بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَاُخْرٰی تُحِبُّونَھَا ط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (الصف ۶۱: ۱۰-۱۳) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کووہ تجارت جو تمھیں عذابِ الیم سے بچادے؟ ایمان لائو، اللہ اور اُس کے رسولؐ پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح۔ اے نبیؐ، اہلِ ایمان کو بشارت دے دو!
سورئہ صف کی ان آیات سے ایک نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ فرمایا گیا کہ اے ایمان والو، کیا میں تمھیں ایسی تجارت بتائوں جو تمھیں عذابِ الیم سے نجاتق دے دے۔ یہاںعذابِ الیم سے نجات دلانے والے عمل کے لیے تجارت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ تجارت اُس چیز کو کہتے ہیں جس میں آدمی اپنا سرمایہ، اپنا وقت، اپنی محنت، اپنی ذہانت اور اپنی قابلیت، غرض سب کچھ اس لیے کھپاتا ہے کہ ان کے بدلے میں اس کو نفع حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ اس استعارے کو استعمال کرکے فرماتا ہے کہ ایک تجارتیں تو وہ ہیں جوتم دنیا میں کرتے ہو اور دنیاوی منافع کے لیے اپنی محنت، اپنے سرمایے، اپنی قابلیتوں اور اپنے اوقات کو صرف کرتے ہو۔ دنیا کی ان تجارتوں کے مقابلے میں ایک تجارت ہم تمھیں بتاتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں تم ان کاموں میں کھپائو جن کو آگے بیان کیا جارہا ہے اور ان کے نتیجے میں تمھیں ایک اور طرح کا نفع حاصل ہوگا۔ ان کاموں کی تفصیل ان الفاظ میں بیان کی گئی:
تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ (۶۱:۱۱) تم ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو اپنے مالوں کے ساتھ اور اپنی جانوں کے ساتھ۔
ایک ایمان تووہ ہے جس کا آدمی اپنی زبان سے اقرار اور اعلان کرتا ہے، اور ایک ایمان وہ ہے جو آدمی پورے خلوص اور صداقت کے ساتھ اپنے دل میں رکھتا ہے اور اس کے مطابق اس کی پوری سیرت اور پورا کردار تشکیل پاتا ہے۔ الفاظ کے اعتبار سے یہ دونوں چیزیں مختلف نہیں ہیں، لیکن اپنی روح اور اپنے معنی کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ الفاظ کے اعتبار سے تو ان کے درمیان کوئی فرق نہیں، کیونکہ جو زبانی اقرارِ ایمان کرتا ہے وہ بھی مومن ہے، اور وہ بھی مومن ہے جو سچے دل سے ایمان قبول کرتا ہے اور جس چیز کو مانتا ہے اس کے لیے جان، مال، محنت سب کچھ کھپاتا ہے۔ اس طرح لفظِ ایمان اگرچہ دونوں کے درمیان مشترک ہے، یعنی معنی اور حقیقت کے اعتبار سے ان دونوں کے درمیان فرق ہے۔
جب بات کا آغاز یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہہ کر فرمایا اور کہا گیا کہ ہم تمھیں وہ تجارت بتاتے ہیں جو عذابِ الیم سے بچانے والی ہے، تو یہاں یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے مراد اگرچہ وہ سارے لوگ ہیں جو ایمان کے مدعی ہوں، چاہے وہ محض زبانی اقرارِ ایمان کر رہے ہوں اور چاہے سچے دل سے ایمان لائے ہوں، لیکن آگے جو الفاظ آتے ہیں کہ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر)، تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اپنی زبان سے تم جس چیز کو مان رہے ہو، اس کو سچے دل سے مانو، اور اخلاص کے ساتھ مانو۔ اس ماننے کے اندر کوئی منافقت نہیں ہونی چاہیے۔ کوئی ضعفِ ارادہ اور کوئی ضعفِ ایمان نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ماننا ایسا ہونا چاہیے کہ جس کے نتیجے میں تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے کمربستہ ہوجائو۔ گویا سچے ایمان کے بعد جس چیز کا ظہور تمھاری طرف سے ہونا چاہیے، وہ یہ ہے کہ تُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، اللہ کی راہ میں جہادکرو (اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے)، یعنی جس حقیقت کو تم مان رہے ہو، اس حقیقت کو دنیا میںسربلند کرنے کے لیے اُس کے مقابلے میں جتنے جھوٹ دنیا میں چل رہے ہیں، ان سب کو نیچا دکھانے کے لیے تم اپنی جانیں اور اپنے مال کھپائو۔ یہی مفہوم ہے تُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ کا۔
