انسان عموماًکسی عمل کے اچھے نتائج اور کامیابی کو اپنے زورِ بازو اور ہنر مندی کا نتیجہ سمجھتا ہےاور ناکامی کو اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تصور کرتے ہوئے صبر کی طرف مائل ہوتا ہے ، جب کہ قرآن کریم، اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے رحم و کرم اور انسان کی بھلائی کے حوالے سے یہ اصول بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر رحمت و شفقت کو اپنے اوپر فرض کر چکا ہے۔ چنانچہ خرابی ،ظلم و فساد اور غارت گری کے واقع ہونے میں بنیادی طور پر انسان کی اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کا دخل ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں یہ قیمتی اصول بیان کیا ہے:
وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۳۰ۭ (الشوریٰ ۴۲: ۳۰) تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے ، تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔
یہ اس لیے کہ ربِّ کریم نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے ۔وہ اپنے بندوں پر ظلم وزیادتی نہیں کرتا ۔ اپنے بندوں پر ان کی برداشت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں ڈالتا اور ہمیشہ اپنے بندوں پر رحم و کرم کی بارش کرنے پر آمادہ رہتا ہے، اس کے کرم کی کوئی انتہا نہیں ؎
کرم ہی سے تیرے پھولوں سے دامن بھر گیا میرا
کرم ہی سے تیرے کچھ اور گنجائش نکل آئی
اس لیے اگر کسی معاشرے میں انسانی حقوق کی پامالی، قید و بند اور تعذیب، پکڑ دھکڑ اور زباں بندی اور افواہ سازی کا دور دورہ ہو اور حق و انصاف کی آواز بلند کرنے والوں اور حق و انصاف کے لیے نکلنے والوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو، تو صرف ظالم کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا کافی نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ شہادتِ حق کا تقاضا ہے کہ احتسابِ نفس کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ ظلم کے غالب آنے میں خود مظلوموں کی اپنی کوتاہی و پسپائی کا کتنا دخل ہے؟ یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر شہادت حق اور امر بالمعروف کا فریضہ مؤثرانداز میں ادا نہ کیا جائے تو معاشرے میں جو اخلاقی خلا پیدا ہو گا، اسے ابلیسی قوتیں ہی پُر کریں گی۔ گویا استقامت سے ہٹ کر اپنے فرائض و واجبات کو ادا نہ کرنا فطری طور پر ظلم اور نا انصافی کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے، کیوں کہ ابلیسی قوتیں ہمیشہ اس تلاش میں رہتی ہیں کہ کہیں سے کوئی خلا ملے اور وہ اس میں گھس کر ظلم و فساد برپا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے برعکس اگر غیر متزلزل طور پر استقامت کے ساتھ حق کی شہادت ادا کی جائے تو تاریخ گواہ ہے کہ ظلم ، جبر اور مکر کی تمام چالیں آخر کار ناکام ہو جاتی ہیں اور اللہ ربّ العزت کی تدبیر ہی غالب آکر رہتی ہے: وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۵۴ (اٰل عمرٰن ۳:۵۴) ’’اور انھوں نے خفیہ چالیں چلیں تو اللہ نے بھی ان کا خفیہ توڑ کیا۔ اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے‘‘۔
ملک عزیز میں ایک عرصہ سے یہ ایک علمی بحث کی جا رہی ہے کہ ایک عادل ڈکٹیٹر اور عوام کے ایک منتخب کردہ لیکن بد عنوان شخص دونوں میں افضل کون ہے؟اول الذکر کا نقص مطلق العنان ہونا ہے جو قرآن و سنت کے منافی ہے ،جب کہ آخر الذکر کو اگرچہ نام نہاد لبرل جمہوری انتخابات میں کامیابی ہوئی ہے لیکن وہ بدعنوانی کے لیے معروف ہے۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نام نہاد جمہوریت، اسلامی ریاست کی روح کے منافی ہے۔یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ فوجی حکمران ہو یا ’عوامی ووٹ‘سے برسر ِاقتدار آنے والا سربراہ، ماضی میں دونوں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اگر کسی چیز میں کامیاب رہے ہیں، تو وہ مہنگائی،بے روزگاری ، عدم تحفظ کو بڑھانااور معاشرے میں ناانصافی اور ظلم کو فروغ دینا ہے۔ گویا اگر انتخاب کیا بھی جائے تو ایک طرف گڑھا ہے اور دوسری طرف کھائی۔
اس صورتِ حال میں کیا چوکیدار کی تبدیلی سے حالات میں بہتری ہوسکتی ہے ؟ کیا ایسے حالات میں نااُمید ہو کر ایک ہچکولے کھاتی کشتی کے بادبان سے ہاتھ کھینچ کر اسے ہوا اور پانی کی موجوں پر چھوڑ دیا جائے یا بادِ مخالف کو بادبان کا رُخ موڑ کر منزل کی طرف جانے کا ذریعہ بنایا جائے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو ہر محب وطن کو درپیش ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ کشتی کو ہوا اور موجوں پر چھوڑ دیا جائے ،جہاں اللہ کی مرضی ہو چلی جائے۔بعض سمجھتے ہیں کہ اس حدیث کی روشنی میں جس میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ایک دو منزلہ کشتی میں سفر کیا جا رہا ہو اور نچلی منزل والے پانی کے حصول کے لیے کشتی کے تلے میں سوراخ کر رہے ہوں اور اوپر کی منزل والے ، اگر انھیں اس کام سے نہ روکیں گے تو دونوں منزلوں والے کشتی کے ساتھ غرق ہوں گے۔اس لیے ان ناسمجھ افراد کو سوراخ کرنے سے روکنا دوسروں پر فرض ہوگا۔
اس حدیث میں یہ سبق ہے کہ تماش بین بن کر کشتی کو ناسمجھ لوگوں کے حوالے کر دینا دین کے منشا کے منافی ہے۔جس کشتی میں آج پاکستانی قوم سوار ہے، اس پر جن ملاحوں کا قبضہ ہے وہ خود ہی کشتی میں سوراخ کرنے میں لگے ہیں۔اس وقت اس بحث سے قطع نظر کہ کشتی لکڑی سے بنی ہے یا لوہے سے، پہلے کشتی کو ڈوبنے سے بچانا عقلی تقاضا ہے۔اس کے بعد یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ کشتی کی ساخت میں کیا تبدیلی کی جائے اور اسے کس طرح مکمل طور پر اسلام کے ابدی اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے؟
اس سوال کا آسان اور مختصر جواب جس کے لیے کسی لمبی چوڑی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے، یہ ہے کہ اصل حل تو یہی ہے کہ اسلام کے دیے ہوئے جامع اور کامل نظامِ حیات کو نافذ کیا جائے، کیونکہ ربِّ کریم نے اس نظام کو بھلائی اور نیکیوں کی بنیاد پر عدل اور حق کے تقاضوں کے پیش نظر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مدینہ کی فلاحی ریاست کی شکل میں جاری کروا کر اس کی عملیت اور جامعیت کو پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ۔ لیکن کیا یہ نفاذِ نظامِ اسلامی صرف نیک خواہشات اور مطالبات کے ذریعے ہو جائے گا؟ یا پھر اس کے لیے پہلے قوم کو اپنے نصب العین کا واضح تعین کرنے کے ساتھ ،حصول نصب العین کے لیے بنیادی ایمانی ،انسانی اور مادی وسائل کی تیاری اور فراہمی اور ماحول کی سازگاری کو واضح حکمت عملی اورمستقل مزاجی اور استقامت کے ساتھ قائم کرنے کی جدوجہد کرنی ہوگی؟ایسے افرادِ کار تیار کرنے ہوں گے جو بے غرضی اور بے نفسی کے ساتھ اپنی ہرشے اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے لگانے پر آمادہ ہوں۔ تحریک اسلامی نے اس مسئلے کے حل کے لیے جو راستہ سوچ سمجھ کر منتخب کیا ہے وہ اقامت دین کے ذریعے اصلاح حال اور تبدیلیٔ نظام کا واضح نقشہ ہے۔ یہاں یہ بحث لا حاصل ہے کہ پہلے اوپر سے نظام تبدیل ہو یا مضبوط بنیادوں پر ایک ایک اینٹ رکھ کر حصولِ مقصد کی جدوجہد اختیار کی جائے، یا بیک وقت دونوں کام کیے جائیں؟
حصول مقصد کے لیے تدبیر اور حکمت عملی جب تک زمینی حقائق کی بنیاد پر نہیں بنے گی، کامیابی نہیں ہو سکتی۔البتہ یہ بات ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جو بھی حکمت عملی اختیار کی جائے اس کی بنیاد صرف قرآن اور سنت کو ہونا چاہیے۔کامیابی کا انحصار نصب العین کے واضح ہونے کے ساتھ صحیح اور بروقت حکمت عملی کے اختیار کرنے پر ہے۔ نظامِ ظلم کی جگہ نظامِ عدل کا قیام استقامت ،صبر اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی توفیق اور نصرت کے ساتھ مشروط ہے۔
اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے عوام الناس کے ذہنوں سے شریعت کے بارے میں ایک بے بنیاد اور منتشر الخیال تصورِ شریعت کو دُور کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر ان کے ذہن میں شریعت کے نفاذ کا مفہوم واضح شکل اختیار کر سکےاور وہ ایک روایتی اور محدود تصورِ شریعت سے نجات حاصل کر سکیں۔ اس گئے گزرے ماحول میں بھی ایک پڑھا لکھا شہری ہو یا ایک دیہاتی، اگر اس سے پوچھا جائے کہ جس اخلاقی ،معاشی ،سیاسی اور معاشرتی بحران میں ملک و ملت مبتلا ہیں اس سے کس طرح نکلا جا سکتا ہے؟تو اس کا ایک ہی جواب ہوگا کہ اس کا حل نہ سرمایہ دارانہ معیشت و سیاست میں ہے ، نہ اشتراکی تصورِ حیات میں ، دنیا ان دونوں نظاموں کے تباہ کن نتائج کو بھگت رہی ہے ۔ دونوں نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ لادینیت مشرق و مغرب میں کسی مسئلے کو حل نہیں کر سکی ۔ اس لیے اسلام کے عالم گیر اور آزمودہ نظامِ شریعت کا نفاذ ہی مسائل کا واحد حل ہے۔ لیکن اگر اگلا سوال یہ کیا جائے کہ شریعت کے نفاذ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ عموماً جواب ملتا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹنا اور کسی کو بدنام کرنے والے یا افواہ سازی کرنے والے کو کوڑے مارنے اور کسی اخلاقی مجرم کو سنگسار کرنے کا نام شریعت کا نفاذ ہے ۔ اگر مزید سوال کیا جائے کہ کیا صرف ان سزاؤں کے نفاذ سے نظام میں اصلاح ہو جائے گی؟ تو عموما ًیہی کہا جاتا ہے کہ آخر دورِخلافت میں شریعت کے نفاذ نے امن و امان ،تحفظ اور معاشی خوش حالی دی تھی ،اس لیے آج بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن ہمارے خیال میں اس میں مزید گہرائی میں جا کر عقلی دلائل کے ساتھ شریعت کے مجموعی مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تحریک اسلامی تبدیلیٔ نظام کو اسلامی نظام حیات کے نفاذ کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ گویا نہ صرف قانون بلکہ تمام ریاستی نظام کو وہ تعلیم ہو یا معیشت و سیاست اور ثقافت، ہر شعبہ کو اسلامی اخلاقی اصولوں کا تابع کیا جانا شریعت کا نفاذ ہے ۔لیکن عوام الناس کا تصورِ نفاذِ شریعت اور تحریک اسلامی کا تصورِ نفاذِ شریعت عملاً ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جس کی بنا پر ایک وسیع ابلاغی خلا مستقلاً موجود رہتاہے اور اس فرق کو دُور کرنے کی فوری ضرورت ہے۔کسی بھی مسلم ملک میں عوامی رائے معلوم کی جائے تو نفاذِ شریعت کا مطلب حدود کا نفاذ ہی لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک زمانے میں اسلامی نظام کے قیام کے نعرے کے تحت حدود آرڈیننس جاری کر کے یہ تصور دیا گیا کہ ایک فوجی حکومت نے عوامی خواہش کے احترام میں یہ اقدام اٹھایا ہے۔
اس تصورِ نفاذِ شریعت نے نہ صرف اسلام کے سیاسی استعمال کے تصور کو فروغ دیا بلکہ وسیع پیمانے پر اسلامی شریعت اور حدود کے نفاذ کے نعرے کو یکساں تصور کیا جانے لگا۔ساتھ ہی ملک کے لبرل ابلاغ عامہ اور بیرونی برقی ابلاغ خصوصاً بی بی سی نے دستاویزی فلمیں بنا کر یہ تاثر گہرا کردیا کہ خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنا،گھر میں قید کرنا اور اخلاقی جرائم کی سزا میں کوڑے مارنا اورچادر سے ڈھانک کر کلاشن کوف سے گولی مارنے اور سنگسار کرنے کا نام ہی نفاذِ شریعت ہے۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار کیے گئے۔ ایک جانب اسلامی حدود کے نفاذ کو سفاکیت قرار دے کر اسلام دشمنی کی گئی اور دوسری جانب حدود کا نشانہ خواتین کو بنا کر عالم گیر پیمانہ پر مسلم دنیا میں خواتین کے ساتھ ظالمانہ رویے کے تصور کو ذہنوں میں راسخ کر دیا گیا،جو شریعت کے بنیادی مقصد سے عدم آگاہی کا واضح ثبوت ہے۔اس تصورِ شریعت کو مغربی ابلاغ عامہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور دل کھول کر اس کی تشہیر کی گئی، حتیٰ کہ پڑھے لکھے مسلمانوں میں بھی نفاذشریعت کا خوف دل و دماغ میں سرایت کر گیا۔تحریک اسلامی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کو عام فہم انداز میں عوام کے سامنے رکھے اور اہل علم کے ذریعے پورے ملک میں سیمیناروں اور سماجی مجلسوں اور علمی نشستوں کے ذریعے نفاذِ اسلام کی مثبت اور جامع تصویر کو ذہنوں میں واضح کرے۔
دوسرے الفاظ میں نفاذِ شریعت کے مغربی ابلاغ عامہ کے قائم کردہ مسخ شدہ تصور کی جگہ قرآن و سنت پر مبنی مثبت اور تعمیری تصور کو ہر سطح پر آسان زبان میں واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلا ًشریعت کے سات معروف مقاصد یعنی lتوحید l عدل l حفظِ نفس l حفظِ دین l حفظِ عقل lحفظِ نسل اور lحفظِ مال ہیں۔
ان میں ایک سب سے اہم مقصد انسانی جان کا تحفظ ہے ۔ یعنی امن عامہ کی صورتِ حال کو اس درجہ بہتر بنا دیا جائے کہ گلیوں ، بازاروں اور گھروں میں ہر فرد محفوظ و مامون ہو ، کوئی کسی کو راہ چلتے گولی کا نشانہ نہ بنا سکے ۔ کوئی راہ چلتے کسی فرد یا کاروبار میں مصروف کسی تاجر کوا سلحے کی نوک پر لوٹنے کا تصور بھی نہ کر سکے ۔ خواتین ، بچے اور معاشرےکے ہر طبقےکی جان و مال اور عزّت و آبرو کو بھرپور ریاستی تحفظ حاصل ہو۔ اسلامی شریعت کے انسانی جان کو تحفظ دینے اور انسانی حقوق کے حوالے سے نفاذِ شریعت کا یہ پہلو آج اچھے خاصے پڑھے لکھے مسلمانوں کی نگاہ سے بھی اوجھل ہے۔اس کی جگہ نفاذِ شریعت کا تصور صرف پھانسی ، کوڑے اور سنگسار کرنے کے ساتھ وابستہ ہوکر رہ گیا ہے ۔
انسانی جان کے تحفظ کے مقصد ِشریعت پر اگر ایک اور پہلو سے نگاہ ڈالی جائے تو بات زیادہ آسان ہو جائے گی یعنی انسانی جان کا تحفظ اس وقت ممکن ہے، جب عوام کو غذا اور فضا میں جراثیم ، آلودگی اور ہر قسم کی ملاوٹ اورگندگی سے پاک، صاف و شفاف پانی، غذا اور ماحول فراہم کیا جائے ۔ گویا نفاذِ شریعت کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف شہروں میں بلکہ گاؤں اور قصبوں میں بھی آلائشوں اور گرد آلود پانی کی جگہ صاف پانی وہوا فراہم کی جائے، تاکہ عوام طرح طرح کی بیماریوں کے شکار نہ ہوں۔ انسانی جان کا تحفظ اسی وقت ممکن ہے جب سڑکوں اور بازار میں جو انسان سانس لے رہے ہیں انھیں وہ ہوا میسرآئے جس میں کاربن اور دیگر گیسوں کی آمیزش اور مضر صحت اجزا موجود نہ ہوں۔ گویا ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ شریعت کے نفاذکے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔
انسانی جان اسی وقت محفوظ ہو سکتی ہے، جب زندگی بچانے والی معیاری اور اصلی ادویات عوام کو مناسب نرخوں پر دستیاب ہوں ۔ جعلی ادویات کی تیاری اور ان کی بازار میں فراہمی اور فروخت پر سخت پابندی ہو، چنانچہ ایسے افراد اور اداروں کے خلاف قانونی کاروائی مقاصد شریعت کا ایک لازمہ ہے ۔ گویا شریعت نافذ ہو گی تو سرکاری اداروں کو پوری قوت سے جعل سازوں کو نہ صرف جعلی ادویات کی تیاری سے روکنا ہو گا بلکہ اگر کوئی فرد یا ادارہ یا گروہ اس مکروہ کاروبار میں ملوث پایا جائے تو عدل و انصاف کے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے میں ایسے جعل ساز دشمنوں کو مثالی سزائیں دی جائیں گی۔ اس پہلو پر اگر درست طور پر عمل نہ کیا جارہا ہواور جعلی ادویات کی تیاری و فروخت کی آزادی ہو،تو اس کا مطلب ہے کہ مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد چاہے کتنی ہی بڑھ جائے ، اس کے باوجود شریعت نافذ نہیں ہوئی ۔انسانی جان کے تحفظ کے اصول اور مقصد کے جامع مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر شہری کو اس کی جسمانی ضرورت کے لحاظ سے نہ صرف معیاری غذا، شفاف پانی، معیاری ادویات اور آلودگی سے پاک ہوا کی فراہمی ممکن بنائی جائے بلکہ اس کی دیگر بنیادی ضروریات کو بھی ریاستی نگرانی میں پورا کیا جائے ۔
انسانی جان کے تحفظ کا ایک بنیادی مطالبہ یہ بھی ہے کہ انسانوں کو دھوپ ،گرمی ،سردی، بارش اور دیگر ماحولیاتی خطرات سے سے محفوظ رکھنے کے لیے لباس اور سر چھپانے کے لیے گھر میسر ہو۔ اس کے ساتھ انسان کی بنیادی ضرورت یہ علم ہے کہ کس چیز میں خیر ہے اور کس میں شرہے، کیا چیز حلال ہے اورکیا حرام ؟کیونکہ شریعت کا معروف اصول ہے کہ حلال اور طیب طور طریقے زندگی کو ترقی دیتے ہیں اور حرام اور خبیث اطوار زندگی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور تباہ کرتے ہیں۔ گویا انسانوں کو معروف و منکر کی تعلیم فراہم کرنا ، حق و صداقت سے آگاہ کرنا ، فسق و فجور کے تباہ کن اثرات سے خبردار کرنے کا نام نفاذِ شریعت ہے۔
ایک ریاست پانی ،غذا، مکان، کاروبار، خاندانی زندگی فراہم کر دے لیکن یہ نہ بتائے کہ کیا چیز اخلاقی اور قانونی طور پر جائز یا حلال اور کیا حرام ہے تو جان کا تحفظ کیسے ہوگا؟ کیا محض روٹی، کپڑا اور مکان دینا اور حلال و حرام ذرائع معیشت ، سیاست ، معاشرت اور ثقافت پر توجہ نہ دینے کا نام نفاذِ شریعت ہے؟ گویا جس شریعت کا نفاذ تحریک اسلامی چاہتی ہے، وہ قرآن و سنت کے دیے ہوئے اصولوں اور مقاصد کے مجموعے اور کُلی نفاذِ قرآن و سنت کا نام ہے۔ یہ صرف حدود کے نافذکرنے کا نام نہیں ہے، حدود اسلام کے وسیع تر نظام کا ایک جزو ہیں، لیکن کُل نہیں ہیں۔
ہم نے شریعت کےسات بنیادی مقاصدیعنی توحید، عدل ،حفظ نفس، حفظ عقل،حفظ دین، حفظ نسل اور حفظ مال میں سےصرف ایک مقصد اور اصول کو عام فہم مثالوں کے ذریعے ایک عام شہری کے لیے واضح کرنے کوشش کی ہے، بقیہ چھ مقاصد اور اصولوں میں سے ہر ایک وضاحت کا مستحق ہے۔ فی الوقت صرف ایک کا ذکر اختصار کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ مغرب اور مغرب زدہ افراد کا شرعی سزاؤں کے پہلو کو مبالغہ آمیز حد تک ڈرامائی انداز میں بیان کرنے کا مقصد نفاذِ شریعت کے ان پہلوؤں پر پردہ ڈالنا رہا ہے، جن کا ہم نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے۔
آغاز میں یہ بات کہی گئی تھی کہ ملک میں اصلاح کے تناظر میں اکثر کہا جاتا ہےکہ ایک عادل ڈکٹیٹر یا ایک ظالم عوامی منتخب کردہ نمائندہ میں سے بہتر کون ہو گا ؟
حالانکہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ دو برائیوں میں کم تر برائی کی جگہ وہ کون سی صفات ہیں، جن کے حامل افراد کو قیادت پر لایا جائے؟ گویا اصل حل دو برائیوں میں سے ایک کو اپنے اوپر مسلط کرنا نہیں ہے بلکہ اصلاح حال اور تبدیلیٔ نظام ہے۔ جس کے لیے تین بنیادی وسائل ضروری ہیں: lایمان l انسانِ مطلوب اور lماحولیاتی وسائل کی مناسب منصوبہ بندی۔ ان وسائل کی تیاری اور فراہمی کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا۔ یہ کام صبر آزما اور مستقل مزاجی کے ساتھ جذبات و احساسات پر قابو رکھتے ہوئے کرنا ہوگا۔ وقتی مسائل میں اُلجھ کر یہ کام نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے ترجیحات کا تعین اور حد بندی لازمی ہے۔ نیکی کا فروغ اور غلبہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک کارکن ہو یا قائد، اس کا کردار و عمل اس کے عقیدہ اور دعوت کا عملی ثبوت پیش کر رہا ہو۔ وہ بات کہنا جس پر ایک شخص خود عمل نہ کرر ہا ہو ، قرآن پاک کی نگاہ میں فسق ہے، جو ایمان کے منافی ہے۔
اصلاحِ حال صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جب نفاذِ شریعت اور اقامت دین کے اس عام فہم تصور کو ہرباشعور شہری کے ذہن نشین کرا دیا جائے تاکہ وہ دل کی آمادگی کے ساتھ نفاذِ شریعت اور اقامت دین کی جدوجہد میں رضاکارانہ طور پر شامل ہو اور ہر بستی اور وادی میں نیکی ،خیر ،فلاح اور سعادت کا پرچم لہرائے ۔تحریک اسلامی جب اقامت دین کی بات کرتی ہے تو اولاً اس کی مراد اصلاحِ عقیدہ یعنی زندگی میں توحید کے اثرات کا ظاہر ہونا ہے۔اگر زبان سے تو لا الٰہ الااللہ کہا لیکن تمام اُمیدیں بیرونی قرضہ جات سے وابستہ ہیں اور ا سے رزق دینے والا تسلیم کیا جا رہا ہے، تو یہ عقیدۂ توحید کے منافی عمل ہے۔تحریک کی پہلی ترجیح اپنے کارکنوں اور تمام انسانوں کے عقیدہ کی اصلاح ہے اور اصلاح کی روشنی میں معیشت اور سیاست کے دیوتائوں کی جگہ اللہ ربّ العالمین کی حاکمیت کا نفاذ ہے۔
جہاں تک سوال قیادت کا ہے ، یعنی موروثی سیاست اور قوت کے استعمال سے اداروں پر قبضہ کرنے والوں میں سے ایک کا انتخاب، تو دونوں طریقے مقاصد شریعت کے منافی ہیں۔ قرآن و سنت کسی فوجی یا غیر فوجی یا پارلیمانی آمر کو حاکمیت کا حق نہیں دیتے۔ اس کے مقابلے میں بغیر کسی دباؤ کے آزادی کے ساتھ ایک امانت دار، متقی، صاحب ِعلم و عمل اور دینی فراست اور انتظامی صلاحیت رکھنے والے فرد کو عوامی انتخاب کے ذریعے ذمہ داری سونپنے کا نام نفاذِ شریعت کی سمت ایک سفر ہے ۔اسلام نے اس بات کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ قرآن و سنت کی جانب سے یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ اپنی امانتیں، امانت دار افراد کے سپرد کرو کیوں کہ یہی کامیابی کا راستہ ہے۔ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو فتنہ و فساد، ظلم اور استحصال کا ہونا فطری امر ہے۔
اگر ایک دیہاتی سے بھی یہ سوال پوچھا جائے کہ اگر ہم نے ایک شخص کو پانچ سال دن رات طبّ کی تعلیم و تربیت دے کراسے سکھایا ہے کہ انسانی جسم کے اعضاء کس طرح کام کرتے ہیں اور کس طرح انھیں صحت مند رکھا جا سکتا ہے؟ پھر کم از کم دو سال کسی ہسپتال میں مصروف رکھ کر عملا ًمریضوں کے مسائل کو سمجھنااور ان کا حل کرنا سکھایا ہے۔لیکن اگر اس سات سالہ تعلیم و تربیت کے بعد ہم اسے فوج کے سربراہ کے طور پر مقرر کر دیں تو کیا ایک کم پڑھا لکھا شخص بھی اسے سمجھ داری قرار دے گا ؟اور سمجھے گا کہ ایک میڈیکل ڈاکٹر ملک کے اندرونی اور بیرونی دفاعی خطرات کو سمجھ کر ملک کا دفاع کیسے کرسکے گا؟ اسی طرح اگر ایک شہری کو جس نے کبھی بندوق بھی نہ چلائی ہو مسلح افواج کا سربراہ بنا دیا جائے تو کیا وہ سرحدوں کا دفاع کر سکے گا؟ کیا کوئی صاحب ِعقل ایسا کارنامہ انجام دے سکتا ہے؟
قرآن و سنت کا دو ٹوک فیصaلہ ہے کہ مطلوبہ صلاحیت اور صفات کے بغیر کسی کا حاکم مقرر کیا جانا یا خود حاکم بن جانا امانت کے منافی اور خیانت ہے۔ اس لیے گڑھےاور کھائی میں سے کسی ایک کے انتخاب کی جگہ دین کی واضح تعلیمات کی روشنی میں اہلیت، امانت، علم و سیرت و کردار والے فرد ہی کو ملکی قیادت سپرد کرنا دین اسلام کا تقاضا ہے ۔
دین کو اس کے بھیجنے والے نے خود آسان بنا کر بھیجا ہے۔ اس کو بلا وجہ فلسفیانہ اُلجھاؤ میں ڈال کر مشکل بنانا دین کے مقصد اور مدعا کے خلاف ہے۔ ’قیادت کا مستحق کون ہے؟‘ جیسا سوال قرآن نے ایک لفظ سے حل کر دیا ہے کہ اس کا اہل ہونا شرط ہے( امانتیں ان کے اہل کے حوالے کرو)، اور جو اہل نہ ہو اس کا کسی ذمہ داری کو قبول کر لینا یا اسے ذمہ داری سپرد کرنا دونوں اسلام سے واضح انحراف ہے۔ جب بھی دین سے انحراف کیا جائے گا نتائج منفی اور نقصان دہ ہوں گے اور جب قرآن کی ہدایت پر عمل ہوگا اور قیادت اہلیت رکھنے والے افراد کو جو اللہ کے خوف، سیرت و کردار کے لحاظ سے صرف اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں ، وہ خود عہدے کے طالب نہ ہوں، تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے عدل، سکون ،تحفظ اور ترقی قوم کا مقدر ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت کے عالمگیر اخلاقی اصولوں پر عمل کرنے اور ان کے مملکت میں نفاذ کا نام شریعت کی حکومت ہے۔مسلمان مفکرین اور فقہاء نے بادشاہت اور آمریت دونوں کو یکساں برائی قرار دے کر صرف کراہت کے ساتھ، فتنہ اور فساد سے تحفظ کی حد تک گوارا کیا ہے۔
تحریکاتِ اسلامی دعوتی، اصلاحی اور اجتہادی تحریکات ہونے کے سبب عسکری قوت کی جگہ قوتِ ایمانی اور کردار اور سیرت کی تعمیر کے ذریعے وہ تبدیلی لانا چاہتی ہیں، جو اندر سے ہو، دیرپا ہو اور دستور و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کی جائے۔یہ عام انقلابی تحریکات کی طرح محض قوت کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتیں۔ اس بنا پر ان کے اہداف طویل المیعاد ہوتے ہیں۔ فوری تبدیلی کی جگہ بتدریج تبدیلی ان کا شعار ہے۔ یہی چیز پروگرام، اہداف اور حکمت عملی پر غالب رہنی چاہیے۔
اُمت مسلمہ تاریخ کے جس نازک دور سے گزر رہی ہے۔ اس ماحول میں استعماری قوتیں اور مسلم دُنیا کے غاصب طبقے، مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے مستقبل کی صورت گری کا اختیار اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے وہ سیاسی، فکری، معاشی، تعلیمی، عسکری، ابلاغی، ثقافتی اور سفارتی قوتیں بروئے کار لارہے ہیں۔ ان قوتوں کے نزدیک مسلمانوں کی عمومی، مذہبی اور رواجی زندگی کو تو کسی حد تک برداشت بھی کیا جاسکتاہے، لیکن کسی مسلمان کی جانب سے اسلامی تہذیب اور اسلامی نظامِ زندگی کی جانب ایک قدم بڑھانا بھی ناقابلِ برداشت ہے۔ دوسری طرف مسلم اُمہ بہت سے تضادات اور فکری انتشار کی شکار نظر آتی ہے۔ اس کش مکش میں یہ سوال نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے:
عصرحاضر میں ایک جانب مسلم اکثریتی ملکوں میں اور دوسری طرف مسلم اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کے لیے کون کون سے فکری اور عملی اقدامات کیے جانے چاہئیں؟
اس سوال کے جواب میں جن اہلِ علم کی تحریریں اگست ۲۰۲۴ء میں شائع کی گئیں، ان کے اسمائے گرامی ہیں:lفتح محمد ملک
ڈاکٹر محمد ذکی کرمانی۔ اب اس سلسلے کی دوسری قسط شائع کی جارہی ہے اور آیندہ شمارے میں تیسری قسط۔ یہ جوابات اور تجزیے مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کرتے ہیں، جن سے ادارہ ترجمان کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ تاہم، اس طرح قارئین مختلف افکار و خیالات سے مستفید ہوکر بہتر نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔(ادارہ)
آج آزادی، جمہوریت، انصاف، اور انسانی حقوق کے مغربی دعوے ان کے اسرائیلی جنگی جرائم میں متحرک کردار اور شرمناک تعاون سے خود بخود بے وقعت ہوچکے ہیں۔ اس جنگ میں مغرب کے دو نظریات سچ ثابت ہو رہے ہیں: پہلا نظریہ، یہ کہ دنیا ایک شطرنج کی بساط ہے، ۱ اور مغرب اپنے مفادات کے مطابق اس میں مہروں کو حرکت دے رہا ہے، جو اسلامی دنیا میں اس کی جارحیت سے واضح ہے۔ دوسرا نظریہ تہذیبوں کے تصادم کا ہے، ۲ جس پر مغرب گذشتہ ایک چوتھائی صدی سے عمل پیرا ہے۔ شطرنج کے اس کھیل میں اسلام کی نظریاتی برتری کو نیچا دکھانے اور تہذیبوں کے تصادم میں اسلامی تہذیب کو کم تر ثابت کرنے کی کوششیں واضح کرتی ہیں کہ حقیقی وحشت و درندگی کا علَم بردار کون ہے اور کس کے پاس حقیقی تہذیب کا سرمایہ ہے؟
اس تناظر میں اسلام سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تحریکات اسلامی اسلام کی نمائندگی کر رہی ہیں، اور موجودہ حالات میں انھیں اسلامی کاز کے لیے مزید فعال ہونا ہوگا۔ ان کے سامنے نئے چیلنج ہیں، جن کے جواب میں انھیں فکری محاذ پر نئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے عملی اقدامات، ان کے بنیادی افکار کے آئینہ دار ہونے چاہییں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ دور میں اپنے نصب العین کو پیش کرنے کے لیے کون سی نئی علمی کاوشیں ضروری ہیں، اور کن عملی اقدامات سے اسلام کی احیائی کوششوں کو مزید تیز کیا جا سکتا ہے؟
اسلام میں ’تجدید‘ اور ’احیائے اسلام‘ کی کوششیں اسلامی تعلیمات کا لازمی حصہ ہیں۔۳ احیائے اسلام کا مطلب یہ ہے کہ جب امت مسلمہ اسلامی تعلیمات کو بھول جائے یا اسلام کا کوئی پہلو نظرانداز ہو جائے، تو اسے دوبارہ زندہ اور متحرک کرنے کی کوشش کی جائے۔ جب زمانہ اسلام کے خلاف چیلنج پیش کرے، تو ان چیلنجوں کا فکری اور عملی سطح پر مقابلہ کرنا بھی احیائے اسلام کا حصہ ہوتا ہے۔
یہ یقین کہ اسلام آخری ہدایت نامہ ہے، مسلمانوں کو یہ جذبہ اور تحریک دیتا ہے کہ جب بھی جاہلیت اپنے نئے روپ میں لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے، تو اس کا مقابلہ کریں اور اسلام کے حیات بخش پیغام کو اس طرح پیش کریں کہ لوگوں کو بجاطور پر یقین ہو جائے کہ ان کے مسائل کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔ چونکہ اسلام ہدایت کا آخری اور مکمل پیکج ہے، اس لیے ہر دور کے مسائل کا حل اسلام کے اندر تلاش کرنے کا عمل جاری رہا ہے اور مستقبل میں بھی یہ جاری رہے گا۔
اسلامی تاریخ میں مجدّدین نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو اپنے عصری اسلوب میں اور نئے انداز میں پیش کرتے ہوئے زمانے کے چیلنجوں کا مدلل جواب دیا۔۴ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ ہر صدی کے آغاز میں امت کے لیے ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جو دین کی تجدید کرے گا‘‘۔۵
یہ اللہ کا بڑا انعام ہے کہ ہر دور میں ایسے صالحین موجود رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے، جو دین کی تجدید کریں گے اور اسلام کی روشنی کو برقرار رکھیں گے۔ ضروری نہیں کہ یہ تجدیدی شخصیات خود اس کا شعور رکھتی ہوں یا لوگوں میں ان کا تعارف ہو، یا وہ خود اپنا چرچا کریں۔ کچھ افراد اپنے کارناموں کی وجہ سے عالمی سطح پر معروف ہوں گے، جب کہ کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اسلام کے کسی خاص پہلو پر یا مخصوص علاقے میں کام کریں گے۔
اسلامی احیاء ایک اہم اور ہمہ پہلو عمل ہے جو روحانی، سماجی، معاشی، اور سیاسی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ مسلمانوں کو اسلام پر قائم رکھنے کے لیے یہ عمل ضروری ہے، خاص طور پر جب مسلم دنیا جدیدیت، سیکولرازم، مغربی فتنوں اور مختلف چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے۔ ایسے وقت میں اسلامی اصولوں اور بنیادوں کی طرف واپسی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ موجودہ دور میں ’اسلاموفوبیا‘ کے ماحول میں، احیائے اسلام کی کوششیں انتہائی ضروری ہو گئی ہیں۔
اس مختصر مضمون میں تمام اہم اسلامی اسکالرز کی تحقیقات اور مضامین کی روشنی میں مسلم اکثریتی اور اقلیتی ممالک میں اسلامی احیاء کو فروغ دینے کے ممکنہ فکری اور عملی اقدامات کا احاطہ کرنا تو مشکل ہے، لیکن ہم کچھ اہم پہلوؤں کی نشاندہی کریں گے:
