یقینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فرمان بے مثال ہے۔ آپؐ کی عطا کردہ دُعاؤں سے بہتر اور جامع دُعا ملنا ممکن ہی نہیں ہے۔ آپؐ کے اس فرمان نے ہر بحران سے نجات کی راہ دکھا دی، جس میں آپؐ فرماتے ہیں: رَبَّنَا اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ، پروردگار ہمیں حق کو حق دکھا اور اس کا اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما، ہمیں باطل کو باطل ہی دکھا اور اس سے اجتناب کی توفیق عطا فرما‘‘۔ زندگی کے جس فیصلے پر اس سنہری اصول کا اطلاق کریں ہمارے لیے دوجہاں کی کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔
خلیج کے حالیہ بحران ہی کو دیکھ لیجیے، دونوں طرف اتنی شدت اور سختی ہے کہ درست راے کا اظہار تک ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ یمن کے حالات پر، ٹھوس حقائق کی روشنی میں اور انتہائی احتیاط کے ساتھ چند گزارشات پیش کیں تو دونوں طرف سے جان لیوا دشنام و الزامات سننے کو ملے: ’’کتنے ڈالر لیے ہیں؟‘‘، ’’تم لوگوں نے ہمیشہ دھوکا دیا ہے‘‘، ’’تمھیں ایران نے خرید لیا ہے‘‘، ’’تم سعودیہ کے غلام ہو‘‘۔ الحمد للہ، ان میں سے کسی گالی کا جواب نہیں دیا، معاملہ کائنات کے رب کے سپرد ہے، وہ یقینا دوجہاں میں حق کو حق اور باطل کو باطل کرنے والا ہے۔
آئیے، ایک بار پھر کامل غیرجانبداری سے یمن کے سارے معاملے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ جنگ میں چار بنیادی فریق ہیں: وہاں کے باغی حُوثی قبائل، ۳۳سال تک حاکم مطلق بنا رہنے والا آمر علی عبد اللہ صالح اور اس کی حامی فوج، قومی اتفاق راے سے وجود میں آنے والی عبوری حکومت کے سربراہ عبد ربہ منصور ہادی اور اس کی حامی فوج، اور یمن کی الاخوان المسلمون سمیت دیگر اہم سیاسی جماعتیں، لیکن اس وقت ان چاروں فریقوں سے زیادہ اہم کردار سعودی عرب اور ایران کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔
باغی حُوثی قبائل یمن کے شمال میں سعودی عرب سرحدوں پر رہتے ہیں اور صعدہ نامی شہر ان کا اہم مرکز ہے۔ یہ قبائل گذشتہ تقریباً ۱۰ برس سے مسلح کارروائیاں کررہے ہیں۔ سابق آمر نے بھی اپنے اقتدار کے آخری چھے سالوں میں ان کی ساتھ چھے اہم جنگیں لڑیں۔ لڑائی چونکہ سعودی سرحدوں پر ہورہی تھی، اس لیے اس نے سعودی عرب سے بھی بھرپور تعاون حاصل کیا۔ یہی سبب، یعنی لڑائی کا سعودی سرحدوں پر ہونا، حُوثی قبائل کے لیے ایرانی تعاون کا دروازہ کھولنے کا سبب بناہے۔ دوسری طرف یہ راز بھی کھلا کہ ایران نے بالخصوص بحری راستوں سے ان قبائل تک اسلحہ اور وسائل بھی پہنچائے اور باغی حُوثی قبائل کے نوجوانوں کو ایران اور حزب اللہ کے مختلف کیمپوں میں لے جاکر ان کی عسکری تربیت بھی کی۔
۲۰۱۱ء میں جب بعض عرب ممالک سے ’عرب بہار‘ کا جھونکا آیا، تو یمنی عوام بھی ۳۳سالہ آمریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے میدان میں آگئے۔ سعودی عرب نے اس موقعے پر صدر علی عبد اللہ صالح کا ساتھ دیا۔ دوران تحریک اس پر ایک انتہائی شدید قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں اس کے کئی قریبی ساتھی مارے گئے۔ سعودی عرب نے اس موقعے پر بھی اس کی مکمل سرپرستی کی، اسے ریاض لے جایا گیا اور کئی ماہ کے علاج کے بعد اسے واپس یمنی دارالحکومت صنعاء میں لابٹھایا۔ لیکن جب عوامی تحریک، اس کے حامی اور مخالف عناصر کے مابین باہم مسلح جنگ میں بدل گئی اور اس کا اقتدار میں رہنا، ناممکن دکھائی دینے لگا، تو سعودی عرب نے دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ مل کر علی عبد اللہ صالح کو اقتدار سے دست بردار ہونے اور گذشتہ ۱۶سال سے اس کے نائب صدر چلے آنے والے عبد ربہ منصور ہادی کو عبوری صدر بنانے پر آمادہ کرلیا۔ اس موقعے پر وہاں بھی ایک NRO وجود میں آیا اور انتقال اقتدار کی شرائط میں یہ بات شامل کروادی گئی کہ علی صالح صنعاء ہی میں رہے گا، اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، اور اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔
علی صالح کو یمنی عوام ’عیار لومڑ‘ کے لقب سے پکارتے ہیں۔ اس عیاری کی ایک جھلک ملاحظہ ہو: برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف ۲۹ مارچ کے شمارے میں لکھتا ہے: ’’جب اس کے خلاف یمنی عوام کی تحریک عروج پر تھی تو اس نے امریکی افواج کو کھلی چھٹی دے دی کہ وہ ڈرون حملوں اور زمینی کارروائیوں کے ذریعے القاعدہ عناصر کا صفایا کردیں۔ لیکن عین اسی روز اس نے قصر صدارت میں یمن میں القاعدہ کے سربراہ سامی دیان کے ساتھ خفیہ ملاقات کی اور اسے کہا کہ ہم ضلع ابین سے اپنی فوجیں نکال رہے ہیں آپ لوگ وہاں اپنا اثر و نفوذ بڑھا لیں۔ اخبار کے مطابق یہ واقعہ اقوام متحدہ کے علم میں بھی آچکا ہے‘‘۔ اس نے اپنے ۳۳ سالہ دور اقتدار میں ریاست کو اپنی باندی اور عوام کو غلام بنائے رکھا۔ ہر اہم ادارہ بالخصوص فوج اپنے بیٹے احمد، دیگر رشتہ داروں اور اپنے قبیلے کے سپرد کردی اور غریب عوام کی دولت سے ذاتی تجوریاں بھرلیں۔ اس نے مجبوراً مسندصدارت سے معزولی تو قبول کرلی، لیکن اقتدار پھر بھی اپنے ہاتھ میں رکھنے پر مصر رہا۔ فوج تقسیم کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ صاحبزادے اور قبیلے کے دیگر وفادار جرنیلوں نے زیادہ تر اسلحہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس نے دوسرا خطرناک ترین اقدام یہ کیا کہ انھی باغی حُوثی قبائل جن کے ساتھ وہ گذشتہ چھے برس سے برسرِپیکار تھا، سازباز کرلی۔ اب یہ حُوثی قبائل صعدہ سے نکل کر دیگر شہروں کی طرف بھی پیش قدمی کرنے لگے اور پھر دیکھتے، دیکھتے وہ ایک روز دارالحکومت صنعاء پر آن قابض ہوئے۔ علی صالح کی وفادار فوج نے ہر جگہ ان کے لیے ہراول دستے کا کام کیا۔
صنعاء پر قبضے کے ساتھ ہی ایران بھی اس پوری لڑائی کے ایک اہم ترین فریق کی صورت میں کھل کر سامنے آنے لگا۔ دارالحکومت پر قبضے کے تیسرے روز صنعاء اور تہران کے مابین روزانہ دو باقاعدہ پروازیں شروع ہوگئیں۔ اس رُوٹ پر مسافر نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن روزانہ ایران ایئر کے دو بڑے جہاز آتے جاتے رہے۔ کیوں؟جواب جاننے کے لیے عسکری ذہن ہونا ضروری نہیں۔
اب ذرا یمن کی چھوٹی تصویر کے بجاے شرقِ اوسط کی بڑی تصویر سامنے لائیے۔ ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے لے کر پورا ملک شیعہ سُنّی اور کرد ، عرب تضاد بلکہ ٹکرائو کی دلدل میں دھنسا دیا گیا۔ صدام حسین جیسے آمر سے نجات دلانے کے نام پر عوام کو باہم ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا گیا۔ امریکی قبضے کے بعد عوامی مزاحمت کے باعث امریکیوں کو دانتوں پسینہ آنے لگا، تو اس نے انتہائی عیاری سے اس مزاحمت کا رُخ اپنی بجاے، شیعہ سنی آگ کی طرف موڑ دیا۔ اس خوں ریزی کے نتیجے میں بلامبالغہ لاکھوں عراقی شہری موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہاں ایک عجیب تضاد ملاحظہ فرمائیے کہ ’شیطان بزرگ‘ امریکا نے صدام کے بعد آج تک عراق میں انھی افراد کو حکومت سونپی جو مکمل طور پر ایران کے وفادار سمجھے جاتے ہیں۔ عالم عرب میں اس تضاد کو ’ایران امریکا خفیہ گٹھ جوڑ‘ کا نام دیا گیا، لیکن یہ درحقیقت عراقی خانہ جنگی کی آگ پر چھڑکا جانے والا امریکی تیل ہے۔ عرب ذرائع ابلاغ اس بارے میں بہت زیادہ حساسیت کا شکار ہیں۔ کئی لاکھ ایرانی شہری عراق میں لا بسانے کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے۔ عراق میں اصل مقتدر ایران ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایران پر کڑی اقتصادی پابندیوں کے خفیہ علاج کے ڈانڈے بھی عراقی سرزمین سے ملائے جاتے ہیں۔
ادھر ’عرب بہار‘ کو خزاں میں بدلنے کی آمرانہ کوششوں کے نتیجے میں شام ایک کھنڈر اور کسی ویران قبرستان کا نقشہ پیش کررہا ہے۔ بشار الاسد اور اس کے بعثی آمر باپ حافظ الاسد نے اپنے عوام اور علاقائی قوتوں کو دکھانے کے لیے اپنے ہاتھ میں ایک کارڈ اسرائیل کے سامنے مزاحمت کا بھی اٹھا رکھا تھا۔ اسی بنیاد پر پڑوسی ملک لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ دونوں کے مضبوط قریبی تعلقات تھے۔ بشار کو اپنے عوام کے ہاتھوں سنگین خطرات لاحق ہوئے تو اس نے حزب اللہ اور ایران سے بھی کھلم کھلا معاونت حاصل کی۔ پہلے تو یہ ایک الزام سمجھا جاتا تھا لیکن اب خود حزب اللہ اور ایران کے ذمہ داران اعلان کرتے ہیں کہ ان کے ’رضا کار‘ شام میں بشار کا ساتھ دے رہے ہیں۔ شام میں مارے جانے والے اپنے افراد کو، لبنان اور ایران لاکر ان کے بڑے بڑے جنازے ادا کیے جاتے ہیں۔ اب اگر ان تمام کڑیوں کو ملا کر دیکھیں، تو یمن کی حالیہ جنگ کی اصل سنگینی سامنے آئے گی۔ یمن ہی نہیں بدقسمتی سے پورا شرقِ اوسط لہو لہو ہے۔ ایک طرف سعودی عرب اور باہم کئی اختلافات کا شکار خلیجی ریاستیں ہیں، تو دوسری جانب ایران جو شمال میں عراق، شام اور لبنان کے راستے بحیرۂ روم تک جا پہنچا ہے اور اب جنوب میں یمن کے باغی حُوثی قبائل اور سابق صدر علی صالح کی پشتیبانی کررہا ہے۔ ایسے عالم میں نہ صرف خلیجی ریاستیں خود کو شمال و جنوب سے ایک بڑے شکنجے میں جکڑا دیکھتی ہیں، بلکہ خود بعض ایرانی ذمہ داران نے بھی انتہائی غیرذمہ دارانہ بیانات دے کر ان کے اس احساس کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔ سابق صدر احمدی نژاد کے دور میں ایرانی خفیہ ادارے کے سربراہ حیدر مصلحی اور اور تہران سے قومی اسمبلی کے رکن علی رضا زاکانی سمیت کئی افراد کے بیانات خود ایرانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئے، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ ہم چار عرب دارالحکومتوں (بغداد، دمشق، بیروت، صنعائ) میں حکومت کررہے ہیں اور عنقریب اب پانچویں دارالحکومت کی طرف بڑھیں گے۔ زاکانی صاحب نے تو ارکان پارلیمنٹ کے سامنے اس امر پر اظہار تشکر کیا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت میں قدس بریگیڈ نے عراق و شام کو بچا لیا۔
