نائیجیریا آبادی کے لحاظ سے براعظم افریقہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق اس وقت ۱۷ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ آخری مردم شماری ۲۰۰۶ء میں ہوئی تھی جس میں ۱۴ کروڑ سے زائد آبادی ریکارڈ کی گئی۔ رقبے کے لحاظ سے ۹لاکھ ۲۳ہزار ۷سو۶۸ مربع کلومیٹر کے ساتھ یہ افریقہ کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ صرف ایک ملک تنزانیہ کا رقبہ اس سے زیادہ ہے۔ دنیا میں اس کی آبادی پاکستان کے بعد ساتویں نمبر پر شمار ہوتی ہے۔ نائیجیریا قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے مالامال ہے، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی طرح بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ نے ملک کو بدحال کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے قائم کردہ معیار کے مطابق آدھی آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یوں تو کم وبیش ۵۰ کے لگ بھگ قومیتی وقبائلی اکائیاں اور زبانیں اس ملک میں پائی جاتی ہیں۔ یوروبا اورہاؤسا دونوں برابر، یعنی ۲۱فی صد ہیں۔ تیسرے نمبر پریرایبوہے جو ۱۸سے ۱۹ فی صد تک شمار کی جاتی ہے۔ چوتھی بڑی اکائی فولا(Fula) ہے جو ۱۱فی صد ہے۔ اس طرح تقریباً ۷۱ فی صد ان چار قومیتوں اور زبانوں کا حصہ ہے۔ دیگر کوئی اکائی دو ہندسوں تک نہیں پہنچتی۔ یوں ۲۹فی صد قومیتی اور لسانی آبادی بہت سی اکائیوں میں تقسیم ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہرریاستی اکائی ایوان بالا (سینیٹ) میں بڑی اکائیوں کے برابر نمایندگی رکھتی ہے۔
براعظم افریقہ کا یہ ملک تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا ایک اہم ممبر ہے۔ گذشتہ نصف صدی سے اس ملک میں بڑے عجیب وغریب قسم کے تجربات دہرائے جاتے رہے ہیں۔ آزادی ملنے کے بعد سیاست دانوں اور فوجی جرنیلوں بلکہ بعض اوقات فوج کے جونیئرافسروں اور جرنیلوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی مسلسل جاری رہی ہے۔ جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں باوردی حکمرانوں کا پلہ بہرحال اب تک کی تاریخ میں بھاری رہا ہے۔ اب ۸؍اپریل ۲۰۱۵ء کے انتخابی نتائج کے مطابق ایک سابق جرنیل بندوق سے نہیں ووٹوں سے صدر منتخب ہوگیا ہے۔ گذشتہ چندبرسوں سے، باقاعدگی سے ایوان صدر اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے انتخابات ہورہے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ تسلسل قائم رہے اور نائیجیریا کے عوام سُکھ کا سانس لے سکیں۔ حالیہ انتخابات کافی حد تک منصفانہ بھی تھے اور غیرمتنازعہ بھی۔ اس سے قبل کبھی انتخابات پر مقامی اور عالمی سطح پر اس قدر اطمینان کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اس موقعے پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نائیجیریا کا کچھ مزید اور عمومی تعارف قارئین سے کرادیا جائے۔
