐ  کے متبعین میں شامل ہوتے چلے گئے اور مل کر ایک ملّت بن گئے۔

دوسری اہم صفت رہنماے عالم میں یہ ہونی چاہیے کہ اس کے پیش کردہ اُصول عالم گیر اور ہمہ گیر ہوں، تمام دنیا کے انسانوں کی یکساں رہنمائی کرتے ہوں، اور ان میں انسانی زندگی کے  تمام اہم مسائل کا حل موجود ہو۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اس معاملے میں بھی کامل ہے۔ آپؐ  نے کسی مخصوص قوم یا ملک کے مسائل سے بحث کرنے کے بجاے پوری انسانیت کے مسائل کو لیا ہے، اور ان میں ایسی رہنمائی دی ہے جس پر بنی نوع انسان بحیثیت مجموعی تمام دنیا میں عمل کرکے دنیا اورآخرت کی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

تیسری بنیادی صفت جس کے بغیر کوئی شخص سارے جہاںکا رہنما نہیں ہوسکتا یہ ہے کہ اس کی رہنمائی کسی خاص زمانے کے لیے نہ ہو بلکہ وہ ہرزمانے میں صحیح اور قابلِ عمل ہو۔ عالم گیر رہنما  وقتی وزمانی نہیں ہوسکتا۔ یہ لقب تو اسی کو زیب دیتا ہے جس کی رہنمائی رہتی دنیا تک کارآمد رہے۔ اس کسوٹی پر بھی اگر کسی کی تعلیم و ہدایت پوری اُترتی ہے تو وہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ہے۔ وہ ایک روشنی کا مینار تھے جوصدیوں سے دنیا کو راہِ راست دکھا رہا ہے اور زمانہ جیسے جیسے گزرتا جا رہا ہے اس کی روشنی اور زیادہ نکھرتی چلی جارہی ہے۔

دنیا بھر کا لیڈر ہونے کے لیے چوتھی اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس نے صرف اُصول پیش کرنے ہی پر اکتفا نہ کیا ہو بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کو زندگی میں عملاً جاری کرکے دکھا دیا ہو اور ان کی بنیاد پر ایک جیتی جاگتی سوسائٹی پیدا کردی ہو۔ محض اُصول پیش کرنے والا زیادہ سے زیادہ ایک مفکّر ہوسکتا ہے، لیڈر نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے صرف خیالی نقشہ پیش نہیں کیا بلکہ اس نقشے پر ایک زندہ سوسائٹی پیدا کر کے دکھا دی، اور۲۳ سال کی مختصر مدت میں لاکھوں انسانوں کو خدا کی حکومت کے سامنے سراطاعت جھکا دینے پر آمادہ کردیا۔ ایک نیانظامِ اخلاق، نیا نظامِ تمدن، نیا نظامِ معیشت اور نیا نظامِ سلطنت پیدا کر کے تمام دنیا کے سامنے یہ عملی مظاہرہ کردیا کہ ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر کتنی اچھی، کتنی پاکیزہ اور کتنی صالح زندگی وجود میں آتی ہے۔

یہ ہے وہ کارنامہ جس کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت پوری دنیا کے رہنما ہیں، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں۔ آپؐ کی تعلیم کسی خاص قوم کی جایداد نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کی مشترک میراث ہے جس پر کسی کا حق کسی دوسرے سے کم یا زیادہ نہیں ہے۔ جو چاہے اس  میراث سے فائدہ اٹھائے اور جو چاہے فائدہ نہ اُٹھا کر ابدی محرومی میں مبتلا رہے۔ (بنام ایڈیٹر اتحاد، جولائی ۱۹۶۲ئ)۔ (مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی، حصہ اوّل، مرتبہ: عاصم نعمانی، ص۳۳-۳۵)