مارچ ۲۰۱۰

فہرست مضامین

بنگلہ دیش میں سیکولر یلغار

سلیم منصور خالد | مارچ ۲۰۱۰ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

اسلامی چھاترو شبر کے تین کارکن شہید اور:’’ سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ گرفتاریاں ڈھاکہ، سلہٹ، چٹاگانگ، راج شاہی، پبنہ، تنگائل، برہمنا باڑیہ، چاندپور، رنگ پور وغیرہ سے  عمل میں لائی گئیں‘‘ (دی ڈیلی اسٹار، ۱۳ فروری۲۰۱۰ئ)۔ فروری کا مہینہ بنگلہ دیش میں طالب علموں کی اسلامی تحریک اور جماعت اسلامی کے لیے ابتلاو آزمایش کا کڑا موسم لے کر آیا۔

اگرچہ گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران میں عوامی لیگ کا بنیادی ہدف بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر ہی رہی ہے، لیکن یہ ساری یلغار منفی پروپیگنڈے، بیانات اور دھمکیوں تک محدود تھی۔ تاہم فروری ۲۰۱۰ء کے پہلے عشرے میں لیگی حکومت نے ان پر دائرۂ حیات کو تنگ کرنے کے لیے گوناگوں اقدامات شروع کیے۔ ان واقعات کے ذکر سے ذرا پیچھے نظر دوڑاتے ہیں تو     یہ حقائق سامنے آتے ہیں۔

بھارت کا تھنک ٹینک سائوتھ ایشین اینلسز گروپ (SAAG) اپنی ۲۷ جون ۲۰۰۷ء کی تحقیقی رپورٹ نمبر۲۲۷۵ میں بھارت اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کو ’خبردار‘ کرتا ہے: ’’بنگلہ دیش میں جمہوریت کے لیے خطرہ: اسلامی چھاترو شبرہے‘‘۔ بھارت کی سرزمین سے اس نوعیت کی پروپیگنڈا رپورٹ میں لکھا ہے: ’’۱۹۷۱ء میں جب بنگالی عوام نے پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے ہتھیار اُٹھا لیے تھے، تو اسلامی چھاتروشبر کی پرانی تنظیم اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) نے اس کی مزاحمت کی تھی… اسلامی چھاترو شبر فروری ۱۹۷۷ء کوڈھاکہ یونی ورسٹی کی جامع مسجد میں تشکیل دی گئی، اور اس نے ۱۹۸۲ء میں چٹاگانگ یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کا الیکشن جیت کر تعلیمی اداروں میں اسلامی فکر کی ترویج کا کام شروع کیا۔ آج وہ بنگلہ دیش میں جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے خطرہ بن چکی ہے‘‘___ اس طرح بھارت کی طرف سے واضح ہدف دیا گیا کہ آیندہ کیا کرنا مطلوب ہے، یعنی شبر اور جماعت اسلامی کو نشانہ بنانا۔ یہ ہے وہ کھیل جوقدم بہ قدم آگے بڑھتا ہوا آج کے بنگلہ دیش کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا منظر بھی دیکھیے۔ ۲۰۰۸ء سے بنگلہ دیش جماعت اسلامی اور چھاترو شبر مسلسل عوامی لیگ کے نہایت زہریلے بلکہ گالیوں اور بے ہودہ الزامات سے آلودہ پروپیگنڈے کی زد میں رہیں، کیونکہ وہ سال انتخابات کا سال تھا۔ اسی سال الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق اپنے دستور، منشور اور لائحہ عمل میں تبدیلی کرے۔ یہ نفسیاتی، ابلاغی اور اداراتی سطح پر عجیب نوعیت کا دبائو تھا، جس نے جماعت اور اس کی برادر تنظیمات کے لیے پریشانی پیدا کی۔