اسلامی احیاء کی جڑیں تاریخ میں گہری ہیں۔ ان اصلاحی اور احیائی تحریکوں نے اسلامی اصولوں کے تحت عصرِحاضر کے مسائل و معاملات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور موجودہ احیائی کوششوں کے لیے بنیادیں فراہم کیں، جن میں اسلام کی سائنسی اور تکنیکی ترقیات کے ساتھ ہم آہنگی پر زور دیا گیا۔ اطالوی نژاد امریکی پروفیسر جان ایسپوزیٹو کے مطابق: ماضی قریب کی تحریکوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: استعمار سے پہلے کی اسلامی تحریکیں، استعماری دور کی اسلامی تحریکیں، اور استعمار کے بعد کی اسلامی تحریکیں۔۶
مغرب کی توسیع پسندی اور استعماریت سے پہلے بھی مسلم ممالک میں تجدید و احیا کا عمل جاری رہا۔ ہر زمانے اور مقام کے مسائل اور چیلنج مختلف تھے، اور اصلاح کی کوششیں بھی متنوع تھیں، جن میں کچھ صوفی تحریکوں کا بھی اس میں بڑا کردار رہا۔ ۷ ان تحریکوں کا مقصد تھا کہ مسلمان، خاص طور پر نوجوان، اسلام کے روحانی پہلو سے آشنا ہوں اور انھیں معاشرے کے لیے تعمیری قوت بنانے کے لیے منظم کیا جائے۔ ان تحریکوں میں تعلیمی اداروں کا قیام بھی شامل تھا، ۸ جہاں علما اور مختلف اُمور کے ماہرین کی تربیت اس طرح کی جاتی تھی کہ وہ اسلام کی دل نشین تعبیر و تشریح کرسکیں، ۹ ⁹ اور زمانے کے مسائل کا حل پیش کرسکیں۔ ان تحریکوں میں ثقافتی عناصر اور اسلامی تہذیب کا احیا بھی شامل تھا۔ ساتھ ہی ساتھ، وہ اپنے زمانے کے سیاسی نظام پر بھی اثر انداز ہوتے تھے۔ اس میں چشتی، نقش بندی، قادری، اور سہروردی سلسلوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ بنگال میں اسلامی دعوت کی تحریکیں چلیں، دلی، لکھنؤ اور دیگر علاقوں میں دینی مدارس قائم ہوئے۔ ان سب میں نمایاں علمی کام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا تھا، جنھوں نے اسلامی تعلیمات کو عقل و استدلال کے ساتھ پیش کیا، تفقہ فی الدین پر زور دیا، حدیث پر نئے انداز سے کام کیا اور اجتہادی کارنامے انجام دیے۔۱۰
یورپی استعماریت کے دوران، جب مسلم ممالک کے بڑے حصے پر برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کا تسلط تھا، تب بھی مختلف علاقوں میں صلحائے امت اور مجدّدین نے تجدیدی کارنامے انجام دیے۔ ان کا کام مغربی استعمار کی مخالفت، مسلم نوجوانوں کو مغرب زدگی سے بچانے، اسلامی شناخت کی بقا، اور مغرب کے علمی سوالات کے جوابات پر مبنی تھا۔۱۱ ان تحریکوں کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ مغرب کے طرز زندگی کے مخالف تھے، مگر مغربی علوم اور انکشافات سے استفادہ کرنے کے قائل تھے۔ وہ مسلم ممالک کی حکمرانی کے ڈھانچے کو جدید طرز پر ڈھالنا چاہتے تھے، جس میں دستور، پارلیمنٹ، اور انتخابات شامل ہوں۔ ان تحریکوں کے اثرات کسی ایک ملک تک محدود نہیں تھے بلکہ مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے تھے۔
جمال الدین افغانی، محمد عبدہٗ، رشید رضا مصری، حسن البنا شہید، اور علامہ محمد اقبال ۱۲جیسی عظیم شخصیات کے افکار نے مسلمانوں میں ایک نئی تازگی پیدا کی۔ علامہ محمد اقبال نے اپنی مشہور کتاب تشکیلِ جدید الہٰیاتِ اسلامیہ ۱۳ میں اسلام کی ایک متحرک حکمت عملی اور ترقی کی راہیں کشادہ کرنے کے لیے دلائل فراہم کیے، جو عصرِحاضر کی زندگی سے ہم آہنگ ہو۔ انھوں نے اجتہاد (آزادانہ استدلال) کی ضرورت پر زور دیا اور اسلامی فریم ورک کے اندر فلسفیانہ اور سائنسی تحقیق کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اقبال کا نظریہ، معاصر احیائی تحریکوں کے لیے ایک فلسفیانہ بنیاد فراہم کرتا ہے، اور ان کا کلام مسلمانوں کی عقل اور روح کی بیداری کا پیغام دیتا ہے۔
مغربی استعماری قوتوں کے زوال اور مسلم علاقوں کی آزادی کے بعد ابھرنے والی تحریکیں بنیادی طور پر اسلام سے جوڑنے کی تحریکیں تھیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آزاد ہونے کے بعد مسلم ممالک کا نظام اسلام کی بنیادوں پر استوار ہو۔ ان تحریکوں نے حکومت، معیشت، تعلیم، عدلیہ، اور زندگی کے تمام شعبوں کو شریعت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔۱۴
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ کی تحریریں استعماری دور میں سامنے آنا شروع ہوئیں اور استعماری قوتوں کے جانے کے بعد ان تحریروں نے مسلم ممالک کے نظام کی تشکیل کا واضح خاکہ پیش کیا اور عملی طور پر بھی یہ سرگرم رہے۔ ان کی محنت اور قربانیاں مستقبل کی تحریکوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کی تحریکوں نے مسلم ممالک کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے اور ان کی بنیادی شناخت برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
ہم نے ان تین دورانیوں کی تحریکوں کا تذکرہ اس لیے کیا ہے ، تاکہ آئندہ فکری اور عملی کام کے لیے ان تحریکوں کے رہنما نقوش اور قابل تقلید مثالیں بیان کی جا سکیں۔
اسلامی احیائی تحریکوں کے بنیادی مقاصد انفرادی اور معاشرتی تبدیلیوں پر مرکوز ہیں، اور ان کے چار اہم کام درج ذیل ہیں:
۱- اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر انفرادی اصلاح کو فروغ دینا۔
۲- اسلامی اقدار کو معاشرتی، اقتصادی، اور انتظامی ڈھانچوں میں شامل کرنا۔۱۵
۳- شرعی قانون کے تحت ایک اسلامی ریاست قائم کرنا، جو انصاف، مساوات، اور اخلاقی پاکیزگی کو فروغ دے۔۱۶
۴- لادینیت اور مغربیت کا مقابلہ کرتے ہوئے سیاسی اور معاشرتی زندگی کو اسلام کی طرف موڑنا۔
اسلامی احیاء کا ایک واضح نظریاتی فریم ورک، اسلامی اصولوں کے مطابق دنیا کی تعمیر نو ہے۔ یہ تصور ایک ایسے جہان کی تشکیل پر مبنی ہے جہاں ہر فرد کو اس کا حق ملے، برائیوں کا سدباب ہو، نیکی کی راہیں آسان اور انصاف کا حصول ممکن ہو۔ اسلامی احیاء کے تحت صرف ایک ایسی ریاست کی تشکیل کی کوشش ہی پیش نظر نہیں ہے، جہاں انصاف، مساوات، اور امن غالب ہو، بلکہ اسلام کو ایک جامع نظام کے طور پر پیش کیا جائے جو سماجی، اقتصادی، سیاسی، اور روحانی پہلوؤں کا احاطہ کرے۔۱۷ ⁷ اس کے لیے ایک صالح معاشرے کی ضرورت ہے، اور جب معاشرہ اسلام کا حقیقی آئینہ بنے گا، تب سیاسی سطح کی تبدیلیاں بھی پائے دار ہوں گی۔ بصورت دیگر، کمزور بنیادوں پر تعمیر شدہ عمارت کی طرح، تبدیلیاں جلدی ختم ہو سکتی ہیں۔ معاشرے کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد، زندہ ضمیر اور اسلام کا پختہ یقین رکھتا ہو، اور اسے اپنی عظیم اسلامی تہذیب پر فخر ہو۔ یہ یقین ہو کہ دنیا میں اس سے بہتر کوئی عقیدہ یا تصورِ حیات موجود نہیں۔
مسلم اکثریتی ممالک میں سرگرم تحریکوں کا بنیادی مقصد ہے کہ قانون سازی میں خدا کو مقتدر اعلیٰ تسلیم کیا جائے، یعنی کوئی بھی قانون اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہو اور نظام حکومت جمہور کی حقیقی رائے سے تشکیل پائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انسان، اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں، اور ان کا نمائندہ حکمران ان کی مرضی سے منتخب ہونا چاہیے۔ ۱۸ تاہم، عالمی سطح پر مغرب کا غالب نظام مسلم ممالک پر مختلف شکلوں میں مسلط ہے، جس کے مطابق قانون سازی ہوتی ہے اور یہ نظام ایک خاص طبقے کے مفادات کے حق میں ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں عوام کو ان کا حق نہیں ملتا اور غربت، مہنگائی، اور بے روزگاری ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
مؤثر اسلامی احیاء کے فروغ کے لیے، فکری اور عملی اقدامات کا ملاپ ضروری ہے، جو مسلم اکثریتی اور اقلیتی سیاق و سباق میں مخصوص ضروریات اور چیلنجوں کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیا جائے۔
نظام اسلامی کے قیام کے لیے ایک نئے بیانیہ کی تشکیل کی ضرورت ہے، اور تیونس کی النہضہ پارٹی کے شریک بانی راشد غنوشی [پ: ۲۲جون ۱۹۴۱ء] جیسے عملیت پسند اسلامی مفکرین کے کام کو سمجھنا اہم ہے۔ راشد غنوشی، اسلامی ریاست کے قیام میں توسع پسندانہ رویہ رکھتے ہیں اور جدید طرزِ حکمرانی کے ساتھ ہم آہنگ اسلامی نظریے کو پیش کرتے ہیں۔ ان کا نظریہ شہری حقوق کے تحفظ اور مختلف سماجی دھاروں کی سیاسی شرکت پر زور دیتا ہے۔ وہ اسلام کے آئیڈیل اور غیر اسلامی طرز حکمرانی کے درمیان ایک راہ تجویز کرتے ہیں۔۲۲ ان کی فکر میں سیاسی میدان میں خواتین کی شرکت اور قیادت پر بھی زور دیا گیا ہے، جسے اسلامی تحریکوں میں کم پذیرائی حاصل ہے۔
موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے محقق اور استاد ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی [پ: ۱۹۶۶ء]بھی اسلام کے نظام حکمرانی کے بارے میں نیا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، اسلام موجودہ جمہوری نظام اور انسانی حقوق کے بیانیہ کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتا ہے، اور وہ غیر مسلموں کی شراکت کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ وہ خدا کے اقتدار اعلیٰ اور اخلاقی فریم ورک کے تحت مختلف طرزِحکمرانی پر بات کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک صدارتی نظام، خلافت کے نظام کے قریب تر ہے ۔۲۳
تحریکات اسلامی کا موجودہ بیانیہ اور اس سے وابستہ فکر اگر متوقع نتائج پیدا نہ کر سکے، تو احیائے اسلام کے لیے کام کرنے والے مفکرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قرآن و سنت سے اجتہاد اور استنباط کرتے ہوئے نیا بیانیہ اور فکر تشکیل دیں، جو عوام اور خواص کے لیے زیادہ قابلِ فہم اور قابلِ عمل ہو۔
ایک نقطۂ نظر یہ بھی موجود ہے کہ اسلامی تحریکات اگر اپنے سامنے موجود حکومتوں کے ساتھ تصادم کے بجائے تعاون کی راہیں نکالنے پر غور کریں تو احیائے اسلام کی منزل قریب تر ہو سکتی ہے ۔۲۴
مکالمے (ڈائیلاگ) میں شامل ہونا بقائے باہمی اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس طرح موجودہ دور میں حکومت اور تحریکوں کے بیچ علامتی تنازعات سے آگے بڑھنے کے امکانات اور نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ یہ نقطۂ نظر انتہا پسندانہ بیانیے کا مقابلہ کر سکتا ہے اور استحکام کو فروغ دے سکتا ہے۔ فعال شرکت اور رابطہ کاری (Engagement and Communication ) پر زور دینے سے مخالفانہ تعلقات کو باہمی تعاون کی کوششوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس سے اسلامی تحریکوں اور ان ریاستوں دونوں کو فائدہ ہوگا، جن سے وہ بات چیت اور تعاون کی راہیں نکالیں گے ۔۲۵
سوچ میں تبدیلی ایک مشکل کام ہے، لیکن فکری میدان کے دانش وروں سے توقع ہے کہ وہ اسلامی تحریکوں کے لیے ایسی نئی راہیں تجویز کریں، جن سے ان کی منزل قریب تر ہو۔ حکومت کی سماجی فلاح و بہبود کی اسکیمیں، حادثات اور آفات کے متاثرین کی دادرسی، اصل میں حکومت اور تحریک اسلامی دونوں کا کام ہے، اور تعاون کی راہیں یہاں سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔
موجودہ اسلامی لٹریچر کی بہت سی خوبیوں کے باوجود تیزی سے بدلتے منظرنامے کا ایک منفی اثر یہ نظر آیا ہے کہ اس کے قارئین میں وقت کے نظام کے ساتھ تصادم کا مزاج پیدا ہو جاتا ہے۔ جب تحریکی لٹریچر سے متاثر افراد مغربی دنیا میں جاتے ہیں، تو وہ وہاں نظاموں کے ساتھ تعاون کی راہیں تلاش کرنے کی بجائے تنقید اور تردید کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے انسان ہمیشہ تین میں سے ایک کردار ادا کرتا رہتا ہے: کبھی وہ جارح (prosecutor) ہوتا ہے، کبھی مظلوم (victim) بن جاتا ہے، اور کبھی نجات دہندہ (rescuer) کا کردار ادا کرتا ہے ۔۲۶ ⁶ تحریک اسلامی کے لیے نئے بیانیہ میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانیت کے لیے نجات دہندہ کا کردار کیسے ادا کر سکتی ہے؟ یہ تجدید و احیا کی کوششوں کے لیے ایک سنہرا باب ہوگا۔
اسلامی تحریکوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اصولی اور نظریاتی طور پر یقین رکھتی ہیں کہ زندگی کے مسائل کا حل اسلام میں ہے، لیکن اس اصولی یقین کے بعد عملی خاکے اور حکومتوں کے ساتھ تعاون کے لیے منصوبے پیش کرنے کے معاملے میں وہ پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ہر ملک کے حالات اور مسائل مختلف ہوتے ہیں، اور ایک ہی ملک میں حالات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ تحریک اسلامی کے علمی اور فکری کام میں جمود کی حالت، کوئی یقین اور اعتماد پیدا نہیں کر سکتی۔ زندگی کے مختلف مسائل کے حل کے لیے منصوبے درکار ہیں، جو بتدریج تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر، مسلم ممالک کی معاشی ترقی کے لیے تحریکات اسلامی کو جو منصوبے پیش کرنے چاہییں، ذیل میں اس کا ایک آئیڈیا دیا جا رہا ہے۔ اسلامی تحریکوں کی طرف سے مسلم ممالک کی سماجی و اقتصادی ترقی کا منصوبہ درج ذیل کلیدی اصولوں پر مرکوز ہوسکتا ہے:
خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر پائے دار، مساوی، اور ماحول دوست اقتصادی ترقی پر توجہ دینی چاہیے، اور مسلم دنیا کے تنوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مناسب اصلاحات کو اپنانا چاہیے۔ حکومت کو مؤثر پالیسیاں بنانے اور سبز شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کرنا چاہیے۔
جس طرح معاشی نظام کے حوالے سے علمی اور فکری کام کرنے اور منصوبے تیار کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح سیاسی، تعلیمی، اور خارجہ پالیسی کے میدانوں میں بھی اسلامی تحریکات کو نجات دہندہ کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جب تک واضح راستہ متعین نہ کیا جائے، اہل علم کا طبقہ متاثر نہیں ہو سکتا اور وہ صرف دعوؤں، نعروں اور موہوم وعدوں پر مبنی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔
اسلامی تحریکیں حکومت و اقتدار تک پہنچنے میں متعدد اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے بمشکل ہی وہاں تک پہنچ پاتی ہیں۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مدرسے اور مسجد میں تعلیم و تبلیغ کے ایک اہم کام کے متوازی یہ ایک بڑا مشکل راستہ ہے، جس میں عوام، موجودہ حکومتیں، دفاعی ادارے، ایجنسیاں، اور عالمی طاقتیں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔ اقامت دین کی منزل سے پہلے کچھ عبوری منازل ہیں، جنھیں طے کیے بغیر حتمی منزل تک پہنچنا ناممکن امر ہے۔
کسی بھی ملک کو چلانے میں بیوروکریسی، عدلیہ، اور انتظامیہ کا ایک بڑا عملہ درکار ہوتا ہے۔ ملکی نظام انھی کے بل بوتے پر چلتا ہے۔ ان کے ذمے جو امور ہوتے ہیں ان میں سے ایک بڑا حصہ وہ ہوتا ہے جس کا شریعت سے کوئی تصادم نہیں ہوتا، جیسے اسکولز چلانا، سڑکیں بچھانا، پل بنانا، بسیں اور ریل چلانا، پنشن اسکیمیں جاری کرنا، راشن کی دکانوں کا انتظام چلانا، کسانوں سے اناج خریدنا اور گودام میں محفوظ کرنا وغیرہ۔ ان کاموں کو انجام دینے والے افسران میں ایک بڑی تعداد رشوت خور ہوتی ہے۔ کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں عوام پر ظلم ہوتا ہے، جیسے پولیس اور عدلیہ کا نظام۔ یہاں انصاف حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، اور صاحبِ اثر چھوٹ جاتے ہیں،جب کہ حقیقی مظلوم کی داد رسی اکثر ممکن نہیں ہوتی۔ تحریکات اسلامی کو ان میدانوں میں عملی اثر و نفوذ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے لیے کچھ اقدامات کیے جانے چاہییں، مثلاً:
اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں، جو عقیدہ پر مبنی تعلیم دیتے ہوئے قرآن و سنت کے مطابق کردار سازی کو مرکز بنائیں اور ایمان کی پرورش کریں۔ ان اداروں میں طلبہ کو سول سروس میں کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار کرنا چاہیے۔ ان کورسس میں مذہبی اور عمومی دونوں مضامین شامل ہونے چاہییں۔۳۲ ایسے اسکول اور ٹریننگ سینٹرز جگہ جگہ قائم ہونے چاہییں، جن کا معیار اتنا بلند ہو کہ لوگ وہاں داخلے کے لیے قطار میں کھڑے ہوں اور ان کی کامیابی کی شرح تقریباً سو فی صد ہو۔ ان اداروں کی یہ پہچان ہو کہ یہاں سے تعلیم و تربیت اور تکنیکی تربیت حاصل کرنے والے افراد سول سرونٹس بنتے ہیں۔
تحریکات اسلامی کو ایسے پروگرام تیار کرنے چاہییں، جو اسلامی نقطۂ نظر سے قائدانہ صلاحیتوں، اخلاقیات، اور حکمرانی پر مرکوز ہوں۔ ان پروگراموں میں عوامی خدمت میں تجربہ کار پیشہ ور افراد کے ساتھ ورکشاپس، انٹرنشپ، اور رہنمائی کے مواقع شامل ہونے چاہییں۳۳ تاکہ زیرتربیت نوجوانوں کے فکری، علمی اور عملی اُفق، بلندیوں کو چھو سکیں۔ ان تربیتی پروگراموں کو اس طرح ڈیزائن کیا جائے کہ ذمہ دار افسران ان میں دلچسپی لیں اور شرکت کریں، تاکہ ان کے اندر بے نفسی، اصلاح احوال، اور خدمت خلق کے جذبات پیدا ہوں۔ اس کے علاوہ، تحریکی فکر کے نوجوانوں کو بھی یہاں تربیت ملے تاکہ وہ معاشرے میں قیادت فراہم کر سکیں۔ یہ لیڈرشپ کالج اپنے ظاہر و باطن میں اعلیٰ معیار کا ہو اور اس کی شناخت اس کی کوالٹی سے ہو، نہ کہ تحریکی مینجمنٹ سے۔
کمیونٹی سروس کے لیے چھوٹے بڑے ادارے قائم کیے جانے چاہییں۔ رضاکار انجمنوں کے ذریعے کمیونٹی سروس اور ترقیاتی منصوبوں میں نوجوانوں کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے، تاکہ ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو اور وہ حکمرانی اور انصاف کے لیے ہماری جدوجہد کا حصہ بنیں ۔۳۴
حکومتی سطح کے افسران اور نوجوان پیشہ ور افراد کے درمیان نیٹ ورک قائم کیے جائیں، جہاں وہ اپنے کام میں اسلامی اصولوں کو نافذ کرنے کے لیے علم، وسائل، اور حکمت عملیوں کا تبادلہ کریں۔ نوجوان، افسران کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں، جب کہ افسران نوجوانوں کے وقت اور جذبے کو معاشرے کی بہبود کے منصوبوں کے نفاذ میں استعمال کریں ۔۳۵
ان شعبوں پر توجہ مرکوز کرکے، اسلامی تحریکیں نوجوانوں کو حکومت میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے مؤثر طریقے سے تیار کرسکتی ہیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق انصاف اور ترقی کو یقینی بناسکتی ہیں۔ دنیا کے بعض ممالک میں غیر اسلامی تحریکیں بھی انھی راستوں کو اپناتے ہوئے اقتدار تک پہنچیں اور ترقی کے زینے چڑھتی رہیں۔ یہاں تک کہ حکومت کسی کے بھی ہاتھ میں ہو، پالیسی، منصوبہ بندی اور نفاذ انھی کی فکر کے مطابق ہوتا ہے۔
مسلم اقلیتی ممالک کی تحریکوں کے لیے سب سے اہم فکری کام اپنے نظریات کا بیانیہ تشکیل دینا ہے۔ تحریکات کی فکری بنیادیں قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں، جنھیں ہر دور کے مفکرین نے عصر حاضر کی اصطلاحات میں بیان کیا ہے۔ سید مودودی علیہ الرحمہ کی تحریریں اس باب میں بہت واضح ہیں، مگر انھوں نے ان موضوعات پر تب لکھا جب ہندستان استعماری دور سے گزر رہا تھا۔ تقریباً ایک صدی بعد حالات و واقعات بدل چکے ہیں اور دنیا میں اصطلاحات بھی تبدیل ہو چکی ہیں۔
مغرب نے منفی پراپیگنڈا کرتے ہوئے اسلامی تحریکات کے نظریات کو کچھ ایسے سانچے دیے ہیں، جن سے عام ذہنوں میں تحریکات کے بارے میں منفی رائے پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تحریکات اپنی باتوں کو متنوع طریقے سے پیش کریں۔ تحریکات کو نہ ذہنی افلاس کا شکار ہونا چاہیے اور نہ ان میں اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے مناسب زبان کی کمی ہونی چاہیے۔ ’اقامت دین‘ قرآن کی اصطلاح ہے، اور اس آخری منزل تک تدریج کے ساتھ سفر کا خاکہ ذہنوں میں ہونا اَزبس ضروری ہے۔ اس سفر کے مختلف عبوری مرحلوں کے الگ الگ نام ہونے چاہییں، تاکہ ’جز ‘اور’ کل‘ کی نشاندہی ہو سکے۔ ’کل‘ مراد لیا جائے تو اس کے اجزا بھی ذہنوں میں واضح ہو سکیں۔ دراصل ہمارے ہاں دل نشین، عام فہم مدلل اظہار بیان کا مسئلہ ہے۔
مغربی ممالک میں کام کرنے والی تحریکات کے لیے سب سے بڑا فکری چیلنج یہ ہے کہ وہ تحریک کے نظریے کو اپنے زمان و مکان کے دائرے میں کس طرح بیان کریں کہ ایک مثبت رائے قائم ہو سکے۔ اس بیانیہ کی عدم موجودگی میں اپنے ملک کے اصول و ضوابط اور قوانین کے فریم ورک میں تحریک کا تعارف کمیونٹی سروس کی تنظیم کے طور پر ہی کرایا جاتا ہے، جو اپنی کمیونٹی کے افراد کو مذہب سے جوڑے رکھنے کے لیے ادارے قائم کرتی ہیں اور کانفرنسیں منعقد کرتی ہیں۔ ان کا تعارف یہ نہیں ہے کہ وہ جس ملک میں متحرک ہیں، اس ملک کو کچھ دینا چاہتی ہیں، وہاں کے نظام کے ساتھ تعاون کرنا چاہتی ہیں، اور نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کے ازالے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتی ہیں، تاکہ اس سرزمین پر لوگ الٰہی ہدایات کے طالب ہوں اور ان کی زندگیاں سنور جائیں۔ اہل ملک کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جن سنگین مسائل اور چیلنجز کا انھیں سامنا ہے، ان کے حل میں اسلام ان کی مدد اور رہنمائی کر سکتا ہے ۔۳۶
امریکا اور برطانیہ جیسے مغربی ممالک میں اسلامی تحریکوں کو صرف سماجی تنظیموں کے طور پر نہیں بلکہ سماجی و سیاسی مسائل کے حل میں شراکت دار کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ انھیں پُرامن اور جمہوری طریقوں سے سماجی و سیاسی منظرنامے کو بہتر بنانے کی اپنی خواہش کو نمایاں کرنا چاہیے۔
یہ بات واضح ہے کہ 'مغرب اب بہت سی اسلامی تحریکوں کے لیے سرگرمی کا ایک اہم مرکز ہے، کیونکہ حالیہ برسوں میں ان تحریکوں کو اپنے آبائی ممالک میں بڑھتے ہوئے جبر اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا ہے ۳۷ ،جب کہ مغربی ممالک میں ان کے لیے آسانی ہے کہ وہ اپنی بات کو دلائل کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں۔
ان گروہوں کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت اور دیگر عناصر و عوامل کے ساتھ فعال طور پر تعاون کرنا چاہیے۔ انھیں ایسی بیان بازی سے پرہیز کرنا چاہیے، جو تنگ نظری یا انتہا پسندی کو فروغ دیتی ہو، بلکہ انھیں معاشرے میں مثبت انداز سے نفوذ، سیاست میں شرکت، اور غیر مسلموں کے ساتھ تعاون پر توجہ دینی چاہیے۔ انھیں اپنے اہداف اور ایجنڈوں کے بارے میں شفاف ہونا چاہیے اور مثبت تبدیلی کے حصول کے لیے قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔
ان ممالک میں اسلامی تحریکوں کو یہ پہلو بہت واضح طور پر بیان کرنا چاہیے کہ وہ اِس ملک میں عدل و انصاف کی سرگرمیوں میں معاون ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ میں اسلامی نقطۂ نظر کو صاف طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان ممالک میں ان کا ایجنڈا تدریج کے اصول کے تحت، نفاذِ شریعت کے بجائے مقاصد شریعت ہونا چاہیے، اور اس عبوری منزل سے گزرے بغیر اگلے مرحلے میں قدم رکھنا ناممکن ہے۔ انھیں اپنا بیانیہ مقاصد شریعت کی روشنی میں تیار کرنا چاہیے۔
اقلیتی ممالک میں کام کرنے والی اسلامی تحریکوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مسلم اقلیتوں کے لیے فقہ تیار کریں، جو شریعت کے عملی اطلاق پر توجہ مرکوز کرے اور مقامی قوانین اور معاشرتی اصولوں کے مطابق ممکن حد تک گنجائش پیدا کرے، تاکہ مذہبی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے اجنبیت میں کمی لائی جاسکے، اور بقائے باہم کو فروغ دیا جاسکے ۔۳۸ ، ۳۹
مسلم اقلیتی ممالک کی تحریکات کے عملی محاذ
آج سے ۳۰ سال قبل، طلبہ تنظیم کی کانفرنس میں شرکت کے لیے مجھے سوڈان جانا ہوا۔ وہاں اسلامی تحریک کے ممتاز رہنما ڈاکٹر حسن ترابی صاحب [۱۹۳۲ء-۲۰۱۶ء]سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے ہندستانی تحریک اسلامی کے لیے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم مسلم ممالک میں پیدا ہوئے اور یہاں کی سیاست پر اثر انداز ہونے کے مقصد کے اطراف تحریک چلاتے ہیں، جب کہ آپ دگنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ ایک طرف، آپ خدا سے غافل انسانوں کو خدا کی طرف بلانے کا عظیم فریضہ انجام دے رہے ہیں اور دوسری طرف، آپ اپنے ملک کی سیاست کو ظلم سے پاک کرنے، عدل قائم کرنے، اور نظام کو فساد سے دُور اور صلاح کے قریب کرنے کی قابل تحسین کوششیں کر رہے ہیں‘‘۔ یہ سب سے بڑا عملی کام ہے جو کارکنان تحریک کو ہر حال میں کرنا ہے۔ اس کے لیے کئی ذرائع اپنائے جا سکتے ہیں، مگر دو ذرائع اہم بھی ہیں اور وقت کی ضرورت بھی۔
حقائق کسی کی پسند اور ناپسند کے محتاج نہیں ہوتے۔ آج کے زمانے میں فلم کمیونی کیشن کا ایک طاقت ور ذریعہ ہے۔ جب باطل اسے جاہلیت کے فروغ کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس میں اسلام دشمنی ہوتی ہے، یا کم از کم اخلاق و کردار کی کمی تو ضرور ہوتی ہے۔ اسی لیے لوگ فلموں کو فی نفسہٖ حرام سمجھتے ہیں، حالانکہ خیالات اور نظریات کے اظہار کا یہ مؤثر وسیلہ ہے۔ اسلام مخالف تصورات پر مبنی فلمیں بنائی اور پھیلائی جا رہی ہیں۔ یہ فلمیں نظریۂ سازی کا کام کرتی ہیں اور عوام کی ایک بڑی تعداد جذبات کے ذریعے معاملات کو سمجھتی ہے۔ اسلام کے خلاف جذبات اُبھارنے اور نظریات پیش کرنے اور ان کے لیے افراد کو کھڑا کرنے میں فلمیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
یہ بحث ایک الگ سے تفصیلی مضمون کی طالب ہے، مگر میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ اسلام کے حق میں مثبت رائے عامہ کی تشکیل کے لیے، دیگر ذرائع کے ساتھ فلمیں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ فلمیں بنانا اعلیٰ تکنیکی مہارت اور بڑے بجٹ کی متقاضی ہوتی ہیں، مگر ان کے اثرات کئی گھنٹوں کی تقریروں اور سیکڑوں کتابوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اسلام کے بہت سے اہم تصورات، جیسے خواتین کے ساتھ حسن معاشرت، وراثت، بین المذاہب شادیوں پر اسلامی نقطۂ نظر، امن، مساوات، انسان دوستی، اسلامی تہذیب، اسلامی معیشت، جائیداد اور اوقاف کے موضوعات، پر فلمیں بننی چاہییں۔
اس کے علاوہ معاشرے کے سلگتے مسائل پر فلمیں بنا کر غیر محسوس طریقے سے اسلامی حل پیش کرنے کی ضرورت ہے، جیسے منشیات کی وبا، سیل فون کا ایڈکشن، سیل فون کے ذریعے برائیوں کا ایڈکشن، نوجوانوں کی بے راہ روی، سودی نظام کی لعنت، اور عورتوں پر ہونے والے مظالم وغیرہ۔ ایسی فلمیں بنائی جائیں جن سے ناظرین نظام باطل کے ظالمانہ رویوں کو سمجھ سکیں اور ان پر حق آشکار ہو، اور ان فلموں میں پیش کیے گئے حل ان کو فطرت کی آواز محسوس ہوں۔۴۰ ، ۴۱
کاروبار اور چیمبر آف کامرس، اسلام کے حق میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ تحریکی کاموں کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ باطل اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہاتا ہے، تاکہ جھوٹ کو سچ کی طرح پیش کرے اور ضمیر کی خرید و فروخت کرے۔ حق کو باطل کا مقابلہ کرنے کے لیے مالی وسائل کی کمی کا سامنا نہ ہو۔ اکثر تحریکیں مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے رک جاتی ہیں۔ جب دولت مند لوگ ایمان والے اور تحریکی فکر کے حامل ہوں، تو وہ اپنی دولت تحریک کی راہ میں نچھاور کر سکتے ہیں۔
ہندستان کے ساحلوں پر عرب تاجر ، ظہورِ اسلام سے پہلے بھی آتے تھے اور ظہورِ اسلام کے بعد بھی۔ مؤرخین کے مطابق جب عرب تاجر مسلمان ہو گئے تو انھوں نے ہندستان کو نہ صرف تجارت سے مالا مال کیا بلکہ اپنے نظریے کو بھی لے کر آئے، جسے یہاں کے عوام نے قبول کیا۔ ان کی تجارت نے ہندستان کی معاشی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے حکمرانوں نے مسلم تاجروں کا پرتپاک استقبال کیا۔ انھوں نے مسلم تاجروں کے لیے خصوصی محلے بسانے اور مساجد بنانے کا حکم دیا اور بندرگاہوں پر ان کے تجارتی سامان کی حفاظت کے انتظامات کیے۔۴۲
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارت بھی دعوت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حکمرانوں کو فکر ہوتی ہے کہ ملک کی معاشی پیداوار میں اضافہ ہو، اور جب ایمان دار تاجر تحریک سے وابستہ ہوں، تو تحریک اور ملک دونوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے خصوصی چیمبر آف کامرس تشکیل دینے کی ضرورت ہے، جہاں نئی نسل کو انٹرپرینیورشپ کا ہنر سکھایا جائے، چھوٹے کاروباریوں کو بڑے خواب دکھائے جائیں اور انھیں ترقی کی راہیں بتائی جائیں۔ تجارت کے سلسلے میں حکومتی مراعات سے فائدہ اٹھانے کے منصوبے بنائے جائیں اور عالمی تجارت میں تحریک کے قائم کردہ چیمبر آف کامرس ایک نمائندہ کردار ادا کریں، جس سے ملک کی پیداوار میں اضافہ ہو۔ ہر شہر میں اس طرح کے چیمبر آف کامرس بنائے جا سکتے ہیں، ان سے درج ذیل باتیں مطلوب ہیں:
ان اقدامات کے ذریعے، کاروبار اور چیمبر آف کامرس مختلف معاشروں میں اسلام کے بارے میں ایک مثبت بیانیہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں اسلامی تحریکات کو علمی اور عملی دونوں میدانوں میں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے ضروری ہے کہ تحریکات کے مفکرین احیائے اسلام کی فکری کاوشوں کو ایک نئے انداز میں پیش کریں۔ صرف نظریاتی یقین کافی نہیں، بلکہ اسلامی تحریکات کو انسانی معاشرے کے مسائل کے لیے نئے منصوبے اور خاکے، قابلِ قبول شکل میں دنیا کے سامنے لانا ہوں گے۔ بدقسمتی سے، اسلام دشمن عناصر نے تحریکات کے بارے میں خوف پیدا کر دیا ہے، اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی تحریکات لوگوں کو یقین دلائیں کہ ان کے تجویز کردہ اسلامی حل دنیا میں ترقی، خوشی، اور وسعت کا سبب بنیں گے۔ اس مقصد کے لیے بے شمار ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مضمون میں ایسے چند اہم اداروں اور ان کی پیش رفت پر گفتگو کی گئی ہے۔
1. The Grand Chess Board, chapter 3 , Zbigniew Brzezinski · 2016
2. The Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order, Samuel P Huntington 2007
3. The Nature Of Islamic Resurgence, Prof. Khurshid Ahmad
https://khurshidahmad.info/the-nature-of-islamic-resurgence/
4- تجدید و احیائے دین، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، ۱۹۶۴ء، لاہور
5- سنن ابی داؤد، حدیث نمبر۴۲۹۱
6. Voices of Resurgent Islam, John L. Esposito
7. South Asian Islamic Education in the Precolonial, Colonial, and Postcolonial Periods
https://link.springer.com/referenceworkentry/10.1007/978-981-15-0032-9_67
8. A Brief Survey of Muslim Education in Pre-Colonial India (1206-1857) May 2017, 5(
2): Authors: , Muhammad Anwar Farooq, Mazher Hussain.
https://www.researchgate.net/publication/317045796_A_Brief_Survey_of_Muslim_
Education_in_Pre-Colonial_India_1206-1857
9. South Asian Islamic Education in the Precolonial, Colonial, and Postcolonial Periods.
https://link.springer.com/referenceworkentry/10.1007/978-981-15-0032-9_67
10. ibid.
11. To Be A Muslim, Author: Fathi Yakan
https://islambasics.com/chapter/iii-the-islamic-movement-its-task-characteristics-and-tools/?
12. The Rise of British Colonialism to the End of the Ottoman Empire, by Marilyn.R. Waldman & Malika Zeghal
13. The Reconstruction of Religious Thought in Islam, by Mohammad Iqbal
14. Islamist Movements from the 1960s by Marilyn.R. Waldman & Malika Zeghal
https://www.britannica.com/topic/Islamic-world/Islamist-movements-from-the-1960s
15. Islamic Revival: https://en.m.wikipedia.org/wiki/Islamic_revival?
16. Islamic Revivalism and the Quest for Political Power, by Nasser Momayezi
https://journals.lib.unb.ca/index.php/jcs/article/view/11753/12527
17- اسلامی تحریک کا فکری سفر، پروفیسر خورشید احمد، ص ۱۲۱
18- اسلامی ریاست، فلسفہ، نظام کار اور سول حکمرانی، مؤلف:سیّد ابو الاعلیٰ مودودی، (مرتب: خورشید احمد)، تصور خلافت، ص ۳۹۳، ۱۹۶۸ء، لاہور
19. Islamism https://en.m.wikipedia.org/wiki/Islamism?
20. Islamic Fundamentalism، Religion and Politics، Actions Also known as: Islamist Movement, Encyclopaedia Britannica
https://www.britannica.com/topic/Islamic-fundamentalism
21. Radical Islam/ Islamic Radicalism: Towards a Theoretical Framing، January 2013. https://www.researchgate.net/publication/266030514_Radical_Islam_Islamic_
Radicalism_Towards_a_Theoretical_Framing
22. Public Freedoms in the Islamic State، by Rached Ghannouchi، Translated by David L. Johnston, Yale University press
23- اسلامی تمدن میں آئینی بحران : مختار شنقیطی، (ترجمہ: محی الدین غازی)، لاہور، دہلی
24. Understanding: Islamism by John Jenkins, Dr. Martyn Frampton and Tom Wilson
https://policyexchange.org.uk/understanding-islamism/
25. Muslim Networks and Movements in Western Europe , Pew Research Center
https://www.pewresearch.org/religion/2010/09/15/muslim-networks-and-
movements-in-western-europe/
26. Born to Win: Transactional Analysis with Gestalt Experiments, Book by Dorothy Jongeward and Muriel James
27. https://www.scirp.org/journal/paperinformation?paperid=53713&
28. https://eprints.um.edu.my/3335/1/SUSTAINABLE_ECONOMIC_
DEVELOPMENT.pdf
29. ibid
30. Quran 12:55
31. https://www.cgdev.org/sites/default/files/archive/doc/commentary/timmer_USAIDw.pdf
32- Priorities of the Islamic Movement in the Coming Phase by Yusuf al Qardawi
33. https://www.linkedin.com/pulse/learning-from-past-envisioning-future
-role-muslim-youth-junaid-ahmad
34. https://www.cetri.be/Islamic-Youth-Movements?lang=fr&
35. https://www.iias.asia/sites/default/files/2020-11/IIAS_NL32_22.pdf
36. https://www.cambridge.org/core/journals/government-and-opposition/article/
37. https://policyexchange.org.uk/understanding-islamism/
38. https://acrobat.adobe.com/id/urn:aaid:sc:AP:6d83fa84-0c6a-41a5-8249-29e32c976a6a
39. https://www.cambridge.org/core/books/abs/sharia-in-the-modern-era/muslim-minorities
-implementation-of-sharia-in-general-andfiqh-alaqalliyyatin-particular/
40. https://acrobat.adobe.com/id/urn:aaid:sc:AP:bd99e127-6597-457f-9237
-d398ea5f0982
41. https://acrobat.adobe.com/id/urn:aaid:sc:AP:be7a4951-32b1-4885
-84b2-5829968dff37
42. Influence of Islam and India by Tara Chand,s Allahabad
43. https://www.researchgate.net/publication/268002558_Islamic_Business_Ethics
44. https://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_Chamber_of_Commerce,_Industry
and_Agriculture
45. ibid
46. https://ummahpreneur.com/blog/reasons-muslims-should-consider-entrepreneurship/
47. https://www.linkedin.com/pulse/what-role-businesses-entrepreneurship-islam-
dr-farrah-arif
_______________
اللہ تعالیٰ کے آخری پیغام نے اہل عرب کو انتہائی پستی سے نکال کر دنیا کی امامت کے منصب پر فائز کر دیا۔ اس علم کی بدولت انھوں نے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد رکھی، جس کی روشنی کم و بیش ہزار سال تک دنیا کو منور کرتی رہی۔ ایک طرف شاندار ماضی کی تابناک داستانیں ہیں تو دوسری طرف منظر اب بالکل بدل چکا ہے۔ دنیا کے در و بام لاکھوں مسلمانوں کے مقتل بن چکے ہیں اور ہم بے بس تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اس شدید زوال کی وجہ آخر کیا ہے؟پچھلی صدی سے مفکرین قرآن و حدیث کی بنیاد پر اس زوال سے ابھرنے کے مختلف حل پیش کر رہے ہیں۔ اشاعتِ اسلام اور نفاذ شریعت سے لے کر جہاد پر اصرار یا خلافت کی بحالی جیسے مختلف علاج تجویز کیے گئے ہیں۔ ان تمام کوششوں کے باوجود ، امت کی حالت ابھی تک دگرگوں ہے۔
ہمارے موجودہ انحطاط کا اصل سبب ایک غیر معمولی سانحہ ہے، جس کی نظیر مسلمانوں کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ انیسویں صدی عیسوی میں اہل مغرب نے تقریباً ۸۵ فی صد اقوام عالم پر تسلط قائم کر لیا اور اسی تناسب سے مسلم ممالک بھی ان کے زیرِ نگیں ہو گئے۔ اتنے بڑے پیمانے پر تسلط کے لیے صرف افواج کافی نہیں ہوتیں بلکہ عوام میں غلامانہ ذہنیت پیدا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے،تاکہ کروڑوں عوام کے ذہن میں مٹھی بھر حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا خیال بھی پیدا نہ ہو۔ یہ غلامانہ ذہنیت کسی اور ذریعے سے نہیں، بلکہ صرف تعلیم کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔
لارڈ میکالے نے ہندستان کے روایتی تعلیمی نظاموں کو ختم کر دیا اور ان کی جگہ ایک متبادل مغربی تعلیمی نظام متعارف کروایا، جس کا واضح مقصد مغرب کے لیے احترام اور ستائش پیدا کرنااور مقامی روایات کے لیے حقارت اور نفرت کو فروغ دینا تھا۔ اس تعلیم کے ذریعے ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا، جس نے اپنی ہی قوم کو لوٹنے میں انگریزوں کی مدد کی۔ آج دنیا پر اہل مغرب کا تسلط ختم ہو چکا ہے،مگر یہ انگریز پرست طبقہ ابھی تک مسلم ممالک پر قابض ہے۔ یہ مغربی نظام تعلیم اس طبقےکی حکمرانی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ یہ نظام تعلیم آج بھی سارے مسلم ممالک میں رائج ہے۔ جب تک یہ نظام تعلیم ہمارے نوجوانوں کی بھاری اکثریت کے دلوں میں مغرب کی عظمت اور وقعت قائم، اور اپنی تہذیب اور دینی روایات سے بے زاری یا نفرت پیدا کرتا رہے گا، احیائے اسلام ایک خواب ہی رہے گا۔
مسلم معاشروں کا مستقبل بدلنے کے لیےہمیں اپنا نظامِ تعلیم تبدیل کرنا ہو گا۔ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں، ہمارے نوجوان مغربی تعلیم کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ تعلیم جو مغرب کے گن گاتی ہے اور اسلامی تہذیب کی تمام کامیابیوں کو تاریخ کے صفحات سے مٹا دیتی ہے۔ اسی تعلیم کے ذریعے ،ہمارے نوجوان یہ سیکھ رہے ہیں کہ مغربی علوم ، تمام دوسر ے علوم سے افضل ہیں اور مغربی تہذیب، تاریخ انسانی کی سب سے زیادہ شان دار اور ترقی یافتہ تہذیب ہے۔ یہ بات سراسر، ان اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ، جو ہمیں بتاتی ہیں کہ قرآن کا علم دیگر تمام علوم سے افضل ہے اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ و بہتر وہ معاشرہ تھا ، جو چودہ سو سال پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے وجود میں آیا۔
احیائے اسلام پر کام کرنے والوں میں صرف ایک گروہ نے تعلیم کی مرکزی حیثیت کو پہچانا۔ ان مفکرین نے مغربی علوم سے مغرب پرستی کا عنصر نکال کر اسے اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی،مگر ان لوگوں کی یہ کوشش علم کی اسلام کاری (Islamization of Knowledge) پچاس سال کی محنت کے بعد بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس مضمون میں ہم اس ناکامی کے اسباب بیان کریں گے اور ایک متبادل لائحہ عمل تجویز کریں گے، جس کے ذریعے موجودہ تعلیمی ادارے نہ صرف ہمارے نوجوانوں کی اسلامی ذہن سازی کر سکیں گے اور انھیں مغرب پرستی سے بچا سکیں گے، بلکہ ساتھ ہی جدید تعلیم سے استفادہ بھی کر سکیں گے ۔
یہ عقیدہ کہ ’علم، عالم گیر ہے اور جغرافیائی حدود سے ماورا ہے‘،مغربی علم کی اصطلاح کو ایک غلط فہمی بنا دیتا ہے۔ تاہم، علم کے ارتقاء کا مطالعہ اس غلط فہمی کو دور کرنے میں معاون بنتا ہے۔ سولھویں صدی عیسوی میں، یورپی باشندے بائبل کو مطلق سچ مانتے تھے۔ اٹھارھویں صدی تک، مذہبی علم فقط ایک نجی معاملہ بن گیااور صرف تجرباتی طور پر ثابت ہونے والے نظریات کومشترکہ اور عمومی علم کے طور پر قبول کیا جانے لگا۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں وہ علم وجود میں آیا ،جسے آج ہم ’سیکولر علم‘ کہتے ہیں۔
’سیکولر علم‘ کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ایسے حقائق اور منطق پر مبنی ہوتا ہے، جو تمام مذاہب کے لیے یکساں طور پر قابل ِقبول ہیں۔ مغربی تہذیب اس بات کی مدعی ہے کہ وہ تمام تہذیبوں سے برتر ہے، کیونکہ اس نے علم کی اس منفرد شکل کو تخلیق کیا، جو نوعِ انسانی کے تخلیق کردہ ہرطرح کے علم سے برتر اور افضل ہے ۔ مسلم معاشروں نے عمومی طور پر یہ دعویٰ قبول کر لیا ہے کہ ’سیکولر علم‘ صرف حقائق اور منطق پر مبنی ہے، اور تمام ذی عقل اور حقیقت پسند لوگوں کے لیے، چاہےوہ کسی بھی مذہب پر یقین رکھتے ہوں، یکساں طور پر قابلِ قبول ہے۔ اسی وجہ سے مسلم دنیا میں مغربی تعلیم کے پھیلاؤ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اسی تعلیم کو راہِ نجات سمجھتی ہے، اور اس تعلیم کے نہ ہونے کو مسلمانوں کی موجودہ پستی کا سبب سمجھتی ہے۔ اس مضمون کا پہلا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ’سیکولر علوم‘ کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ دراصل، ’سیکولر علم‘ کی بنیاد مذہب سے انکار ہے۔ مغربی تعلیم میں چھپا ہوایہ زہر ہمارے بزرگوں نے پہچانا تھا اور اسی وجہ سے آج تک اہلِ مدارس اس علم سے گریز کرتے آئے ہیں ؎
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کيا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
یہ مغربی علوم، قرآنی علوم پر فوقیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ہمارے مسلمان نوجوانوں کو کئی سطحوں پر گمراہ کر رہے ہیں۔ قرآن بھی اپنی فوقیت کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسروں کو ایک آیت بھی اس کے مقابلے میں لانے کا چیلنج کرتا ہے۔ ہمیں علمی مقابلے کے میدان میں اُتر کر، مغربی تعلیم کے پُرفریب دعوؤں کو رَد کرنا ہوگا اور قرآنی علوم کی بدرجہا برتری کو ثابت کرنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
مغربی تعلیم کے بنیادی مفروضے انسانی تاریخ کے بارے درج ذیل تصورات پر مبنی ہیں:
سترھویں صدی عیسوی سے، یورپ میں ’تحریکِ تنویر‘ (Enlightenment )کی ابتدا ہوئی، جس کے ذریعے بنی نوع انسان کے مجموعہ علوم میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ اس پس منظر میں ’عقل کا سورج‘ مغرب سے طلوع ہوا، جس کی روشنی میں اہلِ مغرب نے دیکھا کہ ساری انسانیت، نسل در نسل توہمات کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے ،جو آگے منتقل ہوتی چلی آ رہی ہیں۔روایتی انسان ذاتی طور پر سوچنے کی جرأت نہیں کرتا، نہ نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں اور نہ پرانی غلطیوں کے دُہرانے سے روکا جاتا ہے۔ اہلِ مغرب نے فیصلہ کیا کہ اب سے سب علوم، خواہ دینی ہوں یا دُنیوی، انھیں عقل کی کسوٹی پرپرکھا جائے گا۔ چنانچہ، جو علوم عقل اور مشاہدہ کی روشنی میں صحیح ثابت ہوں گے، انھیں قبول کیا جائے گا، اور باقی مسترد۔ اس طرح انھوں نےتمام انسانی علوم کو عقل اور مشاہدے کی بنیادوںپر اَز سر نووضع کیا۔ اس حیثیت سے دیکھا جائے تو موجودہ زمانے کے سارے علوم اہلِ مغرب ہی کے ایجاد کردہ ہیں۔ علم کا یہ مغربی تصور چونکہ اسلامی نظریات سے ٹکراتا ہے، اس لیے ہم اسے ’سیکولر علم‘ کے نام سے موسوم کریں گے۔
اہلِ مغرب کا دعویٰ ہے کہ یہ ’سیکولر علوم ‘پوری انسانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ انھی علوم کی وجہ سے اہلِ مغرب نے دنیا کو مسخر کیا ، طرح طرح کے حیرت انگیز آلات ایجاد کیے، جو انسانی زندگی پر لمحہ بہ لمحہ اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ انھی علوم کی وجہ سے وہ دنیا کی ترقی یافتہ تہذیب کے درجے پر فائز ہوئے۔ آج کوئی بھی قوم ترقی کرنا چاہتی ہے، تو اسے بھی ان مغربی علوم کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑیں گے۔ ترقی کا مطلب ہی اہلِ مغرب کے علوم اور معاشرت کو اختیار کرنا ہے۔
’تحریکِ تنویر‘ کی یہ داستان مغربی تعلیمی نظام کی رگ رگ میں پیوست ہے ۔جدید تعلیم حاصل کرنے والا ہر طالب علم ،کئی برس تک صرف اہلِ مغرب کے وضع شدہ علوم ہی پڑھتا ہے، جن میں اسلامی تعلیمات کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ۔ ایسی تعلیم مغرب کے اس بیانیے ہی کو تقویت پہنچاتی ہے کہ موجودہ دنیا کی ضروریات صرف مغربی علوم پوری کر سکتے ہیں، اور اسلامی علوم عصرِحاضر میں بالکل بے کار ہو کر رہ گئے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اہلِ مغرب کا یہ دعویٰ بنیادی اسلامی تعلیمات سے ٹکراتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا علم تھا ،جس نے انسانیت کو جہالت اور توہم پرستی کی تاریکیوں سے نکالا۔ انھی علوم کی روشنی نے ساری دنیا کو ہزار سال تک منور کیا۔ یہ علوم قیامت تک ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہیں۔ آج بھی رہنمائی کے لیے ہمیں غیر قوموں سے ہدایت کی بھیک مانگنے کی چنداں حاجت نہیں۔ ایمان کی بنیاد پر ہمارا یہ دعو یٰ تو ہے، مگر ہم اس کی کوئی دلیل پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ امت کی بھاری اکثریت اپنی زندگیاں انھی مغربی علوم کے حصول میں جوق در جوق کھپا رہی ہے۔ اسلامی علوم سیکھنے والے بہت کم ہیں اور جو ہیں، وہ بھی اپنے علم کو جدید مسائل کے حل کے لیے استعمال کرنا نہیں جانتے۔ اس طرح امت کا عمل بھی اہلِ مغرب کے علوم کی فوقیت کا ترجمان بن گیا ہے ۔
ایک افریقی کہاوت مشہور ہے:’’جب تک شیر اپنے مؤرخ خود پیدا نہیں کریں گے ، شکار کی داستانیں ،شکاریوں ہی کی ثناء خوانی کرتی رہیں گی‘‘۔ہمیں بھی شیر وں کی طرح آگے بڑھ کر مغربی علوم کی فوقیت کے بیانیے کی تردید کرنی ہوگی۔ اسلامی طرزِ تعلیم میں مغربی علوم کے نقصان دہ پہلوؤںاور خامیوں پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ اہلِ مغرب کا تمام اقوامِ عالم پر اپنی برتری کا دعویٰ ’قومِ عاد‘ کے دعوے سے مماثلت رکھتا ہے کہ : مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ط (حم السجدہ ۴۱:۱۵)’’کون ہے ہم سے زیادہ زورآور؟‘‘ اسلامی تناظر سے اہلِ مغرب کی تاریخ کا جائزہ لینے سے ،ان دعوؤں کی قلعی کھل سکتی ہے ۔
’سیکولر علوم ‘کی بنیادیں: خونریز اور تباہ کن مذہبی جنگیں
’سیکولر علوم‘ کو سمجھنے کے لیے اس تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے، جس میں یہ علوم پیدا ہوئے۔چوتھی صدی سے چودھویں صدی عیسوی یورپ کا دورِ ظلمت (Dark Ages)کہلاتا ہے، جس میں علم، یورپ میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ اسی زمانے میں اسلام کے پیغام نے مسلمانوں میں علم کی طلب پیدا کر دی۔ انھوں نے ساری دنیا سے علوم جمع کیے اور ہر شعبۂ علم میں خوب ترقی کی۔ ابن خلدون نے تاریخ کا ایک قدیم دستور بیان کیا ہے کہ ’’قومیں عروج پر پہنچ کر عیش و عشرت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ یہی عیش و عشرت ان کے زوال کا پیش خیمہ بنتا ہے ، چنانچہ گردو نواح میں رہنے والی وحشی قومیں ان پر حملہ آور ہوتی ہیں، اور ان کے خزانے لوٹ لیتی ہیں‘‘۔ بالکل اسی طرح جب مسلم اندلس [اسپین]کی سات سو سالہ تہذیب، عیش و عشرت کی دلدادہ ہونے کی وجہ سے زوال پذیر ہوئی تو پڑوسی عیسائی قبیلوں نے بالآخر اندلس پر پھر سے قبضہ کر لیا۔ اس قبضے سے اندلس کے کتب خانوں کی لاکھوں کتابیں ان کی تحویل میں چلی گئیں۔ ساری دنیا سے ان کے جمع کیے ہوئے علمی خزانوں نے ہی مغرب کے تاریک دور کا خاتمہ کیا اور یورپ میں علم کی شمع روشن کی۔
’کیتھولک‘ چرچ عوام کو جاہل اور علم کو کلیسا کی چار دیواری تک محدود رکھ کر یورپ پر ہزار سال تک قابض رہا۔ علم کے اس سیلاب سے کلیسا کو بڑا خطرہ محسوس ہوا کیونکہ یہ کلیسا کی تعلیمات کے خلاف تھا۔ کلیسا نے اس علم کو دبانے کی بھرپور کوشش کی۔ ترجمے پر سخت پابندیاں عائد کیں۔ ان کی اجازت اور مہر کے بغیر کوئی کتاب چھاپی نہیں جا سکتی تھی۔ کلیسا کے ماتحت ایک نہایت ہیبت ناک شعبہ inquisitionقائم ہوا ۔ یہ ادارہ کلیسا کے مروجہ عقائد کے خلاف نظریات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ جو بھی شخص ایسے نظریات کا اظہار کرتا یا لکھتا، اسے سخت سزاؤں، تشدد، اور قید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
علم کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود کلیسا میں پھوٹ پڑگئی۔ ’پروٹسٹنٹ‘ فرقے نے علم کی نئی شکلوں کو قبول کرنے کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے ’کیتھولک‘ چرچ کے اختیارات اور صدیوں سے چلی آ رہی روایات کو مسترد کر دیا ۔ اس کے بعد ان دونوں فرقوں میں نہایت خوں ریز اور تباہ کن جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا ،جو صدیوں تک جاری رہا۔یورپ میں ’سیکولر علم‘ کی نشو ونما مذہبی جنگوں کے تباہ کن اثرات سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ۔ اس ظلم و عدوان نے مغرب کے بہت سے نامور مفکرین کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ، جب کہ دیگر پر بھی کلیسا کی تفتیشی تلوار ہمہ وقت لٹکی رہتی تھی۔
صدیوں کی مذہبی جنگوں اور ذاتی تلخ تجربات کی وجہ سے ’تحریکِ تنویر‘ کے بانی اس نتیجے پر پہنچے کہ معاشرے کی تشکیل مذہبی بنیادوں پر نہیں کی جا سکتی۔ان کا اصرار تھا کہ معاشر تی علوم صرف عقل اور مشاہدے کی اساس پر قائم کیے جائیں، تاکہ ان پر سب لوگوں کا اتفاق ہو سکے۔ ایسا نہیں تھا کہ سترھویں صدی عیسوی میں اچانک عقل کا سورج پہلی بار یورپ سے طلوع ہوا تھا، دراصل یہ ’تحریکِ تنویر‘ ایک پر امن معاشرے کی تشکیل کی فکری بنیادوں کی تلاش تھی، مگر یہ تلاش کامیاب نہیں رہی۔ ’تحریکِ تنویر‘ کے مفکرین کی چند بنیادی اغلاط کی وجہ سے تباہ کن جنگوں کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا، بلکہ اور زیادہ پھیل گیا۔ آج بھی دنیا اس پُرامن معاشرے کی تلاش میں ہے، جس کا طریقہ ہمیں چودہ سو سال پہلے سکھایا گیا تھا۔ مگر افسوس کہ مسلمان عالمی سربراہی کے عہدے سے معزول ہو چکے ہیں، اور ایک پر امن معاشرے کا نمونہ بھی پیش نہیں کرسکتے۔
’تحریکِ تنویر‘ کے علَم بردار قریب قریب دو صدیوں تک ان مذہبی اہلِ علم سے نبرد آزما رہے، جو معاشرتی علوم کو مذہب ہی کی بنیاد پر استوار رکھنا چاہتے تھے۔ اس فکری جنگ میں بالآخر ’تحریکِ تنویر‘ فاتح رہی اور ’اہلِ کلیسا‘ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلی دو تین صدیوں میں تمام سیکولر مغربی علوم ’تحریکِ تنویر‘ کے اصولوں پر وضع کیے گئے ہیں۔ ’تحریکِ تنویر‘ چونکہ خود چند غلط مفروضات پر اُٹھائی گئی تھی، اس لیے یہ غلط مفروضات سارے ’سیکولر علوم ‘کی رگوں میں سرایت کرگئے ۔ مغربی تعلیم ہمارے طلبہ کو انھی غلط مفروضات پر ایمان لانا سکھاتی ہے ، جو حقیقت میں اسلامی تعلیمات سے ٹکراتے ہیں۔ اسی وجہ سے اب امت کے مستقبل کے لیے مغربی تعلیم کا متبادل ایک اسلامی تعلیمی نظام وضع کرنا اشد ضروری ہے۔
’تحریکِ تنویر‘ کے غلط مفروضات کی ایک لمبی فہرست بنائی جا سکتی ہے۔اہلِ مغرب کا خیال تھا: ’’مذہبی اختلافات مسلسل خانہ جنگیوں کا سبب ہیں۔ علم کو اگر عقل اور مشاہدے تک محدود کر دیا جائے، تو یہ اختلافات ختم ہو جائیں گے، اور ایک پرامن معاشرہ وجود میں آ جائے گا۔ مزید یہ کہ عقل اور مشاہدے پر مبنی ہونے کی وجہ سے یہ علوم ہر قسم کی غلطی سے محفوظ اور قطعی ہو ں گے اور تمام اہل دانش کا ان علوم پر اجماع ہو جائے گا‘‘۔ ان مفروضات کی چند بنیادی خامیاں درج ذیل ہیں :
مغرب میں مذہبی جنگیں دراصل مذہب کی وجہ سے نہیں، بلکہ اقتدار، دولت، اور غلبے کے حصول کے لیے لڑی جاتی تھیں۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ’تحریکِ تنویر‘ کو عام مقبولیت حاصل ہونے کے بعد جب معاشرے سیکولر بنیادوں پر قائم ہوگئے تو اس کے باوجود جنگوں میں کمی آنے کے بجائے ان میں اضافہ ہی ہوا۔
یہ خیال غلط ہے کہ تمام انسانی علوم کو اَز سر نو، صرف عقل اور مشاہدے کی بنیاد پر وضع کیا جاسکتا ہے۔ علوم کے بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں عقل اور مشاہدے کی رسائی نہیں ہے۔ ان شعبوں میں، اہلِ مغرب کے ’سیکولر علوم ‘میں ترقی کے بجائے تنزّل ہوا۔
یہ بھی ایک خام خیالی ہے کہ صرف عقل اور مشاہدے کی بنیاد پر ’قطعی‘ علم تک رسائی ہو جاتی ہے۔ ہزار سال پہلے امام غزالی اپنے مشہور رسالے المنقذ من الضلال میں اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ عقل اور مشاہدے کے ذریعے کسی بھی علم تک پہنچنے کے لیے کچھ بنیادی مفروضات کو ماننا پڑتا ہے، جو خود عقل و مشاہدے سے ماورا ہوتے ہیں ۔سیکولر مفکرین اب بھی اپنے علم کے لیے آفاقی قبولیت اور قطعی سچائی کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں، حالانکہ اس دعوے کی غلطی آسانی سے ثابت کی جا سکتی ہے۔پھر پروپیگنڈے کا ایک جال بچھایا گیا ہے، جس کی وجہ سے یہ مفروضات نظروں سے اوجھل رہتے ہیں اور مذہبی تعلیمات کے خلاف ہونے کے باوجود دین دار انسان بھی بلا تردد ان علوم کو قبول کر لیتے ہیں۔
چونکہ ’تحریکِ تنویر‘ کے مفکرین کا مقصد ایسے علوم کا پیدا کرنا تھا، جن پر سب کا اجماع ہوسکے، اس لیے انھوں نے مشاہدے کو بیرونی دنیا کے مشاہدے تک محدود کر دیا۔انسان اگر اپنی اندرونی کیفیت کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس کے ذریعے سے حاصل شدہ علم کو ’سیکولر علم‘ میں کوئی جگہ نہیں دی جا سکتی ، کیونکہ ان کیفیات کا یقینی علم کسی اور کو نہیں ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے علم کے دو حصے ہوگئے۔ سیکولر مفکرین نے ہر انسان کو آزاد چھوڑ دیا کہ اپنی اندرونی دنیا کے بارے میں جو چاہے سوچے، اور جس نظریے یا مذہب پر چاہے اعتقاد رکھے، مگر بیرونی دنیا کے بارےمیں صرف سیکولر طریقوں سے سوچنے کی اجازت ہے۔ اس طرح عیسائی مذہب ایک ذاتی عقیدے تک محدود ہو کر رہ گیا، اور معاشرے کی تشکیل سیکولر بنیادوں پر کی جانے لگی۔ باطنی علوم کو سیکولر مفکرین نے علم کے دائرے سے خارج کر دیا۔
موجودہ مغربی تعلیم انھی ’سیکولر علوم ‘اور ان کے خام مفروضات پر مبنی ہے۔ان چار غلطیوں کی اصلاح کےبغیر ہم مغربی تعلیم کا اسلامی متبادل نہیں بنا سکتے۔یہ کام کیسے ہو سکتا ہے؟ آگے چارحصوں میں انھی چار مغالطوں کی تفصیل ترتیب وار بیان کی گئی ہے۔ ان غلطیوں کو درست کر کے ہم ایک ایسا اسلامی نظامِ تعلیم تشکیل دے سکتے ہیں، جو اس وقت دنیا میں دستیاب کسی بھی نظامِ تعلیم سے کہیں بہتر ہوگا۔ ایسا نظامِ تعلیم اسلامی علوم کی برتری کی ایک واضح دلیل بھی ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ تاریخ محض ایک قصیدہ ہے، جو بادشاہ کو فتح کے موقع پر سنایا جاتا ہے۔ اہلِ مغرب کی اکثر تاریخی کتب پڑھیں تو ایسا نظر آتا ہے کہ اہلِ مغرب کے عروج سے پہلے دنیا میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔سوائے قدیم یونانیوں کے ، اہلِ مغرب سے پہلے کسی اور قوم نے کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سرانجام ہی نہیں دیا – اور پھر یونانی بھی اہلِ مغرب شمار ہوتے ہیں۔ اپنے عروج یعنی سترھویں صدی عیسوی کے بعد، مغربی اقوام نے علم و عمل کے ہر شعبے میں ایسی حیرت انگیز ترقی کی ہے کہ انسانی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ اہلِ مغرب چاند تک پہنچ گئے اور ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں، جب کہ باقی اقوام خاک چاٹتی رہ گئیں ۔ یہ باتیں مغربی تعلیم میں کھل کر نہیں تو تحت اللفظ ضرور پائی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی طالب علم یہ سبق سیکھے گا تو اس کے لیے اسلام کے بنیادی عقائد پر یقین رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ خاص طور پر اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علوم کی فضیلت تمام انسانی علوم پر ویسی ہی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کی برتری اپنی تمام مخلوق پر ہے۔ اور اس بات پر بھی کہ ہمارے نبی کریمؐ کا دور خیر القرون تھا، اور ان کے زیرِ قیادت تشکیل دیا گیا معاشرہ بہترین تھا۔
آج کے مغربی مفکرین پچھلی تین صدیوں کو انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقی کا زمانہ بتاتے ہیں، اور اپنی ترقی کا راز مذہبی روایات کی تقلید سے انکار، اور عقل کے استعمال پر اصرار بتاتے ہیں۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ جو لوگ خدا سے انکار کریں گے ، حقیقی علم کی روشنی سے انھیں محروم کر دیا جائے گا اور تاریکیوں میں دھکیل دیا جائے گا۔ اس قرآنی موقف کی تصدیق کے لیے ہمیں ان مغرب زدہ تاریخوں کو رَد کرنا، اور ایک متبادل بیانیہ پیدا کرنا ہوگا۔ ایسے بیانیہ کی بنیاد تو سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنی شہرت یافتہ کتاب ماذا خسر العالم من انحطاط المسلمين میں ستّر سال پہلے رکھ دی تھی۔ مگر اس بنیاد پر خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ، جس کی اشد ضرورت ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں اہلِ مغرب کا پوری دنیا کے تقریباً ۸۵ فی صد حصے پر قبضہ تھا۔ مگر پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں بے انتہا خونریزی کی وجہ سے اہلِ مغرب کا زور کچھ کم ہوا تو زیادہ تر ممالک ان کے قبضے میں تھے، آزاد ہو گئے۔ اہلِ مغرب کے زور میں کمی آئی تو اب بہت سی ایسی کتب لکھی جا رہی ہیں، جو مغرب پرست تاریخوں کی پُر زور تردید کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں چند اہم کتابیں جو اس وقت نصاب میں شامل کی جا سکتی ہیں یہاں ان کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ ان کتب کا ترجمہ کرنا، اور انھیں مسلم دنیا کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں داخل کرنا علم کی اسلام کاری کے سفر میں ایک اہم پیش رفت ہوگی۔
بہت سے بیش قیمت علوم ایسے ہیں ، جہاں تک عقل اور مشاہدے کی رسائی ہی نہیں ہے۔ ’سیکولر علم‘ کو اس محدود دائرے میں بند کرنے سے ، علم کے ان شعبوں کو بہت نقصان اُٹھانا پڑا ۔ گویا قرآن کے مطابق یہ روشنی سے تاریکی کا سفر ہے۔ ان علوم میں سرِ فہرست وہ انسانی علوم ہیں، جن کا تعلق ہمارے باطنی احوال سے ہے۔
