امجد عباسی، اُمت مسلمہ، فرضِ منصبی | مارچ ۲۰۱۰ | دعوت و تحریک
انسانی جان کا تحفظ اور احترام کسی بھی متمدن معاشرے کے قیام، ملک و قوم کے تحفظ اور دنیا میں قیامِ امن کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر لوگوں کو اپنے جان و مال، عزت و آبرو اور گھربار کے تحفظ کا یقین نہ ہو تو متمدن زندگی کا آغاز ہی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ایسے قوانین و ضوابط بنائے اور اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جن سے انسانی جان کے احترام اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے، لوگوں کے حقوق غصب ہونے پر ان کی داد رسی کی جائے، اور قانون شکنی کرنے اور ظلم وستم ڈھانے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکے۔ دستورسازی، قانون ساز اداروں اور عدلیہ کی تشکیل اور انتظامیہ، پولیس اور فوج کا قیام اسی غرض کے پیش نظر عمل میں لایا جاتا ہے۔
ہزاروں برس کے انسانی اجتماعی شعور اور فکری کاوشوں کے بعد انسان متمدن زندگی کے تحفظ، انسانی حقوق کے تعین اور ظلم و استحصال کے خاتمے اور عدل وانصاف کی فراہمی کے لیے ملکی سطح سے لے کر عالمی سطح تک قوانین کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اداروں کا قیام عمل میں لانے کے قابل ہوا ہے۔ اقوام متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف، امن افواج اور دیگر عالمی اداروں کی تشکیل اسی کاوش کا نتیجہ ہے تاکہ جارحیت کا سدّباب کرکے عالمی امن کو برقرار رکھا جاسکے۔ ظلم واستحصال کا خاتمہ کیا جاسکے، اور حکومت سازی اور اقتدار کی منتقلی عوام کی تائید اور جمہوری عمل کے ذریعے ممکن بنائی جاسکے، نیز آمریت اور جبر کا سدّباب کیا جاسکے۔
مہذب و متمدن زندگی اور حقوقِ انسانی کے تحفظ اور عالمی امن کے قیام کے لیے انسان کی یہ اجتماعی سعی اور جدوجہد قابلِ تحسین ہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر شعور بھی پایا جاتا ہے اور دنیابھر میں ان مسلّمہ اقدار و قوانین کے نفاذ کے لیے کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔ تاہم، انسان اپنی نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر اور قومی مفاد کے پیش نظر بے لاگ عدل و انصاف کو ممکن نہیں بناپاتا۔ اس کے لیے تو ایسے قوانین و ضوابط اور اُس کردار کے حامل لوگ مطلوب ہیں جن کے پیش نظر ذاتی اور قومی مفاد سے بڑھ کر انسانیت کی فلاح ہو اور جو انصاف کریں خواہ اس کی زد ان کے اپنے اُوپر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ بلاشبہہ ایسے اصول اور ایسا کھرا کردار وہی ہستی دے سکتی ہے جو خواہشات اور مفادات کی سطح سے بلند ہوکر پوری انسانیت کے مفاد کو پیشِ نظر رکھ سکے۔ یقینا وہ ہستی خداتعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتی اور ایسے بے لاگ اصولوں اور کردار کے حامل بھی وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو خدائی اصولوں کے علَم بردار ہوں۔ اس کے لیے یقینا انسان کو خدائی ہدایت اور رہنمائی (قرآن و سنت) کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
مقامِ افسوس ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور عالمی امن کے لیے کی جانے والی ان کوششوں اور جدوجہد کو خود انسان ہی اپنے ہاتھوں تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آج دنیا کی واحد عالمی طاقت امریکا اپنی طاقت کے زعم میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے جس طرح مروجہ عالمی قوانین کی کھلی کھلی خلاف ورزی، عالمی اداروں بالخصوص اقوامِ متحدہ کی توہین اور بے توقیری اور عالمی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کررہا ہے، اس سے عالمی اقدار و قوانین کے ساتھ ساتھ عالمی امن اور مملکتوں کی آزادی و خودمختاری اور سلامتی بھی خطرات کی زد میں ہے۔ امریکا کے سامنے مروجہ اصول و ضوابط اور عالمی اقدار و دستور کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔
امریکا نے ’دہشت گردی‘ کے نام پر ظلم و جبر، ناانصافی اور سفاکیت کے وہ وہ حربے آزمائے ہیں کہ جس سے انسانی تاریخ کے دورِ وحشت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔بگرام، ابوغریب اور گوانتاناموبے کی جیلوں میں انسانی حقوق کی جس طرح سے پامالی کی گئی ہے وہ ’روشن خیالی‘ کے اس دور میں کسی سیاہ باب سے کم نہیں کہ انسان اپنے مفادات کے لیے اس حد تک سفاکیت پر اُتر سکتا ہے۔ گویا دنیا کو ایک بار پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق طاقت کے زعم میں جنگل کے قانون کی طرف دھکیلاجا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ ِعظیم دوم کے بعد عالمی طاقت کی حیثیت سے اُبھرنے والے امریکا نے دنیا کو جنگ اور خوں ریزی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ۵۰ کے عشرے میں (۱۹۵۰ئ-۱۹۵۳ئ) کوریا سے جنگ میں ۲۵ لاکھ کے قریب کوریائی باشندے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ ویت نام کی جنگ (۱۹۵۹ئ- ۱۹۷۵ئ) ۱۶ سال جاری رہی جس میں ۱۵ لاکھ سے زائد جنوبی ویت نامی، ۲۰لاکھ شمالی ویت نامی، ۷ لاکھ کمبوڈیائی اور ۵۰ ہزار لائوس کے شہری ہلاک ہوئے اور ۵۸ ہزار سے زائد امریکی فوجی مارے گئے اور امریکا شکست سے دوچار ہوا۔ ۷۰ کے عشرے میں افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف جنگ (۱۹۷۹ئ-۱۹۸۹ئ) میں ۱۵ سے ۲۰لاکھ افغانی شہید ہوئے۔ ۹۰کے عشرے کے آغاز میں خلیج کی پہلی جنگ کے نتیجے میں عراق پر پابندیاں عائدہوئیں اور اس کے نتیجے میں تقریباً ۱۵ لاکھ عراقی شہری جن میں ۵لاکھ بچے بھی شامل تھے، ہلاک ہوگئے۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد ’دہشت گردی‘ کی آڑ میں افغانستان پر امریکی جارحیت اور پھر عراق پر حملے کے نتیجے میں اب تک ۱۳لاکھ عراقی، جب کہ ۵۰ ہزار افغان اور ہزاروں پاکستانی باشندے مارے جاچکے ہیں۔
’دہشت گردی‘ کے خلاف اس جنگ میں امریکا کو خود بھی بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا کا جانی نقصان ۹۰ہزار سے زائد ہے۔ ان میں ۵۷ہزار سے زائد فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ ۱۴ ہزار سے زائد معذور یا ناکارہ ہوکر گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ خوف اور دہشت کی وجہ سے نفسیاتی امراض کے شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ اس طرح امریکا کے جنگی جنون اور دنیا کے وسائل پر قبضے کی ہوس کی وجہ سے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے اور دنیا کا امن تہ و بالا ہوکر رہ گیا ہے۔
امریکا کے جنگی جنون کا ایک سبب اور بھی ہے۔ امریکا ان جنگوں کے ذریعے اپنا اسلحہ فروخت کرتا ہے اور وہی دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ ایکسپورٹر ہے۔ عالمی معاشی بحران کی وجہ سے امریکی معیشت بیٹھتی جارہی ہے، بنک دیوالیہ اور بے روزگاری بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن اگر کوئی صنعت پھل پھول رہی ہے تو وہ اسلحے کی صنعت ہے۔ ۲۰۰۷ء کے ایک سال میں امریکا نے تقریباً ۷ہزار ۴ سو ۵۴ ملین ڈالر کا اسلحہ دنیا بھر میں فروخت کیا۔ دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی بجٹ بھی امریکا ہی کا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگی محاذ کا کھلا رہنا امریکا کی ضرورت ہے تاکہ اس کے اسلحے کے کارخانے چلتے رہیں۔ گویا اس جنگی جنون کی وجہ سے دنیا میں ایک فساد برپا ہے، اور دنیا ہے کہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بظاہر کوئی قوت نہیں جو آگے بڑھ کر ظالم امریکا کا ہاتھ روک سکے۔ یہ صورت حال قرآن پاک کی اس آیت کی مصداق ہے:
ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ (الروم ۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کی اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائے اُن کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔
اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کا خالق و مالک ہے، اس دنیا میں امن چاہتا ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے بے قصور بندوں کو ستایا جائے۔ طاقت ور کمزوروں کا حق ماریں اور ان کا جینا دوبھر کردیں۔ دنیا میں ظلم و فساد اور قتل و غارت گری کا بازارگرم ہو، اور لوگوں پر جبراً اپنی مرضی مسلط کی جائے۔ دھن دولت، لالچ اور ہوس اور جہاں گیری اور کشورکشائی کے لیے انصاف کا خون کیا جائے۔ طاقت کا بے جا استعمال کرکے انسانوں کا خدا اور طاغوت بن کر اللہ کے بندوں پر اپنی خدائی چلائی جائے اور انسانی شرافت و اخلاق کا جنازہ نکال دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے فتنہ قرار دیا ہے جو انسانی قتل سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے کہ افراد یا اقوام جب سرکشی پر اُتر آئیں تو وہ بڑے پیمانے پر فتنہ وفساد برپا کر دیتے ہیں۔ ایک فرد سے بڑھ کر ایک قوم کی سرکشی سے بے شمار انسانوں کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے۔ قوموں پر عرصۂ حیات تنگ ہوجاتا ہے، اور انسانی تہذیب و تمدن کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کو محترم ٹھیراتے ہوئے کسی انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے (المائدہ ۵:۳۲)، اور حکم دیا ہے کہ جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو، دوسری طرف فتنہ وفساد کو قتل سے بڑھ کر سنگین جرم قرار دیا ہے(البقرہ ۲:۱۹۱)، اور اس کی سرکوبی کا حکم دیا ہے۔ اس کے لیے قتل بالحق اور ناگزیر خوں ریزی کو جائز قرار دیا ہے تاکہ ظلم کو مٹاکر عدل قائم کیا جاسکے۔ اسی لیے فرمایا:
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ط (البقرہ ۲:۱۹۳) ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور اطاعت صرف خدا کے لیے ہوجائے۔
اس کے ساتھ یہ بھی تاکید کی گئی ہے:
اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ کَبِیْرٌ o (الانفال ۸:۷۳) اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ ہوگا اور بڑا فساد برپا رہے گا۔
بقول مولانا مودودیؒ: ’’اس ناگزیر خوں ریزی کے بغیر نہ دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے، نہ شروفساد کی جڑ کٹ سکتی ہے، نہ نیکوں کو بدوں کی شرارت سے نجات مل سکتی ہے، نہ حق دار کو حق مل سکتا ہے، نہ ایمان داروں کو ایمان اور ضمیر کی آزادی حاصل ہوسکتی ہے، نہ سرکشوں کو ان کے جائز حدود میں محدود رکھا جاسکتا ہے، اور نہ اللہ کی مخلوق کو مادی و روحانی چین میسرآسکتا ہے‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۳۲-۳۳)
اللہ تعالیٰ دنیا میں برپا ہونے والے اس فتنہ و فساد کا ازالہ مختلف طریقوں سے کرتا رہتا ہے۔ کبھی وہ ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے دُور کر کے تمام انسانوں کو ظلم و زیادتی سے نجات دلاتا ہے:
وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ o (البقرہ ۲:۲۵۱) اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو زمین فساد سے بھرجاتی، مگر دنیا والوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ دفعِ فساد کا یہ انتظام کرتا رہتا ہے)۔
ایک اور جگہ قوموں کی باہمی عداوت اور دشمنی کا ذکر کرکے ارشاد ہوتا ہے:
کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا ط وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَo (المائدہ ۵:۶۴) یہ لوگ جب کبھی جنگ اور خوں ریزی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اس کو بجھا دیتا ہے۔ یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ مفسدوںکو پسند نہیں کرتا۔
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا ط (الحج ۲۲:۴۰) اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو صومعے اور گرجے اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے، مسمار کردیے جاتے۔
