آپ نے عوام کی اصلاح سے مایوسی کا فتویٰ دینے سے پہلے کاش کہ اتنا غور کیا ہوتا کہ اب تک آخر اصلاح کا کام ہُوا کیا ہے؟___ کیا یہ چند وعظ، چند تقریریں، چند درس اس بات کے لیے کافی ہیں کہ شہادتِ حق اتمامِ حجت کی منزل کو پہنچ جائے! یہ وعظ اور درس اتنی بڑی قوم کی اصلاح کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ قوم جس کو چاروں طرف سے شیاطین نے گھیر رکھا ہے، یہ جس کو ’آئمہ ضلالت‘ پوری طرح گھیرے ہوئے ہیں، جس کی صحافت الحاد و لادینی کا طوفان اُٹھا رہی ہے، جس کے علما نے خود دین کی حقیقت کو اُن پر مشتبہ بنا رکھا ہے، جس کے لیڈروں نے مختلف بولیاں بول بول کر اسے ایک انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے، جس پر سرمایہ اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے، جس پر جدید فلسفے کا طوفان لٹریچر کی صورت میں ٹوٹا پڑتا ہے، اس میں آپ کے چند وعظ کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں تو مساعیِ صلاح میں اگر عمریں کھپ جائیں تو بھی نہیں کہاجاسکتا کہ شہادتِ حق کا حق ادا ہوگیا!
کسی داعیِ حق کو اُس وقت تک مایوسی کا اظہار کرنے کا حق نہیں جب تک ایک ماحول میں اس کا وجود کسی درجے میں بھی گوارا کیا جاتا ہے، اور جب تک بچہ بچہ اس کی دعوت کو علانیہ رو دَر رو ہوکر ٹھکرا نہیں دیتا، بخلاف اس کے یہاں تو حالات انتہائی اُمیدافزا ہیں۔ لوگ آپ کی بات سنتے ہیں، بعض اثر لیتے ہیں، بعض قبول کرتے ہیں، بعض عملی تعاون پر تیار ہوجاتے ہیں، بعض دین حق کے لیے ہمہ تن ایثار بن جاتے ہیں___ آہستہ آہستہ کوشش کرنے والوں کی کوششوں کے نتائج برابر نکل رہے ہیں! کجا وہ حال کہ لوگ مکہ میں خدا کا نام نہیں لے سکتے تھے، پِٹتے تھے، لہولہان کردیے جاتے تھے، دو سال تک شعب ابی طالب میں نظربند رکھے گئے، جب بھی انھوں نے اُس وقت سے پہلے قنوطیت کے جذبوں کو دلوں میں جگہ نہ دی، جب تک کہ ان کے قتل اور اخراج کے منصوبے نہ بن گئے، اور جب تک ان کو یہ یقین نہ ہوگیا کہ اب مکہ کی سرزمین، ان کا وجود ایک لمحے کے لیے بھی گوارا نہیں کرسکتی! لیکن ہزار طرح کی سہولتوں اور آسانیوں میں ہوتے ہوئے آپ کون ہوتے ہیں کہ قوم کی اصلاح کے ناممکن ہونے کا فتویٰ دیں؟ آپ کی قنوطیت ایک خطرناک بزدلی اور فرض ناشناسی کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔ براہِ کرم اسی کے علاج کی طرف توجہ فرمایئے ۔(’ہمارا معاشرہ، چندخطرناک نفسیاتی وبائیں، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۳، عدد ۵، جمادی الاول ۱۳۶۹ھ، اپریل ۱۹۵۰ئ، ص ۴۳-۴۴)