۱۹ جنوری ۲۰۱۰ء کو جماعت اسلامی کے امیر مطیع الرحمن نظامی نے ’بنگلہ دیش- بھارت مشترکہ اعلامیے‘ کو اہلِ بنگلہ دیش کی معاشی زندگی کے لیے بُری طرح نقصان دہ معاہدہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ ’’جماعت اسلامی: بھارت-بنگلہ دیش معاہدے، آئین میں پانچویں ترمیم کی منسوخی اور مجوزہ تعلیمی پالیسی کے منفی پہلوئوں کے خلاف عوام میں بیداری پیداکرنے کی مہم چلائے گی‘‘(دی ڈیلی اسٹار، ۲۰ جنوری ۲۰۱۰ئ)۔ اس بیان کے صرف پانچ روز بعد، یعنی ۲۴ جنوری کو ’’بنگلہ دیش الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا کہ وہ جماعت اسلامی کا چارٹر تبدیل کریں، اپنے پروگرام میں سے اس نکتے کو حذف کریں کہ جماعت، بنگلہ دیش میں منظم جدوجہد کے ذریعے اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہے۔ پھر جماعت اسلامی کے دستور کی ان بہت سی دفعات کو ختم کیا جائے جو اپنے وابستگان کو اسلامی نظام کے نفاذ کی راہیں دکھاتی ہیں، ایسا لائحہ عمل ریاستی دستور کے مزاج کے یک سر منافی ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی نے اپنے دستور میں اور تمام تنظیمی سطحوں پر قائم شدہ کمیٹیوں میں عورتوں کو ۳۳ فی صد نمایندگی دینے کا بھی اہتمام نہیں کیا ہے۔ پھر جماعت اسلامی نے غیرمسلموں کو پارٹی ممبرشپ دینے کے اعلان کے باوجود انھیں پارٹی پروگرام کا پابند بنایا ہے، اور وہ پروگرام اسلامی نظام کا نفاذ ہے، یہ بات ان غیرمسلموں سے امتیازی سلوک روا رکھنے کی دلیل ہے۔ ان تمام نکات کی روشنی میں اگر جماعت اسلامی نے اپنے معاملات کو دی گئی ہدایات کے مطابق درست نہ کیا توری پریزنٹیشن آف دی پیپلزآرڈر (RPO) کے تحت جماعت اسلامی کی موجودہ حیثیت تحلیل کر دی جائے گی‘‘ (ایضاً، ۲۵ جنوری ۲۰۱۰ئ)

ابھی الیکشن کمیشن کے اس نادر شاہی حکم کی صداے بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ آناً فاناً ۳فروری کو ڈھاکہ یونی ورسٹی میں ایم اے کے طالب علم اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکن ابوبکر صدیق کو قتل کر دیا گیا۔ ۱۱فروری کو پولیس ہی کی موجودگی میں اسٹوڈنٹس لیگ کے غنڈا عناصر نے راج شاہی یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کے کارکن اور ایم اے فائنل کے طالب علم حفیظ الرحمن کو گردن میں گولی مار کر قتل کیا، اور دیر تک میت کو گھیرے رکھا مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہ کی۔ ۱۲فروری کو چٹاگانگ یونی ورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر کے کارکن محی الدین کو قتل کر دیا گیا، اور تادمِ تحریر تدفین کے لیے میت نہیں دی گئی۔ ساتھ ہی اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو چٹاگانگ میڈیکل کالج، چٹاگانگ یونی ورسٹی اور محسن کالج سے گرفتار کرنا شروع کیا ،اور پہلے ہی ہلے میں ۹۶کارکنوں کو جیل میں دھکیل دیا گیا۔ ۹فروری کو راج شاہی یونی ورسٹی میں چھاترولیگ کا حامی  جاں بحق ہوا، اور اس واقعے کو بنیاد بناکر پورے ملک میں جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کی اندھادھند گرفتاریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سرکاری ٹیلی ویژن، اخبارات، وزرا اور پولیس افسران کے بیانات نے فضا کو مزید دھواںدار بنا دیا۔ داخلہ امور کے وزیرمملکت شمس الحق ٹوکو نے کہا: ہم راج شاہی یونی ورسٹی اور راج شاہی شہر سے اسلامی چھاترو شبر اور جماعت اسلامی کو ختم کر کے دم لیں گے‘‘۔ اس کے پہلو بہ پہلو یہ خبر بڑے تسلسل کے ساتھ نشر کرنا شروع کی گئی: ’’امریکا، اسلامی چھاترو شبر کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فیصلہ کر رہا ہے‘‘۔

جماعت اسلامی کے امیرمطیع الرحمن نظامی اور جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے بیانات میں مطالبہ کیا کہ ’’راج شاہی یونی ورسٹی کے الم ناک واقعے کے ساتھ دیگر تعلیمی اداروں میں قتل و غارت گری کے تمام واقعات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں تاکہ ذمہ داران کا تعین ہوسکے، اور اس منفی پروپیگنڈے سے پیدا شدہ فضا کو صاف اور حقائق کو منظرعام پر لایا جاسکے۔ جماعت اسلامی پُرامن، جمہوری، عوامی اور دعوتی پروگرام پر یقین رکھتی ہے، جس میں تشدد کا راستہ اپنانے کی کوئی گنجایش نہیں۔ (ایضاً، ۱۲فروری ۲۰۱۰ئ)

