دورِحاضر میں تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا اور منظرِ جہاں (سنیاریو) نے ایک طرف تو تہذیب اور مذہب کی مسلّمہ اصولوں اور روایات کو ایک نئے زاویے سے دیکھنا اور پرکھنا شروع کردیا ہے، دوسری طرف جدیدیت اور عالم گیریت نے اپنے ہی کچھ ’اصول‘ وضع کرلیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سے مسائل کی نئی تعبیرات اور نئی صورت حال میں اجتہاد کی ضرورت بالکل فطری ہے۔ ایک طبقہ اپنی تہذیب اور مذہب پر ایمان رکھتا ہے اور دوسرا طبقہ ’’مسلّمات‘‘ سے جان چھڑا کر ’نئے تقاضوں‘ اور مذہب کی نئی تعبیرات میں کشش محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے گذشتہ نصف صدی سے اجتہاد کی ضرورت اور عملاً اجتہاد کو بروے کار لانے کی طرف توجہ بڑھ گئی ہے۔
زیرنظر فقہی مباحث میں اسی صورتِ حال کے پیش نظر کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں متعدد مسائل پر بحث و مباحثے اور مطالعے کی کوشش کی گئی ہے، مثلاً lجدید عالمی پس منظر دارالاسلام اور دارالحرب کا تصور
مولانا سید جلال الدین عمری (پ: ۱۹۳۵ئ) بھارت کے ایک جیّد عالمِ دین اور ممتاز محقق اور اسکالر ہیں۔ ایک طرف انھیں قرآن وسنت اور علومِ اسلامیہ کے تفسیری اور فقہی ذخیرے پر دسترس حاصل ہے اور دوسری طرف وہ جدید اصولِ تحقیق سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ (وہ علی گڑھ کے ایک ممتاز تحقیقی ادارے ’ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی‘ اور دہلی کی ’تصنیفی اکادمی‘ کے صدر کے فرائض انجام دے رہے ہیں)۔ اس وقت جماعت اسلامی ہند کی امارت کی ذمہ داری چونکہ انھی پر ہے، اس لیے فقہی مسائل پر مباحث میں ان کا قلم بہت محتاط ہے۔ مولانا عمری اصولی مباحث میں ائمہ اور اکابر علما کی آرا اور قدیم علوم سے نظائر کو تو بڑی خوبی سے پیش کردیتے ہیں لیکن موجودہ (خصوصاً بھارت کی) صورت حال میں ان اصول و نظائر کا عملی اطلاق کیسے ہوگا؟ اس سلسلے میں وہ کوئی واضح اور دوٹوک بات نہیں کرتے، مثلاً: غیرمسلموں سے ازدواجی تعلقات کے ضمن میں بھارت میں ہندومسلم شادیوں کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے، عمری صاحب نے اہلِ کتاب سے شادی پر تو اظہارِ خیال کیا ہے مگر ہندو مسلم شادیوں کے مسئلے کو نہیں چھیڑا۔ غالباً اس لیے کہ بہت سی پیچیدگیاں ہونے کا احتمال تھا۔ ایک اور سبب یہ ہوسکتا ہے کہ وہ مولانا مودودی کے مکتب ِ فکر کے پیروکار ہیں، اس لیے ایسی کوئی بات کرنے سے گریزکرتے ہیں جو فتوے سے قریب تر ہو۔
خوبی کی ایک بات یہ بھی ہے کہ مصنف علّام نے زیرنظر فاضلانہ مقالات کو ’ایک طالب علم کے قلم سے‘ اور ’موضوعات کے تعارف‘ کے طور پر پیش کیا ہے، اور قارئین سے خامیوں اور فروگذاشتوںکی نشان دہی کرنے کی درخواست کی ہے۔ اُردو کی علمی دنیا میں اس کتاب کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مصنف نے پتے کی بات کہی ہے کہ ’’انسانوں کی اکثریت اپنی فطری کاہلی کی وجہ سے چیزوں کو گہرائی میں دیکھنے کی عادی نہیں ہوتی‘‘۔ شاید اسی وجہ سے وہ گانے بجانے اور موسیقی کو محض تفریح کا ذریعہ اور ’مقامی ثقافت کا اظہار‘ سمجھتے ہیں۔ کیلے فورنیا کی ایک مسجد کے امام طاہرانور کے نزدیک اخلاق اور معاشرت پر موسیقی کے منفی اثرات، منشیات، جنسی بے راہ روی اور خودکشی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ (ص ۱۰)
ڈاکٹر گوہر مشتاق نہ تو معروف معنوں میں عالمِ دین ہیں، نہ انھوں نے علومِ دینیہ میں کوئی سند حاصل کی ہے، مگر قرآن و حدیث کے عالمانہ مطالعے کی بنیاد پر، انھوں نے موسیقی کی حلت و حرمت کے موضوع پر ایک قابلِ لحاظ مفید اور عمدہ کتاب تیار کی ہے۔ موسیقی سے مختلف آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویؐ جمع کی ہیں اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں انسانی جسم پر موسیقی کے اثرات بتائے ہیں۔ پھر معاشرے پر موسیقی کے مہلک اور دُوررس اثرات کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے موضوع سے متعلق مغربی مصنفین کی تحقیقات کو بھی کھنگالا، نتیجہ یہ سامنے آیا کہ موسیقی اکثر صورتوں میں سفلی جذبات کو اُبھار کر بدکاری، نشے اور خودکشی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے بہت سے واقعات حوالوں کے ساتھ درج کیے ہیں۔ یہ بھی بتایا ہے تحت الشعور کی گمراہی میں موسیقی کا کیا کردار ہے۔ پھر موسیقی کی حرمت سے متعلق صحابہ کرامؓ، چاروں ائمہ اور قدیم و جدید علماے اسلام کی آرا پیش کی ہیں۔خلاصہ یہ ہے: سواے دف کے آلاتِ موسیقی کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ (ص ۱۲۰)
کچھ لوگوں نے ’اسلامی موسیقی‘ کا شوشہ چھوڑا ہے۔ مصنف نے اسی گمراہی کو بھی بہ دلائل رد کیاہے اور اسی رد میں صوفیاے کرام کی اسلامی موسیقی (سماع) بھی شامل ہے۔ تائید میں (حدیث میں مہارت رکھنے والے) صوفیہ ہی کے دلائل پیش کیے ہیں۔ اس طرح مؤلف نے ’’موسیقی روح کی غذا ہے‘‘ کے مقبولِ عام تصور کو بھی رد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موسیقی ہماری روح میں ایک خلا اور بے حسِی اور لاپروائی پیدا کرتی ہے۔ اور یہ نتیجہ انھوں نے قرآن حکیم اوربعض واقعات کی روشنی میں نکالا ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں مصنف نے ناجائز اور حرام تفریحات (جوا، شراب نوشی، موسیقی، فحش میڈیا اور لٹریچر، ناچ، جانوروں اور پرندوں کی لڑائی) کے مقابلے میں جائز اور حلال تفریحات (پیدل دوڑ، گھڑسواری، کشتی، تیراکی، تیراندازی، قراء تِ قرآن کا سننا، دوستوں کے ساتھ پکنک پر جانا، اسلامی نظمیں سننا، دوستوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ مزاحیہ اور ہلکی پھلکی گفتگو کرنا وغیرہ) کا ذکر بھی کیا ہے۔ مصنف نے اپنے دلائل کو اس طرح ختم کیا ہے: ’’آج مسلمانوں کا موسیقی میں استغراق ایک بیماری نہیں، بلکہ ایک بڑی وَبا کی علامت ہے، یعنی حُبِّ دنیا اور حُبِّ نفس۔ یہ مسلمانوں کی قرآن وسنت سے دُوری کا نتیجہ ہے۔ اگر سوسائٹی کی اکثریت بُرائی کررہی ہے تو یہ بات اس برائی کو جائز نہیں بنادیتی‘‘ ( ر - ہ)
امریکی دانش ور جیریمی سکاہل نے ’مہذب‘ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے چہرے سے نقاب سرکاتے ہوئے اس کتاب میں دنیا کے بہت سے منظم اور مسلح کرائے کے ان قاتلوں کا تذکرہ کیا ہے جو ریاستی اداروں، قانون اور اخلاقیات سے بالاتر رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ یہ پرائیویٹ آرمی ہے جس کا خیال امریکی وزیردفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے نائن الیون کے واقعے سے پہلے پیش کیا تھا اور جس کو ایک متعصب عیسائی ایرک پرنس نے امریکا میں قائم کیا۔ دنیا کی واحد سوپرپاور کے غلبے کو قائم رکھنے کے لیے بنائی جانے والی اس پرائیویٹ آرمی کا مرکز امریکی ریاست نارتھ کیرولینا میں ہے اور ۷ہزار ایکڑ پر قائم اس مرکز میں ہزاروں انسانوں کو مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے معصوم انسانوں کا خون بہانے کی تربیت دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ بلیک واٹر انٹرنیشنل نے بعد میں اپنا نام تبدیل کرلیا اور آج ورلڈ وائڈ اور کئی ذیلی کمپنیوں کے نام سے کام کررہی ہے۔ دنیا بھر کے سفّاک قاتلوں، ماہر دہشت گردوں، بم دھماکوں کے ذریعے موت کی نیند سلانے والوں اور امریکیوں کے لیے مسلمانوں کی مخبری کرنے والے مسلمانوں کو اپنی صفوں میں بڑی رقومات کے عوض شامل کرتی ہے۔ یہ ایک قوم کے لوگوں کو دوسری قوم کے خلاف ہی نہیں ایک قوم کے افراد کو اسی قوم کو غلام بنانے اور غلام رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ایرک پرنس اپنے انٹرویو میں دنیا بھر سے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔ ترقی و تعمیر کے معصوم ٹھیکوں کی آڑ میں امریکی بجٹ سے اس کو اربوں ڈالر کے مالی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ امریکی سی آئی اے کے اہداف حاصل کرنے کے لیے یہ تنظیم دانش وروں، صحافیوں اور اینکرپرسنز کو بھی بھاری مشاہرے پر خریدتی ہے اور ان کی مناسب تربیت بھی کی جاتی ہے۔
بلیک واٹر امریکی سامراجی منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے عراق، افغانستان، افریقہ، جنوبی امریکا، ہونڈراس اور ایل سلواڈور کے بعد اب پاکستان میں کام کر رہی ہے۔ یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ امریکی بالادستی اور امریکی ہتھیاروں کی صنعت کی ترقی کے لیے دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگ جاری رہنا امریکی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے بلیک واٹر کے ذریعے ایک نئی حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے۔
جیریمی سکاہل کی زیرنظر کتاب کی اشاعت کے بعد، اس کے چند مضامین دی نیشن میں چھپے ہیں جن کا زیادہ تفصیل سے پاکستان میں اس تنظیم کی کارروائیوں کا ذکر ملتا ہے۔ ایرک پرنس نے بھی ایک میگزین میں چھپنے والے انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ اس کی تنظیم سی آئی اے کے حکم پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قتل کرنے کے لیے ان کے قریب پہنچ چکی تھی۔ گو کہ کتاب کا ترجمہ مزید سلیس اور رواں کیا جاسکتا تھا، بایں ہمہ، موجودہ صورت میں بھی یہ ایک مفید کاوش ہے۔ (معراج الہدیٰ صدیقی)
زیرنظر کتاب معروف صحافی ڈاکٹر فیاض عالم کے کالموں کا مجموعہ ہے جو بالخصوص پاکستان کی تاریخ کے ایک سیاہ باب اور ایک فوجی آمر جنرل پرویزمشرف کے دورِ جبر کا احاطہ کرتے ہیں اور اسی حوالے سے یہ کالم، پاکستان کی ایک تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کسی زمانے میں صحافت، شخصی صحافت پر مبنی تھی۔ ہماری صحافتی تاریخ اس پر شاہد ہے اور مولانا محمدعلی جوہر، مولانا ظفرعلی خاں اور شورش کاشمیری کے نام اس حوالے سے معروف ہیں۔ اب، جب کہ صحافت صنعت بن چکی ہے مگر مشنری جذبہ بھی موجود ہے، شخصی صحافت نے ’کالم نگاری‘ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ بہرحال کالم بھی جرأتِ اظہار اور مؤثر ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ بن چکے ہیں۔ اس لیے قارئین، اپنے پسندیدہ کالم نگاروں کی تحریروں کے منتظر رہتے ہیں۔
کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت موجود تناظر کو تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہوئے حالات کا تجزیہ کرنا ہے۔ ایک کالم ’حرفِ غلط‘ میں حقوقِ نسواں بل کی مذمت میں اکبر کے دین الٰہی کے انجام سے بات شروع کرتے ہیں۔ عدالتی طاقت بیان کرنے کے لیے وہ فلپائنی صدر السٹراڈا کی مثال دیتے ہیں۔ عوامی طاقت کے بیان میں ۲۲ فروری ۱۹۸۶ء کو فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں دیے جانے والے عوامی دھرنے کی مثال لاتے ہیں۔ یہ انداز و اسلوب قارئین کی دل چسپی کا باعث ہے اور عوام کے لیے بیداری کا سبب بھی۔ ان مثالوں سے اس تاریک دور میں اُمید کی کرن دکھائی دیتی ہے۔ ملکی حالات بالخصوص کراچی کے حالات کا خاص طور پر تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اداروں کی کمزوری، ان کے کھوکھلے پن اور ان کے اندر ہونے والی منفی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے عوام کو اصل حقائق سے روشناس کروایا گیا ہے۔ تحریر شُستہ ورواں اور اسلوبِ نگارش عمدہ ہے۔ ایک افسانوی تجسّس کالم کی دل چسپی کو برقرار رکھتا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب فکرانگیز ہے اور پوشیدہ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ (قاسم محمود احمد)
