مارچ ۲۰۱۰

فہرست مضامین

سیرتؐ کا پیغام

سیّد منور حسن | مارچ ۲۰۱۰ | اسوہ حسنہ

Responsive image Responsive image

ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی ہر مسلمان کے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے۔ دنیا بھر میں   جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نسبت کو اجاگر کرنے، آپؐ کے دامن سے ازسر نو وابستہ ہونے، آپؐ کی سنتوں کو اپنانے اور آپؐ کی شریعت مطہرہ کو جدوجہد کا عنوان بنانے کے لیے پوری اُمت شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً تحرک اور سرگرمی کا عنوان دکھائی دیتی ہے۔

کسی معاشرے میںنبی کی بعثت نظاموں کی کش مکش کو جنم دیتی ہے۔ موجود نظام اور   قائم شدہ معاشرہ جہالت، شرک و بت پرستی اور ظلم کے ہر عنوان کو اپنے اندر سموئے ہوتاہے، جب کہ نبی بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے رب کی طرف بلانے کی دعوت پیش کرتاہے۔ اس طرح نظاموں کی یہ آویزش دور و نزدیک، ہر شے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ پرانا نظام اپنے تحفظ اور بقا کی جنگ ہر مورچے اور ہرمحاذ پر لڑتاہے،اور نبی کا پیش کردہ نظام نعرے کے مقابلے میں نعرہ، فلسفے کا متبادل فلسفہ، نظریے کا توڑ نظریہ، جدوجہد کے مقابلے میں جدوجہد،  نیز استقامت، اولوالعزمی اور صبر و حوصلہ کے چراغ روشن کرتاہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جس معاشرے میں بعثت ہوئی وہ معاشرہ ان تمام خرابیوں اور برائیوں کی آماجگاہ تھا جس کا تصور انسان ہونے کے ناطے کیا جاسکتاہے۔ آپؐ کی مخالفت کرنے والے آپؐ کی ذات سے تو تعلق رکھتے تھے اور نباہ بھی کرنا چاہتے تھے، صادق و امین کہتے تھے لیکن وحی الٰہی کی بنیاد پر آپؐ جس تبدیلی اور تزکیے کی طرف بلارہے تھے وہ پرانے آباو اجداد کے دین اور ہر رسم و رواج کونگل جانے والا نظام تھا، لہٰذا جو لوگ آپؐ کی مخالفت کررہے تھے،سوچ سمجھ کر کررہے تھے،جانتے بوجھتے ایسا کررہے تھے اوراپنے نظام کے ٹمٹماتے چراغ کو ہر قیمت پر تحفظ دینا چاہتے تھے۔ اسی طرح جو آپؐ کے ہم نوا بن کر اٹھے اور آپؐ پر ایمان لانے والے اور آپؐ کے جلو میں چلنے والے قرار پائے وہ بھی دل کی گہرائی سے اس کش مکش کو مول لے رہے تھے۔ تبھی تویہ ممکن ہو سکا کہ انھیں آگ کے انگاروں پر لیٹنا بھی گوارا تھا۔

اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ نظاموں کی کش مکش میں قائم شدہ نظام کا دفاع کرنے والوں کو بھی ایک ٹیم اور معاشرے کی پشتیبانی درکار ہوتی ہے،اور نیا نظام جن دعووں، مقاصد اور اہداف کے لیے اٹھا ہو، اسے بھی اپنی تائید اور اپنے مؤقف کو واشگاف کرنے کے لیے ایک ٹیم درکار ہوتی ہے۔اس لیے ہر نبی پرانے انسانوں میں سے نئے انسان تلاش کرتا ہے، پرانے معاشرے میں سے نئے معاشرے کو اٹھاتاہے، اور پرانے عمر بن خطاب میں سے نئے حضرت عمر فاروق ؓجنم لیتے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے نتیجے میں جو نئے انسان دریافت ہوئے، پرانے اور بوسیدہ معاشرے ہی سے تازہ ہوا کے جھونکے آنے شروع ہوئے، گویا  ع

