بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا سہ روزہ اجلاس ۸،۹، ۱۰ فروری ۲۰۱۰ء کو لاہور میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر اہم قومی اور ملّی مسائل پر متعدد قراردادیں منظور کی گئیں۔ ان میں سے چند کا متن پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس ملک کی سیاسی صورت حال کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتاہے اور پوری قوم اور قیادت کو متنبہ کرتاہے کہ اس وقت ملک کی آزادی، سلامتی ،استحکام ،نظریاتی تشخص اور عوام کی معاشی اور سماجی بہبود، ہر چیز اور ملک کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر جو خطرات درپیش ہیں ،وہ ہماری ۶۲سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ گمبھیر ہیں اور ملک کا وجود تک ان کی زد میں آتا نظر آرہاہے۔لیکن سب سے تشویشناک امر یہ ہے کہ حکمران صرف مجرمانہ غفلت کا شکار ہی نہیں بلکہ ملک کو تصادم اور بگاڑ کی طرف دھکیل رہے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور حصول میں لگے ہوئے ہیں۔
پاکستانی قوم آج جن خطرات سے نبرد آزماہے ان میں سرفہرست امریکی سامراج کا اثرونفوذ ہے جس کی گرفت پاکستان پر ہر روزبڑھ رہی ہے، ڈرون حملے دوگنے ہوگئے ہیں اور حکومت اس شرمناک جرم میں شریک نظر آرہی ہے اور ملک کی آزادی اور عزت دونوں کی حفاظت میں ناکام رہی ہے۔اس کے ساتھ ملک کے اندرونی حالات روز بروزخراب ہورہے ہیں، لاقانونیت اپنے عروج پر ہے اور ملک کی قیادت کاحال یہ ہے کہ وہ امریکا کی حلیف بن کر خود اپنی قوم کو بیرونی غلامی اور اندرونی انتشار اور معاشی مفلوک الحالی کی طرف دھکیل رہی ہے ۔ آگ اور خون کی جوہولی کئی سال سے صوبہ سرحد ،فاٹا اور بلوچستان میں کھیلی جا رہی ہے، وہ سارے ملک کو اوراب کراچی تک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ۔ بھارت کی فوجی قیادت ۹۶گھنٹے میں پاکستان کے دانت توڑدینے کے دعوے کررہی ہے اور امریکا اور اسرائیل اسے تباہ کن جنگی صلاحیتوں سے آراستہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں، نیز فوج کشی کی دھمکیوں کے ساتھ بھارت پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کے لیے خطرناک چالیں چل رہاہے ۔ کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط ترکرتاجارہا ہے،جب کہ امریکی کھیل کے مطابق پاکستانی افواج کو مغربی محاذ پر اور بھی الجھا دیا گیاہے۔ امریکا اپنا دبائو مزید بڑھا رہا ہے اور اس کے ساتھ پاکستانی قوم کی عزت سے کھیلنے کے مجرمانہ اقدام کر رہاہے جن میں سب سے شرمناک چیلنج قوم کی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اورمظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف عدالتی دہشت گردی ہے جس نے امریکی عدل وانصاف کے دعوئوں کا پول کھول دیا ہے اور امریکا کی پاکستان اور اسلام دشمنی کو ایک بار پھر واشگاف کردیا ہے۔ یہ خطرناک صورت حال پوری قوم کی فوری توجہ اور نئی قومی حکمت عملی کا تقاضا کرتی ہے۔
جماعت اسلامی کی نگاہ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اللہ کے دامن رحمت کو تھام کر ایمان، فراست مومن اور اجتماعی عوامی جدوجہد کے ذریعہ ۱۷ کروڑ مسلمانوں کو نئی غلامی ، سیاسی انتشار اور معاشی تباہی کے گڑھے سے نکال کر ایک بار پھر ان مقاصد اور عزائم کے حصول کے لیے منظم اور متحرک کیا جائے جن کے لیے اس قو م نے تاریخ کی بے مثال قربانیاں دے کر یہ آزاد خطۂ وطن حاصل کیاتھا۔
