۱- ایک یہ کہ اسلامی سوسائٹی کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ خود اپنے اندر بھی اور سوسائٹی کے دوسرے لوگوں کے اندر بھی یہ احساس زندہ اور بیدار رکھے کہ اسلام نے خالق کی اطاعت کے خلاف کسی مخلوق کی اطاعت کو جائز نہیں رکھاہے۔
۲- دوسری یہ کہ ہر برائی جو سوسائٹی کے اندر پھیلتی ہے اس کی ذمہ داری جس طرح اس کے پھیلانے والوں پر ہے اسی طرح ان لوگوں پر بھی ہے جو اس کو برائی جانتے ہوئے اس کو پھیلنے دیں، اور وہ سارے وسائل جو ان کو حاصل ہوں، اس کام میں نہ لگا دیں۔
اِن دونوں باتوں کی اصل اہمیت اور ان کی نتیجہ خیزی کی پوری وسعت کا اندازہ اس امر سے ہوگا کہ یہ واجباتِ شریعت میں سے ہیں، یعنی اسلام نے اِن دونوں باتوں کو شہری حقوق کی فہرست میں نہیں رکھا ہے، بلکہ ان کو شہریوں کے فرائض میں شمار کیاگیاہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت کے جبروظلم کے باوجود خدا کی رضا ان کے ادا کرنے میں ہے نہ کہ ان سے دستبردار ہوجانے میں۔ یہ ہمارے اپنے حقوق نہیں ہیں کہ اگر ہم ان پر صبر کرجائیں اور ان کے لیے اربابِ اقتدار سے کوئی مطالبہ نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہم کو اس صبر کا صلہ ملے۔ یہ خدا کے حقوق ہیں جن کی ادایگی ہمارے ذمے ہے اور جن کے معاملے میں اصلی صبر یہی ہے کہ تمام مزاحمتوں اور مخالفتوں کے باوجود یہ ادا کیے جائیں ، اور پھر اللہ تعالیٰ سے یہ اُمید رکھی جائے کہ اس کے حقوق کی ادایگی کی راہ میں جو دکھ اٹھائے گئے ہیں وہ ان کا صلہ عطا فرمائے گا۔ (’اسلامی ریاست: اطاعت کے شرائط و حدود‘ مولانا امین احسن اصلاحی، ترجمان القرآن، جلد۳۳، عدد ۴، ربیع الثانی ۱۳۶۹ھ، مارچ ۱۹۵۰ئ، ص ۵۲)