نائیجیریا کی ایک عظیم تاریخ ہے۔ مغربی افریقہ کے اس علاقے میں دو صدیاں قبل ایک عظیم مجدد عثمان بن فودیوؒ نے شمالی علاقوں میں صحیح خطوط پر اسلامی خلافت قائم کی۔ ان کی ریاست کا نام سکوٹو خلافت تھا۔ کافی عرصے تک یہ خلافتی ریاست قائم رہی۔ بعد میں انگریزی استعمار نے نائیجیریا پر قبضہ کیا تو ۱۹۰۳ء میں یہ ریاست ختم کردی گئی۔ اس ریاست کے اثرات آج بھی شمالی نائیجیریا میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ انگریزوں نے کم وبیش ڈیڑھ صدی نائیجیریا پر حکومت کی۔ ۱۹۶۰ء میں نائیجیریا کی آزادی کا اعلان ہوا، جب کہ عملاً تین سال بعد یکم اکتوبر۱۹۶۳ء کو اس کو ایک مکمل آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا گیا اور اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت منظور ہوئی۔ آزادی کے بعد نائیجیریا میں مسلسل فوجی انقلاب آتے رہے۔ نائیجیریا کو جمہوری انداز میں چلانے کے لیے کئی سیاسی تنظیموں نے جدوجہد کی، مگر ہر مرتبہ فوجی جرنیل اقتدار پر قابض ہوتے رہے۔ آزادی کے بعد نائیجیریا کے پہلے صدر آزیکیوے (Azikiwe) تھے۔ آزیکیوے کے بعد نوافور اوریزو (Nwafor Orizu) صدر منتخب ہوئے۔ وہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ جب وفاقی حکومت بنی تو سر ابوبکر تفاوا بلیوا وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وہ ایک اچھی شہرت کے حامل سیاست دان تھے۔ ان کے ساتھ سراحمدوبیلوشمالی خطے کے وزیراعلیٰ تھے۔ نائیجیریااس زمانے میں وفاق کے تحت دوریاستوں یا صوبوں، شمالی اور جنوبی میں تقسیم کیا گیا تھا، جس طرح کبھی ہمارے ہاں مشرقی اور مغربی پاکستان تھے۔ شمالی خطہ مسلم اکثریت اور جنوبی غیرمسلم اکثریت کا حامل تھا۔
اس دور میں فوج نے سیاست دانوں پر ناروا دباؤ ڈالنا اور خود بلاجواز مراعات حاصل کرنا شروع کردیں۔ اس وقت کے صدر اوریزو نے فوج کے عزائم بھانپتے ہوئے مضبوط موقف اپنانے کے بجاے بزدلی دکھائی اور خود ہی حکومت فوج کے حوالے کردی۔ فوجیوں نے سمجھا کہ سرابوبکر اور سراحمدوبیلو ان کے راستے کی رکاوٹ ہوں گے۔ چنانچہ لیفٹیننٹ کرنل یعقوبو گوون نے ایک اور فوجی بغاوت کردی۔ فوج کے اعلیٰ افسران کو معطل کردیا اور وزیراعظم و وزیراعلیٰ کو شہید کردیا گیا۔ یہ ۱۹۶۶ء کی بات ہے۔ اس کے بعد نائیجیریا میں مختصر عرصے کے لیے سول حکومت وجود میں آئی، جس کے سربراہ مسلمان سیاست دان شیخو شغاری تھے۔ جمہوری حکومت کی کرپشن کو بہانہ بنا کر پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسی دوران نائیجیریا میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور نائیجیریا دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ بیافرا کی ریاست وجود میں آئی۔ کچھ عرصے کے بعد نائیجیرین آبادی کو احساس ہوا کہ اس خانہ جنگی اور تفریق کے نتیجے میں نائیجیریا برباد ہوجائے گا۔