یہاں پر ایک عام غلط فہمی جو کہ اکثر مسلمان مفکرین کو ہوئی ہے، اس کا ازالہ ضروری ہے۔ یہ دو الفاظ ’عقل‘ اور ’مشاہدہ‘ سیکولر مفکرین کے استعمال میں عام فہم زبان سے مختلف اور ایک مخصوص معنی رکھتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا، سیکولر مشاہدہ صرف بیرونی دنیا کے مشاہدے تک محدود ہے۔ اسی طرح سیکولر عقل پر بھی پابندی ہے کہ وہ اس بیرونی دنیا کے مشاہدے سے باہر نہ جائے۔ مغرب کے مشہور مفکر کانٹ کا کہنا ہے کہ ’’عقل کو مشاہدے کے دائرے سے باہر استعمال کرنا بہت بڑی غلطی ہے‘‘ اور اس بات پر تمام سیکولر مفکرین کا اتفاق ہے۔ہمارے اسلامی مفکرین کے نزدیک عقل کا بہترین استعمال کائنات میں اور اپنے نفس میں موجود نشانیوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو پہچان لینا ہے۔ ’سیکولر علوم ‘کے حامل اس کو عقل کا غلط استعمال قرار دیتے ہیں۔
سب سے گراں قدر علوم جو ’سیکولر علم‘ نے مسترد کر دیے، وہ انسان کی باطنی دنیا کے علوم تھے۔ امام غزالی ساری زندگی علم کی تلاش میں سرگرداں رہے ۔ اس وقت کے تمام علوم پر مہارت حاصل کی، اور آخر میں قلوب کے تزکیے کا علم حاصل کیا۔ اسی علم کو انھوں نے سب سے قیمتی علم بتایا اور یہ بھی بتایا کہ یہ علم کتابوں میں نہیں ملتا۔ مغرب کے موجودہ دانش ور ایسے علم کے امکان ہی سے انکار کرتے ہیں، اس لیے مغربی تعلیم میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ اسلامی علوم مغرب زدہ لوگوں کو بیکار نظر آتے ہیں - یہ علوم انسان کی اندرونی دنیا سے متعلق ہیں، جب کہ اہل مغرب روح سے انکار کرتے ہیں اور دل کو عقل کا دشمن گردانتے ہیں۔
انسان کی باطنی دنیا کا سیکولر علم کے دائرے سے اخراج تدریجاً ہوا، اور اسی طرح، اہلِ مغرب بتدریج انسانی زندگی کے بارے میں روشنی سے اندھیرے کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ پہلے قدم میں، ڈیکارٹ، جو مغربی فلسفے کا بانی مانا جاتا ہے، اس نے انسان کی اندرونی دنیا کو بیرونی دنیا سے الگ کر دیا، جسے،دوئیت‘ (dualism)کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بیرونی دنیا کو صرف مادی قوانین کا پابند بنانا تھا۔ یہاں ایک مسئلہ پیدا ہوا جس کا مغربی مفکرین آج تک حل نہیں نکال سکے: ہماری اندرونی دنیا بیرونی دنیا پر کیسے اثر ڈالتی ہے؟ اگر کائنات کا ذرہ ذرہ قدرتی قوانین کا پابند ہے، تو کیا انسان کا بدن، جو کہ مادی ہے، وہ بھی انہی قوانین کا پابند ہے؟ ہماری زندگی کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ کوئی بھی ہمیں بتائے کہ ریاضی کے قوانین یہ بتاتے ہیں کہ آج صبح تم انڈا پراٹھا کھاؤ گے، تو ہم اس کے خلاف لسّی پی کر ان قوانین کو غلط ثابت کر سکتے ہیں۔ اور اگر ریاضی قوانین کے مطابق لسّی پینا لازم آتا ہے، تو ہم انڈا پراٹھا کو اختیار کر سکتے ہیں۔ اس طرح ہماری آزادی پر کوئی ریاضی قوانین نہیں لاگو کیے جا سکتے۔
مغربی مفکرین نے اس مسئلے کو نظر انداز کر دیا۔ اس کے بعد، آہستہ آہستہ، مادیت کی لہر بڑھتی گئی، کانٹ کے زمانے تک دو دنیاؤں کا تصور باقی رہی۔ ایک انسان کی اندرونی دنیا جس میں دین، اخلاق، محبتیں، اور جذبات رہتے ہیں، اور ایک بیرونی دنیا جو کہ صرف ریاضی کے قوانین کی پابند ہے۔ مگر مادیت کے اثر سے یہ خیال پیدا ہوا کہ ہماری اندرونی دنیا کا کوئی الگ وجود نہیں ہے، بلکہ وہ اسی بیرونی دنیا کا حصہ ہے۔ جس طرح مادی دنیا کا ذرہ ذرہ نیوٹن کے قوانین کا پابند ہے، اسی طرح ہمارے خیالات اور جذبات بھی دماغ سے نکلنے والے ایک سیال سے بنتے ہیں، اور یہ سیال بھی قدرتی قوانین کا پابند ہے۔ اس طرح انسان کی اندرونی دنیا اور بیرونی دنیا دونوں کا ذرہ ذرہ ریاضی کے قوانین کے مطابق حرکت کرتا ہے۔جس طرح کائنات کو سمجھنے کے لیے نیوٹن کے قوانین کافی ہیں اور خدا کی ضرورت نہیں، اسی طرح انسان کی اندرونی دنیا سمجھنے کے لیے قوانین قدرت کافی ہیں، انسان کے خالق سے ہمیں کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔اس طرح، انسان کی اندرونی دنیا کوعلم کے میدان سے بالکل ہی خارج کر دیا گیا۔ اس اندھیرے کا ویسے تو سارے ہی انسانی علوم پر منفی اثر ہوا مگر ہم صرف دو کا مختصر تذکرہ کریں گے : نفسیات اور معیشت۔
’تحریکِ تنویر‘ کی وجہ سے مغربی تہذیب میں حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ پہلے ایک معاشرے کا تصور ایک جسم کاسا تھا، جس میں تمام ارکان ایک ہی مقصد کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ سیکولر معاشرے کی بنیاد اس مفروضے پر(قائم ) ہوئی کہ ’’ہر انسان اپنا دین آزادی سے چُن سکتا ہے‘‘۔ چنانچہ معاشرے کے کوئی متحدہ مقاصد ہی نہیں۔ انفرادیت پر زور کی وجہ سے انسان کا انسان سے تعلق کٹ گیا اور محبت اور ذمہ داری کے وہ احساسات جو معاشرے کو جوڑتے ہیں، آہستہ آہستہ ختم ہو گئے۔ حتیٰ کہ آج کی دنیا میں شوہر بیوی، ماں باپ اور اولاد کا رشتہ بھی وقتی اور محدود بن کر رہ گیا ہے۔ اس انفرادیت کے اثر سے انسانوں میں طرح طرح کے نفسیاتی امراض پیدا ہونے لگے، جن کے حل کے لیے نفسیات کا علم وجود میں آیا۔ مگر یہ علم صرف گمان پر مبنی تھا کیونکہ انسان کی اندرونی گہرائیوں تک مشاہدے اور عقل کی شعاعیں نہیں پہنچتی ہیں۔ نفسیات کے مشہور بانیوں میں سے سگمنڈ فرائڈ نے انسان کی ان اندرونی تاریکیوں کے بارے میں عقل کو حیران کر دینے والے، اخلاق سے عاری، نظریات پیش کیے، جن کا ذکر بھی شرفاء کی مجلس میں نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس کے بعد یہ تاریکی بڑھتی ہی چلی گئی ، جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔
انسان کی اندرونی ساخت تو صرف انسان کا خالق ہی جانتا ہے، اور ہمیں اس کے بارے میں وہی علم مل سکتا ہے جو اس نے ہمیں عطا کیا۔ پچھلی چند دہائیوں میں مسلمانوں نے اسلامی نفسیاتی علوم کو ہماری اسلامی علمی میراث کی بنیاد پر نئے سرے سے وضع کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے، اور کئی کتب اور رسائل لکھے جا چکے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں دروس، ڈپلومہ، اور ڈگری بھی دیے جا رہے ہیں۔ ان علوم میں انسان کی چار جہات بتائی گئی ہیں: نفس، جو برائی کی طرف مائل ہوتا ہے ، اور روح ،جو اللہ کی طرف متوجہ ہے۔ قلب، جو پاکیزگی کے حال میں اللہ تعالیٰ سے جوڑتا ہے، اور عقل، جو قلب کے تجویز شدہ اہداف ، چاہے بُرے ہو ں یا بھلے ، کی طرف پہنچنے کی تدبیر سجھاتی ہے۔ اس اسلامی علم کی بنیاد کچھ تو وحی اور الہام پر ہے، اور کچھ ایسے انسانوں کے ذاتی تجربات پر، جنھوں نے روحانی ترقی کے حصول کے لیےتزکیہ و احسان کے زینے طے کیے۔ ’سیکولر علم‘ چونکہ وحی سے، اور انسان کے شخصی تجربے سے، انکار کرتا ہے، اس لیے اس کی اسلامی نفسیاتی علوم تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس علم میں کمال پیدا کرنے کا ہمارے پاس سنہری موقع ہے۔
معاشرہ انسانوں کے مجموعے کا نام ہے، اس لیے انسان کی اندرونی ساخت کے صحیح علم کے بغیر حقیقی معاشرتی علوم کی تشکیل ناممکن ہے۔ بانیانِ ’تحریکِ تنویر‘ نے انسان کی باطنی دنیا کے علوم کو خارجی دنیا کے علوم سے بالکل الگ کر دیا اور ان کے پیروکاروں نے انسان کی روحانی ساخت کو علم کے میدان ہی سے نکال دیا۔ اس وجہ سے مغربی معاشرتی علوم تمام کے تمام غلط بنیادوں پر قائم ہیں، اور ان سب کو از سر نو وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا علم جو انسانی زندگی کے لیے بہت اہم ہے، وہ ہے علم معاشیات ۔معیشت کی موجودہ کتب میں انسان کا جو تصور پیش کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ ہر ذی عقل انسان کی زندگی کا مقصد اشیاء اور خدمات کو خرید کر زیادہ سے زیادہ لذتوں کا حصول ہے۔ یہ ہو بہو ’نفسِ امّارہ‘ کی تصویر ہے، اور قرآن میں کئی بار کئی طرح سے اس کی مذمت آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان باطل بنیادوں پر کسی صحیح علم کی عمارت نہیں کھڑی کی جا سکتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ساری مسلم دنیا میں مسلمان اساتذہ مسلمان طلبہ کو یہی نفس پرستی کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ در اصل مسلمان مغربی علوم کی چمک دمک سے مرعوب ہو گئے، اور ان کے اندر پوشیدہ الحاد کے زہر کو پہچان نہ سکے۔ ہمیں ضرورت اقبال کی نگاہ کی ہے ؎
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
مغربی ’سیکولر علوم ‘کی پیدائش اور افزائش کا قصہ نہایت پیچیدہ ہے۔ اسلامی تناظر میں اس کی تفصیل سیّد نقیب العطاس کی معرکہ آراء کتاب اسلام اور سیکولرزم میں ہے۔ ہم یہاں نہایت اختصار کے ساتھ ہمارے مقصد کے مطابق فقط کچھ ضروری نکات بیان کریں گے۔
صدیوں پر محیط مذہبی جنگوں نے یورپ کو تباہ و برباد کر دیا، شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے اور بے شمار زندگیاں برباد ہو گئیں، جس نے ’تحریکِ تنویر‘ کے مفکرین میں مذہبی عقیدے سے شدید نفرت اور عقل و تجربے کے ذریعے حقیقت کی تلاش کی شدید خواہش پیدا کر دی۔ انھوں نے جو ذاتی نقصانات اور وسیع پیمانے پر افراتفری دیکھی، اس نے انھیں انسانیت کے لیے ایک نئے راستے کا متلاشی بنا دیا ، وہ راستہ ،جومذہبی جھگڑوں کے خوف سے آزاد ہو ۔ اس تلاش میں نیوٹن کی دریافتیں، جنھوں نے پورے یورپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ، مشعلِ راہ ثابت ہوئیں ۔
آیزق نیوٹن [۱۶۴۳ء- ۱۷۲۷ء] نے قوانینِ کشش ثقل سے سیاروں کی گردش اور سمندری لہروں تک بے شمار ظواہر کی وضاحت کی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ یہ قوانین چھوٹے سے چھوٹے ذرّات سے لے کر بڑے سے بڑے سیارے تک لاگو ہوتے ہیں۔اس بات نے یورپی مفکرین میں ایک مخصوص سوچ کو جنم دیا کہ کائنات کا ہر ذرہ قوانین کے تابع ہے ،جو اس کی پوری حرکت کو، کائنات کے آغاز سے لے کر وقت کے اختتام تک، متعین کرتے ہیں۔ اس سے خدا کو ایک ’گھڑی ساز‘ کے طور پر دیکھنے کا خیال پیدا ہوا، جس نے ایک نہایت پیچیدہ میکانزم بنایا اور اسے حرکت میں لے آیا، جو اب اپنے آپ کام کرتا ہے۔ اس سے یہ تصور ابھرا کہ علم دراصل دنیا کو چلانے والے قوانین کو سمجھنے پر مبنی ہے، اور خدا غیر ضروری ہے۔ مشہور ماہر ریاضی لاپلاس، جس نے ستاروں کی حرکت پر ایک کتاب لکھی، سے پوچھا گیا کہ اس نے اپنی کتاب میں ستاروں کے خالق خدا کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے اس مفروضے کی ضرورت نہیں تھی۔ جس طرح قدرت کے قوانین نے کائنات سے خدا کو نکال دیا، اسی طرح انھی قوانین نے انسان کو بھی بے دخل کر دیا۔ جب ہر ذرّہ ایسے قوانین کی گرفت میں جکڑا ہوا ہے، جس میں خدا بھی دخل نہیں دے سکتا تو انسان کی روح، اور اس کی خواہشات اور خیالات کیسے کوئی اثر کر سکتے ہیں؟ انسان کے تصور سے روح نکال دی گئی اور وہ بھی محض ایک مادی مشین بن گیا جو کہ ریاضی کے قوانین کے مطابق چلتا ہے۔
ان تمام خیالات میں بہت سی خامیاں ہیں اور بہت سے پوشیدہ مفروضات ہیں، جو غلط ہیں۔ یہاں پر مختصر اً چند موٹی موٹی باتیں پیش کرتے ہیں:
اس کی کیا ضمانت ہے کہ قدرت کے قوانین جن کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے، وہ آئندہ بھی اسی طرح چلتے رہیں گے؟ جس طرح ایک گھڑی بہت دیر تک ایک ہی طرح سے چلتی رہتی ہے، مگر بالآخر بند ہو جاتی ہے، اسی طرح یہ ممکن ہے کہ جن قوانین کا ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں، کل وہ بدل جائیں۔ دراصل، امام غزالی نے ہمیں ہزار سال پہلے ہی سمجھا دیا تھا کہ اس کائنات میں تو اتنی قدرت بھی نہیں کہ اپنے آپ کو ایک لمحہ بھی برقرار رکھ سکے۔ اللہ تعالیٰ لمحہ بہ لمحہ کائنات کو اَز سرِ نو تخلیق کرتا ہے، اس لیے وہ برقرار رہتی ہے۔ قدرت کے کچھ قوانین اگر ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ ہی کے بنائے ہوئے ہیں۔ اس کائنات میں جو بھی نظم و ضبط ہمیں نظر آتا ہے، وہ دراصل اللہ کے وجود کی گواہی ہے۔
نیوٹن کی حیرت انگیز کامیابیوں نے ’تحریک تنویر‘ کے مفکرین کا حوصلہ بلند کر دیا کہ ہم صرف عقل اور مشاہدے کی بنا پر آفاقی حقیقتوں تک پہنچ سکتے ہیں، اور حق تک پہنچنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ تاہم، بعد کی سائنسی اور فلسفیانہ ترقیات نے اس امید کو چکناچور کر دیا۔ یہ واضح ہو گیا کہ مخصوص مشاہدات کے مجموعے پر مبنی قوانین اس مجموعے سے باہر لاگو نہیں ہو سکتے۔ قوانین کی موجودہ صحت ہمیں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دیتی کہ یہ قوانین کل بھی برقرار رہیں گے۔ سائنسی نقطۂ نظر سے، نیوٹن کے بہت سے نظریات غلط ثابت ہوئے۔ خاص طور پر، اس کے قوانین بہت چھوٹے ذرّات پر لاگو نہیں ہوتے، اور نہ بہت زیادہ رفتار ہی پر۔ بہت سی اور استثنات بھی پائی جاتی ہیں ۔ خاص طور پر، انسانی قوتِ ارادہ خود ایک مضبوط استثناء فراہم کرتا ہے۔ انسان اپنی حرکات میں خود مختار ہے اور کسی ریاضی کے قانون کا پابند نہیں ۔دنیا اور آخرت میں سزا اور جزا کا تصور نیکی اور برائی کے ساتھ ساتھ انسانی اختیار پر منحصر ہے۔ ’سیکولر علوم ‘میں نیکی، برائی، اور انسانی اختیار کا تصور نہایت اُلجھا ہوا ہے، کیونکہ ایک مشینی دنیا میں، جو قوانین کی پابند ہے، ان تصورات کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔
’سیکولر علوم ‘نے عقل اور مشاہدہ کو بیرونی دنیا تک محدود کر دیا، مگر مسلمان ان پابندیوں کو، جو عقل اور مشاہدے پر لگائی گئی ہیں، سمجھ نہ پائے۔مسلمان مفکرین کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ چونکہ قرآن بھی عقل اور مشاہدے کو علم حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے، اس لیے علم حاصل کرنے کے طریقے میں اسلامی تعلیمات اور مغربی علوم میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ قرآن کی ابتدائی آیات میں تقویٰ والوں کی تعریف بیان کی گئی ہے کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ سیکولر سوچ کا بنیادی عقیدہ، غیب سے انکار ہے۔ اس انکار کی وجہ سے انھوں نے خدا، قیامت، اور یومِ جزا سے بھی انکار کیا، اور اس انکار کو عقل کا تقاضا بتایا۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر مشہود کا انکار خود عقل کے خلاف ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کائنات خود بخود پیدا ہو گئی، کیونکہ اس کا بنانے والا تو لازمی طور پر کائنات کے دائرے سے باہر ہے، جب کہ ہمارا مشاہدہ کائنات سے باہر جا ہی نہیں سکتا۔ اس بات کے خلافِ عقل ہونے کے باوجود، آج بھی سیکولر فکر کے علمبرداروں کا یہی کہنا ہے کہ کائنات خود بخود وجود میں آئی۔ آہستہ آہستہ بے جان چیزیں آپس میں مل کر جان دار بن گئیں، اور ایک ارتقاء کے عمل سے انسان پیدا ہوا۔ اس ارتقاء کے عمل کا مرکزی وصف ایک وحشیانہ مقابلہ ہے: یا تو ہم دوسروں کو چیر پھاڑ کر کھا جائیں یا وہ ہمیں کھا جائیں گے۔ جنگل کی زندگی کا ایک ہی قانون ہے۔ زندگی کا حق صرف طاقت ور کو ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے تصور کی بنیاد پر جنگلوں میں تو رہا جا سکتا ہے، مگر اس طرح ایک انسانی معاشرہ نہیں بنایا جا سکتا۔
آج، ان زہریلے خیالات کے تباہ کن اثرات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ جنگوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، جن میں طاقت اور منافع کے حصول کے لیے جان بوجھ کر لاکھوں بے گناہ جانیں موت کے بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔ ’مہذب‘ دنیا کا سردار امریکا، جو انسانیت کی سب سے ترقی یافتہ تہذیب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، باقی دنیا سے وہ دس گنا زیادہ ہتھیار بناتا اور برآمد کرتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں محض ہتھیاروں کی فروخت بڑھانے کا ایک طریقہ اور ذریعہ ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس بات میں بہت کچھ سچائی ہے۔ پوری دنیا اس تصور سے تباہ ہو چکی ہے کہ طاقت، دولت، عیش و عشرت کے حصول کے لیے سب جائز ہے۔ لاکھوں بری اور بحری جانوروں کا قتل کیا جائے۔ ان جنگوں سے ،ماحول کو اس قدر نقصان پہنچا کہ کرۂ ارض پر انسانی زندگی کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ مغربی معاشرتی علوم نہ صرف دنیا بھر میں موت اور تباہی لائے ہیں، بلکہ انھوں نے مغرب میں خاندان، جو انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے، کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ مغرب میں پیدا ہونے والے ۵۰ فی صد سے زیادہ بچے غیر شادی شدہ ماؤں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں۔ دونوں والدین کے سائے میں، محبت اور شفقت بھرے محفوظ گھرسے محروم بچے ، زندگی بھر دوسروں سے بے لوث محبت کرنا نہیں سیکھ پاتے۔
مسلمانوں نے اپنی نادانی اور مرعوبیت کی وجہ سے مغربی معاشرتی علوم کو مغرب کے سائنسی علوم کے ہم پلہ سمجھا، اور اس بات کے تجزیے میں آج تک مشغول ہیں کہ ان علوم میں کاٹ چھانٹ کر صحیح باتیں تسلیم کر لی جائیں اور غلط باتوں سے انکار کر دیا جائے۔ مگر سیکولر مغربی علوم دجال کی طرح ہیں۔ بیرونی دنیا پر تیز نگاہ رکھتے ہیں اور انسان کی اندرونی دنیا کے بارے میں اندھے ہیں۔ انسان کے ایک جانور ہونے کے تصور پر اسلامی معاشرت نہیں بنائی جا سکتی ہے۔
مسلم معاشروں میں بگاڑ کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ ہم اپنے معاشروں کو مغربی اصولوں کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا نظام حکومت خلافت اور شوری ٰکے بجائے مغربی پارلیمانی نظام اور جمہوریت پر چل رہا ہے۔ ہماری عدالتیں مغربی قوانین کو مغربی اصولوں کے مطابق مسلم معاشروں پر نافذ کرتی ہیں۔ ہماری معیشت یہودیوں کے اصول پر چل رہی ہے۔ ہماری معاشرت میں بے شمار غیر اسلامی اثرات شامل ہو چکے ہیں۔ آج کا مسلم معاشرہ اس حدیث کی تعبیر ہے، جس میں بتایا گیا کہ یہ امت یہودیوں اور عیسائیوں کی اتباع کرے گی ،چاہے وہ سانپ کے بل میں گھس جائیں۔ ان سب خرابیوں کی جڑ وہ تعلیمی نظام ہے، جو مغرب اور مغربی علوم کی پرستش ہماری نسلوں کو سکھلا رہا ہے۔ جب تک یہ نظام لاکھوں مسلمان نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر گھول رہا ہے، احیائے امت کی کوئی تجویز کارگر نہیں ہوگی۔
اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ موجودہ تعلیمی نظام جو اسلامی علمی میراث کو بالکل نظر انداز کرتا ہے، مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ چنانچہ عالمِ اسلام میں بے شمار اسلامی تعلیمی ادارے قائم کیے جا رہے ہیں۔ ان اداروں کا عام طریقہ کار یہ ہے کہ مغربی علوم کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم بھی پڑھا دیے جائیں۔ کیا یہ ادارے ہمارے مسئلے کو حل کر سکتے ہیں؟ ہمارے خیال میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے :
در اصل اس وقت ساری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام چل رہا ہے۔ اس نظام کے سارے حصے: سیاست، عدالت، معاشرت، معیشت، اور تعلیم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تعلیمی نظام کا کام طلبہ میں دولت اور پرتعیش زندگی کا شوق پیدا کرنا، اور اس شوق کو پورا کرنے کے لیے اُونچی تنخواہوں پر نوکری حاصل کرنا ہے۔ یہ نوکریاں طلبہ کو سرمایہ دارانہ نظام کا ایک جزو بنا دیتی ہیں۔ اگر ہم طلبہ کو اسلامی تعلیم میں یہ بتاتے ہیں کہ اسلام نے ہمیں ایک بہترین نظام دیا ہے ،جو زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے، مگر پھر اسی طالب علم کو سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بننا اور اس غیر اسلامی نظام کو مزید قوت دینا سکھاتے ہیں، تو ہماری یہ اسلامی تعلیم محض لفاظی بن کر رہ جاتی ہے۔ کہاں ایک طرف اسلامی علوم کی فوقیت کا دعویٰ، تو کہاں دوسری طرف دو وقت کی روٹی کے لیے کافرانہ نظام کی محتاجی۔
ہم مضمون کی ابتدا میں تذکرہ کر چکے ہیں کہ تعلیم کی اسلام کاری کے مفکرین نے اسلام کے احیاء کے لیے اسلامی تعلیمی نظام کی مرکزی حیثیت کو پچاس سال پہلے پہچان لیا تھا۔ ان کی کوششوں سے تنظیمِ تعاونِ اسلامی (او آئی سی) نے دو اسلامی جامعات قائم کیں جہاں اسلامی علوم اور عصری علوم کو یکجا کرکے پڑھایا جاتا ہے۔ یہ جامعات بھی اسلامی دنیا کے لیے علمی میدان میں ایک نیا راستہ وضع کرنے میں کامیابی نہیں ہوئیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ دونوں جامعات طلبہ کو سرمایہ دارانہ نظام میں نوکریوں کے لیے تیار کرتی ہیں۔ اس بات کو طلبہ بھی سمجھتے ہیں اور اس لیے اسلامی مضامین میں وہ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ – یہ مضامین ان کو نوکریاں دلوانے میں بھی بیکار ہیں، اور ان کو زیادہ گراں قدر دنیاوی علوم حاصل کرنے میں بھی مانع ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بعض لوگوں نے بہت بلند عزائم کے ساتھ ایسے ادارے قائم کرنا چاہے جن میں ایک مکمل اسلامی تعلیمی نظام ہو جہاں روحانی تربیت بھی ہو، کردار سازی بھی ہو، اور دنیاوی علوم بھی سکھلائے جائیں۔ اس میں بھی کوئی کامیاب نمونہ سامنے نہیں آیا ہے،نیز اگر ایسا نمونہ بن بھی جائے تو اس سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جب تک لاکھوں موجودہ ادارے ہمارے نوجوانوں کو مغربی معاشرت کے اصولوں اور ان کی فوقیت کا سبق سکھلاتے رہیں گے ، اسلامی معاشرے کی تشکیل ناممکن ہوگی۔
پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ’سیکولر علم‘ خود ایک مذہب ہے۔ یعنی طلبہ کو جینے کا طریقہ اور زندگی کے مقاصد سکھاتا ہے۔ موجودہ معیشت کی کتب کھل کر بتاتی ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ عیش کرنا ہے۔ جس طرح عیسائیت یا بدھ مت کو اسلامائز نہیں کیا جا سکتا ہے، اسی طرح ’سیکولر علوم‘ کو بھی اسلامی شکل میں نہیں ڈھالا جا سکتا ہے۔ ان علوم میں جو پوشیدہ عقائد ہیں ان کو منظرِ عام پر لاکر، ان کی تردید کرنی ضروری ہے۔
یہ کام ہم الگ ادارے بنا کر نہیں کر سکتے اور اسلامی معیشت کا الگ اضافی مضمون پڑھا کر بھی نہیں کر سکتے۔ ہمیں جو موجودہ مغربی معیشت پڑھائی جا رہی ہے، اسی مضمون کو مختلف طریقے سے پڑھانا ہوگا۔ ہم پڑھائیں گے کہ یہ مغربی اقوام کا عقیدہ ہے کہ معیشت کی بنیاد خود غرضی، لذت پرستی، مقابلہ اور انفرادیت ہے۔ اسلام ہمیں اس کے بر عکس نظریات، یعنی فیاضی، سادہ زندگی، تعاون اور اجتماعیت سکھاتا ہے۔ہمیں انھی موجودہ اداروں میں اس تعلیم کے مقاصد اور انداز کو تبدیل کرنا ہوگا۔ میں نے ساری زندگی انھی مغربی تعلیمی اداروں میں گزاری ہے، پہلے طالب علم کے طور پر اور پھر معلم کے طور پر۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، یہاں پر فطری طور پر یہ سوال اُبھرتا ہے کہ یہ سارا فلسفہ پڑھانے کے بعد آخرکار کیا ہمارے طلبہ سرمایہ دارانہ نظام ہی کی نوکریاں ڈھونڈنے پر مجبور نہیں ہوں گے؟ اور اگر ایسا ہو گا، تو یہ سارا فلسفہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔
اس سوال کے جواب میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مغربی تعلیم کا ایک بڑا حصہ ذہن سازی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس حصے میں طلبہ کو دنیا کے بارے میں، اور اپنے آپ کے بارے میں یہ سوچنا سکھلایا جاتا ہے کہ ’’تعلیم کا مقصد نوکری حاصل کرنا ہے، اور ہم کو انسان کے بجائے ہیومن ریسورس، یعنی ’ایک خام مال جو بازار میں بکتا ہے‘ بنانا ہے‘‘۔ ہم ان نظریات کی کھل کر تردید کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے طلبہ کو سکھائیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی سب سے قیمتی مخلوق ہے۔ ہماری زندگیوں کو پیسے میں تولا نہیں جا سکتا اور ہم خرید و فروخت کے لائق خام مال، یعنی ہیومن ریسورس نہیں ہیں۔ اپنے طلبہ سے عہد کروائیں کہ ہم اپنی تعلیم کو امت کی خدمت کے لیے استعمال کریں گے، نہ کہ ذاتی مفادات کی خاطر۔ اگر ہم یہ ذہن سازی اسلامی شکل میں کریں تو یہ نوکریاں ڈھونڈنے کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ البتہ نوکریوں کا مقصد بدل جائے گا۔ ذاتی تعیش کے بجائے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی خاطر یہ کام ہوگا۔ اس کے علاوہ ہم طلبہ کو زراعت اور تجارت سکھلا سکتے ہیں، جن سے طلبہ خود کفیل ہو جائیں اور نوکری کی تلاش میں نہ لگیں۔ تعلیم بھی بہترین شعبہ ہے، جس میں طلبہ کی اسلامی ذہن سازی کے وافر مواقع ملتے ہیں۔ غرض یہ کہ موجودہ دنیا میں جتنا کچھ کیا جاسکتا ہے اس کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ آگے بڑھنے کے راستے کھول دیں گے۔
در اصل ہمیں مغربی علم کو اسلامی نہیں بنانا ہے۔ ہمارے پاس پہلے سے ان کے علوم سے بہت بہتر علم موجود ہے۔ ہمیں اپنے ہاں مغرب کے نقال تعلیمی اداروں کو اسلامی بنانا ہے کیونکہ اپنی موجودہ شکل میں یہ بہت سے سیکولر افکار کی، جو اسلام سے ٹکراتے ہیں، ترویج کر رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمی اداروں کا سب سے اہم مقصد کردار سازی ہے۔ یہ مقصد شعبۂ مغربی تعلیم میں سرے سے غائب ہے۔ اس شعبے کو ہمیں اپنے موجودہ تعلیمی اداروں میں نہ صرف داخل کرنا ضروری ہے بلکہ اس کو تعلیم میں مرکزی حیثیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہر شعبۂ تعلیم کو اسلامی شکل میں ڈھالنے کے لیے الگ الگ تدابیر ضروری ہیں۔ میڈیکل کے طلبہ کو بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک زندگی کو بچانا ساری انسانیت کو بچانے کے برابر کہا ہے۔ ہم اس ثواب کو حاصل کرنے کی نیت سے کام کریں۔ اسی طرح انجینئرنگ اور دیگر تکنیکی اور سائنسی شعبوں میں مضمون تو مغربی ہی رہ سکتا ہے، مگر نیت خدمت خلق اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور بیرونی دنیا میں اللہ کی نشانیوں کی تلاش ہوگی۔ البتہ معاشرتی مضامین میں طریقہ الگ ہوگا۔
مغربی معاشرتی علوم وہ اسباق ہیں جو اہل مغرب نے اپنی مذہبی جنگوں سے سیکھے ہیں۔ یہ اسباق ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ ایک سیکولر معاشرہ، جس میں مذہب کا کوئی کردارنہیں، کیسے بنایا جاتا ہے؟ ہمیں اس سبق سے کلی طور پر انکار کرنا ضروری ہے اور اس بات پر اصرار ضروری ہے کہ ہم اپنا معاشرہ، اسلامی بنیادوں پر ہی بنائیں گے۔ جب یہ مقصد واضح ہو، تو اس کام کو کرنے کے لیے بے شمار مواد موجود ہے۔ ہماری پوری فقہ ہمیں سکھلاتی ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کیسے کی جاتی ہے؟ اس کے علاوہ ہمارے پاس ہزار سالہ اسلامی تہذیب کے عروج کا وقفہ ہے، جس میں ہزاروں موجودہ زمانے کے لیے قابل عمل نمونے موجود ہیں۔ اس سلسلے میں بہت سارا کام ہوچکا ہے، جس کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ اسلامی احکام کے مطابق معاشرے کی تشکیل کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم ہمت کریں گے، اور اس کام پر کمر باندھ لیں گے، تو اللہ تعالیٰ وہاں سے ہماری مدد فرمائیں گے ،جہاں سے ہم گمان بھی نہیں کر سکتے ؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اس مضمون کے اختتام پر ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اسلامی احیا کے لیے وہ ہمارے دلوں کو ایمان کے نور سے منور کر دے، حق اور باطل میں تمیز کرنا آسان کر دے، اور اُمتِ مسلمہ کو موجودہ اندھیروں سے نکال کر اپنی معرفت کے نور کی طرف رہنمائی فرمائے، آمین!