اس گمبھیر صورت حال میں صنعاء پر حُوثی قبائل کے قبضے، انھیں فضائی اور بحری راستوں سے اسلحے کی مسلسل ترسیل اور ان قبائل کی طرف سے سعودی سرحدوں پر وسیع عسکری نقل و حرکت نے وہ دن دکھایا کہ ۲۶ مارچ کو سعودی عرب کی طرف سے ’’فیصلہ کن طوفان: عَاصِفَۃُ الحَزَم‘‘ کے نام سے یمن پر فضائی حملے شروع کردیے گئے۔ اگرچہ ۲۶ روز کے ان حملوں کے بعد ’فیصلہ کن طوفان‘ روکنے اور: ’’اُمیدوں کی بحالی: اِعَادَۃُ الأَمَل‘‘ آپریشن شروع کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے لیکن یہ جنگ تاحال رُکی نہیں، اور تب تک جاری رہے گی جب تک یمن میں باغی قبائل کے قبضے کی بجاے، قومی اتفاق راے سے کوئی حکومت وجود میں نہیں آجاتی۔
بدقسمتی سے شرقِ اوسط میں جاری یہ تہ در تہ لڑائیاں صرف جغرافیائی اور علاقائی نفوذ کی لڑائیاں نہیں رہیں۔ نہ یہ اختلافات صرف شیعہ و سُنّی اختلاف تک ہی محدود ہیں۔ اب اس میں خودشیعہ ملیشیا کے مقابل مختلف شیعہ گروہ اُٹھائے جارہے ہیں۔ بالخصوص عراق میں موجود کئی گروہ خود بنیادی شیعہ عقائد ہی کو زیر بحث لا رہے ہیں۔ اہل سنت کے خلاف خود اہل سنت مسلح گروہ (داعش) اُٹھائے جارہے ہیں جو اپنے علاوہ باقی سب کو گردن زدنی قرار دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے مصر میں الاخوان المسلمون کے خلاف کی جانے والی بدترین کارروائی کا دائرہ خود سعودی عرب سمیت کئی خلیجی ریاستوں تک بڑھادیا گیا تھا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس پوری لڑائی میں طرفین سے چوٹی کے ذمہ داران اس آگ کو بجھانے کے بجاے اسے مزید بھڑکانے کی بات کررہے ہیں۔ رہبر قوم آیۃ اللہ العظمیٰ جناب علی خامنہ ای صاحب سے بلند مقام کس ہستی کا ہوگا۔ انھوں نے بھی ۹؍اپریل کو تہران میں منعقدہ ایک اہم دینی تقریب میں سعوی عرب کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا: ’’ یمن میں سعودیوں کی جیت کا امکان صفر ہی نہیں، منفی صفر ہے۔ یقینا وہاں سعودیوں کی ناک مٹی میں رگڑ دی جائے گی‘‘۔ جناب علی خامنہ ای صاحب نے اپنے اسی خطاب میں امریکا ایران ایٹمی معاہدے پر تفصیلی تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’میں نہ اس معاہدے کی تائید کرتا ہوں نہ مخالفت کیوں کہ ابھی تک یہ معاہدہ کچھ ہے ہی نہیں‘‘ واضح رہے کہ معاہدے پر حتمی دستخط جون میں ہونا ہیں۔ ان کا یہ جملہ ایرانی ڈپلومیسی کا بین ثبوت ہے، لیکن افسوس کہ معاملہ ایک مسلمان ملک کا تھا تو وہ شمشیر برہنہ بن کر برسے۔ ادھر حزب اللہ کے سربراہ جناب حسن نصر اللہ صاحب نے بیروت میں اپنی ۴۵ منٹ کی براہِ راست نشر ہونے والی دھواں دھار تقریر میں سعودی عرب اور ’وہابیت‘ کے خوب خوب لتے لیے۔ اور تیسری جانب امام کعبہ جناب عبد الرحمن السدیس صاحب نے خطبۂ جمعہ میں اسے صفویت و شیعیت اور اہلسنت کے مابین فیصلہ کن معرکہ قرار دے دیا۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جلتی پر تیل کا کام مسلسل کررہے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان اور ترکی کا کردار بہت اہم ہوگیا ہے۔ پاکستان میں طرفین کے حق اور طرفین کے خلاف شعلہ بار تجزیے اور بیانات کے بعد پارلیمنٹ کی جو قرار داد آئی، اسے عالمِ عرب نے اپنے خلاف اور ایران نے اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا۔ حسن نصر اللہ صاحب نے سعودی عرب کے خلاف اپنے انتہائی جارحانہ خطاب میں اس قرار داد کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے پاکستانی عوام، پارلیمنٹ اور حکومت کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ اس نے سعودی عرب کا ساتھ نہیں دیا۔ ان کے اس خطاب نے بھی عرب عوام میں پھیلایا جانے والا یہ احساس گہرا کیا کہ ہمارا فطری حلیف پاکستان ہمیں درپیش خطرات کے وقت ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔
یقینا پاکستان اور ترکی کو اس جنگ میں اضافے کا سبب نہیں بننا چاہیے لیکن اس وقت سعودی عرب میں یہ خطرہ و احساس حقیقی اور گہرا ہے کہ اسے چہار اطراف سے گھیرا اور تنہا کیا جارہا ہے۔ ایسے عالم میں پاکستان یمن میں اپنی افواج اتارے بغیر بھی سعودی عرب کو یہ یقین دلا سکتا ہے کہ پاکستان اس کی سلامتی کو درپیش خطرات سے لاتعلق نہیں۔ عالم عرب میں یہ تجزیہ و اظہار شدومد سے کیا جارہا ہے کہ اگر پاکستان جیسا ایٹمی ملک اس موقعے پر اپنی افواج سعودی عرب بھجوا دیتا ہے، تو خطے میں ایک نفسیاتی احساس اجاگر ہوگا کہ اس کا دفاع مضبوط ہے، اور اب جنگ کو مزید وسعت دینا ممکن نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اگر پاکستان، ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا اور مراکش جیسے ممالک باہم مل کر سفارت کاری کا ایسا عمل شروع کریں کہ جس میں ایران و سعودی عرب کو ساتھ لے کر یمن میں حتمی جنگ بندی، قومی اتفاق راے سے قائم حکومت کی بحالی اور شفاف انتخابات کے ذریعے آیندہ حکومت کا قیام یقینی بنایا جاسکے، تو یہ اقدام نہ صرف یمن میں استحکام و ترقی لائے گا بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثبت نظیر ثابت ہوگا۔ رب ذو الجلال کے ارشاد کے مطابق کہ: عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، آج سعودی عرب اور دیگر ریاستوں میں احساس اجاگر ہوا ہے کہ ہمیں بالآخر اپنے عوام سے صلح کرنا ہوگی۔ سینئر سعودی تجزیہ نگار جمال خاشقجی جو خود سعودی قیادت سے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں نے حال ہی میں اپنے ایک کالم میں اعتراف کیا ہے کہ ’’اخوان کو کچلنے کی ہوس نے خلیج کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے‘‘۔موجودہ سعودی قیادت کے سامنے یہ سوال کئی اطراف سے سامنے آیا ہے کہ کل تک صدر محمد مرسی جیسے منتخب آئینی صدر کے خلاف کارروائی کرنے والے آج یمن کے آئینی صدر کو بچانے کا دعویٰ کیوں کر کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مصر میں کی جانے والی غلطی کو بنیاد بنا کر اس کا اعادہ یمن میں نہیں ہونا چاہیے، بلکہ بالآخر سب کو مل کر مصر میں ہونے والی غلطی کے مداوے کی سبیل نکالنا ہوگی۔
آج یمن اور شرقِ اوسط کے ان حالات کا جائزہ لیتے ہوئے حالیہ اسلامی تاریخ کے وہ تمام زخم تازہ ہورہے ہیں کہ جب سب فریق جانتے اور مانتے تھے کہ وہ امریکی و صہیونی منصوبوں کے جال میں پھنس چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ خود کو دشمن کی ناپاک چالوں اور مہلک جال سے آزاد نہیں کرواسکے۔ستمبر ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۸ء تک عراق و ایران کے مابین تباہ کن جنگ کے وقت بھی یہی ہوا۔ افغان سرزمین نے بھی یہی تلخ حقیقت دیکھی۔ اہل فلسطین بھی اسی زہر خورانی کا شکار ہوئے (یاسر عرفات کو بالآخر صہیونی گماشتوں نے ہی زہر دے کر مارا)، اور آج ایران و سعودی عرب کو بھی اسی جال میں پھانسا جارہا ہے۔ یمن، عراق، شام، لبنان، مصر، لیبیا، صومالیہ، ہر جگہ وہی نسخہ ہے اور وہی ہلاکتیں۔ آج سب سے مطمئن، محفوظ اور شاداں صہیونی ریاست اور امریکا ہے۔ وہ ہمیں ہمارے اپنے ہی ہاتھوں ذبح کروا رہے ہیں۔ آئیے تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر، اخلاص و زاری سے پکاریں: رَبَّنَا اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہُ۔