درحقیقت یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ عادل انسانوں کے ذریعے سے عام انسانوں کو دفع نہ کرتا رہتا تو اتنا فساد ہوتا کہ عبادت گاہیں تک، یعنی صوامع عیسائیوں کے راہب خانے، مجوسیوں کے معابد اور صابیوں کے عبادت خانے، اسی طرح عیسائیوں کے گرجے اور یہودیوں کے کنیسے اور مساجد بربادی سے نہ بچتیں جن سے ضرر کا کسی کو اندیشہ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ دنیا کو فتنہ وفساد، ظلم و ستم اور تباہی و بربادی سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں اور انسانی تاریخ اس پر شاہد ہے۔ برعظیم پاک و ہند میں مغلوں کی حکومت اور زوال، انگریزوں کی آمد اور انحطاط، اور قیامِ پاکستان، اسی تاریخی حقیقت کا تسلسل اور ہمارے مشاہدے کی بات ہے۔
فلاحِ انسانیت اور عدل و انصاف کے اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ایک طرف بنی نوع انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے، اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے ایک خصوصی اہتمام بھی کیا ہے۔ دنیا کی اُمتوں میں سے ایک اُمت کو اس نے خاص اسی مقصد کے لیے تشکیل دیا ہے اور اس کا فرضِ منصبی ہی یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی ظلم وستم ڈھایا جائے، فساد برپا ہو، سرکشی کا مظاہرہ کیا جائے اور دنیا کے امن کو خطرہ ہو، وہ آگے بڑھ کر اس کی سرکوبی کرے اور بے لاگ انصاف کا مظاہرہ کرے، یہاں تک کہ فتنہ مٹ جائے۔
یہ وہ مقصد ہے جس کے لیے مسلمانوں کو پیدا کیا گیا اور اُمت مسلمہ کو برپا کیا گیا ہے۔ اسے کسی خاص قوم یا نسل کے لیے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیاہے کہ وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، ظلم و استحصال کا خاتمہ کرے اور عدل و انصاف قائم کرے۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) تم ایک بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کی خدمت و ہدایت کے لیے برپا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور بدی کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
یہ اُمت چونکہ عدل و انصاف کے لیے کھڑی کی گئی ہے، لہٰذا اسے ہدایت کی گئی ہے: اے ایمان والو! انصاف پر سختی سے قائم رہنے والے اور خدا واسطے کی گواہی دینے والے بنو، خواہ یہ انصاف اور یہ گواہی تمھاری اپنی ہی ذات کے خلاف پڑے یا تمھارے والدین یا عزیزوں کے خلاف۔ دولت مند کی رضاجوئی یا فقیر پر رحم کھانے کا جذبہ تمھیں، انصاف اور سچی شہادت سے نہ پھیر دے، کیونکہ اللہ ان کا تم سے زیادہ خیرخواہ ہے (النساء ۴:۱۳۵)۔ اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ جس قوم کے ساتھ تمھاری دشمنی ہو، اس سے بھی انصاف کرو:
وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی(المائدہ ۵:۲) کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس سے انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کیونکہ یہی پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے۔
اس فریضے کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو کھڑا کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ اس اُمت میں ایک گروہ تو لازماً ایسا رہنا چاہیے جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور اس فریضے کی ادایگی کرے اور دنیا کو فساد سے محفوظ رکھے اور امن قائم کرے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط (اٰل عمران ۳:۱۰۴) اور تم میں ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ظلم و ستم کا بازار گرم ہواور کمزور اقوام اور مظلوم انسانوں کا استحصال ہورہا ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے موقع پر مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنا فرض ادا کریں:
وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا (النساء ۴:۷۵) ’’تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں ان مردوں اور عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جنھیں کمزور پاکر دبا لیا گیا ہے اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ خدایا ہمیں اس بستی سے نکال جس کے کارفرما ظالم ہیں۔
اس تمام تر ترغیب کے بعد آخر میں اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو اس فرض سے غفلت برتنے پر متنبہ بھی کرتا ہے کہ اگر تم نے اپنا فرضِ منصبی ادا نہ کیا اور ظلم کو نہ روکا اور انصاف کے قیام کے لیے جدوجہد نہ کی اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہوئے تو پھر تم خدا کی لعنت اور ذلت اور عذاب کے مستحق ٹھیرو گے:
وَ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط (البقرہ ۲:۶۱) آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے عذاب میں گھِر گئے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو ظلم و استحصال اور فتنہ وفساد سے محفوظ رکھنے اور امن و انصاف کے تحفظ اور اسے یقینی بنانے کے لیے یہ نظام وضع کیا ہے۔ اسی غرض کے لیے جہاد فی سبیل اللہ اور قتال کا حکم دیاگیا ہے۔ گویا ظلم کے خاتمے کے لیے ہرممکن تدبیر اور انتہائی جدوجہد، یعنی جہاد کیا جائے، اور اگر کوئی چارئہ کار نہ رہے تو پھر ظالم کے خلاف بندوق اُٹھانے، یعنی قتال کا حکم دیا گیا ہے، اور اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک کہ فتنہ و فساد مٹ نہ جائے اور انصاف قائم نہ ہوجائے۔ گویا جہاد امنِ عالم کا ضامن ہے۔ لہٰذا جہاں پوری انسانیت کا فرض ہے کہ وہ ظلم کے خلاف اُٹھے اور امن و انصاف کے قیام کو یقینی بنائے، وہاں اُمت مسلمہ کا یہ منصبی فریضہ ہے کہ وہ لازماً اس فریضے کو ادا کرے، اور کوتاہی اور غفلت کے نتیجے میں وہ خدا کے غضب کا شکار ہوسکتی ہے۔
آج ’دہشت گردی‘ کے نام پر امریکی استعمار نے جس طرح دنیا کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے ظلم و ستم اور فساد کی آماج گاہ بنا رکھا ہے اور لاکھوں لوگوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ چکا ہے، اس سے پوری دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ عالمی قوانین کو جس طرح تاراج کیا گیا ہے اور عالمی اداروں کو بے وقعت کرکے رکھ دیا گیا ہے، اس سے ملکوں کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری دائوپر لگی ہوئی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اپنی طاقت کے زعم میں امریکا دنیا کا خدا اور طاغوت بن چکا ہے جو طاقت کے زور پر دنیا پر حکمرانی چاہتا ہے اور انسانی حقوق غصب کر رہا ہے اور دنیا میں فتنہ وفساد کا باعث ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ امریکا کو اس سرکشی اور مزید ظلم و استحصال سے روکا جائے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ امریکا کسی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر افغانستان، عراق، پاکستان کے بعد اب یمن میں نیا محاذ کھولنا چاہ رہا ہے۔
ان حالات میں انسانیت کی فلاح اور انسانی تہذیب وتمدن کے تحفظ اور عالمی امن و انصاف کے لیے پوری دنیا کو بالخصوص تمام امن پسند قوتوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کو سب سے بڑھ کر اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے کی فکر ہونی چاہیے۔ اگر اُمت مسلمہ اس فتنے و فساد کے خاتمے کے لیے جو کہ براہِ راست اس کا نشانہ بھی بنی ہوئی ہے، اپنا کردار ادا نہیں کرتی توخدانخواستہ وہ خدا کے غضب کا شکار بھی ہوسکتی ہے اور غلامی اور ذلت و مسکنت اس کا مقدر ٹھیرسکتا ہے۔ ’پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے‘ کے مصداق وہ نئی اُمت بھی کھڑی کرسکتا ہے۔