اگر آپ غور فرمائیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہاں جہاد کے معنی لازماً قتال کے نہیں ہیں۔ دراصل جہاد، قتال کے مقابلے میں زیادہ وسیع لفظ ہے۔ کسی مقصد کے لیے اپنی انتہائی کوشش صرف کرنے کو جہاد کہتے ہیں۔ کسی مقصد کے لیے اپنی جان لڑا دینے (جیسے ہم اُردو زبان میں بھی جان لڑا دینا کہتے ہیں) کا مقصد لازماً یہی نہیں ہوتا کہ آدمی جاکر مارنے پیٹنے ہی کا کام کرے۔ نہیں، جان لڑانے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر دے۔ یہاں اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس راہ میں اپنی پوری محنت اور قوت صرف کرو، نہ اپنا مال اس راہ میں کھپانے سے دریغ کرو اور نہ اپنی جان اس معاملے میں کھپانے سے دریغ کرو۔ چنانچہ جہاد بالنفس، یعنی نفس کے ذریعے جہاد کرنے کا مطلب لازماً یہ نہیں ہے کہ آدمی جاکر اللہ کی راہ میں کٹ مرے۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ آدمی اپنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے میں کھپا دے۔ اس کے لیے سفر کرے، محنتیں کرے تکلیفیں اُٹھائے اور اس راہ میں اپنے آپ کو پوری طرح فنا کردینے کے لیے تیار ہوجائے۔ یہاں تک کہ اگر خداکی راہ میں لڑنے کی ضرورت پیش آئے تو لڑے بھی۔ مرنے کی نوبت آئے تو جان بھی دے دے۔ نفس کے ذریعے جہاد کرنے میں یہ ساری چیزیں شامل ہیں۔
دیکھیے یہاں تُجَاھِدُوْنَ کے الفاظ آئے ہیں جن کا مصدر مُجَاھَدَۃ ہے، اور مجاہدہ لازماً مقابلے میں پیش آتا ہے۔ اکیلا آدمی مجاہدہ نہیں کرسکتا۔ مجاہدہ اس صورت میں ہوگا، جب کہ مقابل میں کوئی ایسی طاقت موجود ہو جو اس مقصد کی راہ میں مزاحم ہو۔ اس کے مقابلے میں جدوجہد کرنا، مجاہدہ کہلائے گا۔ راہِ خدا میں مقابل کی طاقت شیطان بھی ہے، انسان کا اپنا نفس بھی ہے، معاشرہ بھی ہے، دنیا کے کفار اور دنیا بھر کے گمراہ لوگ بھی ہیں۔ وہ خود اپنی قوم کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو اللہ کی راہ میں مزاحم ہوں۔ اس طرح تمام وہ طاقتیں جو اللہ کی راہ میں مزاحم ہوں اور اللہ کے کلمے کے بلند ہونے میں مانع ہوں، ان تمام طاقتوں کے مقابلے میں محنت اور کوشش کرنا، مسلسل جدوجہد کرنا اور ہمہ پہلو جدوجہد کرنا، یہ مجاہدہ ہے۔ اس کے اندر دعوت وتبلیغ سے لے کر قتال فی سبیل اللہ تک ساری چیزیں آجاتی ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اخلاص کے ساتھ ایمان لائو اور خدا کی راہ میں مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو، یعنی اس مجاہدے کے اندر اپنا مال بھی کھپائو اور اپنی جان بھی کھپائو۔ یہ چیز دراصل وہ تجارت ہے جس کے منافع آگے بیان کیے گئے۔ گویا ایک تجارت تو وہ ہے جس میں آدمی دنیاوی منافع کے لیے کوشش کرتا ہے اور ایک یہ تجارت ہے کہ جس کے کچھ دوسرے منافع ہیں جو تمھیں حاصل ہوں گے۔
ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ (۶۱:۱۰) یعنی پہلی چیز یہ ہے کہ اگر تم اس تجارت میں اپنا مال کھپائو تو لازمی طور پر اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ تم عذابِ الیم سے بچ جائوگے۔
عذابِ الیم سے مراد آخرت کا عذاب ہے۔ وہ ایسا عذاب ہے کہ اگر آدمی کو دنیا میں ساری عمر بڑے سے بڑا عیش بھی میسر رہے لیکن آخرت میں اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی جہنم کا عذاب ایک لمحے کے لیے بھی بھگتنا پڑے تو وہ ایک لمحے کا عذاب اس کے عمربھر کے عیش کو ختم کردینے کے لیے کافی ہے۔ آدمی بڑا احمق ہوگا اگر وہ جہنم کے ایک بھی لمحے کے عذاب کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوجائے جو درحقیقت اس دنیا میں ساری عمر کے عیش کے مقابلے میں بھاری ہے۔ لہٰذا اس تجارت کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے عذابِ الیم سے بچ جائے گا۔
دنیا کی دوسری تجارتوں میں سے یقینا بعض ایسی ہیں جن کے اندر آدمی کے لیے مبتلاے عذاب ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن بہت سی تجارتیںایسی ہیں جن میں آدمی انتہائی نفع حاصل کرلیتا ہے، یہاں تک کہ ارب پتی بن جاتا ہے، لیکن آخرکار وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ٹھیرتا ہے۔ اس بنا پر اس سے بڑی کوئی احمقانہ تجارت نہیں ہوسکتی کہ آدمی دنیا میں اربوں روپیہ کمائے، لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ٹھیرے۔
دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے، خواہ کتنا نیک، صالح اور کتنا ہی بڑا ولی کیوں نہ ہو، جس سے کبھی کوئی غلطی، قصور اور گناہ سرزد نہ ہوتا ہو۔ جب تک انسان ہے اس سے قصور ضرور سرزد ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت محاسبہ ہو___ سخت محاسبے کا معنی یہ ہے کہ آدمی سے ایک ایک فعل کا حساب لیا جائے گا___ تو دنیا کاکوئی آدمی بھی اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔ اگر ایک ایک فعل کی سزا دی جائے تو اس کے بعد کوئی آدمی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک بڑا احسان یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ہلکا حساب لیتا ہے۔ اس چیز کو حسابِ یسیر کہتے ہیں۔
حسابِ یسیر یہ ہے کہ آدمی کی بحیثیت مجموعی پوری زندگی کو دیکھا جائے گا کہ آیا یہ ایک مومن صالح کی زندگی ہے اور یہ ایک ایسے آدمی کی زندگی ہے جس نے اپنی حد تک اطاعت کی کوشش کی ہے، تو ایسے آدمی کی سب کوتاہیاں معاف کر دی جائیں گی۔ اس کی خطائوں کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ صرف یہ دیکھا جائے گاکہ اگر وہ اپنے رب کا ایک وفادار بندہ ہے اور اس کا باغی نہیں ہے، اس کے ساتھ غداری کرنے والا نہیں ہے، اس نے اپنی حد تک وفاداری کی کوشش کی ہے اور جان بوجھ کر اطاعت سے منہ نہیں موڑا ہے تو اس کے بعد اس کے سارے قصور معاف، اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں اور خطائوں کا جو زیادہ سے زیادہ نتیجہ ہوسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جتنے بڑے مراتب کا مستحق وہ ہوسکتا تھا، اتنے اُونچے مراتب اس کو نہ دیے جائیں، اگر وہ یہ قصور نہ کرتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے وفادار بندے کو اس کی خطائوں کی سزا دے کر چھوڑ دے۔ چنانچہ پہلے تو اس کو عذابِ الیم سے نجات کی خوش خبری دی گئی، پھر اس کے بعد اسے دوسری خوش خبری یہ دی گئی ہے کہ تمھاری فرماں برداری کے انعام میں تمھارے سارے کے سارے قصور معاف کردیے گئے ہیں۔
وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ (۶۱:۱۲) اللہ تعالیٰ تم کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور ایسی جگہیں رہنے کے لیے دے گا جو جناتِ عدن ہیں، ایسی جنتیں جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہیں (وہ خود بھی ہمیشہ قائم رہیں گی اور تم بھی ان کے اندر ہمیشہ رہو گے)۔
دائمی اور ابدی زندگی میں آدمی کا جنتی ہونا اور دائمی اور ابدی طور پر جنت میں داخل ہونا اور وہاں رہنا، یہ وہ نعمت ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی نفع بخش تجارتیں ہیچ ہیں۔ اگر ایک آدمی دنیا کی بڑی سے بڑی دولت حاصل کرلے اور آخرت کی جنت سے محروم رہ جائے تو درحقیقت وہ بڑے خسارے میں ہے۔ غور فرمایئے کہ دنیا کی زندگی زیادہ سے زیادہ کتنی طویل ہوسکتی ہے۔ بہت ہوگی تو سَو، سوا سَو سال ہوجائے گی۔ اس طویل سے طویل زندگی کے اندر دنیا کی جو بڑی سے بڑی دولت ہوسکتی ہے، وہ کتنی ہے۔ اگر آدمی کے پاس اربوں روپیہ بھی ہو تو اس کی اپنی ذات پر اس میں سے زیادہ سے زیادہ کتنا خرچ ہوتا ہے۔ وہ ہیرے جواہرات بھی کھائے تو کتنے کھا لے گا (حالانکہ آدمی ہیرے جواہر تو کھا بھی نہیں سکتا)۔ مراد یہ ہے کہ اس کا روپیہ جوڑ جوڑ کر رکھنے کے لیے ہوسکتا ہے، بنکوں میں جمع کرنے کے لیے ہوسکتا ہے لیکن وہ روپیہ اس کی اپنی ذات پر کتنا خرچ ہوگا۔ کتنا وہ کھا لے گا، اور کتنا وہ پی لے گا، کتنی سواریاں رکھ کر وہ ان پر سوار ہوگا اور کتنی عمارتیں بناکر وہ ان کے اندر رہ لے گا، اور پھر یہ سب کچھ کتنی مدت کے لیے ہوگا۔ ساٹھ ستّر، اسّی نوے، سَو، سوا سَو سال کے لیے۔
اب اس کے مقابلے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی جنت میں رہنا ایک ایسی عظیم ترین نعمت ہے جس کے ساتھ دنیا کی کسی بڑی سے بڑی نعمت کی کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ ایک آدمی اگر دنیا کی تجارتوں کے بجاے آخرت کی تجارت میں اپنا سرمایۂ محنت کھپاتا ہے اور اس کے بدلے میں وہ ابدی جنت حاصل کرتا ہے تووہی آدمی دراصل کامیاب ہے۔ وہ شخص کامیاب نہیں جو اس جنت سے محروم رہ جائے اور دنیا کی تجارتوں میں لگایا ہوا اس کا سارا مال یہیں رہ جائے۔ اس لیے فرمایا: ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، یہ سب سے بڑی کامیابی ہے، یعنی دنیا میں تم جو تجارت کرتے ہو اس کے مقابلے میں اس تجارت کا نفع بہت زیادہ ہے۔ اسی بات کو اُوپر ان الفاظ میں فرمایا: ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو۔ گویا اس تجارت میں جان، مال، محنت اور وقت کھپانا زیادہ نفع کا سودا ہے، اگر تم کو فہم ہو اور علم ہو اور یہ جانو کہ اس تجارت کی حیثیت کیا ہے۔
وَاُخْرٰی تُحِبُّونَھَا نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ (۶۱: ۱۳) گویا گناہوں کی معافی اور جنتوں کے قیام کی نعمت ِعظمیٰ کے علاوہ ایک اور چیز اللہ تعالیٰ تم کو عطا کرے گا جس کی طلب تم رکھتے ہو، وہ یہ ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح تم کو نصیب ہوگی۔ عنقریب سے مراد ہے اس دنیا میں۔ اس سارے سلسلۂ کلام میں آخرت کے فوائد کو پہلے بیان کیا ہے، کیونکہ وہ اہم تر ہیں اور دراصل مقصود ہیں۔ اس کے بعد اس چیز کا ذکر کیا گیا جو دنیا میں حاصل ہوگی۔ اس طرح گویا مسلمانوں کی ایک فطری کمزوری کی بھی نشان دہی کردی کہ: اُخْرٰی تُحِبُّونَھَا… اگرچہ آخرت میں ملنے والی چیز بہت بڑی ہے لیکن چونکہ تم انسان ہو، اس لیے تم دنیا کی کامیابی کو زیادہ عزیز رکھتے ہو۔ تم اپنی جگہ یہ سوچتے ہو کہ اگر اس دنیا کے اندر اللہ کا کلمہ ہمارے ہاتھوں سے بلند نہ ہوا، اور اس کا دیا ہوا نظام یہاںقائم نہ ہوا، تو ہم تو گویا دنیا سے یہ منظر دیکھے بغیر ہی چلے جائیں گے کہ یہاں اللہ کا قانون جاری ہو رہا ہے، اس کادیا ہوا نظام نافذ ہو رہا ہے، اور یہاں وہ بھلائیاں فروغ پا رہی ہیں، جن کی اللہ کے دین کی بدولت حاصل ہونے کی توقع دلائی جاتی تھی، تو ہم تو اس نعمت اور خوشی سے محروم ہی رہ جائیں گے۔ ایک نیک سے نیک آدمی کے اندر بھی یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگرچہ آخرت تو یقینا ہونی ہے اور چاہے ہم دنیا میں ناکام بھی مرجائیں تب بھی آخرت کی کامیابی تو ہمیں حاصل ہوگی ہی، مگر پھر بھی دلوں میں فطری طور پر یہ تمنا ہوتی ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دین حق کے قیام اور اس کے نتائج کو دیکھ لیں۔ اس لیے اس بات کا لحاظ رکھتے ہوئے فرمایا کہ جو چیز یہاںدنیا میں تم چاہتے ہو وہ بھی تمھیں ملے گی۔ اگر تم اللہ کی راہ میں مجاہدہ کرو گے، اپنی جان و مال کھپائو گے تو اس دنیا کے اندر بھی تم کو نصرت اور فتح حاصل ہوگی۔
فَتْحٌ قَرِیْبٌ کے دو معنی ہیں۔ ایک معنی یہ ہیں کہ وقت کے لحاظ سے عنقریب یہ فتح جلدی تم کو مل جائے گی۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اسی دنیا میں (یعنی عاجلہ میں) تم اپنی آنکھوں سے اس نظام کو کامیاب ہوتے ہوئے دیکھ لو گے جس کو لے کرتم کھڑے ہوئے ہو اور جس کے لیے تم سے مجاہدہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ o (۶۱:۱۳) اور اے نبیؐ، مومنوں کو بشارت دے دو۔
یہاں اہلِ ایمان کو بشارت دی گئی ہے۔ یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ یہ خوش خبری ایک امرواقع ہونے کے علاوہ مسلمانوں کے اطمینان اور تسلی کے لیے ایک ضرورت بھی تھی۔ یہ بات پہلے بیان ہوچکی ہے کہ دراصل یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی تھی، جب کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشش کر رہی تھی اور اس کے مقابلے میں سارا عرب کفر میں مبتلا تھا، اور خود مدینہ طیبہ میں منافقین اور یہود اسلام کی شمع کو بجھانے کے درپے تھے۔ اس زمانے میں دُور دُور تک اس بات کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے کہ مدینے میں پائی جانے والی مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کفر کے اس سیلابِ عظیم کا منہ پھیرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس وقت بظاہر مسلمانوں کو بھی یہ محسوس ہو رہاتھا اور کفار و مشرکین بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ سارے ملک کے کفروشرک کے مقابلے میں اس مٹھی بھر جماعت کا کامیاب ہونا بڑا مشکل ہے، اور ہوسکتا ہے کہ اگر کفار کا زبردست دبائو اور نرغہ اس کے خلاف ہوجائے تو یہ جماعت ختم ہوجائے۔
اس موقع پر یہ فرمایا :’’اے نبیؐ! مومنوں کو بشارت دے دو تاکہ ان کے دلوں میں مایوسی اور کمزوری نہ پیدا ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ان کو امیدوار بنائو، اور ان کو یقین دلائو کہ تم اگر اللہ کی راہ میں صحیح معنوں میں مجاہدہ کرو گے اور اپنی جان اور مال کھپائو گے تواللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ آخرت میں تم کو کامیابی عطا کرے گا بلکہ اس دنیا میں بھی تم کو فتح سے نوازے گا، جب کہ حال یہ ہے کہ تم مٹھی بھر لوگ ہو، اور کفر وشرک کی طاقتیں تمھارے مقابلے میں ہزاروں گُنا زیادہ ہیں۔ گویا ایک بستی کا مقابلہ پورے عرب کے باشندوں سے ہے۔ اس حالت میں بھی یقینا تمھی کامیاب ہو گے بشرطیکہ تم اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حق ادا کرو‘‘۔
ایک اصولی بات جو قرآن مجید سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک گروہ اللہ کے دین کے لیے مجاہدہ کرنے والا نہیں ہے بلکہ دنیاوی اغراض کے لیے لڑنے والا ہے اور اس کا مقابلہ بھی انھی لوگوں سے ہے جو دنیوی اغراض کے لیے لڑنے والے ہیں، تو اللہ تعالیٰ کو ان کے درمیان مداخلت کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنی تائید کافروں میں سے کسی ایک گروہ کو دے بلکہ اس کے برعکس وہ دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کے بعد دونوں گروہوں کا مقابلہ ان کے دنیوی ذرائع و وسائل اور کامیابی کے دوسرے اسباب کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہ بات فیصلہ کن ہوتی ہے کہ کس کے اندر زیادہ اجتہادی قوت اور مقصد کے لیے زیادہ لگن ہے۔ کس کے اندر زیادہ تنظیم ہے۔ کون ایسا گروہ ہے کہ جب قوت اور مقابلہ درپیش ہو تووہ لڑنے مرنے کے لیے میدان میں آتا ہے، اور کون ایسا گروہ ہے جو اپنی جان بچانے کی فکر میں رہتا ہے۔ اور پھر یہ کہ کس کے پاس آلاتِ جنگ اور مادی ذرائع زیادہ ہیں۔ ایسے گروہوں کے درمیان فیصلہ انھی باتوں پر موقوف ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کو اپنی تائید کسی کافر یا مشرک یا فاسق کے حق میں بھیجنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس کے مقابلے میں اگر ایک گروہ دنیا میں ایسا ہو جو اللہ کے لیے جہاد کرنے والا اور اس کی راہ میں اپنی جان ومال اور محنت کھپانے والا، اس کے مقابلے میں دوسرا گروہ ایساہو جو دنیا کے لیے لڑنے والا ہو، تو وہاں پھر اللہ تعالیٰ کا براہِ راست تعلق اس گروہ کے ساتھ ہوتا ہے جو اللہ کے لیے لڑنے والا ہو۔ اس جگہ اگر اہلِ ایمان کے اخلاق ویسے ہی ہوں جیسے کہ ان کے ہونے چاہییں اور جو ہدایات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے اس کو دی ہیں ان کے مطابق وہ گروہ کام کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی تائید اس کو حاصل ہوتی ہے۔ پھر اس تائید کے لیے اس پورے گروہ یا جماعت کا بحیثیت مجموعی صالح ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ ایک ایک آدمی تو صالح ہو لیکن جماعت ہونے کی حیثیت سے ان میں وہ خرابیاں موجود ہوں جو منافقین کی جماعت میں ہوسکتی ہیں، تو پھر اس گروہ کو اللہ کی تائید حاصل نہیں ہوسکتی۔ جماعت ہونے کی حیثیت سے اگر وہ ایک دوسرے کی کاٹ میں لگے ہوئے ہوں، تواس طرح کے لوگ فی الواقع صالح جماعت نہیں ہیں۔ ایک صالح جماعت کے صالح افراد اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں اخلاص کے ساتھ جدوجہد کرنے والے ہوں، توپھر کفار کے مقابلے میں اگر ان کے پاس ۵ فی صد ذرائع بھی ہوں تو تب بھی وہ کامیاب ہوں گے، بلکہ بعض حالات میں تو ایک فی صد ذرائع بھی کامیابی کے لیے کافی ہوجاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تائید ان کو حاصل ہوتی ہے۔
ان حالات میں فرمایا گیا کہ باوجود اس کے کہ اہلِ ایمان اس وقت کمزوری کی حالت میں ہیں، ان کی تعداد کم ہے،ان کے ذرائع کم ہیں اور پورے ملک کے کفار و مشرکین کے ساتھ ان کا مقابلہ ہے، مگر اے نبیؐ! تم ان کو بشارت دے دو کہ اگر تم اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور سچے اور مخلص مسلمانوں کی طرح کرو تو تمھی کامیاب ہوگے۔ عنقریب تمھیں فتح حاصل ہوگی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جو بات اس وقت کہی گئی تھی وہ جوں کی توں پوری ہوئی۔ جس زمانے میں یہ بات کہی گئی وہ غالباً تین چار ہجری کا زمانہ تھا۔ سورت کے مضامین خود بتا رہے ہیں کہ یہ اس زمانے کی سورت ہے، جب کہ مسلمانوں کے لیے انتہائی سخت وقت تھا۔ پھر ایسا وقت آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسلمانوں کو عرب کے اندر پوری کامیابی حاصل ہوئی اس میں بمشکل پانچ یا چھے سال لگے۔ ان پانچ چھے برسوں کے اندر بساط بالکل اُلٹ گئی، جو کمزور تھے وہ غالب آگئے اور جو بظاہر بڑی تعداد اور بڑے سازوسامان والے تھے، مسلمانوں کے مقابلے میں مغلوب ہوگئے۔ ان کے بڑے بڑے سردار بیش تر مارے گئے۔ اس کے بعد نیا مضمون شروع ہوتا ہے:
یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَرِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِِلَی اللّٰہِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ فَاٰمَنَتْ طَّائِفَۃٌ مِّنْم بَنِیْٓ اِِسْرَآئِیْلَ وَکَفَرَتْ طَّـآئِفَۃٌ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّھِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰھِرِیْنَ o (۶۱: ۱۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریمؑ نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا: کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مددگار؟ اور حواریوں نے جواب دیا تھا: ہم ہیں اللہ کے مددگار۔ اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہوکر رہے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کے پیروؤں کی تاریخ سے ایک سبق دیا ہے۔ فرمایا کہ: اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریمؑ نے جب حواریوں کو پکارا تھا کہ کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہے تو حواریوں نے کہا تھا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب بعثت کے بعد نبی اسرائیل میں اپنی دعوت شروع کی تو جیساکہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ بنی اسرائیل دراصل ایک ایسے مسیح کے منتظر تھے جو تلوار کے ساتھ آئے اور طاقت کے زور سے فلسطین کا ملک فتح کرکے ان کے حوالے کرے، اور بنی اسرائیل کو پھر ایک فرمان روا قوم بنادے۔ اس طرح وہ عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے کئی صدیاں پہلے ایک ایسے مسیح کی آمد کے منتظر تھے۔ جب سے، یعنی تقریباً سات سو قبل مسیح کے زمانے سے بنی اسرائیل کی شامت آنی شروع ہوئی تھی، بار بار ان کا علاقہ فتح ہو رہا تھا اور دنیا کی قومیں ان کو مسلسل پیس رہی تھیں اور ان کو مار مار کر دوسرے ملکوں میں لے جایا جارہا تھا، یہاں تک کہ چودہ صدیوں کے بعد ان کے ۱۰ قبیلے دنیا سے اس طرح مٹ گئے کہ ان کے بارے میں آج کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں گئے، تو اس زمانے میں بنی اسرائیل کو ایک بشارت دی گئی کہ ایک مسیح آئے گا جو تم کو اس مصیبت سے بچائے گا۔ اس بشارت سے وہ یہ سمجھے کہ جو مسیح آئے گا وہ شمشیر بکف ہوگا اور کافروں سے جنگ کرے گا۔ حالانکہ اللہ کی بشارت کے یہ الفاظ نہیں تھے۔ بس انھوں نے اپنی جگہ یقین کرلیا کہ وہ مسیح آکر ہمارے دشمنوں کے مقابلے میں تلوار کے زور سے فتوحات حاصل کرے گا اور فلسطین کی سرزمین پھر ہمیں دلادے گا۔ لیکن جب حضرت عیسٰی ؑتشریف لائے اور انھوں نے ان کو دین کی دعوت دینی شروع کی تو بنی اسرائیل کو اس پر سخت غصہ آیا کہ ہمیں تو اس مسیح کی ضرورت نہیں تھی، ہمیں تو اس مسیح کی ضرورت تھی جو ہمیں ہتھیار دے اور دشمنوں کے خلاف ہم سے جنگ کروائے، لیکن یہ مسیح تو آکر ہم سے یہ کہتا ہے کہ تم اخلاص اختیار کرو، ایمان داری اختیار کرو، ریاکاری سے بچو، جو بے ایمانیاں تم کرتے ہو اور طرح طرح سے ناجائز طریقے سے لوگوں کے مال کھاتے ہو، ان سب چیزوں کو چھوڑ دو۔ اس طرح یہ مسیح تو ہمیں ہمارے ملک کی واپسی اور غلبے کی راہ دکھانے کے بجاے ہمیں اخلاق کا راستہ دکھا رہا ہے۔ یہ ہمیں اس کٹھن راستے پر چلنے کے لیے کہہ رہا ہے کہ جس سے گریز کرنے کے لیے ہم نے اپنے انبیا کو ستایا تھا اور ان کو قتل تک کیا تھا۔