’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘

تبدیلی و انقلاب کی یہ لہر جس نے پرانے سانچوں کو توڑ پھوڑ دیا، جاہلیت کے ایوانوں میں کھلبلی مچادی، افراد کی سطح پر نقطۂ نظربدلا،سوچ کے زاویے بدلے، زاویۂ ہاے نگاہ بدلے، زندگی اور اس کی ترجیحات بدلیں، اس کے ساتھ اجتماعیت کے اسلوب بدلے۔ دعوت اور طریقِ دعوت نے تربیت اور تعمیر سیرت کے نئے چراغ روشن کیے۔ آپؐ نے گئے گزرے اور ان پڑھ و ان گڑھ لوگوں کو رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کا رہنمااور ان کے کردار اور سیرت کو تاریخ کے ہر دور کے لیے روشنی کا مینار بنادیا۔ قرآن پاک اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپؐ کی طبیعت کی نرمی اور گداز اور آپؐ کے اسلوب کی خیرخواہی محیط تھی انسانوںکو انسانیت کش راہوں سے روکنے، آگ میںگرنے والے لوگوں کو فلاح اُخروی کا تصور جاگزیں کرنے، اور انھیں ایک بڑے مقصد کے لیے آمادہ و تیار کرنے کے لیے۔ قرآن پاک ایک طرف یہ بتاتا ہے کہ آپؐ کس طرح قرآن پاک کی طرف لوگوں کی بلاتے رہے، نفوس کا تزکیہ کرتے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے رہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo (اٰلعمران۳ : ۱۶۴) درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتاہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

دوسری طرف قرآن پاک گواہی دیتا ہے:

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (اٰلعمران۳ : ۱۵۹) (اے پیغمبرؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔

گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے آپؐ کے اندر نرمی ڈال دی تھی جو لوگوں کی توجہ کا مرکز اور انھیں جذب و انجذاب کے مراحل سے گزارنے کا باعث بنی۔

مکے میں اگر آپؐ کی دعوت کا محور ایمان باللہ، ایمان بالاخرت اور توحید و رسالت تھا اوربحیثیت داعی الی اللہ آپؐ گتھیوں کو سلجھانے، ایمان کی دعوت دل نشیں پیرایے میں دل میں اتارنے اور قلب و نظر کی دنیا کو فتح کرنے میں مصروف تھے، تومدینے میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے ذریعے حکومت الٰہیہ کے قیام سے اسلام کو مقتدر اور فرماں روا بنانے کی جدوجہد میں سراپا متحرک نظر آتے ہیں۔ مکے میں اگر توحید پر مرمٹنا ، احد احد پکارنا اور اسی پر جم جانا دعوت تھی، تو مدینے میں اللہ کی سرزمین پر اللہ کی حاکمیت کا قیام اور اسی کا نظام دعوت قرار پایا تھا۔(للّٰہ الواحد القھار)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزماں ہیں، نبوت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام ہوا۔اب کوئی نبی نہیں آناہے۔قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے لیاہواہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور شریعت بھی محفوظ ہے۔ اب قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم مقام ہے۔ فرمایا:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰلعمران۳ : ۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہوجسے انسانیت کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس مشن کو لے کر اس دنیا میں تشریف لائے اور اس کو اعلیٰ ترین صورت میں پورا کیا، پوری امت کی ذمہ داری ہے کہ اس مشن کی علمبردار بنے۔

واقعات میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے واپس لوٹے۔حضرت فاطمہ ؓ نے بڑھ کردروازہ کھولا، آپؐ کی پیشانی کو بوسا دیا ، آپؐ کو لے کر بیٹھ گئیںاور آپؐ کا سر دھونے لگیں تاآنکہ نبی اکرمؐ کو احساس ہوا جیسے فاطمہ ؓ رورہی ہیں۔ آپ ؐاٹھ کر بیٹھ گئے اور پوچھا فاطمہؓ کیا بات ہے، کیوں روتی ہو؟ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! آپؐ کے بالوں کودھول میں اٹا ہُوادیکھتی ہوں، آپؐ کے بدن پر پیوند لگے کپڑے اور وہ بھی گردآلود دیکھتی ہوں، آپؐ کے چہرہ انور پرتھکن کے آثار دیکھتی ہوں، بیٹی ہوں رونا آگیا۔ نبی اکرمؐ نے یہ سنا تو فرمایا: فاطمہؓ! گریہ و زاری نہ کر، اس لیے کہ تیرے باپ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک ایسے منصب پر مامور کیاہے، ایک ایسا مشن اس کے حوالے کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ دین وہاں وہاں پہنچے گا جہاں جہاں سورج کی کرنوں کی پہنچ ہے، اور یہ دین غالب ہو کررہے گاخواہ کوئی عزت کے ساتھ قبول کرے یا ذلت کے ساتھ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غلبۂ دین کی بشارت بھی سنا رہے ہیں اور رہتی دنیا تک اپنی امت کو جدوجہد و کش مکش مول لینے کا خوگر بھی بنا رہے ہیں۔ لہٰذا اقامت دین یا غلبۂ دین کے اس مشن کو لے کر اٹھنا، دعوت الی اللہ کا سراپا بننا، اور بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر ان کے  رب کی طرف بلانا___ یہی راستہ ہے جو ایمان کی پکار پر لبیک کہنے کا راستہ ہے اور ظلم و جور اور ناانصافی کی طویل رات کو سحر کرنے کا راستہ ہے۔

