برسرِاقتدار طبقے، خاص طور پر پاکستان کی بانی جماعت، اور اُس کے بطن سے جنم لینے والی پارٹیوں کے وابستگان کی اخلاقیات، ابتدا ہی سے محلِّ نظر رہی ہیں___ خرابیاں گوناگوں تھیں: ناجائز الاٹمنٹیں، رشوت ستانی، نااہلوں کا تقرر، ناجائز سفارشیں، انتخابات میں بدعنوانیاں، قانون کی پامالی، اقربا پروری، مقامی، مہاجر اور برادریوں کا تعصب وغیرہ وغیرہ۔ یہ خرابیاں دورِ ملوکیت اور دورِ غلامی کی پروردہ تھیں اور کسی بھی سطح کا اختیار رکھنے والے حاکم یا ماتحتوں کے شعور کا حصہ اور ایک طرح سے ان کی ’عادتِ ثانیہ‘ بن چکی تھیں___ اس دور میں زیادہ تر وزرا، ارکانِ اسمبلی اور پارٹی لیڈر طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے شخصی سطح پر ایک گونہ اخلاقیات کا خیال ضرور رکھتے تھے اور خود کو ایک خاص سطح سے نیچے نہیں گرنے دیتے تھے۔ گو ان کی اخلاقیات ان کی روایتی جاگیردارانہ نوعیت کی ہوتی تھی۔
انھیں یہ خوف بھی لاحق رہتا تھا کہ ان پر کوئی الزام نہ لگ جائے۔ اگر کسی شخص پر بدعنوانی کا الزام لگتا تو وہ پریشان ہوتا اور شرمندگی محسوس کرتا۔ بعض اوقات تردید یا اپنی صفائی پیش کرکے، اس الزام سے بری الذّمہ ہونے کی کوشش کرتا۔ گو کہ اس طبقے کی اخلاقیات کا اسلامی اخلاقیات سے تعلق بہت کم ہوتا تھا، وہ صرف دنیاوی یا ظاہری اخلاق کی اتنی مقدار کا قائل تھا جس سے انسان ’منہ دکھانے کے قابل‘ رہے___ مختصراً یہ کہ معاشرے، حکومت اور حکمرانی کی تمام تر خرابیوں کے باوجود، زوال پذیر ’اخلاقیات‘ ایک مستحسن ’قدر‘ کے طور پر تسلیم کی جاتی تھی۔
تاریخِ پاکستان کی پہلی ربع صدی میں سیاست اور قانون کی حکمرانی میں اخلاقیات کا گراف زوال پذیر ہی رہا، مگر پستی کی طرف اس کی رفتار نسبتاً کم کم تھی۔ اس گرتے ہوئے گراف میں پہلا ’کریش‘ اس وقت ہوا جب ہمارے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے اقتدار سنبھالا۔ انھوں نے عنانِ حکومت ہاتھ میں لیتے ہی مخالفین کی ٹانگیں توڑ دینے، زبان گُدّی سے کھینچ لینے اور ہزاروں کے ہجوم میں علی الاعلان بدکلامی اور گالم گلوچ (قذافی اسٹیڈیم، لاہور) کا نمونہ پیش کرکے ایک ’نئی سیاسی اخلاقیات‘ کی طرح ڈالی۔ چند سالہ دورِاقتدار میں اس بے چاری جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور اخلاقیات پر کیا کیا نہ ستم ہوئے۔ اُس تفصیل سے قطع نظر کرتے ہوئے صرف یہ کہنا کافی ہوگا کہ گذشتہ ۳۰؍۳۵ برسوں میں ہماری ۶۳سالہ تاریخ کے صاحبانِ اقتدار نے اخلاق و قانون کے گراف کو نیچے لے جانے میں بڑی مستعدی سے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اخلاق ایک طرح کا غیرتحریری قانون ہے، جو لوگ اخلاق کی پامالی کو جائز سمجھتے تھے، وہی قانون شکنی میں بھی آگے آگے رہے۔ قانون شکنی ملکی قوانین کی ہو یا مذہبی اصولوں کی، اُنھیں یہ کہنے میں ذرہ برابر عار نہیں رہا کہ ’’ایفاے عہد، قرآن و حدیث تو نہیں جس کی پابندی ضروری ہو‘‘۔