اسی دوران نائیجیریا کے مختلف علاقوں میں تیل کی دریافت ہوئی۔ ملک متحد تو ہوگیا، مگر فوجی انقلاب کی مصیبت ایسی شروع ہوئی کہ ایک فوجی آمر کو دوسرا فوجی آمر اقتدار سے محروم کرکے حکومت پر قابض ہوتا چلا گیا۔ ۱۹۶۶ء کے بعد ۱۹۷۹ئ، ۱۹۸۳ء اور ۱۹۹۸ء میں یکے بعد دیگرے چار فوجی بغاوتیں ہوئیں جو ناکام ہوتیں تو غداری قرار پاتیں، مگر کامیابی کے بعد انقلاب کہلائیں۔ یہ فوجی حکومتیں بھی نام نہاد انتخابات کا ڈھونگ رچاتی رہیں۔ فوجی آمروں میں مسلمان بھی تھے اور عیسائی بھی۔ لیکن مسلمان نسبتاً زیادہ تھے۔ ان مسلمان حکمرانوں میں خود موجودہ صدر محمد بخاری کا نام بھی آتا ہے۔ انھوں نے ۱۹۸۴ء میں فوجی جرنیل کے طور پر مسلمان سیاست دان شیخوشغاری کا تختہ الٹا تھا۔ بہت جلد ۱۹۸۵ء میں بخاری کے خلاف بغاوت ہوگئی اور جنرل ابراہیم بابا گیڈا برسرِاقتدار آگیا۔ دیگر جرنیلوں میں، جو وقتاً فوقتاً برسراقتدار آتے رہے، جنرل مرتضیٰ محمد، جنرل ثانی اباچہ اور جنرل عبدالسلام ابوبکرکے نام آتے ہیں۔ ۱۹۸۴ء میں محمدبخاری پہلی مرتبہ ۴۱سال کی عمر میں باوردی برسراقتدار آئے اور پھر اقتدار سے محرومی کے بعد بغیر وردی کے انتخابات کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کی ناکام کوشش کرتا رہے۔ بالآخر اب ۷۲سال کی عمر میں وہ ووٹ کے ذریعے ملک کا سربراہ منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
موجودہ انتخابات میں صدر گڈلک جوناتھن اور ان کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوگئی ہے۔ جوناتھن ملک کے چودھویں سربراہِ ریاست تھے۔ جنرل محمدبخاری کی پارٹی آل پروگیسو کانگریس فتح یاب ہوگئی ہے۔ غیرملکی مبصرین نے ان انتخابات کو منصفانہ اور غیرجانب دارانہ تسلیم کرلیا ہے۔ صدارتی انتخابات میں محمدبخاری کو پہلی بار کامیابی ملی ہے۔ اس سے قبل وہ تین مرتبہ انتخابات میں قسمت آزما چکے تھے، مگر ہرمرتبہ شکست کھاتے رہے ہیں۔ جیتنے والے مسلم صدر محمدبخاری کو ایک کروڑ ۵۴ لاکھ ووٹ ملے، جب کہ ہارنے والے امیدوا سابق صدر گڈلک جوناتھن نے جوعیسائی ہیں، بھی ایک کروڑ ۲۹لاکھ ووٹ لیے۔ دونوں امیدواروں نے اپنے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ نائیجیریا کی ۳۶ریاستیں اور ایک وفاقی اکائی، دارالحکومت ابوجا ہے۔ پچھلے پارلیمان میں گڈلک کی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل تھی۔ اب صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
نائیجیریا کی وفاقی پارلیمان میں سینیٹ اور وفاقی اسمبلی شامل ہیں۔ سینیٹ میں ۱۰۹ نشستیں ہیں، جن میں سے ایک نشست وفاقی ایریا کی ہے اور باقی نشستیں ۳۶ ریاستوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ ہرریاست کے سینیٹ میں تین نمایندے ہوتے ہیں۔ وفاقی اسمبلی کی کل ۳۶۰نشستیں ہیں، جو تمام ریاستوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے تقسیم کی گئی ہیں۔ سابق صدر کی پارٹی کو پچھلی پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل تھی، یعنی سینیٹ میں ۹۶ اور قومی اسمبلی میں ۲۲۳؍ارکان۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو اسمبلی کی ۹۶ اور سینیٹ کی ۲۷نشستیں حاصل تھیں۔ نئے انتخابات کے بعد جنرل محمد بخاری کی آل پروگریسو کانگریس کو اسمبلی میں ۳۶۰ کے ایوان میں ۲۲۵نشستوں پر کامیابی ہوئی، جب کہ سابق صدر جوناتھن کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ۱۲۵نشستیں حاصل کرپائی۔ ۱۰نشستوں پر دیگر چھوٹی پارٹیوں کے امیدوار جیت گئے۔ سینیٹ میں ۱۰۹کے ہاؤس میں بخاری کی پارٹی نے ۶۰نشستیں جیتیں، جب کہ جوناتھن بھی ۴۹نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔ صدر کے انتخاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ عام ووٹوں کے علاوہ ریاستوں کی اکثریت میں بھی برتری حاصل کرے۔ اگر اس کے ووٹ زیادہ ہوں، مگر ریاستوں میں سے اکثر میں وہ نہ جیتا ہو تو انتخاب دوبارہ ہوتا ہے۔ ریاستوں کے حجم میں بہت بڑا تفاوت ہے۔ صدرمحمدبخاری کو نہ صرف ووٹوں میں برتری حاصل ہے ، بلکہ اکثر ریاستوں میں بھی راے دہندگان کی واضح اکثریت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ پارلیمان اور سینیٹ کے انتخابات کے نتائج ابھی مکمل نہیں ہوئے، لیکن جیتنے والے صدر کی پارٹی کو اس میں بھی واضح اکثریت مل جائے گی۔
نائیجیریا میں گذشتہ کئی برسوں سے انتہاپسند مسلم تنظیم بوکوحرام نے بہت سی پُرتشدد کارروائیاں کی ہیں۔ ملک کی آبادی اس صورت حال سے سخت پریشان ونالاں ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ۱۲سے ۱۵ ہزار لوگ اب تک پُرتشدد کارروائیوں میں مارے جاچکے ہیں۔ بے شمار لوگ انتہاپسندوں نے یرغمال بنا رکھے ہیں۔ یہ تنظیم یوں تو مقامی ہے، مگر خود کو القاعدہ کے قریب بلکہ اسی کی شاخ سمجھتی ہے۔ عام آبادی، بالخصوص شمالی اور مشرقی علاقوں میں، اس انتہاپسندی کی وجہ سے خود کو غیرمحفوظ تصور کرتی ہے۔ امن وامان کی بحالی اور تخریب کاری کا خاتمہ موجودہ انتخابات میں امیدواروں کے منشور میں اہمیت کا حامل رہا۔ جنرل محمد بخاری نے گڈلک کے مقابلے میں اعلان کررکھا تھا کہ اگر وہ انتخاب جیت گئے تو دہشت گردوں سے ملک کو پاک کردیں گے۔ دیگر عوامل کے علاوہ اس نعرے کا اس کی کامیابی میں نمایاں کردار ہے۔ محمد بخاری نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ برسرِاقتدار آکر تخریب کاروں اور دہشت گردوں سے کوئی نرمی نہیں برتیں گے بلکہ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے گا اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت بیرونی بنکوں سے واپس وطن لائی جائے گی۔ یہ دونوں کام خاصے مشکل ہیں اور تمام مبصرین یہ تجزیہ کررہے ہیں کہ نومنتخب صدر اور ان کی حکومت کے لیے اس مشکل صورت حال سے عہدہ برآ ہونا آسان نہیں ہوگا۔
دریں اثنا سابق صدر گڈلک جوناتھن نے اپنی شکست کو خوش دلی سے تسلیم کیا ہے اور نومنتخب صدر کو ملک وقوم کے مفاد کی خاطر اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ جواب میں نومنتخب صدر نے بھی سابق صدر کے ساتھ خیرسگالی اور انھیں پورا احترام دینے کا عندیہ دیا ہے۔ اب مبصرین اور تجزیہ کار تبصرے کررہے ہیں کہ آیا نئی حکومت اپنے وعدوں کے مطابق کچھ مثبت اور نتیجہ خیز کام کرسکے گی یا ایک بار پھر فوج کے برسراقتدار آنے کا راستہ کھل جائے گا۔ اللہ کرے کہ صدر محمد بخاری ملک وقوم کے لیے کچھ اچھے کام کرسکیں تاکہ افریقہ کا یہ سب سے بڑا ملک امن وامان کا گہوارہ بن سکے۔