پاکستان نہ کبھی ناکام ریاست تھا اور نہ آج ہے ، البتہ اصل ناکامی اس قیادت کی ہے جس نے بار بار ملک و ملت کو دھوکا دیا ہے اور آج بھی جو توقعات ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابات اور پرویزی آمریت کے خلاف کامیاب عوامی تحریک سے پیدا ہوئی تھیں، ان کو خاک میں ملا کر ذاتی، گروہی اور علاقائی مفادات کی خاطر اور سب سے بڑھ کر امریکا کے عالمی ایجنڈے کی خدمت میں ملک کو خانہ جنگی، سیاسی خلفشار، اداروں کے تصادم ،مرکز اور صوبوں میں کشیدگی، لاقانونیت اور معاشی بدحالی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اس بگاڑ کی جتنی ذمہ داری اس فوجی قیادت پر ہے جو دستور اور قانون کو پامال کرنے اور جمہوریت پر شب خون مارنے کی مرتکب ہوئی تھی، اس سے کچھ کم ذمہ داری اس سیاسی قیادت کی بھی نہیں جس نے ۲۳مہینے کے اس قیمتی موقع کو مجرمانہ غفلت ، ناقابل فہم بے عملی اور بے تدبیری ، ذاتی اور جماعتی مفادپرستی ، بدعنوانی اور کرپشن اور نا اہلی کے باعث ضائع کیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں جنرل پرویز مشرف کے دور کی پالیسیاں جاری ہیں،قومی مجرم دندناتے پھر رہے ہیں یا بیرون ملک عیش کی زندگی گزار رہے ہیںاور ملک ایک بحران کے بعد دوسرے بحرانوں کی گرفت میں ہے۔ امریکا کی غلامی کی زنجیریں اور ہمارے اندرونی معاملات میں اس کی متکبرانہ مداخلت دوچند ہوگئی ہے۔ فوج اور عوام میں دوری بڑھ رہی ہے اور بیرونی آقائوں کے دبائو میں اب کسی ایک خطے کو نہیں بلکہ پورے ملک ہی کو ایک ایسی لاقانونیت اور نہ ختم ہونے والے تصادم میں جھونک دیا گیاہے جس نے امن و امان اور عوام کے چین وسکون اور معاشی اور سماجی زندگی کو درہم برہم کردیا ہے۔ حکومتی اتحاد ہی نہیں حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتیں بھی عوام کو مایوس کررہی ہیں اور قوم کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا کہ وہ اپنی آزادی ،عزت اور شناخت کی حفاظت اور عوام کے حقوق کے حصول کے لیے ایک بار پھر سرگرم ہوں، اور زمامِ کار مفادپرست ٹولے سے لے کر ایک ایسی عوامی قیادت کو بروے کار لائے جو ملّی مقاصد، اقدار اور اہداف کی محافظ ہو اور دیانت او ر صلاحیت کی بنیاد پر ملک اور قوم کو اس دلدل سے نکال سکے۔
جماعت اسلامی پاکستان اس امر کا برملا اعلان کرتی ہے کہ ہمارا ملک آج جن مصائب اور مشکلات کی آماجگاہ بناہوا ہے اس کی بنیادی وجہ ملی مقاصد سے بے وفائی، دستور اور قانون کی خلاف ورزی ،جمہوری عمل اور اداروں کی کمزوری ، ذاتی اور گروہی مفادات کی جنگ اور امریکا اور سامراجی قوتوں کی چاکری ہے۔ ہم دنیا کے تمام ممالک سے برابری کی بنیادپردوستی ، تعاون اوربھائی چارے کا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جس طرح پرویز مشرف اور زرداری حکومت نے ملک کو امریکا کی سیاسی، معاشی اور اب تو عسکری گرفت میں دے دیا ہے وہ ساری خرابیوں کی جڑ ہے اور اولیں ضرورت امریکا کی گرفت سے آزادی اور اپنے قومی اور ملّی مقاصد کے حصول کے لیے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی ازسرنو تشکیل ہے۔ اس کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ان بنیادوں کو ہر لمحہ سامنے رکھا جائے جن پر یہ قوم جمع ہے اور جمع رہ سکتی ہے اور جن کے تحفظ اور حصول کے بغیر پاکستان علامہ اقبالؒ،قائد اعظمؒ اور ملت اسلامیہ پاکستان کے تصور کے مطابق ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست نہیں بن سکتا۔ وہ بنیادیں یہ ہیں:
۱- پاکستان کی شناخت اور پہچان اسلام ہے جو ہمارا دین اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راستہ ہے ۔ قرآن و سنت ہی ہمارا بالاترین قانون ہے اور صرف اسلامی نظام کے مکمل نفاذ ہی سے یہ ملک اپنے قیام کے اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرسکتاہے۔
۲- پاکستان کا سیاسی نظام پارلیمانی جمہوریت کا نظام ہے جس میں ملکی دستور آخر ی اتھارٹی اور پارلیمنٹ بالاتر ادارہ ہے نیز مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ بشمول سول اور فوجی سروسز کو دستور میں طے شدہ حدودکار کے اندر کام کرنا چاہیے اور اس کے تحت وہ مکمل طورپر قانون اور عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس سے انحراف ہی سارے بگاڑ کی جڑ ہے۔
۳- پاکستان کا مقصد ایک ایسے فلاحی معاشرے کا قیام ہے جو ایک طرف اسلامی اقدار و روایات کا حامل ہو تو دوسری طرف تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کا ضامن ہو۔ اس میں فرد اور اداروں کو ترقی کے مساوی مواقع حاصل ہوں۔ نیز غیر مسلم اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے درمیان سماجی اور معاشی انصاف قائم کیا جائے تاکہ ایک حقیقی فلاحی ریاست وجود میں آسکے اور معاشرے کے تمام افراد عزت سے زندگی گزار سکیں۔ دولت محض چند ہاتھوں میں یا کچھ مخصوص طبقوں اور علاقوں میں محدود ہو کر نہ رہ جائے ۔
۴- پاکستان کا دستور ایک وفاقی دستور ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ صوبوں کو اپنے معاملات اور وسائل پر قدرت اور مکمل اختیار حاصل ہو جس کے لیے صوبائی خود مختاری کویقینی بنایا جائے اور ارتکاز اختیارات کو ختم کرکے حقیقی وفاقی حکمرانی کے تمام اصولوں اور ضابطوں کی مکمل پاسداری کی جائے۔یہ مقصدبھی وقتی نام نہاد پیکجز کے ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے دستوری اور انتظامی تبدیلیوں کے ساتھ رویوں اور ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے جن کا کوئی نشان نظر نہیں آرہا۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ پوری قوم کو ایک طرف رجوع الی اللہ،’گو امریکا گو ‘ (امریکی غلامی نامنظور)کی عوامی تحریک میں بھرپور شرکت کی دعوت دیتی ہے تو دوسری طرف عدالت عالیہ کے ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ئ، ۱۶دسمبر۲۰۰۹ء اور ۱۹جنوری ۲۰۱۰ء کے تاریخی فیصلوں پر مکمل اور فوری عمل درآمد کو ضروری سمجھتی ہے۔ زرداری صاحب اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے عدلیہ کے فیصلہ کو غیر مؤثر کرنے کے لیے جس جارحانہ رویہ کا اظہار کیا ہے وہ تباہی کا راستہ ہے اور ہم ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتو ں کو دعوت دیتے ہیں کہ منظم عوامی جدوجہد کے ذریعہ امریکا کی گرفت سے آزادی اور ملک میں دستور اور قانون کی بالادستی کے قیام، معاشی انصاف کے حصول اور کرپشن اور بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کے لیے اپنا فرض ادا کریں۔
ہم ایک بار پھر اس حقیقت کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ سیاسی مسائل کا فوجی حل نہ کبھی ماضی میں ممکن ہوا ہے اور نہ آج ہوسکتاہے ۔ بلوچستان ہو یا فاٹا حالات کو قابو میں لانے کا راستہ سیاسی مذاکرات اور انصاف اور باہمی حقوق کی پاسداری کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی پاکستان،حکومت اور تمام سیاسی اور دینی عناصر کو دعوت دیتی ہے کہ امریکی دبائو اورناجائز مطالبات سے آزاد ہو کر پاکستان اور علاقے کے معروضی حقائق کی روشنی میں باہم افہام و تفہیم کے راستے کو اختیار کریں اور تشدد اور قوت کے استعمال سے حالات کے مزید بگاڑ سے بچنے کی فکر کریں۔ وقت کی اصل ضرورت پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کا تحفظ ، امریکی مداخلت ، ڈرون حملوں اور بیرونی قوتوں کی دراندازیوں سے بچائو،دہشت گردی سے اس کی ہر شکل میں مکمل نجات، ۱۹۷۳ء کے دستورکی اس شکل میں بحالی جو ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کوتھی، امن وامان کا قیام اور معاشی حالات کی اصلاح ہے، اور یہ سب اس وقت تک ناممکن ہے جب تک مشرف دور کی پالیسیوں سے مکمل نجات حاصل نہ کرلی جائے ۔
ہم ملک کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آزادی اور خودمختاری کی بازیافت، ملک میں حقیقی امن وامان کے قیام ، معاشی حالات کی اصلاح اور عوام کو انصاف اور چین کی زندگی کے حصول کی جدوجہد کے لیے پوری طرح کمر بستہ ہوجائیں اور پاکستان ، جو ایک مقدس امانت ہے اس کی حفاظت اور صحیح نظریات پر ترقی و استحکام کے لیے میدان میں اتریں اور مؤثر پُرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے قومی مقاصد کے حصول کی اپنی اپنی ذمہ داری اداکریں ۔
جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ملک کی معاشی شہ رگ شہر کراچی میں جاری شدید بدامنی ، بم دھماکے ، ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ راست اقدام سے عاری بے حس حکومتی رویے کو انتہائی تشویش کی نگاہ سے دیکھتاہے ۔ یوں تو شہر کراچی ۲۳ سال سے قتل و غارت گری کے اعداد وشمار میں دنیا کا سب سے خطرناک شہر قرار دیا جاتاہے ۔۲۰۰۸ء میں موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو کراچی کے عوام نے امید باندھی کہ اب قتل و غارت کی یہ فضا تبدیل ہو گی لیکن کراچی کے عوام کو تحفظ نہ مل سکا ۔ قاتل دندناتے رہے اورقتل عام جاری رہا۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء کی شدید خونریزیوں کے بعد ۲۰۱۰ء کے ابتدائی ۴۰ دنوں میں ۲۰۰ سے زائد معصوم انسان خون آشامی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ سانحہ عاشورہ پر بم دھماکے میں ۴۳ معصوم افراد لقمہ اجل کا شکار ہوئے ۔ فوری طور پر خود کش قرار دیے جانے والے دھماکے بعد میںنصب شدہ بموں کی کارستانی ثابت ہوئے ۔ منظم منصوبہ بندی کے تحت دھماکے کے فوری بعد کراچی کی تھوک مارکیٹوں کو جلایا اور لوٹا گیا اور تمام بلند و بانگ دعوئوں کے برعکس سٹی گورنمنٹ کے ادارے بروقت آگ بجھانے میں قطعاً ناکام ثابت ہوئے ۔ وزیر داخلہ اور پولیس نے اصل مجرموں کو بے نقاب کرنے کا اعلان کیا لیکن جرم کے ناخدائوں نے جنوری کے آغاز میں کراچی کو تین دن میں ۵۰ مزید لاشوں کا تحفہ دے کر حکمرانوں پر دبائو ڈالا ۔ سانحہ عاشورہ جند اللہ کے سر ڈالے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی یہ ٹارگٹ کلنگ اس طرح رک گئی جیسے کسی نے بٹن دبا دیاہو۔