بداخلاقی، بدکلامی اور قانون شکنی کا یہ رجحان شجرِخبیثہ کی طرح خوب خوب برگ و بار لے آیاہے۔ مثالیں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، کسی بھی دن کا اخبار اُٹھا کر دیکھ لیجیے___ ارکانِ اسمبلی (مرد و زن) اپنی گفتگوئوں میں (ایوان کے اندر یا باہر) ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے، ایک دوسرے کے لتّے لیتے، ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظر آئیں گے___ انھی دنوں کی ایک سرخی دیکھیے: ’’پنجاب اسمبلی: سینیروزیر اور اپوزیشن لیڈر کے ایک دوسرے کو جوتے اُٹھانے کے طعنے، لوٹے لٹیرے کے نعرے‘‘(نواے وقت، ۱۱؍فروری ۲۰۱۰ئ)۔ اِنھی دنوں آپ نے ایک اور اخباری سرخی بھی ملاحظہ کی ہوگی، جو کچھ اس طرح تھی کہ ’’بسنت ضرور منائوں گا۔ عدلیہ انصاف پر توجہ دے ٹریڈ یونین نہ بنائے‘‘ (ایضاً، ۲۱ فروری)۔یہ بیان اس شخص کا ہے جو وطنِ عزیز کے سب سے بڑے صوبے کا حاکمِ اعلیٰ ہے۔ پنجاب میں پتنگ بازی قانوناً جرم ہے۔ قانون توڑنے اور علی الاعلان ارتکابِ جرم کا عزم) دیدہ دلیری کی وہ انتہا ہے، جس کے بارے میں مولانا حالی نے کہا تھا ع
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اخلاقی گراوٹ اور قانون شکنی ایک عالم گیر بیماری ہے، اسی لیے دنیا کے مختلف معاشروں میں اخلاقیات کا معیار خاصی نچلی سطح تک چلا گیا ہے۔ اگر اس مفروضے کو تسلیم بھی کرلیا جائے، تب بھی خیرِاُمت کے لیے اور ملّی تشخص کی دعوے دار قوم کے لیے، جس نے ایک ملک اسلامی احکامِ شریعت کے نفاذ کے لیے حاصل کیا ہو، یہ صورتِ حال ناقابلِ رشک ہی نہیں، انتہائی تشویش کا باعث بھی ہے۔ چند صدیاں پہلے یورپ میں سیاست، معیشت اور حکمرانی نے مذہب سے پیچھا چھڑایا، بایں ہمہ اس نے ایک درجے کی اخلاقیات کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اخلاقی ضابطوں کی پابندی، کاروبار میں ایفاے عہد، نظم و ضبط اور بعض دوسرے اصول اور ضابطے برقرار رکھے۔ اِسی اخلاقیات کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی نے انھیں زندہ رکھا ہوا ہے۔
صرف لاہور میں پانچ برسوں کے دوران ۱۷۱؍ افراد پتنگ بازی کی بھینٹ چڑھ گئے جن میں ۵۱ کم سِن بچے اپنے والدین کے ساتھ موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے ڈور پھرنے سے جاں بحق ہوئے (نواے وقت، ۲۱؍ فروری)، مگر بڑے صوبے کے لاٹ صاحب پتنگ مافیا کے لیڈر کے طور پر قانون اور حکمرانی کو للکار رہے ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا ؎
ہر اِک بات پر کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے؟
تمھی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
اندازِ گفتگو انسان کی شخصیت کو بے نقاب کرتا ہے۔ غالب اپنے مخاطب کے ذرا سے بدلے ہوئے اندازِ گفتگو سے بدمزہ ہوئے تھے اور ہم اس نوبت کو پہنچ چکے ہیں کہ روزانہ اخبار کے ہرہرصفحے پر چھپنے والے نمونہ ہاے بدکلامی و بداخلاقی کا مطالعہ، ایک ’معمول‘ بن چکا ہے۔ قائدین کرام کی عظیم اکثریت بے بنیاد دعوے کرنے سے نہیں چوکتی۔ اگر کہیں سے گرفت کا اندیشہ ہو تو صاف جھوٹ بولتے ہوئے تردید کردیتے ہیں۔ چونکہ قانون کے رکھوالے خود قانونِ شکن بن گئے ہیں اِس لیے علی الاعلان ’پاکستان نہ کھپے‘ کہنے والے (سندھ کے وزیرداخلہ سمیت) سبھی بدستور اپنے عہدوں پر قائم ہیں۔ اگر معاشرے کا تعلیم یافتہ اور دین دار طبقہ بیدار ہوتا تو قانون شکنی کے مجرمانہ اعلان پر، صوبہ پنجاب کے حاکمِ اعلیٰ کے خلاف اتنا احتجاج ہوتا کہ آیندہ انھیں اس طرح کی بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے سوا سو سال پہلے ۱۸۸۶ء میں یہ رُباعی کہی تھی :
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مَد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے