قاہرہ کی معروف خاتون ڈاکٹر امیرہ دسوقی بتا رہی تھیں، رات ۲ بجے پولیس کی بھاری نفری نے ہمارے گھر اور ملحقہ علاقے کو ہر جانب سے گھیرلیا۔ پھر پولیس والے گھر کے اندر بھی آگئے، تلاشی لیتے اور پوچھ تاچھ کرتے رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ پولیس والوں کا رویہ خلافِ معمول بدتمیزی سے پاک اور مؤدبانہ ہے۔ ان کا سربراہ آفیسر بھی بار بار معذرت کر رہا تھا۔ میں نے اپنے شوہر ڈاکٹر محمد الدسوقی سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ اس آفیسر کی والدہ شدید بیمار ہے، اور وہ اس کا علاج مجھ سے کروا رہا ہے۔ کچھ دیر تلاشی کے بعد وہ میرے شوہر کو گرفتار کرکے لے گئے۔
۸ فروری کی شب صرف ڈاکٹر محمد ہی نہیں مصر کے مختلف شہروں سے اخوان المسلمون کے ۱۶ اہم رہنمائوں کو گرفتار کیا گیاتھا۔ ڈاکٹر الدسوقی کی طرح ان کی اکثریت معاشرے کے نمایاں ترین اور خدمت گزار افراد پر مشتمل تھی۔ ڈاکٹر محمود عزت طویل عرصے سے اخوان المسلمون کے سیکرٹری جنرل رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر محمدالبر.ّ حدیث میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔ حدیث کے مختلف موضوعات پر ان کی ۱۳ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ یونی ورسٹی میں تدریس کے دوران وہ خود اپنے طلبہ کی بڑی تعداد کو پی ایچ ڈی اور ایم اے کے شان دار مقالہ جات لکھوا چکے ہیں۔ اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح ان کا قصور بھی صرف یہ ہے کہ وہ اخوان المسلمون سے منسلک ہیں اور اخوان کے ۱۶ رکنی مکتب ارشاد کے منتخب رکن ہیں۔ ان کے ہمراہ گرفتار ہونے والے دیگر حضرات میں احمدعباس معروف انجینیر ہیں، ڈاکٹر محمد سعد پروفیسر ڈاکٹر اور شعبہ امراض البول (یورالوجی) کے سربراہ ہیں۔ ڈاکٹر محمد عبدالغنی آئی اسپیشلسٹ ہیں، ولید شلبی معروف دانش ور اور لکھاری ہیں، ڈاکٹر ایہاب ابراہیم میڈیکل کالج میں پروفیسر ہیں، ڈاکٹر علی عبدالرحیم اسیوط یونی ورسٹی کی کلیہ ہندسہ (انجینیرنگ) میں استاد ہیں، مسعد علی قطب انجینیر ہیں اور جیساکہ پہلے ذکر گزر چکا ،محمدالدسوقی ڈاکٹر ہیں۔ یہی حقیقت مصر کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ اخوان کا علم و مرتبہ اور ان کی خدمت گزاری سب پر عیاں ہے، لیکن چونکہ وہ ’اخوان‘ یعنی بھائی بھائی ہیں اور حکومت کی غلط پالیسیوں کی اصلاح چاہتے ہیں، اس لیے قابلِ گردن زدنی ہیں۔
اخوان المسلمون کے نومنتخب مرشدعام ڈاکٹر محمد البدیع بتا رہے تھے کہ گذشتہ ۱۰ برسوں میں اخوان کے ۳۰ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا اور اگر ان سب کی گرفتاری کی مدت کو جمع کیا جائے تو وہ مجموعی طور پر ۱۵ ہزار سال سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ گذشتہ تقریباً تین عشروں سے اقتدار پر قابض مصری صدر حسنی مبارک، اپنی قوم کے ان بہترین ۱۵ ہزار برسوں کو جیلوں کی نذر کردینے کا جواب اپنے رب کو تو جو دے گا سو دے گا لیکن اس نے اپنے قریب ترین ساتھیوں کو بھی ضمیر کا مجرم بنا دیا ہے۔ ایک سابق وزیراعظم عزیز صدقی، اپنی اس خلش کا اظہار پوری قوم سے معذرت کرتے ہوئے کرچکے ہیں۔ مرشدعام کے بقول وزیراعظم صدقی نے کہا: ’’ہم نے اخوان المسلمون کے ساتھ جو بھی زیادتیاں کی ہیں، ہم پورے مصر سے اس کی معذرت چاہتے ہیں۔ ہم نے مصر کو ایسے شہ دماغ افراد سے محروم رکھا کہ جو اسے ترقی اور بلندی کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچا سکتے تھے‘‘۔