وہ جنگ جو کل تک افغانستان تک محدود تھی آج پاکستان میں لڑی جارہی ہے۔ پاکستان براہِ راست امریکی ’دہشت گردی‘ کی زد میں ہے اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس سارے فساد کی جڑ امریکا ہے جس کی بے جا مداخلت اور خودسری کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی ہے۔ اس لیے امریکا کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا بہت ضروری ہے۔ ماضی میں جس طرح روسی جارحیت کو افغانستان میں روکا گیا تھا اور اس کے سامراجی عزائم کو خاک میں ملا دیا گیا اور سوویت یونین صفحۂ ہستی سے مٹ گیا اور اشتراکیت دم توڑ گئی، اسی طرح امریکی سامراج کو بھی اس خطے میں روکنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی تمام امن پسند اقوام کو اس کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
امریکا کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اسے ظلم و استحصال کی اس روش کو ترک کر دینا چاہیے۔ عملاً وہ یہ جنگ ہارچکا ہے۔ دنیا میں اس کے مخالفین میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اور تجزیہ نگار ’دہشت گردی‘ کی اس جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ خود امریکا کے اندر سے یہ آواز اُٹھ رہی ہے۔ امریکا خود بھی مسائل سے دوچار ہے، اس کی معیشت بیٹھتی جارہی ہے اور اس کے زوال کے چرچے عام ہو رہے ہیں۔ دانش مندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ امریکا سابق سوویت یونین سے سبق سیکھتے ہوئے جلد از جلد افغانستان سے نکل جائے اور اس جنگ سے اپنا پیچھا چھڑا لے۔
عالمی سطح پر پائے جانے والے اس ردعمل کو حکومتی، سفارتی، اداراتی، علمی و فکری حلقوں، غیرسرکاری تنظیموں، انسانی حقوق اور امن کے لیے سرگرم تنظیموں، عوامی سطح پر بیداری اور میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے مؤثر عالمی دبائو میں بدلنے کی ضرورت وقت کا تقاضا ہے۔ عالمی اسلامی تحریک کو بھی اپنے اپنے دائرے اور ممالک کی سطح پر آگے بڑھ کر منظم انداز میں امریکی جارحیت کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، راے عامہ کو ہموار کرنا چاہیے اور امریکا مخالف قوتوں کے تعاون سے امریکا مخالف محاذ بناکر امریکا پر دبائو بڑھانا چاہیے اور اسے مزید فساد اور خون ریزی سے روکنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ہی پُرامن جدوجہد سے دنیا کے امن کا تحفظ اور ظلم و استحصال کا خاتمہ ،اور دنیا کو مزید خوں ریزی سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس شعور کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
اہلِ پاکستان جنھوں نے کل افغانستان میں امریکی جارحیت کے لیے ’فرنٹ لائن اسٹیٹ‘ کا کردار ادا کیا اور معصوم انسانوں کے خون میں ہاتھ رنگے، آج امریکی جارحیت کے خلاف بھرپور مزاحمت پیش کر کے جہاں تاریخ ساز کردار ادا کرسکتے ہیں وہاں امریکی جارح کا ساتھ دینے کے جرم کی تلافی بھی کرسکتے ہیں، اور خدا کے ہاں سرخ رو ہوسکتے ہیں۔
آج جس طرح سے لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور ایک خوف اور دہشت کی فضا پورے ملک پر طاری ہے، اور ہرشعبۂ زندگی میں بگاڑ ہی بگاڑ نظر آرہا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی نعمتیںہم سے چھنتی چلی جارہی ہیں اور ایک مایوسی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ہم نے اللہ سے اپنا عہد وفا نہ کیا،امریکا کے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے اس کا ساتھ دیا، اپنے فرضِ منصبی کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے انصاف کی علَم برداری کے بجاے افغانستان کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے اپنا کندھا پیش کیا، اور آج ہم خود اس فتنہ و فساد کا شکار ہیں۔
موجودہ حکومت نے اپنے دعووں کے برعکس ملکی پالیسی میں تبدیلی کے بجاے پرویز مشرف کی پالیسی ہی کو جاری رکھتے ہوئے امریکا کے اشارے پر پے در پے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن کا نتیجہ پوری قوم کو امریکا کی غلامی میں دینے کے مترادف ہے۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کا آغاز، جس سے بڑے پیمانے پر تباہی کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے خلاف نفرت اور انتقامی جذبے کا سر اٹھانا اور ملک میں دھماکے اور خودکش حملوں کا ہونا جس کا اس سے پہلے کوئی وجود نہ تھا، ڈرون حملوں کی اجازت کے نتیجے میں بے گناہ لوگوں کی بڑے پیمانے پر شہادت، کیری لوگر بل کے ذریعے امداد کا حصول اور قوم کی تذلیل، بلیک واٹر ایجنسی کو کام کرنے اور مشکوک امریکی گاڑیوں کی بلاروک ٹوک آمدورفت، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے بجاے طاقت کے استعمال پر اصرار جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے دائرے کا پھیلتے چلے جانا وغیرہ اسی نوعیت کے اقدامات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے ہاتھوں آئے روز ہماری ذلت کا سامان ہورہا ہے اور دوسری طرف امریکا کی سرپرستی میں بھارت کی طرف سے آئے دن دھمکیاں دی جاتی ہیں اور جنگ مسلط کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ہم بے وقعت اور محکوم ہوکر رہ گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو مول لینے اور ظلم کا نتیجہ یہی نکلا کرتا ہے کہ زندگی وبال بن جاتی ہے۔ امن و سکون چھن جاتا ہے، خوف اور دہشت کے سایے سر پر منڈلاتے محسوس ہوتے ہیں، خوش حالی کے بجاے تنگ دستی، بھوک، افلاس اور خشک سالی اور قحط خدا کے غضب کو دعوت دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے کسی بڑے عذاب سے قبل قوم کو جھنجھوڑنے اور بیدار کرنے کے لیے آزمایش ہوتی ہے۔ اگر آزمایش کی اس گھڑی میں قوم اپنی اصلاح کرلے تو یہی آزمایش سربلندی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ اس وقت اہلِ پاکستان ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ ہم بحیثیت قوم اللہ کی طرف رجوع کریں، ظلم سے اجتناب کریں اور عدل و انصاف کی سربلندی اور امریکی طاغوت کی سرکوبی کے لیے حق کی آواز بلند کریں، اور اس راہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یہی راہِ نجات ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ بھی ہم سے راضی ہوگا، اپنی نعمتوں کا اتمام کرے گا اور خوف سے امن بخش دے گا۔
وقت کے اس تقاضے کو سمجھتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان نے امن و انصاف کی بالادستی، ظلم و استحصال کے خاتمے، امریکی استعمار کے جبر اور فتنہ و فساد کوروکنے اور اُمت مسلمہ کے فرضِ منصبی کو ادا کرنے کے لیے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ’گو امریکا گو‘ کے عنوان سے امریکا مخالف تحریک کا آغاز کیا جو تسلسل سے جاری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ پُرامن جدوجہد دنیا میں امن کے تحفظ کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد امریکا جیسے سامراج اور دنیا کی خدائی کے دعوے دار کے ظلم و استحصال اور فتنہ وفساد سے بچانے کے لیے امن و انصاف کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد خدا کے مقابلے میں دنیا کو اپنی اطاعت اور غلامی کا اسیر بنانے والے امریکی طاغوت کی غلامی کے خلاف خدا کی بندگی کی دعوت ہے۔ یہ جدوجہد آزاد دنیا کے آزاد ملکوں کی سلامتی، خودمختاری اور تحفظ کے لیے امریکا کی بے جا اور حد سے بڑھتی ہوئی مداخلت کے خلاف جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد اہلِ ایمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور ان کے فرضِ منصبی کی ادایگی کی جدوجہد ہے۔ یہ وہ جہاد ہے جس کے لیے اس اُمت کو برپا کیا گیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں عالمی سطح پر امریکا مخالف تحریک کے لیے بھرپور آواز اٹھائی جائے، وہاں قومی سطح پر بالخصوص وہ صالح عنصر جو ملک و ملّت کے لیے درد رکھتا ہے آگے بڑھ کر منظم انداز میں اپنا کردار ادا کرے۔ امریکا مخالف محاذ قائم کیا جائے، ملک گیر عوامی تحریک کے ذریعے عالمی احتجاج کے ساتھ ساتھ موجودہ حکمرانوں کو منصفانہ روش اپنانے اور ملک و ملّت کے مفاد میں پالیسی بنانے پر مجبور کیا جائے، نیز امریکا کی بے جا مداخلت اور افغانستان میں جاری جنگ کو روکا جائے۔ طاقت کے استعمال کے بجاے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا منصفانہ ، پُرامن اور پایدار حل نکالا جائے۔
