مسلم دنیا ابھی مصر میں فوجی قیادت کے ہاتھوں جمہوریت کے قتل اور تحریکِ اسلامی مصر پر نئی ابتلا و آزمایش ، تیونس میں فوجی قوت کے استعمال کے بغیر اسلامی پارٹی کی گرفت ڈھیلی ہونے، عراق میں شیعہ اور سُنّی ٹکرائو اور شام میں بشارالاسد اور اسلام دوست شامی آبادی کے درمیان مسلح آویزش کے صدمات سے دوچار ہی تھی کہ یمن میں ایک نئے محاذ کے کھلنے سے خطے میں امن، سلامتی اور تحفظ کے نئے مسائل اُبھر کر سامنے آگئے۔
تقریباً ایک عشرہ قبل اُردن کے شاہ عبداللہ نے صدام حسین کا تختہ اُلٹنے کے موقعے پر امریکا کے اس اقدام پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں خطے میں shia cresent کا اثر بڑھے گا۔ گویا مسلم دنیا کو شیعہ سُنّی کی عینک سے دیکھ کر اس میں نااتفاقی اور ٹکرائو کا پیدا کیا جانا مغرب زدہ ذہن اور مغربی مراکز دانش (think tanks) کا محبوب موضوع آغاز ہی سے رہا ہے۔ عرب بہار ایک اعلیٰ جمہوری مقصد کے لیے برپا ہوئی تھی۔اسے بھی مغربی طاقتوں نے کامیاب نہ ہونے دیا اور شرق اوسط میں مسلم ممالک میں بدامنی، لاقانونیت اور آمریت کے فروغ کے امکانات کو زیادہ سے زیادہ قوی کرنے میں اپنی حکمت عملی کا استعمال کیا۔
عراق میں ایرانی تربیت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی قوت نے ان خدشات کو تقویت دی لیکن جلد ہی حزب اللہ نے اپنے اثر کو شام میں بھی بڑھا دیا۔ ایران کے معروف عسکری ماہر جنرل قاسم سلیمانی نے عراق میں بطور عسکری مشیر ایران کے القدس بریگیڈ کو جو ایران کے انقلابی Revoltionery guards کی شاخ ہے، براہِ راست اپنی نگرانی میں متحرک رکھا ہوا ہے۔
ان حالات میں ۲۶مارچ ۲۰۱۵ء کو سعودی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ اس کی فوج پڑوسی ملک یمن میں کارروائی کر رہی ہے تاکہ ’حقیقی حکومت‘ کو بحال کیا جاسکے۔ اس سے قبل منصور ہادی کو ان کے قصرِصدارت پر قبضہ کر کے حوثی قبیلے کے جنگ ُجو افراد نے عدن بھاگنے پر مجبور کردیا تھا اور جب حوثی قبیلے کی افواج عدن کے قریب پہنچیں تو وہ سعودی عرب میں پناہ گزین ہوگئے۔
حوثی قبیلے میں زیدی اور شافعی دونوں کی فقہ کے پیروکار پائے جاتے ہیں اور قبائلی نظام میں ایک سے زائد فقہی مسالک کا پایا جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ اس لیے ان میں ایک بڑی تعداد زیدی فقہ کو ماننے والوں کی بھی ہے جو شیعہ مسلک میں سب سے زیادہ اہلِ سنت کے قریب فرقہ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے دوران حوثی قبیلے نے اپنے آپ کو بہت منظم کرلیا ہے اور اب یہ گوریلا جنگ کے تمام طریقوں سے مکمل طور پر لیس ہے۔ یمن کے چپے چپے سے ان کی واقفیت، یمن کی معاشی بدحالی اور سیاسی انتشار کی بنا پر انھیں عوام کے ایک طبقے کی حمایت بھی حاصل ہوچکی ہے۔ اس لیے اس پورے قضیے میں فیصلہ کن امر جنگ اور اسلحے کا استعمال نہیں ہوسکتا۔ بعض مغربی مبصرین کا یہ انتباہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح جنگ کا راستہ اختیار کرنے کے نتیجے میں امریکا کے لیے ویت نام ایک مسئلہ بناتھا، ایسے ہی شرق اوسط میں موجودہ تنازع بڑی قبیح اور خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔
ان حالات میں یمن کے عبوری صدر (transitional president) کی دعوت اور ان کی حکومت کے دفاع اور بحالی کے لیے کیے جانے والے اقدام نے شرق اوسط کی صورت حال کو مزید گمبھیر کردیا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کا کردار بھی بڑا مخدوش اور حالات کو بگاڑ کی طرف لے جانے والا ہے۔ خانہ جنگی اب ایک علاقائی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جو پورے شرقِ اوسط کے لیے بڑی خطرناک ہے۔