اسلام ایک ابدی دین ہے،جو رہتی دنیا تک کے لیے ہے اور قیامت تک بنی نوع انسان کے لیے واحد الٰہی ہدایت ہے۔ اللہ ربّ العزت نے قرآن مجید میں ایک بڑی حقیقت کی وضاحت کے لیے جس اسلوب اور دلائل کو اختیار کیا ہے، اس کی مثالیں قرآن مجید میں جگہ جگہ موجود ہیں:
قرآن کا آغاز سورۂ فاتحہ سے ہوتا ہے جس میں اللہ کی ربوبیت کی طرف انسانی ذہنوں کو متوجہ کیا گیا ہے۔ اس میں ایک بڑا سبق ہے۔ اللہ نے انسان کو متلون مزاج پیدا کیا ہے۔ جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھا، تہذیب و تمدن تبدیل ہوئے تو انسان کے سوچ وفکر کے دھارے بھی تبدیل ہوئے۔ ہر دور میں داعیانِ حق نے اسلام کے پیغام کو ہر دور کی اصطلاحات اور تہذیبی و علمی نہج کو سامنے رکھا۔ جب پیغمبرؐ اسلام نے فاران کی چوٹیوں سے پہلی بار دعوت پیش کی، اس وقت جو اسلوب اختیار فرمایا، وہ اس دور کے رائج طریقے کے مطابق تھا ۔یہی پیغمبرانہ اسلوب ہر دور میں داعیانِ اسلام نے ملحوظ خاطر رکھا ۔ آج بھی اسی اسلوب کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
آج سائنسی ٹکنالوجی کا دور ہے۔ اذہان و قلوب ایسی ہی اصطلاحات کے عادی ہیں۔ ابھی آیات قرآنی میں ہم نے دیکھا کہ آفاق و انفس کی طرف بار بار اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے حق کو پیش کیا ہے۔ آج یہ نشانیاں اس قدر نمایاں ہیں کہ ان سے ہر کوئی واقف ہے۔ ایک طرف کائنات اور انفس کی تنظیم و توازن اور نیوٹرون ،پروٹون میں تناسب ہے۔ دوسری طرف مختلف ڈیوائسز یا الیکٹرانک مصنوعات عام و خاص کی زندگی میں داخل ہو چکی ہیں، اور ان میں ذرّہ برابر خلل سے جو بگاڑ پیدا ہوتا ہے ہر فرد آئے دن اس تجربے سے دوچار ہوتا ہے۔ کائنات میں جو توازن ہے، اس کو سائنٹفک انداز میں کیمسٹری اور فزکس کے اصولوں کے مطابق واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ جب عقل کے دریچے وا ہوں، تب اس عظیم حقیقت کو پیش کیا جائے جسے قرآن کا ابلاغی اسلوب ہمارے سامنے بیان کرتا ہے۔
ذرا یاد کریں یہ دریچے آج بھی وا ہوسکتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں، جس مقام پر پہنچ کر آئن اسٹائن نے کہا تھا ’میں دہریہ نہیں ہوں‘۔ دراصل، ہمیں جو مسئلہ درپیش ہے، وہ ہمارے محدود ذہنوں کے مقابلے پر انتہائی عظیم ہے۔ ہماری مثال اس بچے کی سی ہے، جو ایک ایسی وسیع و عریض لائبریری میں داخل ہوتا ہے، جس کی بے شمار الماریاں مختلف زبانوں کی بہت سی کتابوں سے بھری ہوئی ہے۔ بچے کو معلوم ہے کہ کسی نے ضرور یہ کتابیں لکھی ہوں گی، لیکن یہ نہیں پتہ کیسے؟ 'اسے وہ زبانیں نہیں آتیں جن میں یہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ بچہ کتابوں کی ترتیب میں ایک پُراسرار ترتیب دیکھتا ہے، لیکن اسے پتہ نہیں وہ ترتیب کیا ہے؟ بالکل اسی طرح ہم کائنات کو دیکھتے ہیں، جو پُراسرار طریقے سے ترتیب دی گئی ہے اور وہ بعض قوانین کے تابع ہے، لیکن وہ ان قوانین کو بہت مبہم انداز میں سمجھتا ہے۔
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ میں پورے کائناتی دین کی خبر دی گئی ہے ۔ قرآن کے پیغام کو پیش کرنے کے لیے یہ قرآنی ابلاغی اسلوب، اور موجودہ زمانے میں مطلوبہ نقطۂ نظر کے درمیان جو خلیج حائل ہے، اس کو پُر کرنے کےلیے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسلام عالم گیر ابدی دین ہے اور اس دنیا میں الٰہی اسکیم کا ایک حصہ ہے۔
یہ سوال کہ عصر حاضر میں احیائے دین کے لیے اب تک کی کوششوں میں اس تصورِ دین کے ابلاغ کو فروغ نصیب ہوا ہے یا اس دین کے پھیلانے کے عمل میں ضرر رسانی میں اضافہ؟ غیرجانب دارانہ تجزیہ کریں تو تبلیغ دین کی مختلف تحریکات اس عظیم فریضے کو اخلاص کے ساتھ انجام دینے والے گروپس کے نصاب اور نصب العین کی تفہیم، ان کی پروگرامنگ اورمنصوبہ بند کارکردگی کے مطالعے سے یہ چیز کھل کر سامنے آتی ہے کہ تصورِ دین کی عالم گیریت اور ابدی ساخت محدود ہو گئی ہے اور ٹکڑوں اور ٹولیوں میں بٹ گئی ہے۔ یہ ایسا نقصان ہے، جس نے دینِ اسلام کے تعارف کو ہی فی زمانہ نقصان نہیں پہنچایا بلکہ بہت سارے سوالات بھی پیدا کر دیئے ہیں۔ اس پہلو پر اُمت مسلمہ اور خاص کر مختلف پلیٹ فارم سے تعلق رکھنے والے دین دوست افراد کو سوچنا اور باہمی اتحاد کے جذبے سے اجتماعی اور انفرادی سطح پر بھی، غور کرنے اور ہمدردانہ طورپر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
ایک خطرناک سوال جو باطل کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کی طرف اُچھالا جارہا ہے وہ یہ ہےکہ ’’ مسلمان ماضی میں جینے والی قوم ہے‘‘۔یہ سوال اسلام کو بطور دینِ انسانیت متعارف کرانے میں بھی مانع ہے ۔ اسلام کی تعلیمات اور ہدایات پر عمل کے ذریعے جو کردار ماضی میں تیار ہوئے اور دورِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت راشدہ میں جو بے مثال شخصیات پیدا ہوئیں، اور انھوں نے قرآن کے سائے میں انفس و آفاق میں غوطہ زن ہو کر کل امت مسلمہ کو اس دنیا میں قرآنی اصطلاح کے مطابق خیر امت اور اس سر زمین پر الٰہی حکومت برپا کرنے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا۔زندگی کے مختلف میدانوں میں اسلام کے ثمرات انھی کاوشوں کے نتیجے میں حاصل ہوئے۔
علوم کی درجہ بندی ہوئی اور دنیاوی علوم کو حاصل کرکے مختلف ایجادات کیں، جن سے تمام اقوام عالم نے فیض حاصل کیا ۔ مگر پھر خیر اُمت کا یہ مفہوم آہستہ آہستہ ذہنوں سے اوجھل ہوتا چلا گیا۔ مسلمانوں نے قرآن کی رہنمائی میں نہ اپنا تزکیہ کیا اور نہ اپنی صلاحیتوں و علوم کا ارتقاء کیا، بلکہ خیرامت اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا مفہوم بھی تبدیل کر دیا ۔ اگر ہم ایمان داری سے سوچیں تو اس آئینے میں مسلمان ماضی میں جینے والی قوم بن چکی ہے کیونکہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ہمیں نہ اس دنیا میں ہونے والے ظلم و نا انصافی سے غرض ہے اور نہ انسانیت کو درپیش دکھ درد سے کوئی واسطہ ہے، اور نہ اللہ کے بندوں کے لیے اس سر زمین پر رہنے بسنے اور آسانی مہیا کرنے میں کوئی دلچسپی ہے ۔
اسلامی تحریکوں کے نصاب اور اکثر لیکچرز ،اسلامی کورس اور نصابات کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ زیادہ تر ماضی کے مسلمانوں کے کارنامے سنانے اور ان کی وضاحت پر مشتمل ہوتے ہیں ۔اگر کوئی یہ کہے کہ 'ماضی کو یاد رکھنا اور اس کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا ضروری ہے ' تو اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ مگر ہم پر لازم ہے کہ اس اعتراض کو سنیں، اور اپنی تحقیق جاری رکھیں کہ ہم سے کیا غلطی ہو رہی ہے،اور بار بار یہ سوال اپنے سے پوچھیں کہ کیا حقیقت واقعی ایسی صورت تو نہیں بنتی جا رہی ہے، جس طرف غیروں نے اشارہ کیا ہے؟ تقریر کرنے اور تقریر سننے میں کچھ زیادہ محنت نہیں لگتی،مگر تقریر کے مندرجات کا عملی جواب بہرحال ایک مشکل اور مطلوب کام ہے۔
ہماری جدید نسل اسی راہ پر گامزن نظر آتی ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ان کی بہترین صلاحیتوں کا حصہ محض باطل کے پروجیکٹس پر کام کرنے اور تحقیقات میں صرف ہورہا ہے۔ اُن کی خدمات، صلاحیتوں اور خوابوں کو ایک پُرکشش تنخواہ کے عوض خرید لیا جاتا ہے۔ چونکہ اس پورے عمل میں مادی وسائل غیروں کی طرف سے آتے ہیں، اور اعلیٰ اداروں میں ہمارے اسکالروں کے مقاصد کو بروئے کار لاتے ہیں، حالانکہ اس کے بالمقابل دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت اور کسمپرسی کا سامنا کررہی ہے۔ ان میں پائے جانے والے امراض،ضروریات اور سہولیات میں ان تحقیقات اور ایجادات کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ زیادہ تر ریسرچ آج باطل دنیا میں سائنس کے ذریعے اپنی بھرپور حاکمیت (Supermacy) قائم کرنے کے لیے ہورہی ہے۔ اربوں ڈالر کے ایسے پروجیکٹوں پر ہمارے اسکالر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کہاں ہیں اسلامی مقاصد؟ کوئی ڈھونڈ کے بتائے ۔ظلم و ناانصافی کو ختم کرنے کے لیے اسلام کے اہداف موجود ہیں، لیکن آج ظلم و نا انصافی کے منصوبوں پر ہمارے کتنے اسکالر مصروفِ کار ہیں؟
ہماری نئی نسل، دین کے کاموں میں بھی پیش پیش ہے۔مساجد میں حاضری اچھی خاصی ہے۔ مغربی دنیا میں عید ملن اور مشاعروں کے پروگرام ہوتے ہیں، جنھیں ہمارے دین کا شعار سمجھا گیا ہے ۔مغرب کی مساجد خوب صورت ہیں۔ باریش اور عربی لباس میں ملبوس نوجوان درس قرآن بھی دیتا اور امامت بھی کرتا نظر آتا ہے۔ دوسری طرف وہ کسی مغربی یونی ورسٹی میں سائنس یا انجینئرنگ اور میڈیسن کا پروفیسر بھی ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ اپنی علمی اور پروفیشنل زندگی میں غیروں کے مقاصد کی خدمت گزاری کے لیے دل و دماغ کی تمام قوتیں لگادینے میں مصروف ہوتا ہے ۔
آج اسلامی تحریکات کی ذمّہ داری ہے کہ مذکورہ اسلامی اہداف اور اسلامی کاز کے حصول کے لیے وسائل فراہم کرنے کی طرف حکومتوں کو توجہ دلائیں اور ایسے پروجیکٹ تیار کرنے کی حوصلہ افزائی کریں، جو اسلام کے مقاصد کو جِلا بخشنے والے ہوں۔ اسلامی تحریکات کی یہ بھی ذمہ داری ہے کے عوام میں اس شعور کو بیدار کریں کہ عصر حاضر میں احیائے دین کے لیے مختلف حل سوچنے سے پہلے اس تکلیف دہ صورت حال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ راستہ خود نکل آئےگا کہ منزل اب دور نہیں ہے ، مگر اس کے لیے ایمان، عمل، جستجو اور تحقیق کے لیے سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔
یہ کہنا درست ہے کہ تحریکی ناکامی بھی کامیابی ہے کیونکہ مقصود تو اللہ کی رضا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ تحریکیں اپنی کامیابیوں سے توانائی حاصل کرتی ہیں، اور یہ بھی درست ہے کہ مسلسل ناکامیاں حوصلے توڑتی ہیں۔ انسان کتنا بھی روحانی ہو اُس کی روح اُس کے جسم میں مقیّد ہوتی ہے جو توانائی کے سوتوں سے دُور نہیں رہ سکتی۔ بصورتِ دیگر وہ نااُمیدی کا شکار ہوسکتا ہے۔ جو شے اُسے حرارت دیتی ہے اور اُمید دلاتی ہے وہ حصولِ مقصد کی قربت ہے نہ کہ اُس سے مسلسل دُوری۔
تمثیلاً کہا جاسکتا ہے کہ جب گاڑی نہ چل رہی ہو یا چلتے چلتے رُک جاتی ہو، تو بونٹ کھولنا پڑتا ہے۔ بیٹری دیکھنی پڑتی ہے کہ کہیں توانائی اور اسپرٹ میں کمزوری تو نہیں آگئی، یا جس ذریعے سے توانائی آتی تھی اُس میں کوئی خلل تو واقع نہیں ہوا۔
بالفاظِ دیگر جو چیز بھی بالنفس حرارت رکھتی ہو، وہ اُسی صورت میں زندگی کا دعویٰ کرسکتی ہے، جب کہ وہ جمود کی جکڑ سے آزاد حرکت پذیر ہو۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے ضابطۂ اسلوبِ کار کو جو اُس کے لیے لکھا گیا ہو اُسے پڑھا، اور پھر اُس کی روشنی میں، اُس کی اصلاح کرکے اُسے رواں کردیا جائے۔
وہ تنظیمیں جو اسلوبِ کار کا ضابطہ رکھتی ہیں کہ جس سے اب تک وہ توانائی حاصل کرتی رہی ہوں، اُن کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ دیکھیں:
منطقی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اصل مسئلہ توانائی اور حرکت کا ہے، جو اپنی قدروقیمت میں تنظیم سے بالا تر ہے۔ ایسے میں اگر ہم تنظیم کو توجہ دیتے بھی ہیں تو وہ ثانوی ہے نہ کہ اوّل۔ اسی طرح خود احتسابی اور نظرثانی حرکت پذیر تحریکوں کے نصاب کا اہم ترین باب ہے۔ امریکی عیسائی مبلغ ڈاکٹر بلی گرام نے ایک دفعہ اپنے ریڈیو پروگرام میں یہ حیران کن اعتراف کیا تھا کہ وہ اب تک تیس بار اپنے طریق کار کا جائزہ لے چکے ہیں۔اب تک کی آراء جو سامنے آئی ہیں اُن میں کچھ چیزیں قدرِ مشترک ہیں اور وہ ہیں مقصد سے محبت، روشنی پھیلانے کی فکر اور جمود توڑ کر آگے بڑھنے کی جستجو۔
علم درحقیقت مشاہدے، حسیّات اور تجربے کا خلاصہ ہے۔ ماضی پر مشتمل تاریخ ہو یا عصرحاضر کا بیان، اپنے اندر اسباق رکھتے ہیں اور اُن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ہمارے سامنے چار ماڈل ہیں اور چاروں اپنے اندر کامیابیاں سمیٹے ہوئے ہیں: ترکیہ کی جسٹس پارٹی، فلسطین کی حماس، ایران کی تحریک اور افغانستان کے طالبان۔ یہاں کامیابی سے مراد عوام الناس کی تائید حاصل کرنا اور اُن کی اُمیدوں کا مرکز و محور وبننا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ اپنے اپنے ملک کے مخصوص حالات ہونے کے باوجود، ان ماڈلوں کا بہت باریک بینی سے مشاہدہ اور تجزیہ ہونا چاہیے تھا۔
کراچی میں زمانۂ قریب میں جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ تحریک کے کام کو، محض لفظ ’اسلام‘ کے بجائے، مسائل اور خدمت سے جوڑا جائے اور اس طرح عوام کے دلوں اور ذہنوں کے دروازے کھولے جائیں۔ یہ ایک تعمیری اور نتیجہ خیز پیش رفت ہے، اسے دوسری جگہوں پر بھی آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کے ارتقاء اور احیاء میں سب سے بڑی رکاوٹ مغرب کی پرانی عداوت، اور دوسری طرف خود مسلمانوں کی ذہنی ساخت ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ ہم خود شناسی سے محروم، اُمید سے عاری، مغرب سے مرعوب، شکست خوردہ قوم بن چکے ہیں۔
علامہ اقبالؒ نے جو علما اور مشائخ سے نشاتِ ثانیہ کی اپیل کی تھی، اُس کی بازگشت آج بھی سنی جاسکتی ہے ؎
دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا
بیسویں صدی کی آزادی کی لہر اور اُس کا تلاطم تو عرصۂ دراز ہوا تھم چکا۔
غلامی کا تصور ایک زمانہ میں خارجی یلغار اور جغرافیائی مقبوضیت میں تھا۔
غلامی کی میراث پریشان نظری ہے اور آزادی کا تقاضا نئی ذہن سازی ہے، تاکہ غلامی کے خلاف قوتِ مدافعت کی آبیاری کی جاسکے۔ لیکن نہ بیماری کا پتہ چلایا جاتا ہے اور نہ اُس کے علاج کی پرواہ کی جاتی ہے۔ اُمت پر تھکن کے یہ آثار ہردائرے میں نمایاں ہیں۔
ہم سب، عالم گیریت (Globalization) اور اُس کی ہمہ گیریت کا حصہ بغیر کسی ذہنی تحفظ کے بن چکے ہیں۔
ہم نے عالم گیریت کو اقتصادیات کی نظر سے تو دیکھا مگر اُس سے پیوست فتنے کو دیکھ نہ پائے۔ہمیں یہ احساس ہوا ہی نہیں کہ ہم ایک نئے نوآبادیاتی دور سے گزر رہے ہیں۔ پرانا نوآبادیاتی عہد، تہذیبی اور علمی اجارہ داری اور تسلط میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ ورچول (virtural) عہدہے۔
تکثیریت (Pluralism)جس کا بڑا شہرہ اور دور دورہ ہے۔ یہ تکثیریت آج قوموں اور ثقافتوں کی انفرادیت کی تصدیق کرتی ہے اور اپنے جوہر میں یہ تہذیبی یکسانیت اور وحدت کا عنوان ہے۔ اسی چیز نے غلامی کو دوام بخش دیا ہے۔
اس صورتِ حال میں اسلامی تحریکوں کا کام کیا ہونا چاہیے؟ زمانۂ حاضر جیساکہ عرض کیا ہے تہذیبی وحدت اور یکسانیت کا ہے۔ اس وحدت کے جبر کو توڑنے کی کوشش کا نام اسلامی تحریک ہے۔ علامہ اقبال نے درست کہا تھا ع
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام
اگرہم اس اصطلاح کو قبول کرلیتے ہیں تو پھر ایک اسلامی گروہ کا کام تہذیبی نوعیت کا ہی ہونا چاہیے، جس سے سوچ بدلے ،ر ویوں میں تبدیلی آئے۔
اس کے لیے ایک اہم پیش رفت، متبادل تفریح یا میڈیا (وسیع تر معنی میں) کے میدان میں ہوسکتی ہے۔
زمانۂ قدیم میں قصہ گوئی ابلاغ کا ایک اہم میڈیم تھا، جس نے بتدریج کاغذ کی ایجاد اور پرنٹنگ پریس کی اختراع سے، ناول اور اس سے جڑی نوٹنکی نے فلم سازی کی نئی شکل اختیار کی۔ یہ سب قصہ گوئی کا ارتقائی سفر ہے۔ اس سے دُور رہ کر ہم ذہن سازی کے عمل کو محدود کر رہے ہیں۔
مغرب میں میڈیا پر جو کام ہوا ہے، اُس سے ثابت ہواکہ ہر میڈیم کے بذاتِ خود اپنے اثرات ہیں۔ کسی بھی میڈیم کے دو اجزاء ہیں: مواد یا نصاب جو پہنچایا جاتا ہے اور واسطہ یا ذریعہ جس کی مدد سے پہنچتا ہے۔ نصاب کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ مرئی ہے، اس کا ادراک قوتِ باصرہ کرسکتی ہے۔ لیکن اس کا واسطہ یا میڈیم (الیکٹرانک اور پرنٹ) ہیں، جن کے اثرات کی نوعیت، باوجود مشینی عمل کے ذہنی اور جذباتی ہوتی ہے۔ اسی کو مارشل میک لوہن نے اپنے مشہورِ زمانہ فقرے ’میڈیم بذاتِ خود پیغام‘ ہے (Medium is the message) میں بیان کیا ہے۔
متبادل میڈیم کی بات پر تحفظات ظاہر کیے جاسکتے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہمارے تحفظات زمینی ہیں یا خلائی؟
فکری طور پر اس پر سوچ بچار ہونا چاہیے کہ کہاں تک ہمارے اعتقادات اس سے متصادم ہیں؟ فرض کیا کہ ایسا کوئی تصادم نہیں تو پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
ہمارے خیال میں دو اہم اقدامات کرنے پڑیں گے:
موضوعات کی نوعیت ہی فکری طور پر ہماری اقدار کی ترویج میں ممدومعاون ہوگی۔ مثلاً ہماری اساسی اقدار، جیسے ایمانیات، حیا، عفت اور ممنوعات جیسے شراب نوشی، جواء ، اسراف وغیرہ۔
صفات، جیسے شجاعت، ایمان داری، حلال و حرام، شہادت، سچائی، محنت و مشقت، سادگی، شادی بیاہ میں شوہر اور بیوی کی مطلوبہ صفات، خاندان کی مرکزیت و اہمیت۔ یہ سارے موضوعات اپنے جوہر میں اسلامی متن کی تکرار کے بغیر بھی اسلامی ہیں۔
مزید برآں، تاریخ اور زمانہ ساز شخصیات کے پیغام اور کارناموں کی تفہیم و اشاعت۔اس ضمن میںہمارے ہاں مسلمان سلاطین کے خلاف جو ذہن سازی ہوچکی ہے، اس پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ مسلم تاریخ تو خلافت ِ راشدہ کے خاتمے پر ختم ہوجانی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ایک بے توقیر ماضی ہمیں گھور رہا ہوگا۔ ایسا تاریخی خلا جس میں شاید کہانی تو ہو لیکن کردار نہیں ہوگا۔ ایسی صورتِ حال نہ قوموں کے لیے مفید ہوتی ہے، نہ تحریکوں کے لیے۔
ڈراما اور فلم سازی کے لیے ترکیہ اور ایران مضبوط حوالے ہیں۔ اس ضمن میں ان فقہی اصولوں کا مطالعہ کیا جانا چاہیے جن پر اُن کے اہل علم نے اجتہاد کیا۔ اس ذریعۂ ابلاغ کی اثرپذیری کا اس سے اندازہ لگائیں کہ ترکیہ کی خلافت عثمانیہ سیریز سے نہ صرف لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، بلکہ کئی غیرمسلم مسلمان بھی ہوگئے۔
قدامت پسندی ماضی کے گہوارے میں بیٹھنا پسند کرتی ہے، جب کہ آزاد روی ماضی کے ہرنشان سے بے زاری و نفرت سکھاتی ہے۔ یہ دونوں غیرمتوازن اور متحارب رویے مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ میں رکاوٹ ہیں۔ ایک اجتہاد سے گریز کرتی ہے، دوسری اجتہادی عمل سے نفرت کرتی ہے کہ اس میں اسے ماضی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اسی طرح تعمیری تحریکیں ماضی کو بوجھ نہیں سمجھتیں، نہ اس سے آزاد ہونا چاہتی ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ اسے اپنے پائوں کی زنجیر نہیں بناتیں۔ وہ زمانہ شناس اور زمانہ ساز ہوتی ہیں اور اجتہادی روح سے سرشار ہوتی ہیں۔ اجتہادی روح کو کچل دیا جائے تو احیاء اور نشاتِ ثانیہ کے الفاظ بھی گم ہوجاتے ہیں۔
اسلام، نظامِ فطرت ہے ۔یہ اللہ ربّ العالمین کا وہ عطیہ ہے، جسے انسان سمجھ لے تو سجدۂ شکر اَزخود بجا لائے۔مگر افسوس کہ ہم نے اس عنایت کو عملاً سمجھا ہی نہیں اور اگر سمجھا ہے تو پھر عملاً ویسے برتا نہیں، جیسا کہ اس کے برتنے کا حق تھا ۔ یہ فطری تقاضاہے کہ شکوہ اپنوں سے پہلے کیا جائے، مخاطبت بھی اپنوں سے پہلے ہو۔ مسلمان امت نے خلفائے راشدین کے بعد ہی سے مادہ پرستی، اقتدار پرستی اور بے عملیوں کا ایسا مظاہرہ کیا اور اسلام کی اصل تصویر کو عملاً پراگندہ کردیا: ع
گنوادی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی
’اقامتِ دین‘ کے اصل تصور کو بُھلا کر مسلم امت آگے بڑھی،اور اسلام کی وہ تعبیر اور تشریح کی گئی، جو اپنے اقتدار کے مفاد میں بہتر لگنے لگی ۔ابتدائی سیاسی کشاکش کے بعد سے ہی ہم نے دین کے قیام کی کوشش کو متاثر پایا ۔اللہ روشن کرے ان اکابرین کی قبریں کہ جنھوں نے روئے زمین پر اس تصور اور اس احساس کی چنگاری کو کہیں نہ کہیں باقی رکھا ہے۔ملت اسلامیہ میں سر اُٹھانے والی سیاسی کش مکش نے فسطائیت کو ابھرنے اور نظامِ اسلام کے بالمقابل فلسفے ،نظریات اور نظام در نظام کو ترتیب دینے پر اُکسایا۔ مسلمانوں نے اقامت دین اور اس کی بقا کی دیانت دارانہ اتنی کوشش نہیں کی، جتنی کوشش فسطائی ذہنوں نے اپنے مذموم مقاصد کےلیے کی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جیو پالیٹکس کےشکاربرسرِاقتدار مسلم ممالک، قیامِ اسلام کی اصل کوشش کے بجائے اپنے مفادات کے پیش نظر ہر قدم اٹھاتے ہیں۔ استعماریت کے اسیر نہ اپنی ذات اور مفاد سے باہر نکل کر سوچنے کا دم رکھتے ہیں اور نہ عالمی سطح پر ذاتی مفاد سے آزاد ہوکر قیامِ عدل کے لیے سوچتے ہیں۔ اس صورت میں مصر میں اخوان المسلمون اور فلسطین میں حماس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر انسانیت، انسانیت نوازی اور انسانیت کشی میں کوئی تفریق باقی نہیں رہتی ۔
ان حالات میں باشعور طبقہ کچھ اقدامات کرسکتا ہے،جو درج ذیل ہیں:
پہلی ضرورت نظامِ فطرت پر یقین اور اعتماد بحال کرنا ہے۔ جتنا اعتماد اس نظام پر ہمارا ہوگا، اتنےہی اعتماد کے ساتھ ہم عملی زندگی میں اس کے نفاذ کی کوشش کریں گے۔ تذبذب اور ذہنی کش مکش کی کیفیت سے اُمت مسلمہ کو نکالنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ نہ سوچے کہ اسلام کو ماڈرن ازم کے زیراثر ’اَپ ڈیٹ‘ کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اس کے نفاذ ہی کو غلط سمجھا جانے لگا۔ مسلم خواتین کے حقوق کو بطور مثال لیجیے کہ صحابیات اور محدثات اور بعد کی زندگی میں خواتین کو جتنے حقوق حاصل تھے، اسی لحاظ سے اس کانفاذ کیا جاتا تو پوری دنیا کواس نظام کو چیلنج کرنے کے لیے ذرابھی کوئی گنجائش نہ ملتی۔ نسل کا خالص ہونا ایک مرد کے نزدیک ماضی کی طرح آج بھی انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ اسی وجہ سے مغربی دنیا نے ڈی این اے ٹیسٹ کویقینی بنایا ، نسل کی وراثت، اپنی نسل کا نام اور اپنی نسل سے جذباتی لگاؤ ، جیسا حساس موضوع ترقی یافتہ قوموں میں بھی اہم رہا ہے، اور ہر فرد کی نفسیات سے جڑا ہوا ہے۔
انسان کی اسی نفسیات اور ذہنی خلجان کے مد نظر اسلام نے نکاح سے لے کر عدت کی مدت گزارنے تک پورے نظام میں مرد کی اس فطرت کا خیال رکھا ہے۔بیوی کی صالحیت ، وفاشعاری ، اس کے ساتھ حسن سلوک ، استحقاق قائم ہونے کے بعد اس خاتون کے ہاتھ میں نسل کی پرورش اور شوہر کی موت کے بعد اس خاتون کی عدت ، وراثت میں حصہ ، مکمل زندگی کو مرد کے لیے خالص بناتا ہے، وہیں ایک خاتون کی فطرت میں تحفظ کا احساس پایا جانا ہے۔ اسلام کے نظام میں تحفظ کو یقینی بنانے کی ہر صورت موجود ہے۔اس نظام کی اصل روح ایک خاتون کو مستحکم کرنا اور استحقاق کے ساتھ زندگی گزارنے کی صورت پیدا کرنا ہے ۔جدید دور میں بھی اس رشتے میں چاہے جتنے چیلنج ہوں، یہ دو بنیادی نکتے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے ۔