نبی کریمؐ کے مشن اور غلبۂ دین کی اس جدوجہد نے بیسویں صدی میں اس وقت ایک منظم اور ہمہ جہت جدوجہد کی صورت اختیار کرلی جب برعظیم پاک و ہند میں سیدمودودی علیہ الرحمہ کی امارت میں اسلامی تحریک کی داغ بیل ڈالی گئی، اور دوسری طرف عالمِ عرب میں حسن البنا کی قیادت میں اخوان المسلمون کی صورت میں اسلامی تحریک کو منظم کیا گیا۔ اسلام کی تعلیمات و افکار اور    نبی کریمؐ کی دعوت کو قرآن وسنت کی روشنی میں علمی استدلال کے ساتھ پیش کیا گیا۔ مغرب کی طرف سے اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج کا کسی مرعوبیت کے بغیر نہ صرف سامنا کیا گیا بلکہ مغرب کے سحر کو توڑتے ہوئے اسلام کو ایک متبادل نظریے اور مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ علمی وفکری محاذ کے ساتھ ساتھ اُمت مسلمہ کی اصلاح اور اُمت کو اس کے فرضِ منصبی اور شہادتِ حق کی ادایگی کے لیے دعوتِ دین کی بنیاد پر تحریکِ اسلامی کی صورت میں ایک منظم قوت میں بدلنے کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز بھی کیا گیا۔ الحمدللہ! آج تحریکِ اسلامی کی صورت میں اُمت مسلمہ نہ صرف ایک منظم قوت کی شکل اختیار کرچکی ہے بلکہ تحریکِ اسلامی اُمت مسلمہ کے روشن اور تابندہ مستقبل کی نوید ہے۔

حق و باطل کا یہ معرکہ برپا ہے۔ اسلام کو نظریاتی برتری حاصل ہے اور تہذیبی و نظریاتی سطح پر مغرب کو عملاً شکست ہوچکی ہے۔ اشتراکیت، سرمایہ داری، لادینیت یا کوئی بھی نظام دنیا کو ایک منصفانہ اور متوازن نظام پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ دُنیا چاروناچار اسلام کی راہِ اعتدال کو اپنانے پر مجبور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آڑ میں مسلمانوں کا گھیرا تنگ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ امریکا اپنے سامراجی عزائم کے ساتھ، اسلام اور مسلمانوں سے برسرِپیکار ہے۔ افغانستان اور عراق کے غیور مسلمانوں نے جس ہمت و استقامت سے امریکی طاغوت کا مقابلہ کیا ہے اس نے امریکا کو پسپائی پر مجبور کردیا ہے۔ اہلِ پاکستان بھی امریکی غلامی اور جارحیت کے خلاف جدوجہد میں مصروف اور سراپا احتجاج ہیں۔ نبی کریمؐ کے مشن کے مصداق بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر رب کی بندگی کی طرف بلا رہے ہیں اور ظلم و ناانصافی کو مٹاکر عدل وانصاف اور امن کی سربلندی کے لیے کوشاں ہیں۔ گویا عالمِ اسلام میں بیداری کی ایک لہر پائی جاتی ہے، اور اسلامی تحریکیں اس کا ہراول دستہ ہیں، اور نبی کریمؐ کا مشن ایک تسلسل سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کی یہ جدوجہد اور قربانیاں رنگ لاکر رہیں گی اور نبی اکرمؐ کی بشارت کے مطابق یہ مشن مکمل ہوکر رہے گا اور پوری دنیا پر دین غالب ہوکر رہے گا، ان شاء اللہ!

؎ شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے