ایوانِ صنعت و تجارت لاہور نے معاشی ترقی کے لیے ۲۰۲۰ء تک پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے مختلف سیاسی پارٹیوں سے مشاورت کر کے بنیادی خطوط طے کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سیدمنور حسن کا چیمبر سے ۴ مارچ ۲۰۱۰ء کا خطاب پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
معیشت کوقومی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے لیکن پے در پے حکومتوں کی ناسمجھی، عاقبت نااندیشی اور لوٹ مار نے ملکی معیشت کا جو حال کیا ہے اس سے آپ سے زیادہ کون واقف ہوگا۔ چینی حاصل کرنے، ہوش رُبا بل جمع کروانے، بلکتے بچوں کے لیے دوا حاصل کرنے، حتیٰ کہ اپنے رُوٹ کی گاڑی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے خوار ہوتے عوام کو تو ملکی معیشت کو سمجھنے کے لیے مزید شواہد کی ضرورت نہیں ہوگی لیکن جو لوگ اعداد و شمار کی روشنی میں حالات کا تجزیہ کرنے کے ہنر سے آراستہ ہیں وہ نسبتاً زیادہ مایوس نظر آتے ہیں۔
قومی وقار کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے کے بعد پاکستان کی خودمختاری حتیٰ کہ سلامتی تک کو دائو پر لگا دیا گیا ہے۔ ملک پر بیرونی قرضے ۵۵ ارب ڈالر سے زائد ہوچکے ہیں۔ اندرونی قرضے ۴۳ کھرب روپے ہوچکے ہیں۔ امریکی دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے گذشتہ برس کے دوران ۸ ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ’’پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں‘‘۔ ہماری قیادت نے قوم کے لیے وہ راستہ چنا ہے جس میں ہمیں سیکڑوں پیاز بھی کھانے پڑ رہے ہیں اور سیکڑوں جوتے بھی۔ امریکی غلامی کے اس تاوان کے ساتھ ساتھ ہمیں جو قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ملک امریکی کالونی بن چکا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم کی سیکورٹی بلیک واٹر کے تربیت یافتہ حضرات و خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں شراکت کی بنیاد پر طے شدہ پاکستان کا حصہ تک ادا نہیں کیا جا رہا اور پاکستان کے سربراہِ مملکت تک ۶ئ۱ ارب ڈالر کی معمولی رقم کے لیے ایک سے زائد مرتبہ امریکا کی منتیں کرچکے ہیں۔ ملک کے وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ اگر امریکا سے پاکستان کو مدد نہ ملی تو بجٹ خسارہ بڑھ جائے گا۔ بدامنی اور لُوٹ مار کا دور دورہ ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور نام نہاد فرینڈز آف پاکستان کو ملکی معاملات کو نچلی سطح تک بھی براہِ راست چلانے کی کھلی اجازت دے دی گئی ہے۔
کالعدم این آر او سے فائدہ اٹھانے والے تین درجن سے زائد افراد ملکی سیاسی سیٹ اَپ کا حصہ ہیں، جن کے سرخیل ملک کے سربراہ ہیں۔ بدعنوانی اور بدانتظامی جب کہ ٹیکس چوری اور امرا کو حاصل بے جا مراعات کی وجہ سے قومی خزانے کو تقریباً ۸۰۰ ارب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بنک کی پالیسیوں کی وجہ سے امیر اور غریب طبقات میں فرق بہت زیادہ نمایاں ہوگیا ہے۔ گذشتہ دس سال میں تقریباً ۵ ہزار ارب روپے غریب اور متوسط طبقے سے مال دار طبقات کو منتقل ہوچکے ہیں۔ گذشتہ تقریباً دو سال کے عرصے میں ۱۶ ملین سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے جاچکے ہیں۔ گذشتہ تین برس میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ۷ئ۲۶ فی صد کمی آچکی ہے۔
بھارتی ہٹ دھرمی اور پاکستانی اربابِ اقتدار کی نااہلی کی وجہ سے پاکستان کے دریا خشک ہورہے ہیں اور اب بات صرف بجلی کے بحران تک محدود نہیں ہے بلکہ خدانخواستہ قحط سالی تک پہنچتی نظرآرہی ہے۔ دریائوں کے بہائو میں ۲۱ فی صد اور ذخیرہ شدہ پانی میں ۳۴ فی صد کمی آچکی ہے۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق زراعت کے شعبے میں جو تنزل نظر آرہا ہے اس کی ایک وجہ اگرچہ بارشوں کا کم ہونا بھی ہے لیکن زیادہ اہم وجہ کسانوں کو ان کی محنت کاپھل نہ ملنے کی وجہ سے ان میں پائی جانے والی مایوسی ہے۔
ان حالات میں ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی محدود تبدیلی کافی نہیں ہوگی۔ اس موضوع پر تیار کی جانے والی لاتعداد سرکاری اور غیرسرکاری رپورٹوں میں جو سفارشات دی گئی ہیں اور جو خود آپ کے چیمبر کے پیش نظر بھی ہیں، موجودہ نظام میں رہتے ہوئے شاید ان سے بہتر تجاویز نہیں دی جاسکتیں۔ ضرورت ایک بڑی اور بنیادی تبدیلی کی ہے، ایک ایسی تبدیلی جس میں سوچ، زاویۂ نگاہ، عمل کا انداز اور رویے و رجحانات سب میں بہتری لائی جائے۔ میری کوشش ہوگی کہ مختلف شعبہ ہاے زندگی میں ہمارے پیشِ نظر انتظامی تبدیلیوں اور اصلاحات کو بیان کرنے کے بجاے اس پورے فریم ورک کو آپ کے سامنے رکھ سکوں جو ہماری دانست میں پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ناگزیر ہے۔ جماعت اسلامی کے ہر منشور میں وہ اقدامات متعین طور پر بیان کردیے گئے ہیں جو اس ideals تک پہنچنے کے لیے ہمارے پیشِ نظر ہیں۔ اگر آپ ان منشورات کا مطالعہ کریں تو آپ کو ایک تسلسل اور ربط نظر آئے گا جو آپ کو پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ہماری سوچ کی پختگی اور سنجیدگی کا بھی احساس دلائے گا۔
پاکستان کے قیام کے ۶۳ برس بعد یہ کہتے ہوئے بھی دکھ محسوس ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے ملک کے تشخص اور اس کی منزل کا تعین کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے نظریاتی تشخص یا قومی اہداف کے حوالے سے ہم بالکل تہی دست ہیں، ملک کے ۱۶کروڑ عوام نہ صرف اس سے باخبر اور آگاہ ہیں بلکہ اس کے لیے ہرقربانی دینے کو تیار بھی ہیں۔ ملک کا آئین ان بنیادوں کو غیر مبہم انداز میں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ صرف اس ملک کے حکمرانوں کو اپنے طرزِعمل اور قومی پالیسیوں کو اس سوچ سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ترقی اور بڑھوتری کی باتیں محض ایک خواب ہوں گی۔
اس کے ساتھ ہمیں ترقی کے مفہوم کو درست طور پر متعین (redefine) کرنا ہوگا۔ موجودہ سرمایہ دارانہ عالمی نظام میں ترقی صرف معاشی نموتک محدود ہے۔ گویا اس نقطۂ نظر کی رُو سے انسانی ترقی میں بنیادی اہمیت روپے پیسے (money) کو حاصل ہے، جب کہ انسانی فلاح محض اس کا نتیجہ قرار پاتی ہے۔ ہمیں اپنے نقطۂ نظر کے مطابق انسانیت کی فلاح کو اپنا محور قرار دینا ہوگا اور معاشی بڑھوتری محض اس کا ایک مظہر ہوگا۔ انسانی خوبیوں کو پروان چڑھانا اور ان میں اخوت و محبت پر مبنی ایسے تعلقات کو استوار کرنا ہمارا مطمحِ نظر ہوگا جس میں تعلق کی بنیاد انسانیت ہو نہ کہ پیسہ۔ اس حوالے سے ہمارے لیے کسی فرد کی جسمانی،سماجی اور اخلاقی ترقی بھی اسی قدر اہم ہوگی جتنی موجودہ دنیا میں اس کی معاشی ترقی ہے۔