ہم نے بلاسود نظام اور اس کے انسانی نفسیات پر پڑنے والے عوامل کو اس طرح آج تک واضح نہیں کیا جیسا اور جس شدت کے ساتھ واضح کرنے کا حق ہے ۔کتنی باریکی سے اس نظام میں اللہ نے انسانی نفسیات اور پریشانی ، اس کی پریشانی میں انسانوں سے محتاجی اور اس محتاجی میں ایک قرض دینے والے کا غیراستحصالی نظام کے علی الرغم سپورٹ سسٹم کو آشکارا کرنا ہے۔ اس طرح محتاج اور پریشان حال انسانوں کے درمیان محبت و مودت کا پہلو غالب رکھ کر، ایک دوسرے سے قربتیں پیدا کی ہیں ۔اس کے بالمقابل سرمایہ دار غریب مقروض کو جونک کی طرح نچوڑ لیتا ہے۔ دونوں کے دلوں میں نفرتوں کا طوفان ہے۔ انسان کی اس شرپسندی کےذریعے وجود میں لائے گئے سودکو اللہ نے سرے سے ہی لعنت کہا ہے ۔ تحریک اسلامی نے اسے پورے اعتماد کے ساتھ متعارف کروانے کا مشن ترتیب دیا ہے۔ اس کام کو عملی سطح پر بلاسودی سوسائٹی کی حیثیت سے اور فکری سطح پر زیر گفتگو لاکر اس پر کام ہونا چاہیے۔فکری سطح پر نہ صرف یہ کہ مباحثے ہوں، بلکہ کہانی ،افسانہ، افسانچہ ، تحریر، تقریر، گفتگو ، شارٹ فلم، ہر جگہ ایک ڈسکورس (علمی روایت) بناکر پیش کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔
دوسری چیز یہ کہ اُمت مسلمہ اس نظامِ فطرت کو ایک فطری دین کی حیثیت سے پیش کرنے میں ناکام ہے۔دینِ اسلام اور نظامِ عدل صرف مسلمانوں کے لیے تو نہیں ہے ۔یہ انسان کی فطری ضرورت اورفطرت کی آواز ہے۔ یعنی ایک بچے کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کہ بھوک لگے تو کھانا منہ میں ڈالے یا وہ بچہ کبھی آگ کو نہیں چھوتا،کیوں کہ اس کے وجدان میں آگ کی حدت موجود ہے۔ہمیں اس نظام پر بھی اتنا یقین ہونا چاہیے کہ کرۂ زمین پر بسنے والے ہر شخص میں یہ احساس اور آواز موجود ہے اور یہ طلب موجود ہے ۔
اللہ رب العالمین نےسورۃ الشمس میں چاند، سورج ، سیارے، ستاروں، زمین و آسمان کی قسم کھاکر جو بات ارشاد فرمائی ہے: وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَا۷۠ۙ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۸۠ۙ (الشمس ۹۱: ۷-۸)’’اور نفسِ انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا۔ پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کردی‘‘۔
یہاں نفسِ انسانی پر اللہ نے اچھائی برائی کو واضح کردیا۔کسی مسلمان کے ساتھ یہ عمل مشروط نہیں ہے۔ اس نظام فطرت کو جو کہ ان کا اپنا نظام ہے، ہم نے محسوس نہیں کروایا۔ ہم نے اس نظام کو محض ایک قلعے میں محفوظ کرلیا۔ دوسری طرف اس سے نسبت کے نام پر تیر کھارہے ہیں ۔ہمیں اس قلعے کے دَر وا کرنے اور دعوت دے کر انھیں بلانے اور ان کی میزبانی کرنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ میں بعض مسلم سلاطین نے فاتح ہونے کے بعد پورے اعتماد کے ساتھ خود اپنے نظام کو پیش کیا، اور مقامی عوام کو سمجھنے کا موقع دیا کہ وہ سراپا خیر ہے اور عدل و انصاف پر مبنی نظام ہے۔
’جدیدیت‘ سے اُمت مسلمہ کی مرعوبیت بھی ایک عجیب منظر پیش کرتی ہے۔ مادی نظام کا مقابلہ روحانی نظام ہی کے ذریعے ممکن ہے ،اور روحانی نظام مادہ پرستی کے مقابل ہر دور میں متعارف کروایا گیا ہے۔ تاہم، اُمت مسلمہ کے نزدیک تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلامی نظام کا قیام پوری اُمت کا ایجنڈا اب تک نہیں بن سکا ہے۔امت کا یہی انحراف ہم دعوت و تحریک سے وابستہ افراد کو تنہا بنادیتا ہے۔ گذشتہ ایک صدی سے کچھ افراد کوشش بھی کررہے ہیں ،ان کوششوں کو تیز تر کرنے کے لیے ہمیں ان نظریات کےداعیوں کے طریق کارپر غور کرنے اور جائزہ لیتے رہنے کی ضرورت ہے، جنھوں نے اس مقصد کی ترویج کے لیے جدید طریقوں کو رُوبہ عمل لانے کے لیے زندگیاں لگادیں۔
جس طرح دعوت کےفریضےکی ادائیگی میں غیر محسوس طریقے سے اسلام کو انسانی ضرورت بناکر پیش کرنا چاہیے، اسی طرح اصلاح معاشرہ کی کوشش بھی ذات پات، مسلک و گروہ سے ہٹ کر انسانی مفاد کے ایجنڈے کو پیش نظر رکھ کر کرنا چاہیے ۔باطل کی یلغار سے زیادہ خطرناک باہمی انتشار ہے، جو مفاد پرستی سے جنم لیتا ہے ۔معاشرہ اور معاشرے کے معمول کا گہرائی و سنجیدگی سے مطالعہ ضروری ہے۔ ہمیں معاشرے کی نوک پلک درست کرنے کے لیے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کی طرف جانا چاہیے، تاکہ ہم اصلاح معاشرہ کی بکھری بکھری کوشش کے بجائےمنظم اور نتیجہ خیز کام کرسکیں۔
جب اپنے ہاتھوں میں مٹی لگی ہوتو بے داغ شفاف چادر کو آپ صاف کیسے کرسکیں گے؟ لازم ہے کہ ہم ان ہاتھوں کو صاف کریں ۔سب سے پہلے اُمت مسلمہ کے درمیان موجود بے عملیوں کا جائزہ لیا جائے ،ان خرافات کی فہرست بنائی جائے اور اصلاح معاشرہ کی ایسی کوشش کی جائے جیسی کوشش کرنے کا حق ہے۔ اصلاح معاشرہ کے عصری تقاضے میں محترم سعادت اللہ حسینی نے بہترین نکات پیش کیے ہیں۔یہ نکات نہ صرف تکثیری معاشرے کے لیے قابلِ عمل ہیں بلکہ دیگر مسلم ممالک اور غیرمسلم ممالک میں بھی ان پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ معاشرے میں سوشل انجینئرنگ کیا ہوتی ہے ؟کس طرح انسانی معاشرے کا دماغ اور ضمیر کام کرتا ہے؟ کیسے انسان اپنی روایاتی چیزوں کی بنیا دپر قرآن و حدیث کو کسوٹی بنائے بغیر اپنے گروہ کی پہچان بنالیتا ہے؟ معاشرے میں نقد کرنے اور متوقع تبدیلی کے لیے حوصلہ، ہمت ، بے نیازی، جفاکشی ،جرأت اور یقین درکار ہے۔ اصلاح معاشرہ بالکل ممکن ہے، لیکن اس کے لیےجو استغناء مطلوب ہے وہ افراد میں ہو، اور ایک ہی مشن پر کام کرنے والوں کی اندورنی حالت رحماء بینھم ہونا لازم ہے ۔
ہم انسانی ہمدردی اور انسانیت کا شعور پیدا کریں ،ساتھ ہی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کریں۔ اُمت مسلمہ میں جھوٹ،چغلی اورچوری کرنے جیسی اخلاقی برائی پر تو متوجہ کیا جاتا ہے، لیکن بجلی کی چوری ، ٹیکس ادا نہ کرنے ، اپنے گھر کی تعمیر کو سڑک تک لے آنے، پڑوسی کی زمین کو اپنے استعمال میں لینے ، کوڑا کچرا ایسی جگہ پھینکنے کہ جس سے راہ گیر کو تکلیف ہو، یا ماحولیات کو نقصان پہنچانے جیسے اخلاقی امراض کو یکسر بھلا دیا جاتا ہے ۔ہم اصلاح طلب اُمور کو مثبت رجحان کے ذریعے تبدیل کرنے کا بیانیہ عوام الناس میں پیدا کریں ،اور عملاً اس طرح کی بُرائی کو معیوب سمجھ کر اس کا اظہار بھی کریں۔
استعماریت کا شکنجہ سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کے سوا اپنے مفاد کے حصول کے لیے دیگر تمام انسانوں کو صارف اور محنت کش کی حیثیت دیتا ہے ۔ اپنےانجام سے بے خبر ہر شخص اندھوں کی مانند اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور قاتل کو مسیحا سمجھ رہا ہے ۔اس مرعوبیت کی زد میں تمام انسان اس بات سے بے خبر ہیں کہ کائنات کےسارے وسائل استعماری طاقتوں کے قبضے میں ہیں اور تھوڑی سی چکاچوند کے بدلے وہ ذہنی غلام بنالیے گئے ہیں ۔اس فریب سے اُمت مسلمہ بھی خالی نہیں ہے ۔استعماریت کا سب سے بڑا مذہب صرف مادی حصول ہے۔ مادہ پرستی کا مقابلہ مضبوط روحانی طاقت اور خدائی نظام ہی کے ذریعے ممکن ہے۔
سیاسی نظام اور استعمار کا قلع قمع کرنے کے لیے شفاف ذہن کے کچھ افراد اپنے وقت اور صلاحیت کے ساتھ یکسو ہوں، جو نوجوانوں کو اقدار پر مبنی سیاسی نظام اور عام انسانوں کی حق تلفی پر مستقل توجہ مرکوز کرکے کام کرنے کے لیے تیار کریں۔ مرد و خواتین اپنے اپنے ملک کے نظام کا مطالعہ کریں۔ عام عوام کے مزاج اور ان کے درمیان اقدار پر مبنی موقف کو موضوعِ گفتگو بنایا جائے۔ ذمہ دار اور اصول پسند میڈیا ٹیم کو بڑے پیمانے پر ان مقاصد کی آبیاری کے لیے استعمال کرے۔
ڈیجیٹل دنیا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ سب سے بڑا چیلنج تیزی سے تبدیل ہوتے عالمی معاشرے میں نسلوں کو اعلیٰ اقدار پر قائم رکھنے کا ہے۔ ڈیجیٹل تبدیلی نے نہ صرف مسلمانوں کو متفکر کیا بلکہ پوری دُنیا میں ہر زیرک ذہن کو یہ سوچنے پر آمادہ کیا ہے کہ اس ڈیجیٹل تبدیلی کے ساتھ نسلوں کو ان کے عقائد ، اقدار ، صالحیت پر کیسے قائم رکھا جاسکتا ہے ؟اس سلسلے میں دیگر ممالک اس نہ رُکنے والے سیلاب پر بند باندھنے کی تدبیر بھی کررہے ہیں۔تعلیمی نظام میں تبدیلی، انسانی تعامل کو باقی رکھنے پر غورو فکر، نسلوں کی بقا کے لیے ان پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کیجیے، کیوں کہ کائنات کا نظام انسان کے وجود سے مسخر ہے۔ ’مصنوعی ذہانت‘ (AI)کی غلامی کے لیے نہیں ہے۔
انسانی بقا دراصل انسان کی دماغی ، جسمانی ، روحانی صحت سے تعبیر ہے۔’’ پیٹ میں گھونپتے جو سونے کا خنجر ہوتا ‘‘یہ کیفیت انسان کو اس کائنات میں معطل بنارہی ہے ۔ہمیں اس حوالے سے بھی غور وفکر اور تدبر کی ضرورت ہے کہ تیزی سےگرتا ہوا Empathy کا گراف انسانوں کو محبت، ہمدردی اور جذباتی لگاؤ سے عاری کردے تو انسان کی ذات میں کچھ باقی نہیں رہے گا ۔لیکن ہم نے نبویؐ طریقے سے سیکھا ہےکہ ہر چیلنج، تدبیر پر آمادہ کرنے کے لیے ہوتا ہے ۔ہم اس پر بھی قابو پاسکتے ہیں، ہمیں اس پر بھی ریسرچ اسکالر تیار کرنے ہوں گے، جو ساری دنیا کی مسیحائی کرسکیں۔
توقع تو یہ تھی کہ گلوبل سطح پر برسرِاقتدار مسلم ممالک اسلام کی تصویر بہتر بنانے کے لیے دین کی صحیح تشریح اور تعبیر کرنے کا بیڑا اپنے میڈیا ہاؤس کے ذریعے اٹھاتے، تاکہ تکثیری معاشرے کے ساتھ پوری دنیا کے سامنے نظام اسلام کو پیش کرنےکی منظم کوشش کی جاتی۔ سب خرابی اور بے حسی کے باوجود ہم مایوس نہیںہیں، نہ خود کو اس حوالے سے کم تر محسوس کرتے ہیں۔ البتہ، اپنے مشن کے لیے اس طرح کا دُوررس کام کرنا چاہتے ہیں، جیسے سپرپاور نے اپنے استحکام کے لیے مسلم ممالک کی نسلوں پر کام کیا ہے، اور اپنی قوت کو مستحکم بنانے کے لیے سعی و جہد کی ہے۔ ہمارا بھی یہی امتحان ہے کہ عالمی سطح پر ہم اصلاح کا کام اسی درجے پر کریں ۔ اپنی رفتار سست سہی، تاہم ماڈر ن ازم سے پراگندہ ہونے سے ہم بچاتے رہیں اور مستقبل سازی کے لیےافراد تیار کریں۔تکثیری معاشرے میں صرف مسلمان ہی اقلیت میں نہیں ہیں، بلکہ فسطائیت کے اس جال میں عالمی سطح پر مثبت تبدیلی، مکمل نظام امن اور خدائی نظام کا خواب دیکھنے والے افراد بھی قلیل ہی ہیں، اس کے باوجود ہمیں یقین ہے :كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۲۴۹(البقرہ ۲:۲۴۹)
اس بات پر ہمارا یقین ہے کہ اقلیت اکثریت پر غالب آجاتی ہے، ہمیں تدبیر سے کام لینے کے لیے اللہ مہلتِ عمل دے رہا ہے ۔ایسے مواقع بارہا آئے ہیں اور ہم نے قرآن اور حدیث ہی سے مدد لی ہے۔اس حدیث سے ہم سوچ بچار کا عمل سمجھ سکتے ہیں:
عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ کُنَّا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ نَتَحَدَّثُ أَنَّ عِدَّۃَ أَصْحَابَ بَدْرٍ عَلٰی عِدَّۃِ أَصْحَابِ طَالُوْتَ الَّذِیْنَ جَاوَزُوا النَّھْرَ وَلَمْ یُجَاوِزُوْا مَعَہٗ إِلَّا مُؤْمِنٌ بِضْعَۃَ عَشَرَ وَثَلَاث مائَۃٍ (رواہ البخاری : کتاب المغازی ،باب عدۃ اصحاب بدر) حضرت براء ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی باہم گفتگو کیا کرتے تھے کہ اصحاب بدر کی تعداد طالوت کے ان ساتھیوں کی تعداد کے برابر تھی، جنھوں نے نہر پار کی تھی اور ان کے ساتھ صرف ۳۱۳ مومن تھے‘‘۔
جب ان کا سامنا جالوت کی فوج کے ساتھ ہوا تو سیر ہو کر پانی پینے والوں نے لڑنے سے انکار کردیا۔ بعض مفسرین نے اسرائیلی روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیر ہو کر پانی پینے والوں کے پیٹ پھول گئے۔ جب فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو انھوں نے جہاد سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم میں جالوت کے لشکر کے ساتھ لڑنے کی ہمت نہیں ہے۔ اس صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونے اور بزدلوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر سچا یقین رکھنے والے مجاہدوں نے کم ہمت لوگوں کو بار بار سمجھایا کہ کم ہمتی اور بزدلی نہ دکھاؤ۔ ہمت کرو اور یقین جانو کہ تاریخ میں بار ہا ایسا ہوا کہ قلیل جماعتیں، کثیر جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آتی رہی ہیں۔ اس حقیقت پر اسلام کا ماضی گواہ ہے، مسلمان اسلحہ اور افرادی قوت کے اعتبار سے کبھی اپنے دشمن سے زیادہ تو نہیں رہے۔ لیکن جب تک یہ منظم،مستقل مزاج، پُر عزم، صاحب ِکردار، حوصلہ مند اور صابر رہے،تو یہی غالب آتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مستقل مزاج لوگوں کا ساتھ دیا کرتا ہے۔آج ہمارے سامنے بھی مادیت کا خواب، عام انسانوں کو دکھانے والی فسطائی قوتیں سراب دکھارہی ہیں اور بے خبر عوام نہیں جانتے کہ انھیں دھوکا دیا جارہا ہے۔
اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں سے لوگوں کو آزماتا ہے۔ دشمن کے مقابلے سے پہلے اس کی قوت کا اندازہ لگانا اور پھر تربیت حاصل کرنا ضروری ہے،نیز مستقبل سازی کے لیے منصوبےبنانا، بغیر ہچکچاہٹ اور خوف کے ان کو نافذ کرنا لازم ہے۔ آزمائش کے وقت ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ صبر کرنے اور چیلنج دیتے حالات میں تدبیر ڈھونڈنے والوں کے ساتھ ہے۔
اس وقت باطل کے نشانے پر خواتین ہیں ۔مسلم اُمت کے بیش تر معاشروں نے خواتین کو وہ مقام نہیں دیا جیسا کہ دیا جانا چاہیے تھا۔ اس چیز کا ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرنا اور فوراً اپنی صفوں کو درست کرنا چاہیے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَيُطِيْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُہُمُ اللہُ۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۷۱(التوبہ ۹: ۷۱) مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی، یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔
ہم نے اس آیت کو دنیاکے ہر کام میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے بجائے، پہلے سے موجود روایتوں کے ساتھ قبول کرلیا اور اسی کا نام اسلام رکھ دیا۔ مساجد سے خواتین کو دور رکھا ، میدانِ عمل سے دُور کرکے چار دیواری تک محدود رکھا ،اسے نہ کسب ِنیکی کا شعور رہا، نہ اصلاح معاشرہ کا،نہ نظام معیشت میں حصہ بننے کا ،نہ معروف ہی کا۔ شادی بیاہ کی خرافات ہوں یا اسلامی قوانین اور حقوق و فرائض کا شعور، وہ سب سے عاری رہی۔ قانون وراثت میں اس کا حصہ رہا، نہ اسے اپنی وراثت اور مال کو اپنے پاس رکھنے کی اجازت رہی۔ اسے دیگر قوموں کی طرح مرد کی تحویل میں ہونے کا اس حد تک احساس دلایا گیا کہ نیکی کماتے ہوئے بھی خود کوشوہر کی اجازت کی محتاج سمجھنے لگی ۔چوں کہ ’معروف‘ کاتصور نہ رہا تو ’معروف‘ میں شوہر کی اطاعت کا بھی کیا شعور ہوتا؟ منکرات میں بھی دیگر قوموں کی خواتین کے مشابہ اطاعت کرنے لگی۔ یوں ایک مسلم خاتون کی تصویر پوری دنیا کے سامنے محکوم و مظلوم بن کر اُبھری اور ’اسلامو فوبک‘ فسطائی ذہن کو اسلام سےمتنفر کرنے کا خوب موقع ملا ۔’فیمی نزم‘ کے نام پر سب سے پہلی زد مسلم خاتون پر ہی پڑی۔
قانونِ وراثت کو من وعن رُوبہ عمل لایا جاتا تو ایک خاتون کو نظام معیشت میں حصہ بننے کا حق ملتا ، تو وہ تمام تر شعبہ ہائے زندگی میں ،مشاورت میں ،عبادات میں ،مساجد اورتعلیم گاہوں میں، خیر اور بھلائی کے کاموںمیں ، بحیثیت تاجرہ ، منتظم میدانِ عمل میں پورے اعتماد کے ساتھ موجود ہوتی۔ اس طرح خواتین کے لیے دل چسپی کا باعث ہوتی۔ قانون طلاق ، خلع ، مہر ، اور وراثت اسے پوری دنیا کے سامنے خود خواتین عملی اور زبانی پیش کرتیں۔ وہ دنیا کی خواتین کو اس راہ کی طرف دعوت دیتیں ۔اوّلین اصلاح کے میدان میں آج بھی خواتین کے ساتھ مسلم مردوں کا رویہ تبدیل ہونا چاہیے۔
اسی کے ساتھ اسلامی معیشت پر ریسرچ کے لیے نوجوانوں کو آمادہ کرنا ، شریعہ قانون اور دیگر قوانین کا تقابلی مطالعہ کرنے والے سنجیدہ نوجوانوں کو میدان میں آگے آنا ہوگا۔ معاشرے کے نظریات اور تبدیلی کا منصوبہ بنانے والوں کی ٹیم تیار کرنی ہوگی ۔ایسے داعی ہمیں چاہییں، جو اپنے مدعو کو میزبانی سونپنے کا فن جانتے ہوں۔ ایسے رضاکار چاہییں کہ خدمت خلق جن کا شیوہ بن جائے۔ ایسے ماہرین تعلیم کی ضرورت ہے کہ جو ہم عصر تحقیقات میں خود حصہ لے سکیں اور بحیثیت ماہرِتعلیم عالمی سطح پر نسلوں کو شعوری علم کے حصول کی جانب راہ نمائی کرسکیں ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ(صحیح مسلم) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسلام کا آغاز اجنبی کی حیثیت سے ہوا اور عنقریب پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جیسے شروع ہوا تھا ، خوش بختی ہے اجنبیوں کے لیے ‘‘۔
اسلام کی ابتدا اس حالت میں ہوئی کہ کوئی اسے جانتا نہ تھا، پھرایک وقت آیا کہ دنیا کے طول وعرض اسلام کی روشنی سے منور ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام ایک مرتبہ پھر اپنے ابتدائی دور کی طرح لوگوں کے لیے اجنبی ہوجائے گا۔ موجودہ زمانے میں ہم یہی صورتِ حال دیکھ رہے ہیں۔ اسلام کا اصل تصور اور مقصد اکثر لوگوں کی نظر سے پوشیدہ ہوگیا ہے،اور مسلمانوں کی حالت تو یہ ہوگئی ہے کہ ؎
تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
عربی زبان میں ’احیاء‘ کا لفظ زندہ کرنے اور ’حیاتِ نو‘دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ’احیاء‘ کے مفہوم کو دیکھتے ہوئے ’احیائے اسلام ‘ کے معنی اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا یا اسے حیاتِ نو دینا ہوگا۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی سطح پر کرنا ہوگا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ اسی طریقے پر ہوگا جیسے ابتدائے اسلام میں ہواتھا ،لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عصری تقاضوں سے صرفِ نظر کیا جائے۔ مشہور قول ہے کہمن لم یکن عالمًا بأهل زمانه فهو جاهل ،’’جو شخص اپنے زمانے کے حالات سے آگاہ نہیں، وہ جاہل ہے‘‘۔
سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ۰ۚ (الانفال ۸:۲۴)’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کےرسول کی آواز پر لبیک کہو جب وہ تمھیں ایسی چیز کی طرف پکاریں جو تمھیں زندگی عطا کرے‘‘۔ جب بھی احیائے اسلام کی مخلصانہ جدوجہد کی جائے گی،اللہ راہنمائی فرمائےگا : وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا۰ۭ (العنکبوت ۲۹:۶۹)،’’اور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کریں گے، ہم ان کو اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کریں گے‘‘۔
احیائے اسلام کا طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےاسوۂ حسنہ کی صورت ہمارے پاس موجود ہے۔ ابتدائے اسلام کے تیرہ سال ایمان کو دل میں اتارنے اور عملی زندگی میں کارفرما کرنے کی مسلسل محنت پر لگے،پھر اگلے دس سال اس بنیاد پر ایک مضبوط عمارت کی تعمیر کی گئی۔ دینِ اسلام کی عمارت کی بنیاد عقیدے پرقائم ہوتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج علم ہونے کے باوجود، عمل میں متوقع تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اگرچہ علم کے نتیجے میں ہر انسان سے ایک ہی جیسے ردّعمل کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ اپنی فطری صلاحیت اور استعداد کے مطابق ہی علم سے اثرلیتا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ استعداد ہوتے ہوئے اور عمل کو زبانی اور ذہنی طور پر صحیح سمجھتے ہوئے بھی لوگ زندگی کی عملی ترجیحات میں ایسا نہیں کرتے۔
احیا ئے اسلام کا عظیم کام کثیر الجہتی حکمت عملی کا تقاضا کرتاہے، لیکن عقیدے اورایمان کی عملی حقیقت کو سمجھے اور دل میں اتارے بغیر یہ بظاہر ممکن نہیں ہوگا۔ اسوۂ رسولؐ اللہ سے یہی سبق ملتاہے۔ عصری تقاضوں کے مطابق احیائے اسلام کی جوبھی کوششیں کی جائیں اورجو حکمت عملی بھی اختیارکی جائے، چند اصطلاحات کی تفہیم ان کی بنیادی ضرورت ہے۔ عقیدہ اس ساری جدوجہد کا لازمی جزہے۔ علم اور تصورات کو عمل میں ڈھالنے سے ہی عملی طور پر احیائے اسلام کی کوششوں میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔ اسی نقطۂ نظر سے چند اصطلاحات کااجمالی ذکر کیا جاتا ہے:
مسلمانوں کا اصل مسئلہ ذہنی سطح پر’علم‘ اور ’تصور‘ میں پھنس کر رہ جانا ہے۔ یہ علم کو یقین سے گزارتے ہوئے عقیدے کی مطلوبہ عملی سطح پر تبدیل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ آج مسلمانوں کی اکثریت میں آخرت ،جنت،جہنم وغیرہ پر ایمان تصوّرات کی سطح پر ہے، وہ ان تصوّرات کے تذکرے سنتے، پڑھتے اورعلم میں اضافہ بھی کرتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ ان کو اتناجھنجوڑنے کا باعث نہیں بنتے جو عمل کا باعث بنے۔ وہ تصوّرات سے اوپر اٹھ کر عقیدے کی سطح پر نہیں آ سکے۔ احیائے اسلام کی جو بھی تحریک اور حکمت عملی اپنائی جائے، اس میں عقیدے کی درستی اور پختگی کو لازمی جز کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کو کما حقہٗ توجہ اور اہمیت دینا ہوگی۔ یہ کام تحریک یا دنیا سے کٹ کرنہیں ہوسکتا بلکہ احیائے اسلام کی عملی جدوجہد کی بھٹی میں ہی اسےکندن بنایا جاسکتا ہے۔
جب سورۂ آل عمران کی آیت ۹۲ نازل ہوئی لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۹۲ ’’تم ہرگزنیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جنھیں تم عزیز رکھتے ہو، اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بےخبر نہ ہوگا‘‘، تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیرحا کا ’محبوب ترین باغ ‘ اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیبرکی بہترین زمین اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنا محبوب ترین گھوڑا اللہ کی راہ میں دے دیا۔ اسی طرح جب تدریجی احکام کے بعد شراب کی حُرمت کا حکم آیا کہ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۹۰ (المائدہ۵: ۹۰) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی‘‘،تو مدینہ کی گلیوں میں منادی کرادی گئی کہ شراب حرام کردی گئی ہے۔ جو لوگ اس وقت شراب پی رہے تھے، انھوں نے ہونٹوں سے شراب کے پیالے ہٹادیے، ہاتھ میں شراب کا پیالہ تھا تواسے وہیں پھینک دیا، شراب کےپیالے ، مٹکے اور گھڑے توڑ دیے گئے۔ حضرت حرام ابن ملجانؓ کے سینے میں ایک کافر نےنیزا گھونپا ، سینے سے خون کا فوارہ چھوٹاتو آپ رضی اللہ عنہ نے بےساختہ پکار کر کہا کہ فزۃ برب الکعبہ‘‘ (ربِ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا)۔ آخرت پر راسخ عقیدے کے بغیر ایسی حالت میں یہ الفاظ کسی کی زبان سے ادا نہیں ہوسکتے!