جنوری کے اختتام پر بلدیاتی اداروں میں ایڈمنسٹریٹرز کی تقرری اور نئے بلدیاتی نظام کے لیے دو حکومتی جماعتوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا ۔ جب مذاکرات جاری تھے تو کراچی میں پانچ دن میں ۴۷ غریب افراد کو نشانہ بنا کر دبائو بڑھانے کی کوشش کی گئی ۔ اس سے پہلے بھی کراچی اور حیدر آباد کے بلدیاتی اداروں کے آڈٹ کے مسئلے پر کور کمیٹی کے اجلاس اورقتل و غارتگری ساتھ ساتھ جاری تھے ۔ حکومت نے تمام قوانین کو بالاے طاق رکھتے ہوئے کراچی اور حیدر آباد میں آڈٹ نہ کروانے کا اعلان کیااور قتل و غارتگری یکایک ٹھیر گئی جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ گذشتہ دودہائیوں سے کراچی میں دہشت گردی کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتارہا ہے ۔
۳ فروری کو امریکا میں امت کی بیٹی کراچی کی رہائشی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے میں سیاہ فیصلہ آنے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا ۔ ۵ فروری کو پوری قوم بھارتی مظالم کے خلاف کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کر رہی تھی کہ اس دن دو بم دھماکوں کے ذریعے اولاً عزاداران چہلم اور پھرہسپتال میں خون دینے والے اور عیادت کرنے والوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ ڈھائی درجن افراد نشانہ بنے ۔ یہاں بھی خود کش کیا جانے والا اعلان غلط نکلا اور بالآخر نصب شدہ بم دھماکا تسلیم کیاگیا اور جناح ہسپتال میں ٹی وی مانیٹر سے بم برآمد ہونے پر انتظامیہ ابھی تک اس سوال کاجواب دینے سے قاصر ہے کہ کلوز سرکٹ کیمروں سے بم رکھنے والوں کی نشاندہی کیوں نہیں کی جارہی ۔
بعد از خرابی ٔ بسیار جب رینجرز کو اختیارات دیے گئے تو ان کے چھاپے میں ایم کیو ایم لائنز ایریا کے سیکٹرآفس سے ۸ افراد انتہائی خطرناک اسلحہ کے ساتھ گرفتار ہوئے ۔ یہ افراد قتل کی کئی ایف آئی آرز میں نامزد ہیں لیکن سیاسی مداخلت پر ان کو اسلحے کے ساتھ رہا کر دیا گیا ۔ صوبہ سندھ کے گورنر کے بھائی بھی جدید ترین ممنوعہ اسلحے کے ساتھ گرفتار کیے گئے لیکن سیاسی مداخلت پر رہا کر دیے گئے ۔ گذشتہ دوسالوں میں پہلی مرتبہ رینجرز نے اختیارات ملنے پر ۲۴گھنٹوں میں ٹارگٹ کلنگ پر قابو پالیا لیکن ایک مرتبہ پھر گرفتارہونے والے بیشتر افراد رہا کیے جا چکے ہیں۔ چھے ماہ پہلے ایم کیو ایم جیکب آباد کا انچارج بلوچستان سے کراچی میں اسلحے کی ایک بڑی کھیپ اسمگل کرتے ہوئے گرفتار ہوا۔ اس اسلحے میں خطرناک بم اور راکٹ لانچر کے ساتھ مزید مہلک ہتھیار شامل تھے۔ اعترافی بیان میں ملزم نے ۲ افراد کے نام دیے جن کا نام ای سی ایل میں شامل کیاگیا لیکن ایک ہفتے میں ان میں سے ایک نے صوبائی مشیر کا حلف اٹھالیا۔ یہ بات بھی عوام کی یادداشت میں محفوظ ہے کہ مشرف دور میں ایم کیو ایم کے صوبائی مشیر شاکر علی کی گاڑی سے رینجرز نے خطرناک اسلحہ اور ماسک برآمد کیے تھے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی مں صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کا بیان ٹیپ کا بند ثابت ہوا کہ مفاہمت نہ ہوتی تو قاتلوں کو لٹکا دیتا ۔ صوبائی وزیر داخلہ نے سارے دبائو کے باوجود یہ بیان واپس نہیں لیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی کے امن کو بار بار اقتدار کی دیوی کے چرنوں میں بَلی چڑھایا جاتاہے اور قاتلوں کی روک تھام کے بجاے پورا نظام ان کا پشتیبان بناہواہے ۔کراچی میں لینڈ مافیا بھی سیاسی پشتیبانی میں اربوں کی زمین پر قبضے کے لیے اپنی سیاہ کاری میں مصروف ہے۔ نارتھ ناظم آباد اور فیڈرل بی ایریا سمیت کئی علاقوں میں پارکوں پر قبضہ کیا گیا ہے ۔ مزید براں ایک بڑے خطۂ زمین گٹر باغیچہ پر قبضے کا عمل جاری ہے۔ اس قبضے کو روکنے کے لیے بننے والی شہری تنظیم کے کنوینر نثار بلوچ نے اپنے قتل سے تین دن پہلے ایم کیوایم کی طرف سے ملنے والی قتل کی دھمکیوں کا پریس کانفرنس میں تذکرہ کیا اور اپنے قتل کی ایف آئی آر ایم کیوایم کے خلاف درج کرنے کی اپیل کی۔ نثار بلوچ کے قتل کے بعد نادر بلوچ اس کمیٹی کے کنوینر بنے لیکن نثار بلوچ کے قتل کے تین دن کے اندر ان کو بھی قتل کردیا گیااور آج تک کوئی قاتل گرفتار نہ ہوسکا۔
وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک کے بار بار انکار کے باوجود امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اعترافی بیان دیا کہ بلیک واٹر پاکستان میں موجود ہے ۔ آج کراچی میں بار بار مسلکی اور لسانی آگ بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ امت کو توڑنے کے امریکی منصوبے پر عملدرآمد کیا جاسکے ۔ اسی طرح یوم یک جہتی کشمیر پر خبروں کا رخ پھیرنے کے لیے عزاداران کی بس پر حملہ کر کے ایک پنتھ کئی کاج کے مقاصد کو پورا کیا گیا ۔ کراچی میں امریکی سفیر میری این پیٹرسن ایک سیاسی پارٹی کے دفتر پر حاضری دے کر امداد کا اعلان کرتی ہیں،جب کہ برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈشدید مصروفیات میں بھی پاکستان کے کئی اہم افراد کو نظر انداز کر کے کراچی کی بلدیاتی قیادت سے ملاقات کا طویل وقت نکالتے ہیں ۔ کراچی کی بدامنی میں امریکی ، بھارتی اوران کے مقامی ایجنٹوں کی کاروائی کی واضح چھاپ دیکھی جاسکتی ہے ۔ عوام نے لسانی اور مسلکی فساد کو مسترد کر کے اپنی ذمہ داریوں کو اداکیاہے لیکن حکمرانوں کے اقدامات ابھی تک نامکمل ہیں ۔ کراچی کے عوام کو آج بھی دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیاہے ۔ سیاسی مصلحتوں نے کراچی کو خون سے رنگین کردیاہے ۔
اگر سانحہ عاشورہ کے ذمہ داران کو سزا دے دی جاتی تو سانحہ چہلم نہ ہوتا ۔ اگر سانحہ نشتر پارک کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جاتا تو سانحہ عاشورہ نہ ہوتا۔۱۲ مئی ۲۰۰۴ء ، ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء ، ۹؍اپریل ۲۰۰۸ء ، ۱۸ ؍اکتوبر ۲۰۰۷ء بشریٰ زیدی کیس ، سانحہ علی گڑھ ، پکا قلعہ حیدر آباد جیسے بڑے بڑے سانحات میں سے کسی بھی سانحہ کا تجزیہ کر کے مجرموں کو متعین کرنے کا کام نہیں ہوا اور اس وقت بھی شہری جنازے اٹھا رہے ہیں۔ غریب اور لاچار سیاسی مفادات کی بھٹی میں جل رہے ہیں لیکن ریاستی اقدامات تحقیق و تفتیش کے عمل کو آگے بڑھانے کے بجاے مٹی ڈالنے اور زبانی جمع خرچ کاکام کر رہے ہیں ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سیاسی رہنما اور میڈیا تک اصل ذمہ داران کا نام نہیں لیتے۔ نومبر ۲۰۰۸ء میں وزیراعلیٰ سندھ کی اے پی سی میں تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلہ کیا تھاکہ کراچی کو اسلحے سے پاک کیا جائے گالیکن اخباری اطلاعات کے مطابق گذشتہ دس مہینوں میں ملک میں ۳۹ ہزار ۸ سو مہلک اور ممنوعہ اسلحے کے لائسنس پولیس تحقیق کے بغیر جاری کر دیے گئے ۔ اور اسلحے کے بارے میں اے پی سی کا یہ فیصلہ بھی سندھ کی سیاسی مفاہمت کی بھینٹ چڑھ گیا۔