تازہ ترین اطلاعات یہ بتاتی ہیں کہ مصر اور ۱۰ ہمسایہ ممالک کی مشترکہ فوج کے قیام اور سعودی عرب کے علاوہ دیگر مسلم ممالک کی ہوائی فوج کے حملوں میں حصہ لینے کے باوجود ابھی تک اس کارروائی کے متوقع اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے۔ مغربی ابلاغِ عامہ کے تبصروں اور تجزیوں کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ تنہا ہوائی حملوں سے حوثی قبیلے کی پیش قدمی پر کوئی فیصلہ کن اثر پڑنا مشکل ہے۔ ان حملوں کے باوجود حوثی قبیلے نے عدن کی اہم بندرگاہ پر اپنا تسلط قائم کرلیا ہے۔ ہادی کی ہمدرد فوج میں بھی پھوٹ کے آثار ہیں اور ان میں سے کچھ حوثی قبیلے کے ساتھ تعلقات استوار کررہے ہیں۔ اس بنا پر مغربی دانش وروں کا کہنا ہے کہ ہادی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے اور حوثی بغاوت پر قابو پانے کے لیے زمینی افواج کو میدان میں اُتارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں جو خود اپنے اندر بے پناہ خطرات اور ایک مستقل جنگ کے امکانات رکھتا ہے۔ ایسے حالات میں بالعموم دوبدو جنگ سے کہیں زیادہ گوریلا جنگ کی صورت پیدا ہوجاتی ہے جس کا سلسلہ لامتناہی ہوسکتا ہے اور جس کی تباہ کاریاں بڑی بڑی عسکری طاقتوں کے لیے طویل عرصے تک برداشت کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ان حالات میں مسلم دنیا اور مغرب دونوں کے لیے فوری طور پر یہ فیصلہ کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ خطے کو مزید خون خرابے اور طویل عدم استحکام سے بچانے کے لیے نئی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔
اس تناظر میں سعودی عرب کے ہمسایہ اور دوست ممالک کا کردار کیا ہو اور مسئلے کو حل کی طرف کس طرح لے جایا جائے؟ یہ نہ صرف ہر سوچنے سمجھنے والے پاکستانی کے لیے بلکہ مسلم دنیا کے ہر شہری کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
مصر اور سعودی عرب کو اس سے قبل ۱۹۶۰ء کے عشرے میں جنوبی اور شمالی یمن کے باہمی تنازع کے تناظر میں اپنی عسکری قوت کا استعمال کرنے کا تجربہ ہوچکا ہے، اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دونوں ممالک قوت کے استعمال کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرسکے تھے بلکہ سعودی عرب کو اپنی جغرافیائی حدود کا ایک حصہ کھونا پڑا۔ مصر نے دوبارہ خلیج کی حکومتوں کے ساتھ مل کر جو اجتماعی فوج بنائی ہے اس میں اپنی افواج کو شامل کرایا ہے اور مصری بحری بیڑے نے عدن پر گولہ باری بھی کی ہے۔ عربوں کی مشترکہ فوج جو کچھ کر رہی ہے اس کے مثبت نتائج کا نکلنا مشکل ہی نظر آرہا ہے۔
اس نازک صورت حال میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر جو محتاط موقف اختیار کیا ہے۔ اسے سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں میں گوپسند نہیں کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ مکمل جذباتی اور دینی اتحاد کے پس منظر میں پاکستان کا کردار ایک قلبی دوست اور رفیق کار ہی کا ہونا چاہیے۔ جس کا ہدف جنگ کی آگ کو بجھانا، امن کے حالات پیدا کرنا، یمن کی بغاوت کو بطریق احسن قابو میں لانا، حقیقی مسائل کے حل کے امکانات کو روشن کرنا اور علاقے میں دوبارہ دوستا نہ ماحول پیدا کرنا ہے۔ سعودی عرب کی جغرافیائی حدود کی حفاظت اور علاقے میں ایران کے کردار کو ان حدود کا پابند کرنا ہے جو علاقائی امن کے لیے ضروری ہے۔ نیز علاقے کو فرقہ وارانہ جذبات کی انگیخت سے بچاکر اُمت کی وحدت اور بھائی چارے کے فروغ کی راہوں کو استوار کرنا ہے۔ یہ مشکل کام ہے لیکن کرنے کا اصل کام یہی ہے۔
وَاِِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا ج فَاِِنْم بَغَتْ اِِحْدٰہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ ج فَاِِنْ فَآئَتْ فَاصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ط اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o (الحجرات ۴۹:۹) اور اگر اہلِ ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑجائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اس آیت ِ مبارکہ میں قرآن کریم اہلِ ایمان کے درمیان قانون صلح و جنگ کے اصول کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرماتا ہے۔ پہلی بات جو بطورِ فریضہ بیان کی گئی ہے دو مسلمان گروہوں کے درمیان جنگ کی شکل میں صلح کروانا ہے۔ مسلمان تماشائی بن کر جنگ و جدال کو گوارا نہیں کرسکتا۔ امن اور صلح کی تمام کوششیں، ہرقسم کے دبائو کا استعمال جب ناکام ہوجائے تو پھر حکم دیا گیا ہے کہ یہ تحقیق کی جائے کہ ظالم کون ہے چاہے وہ کسی مسلمان کا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، ہم قبیلہ اور ہم برادری ہی کیوں نہ ہو۔
یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ تحقیق سے مراد مغربی میڈیا کی بے بنیاد افواہوں پر اعتماد نہیں ہے بلکہ اپنے ذرائع سے صحیح معلومات کاحصول ہے۔ اگر تحقیق سے یہ ثابت ہوجائے کہ ایک فریق ظلم کر رہا ہے تو پھر مظلوم کے ساتھ مل کر ظالم کی اصلاح کے لیے جنگ میں حصہ لینا فرض کردیا گیا ہے۔ یہاں بھی مطلوب یہ نہیں ہے کہ ’ظالم‘ کا صفایا کردیا جائے۔ اس کے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو بغیر کسی تحقیق کے آگ کے شعلوں میں تباہ کردیا جائے بلکہ ظالم کی اصلاح مقصود ہے۔ اس لیے فوراً یہ بات فرمائی گئی کہ اگر جنگ کے نتیجے میں ظالم راہِ راست پر آجائے تو پھر انصاف کا رویہ اختیار کرو۔ عدل مطالبہ کرتا ہے کہ ظالم کے زیر ہوجانے کے بعد نہ اسے غلام بنایا جائے ، نہ اسے ابدی دشمن سمجھا جائے، نہ اس کے بارے میں دل میں نفرت اور شک و شبہے کو جگہ دی جائے بلکہ اب وہ دوبارہ تمھارا بھائی ہے۔ سبحان اللہ! کتنا عادلانہ اور حکیمانہ فیصلہ ہے کہ جنگ کے زخموں کو اب اخوت کی محبت و درگزر کے مرہم سے مندمل کردیا جائے۔ یہاں کوئی مستقل حزبِ اختلاف اور دشمن گروہ کا وجود نظر نہیں آتا۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ کام اللہ کے تقویٰ، خوف اور خشیت کے ساتھ کیا جائے تاکہ مستقل امن اور اعتماد بحال ہوسکے۔
قرآن کے اس بین الاقوامی قانون صلح و جنگ کے سلسلے میں اہلِ ایمان کے درمیان جنگ کی شکل میں ہدایت کی موجودگی میں مسلم ممالک کے لیے اس کے سوا کوئی اور شکل نہیں رہتی کہ وہ قرآن کے حکم پر خلوصِ نیت اور عظیم تر جدوجہد کے ساتھ اپنی حد تک کوشش میں کمی نہ کریں اور حالات کی سختی سے قطعاً نااُمید اور متاثر نہ ہوں۔
پاکستان کی پارلیمنٹ کا محتاط رویہ اسی قرآنی اصول کا مظہر نظر آتا ہے۔ سعودی عرب سے ہمارا گہرا اور دیرینہ تعلق ہماری خارجہ پالیسی کا ایک ستون ہے اور پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے دوست اور پشتی بان اور دُکھ درد اور خوشی اور غم میں برابر کے شریک ہیں۔ حرمین شریفین کی تقدیس اور ان کا تحفظ ہماری مشترک ذمہ داری ہے۔ اور سعودی عرب کی سالمیت کو اگر کوئی خطرہ ہو تو خطرے کی اس گھڑی میں اس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہمارا فرض ہے۔ لیکن اس واضح common interest کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سعودی عرب کے حقیقی دوست کی حیثیت سے اسے ہر اس گرداب میں پھنسنے سے بچانے کی کوشش کریں جو اس کے اور خطے کے لیے مشکلات اور مصائب کا باعث ہوسکتا ہے کہ حقیقی دوستی اور خیرخواہی کا یہی تقاضا ہے۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ سعودی عرب کے مفاد کے پیش نظر مصالحت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پورا علاقہ ایک طویل المیعاد جنگ اور تنازعے کی دلدل میں دھنس سکتا ہے۔ ہماری اس راے کی بنیاد وہ زمینی حقائق ہیں جنھیں مغربی ابلاغِ عامہ غیرمعمولی طور پر غلط سلط کرکے پیش کر رہا ہے۔ یہ بات زوروشور سے اور بار بار کہی جارہی ہے کہ حوثی شیعہ قبیلہ ہے، جب کہ اس قبیلے میں زیدی اور شافعی دونوں مسالک کے پیروکار موجود ہیں۔یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ یمن میں اندرونی خانہ جنگی میں شیعہ سُنّی آپس میں نبردآزما ہوگئے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ یمن میں زیدی فقہ کے ماننے والے اور شافعی مذہب کے ماننے والے صدیوں سے ایک ساتھ معاشرتی تعلقات کے ساتھ موجود ہیں۔
بعض معتبر ذرائع نے یہ بات بھی بیان کی ہے کہ حوثی قبیلے نے بیش تر اسلحہ وہ استعمال کیا ہے جو ہادی کی حمایتی فوج کے ذخیروں سے حاصل کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ایرانی اسلحہ بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ کچھ ایرانی نیشنل گارڈ کے کمانڈر اور کارندے بھی حوثی قبائل کے ساتھ ہیں۔ یہ بہت تشویش ناک صورت حال ہے لیکن اس قضیے کو شیعہ سُنّی جنگ سے تعبیر کرنا حقائق اور مصالح دونوں کے خلاف ہے۔ گو،مغربی طاقتوں کی حکمت عملی آج سے نہیں، عراق کی جنگ سے یہی رہی ہے کہ کسی طرح شیعہ سُنّی کو ٹکرایا جائے تاکہ اندرونی امن قائم نہ ہو اور مغربی طاقتیں جس طرح چاہیں خطے کے وسائل سے فیض یاب ہوتی رہیں۔
سعودی عرب کے وسیع مفادات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سعودی عرب اور یمن میں جلد از جلد جنگ بندی ہو اور اعتماد کی فضا کو بحال کیا جائے۔ یہ مسئلہ دوممالک کی سرحدوں پر ہونے والی جنگ کا نہیں ہے بلکہ خود اندرونی استحکام کے لیے غیرمعمولی اہمیت کا ہے۔ اس وقت سعودی عرب کی آبادی کا ۲۰ فی صد حصہ یمنی الاصل افراد پر مبنی ہے اور یہ شیعہ نہیں بلکہ سُنّی ہیں۔ ماضی میں بعض معروف شخصیات جو سعودی عرب کی اعلیٰ وزارتوں پر فائز رہی ہیں ان کا قبائلی تعلق یمن کے قبائل سے ہے۔ دو معروف وزرا میں تیل کے وزیر اور وزیرتعلیم کا تعلق یمن سے تھا۔ اس لیے یہ تنازع دو ملکوں کا نہیں ہے بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ وسیع تر مفادات سے تعلق رکھتا ہے۔
اگر اس مسئلے کو فوری طور پر صلح اور مصالحت کی طرف نہیں لے جایا گیا تو یہ آگ محض سرحدوں پر نہیں رہے گی۔ پاکستان کا دوستی، اخوت اور ہرلحاظ سے قربت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس آگ کو پھیلنے سے روکیں کیونکہ جنگ اس کا حل نہیں ہے۔سعودی عرب سے یگانگت کے اظہار کا صحیح راستہ اس جنگ کو روکنا ہے اور ایران سے دوستی کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اسے اس علاقے میں ہر ایسے کردار سے روکا جائے جو فساد کا باعث ہو۔ یہ راستہ نازک اور مشکل راستہ ہے اور وقت کا تقاضا یہی ہے۔
اس کے مقابلے میں امریکی مفاد یہی ہے کہ مسئلے میں زیادہ سے زیادہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر معاشی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہو اور وہ اپنی اسلحے کی سوداگری کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے سکے۔ وہ بظاہر یہی کہتا رہے گا کہ سعودی عرب اس کا روایتی حلیف ہے۔ اس لیے اس کی افواج اور اسلحہ اس کے لیے حاضر ہے ، جب کہ سعودی عرب کے تیل کو کم قیمت پر خریدنے کے بدلے اسلحہ دے کر وہ اپنی معیشت کوچمکاتا رہے گا اور سعودی عرب کو ایک ختم نہ ہونے والی جنگ میں دھکیل دے گا۔