دورِ جدید میں جدید ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ کی بدولت فاصلے سمٹ گئے ہیں اور کاروبار وسعت اختیار کرچکے ہیں، اور باہمی لین دین کی نت نئی شکلیں اور طورطریقے سامنے آرہے ہیں۔ بعض ممالک میں اثاثوں کی ملکیت اور مختلف قسم کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی کی جارہی ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) نے بھی قواعد و ضوابط تیار کیے ہیں، اور اس ضمن میں پاکستان میں بھی قانون سازی ہوچکی ہے۔ کیا یہ سب قوانین اور قواعد و ضوابط شریعت کے تقاضوں کے مطابق ہیں؟ یہی جائزہ، محاکمہ اور تجزیہ زیرنظر کتاب کا موضوع ہے۔
حقوق کے معانی، قرآن و حدیث میں لفظ ’حق‘ کا استعمال دیگر اصطلاحات کی لغوی اور اصطلاحی تشریحات کے بعد، حق سے متعلق احکام، اس کی مثالیں اور حق کی منتقلی (transfer of rights) وغیرہ سے بحث کی گئی ہے۔ ایک باب کا عنوان ’حقوق کی خریدوفروخت‘ ہے۔ اس باب میں فاضل مصنف نے ’بیع حقوق، مسئلہ کا تعارف‘ کا عنوان باندھا ہے۔ بیع، مال، منافع(مراد شے کی منفعت)کی بیع کے حوالے سے مسالکِ اربعہ کا نقطہ ہاے نظر پیش کیا ہے۔ مزیدبرآں ’خدمت اور تعلیم و تربیت‘، ’حق تعلّی‘، ’حق پگڑی‘، ’حق شرب‘ وغیرہ کے حوالے سے بحث کی گئی ہے اور قدما اور عصرِحاضر کے اہلِ علم کی آرا کا احاطہ کیا گیا ہے۔
’حقوق کے قابل معاوضہ ہونے اور نہ ہونے کے حوالے سے حقوقِ اصلیہ، حقوقِ ضروری اور حقوقِ عرضیہ کے بارے میں بحث کی گئی ہے، جب کہ مروجہ حقوق جن کی خرید وفروخت ہوتی ہے، وہ بھی زیربحث آئے ہیں۔ ان میں گزرنے کا حق، پانی کی نکاسی، روڈ ٹیکس، پُلوں پر ٹیکس، فضا سے گزرنے کا حق، پینے کے پانی پر ٹیکس، گیس سپلائی اور اس کی خرید وفروخت، حقوق تعلّی، ٹریڈمارک، تجارتی لائسنس، پگڑی، زرِضمانت ایجادات اور حق تصنیف و تالیف وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے موضوع پر یہ کتاب پڑھنے اور سوچنے والوں کے لیے بنیاد کا کام کرسکتی ہے۔ (میاں محمداکرم)
بچوں کو باصلاحیت، مہذب، پُراعتماد اور عزتِ نفس کا حامل بنانے کے لیے ان کی نفسیات اور اُن کی ضروریات کو سمجھنا بے انتہا ضروری ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کیے گئے کئی اقدامات، منفی نتائج بھی پیدا کردیتے ہیں۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو کہ جہاں بچوں کے حوالے سے مسائل نہ ہوں، اسی لیے والدین کو احتیاط، توجہ اور منظم زندگی کی ضرورت ہے۔
فاضل مصنف نے اس کتاب میں بچوں کو سمجھنے اور اُن کے مسائل کا سائنٹفک انداز میں حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بہتر الفاظ اور بہتر رویے سے بچے کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ اس پہلو پر تفصیلی بحث کی گئی ہے کہ جب تک بچوں کو سنا اور قبول نہیں کیا جاتا، تب تک بچہ اپنے اندر تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اُن کی یہ بھی تجویز ہے کہ بچوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے دھماکے سے پھٹ پڑنے کی دہشت ختم کر دیں۔ بچوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی ناکامیوں کے بارے میں سوچیں اور اس کا جائزہ لیں۔ بچوں کو غم برداشت کرنے کی تربیت بھی دیں۔ چین میں یہ کہاوت عام ہے: ’’غم کو طاقت میں تبدیل کردو‘‘۔
اسی طرح توجہ دلائی گئی ہے کہ گھر ایسی یونی ورسٹی ہے کہ جہاں سکھائی جانے والی بات، تادمِ مرگ اعمال میں شامل رہتی ہے۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ بچے کے مثبت اقدامات کی بھرپور تائید کی جائے اور اس سے بے جا توقعات باندھ کر دبائو نہ ڈالا جائے۔ بچوں کو مکالمے میں براہِ راست شریک کیا جائے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ جن بچوں کے لیے ۲۴گھنٹے محنت کی جاتی ہو اُن سے والدین ۲۴منٹ روزانہ بات کرنے کی فرصت نہیں پاتے۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران ایسے درجنوں قیمتی مشورے ملیں گے۔ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کی جانب سے خاندان سیریز کی یہ پہلی کتاب ہے۔ کہیں کہیں واقعات کی طوالت کھٹکتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)