مرشد و بانی امام حسن البناشہید اور صاحب ِ تفسیر قرآن سید قطب سے لے کر موجودہ مرشدعام اور ان کے ساتھیوں تک کسی بھی شخصیت کا جائزہ لے لیجیے، یکے بعد دیگرے آنے والے ہر فرعون مصر نے دنیا کو ان تمام نابغۂ روزگار ہستیوں سے محروم رکھا۔ ۱۹۹۹ء میں مصر کی طرف سے سرکاری سطح پر شائع ہونے والی سائنسی انسائیکلوپیڈیا میں پورے عالمِ عرب کی چوٹی کی ۱۰۰ علمی شخصیات کا ذکر ہے۔ نومنتخب مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع ان ۱۰۰ میں سے ایک ہیں۔ عالمِ عرب میں، پتھالوجی میں ان کے پاے کی کوئی اور شخصیت ملنا محال ہے۔ پوری دنیا میں وٹرنری سائنسز کے ماہرین کی فہرست بنی تو ان کا شمار چوٹی کے پہلے دس افراد میں سے ہوا۔ ایسی اعلیٰ علمی شخصیت اور اخوان سے تعلق…؟ اُٹھا کر جیل میں پھینک دو۔ فرعونِ مصر نے فیصلہ صادر کیا۔ انھیں سب سے پہلے ۱۹۶۵ء میں سیدقطب کے ہمراہ گرفتار کیا گیا۔ سیدصاحب کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا اور ڈاکٹر محمد بدیع کو ۱۵سال قیدبامشقت کی سزا سنائی گئی۔ نو سال کی سزاے بے جرم کے بعد رہا کردیے گئے۔ پھر چندماہ کے لیے متعدد بار گرفتار کیے گئے، لیکن ۱۹۹۹ء میں دوبارہ جو گرفتار ہوئے تو سوا تین سال گرفتار رہے۔ ایک وہی نہیں اخوان کی پوری تاریخ میں جو جتنا بلند پایہ عالم… جتنا زیادہ ذمہ دار … جتنا فعال و مخلص و مصلح کارکن تھا، معاشرے کو اس کے خیر سے اتنا ہی زیادہ محروم رکھا گیا۔
ان تمام عقوبتوں، مظالم اور قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود نومنتخب مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے ۱۶ جنوری کو اپنے انتخاب کے بعد پہلے خطاب میں کہا: اخوان کبھی بھی حکومت کے حریف اور دشمن نہیں رہے۔ ہم کبھی بھی مخالفت براے مخالفت پر یقین نہیں رکھتے۔ خیر میں تعاون اور شر کی مخالفت کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے اور ہم اسی بنیاد پر حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ اس خطاب کو ابھی ایک ماہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ تین ہفتے کے اندر اندر مکتب ارشاد کے تین بزرگ ارکان سمیت مزید درجنوں رہنما و کارکنان گرفتار کرلیے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ نومنتخب مرشدعام اور اخوان کے خلاف پروپیگنڈا عروج پر پہنچا دیا گیا۔ اخوان میں اختلافات کی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مرشدعام کو سیدقطب کے ہمراہ گرفتار ہونے پر قطبی کہہ کر پکارا جا رہا ہے اور اس سے مراد یہ لی جارہی ہے کہ وہ تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سید قطب کو القاعدہ سمیت تمام مسلح تنظیموں اور دوسروں پر تکفیر کے الزامات لگانے والوں کا اصل فکری رہنما ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خود پاکستان میں بھی کئی حضرات کو یہی جادوئی چھڑی تھما دی گئی ہے۔ وہ سید قطب شہید کی تحریروں کی قطع و برید کرکے اور کئی جملوں کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کی تفسیروتشریح کا جامہ پہناتے ہوئے ان پر تبرابازی کر رہے ہیں۔ یہ سارا ہنگامہ اور الزامات بے بنیاد ہونے کا اندازہ صرف اسی بات سے لگا سکتے ہیں کہ عالمِ عرب میں کئی حضرات سید قطب کے ساتھ ہی ساتھ، اس ضمن میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کا نام بھی لے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو ہوئی تو عرض کیا کہ اگر آپ پاکستان میں جاکر اپنا یہی دعواے باطل دہرائیں گے کہ مولانا مودودی تکفیر و تشدد کے داعی تھے، تو لوگ آپ کی عقل پر شک کرنے لگیں گے۔ جس طرح سیدمودودی کو پُرامن دعوت و اصلاح کے بجاے بندوق اور دھماکوں کے ذریعے تبدیلی کا الزام نہیں دیاجاسکتا، اسی طرح سید قطب شہید پر بھی یہ الزام سراسر ظلم اور صریح زیادتی ہے۔
مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے بھی اپنے اولیں انٹرویو میں اس موضوع پر تفصیل سے بات کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سیدقطب کی تحریروں اور ان تشدد آمیز جماعتوں کے مابین کوئی ربط پیدا کرنا قطعی بلاجواز ہے۔ الاخوان المسلمون خاص طور پر جناب حسن الہضیبی (سید قطب کے زمانے میں مرشدعام) نے اس راستے کی شدید مخالفت کی تھی۔ انھوں نے ان تمام لوگوں کو اخوان کی صفوں سے خارج کر دیا تھا کہ جنھوں نے تبدیلی کے لیے پُرتشدد راہ چھوڑنے سے انکار کیا۔ انھوں نے اس ضمن میں ایک شاہکار کتاب لکھی دعاۃ لاقضاۃ(جج نہیں داعی) اور میں ان چار افراد میں سے ایک تھا کہ جنھوں نے اپنے ہاتھوں سے اس کتاب کے قلمی نسخے تیار کیے۔ مرشدعام محمد بدیع نے مزید کہا: ’’یہ سراسر بہتان اور جھوٹ ہے کہ الاخوان المسلمون نے حکمرانوں میں سے کسی کے خلاف تکفیر کے فتوے جاری کیے ہیں۔ یہ بات اخوان کی طے شدہ منہج سے متصادم ہے۔ سیدقطب کو کسی متشدد یا تکفیری نہج کا ہم نوا قرار دینا کسی طور درست نہیں ہوسکتا۔ آج اگر سید قطب زندہ ہوتے تو وہ یقینا خود ان تمام لوگوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے اور انھیں اس فکروعمل سے واپس لانے کی سعی کرتے‘‘۔ مرشدعام نے کہا: میں نے ایک امریکی دانش ور مسٹر روگن کی کتاب The Arab پڑھی ہے۔ اس میں وہ لکھتا ہے: ’’سیدقطب کو ڈکٹیٹر حکومتیں اور ظالم شخصیتیں اس لیے ناپسند کرتی تھیں کہ وہ ان کے ظلم و استبداد کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ پُرامن جہاد اور عوام کو خوابِ غفلت سے بیدار کر کے ان کا مقابلہ کررہے تھے‘‘۔ مرشدعام نے حکمرانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ: ’’جب بھی ہمیں اسلام کی میانہ رو اور مبنی براعتدال دعوت پھیلانے سے روکا گیا تو یہاں ہر جانب خاردار جھاڑیاں اُگ آئیں اور مصر میں دہشت گردی نے جنم لیا۔ ہم آج بھی حکمرانوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ اگر وہ اسی طرح شخصی اقتدار پر اصرار کرتے رہے، اور کسی دوسرے کی نصیحت پر کان نہ دھرنے کی پالیسی پر گامزن رہے تو مصر ایک ایسے بند کمرے میں بدل جائے گا کہ جس میں گیس بھر گئی ہو، ایسے میں کہیں سے کوئی ادنیٰ سا شرارا بھی سب کچھ بھسم کر کے رکھ دیتا ہے‘‘۔