جماعت اسلامی پاکستان کی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس کراچی کے شہریوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کراچی کے امن کو پاکستان کا امن قرار دیتاہے ۔ اس حوالے سے پورے ملک کی سیاسی جماعتوں ، دانش وروں ، اہل حل و عقد ، مؤثر افراد اور سول سوسائٹی سے کراچی کو پرامن بنانے کے لیے آگے بڑھنے ، اپنا کردار ادا کرنے اور وفاقی و صوبائی حکومت پر دبائو ڈال کر کراچی کے امن کے لیے اقدامات کروانے کی اپیل کرتا ہے ۔ شوریٰ کا اجلاس مطالبہ کرتاہے :
۱- کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے نیک نیتی کے ساتھ کام کیا جائے ۔ قانون پر عمل درآمد کے راستے کی ہر رکاوٹ کو دور کیا جائے ۔ وہ مفاہمتی عمل جو کراچی کو بدامنی سے دوچار کرتا ہو عوام اور پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے۔ ایسے مفاہمتی عمل کو ترک کرنے کی ضرورت ہے ۔
۲- کراچی میں اداروں پر سے سیاسی دبائو ختم کیا جائے ۔ پولیس میں سیاسی بنیادپر تقرریوں سے گریز کرتے ہوئے آپریشن کے بعد قتل کیے جانے والے ۶۰ پولیس افسران کے قاتلوں کو سزادی جائے ۔ مجرموں کو سیاسی دبائو سے رہا کرانے والوں پر اعانت جرم کے مقدمات قائم کیے جائیں ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کام کرنے کا موقع دیا جائے ۔
۳- کراچی کو اسلحے سے پاک کیا جائے ۔ ممنوعہ بو ر کے تمام اسلحے کو بلاتخصیص واپس لیا جائے ۔
۴- سانحہ بشریٰ زیدی ،سانحہ علی گڑھ اور سانحہ نشتر پارک کمیشن کے اعلانات کو روکنے والوں کو سامنے لایا جائے ۔ ۱۲ مئی ، ۹ اپریل ،۱۸؍اکتوبر، سانحہ عاشورہ اور سانحہ چہلم پر اعلیٰ عدالتی کمیشن تشکیل دے کر مجرموں کا پتا چلایا جائے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
۵- سانحہ چہلم کی طرح دو سال کے تمام شہدا کے وارثوں کو ۵ لاکھ اور زخمیوں کو ۳ لاکھ کا معاوضہ دیا جائے۔
۶- کراچی میں غیر سیاسی ، غیر جانب دار بلدیاتی ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر کیا جائے ۔
۷- کراچی میں آزادانہ صاف ، شفاف اور اسلحے سے پاک بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو نئے بلدیاتی نظام کے لیے شریک مشورہ کیا جائے۔
۸- میرٹ اور گڈگورننس کے ساتھ کراچی کے جملہ مسائل حل کرنے کی جانب توجہ دی جائے۔
۹- زمینوں پر قبضوں کو فوری طور پر روکاجائے۔ گذشتہ ۱۰ سالوں کی الاٹمنٹ کا جائزہ لیا جائے ۔ نثار بلوچ اور نادر بلوچ کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ قبضہ کیے جانے والے پارکوں اور کھیل کے میدانوں کو قبضے سے آزاد کروایا جائے۔
جماعت اسلامی پاکستان مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس مقبوضہ جموںوکشمیر میں بھارتی درندگی اور انسانی حقوق کی پامالی کی تازہ لہرکی شدید مذمت کرتاہے جس کے نتیجے میں نوجوانوں بالخصوص طلبہ کو نشانہ بنا کر شہید کیا جا رہاہے۔ جس پر عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے بھی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے لیکن بھارت ڈھٹائی کے ساتھ سارے ردعمل کونظر انداز کرتے ہوئے ریاستی تشدد میں اضافہ کرتاچلا جا رہاہے۔ بھارت کی اس نسل کشی کی پالیسی کے نتیجے میں گذشتہ ۲۰ سال کے دوران میں ایک لاکھ کشمیری مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ جن میں سے ۱۰ ہزار گمشدہ نوجوانوں کی قبریں حال ہی میں دریافت ہوئی ہیں جنھیں وقتاً فوقتاً گھروں سے اٹھایا گیا اور بدترین تعذیب و تشدد کے بعد شہید کیاگیا۔ ظلم اور جبر کی اس لہر پر پردہ پوشی کے لیے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں ،میڈیا اور ریلیف ایجنسیوں کے داخلے پر پابندی ہے اور دوسری طرف لاکھوں کنال زمین پر فوج نے زبردستی ناجائزقبضہ کرتے ہوئے مالک اور قابض کشمیریوں کو بے دخل کرکے بے روزگار کردیا ہے ۔ اس سلسلے میں احتجاج کی لہر کو روکنے کے لیے قائد حریت سید علی گیلانی اور دیگر حریت قائدین کی نقل و حرکت کو بھی قیدوبند کے ذریعے محدود کردیاگیاہے ۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان دل خراش حالات سے عالمی برادری بھی لا تعلق ہے اور حکومت پاکستان بھارت کے ان مظالم کو بے نقاب کرنے کے بجاے مجرمانہ سکوت اختیار کیے ہوئے ہے۔لا تعداد نام نہاد جامع مذاکرات ہمیشہ بے نتیجہ ثابت ہوئے کیونکہ حکومت پاکستان کی اپنے موقف سے پسپائی اور اعتماد سازی کے اقدامات کے باوجود بھارت مسئلہ کشمیر پر نہ صرف بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ اس کی فورسز نے سیز فائر لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع کردیا ہے اور بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے حال ہی میں سیکرٹری سطح پر مذاکرات شروع کرنے کی جو پیش کش کی گئی ہے اس کے ایجنڈے میں بھی مسئلہ کشمیر کے بجاے جزوی نکات شامل کیے گئے ہیں، اور اس پیش کش سے پہلے بھارتی وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے کر واضح کردیا ہے کہ وہ مذاکرات میں کتنا سنجیدہ ہے ۔
مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس حالات کی اس سنگینی پر حکومت پاکستان کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ بھارت کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ڈکٹیٹر مشرف کی اختیار کردہ پالیسی کے منحوس سایے سے نکلے اور قومی پالیسی کا احیا کرے جس پر قیام پاکستان سے لے کر اب تک پوری قوم کا اتفاق ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ۵فروری کو یوم یک جہتی کشمیر کے موقع پرایک بار پھر قوم نے اپنے اس موقف کی تجدید کی ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھے اور ہر محاذ پر پورے اعتماداور جرأت سے پاکستان کے اصولی موقف کامؤثر طور پر اظہار کرے اور بھارت کو مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے روکنے اور جموںوکشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کے حصول کے لیے عالمی راے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے جامع حکمت عملی طے کرے، نیز بھارت سے مذاکرات اسی صورت میں کیے جائیں کہ:
۱- بھارت ریاست جموںو کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرے ۔
۲- مذاکرات جزوی مسائل کے بجاے اصل مرکزی ایشو، یعنی مسئلہ کشمیرپر ہوں۔
۳- فوجی انخلاء اور کالے قوانین کے خاتمے کا اعلان کرے ۔
۴- ہزاروں کشمیری سیاسی قیدیوں کی رہائی کا اہتمام کرے ۔
اجلاس اقوام متحدہ، او آئی سی سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں سے بھی اپیل کرتاہے کہ وہ بھارت کو ان مظالم سے باز رکھنے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دلوانے میں مؤثر کردار ادا کریں۔
اجلاس ۵ فروری یوم یک جہتی کشمیر کے شان دار اہتمام پر پوری قوم کو خراج تحسین پیش کرتاہے اور اہل کشمیر کو یقین دلاتاہے کہ جماعت اسلامی پاکستان اور پوری پاکستانی قوم حق خودارادیت کی مبنی برحق جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ ہے ۔