عقیدے کی حقیقت کو اس سطح پر سمجھنا اور دل میں اتارنا ہی دین کے احیاء کا باعث بنا۔
صحابہ رضوان اللہ اجمعین یہ سمجھتے تھے کہ قرآن ان کے عمل لیے نازل ہوا ہے، مگر ہم اسے ثواب کے لیے پڑھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم قرآن پڑھتے تو ہیں ، لیکن نتیجتاً عمل میں بمشکل ہی کوئی تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔علامہ اقبالؒ نے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے ؎
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گِرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشّاف
ضمیر پر نزول ہی حق الیقین کی وہ سطح ہے، جو مطلوب ہے اور جو ’شہادت علی النفس‘ اور ’شہادت علی الناس‘ کا باعث بھی بنتی ہے ۔
ہم روزانہ درجنوں مرتبہ نماز میں’ اللہ اکبر‘ کہتے ہیں اور یہی الفاظ ’اذان‘ میں بھی سنتے ہیں۔ اللہ کے ’اکبر‘ ہونے کا تصور ہمارے ذہن میں ہے، لیکن عملاً اس پر ہمارا عقیدہ / یقین نہیں ہے۔ ٹریفک پولیس کا سپاہی جب ہاتھ کھڑا کر کے ٹریفک روکنے کا اشارہ کرتا ہے تو کوئی گاڑی والا اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا ،جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں پکار پکار کر کہتا ہے کہ گمراہی کے اس راستے پر جانے سے رُک جاؤ لیکن ہم اللہ کی بات پر نہ توجہ دیتے ہیں اور نہ اس راستے سے رُکتے ہیں۔
یہی صورت دوسرے اسمائے حسنٰی کی بھی ہے۔ ہم اللہ کو علیم وخبیرکہتے اور مانتے ہیں۔ ہم لوگوں کے سامنے گناہ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن اللہ کے بارے میں ہم ایسا یقین نہیں رکھتے اور لوگوں سے چھپ کر اللہ کے سامنے گناہ کرنےسے نہیں کتراتے۔ اگر ہم واقعی اللہ کو علیم و خبیر سمجھتے تو کیا وہ کام کرتے جن سے اللہ نے منع کیا ہے؟ یہ غور و فکر کا مقام ہے کہ کیا ہم عملاً لوگوں کو علیم و خبیر سمجھتے ہیں یا اللہ کو؟ ہم اللہ کوحاکم کہتے ہیں لیکن عملی زندگی میں کسی فرد ، ادارےیا قانون کو اللہ کی حاکمیت پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے اسمائے حسنٰی کابھی ہے ۔
اصطلاحات کے ’لغوی‘ اور ’اصطلاحی معانی‘ کے ساتھ ان کے ’عملی معانی‘ کو جاننا اور اس کی روشنی میں اپنا انفرادی و اجتماعی تجزیہ کرتے ہوئے کام کو آگے بڑھانا وہ بنیادی عنصر ہے جو احیائے اسلام کی کسی بھی تحریک اور حکمت عملی میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔
عقیدہ ہی علم و تصورات کو عمل میں ڈھالنے کا باعث بنتاہے۔ احیائے اسلام کے لیے تمام جدید ذرائع کے شرعی حدود کے مطابق استعمال میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا ،لیکن عقیدہ اس کی بنیادی ضرورت اور قوت ہے۔اللہ، رسالت اور آخرت پر ایمان عقیدے کے اساسی اجزاء ہیں جن کے انفرادی اور اجتماعی، علمی اور عملی ادراک کےبغیر احیا ئے اسلام نہ ممکن ہوگا نہ پائیدار ۔
۱۳ جولائی ۲۰۲۴ء سے شروع ہونے والی طلبہ تحریک کی لہر نے اتحاد، جرأت، عزم، قربانی اور ثابت قدمی سے بنگلہ نسل پرستی کے اُس بُت کو پاش پاش کردیا، جس کی تعمیر کے لیے جھوٹ، تشدد اور عالمی استعمار نے شکنجہ کَس رکھا تھا۔ اس تحریک کا ہراوّل دستہ طلبہ تھے، اور اُن میں طالبات سبقت لے گئیں۔ بہت سی طالبات پولیس کی گولیوں اور عوامی لیگی غنڈوں کے تشدد کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
یاد رہے ۱۹۷۲ء میں حسینہ واجد کے والد مجیب الرحمان نے بھی جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تھی، جو ۱۹۷۶ء تک برقرار رہی۔ اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے عوامی لیگ نے ۲۰۱۳ء میں جماعت پر ہرقسم کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگائی، اور اب بدحواس ہوکر یکم اگست کو بنگلہ دیشی ڈکٹیٹر نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش، اور اسلامی جمعیت طلبہ [اسلامی چھاترو شبر] پر پابندی عائد کردی۔ اس سے قبل ۱۳جولائی سے جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو گھروں سے اُٹھانے، تشدد کا نشانہ بنانے، ’انسانی باڑوں‘میں پھینکنے، اور ان کے گھروں کو روندنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ ۱۴جولائی کی رات یعنی ۲۴گھنٹوں میں ان دو تنظیموں کے اٹھارہ سو کارکنوں کو آزاد زندگی سے محروم کردیا گیا تھا، اور اگلے صرف بیس روز کے دوران جماعت اور جمعیت کے دس ہزار سے زائد کارکنوں کو قید اور ۲لاکھ کو جعلی مقدمات میں نامزد کیا گیا۔ عوامی لیگی غنڈے اور پولیس اہل کار دندناتے ہوئے آتے اور گھر میں بچوں، عورتوں کو گالیاں بکتے ہوئے، ان کے جوانوں کو پکڑ کر لے جاتے۔
دوسری طرف ہاسٹلوں، کلاس روموں، کالجوں، اسکولوں اور یونی ورسٹیوں میں انقلابی شعلے جوالا بن چکے تھے۔ اُن میں بڑی تعداد ان نوخیز نوجوانوں کی تھی، جنھوں نے اکیسویں صدی میں آنکھ کھولی تھی، مگر چاروں طرف اندھیر نگری دیکھی تھی، جس کی چوپٹ رانی خون کی پیاسی اور کرپشن کی دیوی تھی، جس کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے لپکتے تھے اور زبان سے نفرت کے کانٹے جھڑتے تھے۔ یہ وہ نوجوان تھے، جنھیں پرائمری کے قاعدے سے لے کر بی ایس تک صرف ایک بات پڑھائی، سنائی اور ذہن میں بٹھائی گئی تھی کہ ’’پاکستان دُنیا کا بدترین ملک ہے اور جماعت دُنیا کی ناپسندیدہ ترین پارٹی ہے‘‘۔ اس کے باوجود احتجاج کرتے ان نوجوانوں نے جماعت اسلامی کی رفاقت کو خوش آمدید کہا۔ ان لاکھوں طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد پارٹی عصبیتوں سے بالاتر، اور اپنی قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی اُمنگ سے وابستہ تھی۔ بلاشبہہ ان احتجاجی انقلابیوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن پوری قوت کے ساتھ شامل تھے،مگر نوجوانوں کا یہ اُبھار جمعیت کے پھیلائو سے کہیں زیادہ وسعت رکھتا تھا۔
جوان جذبوں کے سیلاب کی طرح اُمڈتی اور بپھری اس تحریک کی میدانِ عمل میں موجود قیادت کے کوئی گہرے تنظیمی آثار حکومت کو نظر نہیں آرہے تھے، اس لیے حسینہ حکومت نے اس پورے اُبھار کو جمعیت کی ذمہ داری قرار دے کر، منفی پروپیگنڈے کا ایک گھنائونا طوفان اُٹھادیا۔ ان کا خیال تھا کہ طوفان تھم جائے، تو چُن چُن کر جماعت کے حامیوں کو نشانہ بنانے کا جواز فراہم کیا جائے گا۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انڈیا سے ’را‘ اور برہمنی نسل پرست ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (RSS) کی پشت پناہی میں چلنے والے سوشل میڈیا اکائونٹس اور ویڈیو چینلوں نے بھی اپنی توپوں کا رُخ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف موڑ دیا کہ ’’یہ ایک جمہوری حکومت کو گرانا اور بنگلہ دیش کی قومی ترقی کو دفن کرنا چاہتے ہیں‘‘۔مگر زمینی حقائق بالکل مختلف تصویر پیش کررہے تھے۔ جن کے مطابق یہ تحریک ہر گھر کی تحریک تھی اور ہر پڑھے لکھے طلبہ و طالبات کی تحریک تھی، جنھوں نے آمریت، لاقانونیت اور بدعنوانی کے سوا کچھ اور اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھا ہی نہیں تھا۔
ظلم بڑھتا گیا۔ روزانہ شہروں اورقصبوں میں مظاہرین کی لاشیں گرائی جاتی رہیں۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق بیس روز میں اٹھارہ سو افراد کو قتل کردیا گیا، جب کہ مظاہرین اس سے کہیں زیادہ جانوں کے ضائع ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جائے کہ ۴؍اگست کو صرف ایک روز میں ڈھاکہ کے ۱۳۴ طلبہ و طالبات کو پولیس، عوامی لیگیوں اور کچھ بنگلہ دیشی فوجیوں نے گولیوں سے اُڑا دیا۔ یہ خونیں رات ابھی ڈھلی نہیں تھی کہ پُرعزم طلبہ قیادت نے اعلان کردیا: ’’کچھ بھی ہو، ہم ۵؍اگست کو وزیراعظم ہائوس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دیں گے‘‘۔
فجر کے بعد، کرفیو کو توڑتے ہوئے ہزاروں طلبہ و طالبات مارچ کرتے ہوئے اپنے ہدف کی طرف چل پڑے۔ بنگلہ دیشی نوجوان فوجی افسروں نے اپنی ہائی کمان کے سامنے مظاہرین طلبہ پر گولی چلانے سے معذوری کا اظہار کردیا اور پولیس میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔ نہتے طلبہ و طالبات اپنی جان کی حفاظت سے بے پروا، رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے، منزل کی طرف گامزن تھے کہ بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں نے طوفان کا موڈ دیکھ لیا۔ دن کے ساڑھے بارہ بجے حسینہ واجد سے کہا: ’’ایک ڈیڑھ گھنٹے میں چیزیں سمیٹیں اور انڈیا چلی جائیں۔ ہیلی کاپٹر لے جانے کے لیے تیار ہے۔ اگر آپ نہ گئیں تو میں آپ کی اور اپنی جان کی ضمانت نہیں دے سکتا‘‘۔حسینہ واجد نے تکرار کی اور دھمکی کی زبان استعمال کی، مگر آرمی چیف نے رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا: ’’اس وقت میں آپ کے ساتھ اس سے بہتر احسان اور سلوک کا کوئی دوسرا رویہ اختیار نہیں کرسکتا‘‘۔ اور پھر وہ روتی پیٹتی اپنے اصلی وطن انڈیا چلی گئی___ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہزاروں طلبہ نے وزیراعظم ہائوس میں داخل ہوکر اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ دوسری طرف شیخ مجیب الرحمٰن کے ’تاریخی‘ گھر ۳۲- دھان مندی [بنگ بندھو میموریل میوزیم] کو جلاکر راکھ کردیا۔ سڑکوں پر مجیب کے سارے دیوقامت مجسمے توڑ دیئے، دیواروں پر لگی مجیب اور اس کی بیٹی کی تصویریں نوچ ڈالیں اور عمارتوں پر چُنی باپ، بیٹی کی افتتاحی تختیاں اُکھاڑ کر کوڑے دانوں میں پھینک دیں۔
اسی طرح مارچ ۲۰۱۰ء میں انڈین حکومت کی خطیر رقم سے قائم ’اندرا گاندھی کلچرل سنٹر‘ (IGCC) ڈھاکہ کو بھی مظاہرین نے انڈیا کی مسلسل مداخلت اور عوامی لیگ کی سرپرستی کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے نذرِ آتش کردیا۔ اس سنٹر میں موسیقی، یوگا اور کتھک رقص کی تربیت دی جاتی تھی۔ ڈھاکہ میں یہی مشہور تھا کہ ’’یہ دراصل انڈین جاسوسوں اور ’را‘ کا مرکز ہے، جہاں بداخلاقی، بے دینی اور ملک دشمنی کی تعلیم دی جاتی ہے‘‘۔
حسینہ واجد کے جانے کے دوگھنٹے بعد فوجی سربراہ جنرل وقارالزمان نے عبوری حکومت کے لیے ایک فہرست سوشل میڈیا پر چلوائی۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اس فہرست کو طلبہ قیادت نے ہوا میں اُچھال دیا اور کہا: ’’حکومت وہی بنے گی، جو ہم کہیں گے۔ ہم فوجی حکومت اور فوجی مداخلت سے چلنے والی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ ساتھ ہی نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمدیونس کا نام عبوری حکومت کے لیے تجویز کردیا۔اسی دوران، انڈیا کے استحصالی رویے اور فاشسٹ حکومت کی مسلسل پشت پناہی کے سبب عوام میں انڈیا کے خلاف نفرت کا لاوا اُبل رہا تھا، اور بعض جگہ لوگ مندروں کی طرف جانے لگے۔ ملک میں ہیجانی کیفیت عروج پر تھی، مگر اس کے باوجود جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ بنگلہ دیش کی قیادت نے کمال درجے تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ ’’فوراً مندروں اور ہندو آبادیوں کی حفاظت کے لیے میدان میں آئیں، ساری رات پہرا دیں اور مظاہرین کو باز رکھنے کی بھرپور کوشش کریں‘‘۔ اس حکمت عملی کا خاطرخواہ فائدہ ہوا۔ مگر عوامی لیگ اور انڈین میڈیا اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظرانداز کرکے جماعت، جمعیت کو پروپیگنڈے کا نشانہ بناتا چلا آرہا ہے۔
یہ ۵؍اگست ہی کی شام تھی کہ وہی جماعت اسلامی، جس پر حسینہ واجد نے بنگلہ دیشی فوجی سربراہ کی مشاورت سے پابندی عائد کی تھی، اسی جماعت کے سربراہ ڈاکٹر شفیق الرحمان صاحب کو یہی فوجی سربراہ فون کر رہے تھے کہ ’’ملک کے مستقبل کو بہتر بنانے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے آپ مشورہ دیں‘‘۔ گویا کہ اب کی بار پابندی کا یہ دورانیہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے چار روز میں ریزہ ریزہ ہوکر رہ گیا۔ تاہم، ۲۸؍اگست تک جماعت اور جمعیت پر پابندی کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ہوا۔
ڈاکٹر محمد یونس آئے، حکومت بنی، جماعت اسلامی نے کوئی وزارت نہیں لی اور حکومت کے قیام کی تائید کی۔ اس بات پر فوج کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے ایک عذاب سے جان چھڑانے کے لیے درست راستہ اختیار کیا ہے۔نئی نسل کی تحسین کہ اس نے ثابت قدمی سے قوم کو بدعنوان اور فاشسٹ ٹولے سے آزادی دلائی اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدئہ شکر بجا لائے کہ اُس نے خون کے دریا سے قوم کو پار نکالا ہے۔
نئی حکومت نے دو روز بعد، جماعت اسلامی کے ان تمام دفتروں کی سیلیں توڑ دینے کی ہدایت کی، جنھیں گیارہ برس پہلے حسینہ حکومت نے بند کر رکھا تھا۔ یہ خبر سن کر کارکن خوشی سے جہاں موجود تھے، وہیں اللہ کی بارگاہ میں سجدے میں گرگئے۔ پانچ روز گزرنے کے بعد عوامی لیگی کارکنوں اور نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں جماعت اسلامی کے برگزیدہ رہنمائوں کو پھانسیاں سنانے والے ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کو طلبہ نے نشانے پر رکھا، تو ۱۰؍اگست کی دوپہر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت چھ ججوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ یہ سب بدنام اور معروف بدعنوان لوگوں کا ٹولہ تھا۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں کوئی بھی پارٹی یہ نہیں چاہتی کہ فوراً الیکشن ہوں، بلکہ عوامی لیگ نے جو تباہی مچا رکھی ہے، اسے درست کرکے چھ ماہ سے ایک سال کے اندر الیکشن پر اتفاق ہے۔ گندگی کا جو بازار گرم ہے، اس کی صرف ایک مثال دیکھیے:
’بنگلہ دیش اسلامی بنک‘جسے جماعت اسلامی کے رفقا نے ۱۹۸۰ء سے مسلسل بڑی محنت سے قائم کیا تھا، اور جس کی نیک نامی نے اسے بنگلہ دیش کا سب سے بڑا بنک بنا دیا تھا۔ عوامی لیگی حکومت نے جماعت اسلامی کے دوسرے تعلیمی اور ادویہ سازی کے اداروں پر قبضہ جمانے کے ساتھ اس بنک کو بھی قبضے میں لے لیا۔ جبری طور پر عملے اور بورڈ کے ممبروں سے دستخط کرائے، اس کی املاک اور جمع شدہ رقوم ہتھیالیں۔ ایک منظورِنظر ’عالم گروپ‘ کو اس کا انتظامی قبضہ دے دیا۔ ۱۹؍اگست کو عبوری حکومت نے حسینہ واجد کے مقرر کردہ اسلامی بنک کے بورڈ کو توڑدیا اور نیا عارضی بورڈ مقرر کیا۔ ۲۰؍اگست کو معلوم ہوا کہ بنک کے ۷۵ہزار کروڑ ٹکے [یعنی ۱۵۰کھرب پاکستانی روپے] قرضوں، بے نامی منصوبوں اور مختلف ناموں سے نکلوائے اور ہڑپ کر لیے گئے ہیں۔ اس ایک خبر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مزید کتنے معاشی قتل ہوئے ہوں گے اور بدعنوانی کے کتنے ہمالہ تعمیر ہوئے ہوں گے۔ یہ ’’ایک سیکولر، ایک روشن خیال، ایک ترقی پسند، ایک عوام دوست‘‘ حکومت کی سیاہ کاری کی شرمناک تصویر ہے۔ صفحات کی قلت کے سبب ہم نے بہت سی دیگر معاشی غداریوں کی داستانیں یہاں نہیں چھیڑیں، جو ثبوتوں کے ساتھ بنگلہ دیش کے اخبارات میں روزانہ کی بنیاد پر قارئین کو لرزا دیتی ہیں۔
۱۹؍اگست کو بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان صاحب نے بنگلہ دیش ہندو کمیونٹی کے سربراہوں سے ملاقات کی اور ان کے مرکز ’کافرل مندر‘ کا دورہ کیا۔ وہاں پوجاکمیٹی اور مندرکمیٹی کے صدر بابو تاپیندرا نارائن کے مشاورتی اجلاس میں شرکت کی۔ ان کے ہمراہ ڈھاکہ جماعت کے امیر محمد سلیم الدین بھی تھے۔
ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے کہا: ’’بنگلہ دیش میں رہنے والے تمام لوگ برابر کے شہری ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اکثریت اور اقلیت کی بحث کو ختم کیا جائے۔ ہماری پہلی پہچان انسان ہونا ہے۔ ہماری دوسری پہچان ہمارا ملک بنگلہ دیش ہے، جہاں ہم پیدا ہوئے، اور ہماری تیسری پہچان ہماری مذہبی و فکری وابستگی ہے۔ اس ملک کے تمام شہری اپنے مذہب، کلچر اور حقوق کو آزادی سے بروئے کار لانے کا حق رکھتے اور ایک دوسرے کے احترام کی ذمہ داری اُٹھاتے ہیں۔ مَیں پُرامید ہوں کہ ہماری نئی نسل یہ ذمہ داری اُٹھائے گی اور اس ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے نبھائے گی۔ اس طرح مستقبل کا بنگلہ دیش، پارٹی یا گروہی عصبیت پر نہیں بلکہ معیار، صلاحیت اور میرٹ پر کھڑا ہوگا، اور معیار پر ہی چلایا جائے گا۔ میں بنگلہ دیش کے تمام شہریوں، سماجی طبقوں اور مذہبی برادریوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کو آدم علیہ السلام کی اولاد کی طرح دوستوں اور بھائیوں کی طرح قبول کریں، ایک دوسرے کی عزّت ، آبرو اور جان کا احترام کریں۔ تشدد، نفرت، جھوٹے پروپیگنڈے اور جبر کی جڑ کاٹ کر رکھ دیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اور اگر اس کے باوجود کوئی فرد ایسی کسی بدنمائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے جرم کا تعلق اسلام اور اسلامی تہذیب سے نہیں ہے، بلکہ اُس فرد سے ہے اور وہ فرد اس کے لیے قانون، قوم اور اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسلام، انسانی جان و مال اور عزّت و آبرو کے احترام کا درس دیتا ہے۔ اسلام انسانوں کو حیوانیت اور خود غرضی کے بجائے انسانیت اور ہمدردی کا پیغام دیتا ہے۔ یہی پیغام لے کر میں آپ کے پاس آیا ہوں‘‘۔ (روزنامہ سنگرام، ڈھاکہ، ۱۹؍اگست ۲۰۲۴ء)
یہ تو ہوا اس منظرنامے کا ایک پہلو۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا یہ انقلاب فی الحقیقت دو قومی نظریے کی ایک طاقت ور بازگشت ہے۔ وہی دو قومی نظریہ، جسے سرزمین بنگال کے مسلمانوں کی قیادتوں نے انیسویں صدی میں ’فرائضی تحریک‘ اور تیتومیر شہید کی صورت میں اُٹھایا، جس کی تصویرکشی ۱۹۰۵ء میں تقسیم بنگال نے کی اور جسے ۱۹۰۶ء میں کُل ہند مسلم لیگ کے قیام نے سیدھی شاہراہ پر ڈالا۔ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کے بعد مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی حماقتوں اور مشرقی پاکستان سے بنگالی قوم پرست لیڈروں کے جھوٹے پروپیگنڈے نے نفرت کی آگ کا ایسا الائو بھڑکایا کہ دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ تب انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا: ’’دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘‘۔ موجودہ انقلاب نے یہ پیغام دیا ہے کہ ’’دو قومی نظریہ زندہ ہے، توانا ہے اور اپنا دفاع کرنا جانتا ہے‘‘۔
دوسرا یہ کہ نئی نسل اور عام شہری جبر اور فسطائیت پر مبنی آمریت کو کسی صورت قبول نہیں کرتے۔ اس مقصد کے حصول اور آزادی کے لیے وہ اپنے معاشی مستقبل اور اپنی جان کی بازی تک لگادینے سے دریغ نہیں کرتے۔یہ درس ہے آئندہ حکمرانوں کے لیے بھی اور یہی درس ہے ہمسایہ ملک کے نسل پرست برہمنوں کے لیے بھی۔
تیسری چیز یہ ہے کہ اس زلزلہ فگن تحریک کے جھٹکے ابھی تک بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں مسلسل محسوس کیے جارہے ہیں، تاہم حالات گرفت میں ہیں۔ مثال کے طور پر۲۴؍اگست کو ’انصار فورس‘ نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ یہ حکومت کی مسلح ملیشیا ہے، جس میں بڑی تعداد ’طلب کرنے پر‘ ڈیوٹی پر آتی ہے‘۔ انھوں نے اپنی نوکریاں پکّی کرنے کے لیے مظاہرہ کیا، جسے روکنے کے لیے طلبہ نے کوشش کی تو تصادم ہوگیا۔ بعدازاں ۲۵؍اگست کو طلبہ اور فوج نے یہ مزاحمت ختم کردی۔ اسی طرح ڈھاکہ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر اور اسی یونیورسٹی کے دس اہم تعلیمی اور انتظامی سربراہو ں نے اپنے کیے کرائے پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے استعفے دے دیے ہیں۔ مختلف انتظامی شعبہ جات کے بدعنوان منتظم افراد ملک سے بھاگنے کی کوشش میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ گویا کہ حالات کے پُرسکون ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ عبوری حکومت کے مشیر اعلیٰ ڈاکٹر محمد یونس نے بجا طور پر نشان دہی کرتے ہوئے کہا ہے: ’’جب تک حسینہ واجد حکومت میں رہی، ہم ایک مقبوضہ ملک ہی رہے۔ ایک قابض قوت، ڈکٹیٹر اور بے رحم جرنیل کی طرح اس نے ہرچیز کو اپنے شکنجے میں کَس رکھا تھا۔ مگر آج بنگلہ دیش کا ہرشہری آزادی محسوس کر رہا ہے اور پوری قوم اس آزادی کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہے‘‘۔
۲۹جولائی کو فلسطین کی وزارتِ تعلیم اور ہائر ایجوکیشن نے جب میٹرک کے امتحان کے نتائج کا اعلان کیا تو سارہ رو پڑی۔ ۱۸ سالہ سارہ نے سوشل میڈیا پر مقبوضہ مغربی کنارے کے دیگر طلبہ و طالبات کو دیکھا، جو اپنی کامیابیوں پر خوشیاں منارہے تھے،تو وہ اپنے آنسو ضبط نہ کرسکی۔ جب میں غزہ میں اس کے خیمے میں اس سے ملنے گئی تو اس نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ مجھے بتایا، ’’میرے لیے یہ خوشی کا وقت ہونا تھا، کیونکہ میں اپنے ہائی اسکول کے سرفہرست طلبہ میں شامل تھی۔ میں نے اپنی کامیابی پر انٹرویو دینے کا خواب دیکھا تھا مگر میرے ہم وطنوں کے ساتھ آج میری تعلیم کا گلابھی گھونٹ دیا گیا ہے‘‘۔
سارہ، غزہ کے ظہرت المدائین سیکنڈری اسکول میں زیر تعلیم اور ڈاکٹر بننے کی خواہش مند ہے۔ میٹرک کا امتحان، جس کے لیے اس نے مہینوں محنت کی تھی، اس کو میڈیکل فیکلٹی میں پڑھنے کے لیے درخواست دینے کا اہل بنادیتا کہ یہ امتحانی نتائج فلسطینی یونی ورسٹیوں میں داخلے کا بنیادی معیار ہیں، لیکن اب سارہ اپنا وقت مایوسی میں گزارتی ہے۔ – اس کا گھر اور ایک بہتر مستقبل کا خواب، اسرائیل کی بمباری سے خاک میں مل چکے ہیں۔وہ غزہ کے۴۰ ہزار فلسطینی طالب علموں میں سے ایک ہے، جنھیں اس سال میٹرک کا امتحان دینا تھا لیکن وہ نہیں دے سکے۔
تاہم، سارہ ان ’خوش قسمت‘ لوگوں میں سے ایک ہے کہ جو زندہ سلامت ہیں۔ فلسطینی وزارت تعلیم کے مطابق، جن طالب علموں کو ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنا تھی، ان میں سے کم از کم ۴۵۰ ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کی نسل کشی کی جارحیت میں ۲۶۰ سے زائد اساتذہ سمیت مختلف درجات کے ۵ہزار سے زائد دیگر افراد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہائی اسکول سے وابستہ افراد اُن اسکولوں میں مارے گئے، جو غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد بے گھر فلسطینیوں کے لیے پناہ گاہوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ یہ ایک بڑا ہولناک المیہ ہے کہ غزہ میں علم کی روشنی کی جگہیں موت کی وادیوں میں بدل چکی ہیں۔
جولائی سے لے کر اب وسط اگست تک اسرائیل اسکولوں پر ۲۳ بار بمباری کرچکا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ تازہ ترین حملے میں غزہ کا المدائین اسکول ۱۰۲ سے زائد افراد کا قبرستان بن گیا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس سانحے کی خوفناک رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ والدین کی اپنے مقتول بچوں کی تلاش بیکارہے، کیونکہ بموں سے بچوں کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء سے غزہ کے ۵۶۰؍ اسکولوں میں سے ۹۳ فی صد یا تو تباہ ہوچکے ہیں یا انھیں بُری طرح نقصان پہنچا ہے۔ تقریباً ۳۴۰ پر اسرائیلی فوج نے براہِ راست بمباری کی ہے۔ ان میں سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے اسکول بھی شامل ہیں۔ اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اسرائیل خاص طور پر منظم طریقے سے غزہ کے اسکولوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور اس کی ایک وجہ بھی ہے۔ فلسطینیوں کے لیے یہ تعلیمی مراکز تاریخی طور پر سیکھنے، انقلابی سرگرمیوں، ثقافتی تحفظ اور اسرائیلی نوآبادیات کی وجہ سے ایک دوسرے سے منقطع فلسطینی زمینوں کے درمیان تعلقات کے تحفظ کے اہم مرکز کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کو بااختیار بنانے اور ان کی آزادی کی تحریک میں اسکولوں نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں، دینی اور جدید تعلیم پر مشتمل تعلیمی ادارے،’۱۹۴۸ء کے نکبہ‘ کے بعد سے فلسطینی عوام کو مٹانے کی اسرائیلی کوششوں کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی ایک شکل ہیں۔ جب یہودی ملیشیا فورسز نے فلسطینیوں کی نسل کشی کرتے ہوئے تقریباً ۷لاکھ ۵۰ ہزار فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کیا، تو پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہونے کے بعد ان فلسطینیوں نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے بچوں کے لیے خیموں میں اسکول کھولے۔ تعلیم کو قومی قدر کے طور پر فروغ دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی تعلیم کا شعبہ ترقی کے اس مقام تک پہنچا کہ جہاں اس نے دنیا میں خواندگی کی سب سے بلند شرح پیش کی۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ غربت و کسمپرسی، محصور اور مسلسل بمباری کا شکار غزہ روایتی طور پر امتحانات میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والوں کا مرکز رہا ہے۔ غزہ کے طالب علموں کی ایسی کہانیاں بکثرت مشہور ہیں، جو بلیک آؤٹ کے دوران تیل کے لیمپوں یا موبائل فونوں کی روشنی میں باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اسرائیل کی گھروں پر بمباری کے باوجود رُکنے سے انکار کردیتے ہیں، اور پھر سب سے زیادہ نمبر بھی حاصل کرتے ہیں۔ اہل فلسطین کی جدوجہد میں ساری مشکلات کے باوجود تعلیم کے حصول میں سبقت حاصل کرنا مزاحمت کی ایک شکل رہی ہے۔
اسرائیل اب جو کچھ کر رہا ہے، وہ فلسطینی مزاحمت کی اس شکل کو ’تعلیمی قتل عام‘ (Scholasticide) کے ذریعے تباہ و برباد کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ یہ تعلیمی اور ثقافتی اداروں کو ختم کر رہا ہے تاکہ ان ذرائع کو ختم کیا جا سکے، جن کے ذریعے فلسطینی اپنی ثقافت، علم، تاریخ، شناخت اور اقدار کو آئندہ نسلوں تک محفوظ اور منتقل کر سکتے ہیں۔
یہ ’تعلیمی قتل عام‘ (Scholasticide) نسل کشی کے سلسلے کا ایک تشویش ناک پہلو ہے۔ اس اسکول کشی کی مہم نے طلبہ کے مستقبل اور تعلیمی شعبے پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ تعلیم بہت سے لوگوں کو یہ اُمید دلاتی ہے کہ ان کے لیے زندگی بہتر ہو سکتی ہے، اور وہ محنت کے ذریعے اپنے خاندانوں کو غربت سے نکال سکتے ہیں مگر اسرائیل اُمید کا یہ چراغ بھی بجھا رہا ہے، اور مغرب تماشائی ہے۔
غزہ کے بچوں اور نوجوانوں میں پھیلنے والی نااُمیدی کے بارے میں مَیں نے اس وقت سوچا جب ۱۸ سالہ احسان کو دیر البلاح کی دھول بھری سڑک پر چلچلاتی دھوپ میں ہاتھ سے بنی مٹھائیاں فروخت کرتے ہوئے دیکھا ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ شدید گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں کیا کر رہا ہے؟ اس نے مجھے بتایا کہ ’’میں اپنے خاندان کو زندہ رہنے میں مدد دینے کے لیے تھوڑی سی رقم کمانے کے لیے ہاتھ سے بنی ہوئی مٹھائیاں بیچ کر اپنا دن گزارتا ہوں‘‘۔ پھر اس نے مایوسی سے کہا:’’میں نے اپنے خواب کھو دیے ہیں۔ میں نے انجینئر بننے، اپنا کاروبار شروع کرنے، کسی کمپنی میں کام کرنے کا خواب دیکھا تھا، لیکن اب تو میرے سارے خواب خاک میں مل چکے ہیں‘‘۔
سارہ کی طرح احسان بھی میٹرک کا امتحان دینا چاہتا ہوگا اور یونی ورسٹی میں پڑھنے کا شوق رکھتا ہوگا۔ میں نے غزہ میں سارہ اور احسان جیسے بہت سے روشن چہروں کے حامل نوخیز لڑکے لڑکیاں دیکھی ہیں، جن کی خواہش تھی کہ اپنی ہائی اسکول کی کامیابیوں پر خوشیاں مناتے، لیکن اب وہ اپنے اُجڑے خوابوں کا ماتم کررہے ہیں، جو ان پر ظلم و ستم، تشدد اور بمباری کے نتیجے میں چھین لیے گئے ہیں۔ جو لوگ غزہ کے مستقبل کے ڈاکٹر اور انجینئر بن سکتے تھے، اب وہ موت اور مایوسی میں گھرے ہوئے بمشکل زندہ رہنے کے لیے خوراک اور پانی کی تلاش میں جدوجہد کرتے زندگی گزار رہے ہیں۔
اس تمام تر ظلم و جور اور سفاکیت کے باوجود مزاحمت ختم نہیں ہوئی ہے۔ تباہ شدہ غزہ کے فلسطینیوں میں تعلیم کی تڑپ ختم نہیں ہوئی۔ مجھے یاد آیا جب میں چھ سالہ ماسا اور اس کے اہل خانہ سے دیر البلاح میں ان کے خیمے میں ملنے گئی تھی، اور اس کی ماں سے بات کر رہی تھی، جو مجھے آنسوئوں سے بھیگی آنکھیں پونچھتے ہوئے بتا رہی تھی: ’’ہر بار جب میری بیٹی روتی ہے تو میرے دل میں درد اُٹھتا ہے کیونکہ وہ اسکول نہیں جا سکتی‘‘۔ ماسا نے التجا کی: ’’ماں، میں اسکول جانا چاہتی ہوں۔ چلو بازار چلتے ہیں اور میرے لیے ایک بیگ اور اسکول یونیفارم خرید دیں‘‘۔ ماسا نے ستمبر میں پہلی جماعت شروع کی ہوگی۔ اس مہینے میں اسکول کی اسٹیشنری، یونیفارم اور اسکول بیگ کی خریداری کا وقت ہوتا، جس سے اس کو بے پناہ خوشی ہوتی۔
آج فلسطینی بچوں کی اسکول جانے کی خواہش بہت سے والدین کے دلوں کو افسردہ کر رہی ہے، تعلیم کی یہ پیاس کل غزہ کے تعلیمی شعبے کی تعمیرِ نو کا آغاز کرے گی، جب یہ نسل کشی کا سیلاب ختم ہوجائے گا۔
حالیہ دنوں میں جاری ہونے والے ایک کھلے خط میں، غزہ کے سیکڑوں اسکالرز اور یونی ورسٹی اساتذہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’غزہ کے تعلیمی اداروں کی تعمیرِ نو صرف تعلیم کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے اُبھرنے کی صلاحیت اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے غیرمتزلزل عزم کا ثبوت ہے‘‘۔ درحقیقت، بہت سے فلسطینی اپنی معاشرتی زندگی اور آزادی کے لیے تعلیمی اداروں کی ضروری تعمیرِ نو کی خواہش رکھتے ہیں، جو ان کی ثابت قدمی اور پختہ عزم کا مجسم اظہار ہے۔ اس خط کے اختتامی جملے میں کہا گیا ہے: ’’غزہ کے بہت سے اسکول، خاص طور پر اس کے پناہ گزین کیمپوں میں، خیموں میں بنائے گئے تھے، اور فلسطینی اپنے دوستوں کے تعاون سے بہت جلد انھیں دوبارہ خیموں میں قائم کرلیں گے‘‘۔(الجزیرہ، ۱۱؍اگست ۲۰۲۴ء)