آزمایش کی اس گھڑی میں اہلِ پاکستان کو استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے منصفانہ موقف کی حمایت اور امریکا کی بے جا مداخلت کے خلاف بھرپور آواز اٹھانی چاہیے اور ملک میں جاری امریکا مخالف تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ہی ہم ماضی میں کی جانے والی کوتاہیوں کی تلافی کرسکتے ہیں اور بحیثیت مسلمان اپنا فرضِ منصبی ادا کرسکتے ہیں اور امریکی طاغوت کو مزید ظلم و فساد سے روک کر نہ صرف اپنے ملک میں امن قائم کرسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
بحیثیت قوم اگر ہم نے اس فیصلہ کن مرحلے میں غفلت برتی یا مداہنت دکھائی اور ہماری وجہ سے مزید خون خرابہ، بگاڑ اور فساد برپا ہوتا ہے تو پھر ملک کا مستقبل بھی مخدوش نظر آتا ہے۔ بھارتی بالادستی، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک، سرحد میں نفرت اور سر اٹھاتا ہوا انتقامی جذبہ اور کراچی کی بگڑتی صورت حال، ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کی کھلی کھلی نشان دہی کر رہے ہیں۔ اگر ہم نے اس موقع کو بھی ضائع کر دیا تو خدشہ ہے کہ کہیں خدانخواستہ اللہ کا قانون حرکت میں نہ آجائے اور اہلِ پاکستان کی مہلتِ عمل ہی ختم کر دی جائے اور فساد کے خاتمے کے لیے انتظام کسی اور کو سونپ دیا جائے۔ اس لیے کہ اللہ کو فساد اور بگاڑ نہیں بلکہ امن اور انصاف پسند ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اُمت مسلمہ جس کا فرضِ منصبی ہی یہ ہے کہ وہ دنیا میں ظلم و استحصال کا خاتمہ کرے اور انصاف کی علَم بردار بن کر رہے، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا نہیں کرتی تو وہ کبھی سرخرو نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کے لیے اللہ کا یہ خاص قانون ہے۔ اس کے بغیر وہ ترقی نہیں کرسکتے خواہ ان کا بچہ بچہ تعلیم یافتہ ہوجائے، اور ان کے پاس کتنے ہی وسائل کیوں نہ ہوں۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر مسلمان اپنی بے سروسامانی کے باوجود مخلص مومن اور اسلام کے سچے پیروکار بن کر ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور طاغوتی قوتوں کی سرکوبی کے لیے سرتوڑ کوشش کریں اور جہاد فی سبیل اللہ کی راہ کو اپنا لیں، تو بے سروسامانی کے باوجود اللہ ان کو غالب کر دے گا۔ اُمت کی سربلندی کا راز بھی اسی بات میں مضمر ہے۔ اللہ کی سنت ہے کہ بارہا اس نے قلیل گروہ کو کثیر گروہوں پر غالب کیا ہے۔ ہماری تاریخ اس پر شاہد ہے اور آج بھی امریکی سامراج اور طاغوت کے خلاف اپنی بے سروسامانی کے باوجود اگر کوئی مزاحمت کر رہا ہے تو وہ مسلمان ہی ہیں۔
اس جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر وہ مرحلہ بھی آئے گا جب ظلم کے خلاف اگر مدد کے لیے دنیا کسی کو پکارے گی تو وہ اُمت مسلمہ ہوگی، بے لاگ عدل وانصاف کے لیے اگر کسی طرف نظریں اُٹھیں گی تو وہ مسلمان ہوں گے، اور دنیا میں انسانی حقوق کا محافظ اور امن کا ضامن اگر کسی کو سمجھا جائے گا تو وہ مسلمانوں کو سمجھا جائے گا۔ کوئی دوسری قوم، کوئی دوسرا نظام ان کے سامنے ٹھیر نہ سکے گا۔ اسی جدوجہد کے نتیجے میں پسپائی امریکا کا مقدر ٹھیرے گی، اشتراکیت کی طرح سرمایہ داری بھی اپنے انجام کو پہنچ کر رہے گی، پھر کسی طاغوتی قوت کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر دنیا کے امن کو تہ و بالا کرنے کی جرأت نہ ہوسکے گی۔ بالآخر دنیا کا مستقبل ایک پُرامن اور منصفانہ عالمی نظام، یعنی اسلام ہوگا، ان شاء اللہ! اس کے لیے شرط صرف یہی ہے کہ اُمت مسلمہ اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو!
وَ لَا تَھِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