اخوان اور ان کی قیادت پر تشدد کے الزامات اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن خود مصری عوام نے اس پورے پروپیگنڈے کو مسترد کردیا ہے۔ حال ہی میں ایک امریکی ادارے نے مصر میں سروے کروایا تو ۶۹ فی صد عوام نے کہا کہ ’’اخوان المسلمون جمہوریت اور پُرامن جدوجہد پر یقین رکھنے والی جماعت ہے‘‘۔ ۷۵ فی صد عوام نے ملک میں حقیقی جمہوری نظام کو ترقی اور خوش حالی کا اصل راستہ قرار دیا۔ اخوان المسلمون کے حالیہ جماعتی انتخابات نے اخوان کی حقیقی جمہوری شناخت کو مزید واضح کیا ہے۔ خود اخوان کے لیے بھی یہ انتخابات کئی نئی روایات کا باعث بنے۔ اخوان کی ۸۱ سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک مرشدعام کی زندگی میں، خود ان کی بااصرار معذرت کے بعد نئے مرشدعام کا انتخاب ہوا۔ اس سے پہلے بانی مرشدعام امام حسن البنا کو تو شہید کردیا گیا تھا۔ پھر حسن الہضیبی (۱۹۵۱ء سے نومبر ۱۹۷۳ء تک)، عمرالتلمسانی (۱۹۷۴ء سے ۲۲ مئی ۱۹۸۶ء تک)، محمد حامد ابوالنصر (مئی ۱۹۸۶ء سے ۲۰جنوری ۱۹۹۶ء تک)، مصطفی مشہور (فروری ۱۹۹۶ء سے ۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۲ء تک) اور مامون الہضیبی (۲۶ نومبر ۲۰۰۲ء سے ۹جنوری ۲۰۰۴ئ) اپنی وفات تک مرشدعام رہے۔ تب اخوان کے بعض احباب یہ ذاتی سوچ بھی پیش کیا کرتے تھے کہ مشاورت اور اجتماعی جدوجہد تو یقینا اسلامی تحریک کا خاصہ ہے، لیکن سربراہ کو باربار بدلنا مناسب نہیں ہے۔ اس لیے منتخب مرشدعام ہی دوبارہ منتخب ہوجاتا۔ محمد مہدی عاکف اخوان کی تاریخ میں پہلے مرشدعام ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی ہی میں خود اپنا جانشین منتخب کروایا۔ اس موقعے پر بعض ایسے واقعات بھی ہوگئے کہ جنھیں ذرائع ابلاغ نے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ خاص طور پر سابق نائب مرشدعام ڈاکٹر محمد حبیب صاحب کی طرف سے مکتب ارشاد کے بعض اندرونی اختلافات کو ذرائع ابلاغ میں دینے کے واقعے کو اخوان کے دودھڑوں میں تقسیم ہوجانے کا رنگ دیا گیا۔ اسی طرح مرشدعام کو ’قطبی‘ اور بنیاد پرست ہونے کا بے جا لقب دے دیا گیا اور نائب مرشدعام ڈاکٹر محمد حبیب اور ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح جیسے سرکردہ احباب کو اصلاح پسند دھڑا کہا جانے لگا، حالانکہ یہ دونوں اصطلاحات، صرف الزامات کا درجہ رکھتی ہیں۔ مرشدعام نے کہا کہ مجھے اپنے عزیز و محترم بھائی سے الگ کرنے کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے حالانکہ میرا ان سے اس طرح کا تعلق خاطر ہے کہ میں نے اپنے پوتے کا نام، انھی کے نام پر حبیب رکھا ہوا ہے۔
اخوان کے حالیہ انتخابات اس حوالے سے بھی منفرد تھے کہ جب ذرائع ابلاغ میں اخوان کے بارے میں پروپیگنڈا عروج پر تھا تو اخوان نے اپنے اس تنظیمی دستور اور طریق کار کا بھی کھلم کھلا اعلان کر دیا کہ جو امن و امان کی مخصوص صورت حال کے باعث، اس سے پہلے صرف تنظیمی ذمہ داران کی حد تک محدود رہتا تھا۔ اس دستور میں مصر کے اندر بھی اخوان کی تنظیم و طریق کار کو واضح کیا گیا ہے اور اخوان کی عالمی تنظیم کا نظام بھی۔ اس اعلان کردہ طریق کار کے مطابق اخوان کے ارکان، مجلسِ شوریٰ کا انتخاب کرتے ہیں، مجلسِ شوریٰ مکتب ارشاد کا انتخاب کرتی ہے اور مکتب ارشاد، مرشدعام کا انتخاب کرتا ہے۔ یہی مکتب، شوریٰ کے طے شدہ طریق کار کے مطابق جماعت کے اکثر فیصلے اور پالیسیاں نافذ کرتا ہے۔ نئے مرشدعام کے اعلان کے وقت منعقد کی گئی پریس کانفرنس میں، مکتب ارشاد کے تمام ارکان بھی وہاں موجود رہے، جن کے ناموں کا اس سے پہلے یوں اعلان نہ کیا جاتا تھا۔ اخوان کا یہ نیا پن اور کھلا پن، نظام کو چیلنج کرنے سے زیادہ تمام تر مشکل حالات کے باوجود کھل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار ہے۔ گذشتہ تین سال میں اخوان کے ساڑھے سات ہزار سے زائد کارکنان گرفتار کیے گئے۔ تقریباً اڑھائی سو کارکنان کے پورے کے پورے کاروبار، جایدادیں اور کمپنیاں ضبط کرلی گئیں۔ اس سب کچھ کے باوجود اب مزید کھل کر کام کرنے کا جذبہ کسی روحانی اور الوہی توفیق کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
ملک کی عمومی صورت حال دیکھیں تو مصری عوام اس وقت شدید مایوسی کے عالم میں ہیں۔ آیندہ برس کے آغاز میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ سب تجزیہ نگار یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اخوان کے مزید قائدین و کارکنان گرفتار کیے جاسکتے ہیں۔ اخوان کے خلاف پروپیگنڈے کا محاذ بھی گرم تر کیا جا رہا ہے۔ اخوان ہی نہیں اسلام کی بنیادوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ دیگ کے چند دانوں کے طور پر اور ’نقل کفر، کفر نباشد‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ جملے ملاحظہ فرمایئے: ’’اخوان جو نظام لانا چاہتے ہیں وہ اسے خلافتِ راشدہ کی طرز پر قائم نظامِ خلافت کا نام دیتے ہیں، یعنی ماضی کی ایک ریاست نہ کہ حاضرومستقبل کی۔ ان کی ریاست میں حاکمیت اعلیٰ کے نام پر فیصلہ کرنے کا حق اللہ کے پاس ہوگا جس کے بارے میں لمبی چوڑی گفتگو اس کے دو فرشتے البنا اور قطب کرچکے ہیں‘‘۔ ’’اخوان المسلمون کا اصل مخمصہ وہی ہے جو تمام دینی جماعتوں کا ہوتا ہے، یعنی دنیا اور آخرت کے ناممکن اتحاد کو، دین اور سیاست جمع کرکے ممکن بنانا، ان کا مخمصہ مقدس متن (یعنی قرآن وسنت) ہے جو کسی صورت تبدیل نہیں ہوسکتا۔ ان کا مخمصہ ، یہی متن کا مخمصہ ہے کہ جس نے ساتویں صدی عیسوی میں تو زندگی کی باگ ڈور سنبھال لی تھی لیکن جو کسی بھی صورت نئے میلینیم اور دوہزار عیسوی کے زمانے کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا۔ اب انسانیت نے بہت سفر طے کرلیا۔ اب وہ پرانے زمانے کی طرف واپس نہیں جاسکتی‘‘… ایک طرف یہ اور اس طرح کا ہذیان ہے اور دوسری جانب حکومتی جبروتشدد لیکن اخوان کے لیے ان میں سے کوئی بھی بات نہیں۔ ان کے حالیہ جرأت مندانہ اور مبنی برحکمت اقدامات روشنی کی اطلاع دے رہے ہیں۔