اس ذہنیت کو لے کر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن ہوگئے۔ پوری قوم نے آپ ؑ کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس حالت میں حضرت عیسٰی ؑبحرطبریہ کے کنارے گئے۔ وہاں کچھ مچھیرے مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ ان کو حضرت عیسٰی ؑ نے مخاطب کر کے اللہ کی راہ کی دعوت دی تو ۱۲آدمی ان میں سے نکل کر آگئے۔ دوسری روایات کے مطابق یہ لوگ کپڑے دھونے والے، یعنی دھوبی تھے اور غریب لوگ تھے۔ دن بھر کی محنت پر گزارا کرتے تھے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ انھی میں سے ۱۲ آدمی نکل کر آپ کی طرف آگئے اور آپ کے جاں نثار ساتھی بن گئے۔ دوسری طرف پوری قومِ بنی اسرائیل آپ کا انکار کر رہی تھی۔ یہاں اللہ تعالیٰ اس واقعے کی طرف اشارہ کرکے فرماتا ہے: حواری اگرچہ ایک مٹھی بھر جماعت تھے جو ایمان لائے تھے، اور دوسری طرف بنی اسرائیل کی پوری قوم منکر ہوگئی تھی۔ ان کے علاوہ رومی بھی آپ کے مخالف تھے۔ لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ نے سچے اہلِ ایمان کی اسی مختصر جماعت کوکامیابی دی اور جوان کے مخالف تھے، وہی آخرکار ناکام ہوئے۔
دوسرے الفاظ میں اُوپر جو بشارت دی گئی ہے کہ بَشِّرْ الْمُؤْمِنِیْنَ تو اس بشارت کے ساتھ یہ تاریخی نظیر پیش کی گئی کہ دیکھو جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دیا، آخرکار غلبہ انھی کو حاصل ہوا۔ وہ مٹھی بھر آدمی تھے، ان کو مارا کھدیڑا گیا، طرح طرح کے مظالم ان پر کیے گئے، لیکن ان کی ثابت قدمی میں فرق نہ آیا۔ ان کی دعوت اور تبلیغ کا سلسلہ برابر جاری رہا اور پھر انھی کے پیرووں نے فلسطین، شام، مصر اور دوسرے ملکوں میں اپنی تبلیغ کا سلسلہ دو اڑھائی صدیوں تک جاری رکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی رومی سلطنت جو ان کو مٹا دینے پر تلی ہوئی تھی۔ آخرکار وہ حضرت عیسٰی ؑکی رسالت پر ایمان لے آئی، ان کی دعوت کی مددگار ہوگئی، اور جو ظلم و ستم حضرت عیسٰی ؑ کے متبعین پر ہو رہا تھا وہ آپ کے مخالفوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ اسی رومی سلطنت نے مشرکین کے مذہب کو مٹایا اور پھر یہودیوں کی ایسی خبر لی کہ رومی سلطنت کے نکالے ہوئے وہ دو ہزار برس کے لیے منتشر ہوگئے۔ انھوں نے یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین سے اس طرح نکالا تھا کہ بیت المقدس میں ان کا داخلہ بند تھا۔ فلسطین کی سرزمین میں وہ گھِس لگانے کو نہیں ملتے تھے۔
اللہ تعالیٰ اس تاریخی نظیر سے یہ بتا رہا ہے کہ اب بھی یہی صورت پیش آنی ہے کہ جو لوگ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں گے آخرکار وہی اس سرزمین پر باقی رہیں گے، وہی کامیاب ہوں گے، اور جو لوگ آپ کا ساتھ نہیں دیں گے، وہ عرب کی سرزمین پر نہیں رہ سکیں گے، ختم ہوجائیں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والے اگرچہ اس وقت مٹھی بھر ہیں، وہی کامیاب ہوں گے اور عرب و عجم کے حکمران بنیں گے۔ ان دونوں گروہوں میں فرق یہ ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ کے ماننے والوں کو آپ کی زندگی میں وہ کامیابی نہیں ہوئی جس کو دنیا میں کامیابی کہتے ہیں۔ یہ کامیابی ان کو دو اڑھائی سو برس کے بعد حاصل ہوئی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کو اللہ تعالیٰ نے جس زمانے میں یہ بات فرمائی تھی اس کے بعد پانچ چھے سال کے اندر ہی وہ نتیجہ دکھا دیا جو تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔
یہاں جو کُونُوا اَنْصَارَ اللّٰہِ کے الفاظ ہیں اور پھر یہ جو فرمایا کہ حواریوں نے یہ کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں، اس کی تشریح میں پہلے بھی کئی مرتبہ کرچکا ہوں، یہاں پھر مختصراً بیان کیے دیتا ہوں۔
آدمی جس وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کے طور پر نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، حج کرتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے اور دوسری نیکیاں کرتا ہے تو یہ ساری اللہ تعالیٰ کی عبادتیں ہیں۔ لیکن جب آدمی اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے، اپنی جان و مال اس غرض کے لیے کھپاتا ہے کہ کفر کے مقابلے میں اللہ کا کلمہ بلند ہو، اس کا دین دنیا میں سربلند ہو، اُس وقت وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مقام سے اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی مددگاری کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ کیونکہ دنیا میں اللہ کے کلمے کو بلند ہونا اور کفر کے مقابلے میں دین اسلام کا فروغ پانا، یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا مشن ہے۔ اس مشن کی تکمیل کے لیے آدمی جو کام بھی کرے گا، خواہ وہ اپنی زبان سے تبلیغ کر رہا ہو، خواہ وہ اپنی جان، مال اور محنتیں کھپا رہا ہو، اور خواہ وہ جنگ کر رہا ہو، ان تمام حالتوں میں وہ اس مشن میں، جو دراصل اللہ کا اپنا مشن ہے، اللہ تعالیٰ کی رفاقت کرتا ہے۔ اس طرح دوسری تمام چیزیں تو عبادتیں ہیں، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی رفاقت ہے، اس لیے یہ ان عبادات کی بہ نسبت زیادہ اُونچے مرتبے کا کام ہے۔ ایک آدمی جو گوشے میں بیٹھا ہوا اللہ کی عبادت کرتا رہا، وہ واقعی عبادت کر رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ صالح آدمی ہے اور اپنا اجر پائے گا۔ لیکن جو آدمی اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے کام کر رہا ہے اور کفر کے مقابلے میں جدوجہد کر رہا ہے تو دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی رفاقت اختیار کر رہا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا رفیق ہے، کیونکہ اللہ کے کلمے کو بلند کرنا عام عبادات سے زیادہ اُونچے مرتبے کا کام رہا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ اللہ کے مددگار ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے اپنے نبی کو بھیجا ہے، وہ اس مقصد میں آکر اس کا مددگار بنتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ طاقت سے اپنے دین کو غالب نہیں کرتا، بلکہ انسانوں کو اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اسے قبول کریں یا قبول نہ کریں۔ وہ ایسا نہیں کرتا کہ کفار کی گردنیں زبردستی جھکا دے اور اہلِ ایمان سے کہے کہ آئو اور آکر ان کی جگہ تم تخت شاہی پر بیٹھ جائو، نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فکروعمل کی آزادی عطا فرمائی ہے۔ اس وجہ سے وہ ان کو مخاطب کرتا ہے کہ آئو اور اپنی رضا سے خود اپنی خواہش اور ارادے سے میری اطاعت اختیار کرو۔ اب جو شخص اپنی مرضی سے اور اپنی خواہش سے اللہ کی اطاعت اختیار کرتا ہے، وہ اللہ کی پارٹی (حزب اللہ) میں آجاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنی خواہش اور مرضی سے اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کرتا ہے، وہ شیطان کی پارٹی (حزبُ الشیطان) میں چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان دونوں پارٹیوں میں جو جدوجہد اور کش مکش ہوتی ہے تو اس جدوجہد اور پیکار میں حزبُ اللہ کا آدمی اللہ تعالیٰ کا رفیق ہے، اور حزبُ الشیطان کا آدمی اس جدوجہد میں شیطان کا رفیق ہے۔ یہ ہے اصل پوزیشن جس کو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بتایا گیا کہ تم اللہ کی مدد کرو اور اس کے مددگار بنو۔ پھر جب تم اللہ کے مددگار بن جائو گے تو اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی تائید سے نوازے گا اور کفر کی راہ اختیار کرنے والوں پر تمھیں غالب کردے گا۔ (جمع و تدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)