ایران کو اس عرصے میں خطے میں جو برتری حاصل ہوئی ہے اور جس طرح اس کے روایتی ’بڑے شیطان‘ کے ساتھ تعلقات میں استواری آئی ہے خواہ وہ اس کی بڑی سیاسی فتح ہو، لیکن اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عراق اور شام میں اس کے کردار نے بڑے بنیادی سوالات کو اُٹھا دیا ہے۔ ایران کی ضرورت علاقے میں سب کے ساتھ دوستی ہے، علاقے میں تفرقہ اور گروہی اور فرقہ وارانہ تصادم سے بالآخر اس کو اور علاقے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔اسی طرح شام میں بشارالاسد کی حمایت میں ایران کے رضاکاروں کا حصہ لینا، اسلحہ فراہم کرنا ، لبنان اور عراق میں عسکری تربیت یافتہ حزب اللہ کا کردار، ایران کے خطے میں عزائم کو کھول کر بیان کر رہا ہے۔
پاکستان اور ایران کے مشترکہ مفادات کا تقاضا ہے کہ پاکستان اس نازک موقعے پر ایران سے تعلقات کو کشیدہ نہ کرے بلکہ دونوں ممالک سے وسیع تر مفادات کے پیش نظر مصالحت اور صلح جوئی کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرے۔
مغرب کی حکمت عملی اس تنازعے میں واضح طور پر یہ نظر آرہی ہے کہ وہ جنگ جو آغاز میں اسلام اور مغرب کی جنگ قرار دی جارہی تھی، اور وہ دہشت گردی جس کا ہدف مغرب کو قرار دیا جا رہا تھا، اب وہ مسلمانوں کی اندرونی جنگ بن جائے اور وہ تمام مسلح گروہ جو کل تک مغرب کو نشانہ بنانے کے لیے بے تاب نظر آتے تھے اب مسلکی اختلاف، قبائلی عصبیتوں اور علاقائی مفادات کے غلام بن کر ایک دوسرے کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنائیں۔ شام میں نام نہاد اسلامی حکومت کا قیام بھی اسی حکمت عملی کا ایک حصہ نظر آتا ہے۔
پاکستان کو اس نازک مرحلے میں عالم گیر اسلام دشمن قوتوں کے عزائم اور حکمت عملی کو سمجھتے ہوئے دشمن کی ہر چال کو ناکام بنانے کے لیے ہوش اور عقل کی بنیاد پر حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ جذبات اور وقتی مصالح سے بلند ہوکر ملّت کے وسیع تر مفاد کی بنیاد پر قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں مصالحت، بھائی چارہ اور جنگ کی آگ کو بجھانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس عظیم کردار کو ادا کرنے کی توفیق دے، آمین!
نوٹ: یہ شذرہ طباعت کے لیے جا رہا تھا کہ سعودی عرب کے ایک فوجی سربراہ بریگیڈیئر جنرل احمدالعسیری کے بیان اور یمن کے صدر منصور ہادی کے اعلان سے یہ دل خوش کُن اطلاع ملی کہ سعودی حکومت اور اتحادی قوتوں نے فضائی آپریشن روک دیا ہے ، اور مسئلے کے سیاسی حل کی راہ اختیار کی جارہی ہے۔ نیز انسانی بنیادوں پر متاثرین کی امداد کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے، الحمدللّٰہ علٰی ذٰلک۔
اللہ تعالیٰ مسلم ممالک کی قیادتوں کی رہنمائی فرمائے اور انھیں مل جل کر اپنے تمام اختلافی اُمور کو حل کرنے اور اپنے وسائل کو اُمت مسلمہ اور انسانیت کی خدمت میں استعمال کرنے کی توفیق دے۔ اور مغرب کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے پیٹ بھرنے کے بجاے اپنے عوام کی مشکلات کو دُور کرنے، غربت کا خاتمہ، صحت اور زندگی کی سہولیات کی فراہمی کے لیے استعمال کرنے کا سامان کریں۔ اور سب سے بڑھ کر تمام ممالک میں حقوقِ انسانی کی پاسداری، انصاف کے قیام اور اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کی سعی کریں تاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی و کامرانی حاصل ہوسکے۔