عالمی استعماری طاقتیں اعتراف کر رہی ہیں کہ ان کے لیے حسنی مبارک کی ڈکٹیٹرشپ یا اسلامی تحریک کی ’بنیاد پرستی‘ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اب اس ’مشکل‘ کا حل وہ یوں نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ کسی نئی شخصیت کو متعارف کروایا جائے۔ بین الاقوامی ایجنسی براے ایٹمی توانائی (IAEA) کے سربراہ محمد البرادعی دو مرتبہ اس کے چیئرمین رہنے کے بعد حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ۱۵فروری کو پہلی بار مصر واپس آئے، تو ان کے بھرپور استقبال کا انتظام کیا گیا۔ انھیں ایک متبادل کے طور پر پیش کیا گیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ انھیں ایک نجات دہندہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ البرادعی صاحب نے بھی آتے ہی بیانات اور انٹرویوز کا سلسلہ شروع کردیا ہے کہ ہاں، میں آیندہ صدارتی انتخاب میں امیدوار ہوسکتا ہوں۔ ان کی سب سے بڑی ’خوبی‘ یہ ہے کہ ایٹمی ایجنسی کا مسلمان سربراہ ہونے کے ناطے سے انھوں نے عراق اور ایران کے خلاف ایٹمی ہتھیار رکھنے کے الزامات سچ ثابت کرنے کی جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کیا۔ صدام حسین کے محلات اوران کی ایٹمی تنصیبات کی تلاشی میں ان کا کردار قائدانہ رہا، انھوں نے کبھی اپنا دامن اس الزام سے آلودہ نہیں ہونے دیا کہ وہ اسرائیلی ایٹمی ہتھیاروں پر کوئی اعتراض رکھتے ہیں۔
تمام عالمی سرپرستی اور بین الاقوامی امور پر مہارت تجربات کے باوجود، مصری سیاست میں حصہ لینا برادعی صاحب کے لیے کوئی بازیچۂ اطفال نہیںہوگا۔ حسنی مبارک نے اپنے اور اپنے وارث کے اقتدار کے لیے ’مضبوط‘ انتظامات کیے ہیں۔ مصری دستور کے مطابق کسی بھی صدارتی اُمیدوار کے لیے تقریباً ناممکن الحصول اور کڑی شرطیں رکھی گئی ہیں۔ اُمیدوار اگر کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے تو شرط ہے کہ وہ کسی باقاعدہ رجسٹرڈ پارٹی کی مرکزی قیادت میں سے ہو اور اسے اس ذمہ داری پر انتخاب سے پہلے کم از کم ایک سال کی مدت گزارنا چاہیے۔ خود اس سیاسی پارٹی کو بھی انتخاب سے کم از کم پانچ سال پہلے رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ اخوان سمیت کسی بھی قابلِ ذکر جماعت کو رجسٹرڈ نہیں کیا گیا، بلکہ اخوان کو تو ویسے ہی کالعدم قرار دیا ہوا ہے۔ اور امیدوار اگر آزاد ہو تو اس کے لیے شرط ہے کہ وہ کم از کم ۲۵۰ ارکانِ پارلیمنٹ یا ضلعی کونسلوں کے تائیدی دستخط حاصل کرے اور ظاہر ہے کہ ان نام نہاد منتخب اداروں میں دوتہائی سے زائد اکثریت حکمران پارٹی کی ہے۔
محمد البرادعی کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ انتخاب سے پہلے دستوری ترمیم کے لیے اخوان کے عوامی دبائو کا ساتھ دیں۔ واپسی کے بعد پہلے ہی ہفتے میں انھوں نے اخوان کے پارلیمانی سربراہ ڈاکٹر سعدالکتاتنی سے مفصل ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد ڈاکٹر سعد کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات عالمی شہرت رکھنے والے ایک مصری شہری کو مزید قریب سے جاننے کی خاطر تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم صدارتی انتخابات میں ان کی مدد کریں گے یا ان کی مخالفت کریں گے۔ ہم مجموعی طور پر انتخابات کے بارے میں اپنی پالیسی وضع کر رہے ہیں اور اس کا اعلان مناسب وقت پر ہی کیا جائے گا۔ البتہ اخوان ایک اصلاحی ہدف رکھتے ہیں اور ہر اس فرد و جماعت کی طرف دستِ تعاون بڑھاتے ہیں جو اصلاح کی سعی کرنا چاہتا ہو۔ طویل عرصے تک ایک جماعتی اقتدار کے بعد اب مصری سیاست شاید ایک نیا موڑ لے رہی ہے۔