جموں و کشمیر کا تنازعہ، جموں و کشمیر کے لوگوں کی اُمنگوں پر مبنی سیاسی حل کا مطالبہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی دو قراردادوں۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء میں واضح طور پر جموں و کشمیر کے لوگوں کو حقِ خودارادیت اور ریاست میں رائے شماری کے انعقاد کا حق دیا گیا ہے۔ حقِ خود ارادیت اقوام متحدہ کے چارٹر میں انسان کے بنیادی حق کی حیثیت رکھتا ہے، جس کا تقاضا ہے کہ ہر قوم اور برادری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ بغیر کسی تفریق، پابندی اور رکاوٹ کے اپنے عوام کی خواہشات کے مطابق کرے۔ اگر یہ حق پوری عالمی برادری پر لاگو ہوتا ہے تو کشمیریوں کو، انڈیا اور پاکستان کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے بعد اس سے مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا اور نہ انھیں غیر معینہ مدت تک غیر ملکی قبضے کے ذریعے محکوم بناکر رکھا جاسکتا ہے۔ بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو تسلیم تو کیا ہے، لیکن سات عشروں سے اس پر عمل درآمد سے انکار ی ہے۔
تنازعہ کشمیر کے سیاسی حل سے مسلسل بھارتی انکار نے جموں و کشمیر کے لوگوں میں مایوسی اور بے چینی پیدا کی۔ کشمیریوں کی مایوسی برسوں کے بھارتی قبضے، اپنی ہی ریاست میں کشمیریوں کے ساتھ امتیازی اور ناروا سلوک اور ریاست کی داخلی خودمختاری سے انکار کا نتیجہ تھا۔ نتیجتاً، مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے ۱۹۹۰ء میں غیر قانونی انڈین حکمرانی اور اس کی مسلسل استحصالی پالیسیوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ اس تحریک کا مقبول نعرہ ’آزادی اور حقِ خودارادیت‘ کشمیری عوام کا واحد مطالبہ تھا۔
بھارت نے وحشیانہ ردعمل کے ذریعے پورے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر فوج اور نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کردی اور مختلف غیر انسانی حکمت عملیوں کے ذریعے کشمیریوں پر ظلم و ستم شروع کر دیا۔ ۱۹۹۰ء کے آغاز سے ہی پُرامن کشمیریوں کے مظاہروں پر بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، حراستی مراکز میں تشدد، زیرحراست قتل اور اندھا دھند فائرنگ روز کا معمول بن گیا۔ ۱۹۹۰ء کی اس تحریک میں مختلف غیرجانب دار ذرائع کے مطابق، بھارتی سفاک سیکورٹی فورسز نے ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ کشمیری قیادت کو اکثر یا تو براہ راست حملے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے، یا پھر بھارتی سکیورٹی فورسز کے زیر حراست اور گھر میں نظربند رہتے ہوئے مارا گیا ہے۔ عظیم کشمیری رہنما سیّد علی شاہ گیلانی، کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے بانی، یکم ستمبر ۲۰۲۱ءمیں پانچ سال سے زائد عرصے تک گھر میں نظر بند رہنے کے دوران انتقال کر گئے۔
مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق۱۲ہزار سے زیادہ کشمیری خواتین کو ہراساں کیا گیا، عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا، جن میں اجتماعی عصمت دری اور عصمت دری کے بعد قتل کرنا بھی شامل ہے۔ ہندوستانی ریاست نے مختلف قوانین جیسے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA)، پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے ذریعے ان غیر انسانی کارروائیوں کو قانونی تحفظ بھی فراہم کیا ہے۔ ان امتیازی قوانین نے بھارتی فوج اور اس کے نیم فوجی دستوں کو کشمیریوں کی گرفتاری، غیر قانونی حراست، تشدد اور قتل کے لیے خصوصی دفعات فراہم کیں۔ اس طرح کے قوانین اور وحشیانہ طاقت کے استعمال کے ذریعے کشمیریوں کے ساتھ ناروا سلوک بین الاقوامی قوانین، انسانی قوانین، معاہدوں اور درجنوں بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، جسے عالمی سطح پر چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف بھارت نے اپنی ۹لاکھ سے زیادہ سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جاری رکھا۔ اس نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ءکو اس کے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو منسوخ کرکے غیر قانونی اور یکطرفہ طور پر ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا۔ اس کے علاوہ، اس نے ہندوستانی یونین کے تحت دو مرکز کے زیر انتظام علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ) بنا کر ریاست کی ریاستی حیثیت کو بھی ختم کردیا۔ ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے، نئی دہلی نے اپریل ۲۰۲۰ء میں جموں و کشمیر کے لیے نئے ڈومیسائل قوانین متعارف کروائے۔
ان قوانین کے تحت انڈین حکومت نے بھارت کے مختلف حصوں سے غیر کشمیری ہندوؤں کو لاکھوں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں جو چوتھے جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس کنونشن کا آرٹیکل ۴۹ (۶)قابض طاقتوں کو اپنی آبادی کو مقبوضہ علاقے میں منتقل کرنے سے منع کرتا ہے۔ درحقیقت یہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔
۱۸ جنوری ۲۰۲۲ء کو، برطانیہ کی ایک قانونی فرم نے لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کو اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل منوج اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شا کی مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گرفتار کرنے کے لیے اپیل دائر کی۔ ہندوستانی حکومت کے دو اعلیٰ عہدیداروں کی گرفتاری کے لیے یہ قانونی اپیل ’عالمی دائرہ اختیار‘ کے تحت درج کی گئی تھی۔
۹ لاکھ سے زیادہ ہندوستانی افواج کی تعیناتی کے ساتھ، مقبوضہ کشمیر ایک جنگی علاقہ بن گیا ہے۔ لہٰذا، تنازعہ کے سیاسی حل کے علاوہ، بین الاقوامی انسانی قانون (IHL)تنازعہ کو انسانی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ IHL درحقیقت قوانین کا ایک مجموعہ ہے جو مقبوضہ کشمیر جیسے جنگی علاقے میں مسلح تصادم کے اثرات کو محدود کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے علاوہ، ’بین الاقوامی انسانی قانون‘ مقامی آبادی کو تمام جہتوں سے بچانے کے لیے ریاستوں کی ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے: ان کے بنیادی شہری حقوق، ان کی آزادی اور تحفظ اور سب سے بڑھ کر ان کا حقِ خود ارادیت۔ مسئلہ کشمیر کو قانون کی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو بھارت کو مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کو روکنے پر مجبور کرنے کے لیے اہل دانش اور سفارت کاروں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ آبادی کے تناسب میں جبری تبدیلیوں کو روکنا اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کو بھی نمایاں کرنا چاہیے، جن کے نتیجے میں انسانی المیہ ایک دہکتے الائو کی طرف بڑھتا نظر آرہا ہے۔
تحریک صہیونیت اصل میں اشکنازی یہودیوں نے شروع کی تھی، جو سرخ و سفید رنگت رکھتے ہیں اور مذہب سے جن کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کابانی تھیو ڈور ہرزل تھاجس کے انتقال کےبعد چیم ویزمین تحریک صہیونیت کا چیرمین بنا اور قیامِ اسرائیل کے بعد وہی ملک کاپہلا صدربھی بنا تھا۔ یہ لوگ یروشلم کے صہیون پہاڑ پر تخت ِداؤد لانا چاہتے ہیں ۔ یاد رہےکہ لادینی اور مذہبی دونوں ہی قسم کے یہودی مل کر ایک ہی مقصد پر کام کر رہے ہیں کہ تخت داؤد کو لایا جائے اور صہیون پہاڑ پر رکھا جائے۔ یہ دونوں گروہ گریٹر اسرائیل کی بھی بات کرتے ہیں اور اس نکتے پر متفق ہیں کہ گریٹر اسرائیل بنانا ان کا خدائی حق ہے ۔ ان کی پارلیمنٹ اور کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ’’اسرائیل تیری سرحدیں فرات سے لے کر نیل تک ہیں‘‘۔ بلکہ وہ تو خیبر مدینے تک پر اپنا حق جتاتے ہیں،جہاں کبھی یہودی رہے بسے تھے ۔ اسرائیل نے ۱۹۸۸ء میں ایک سکہ جاری کیاتھا، جس میں دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ دکھایا گیا تھا ۔لیکن وہاںکے اسٹیٹ بینک نے اس کی یہ کہہ کر تردید کی تھی کہ نقشےکی غلط تشریح کی جارہی ہے۔اسرائیلی پرچم پر بھی اوپر نیچے نیلی دو سیدھی لکیریں اسی نظرئیے کی تائید کرتی ہیں۔
ان کے پروٹوکولز میں لکھا ہوا ہےکہ’’ہماری حکومت قائم ہونےکے وقت ہمارے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کا باقی رہنا مناسب نہیں۔ ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کے اعتقادات (ایمانیات) کا خاتمہ کردیں‘‘۔ (دستاویز نمبر ۱۴-۱۷)۔ان کا مذہبی عقیدہ ہے کہ ہم اعلیٰ ترین نسل اور خدا کے چنے ہوئے بندے ہیں۔ ہم تبلیغ بھی اسی لیے نہیں کرتے کہ ہماری نسل سب سے اعلیٰ ہے ۔ اس لیے دوسری قوموں کو ہم اپنے اندر کیسے ملا لیں؟ یہی وجہ ہے کہ ان کی تعداد آج کل بھی دو یا سوا دو کروڑ سے کبھی زیادہ نہیں ہو سکی ہے ۔ پروٹوکولز کے مطابق: ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ دُنیا کی تمام مملکتوں میںہمارے علاوہ صرف مزدوراور محنت کش طبقہ ہو‘‘۔ جب ہماری حکومت قائم ہوگی تو ہم سب سے پہلے یونی ورسٹیوں کی تعلیم کی از سرنو تنظیم کریںگے‘‘ (دستاویز نمبر بالترتیب ۷،۹،۱۶)
صہیونی یہودی دعویٰ کرتےہیں کہ ساری دنیا ہمارے کنٹرول میں ہوگی اور اسے ہم اپنے ماتحت رکھیں گے۔ ہمارا ایک میگا کمپیوٹر ہوگا، جس میں ایک ایک شہری کا ڈیٹا رکھیں گے ۔اور جو ہماری خلاف ورزی کرے گا اسے سزائیں سنائیں گے ۔ انھوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ دنیا کی ہر لڑکی ہماری لڑکی ہوگی۔
پروٹوکولز زوردیتے ہیںکہ ’’ہم قتل عام کرائیںگے اور اپنے کسی مخالف کومعاف نہیں کریں گے‘‘(نمبر ۹)۔دنیا میں بے حیائی پھیلانے کے ان کے جو طریقے ہیں، ان کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ امریکا میں انھوں نے ہالی وُڈ اسی مقصد کے تحت قائم کیا تھا۔ ہالی وڈ جب پہلی دفعہ آیا تھا تو انھوں نے کچھ بے شرمی کی باتیں شروع کی تھیں، جس پر سنجیدہ عیسائی چیخ اُٹھے تھے کہ ایسی فلمیں بند کرو جن کے نتیجے میںہماری اخلاقی قدریں کمزور ہورہی ہیں۔ نتیجے میں صہیونی کچھ پیچھے ہٹے تھے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ لوگوں کی حِس کو سُن کرکے مطلوبہ درجے پر پہنچ گئے۔
چنانچہ اگر ہم اسرائیلیوں کی باتیں تسلیم کر لیں گے تو ہمارے پاس بچے گا کیا؟پھر مسلمانوں ہی میں سے نعوذ باللہ حج اور عمرے کو برا بھلا کہا جائے گا۔لوگ کہیں گے کہ ’’یہ سب عیاشی ہے‘‘۔ اور دبے لفظوں میں یہ کہا جانے بھی لگا ہے۔ پھر کہا جائے گا: ’’ قربانی کی ضرورت ہی کیا ہے ؟‘‘ ۔ پھر ہماری زبان بدل جائے گی ، پھرہماری نظریں بدل جائیں گی۔ یوں رفتہ رفتہ وہ ثقافتی، تعلیمی اور مذہبی و اخلاقی حوالے سے بھی آگے بڑھتے جائیں گے، بلکہ بڑھ رہے ہیں۔
قیامِ اسرائیل سے اب ۷۵ برسوں تک دہشت گردی اور نسل انسانی کے مٹانے کے رویے میں وہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جو بھی وزیراعظم آتا ہے، (اِس طبقے کا یا اُس طبقے کا)، اس نے اسرائیل کی توسیع ہی کی ہے۔ شروع میں جب اسرائیل کوبرطانیہ کی جانب سے بسانے کی اجازت دی گئی تھی تو نتیجے میں انھیںسات ،آٹھ ،یادس فی صد زمین دی گئی تھی۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیوں یہ ریاست آج ا س حد سے بھی آگے بڑھ گئی ہے؟مقامی فلسطینی آبادی گھٹ گئی اور یہودی آبادی بڑھ گئی ہے ۔ تو یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا ؟ جیسا کہ پہلے بتایاگیا کہ اسرائیل کی کوئی حدود ہی متعین نہیں ہیں۔ دنیا کا یہ واحد ملک ہے جس کی کوئی حدود نہیں ہیں ۔یہودی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے نیل سے دریائے فرات تک ہیں‘‘۔
امریکی کار کمپنی فورڈکے بانی ہنری فورڈنے یہودیوں کے خلاف اپنی معروف کتاب The International Jews ترجمہ عالمی یہودی فتنہ گر از میاں عبدالرشید میں صہیونیوںکی کئی خفیہ سازشوںکو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں فورڈ لکھتاہے کہ ’’کالجوں میں بھی یہودیوں نے وہی طریقہ اختیارکیا ہے، جس سے وہ ہمارے گرجوں کو تباہ کرچکے ہیں۔ نوجوانوںکو یہ تاثر دیا جاتاہے کہ وہ ایک نئی عظیم تحریک میںحصہ لے رہے ہیںجو انسانوں کی فلاح کے لیے ہے ‘‘۔ وہ سوال کرتاہے کہ پھرا س کا علاج کیا ہو؟ کہتاہے کہ ’’علاج بالکل آسان ہے۔ طلبہ کو بتایا جائے کہ ان تمام افکار کی پشت پر یہودی ہیں، جوہمیں اپنے ماضی سے منقطع کرکے آئندہ کے لیے مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔انھیں بتایا جائے کہ وہ (عیسائی طلبہ) ا ن لوگوںکی اولاد ہیں جو یورپ سے تہذیب لے کر آئے ۔تہذیب ان کی گھٹی میںپڑی ہوئی تھی۔ اور اب یہ یہودی ہمارے اند ر گھس آئے ہیں۔ ان کی نہ کوئی تہذیب ہے نہ مذہب ‘‘۔وہ مزید آگاہ کرتا ہے کہ’’ یہودیوں کی مطبوعات، کتابوں، پمفلٹوں، اعلانوں، اوران کے اداروں کے دستوروں سے ثابت ہےکہ ان کے اندر غیریہودیوں کے لیے سخت نفرت پائی جاتی ہے‘‘ (ص ۱۴، ۵۱)۔آگے زور دیتے ہوئے وہ کہتاہے: ’’اب ہرحکومت کو یہودی مسئلے کانوٹس لینا پڑے گا کیونکہ اس وقت یہ مسئلہ دنیاکے تمام مسائل سے عظیم تر ہوچکاہے۔اور ساری دنیا کےچھوٹے بڑے قومی یا بین الاقوامی مسائل،اسی کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں ‘‘(ص ۵۷)۔ ہنری فورڈکا زمانہ ۳۴،۱۹۳۳ء کا تھا، جب جرمنی میں ہٹلر برسرِاقتدار تھا۔ ہٹلر نے اس کتاب پر فورڈ کو مبارک باد بھی دی تھی ۔کیونکہ اس نے ہٹلر کےکام کو علمی لحاظ سےمزید آسان کیا تھا۔
ایک اور اہم شخصیت نے بھی یہودیوں کی خباثت اور گہری سازشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ امریکی سی آئی اے کا ایک سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر جان کولمین تھا، جواپنی تحقیقی کتاب The Conspirators Hierarchy, the Committee of 300 میں ،جو اس کے بقول صہیونیوں کی ’نادیدہ عالمی تنظیم‘ ہے، انکشاف کرتاہے کہ یہ لوگ دنیا بھر میں ایسی جنسیاتی و ہذیانی کیفیت پیداکرنا چاہتے ہیں، جس میں کسی قسم کاکوئی خوف ، جھجک ،اور شرم نہ ہو ۔ڈاکٹرکولمین نےاس مقصد کے لیے ایک نئی اصطلاح استعمال کی ہے: Mindless Sex۔ یعنی ایسی شہوت اور بدکاری جس میںکوئی بھی ،کسی سے بھی ، کہیں بھی، اور کسی طرح بھی، باہمی مصروف ہوجائے۔ (ص ۵۴)
یہ سوچنا چاہیے کہ ان کی ایک خفیہ تنظیم فری میسینری ہے۔ عظیم ملک ترکی کو انھوں نے اسی فری میسنری تنظیم کے سائے میں کاٹ کے ٹکڑے ٹکڑے کیا تھا۔ اور اب وہ پاکستان کے وجود کےدرپے ہیں۔ان کی نظریں ایٹم بم اور پاکستان کی سلامتی پر ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں ۷۰ء کےعشرے میں ایک کامیاب مہم کے نتیجے میں صہیونیوں کی ’فری میسنری تنظیم‘ پر پہلے ہی پابندی لگائی جاچکی ہے۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ زمین پر وہ پابندی غیرمؤثر ہوچکی ہے۔ اس ’سافٹ دہشت گرد تحریک‘ کے بارے میں پاکستانی قومی سلامتی کے اداروں کو حساس اور خبردار ہونا چاہیے۔
غرض یہ تو اپنے مقاصد کو لے کے چل ہی رہے ہیں ۔ان کے پروٹوکولز کے کل۲۴ باب ہیں جنھیں ہمیں ضرور ہی پڑھنا چاہیے۔ مطالعہ کرنا چاہیے کہ دنیا پران یہودیوں نے کس طرح قبضہ کیا تھا؟ انقلاب انگلینڈ اور انقلاب اسپین انھی کی سازشوں کی وجہ سے آیا تھا ۔ انقلاب اسپین میں ملکہ اور بادشاہ کے سروں کو اُڑایا گیا تھا ، وہ عمل بھی انھی صہیونیوںنے انجام دیا تھا۔ یہ کہیں بھی ہوں، فساد کرتے ہیں۔اور یہ وہ قوم ہے جس کے دل میں رائی کے برابر بھی رحم نہیںہے ۔
یہودی ، اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر بڑے عہدے پر موجود ہیں اور وہی مسلم ممالک کی معاشی و سیاسی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے شکنجے میں کسے جانے والے تمام بجٹوں کے مشیر اصل میں یہی بڑے یہودی عہدیدار ہوتے ہیں۔
خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کے مظہر واقعات صرف امریکا اور ایران ہی میں نہیں ہوئے بلکہ ایسے واقعات بہت سے ممالک میں سامنے آتے رہتے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی واقعات کی پیشگی اطلاعات بھی ہوتی ہیں، مگر ان کو وقوع پذیر ہونے دیا گیا۔ جس کی توجیہہ ابھی تک سامنے نہیں آرہی ہے۔
مثال کے طور پر ۲۶ جنوری ۱۹۹۵ء کو انڈیا کے یومِ جمہوریہ کی تقریبات جموں کے مولانا آزاد اسٹیڈیم میں منعقد ہو رہی تھیں۔جموں و کشمیر کے اس وقت کے گورنر ، سابق آرمی چیف جنرل کے وی کرشنا راؤ نے پرچم لہرایا اور اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے خطے میں سیکورٹی فورسز کی کارکردگی کو سراہا اور انگریزی میں کہا کہ We have broken the backs of..... (’ہم نے کمر توڑ دی ہے‘....) ان کا یہ جملہ ادھورا ہی رہ گیا کہ گیٹ کے پاس اسٹیڈیم کی پارکنگ کی جگہ سے دھماکے کی آواز سے دھواں اُٹھا۔ سامعین کھڑے ہوگئے اور معلوم کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ کیا ہوا؟ کرشنا راؤ اسٹیج پر کھڑے رہے، اورلوگوں کو پُرسکون رہنے کی تلقین کی کہ’’کسی نے پٹا خہ چھوڑا ہے‘‘۔ اسی دوران ان کے دائیں جانب کے اسٹینڈ میں ، جس میں زیادہ تر اطلاعات اور دیگر محکموں کا عملہ بیٹھا ہوا تھا، دوسرا دھماکہ ہوا۔ انسانی اجسام کے چیتھڑے ہوا میں اُڑتے اور خون کے چھینٹے اُڑاتے ہوئے اسٹیڈیم کے گراؤنڈ کو سرخ بناگئے!
اس دوران نیشنل سیکورٹی گارڈ کے کمانڈوز، گورنر کو ایک گاڑی میں دھکیل کر بڑی برق رفتاری سے اسٹیڈیم سے باہر نکل گئے۔ وہ ابھی شاید گیٹ تک بھی نہ پہنچے ہوں گے، کہ تیسرا بم اسٹیج کے نیچے پھٹ گیا۔ وہ اسٹیج ، جس پر چند لمحے قبل گورنر تقریر کر رہے تھے، اس کے پُرزے اُڑ گئے۔ نفسا نفسی کے عالم میں اسٹیڈیم خالی ہوگیا۔ دھماکے کے نتیجے میں ۱۸؍ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
برسوں بعد، دہلی میں ایک سیمینار میںخفیہ ایجنسی ’ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ‘ (RAW) کے سربراہ سی ڈی سہائے نے، جو اس وقت جموں و کشمیر میں ایجنسی کے کمشنر تھے، انکشاف کیا کہ اس حملے کے بارے میں ان کو علم تھا اور گورنر کو بھی اس کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ ۲۵ جنوری ۱۹۹۵ء کی شام کوگورنر کرشنا راؤ نے سرحد پر تعمیر و ترقی و انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے سیکورٹی اداروں کی ایک میٹنگ بلائی تھی۔ وہ ایک روز قبل کرشنا گھاٹی کے دورے سے واپس آئے تھے۔وہ اسی طرح کا اسٹرکچر اپنی سائڈ میں بھی بنانے کے خواہش مند تھے۔ سہائے کا کہنا تھا کہ اس میٹنگ میں جانے سے قبل انھوں نے جموں میں اپنے دفتر کے اہلکاروں سے پوچھا کہ کوئی اطلاع یا کوئی ایسا ایشو تو نہیں ہے، جس کو گورنر کے ساتھ میٹنگ میں اُٹھایا جائے؟ لیکن انھوں نے جواب دیا: ’’سر! بس معمول کی انفارمیشن ہے‘‘۔
چونکہ وہ فارغ ہی تھے، اس لیے انھوں نے اہلکاروں سے کہا کہ گورنر کے ساتھ پچھلی میٹنگ کے بعد کی جو فائلیں آئی ہیں، وہ ان کوپیش کی جائیں۔ یہ تقریباً ۱۳ فائلیں تھیں۔ جن میں چھ میں ۲۶جنوری کو مولانا آزاد اسٹیڈیم میں دھماکے اور گورنر کو ہلاک کرنے کی واضح اور تفصیلی اطلاعات موجود تھیں۔ حیرت کی بات یہ تھی، یہ سبھی فائلیں خود سہائے کے دستخطوں سے الماریوں کی نذر کی گئیں تھی۔ سہائے کا کہنا تھا کہ ’’جب میں نے یہ اطلاع گورنر کے ساتھ میٹنگ میں دی، تو وہاں سانپ سونگھ گیا۔ کسی نے تجویز دی کہ تقریب کی جگہ کو تبدیل کیا جائے۔ مگر گورنر نے پہلے خود اور پھر نئی دہلی میں خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان نے اس کو مسترد کیا اور دلیل یہ دی کہ اس سے ان کے اطلاع کے سورس کا قلع قمع ہو جائے گا۔ یوں طے ہوا کہ تقریب تو اسٹیڈیم میں ہی ہوگی، مگر بم ڈسپوزل اسکواڈ کو دوبارہ بلایا گیا کہ وہ باریک بینی کے ساتھ تلاشی لیں۔وہ رات بھر تلاشی لیتے رہے اور صبح سویرے انھوں نے اسٹیڈیم کو محفوظ قرار دیا۔سہائے کے مطابق: ’’یہ بم پریڈ گراؤنڈ میں دو فٹ نیچے دبائے گئے تھے اور جاپانی پلاسٹک کے ٹائمر میں لپٹے ہوئے تھے۔ جس کو پولیس کے کتے سونگھ سکتے تھے اور نہ ایکسرے ان کا پتا لگا سکتا تھا‘‘۔ ریموٹ ٹرگر کو بعد میں برآمد کیا گیا۔معلوم ہو اکہ ریموٹ دبانے والے کوپہلے گورنر کے اسٹیج کے نیچے والا بٹن دبانا تھا، مگر اس نے پہلے تین نمبردبایا ، جس سے پارکنگ کا بم پھٹ گیا۔ یعنی اگر گورنر اسٹیج سے بچ جاتا، تو ریسکیو ہوتے ہوئے اسٹیڈیم کے اسٹینڈ کے بم نمبر دو کی ز د میں آجاتا اور اگر اس سے بھی بچ جاتا، تو گیٹ کے پاس والا بم کا م کردیتا۔
اسی طرح ممبئی میں ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کی خوفناک رات کو کئی جانیں بچائی جا سکتی تھیں، اگر تاج محل پیلس ہوٹل انتظامیہ ٹاور لابی کے باہر پکیٹ پر کھڑے سکیورٹی گارڈز کو کھانا فراہم کرنے پر راضی ہوجاتی۔برطانوی تحقیقاتی صحافیوں ایڈرین لیوی اور کیتھی سکاٹ کلارک کے مطابق ۲۶؍ انٹیلی جنس الرٹ تھے۔ انتباہ اس قدر درست اور مخصوص تھے کہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس وشواس نانگرے پاٹل نے اکتوبر ۲۰۰۸ء میں تاج محل پیلس ہوٹل کے عملے کے ساتھ ایک حفاظتی مشق کی تھی۔ تاہم، ان کے چھٹی پر جاتے ہی حفاظتی اقدامات کو ختم کر دیا گیا تھا۔ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ انھیں رات ۱۰ بجے غیرسرکاری طور پر متحرک کیا گیا تھا، ۲۶نومبر کو، ممبئی میں پہلی گولیاں چلنے کے صرف ۲۲ منٹ بعد۔لیکن ۷۰منٹ بعد، انھیں کابینہ سکریٹری کے ایم چندر شیکھر اور بعد میں ایک جوائنٹ سکریٹری (داخلی سلامتی) نے بغیر احکامات کے متحرک ہونے کے خلاف خبردار کیا مگر واقعہ ہوگیا۔
اسی طرح، ۱۴ فروری ۲۰۱۹ء کو پلوامہ حملے کے بارے میں فرنٹ لائن کی طرف سے ایک سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے مطابق حملے کی پیش گوئی کرنے والی کم از کم گیارہ انٹیلی جنس اطلاعات تھیں۔ کشمیر کے گورنر، ستیہ پال ملک نے بعد میں انکشاف کیا کہ ’’مجھے کسی بھی حفاظتی ناکامی کے بارے میں خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی ہے‘‘۔بڑا سوال یہ ہے کہ مکمل انٹیلی جنس ہونے کے باوجود ایسے حملوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟ ان سوالات کے کوئی واضح جوابات نہیں ہیں۔
اسی طرح مجھے یا دہے کہ شاید یکم اکتوبر ۱۹۹۶ء کی صبح سرینگر سے حریت لیڈر سید علی گیلانی کے دفتر سے فون آیا اور انھوں نے کہا: ’’کیا آپ مجھے ایئرپورٹ تک چھوڑ سکتے ہیں؟ وہ ان دنوں علاج کی غرض سے دہلی میں تھے اور انھی دنوںجموںو کشمیر میں نو سال بعد اسمبلی کے انتخابات ہورہے تھے، جن کے بائیکاٹ کی انھوں نے اپیل کی تھی۔ اگلے روز شاید حریت کانفرنس کی کوئی میٹنگ ہونے والی تھی، جس کے لیے ان کو سرینگر بلایا گیا تھا۔ خیر میں نے ان کو ایئرپورٹ پر رخصت کردیا۔ جب وہ دہلی میں ہوتے تھے، تو دارلحکومت میں جموں و کشمیر کے خفیہ محکمے کے اہلکار ان کے ساتھ سائے کی طرح پیچھا کرتے رہتے تھے۔ یوں ان سے اب جان پہچان بھی ہوجاتی تھی۔ مگر ایئر پورٹ پر ایک اور شخص میرے پاس آکر بار بار ان کی فلائٹ کا نمبر ، وقت وغیر ہ پوچھ رہا تھا۔ میں نے خفیہ پولیس والوں سے پوچھا کہ ’’یہ شخص کس محکمے کا ہے؟‘‘ معلوم ہوا کہ وہ ان کے لیے بھی اجنبی تھا۔ ابھی موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا۔ رات کو میری اہلیہ کو پتہ چلا کہ گیلانی صاحب تو سرینگر پہنچے ہی نہیں ہیں، کیونکہ سرینگر میں اس دن پرواز نہیں اُتر سکی۔ جہاز امرتسر میں اُتر گیا ہے اور مسافروں کو کسی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ہے۔
اسی رات حیدر پور میں سیّد علی گیلانی صاحب کے گھر پر دو راکٹ داغے گئے۔ نشانہ اتنا زبردست تھا کہ یہ راکٹ دوسری منزل پر گیلانی صاحب کے بیڈ روم کی دیوار میں شگاف کرتے ہوئے، سیدھے اُن کے بیڈ کو، اڑا کر باتھ روم کو تباہ کرتے ہوئے دوسری دیوار سے نکل گئے۔ یعنی اسی بیڈ کو ان راکٹوں نے نشانہ بنایا، جس پر ان کو اس رات سونا تھا۔ مگر دہلی والے اس نامعلوم شخص کو شاید پتہ نہیں چل سکا تھاکہ جہاز سرینگر کے بجائے امرتسر میں اُتر گیا ہے۔ (یہ بالکل اسی طرح کی کارروائی تھی، جس طرح تہران میں اسماعیل ہنیہ کے کمرے کو تباہ کرکے ہلاک کیا گیا ۔ یعنی دیگر کمروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا)۔
اس دن حیدر پورہ کے مکان میں نیچے جو افراد سو رہے تھے، انھوں نے دھماکوں کی آوازیں تو ضرور سنیں ، مگر ان کو بھی پتا نہیں چل سکا کہ ان کی اُوپر والی منزل کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان دنوں رات بھر کشمیر میں دھماکوں کی آوازیں آنا معمول کی بات تھی۔
جب تصویروں میں اس بلڈنگ کو جس میں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا، دیکھ رہا تھا، تو مجھے یہ واقعہ یاد آگیا۔ اس لیے نیویارک ٹائمز کی یہ کہانی کہ اس کمرے میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے بم رکھا تھا، مجھے ہضم نہیں ہوئی۔ بم تو پورے کمرے کو ہی اُڑا دیتا۔ یہ میزائل یا راکٹ کا حملہ تھا، جو بالکل ٹارگٹ پر لگا، اور فلسطین کا عظیم مزاحمتی قائد شہید ہوگیا۔
سوال : (مجلس میں ایک صاحب کہنے لگے) مولانا! اسلام کے پاس بے شک ایک ’تھیوری‘ (نظریہ) تو موجود ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس پر Practice (عمل درآمد) بھی ہوسکتی ہے؟
جواب :جناب، آپ مطالعہ فرمایئے تو آپ کی نظر سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں رہے گی کہ اسلام کے پاس جو Theory(نظریۂ حیات) ہے، اس سے زیادہ قابلِ عمل نظریہ آج تک دنیا نے نہیں دیکھا۔ جو نظریہ Practicable (قابلِ عمل) نہ ہو وہ تو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے قابل ہوتا ہے۔ کروڑوں انسان اسے چودہ سو سال تک سینوں سے لگائے نہیں رکھ سکتے۔ اگر اسلام کو کوئی قابلِ عمل نہیں سمجھتا تو یہ اس کی آنکھوں کا قصور ہے، جو بصیرت کے نُور سے خالی ہیں۔ فرد کی اس کمزوری سے اس نظریئے کی ابدی صداقتوں پر کوئی حرف نہیں آتا۔
’قرآن و سنت کا مطالعہ ڈوب کر کیجیے۔ اس مطالعے اور غوروفکر سے آپ کو اسلام کی روح دکھائی دینے لگے گی۔ قرآن کی آیات پہ غور کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کا مطالعہ فرمایئے اور اسلام کے اوّلین معاشرے میں صحابہ کرامؓ کی پاک باز زندگیوں کا مطالعہ کیجیے۔ آپ خود بخود اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اسلام کے پاس اس کا اپنا ضابطۂ اخلاق ہے، جو بے مثال ہے۔ ایک بے نظیر سیاسی نظام ہے اور ایک لاجواب معاشی نظام ہے۔ اس کے دامن میں ہرزمانے کے ہرمسئلے کا بہترین حل موجود ہے۔ اسلام نے جو کچھ پیش کیا، حضور علیہ السلام نے سب سے پہلے خود اس پر عمل فرمایا۔ پھر آپؐ نے ایک بہترین اور مثالی معاشرہ انھی نظریات پر تعمیر فرماکر اس بات کا عملی ثبوت مہیا فرما دیا کہ اسلام محض نظریاتی نہیں بلکہ انتہائی درجے کا عملی دین ہے۔
اسلام کی عالم گیر اور ابدی صداقتوں کی مثال سمجھنا چاہیں تو اس کے لیے جب باجماعت نماز ادا کی جارہی ہو، اسے دیکھیے۔ اخوت، اتحاد اور یگانگت کا کیسا شان دار مظاہرہ ہوتا ہے۔ خدا آپ کو حج پر جانے کی توفیق بخشے تو وہاں پہ دیکھیے، جہاں مسلمانوں کی ’کل عالمی برادری‘ کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ کتنے مختلف ملکوں کے انسان وہاں یکجا ہوتے ہیں۔ کتنے مختلف رنگ ہیں، کتنی مختلف زبانیں ہیں مگر نہ زبان و نسل کا کوئی تنازعہ ہے، نہ قامت و رنگ کا کوئی امتیاز…سب ایک ہی جذبۂ توحید سے سرشار ہیں۔ شاہ و گدا ایک ہی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں۔ کیا نسلی امتیاز کے خلاف اس سے بہتر ضابطہ دُنیا کا کوئی اور نظام پیش کرسکتا ہے؟
سوال : مسلم ممالک میں لیڈرشپ کو تیار کرنے کے لیے کس شعبے میں اصلاح درکار ہے؟
جواب :لیڈرشپ کسی ایک شعبے میں نہیں اُبھرا کرتی، اس کو زندگی کے ہرشعبے میں ظاہر اور نمایاں ہونا چاہیے۔ اگر مسلم ممالک میں جمہوری نظام کو نشوونما پانے کا موقع مل جائے تو اس طرح فطری ارتقا کے نتیجے میں مسلم ممالک میں اسلامی لیڈرشپ اُبھر آئے گی۔ مغرب زدہ طبقہ ہرمسلم ملک میں ایک بڑی ہی محدود اقلیت رکھتا ہے۔ لیکن مغربی استعماری قوتوں کی پشت پناہی اور مسلسل سرپرستی کی بدولت، یہ اقلیت اقتدار کی وارث بن گئی ہے۔ یہ قابض طبقہ اس بات کو جانتا ہے کہ اگر ان ملکوں میں جمہوریت کو کام کرنے کا موقع ملا تو آخرکار اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس لیے یہ طبقہ سازشوں کے ذریعے ہرملک میں آمریت قائم کر رہا ہے اور جمہوریت کو اُبھرنے کا موقع نہیں دے رہا ہے۔ (ہفت روزہ آئین، اور ایشیا
اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے دُعامانگنا بالکل ایسا ہے، جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوانِ حکومت کی طرف جائے، مگر اصل حاکم ذی اختیار کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں،اُنھی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کردے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جائے کہ ’’حضور ہی سب کچھ ہیں، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے، میری مراد آپ ہی بَر لائیں گے تو بَر آئے گی‘‘۔
یہ حرکت اوّل تو بجائے خود سخت حماقت و جہالت ہے، لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے، جب کہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو، اور عین اس کی موجودگی میں اُسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جارہی ہوں۔
پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اُس وقت پہنچ جاتی ہے، جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جارہی ہو، خود بار بار اُس کو سمجھائے کہ مَیں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، اصل حاکم سامنے موجود ہیں، تو اُن کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجو د یہ احمق کہتا ہی چلا جائے کہ ’’میرے سرکار تو آپ ہیں، میرا کام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا‘‘۔
اس بات کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ ’’مجھے پکارو، تمھاری دُعائوں کا جواب دینے والا میں ہوں، انھیں قبول کرنا میرا کام ہے‘‘۔(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۲، عدد۱، ستمبر ۱۹۶۴ء، ص۲۹، ۳۰)