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی نے اس کرب ناک صورت حال پر ۱۷فروری کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا: ’’جوں ہی مَیں نے ’بنگلہ دیش بھارت معاہدے‘ پر نقدو جرح کی تو بنگلہ دیش کی اسلامی قوتوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو قتل کیا گیا، جماعت اسلامی اور شبر کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، کالجوں اور ہاسٹلوں سے پکڑ کر جیل خانوں میں پھینکا گیا ہے۔ حکمران عوامی لیگ نے اپنی پارٹی کے مسلح غنڈوں کو من مانی، پُرتشدد کارروائیاں کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے‘‘۔ اس مضمون میں بیان کردہ دیگر واقعات کا تذکرہ کرنے کے بعد جناب نظامی نے یہ بھی بتایا کہ: ’’۱۱فروری کو جہاں ایک طرف اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کو مارا گیا، وہاں دوسری جانب راج شاہی میں جماعت اسلامی کے امیر اور اسکول ٹیچر عطاء الرحمن کو کمرۂ امتحان سے تشدد کرتے ہوئے گرفتار کیا، اور پانچ روزتک ٹارچر سیل میں رکھا گیا۔ ۱۲ فروری کو جماعت اسلامی چٹاگانگ کے امیر اور ممبر پارلیمنٹ شمس الاسلام کو پُرامن احتجاجی جلوس کی قیادت کرنے پر اس حالت میں گرفتار کیا کہ عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں نے پولیس کی موجودگی میں جلوس پر دھاوا بول دیا اور ۱۰۰ سے زیادہ کارکنوں کو مارتے پیٹتے ہوئے جیل میں دھکیل دیا۔ ۱۲ فروری ہی کو جماعت اسلامی سلہٹ کے پُرامن اجلاس پر لاٹھی چارج کیا گیا اور عوامی لیگ کے مسلح افراد نے حملہ کرکے بیسیوں کارکنوں کو پکڑپکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ مسلح غنڈوں نے جماعت اسلامی اور اسلامی شبر کے کارکنوں کے گھروں پر حملے کیے، دکانوں اور تعلیمی اداروں میں گھس کر کارکنوں کو سڑکوں پر لایا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس موقعے پر پولیس خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی۔ یہ واقعات فسطائیت کی تصویر اور جمہوریت کی توہین اور انسانیت کی تذلیل ہیں، جنھیں کوئی باشعور فرد برداشت نہیں کرسکتا‘‘۔

ان واقعات کی کڑیوں کو ملانے سے پیداشدہ صورت حال، مستقبل کے ایک سنگین منظرنامے کی طرف توجہ دلاتی ہے:

                ۱-            سیکولر قوتیں، موجودہ عالمی فضا سے فائدہ اُٹھا کر، دینی قوتوں کو میدان سے باہر نکالنے کے لیے ہرمنفی حربہ استعمال کریں گی۔

                ۲-            اس شاطرانہ عمل کے لیے امریکا اور بھارت سے ہمدردی کا دم بھرتے ہوئے ، ان کی ڈپلومیٹک حیثیت سے فائدہ اٹھائیں گی۔

                ۳-            مسلم دنیا میں چونکہ ایسی پٹھو حکومتوں کو امریکا، بھارت اور اسرائیل وغیرہ کی پشت پناہی حاصل ہے، اس لیے ان کے لیے فسطائی ہتھکنڈے استعمال کرنا سلامتی کونسل کی نظر میں جائز تصور ہوں گے۔

                ۴-            اسلام اور اسلامی پروگرام کی اشاعت و ترویج کے جملہ اداروں کے خاتمے کے لیے مسلم قومی حکومتیں کسی بھی انتہا تک جاسکتی ہیں۔

                ۵-            یہ حکومتیں، اسلامی پارٹیوں کے پروگرام کے چھوٹے سے چھوٹے جملوں تک کے خاتمے کی کوشش کریں گی۔ جہاں جہاں اسلامی تحریک، مقتدر قوتوں کے لیے سیاسی چیلنج بنیں گی، وہاں پر انھیں اسی نوعیت کے اقدامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

                ۶-            مسلم اُمہ میں اس صورت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا تو یہی ماڈل دیگر مسلم ممالک میں بھی روبۂ عمل آسکتا ہے۔

اندریں حالات بنگلہ دیش میں اسلامی تحریک کے مظلوم کارکنوں اور حامیوں سے یک جہتی کے ساتھ اس سوال پر غوروفکر کی ضرورت ہے کہ ایسے کسی خطرے کا مداوا کس طرح کیا جائے؟___ اس سوال کا جواب ایک ہی ہے: اور وہ یہ کہ: ’’ایمان اور کردار کی مضبوطی، تنظیم کی پختگی، دعوتِ دین کا شوق، علم و فضل میں گہرائی اور اپنے دائرے میں سمٹنے کے بجاے معاشرے کے اندر پھیل جانے کا جذبہ‘‘۔ اگر یہ چیزیں وافر مقدار میں موجود ہوں گی تو یقینا ایسی یلغار کو روکا بلکہ پسپا ہونے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