جب ہم ان پانچ جہتوں میں کام کرنے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر ان پانچوں میں سے اخلاقی جہت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور زندگی کے دیگر تمام دائروں میں اس کا عملی نفاذ ہوگا۔ If character is lost, everything is lost شاید ایک گھسا پٹا جملہ محسوس ہو لیکن یہ زندگی کے پورے فلسفے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ہم جس معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہیں اس میں معاشی، سماجی، انتظامی اور اسٹرے ٹیجک تمام پہلوئوں میں اسلام کے دیے گئے بلند ترین اخلاقی معیارات کی جھلک نظر آئے گی۔
مذکورہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جمع شدہ رقوم گردش میں لانے کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی ، سرمایہ کاری میںاضافے اور برآمدات کے حجم میں ترقی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ معیشت کے تمام شعبوں میں تعلیم و تربیت کی اعلیٰ سہولیات فراہم کی جائیںاور R & Dکی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے جدید ترین ٹکنالوجی اوراعلیٰ انتظامی معیارات کو عمل میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے مؤثر انفراسٹرکچر ناگزیر ہے۔ معاشی میدان میں ان شعبوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے گی جن کے نتیجے میں ملازمتیں پیدا ہوں اور ملکی مصنوعات میں اضافہ ہو۔ خصوصاً ایسے شعبہ جات کو ترقی دی جائے گی جن کے potential سے اب تک درست طور پر استفادہ نہیں کیا گیا، مثلاً سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جس کو اپنی اقدار و روایات کی پاس داری کے ساتھ پروان چڑھاکر بڑے معاشی، سماجی اور اسٹرے ٹیجک فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کے لیے خصوصی مراعات اور اقدامات (incentives & initiatives) کے ذریعے پیداواری صلاحیت، اعلیٰ ترین معیار اور تیار و خام مال کی سٹوریج کے ساتھ ساتھ ڈسٹری بیوشن کی طرف بھی توجہ دی جائے گی۔
سماجی شعبے میں اگلے ۱۰ برسوں میں مذکورہ بالا اہداف حاصل کرنے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے سرکاری طور پر سوشل انفراسٹرکچر پروان چڑھایا جائے گا جس کے ذریعے تمام شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ خصوصی توجہ کے محتاج افراد اور علاقوں کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ایسے منصوبے تیار کیے جائیں جن کی مدد سے ان افراد اور علاقوں کو قومی زندگی میں زیادہ نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جاسکے۔ اس سب کے ساتھ ہمارے پیش نظر یہ بھی ہے کہ انسانی ترقی اور نشوونما کے لیے بہتر ماحول ایک بنیادی ضرورت ہے۔ تعلیم کا ایک ایسا یکساں نظام مرتب کیا جائے گا جو ہماری ملّی اقدار، قومی اہداف اور سماجی و معاشی حکمتِ عملی سے ہم آہنگ ہو۔ ہم تمام قومی پالیسیوں اور ترقیاتی منصوبوں میں صاف ماحول کی فراہمی کو پیشِ نظر رکھیں گے۔
ان انتظامی اصلاحات کو عملی صورت دینے کے لیے عدالتی عمل کو شفاف اور فعال بنانے کی طرف توجہ دی جائے گی۔ کرپشن، انتقامی رویوں اور اداروں میں انتظامی و سیاسی حوالوں سے مداخلت کے کلچر کو ختم کر کے خالص پیشہ ورانہ بنیادوں پر کارکردگی کے رجحان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اسلام کے شوریٰ کے اصول کو ہروقت اور ہرحوالے سے مدنظر رکھتے ہوئے ہرسطح پر جمہوری اور نمایندہ اداروں کو مضبوط بنایا جائے۔ تمام سرکاری اداروں میں مسلسل جائزے اور احتساب کے ذریعے کارکردگی میں مسلسل بہتری کو یقینی بنایا جائے گا۔
افرادِ معاشرہ میں ان اخلاقی خوبیوں کو پیدا کرنے کے لیے اسلام کے پورے نظام اور اس کی بنیادوں کو کسی افراط و تفریط کے بغیر ایک تدریج اور تسلسل کے ساتھ قومی کردار کا حصہ بنایا جائے گا۔ تعلیم و تربیت اور میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے روایتی اور غیرروایتی طریقوں سے اسلامی ثقافت، قانون کے احترام، اور دیگر ذاتی و اجتماعی خوبیاں پیدا کرنے پر زور دیا جائے گا۔ ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا جس میں مثبت اور تعمیری سوچ پروان چڑھے۔
اسٹرے ٹیجک اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہرسطح پر آزاد اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔ ملکی دفاع کو مضبوط اور ایسی داخلہ و خارجہ پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جن سے پاکستان کے دوستوں میں اضافہ اور دشمنوں میں کمی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ بداندیش حکومتوں اور گروہوں کے خلاف ایک مضبوط سدِّجارحیت بھی حاصل ہو۔ ملکی وسائل کے بہتر اور زیادہ سے زیادہ استعمال اور مصنوعی طرزِ زندگی کی حوصلہ شکنی کے ذریعے خودانحصاری کو قومی شعار قرار دیا جائے گا۔ علاقائی ممالک اور تنظیمات کے ساتھ معاشی میدان میں قریبی تعاون کے ساتھ ساتھ دیگر امور پر بھی انھیں ہم خیال بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ ایک واضح سوچ اور وژن کے ساتھ بین الاقوامی فورموں پر فعال کردار ادا کرتے ہوئے ملکی مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ ہمارے پیشِ نظر ہے کہ ملکی سلامتی اور وقار پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر باہم مفاہمت اور رواداری کو فروغ دیا جائے۔
میں آپ کے سامنے ایک واضح سوچ اور لائحۂ عمل کے ساتھ یہ تمام باتیں رکھ رہا ہوں اور مجھے اس بات کا بھرپور احساس ہے کہ اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے قومی اداروں کی مضبوطی کو یقینی بنانا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات کسی شک و شبہے کے بغیر کہی جاسکتی ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت عوام میںسے ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل اور اُمنگوں سے آگاہ اور ان کے حل کے لیے افرادی اور فکری صلاحیتوںسے مالا مال ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کم از کم کسی مشترکہ ایجنڈے پر قومی اتفاق راے پیدا کیا جائے۔
پاکستان کے مسائل کا ایک بڑا حصہ اس صورت میں حل ہوسکتا ہے جب کہ پاکستان کے عوام کو اپنے حکمرانوں پر اعتماد ہو۔ نہایت خوش نما اور جامع منصوبے بھی اپنے اعلان کے پہلے ہی دن سردخانے میں ڈال دیے جاتے ہیں کیونکہ نہ تو عوام کو ان کی تنفیذ کا یقین ہوتا ہے اور نہ ہی حکمران فی الواقع ان کو رُوبہ عمل لانا چاہتے ہیں۔ اگر حکمرانوں پر عوام کا اعتماد بحال ہوجائے تو پاکستانی عوام واقعتا ایک جان ہوکر بہتری کی سمت سفر کرسکتے ہیں۔ الحمدللہ ہمیں یہ اعتماد حاصل ہے۔