اپریل ۲۰۱۰

فہرست مضامین

امریکا کا بگڑا ہوا سیاسی نظام

اے جی نورانی | اپریل ۲۰۱۰ | احوالِ عالم

Responsive image Responsive image

ترجمہ: محمد ایوب منیر

ریاست ہاے متحدہ امریکا، دیگر ممالک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے مہم چلاتا ہے حالانکہ اسے چاہیے کہ وہ اپنے بگڑے ہوئے دستوری اور سیاسی نظام کو درست کرے۔ امریکی سینیٹ لمبی تقریروں کے ذریعے قانون سازی میں رکاوٹ (filibuster) کی وجہ سے مفلوج ہوچکی ہے، جب کہ کانگرس کا ایوان انتخابی حدبندیوں میں کسی جماعت یا طبقے کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔

نیویارک ٹائمز کے باب ہربرٹ کے مطابق: ’’ہم جانتے ہیں کہ سال ۲۰۰۰ء کے صدارتی انتخابات میں ایل گور نے جارج بش سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ نیز یہ کہ فلوریڈا میں جن لوگوں نے انتخابات میں اپنی راے کا اظہار کیا تھا، وہ بش کی نسبت ایل گور کوووٹ دینے کے خواہش مند تھے لیکن صدر، بش ہی بنے‘‘۔

ایک سیاست گزیدہ اور منقسم سپریم کورٹ نے اِن نتائج کی توثیق کی۔ جمہوری نظامِ حکمرانی میں، نظامِ انتخاب ہی اصل بنیاد ہوتا ہے۔ امریکا میں یہ نظامِ اس قدر نقائص کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود یہ دوسروں کو ’آزادانہ منصفانہ انتخابات‘ کی اَن تھک تبلیغ و تلقین کرتا ہے۔

ہر نئے انتخاب کے دوران ووٹروں کو خوف زدہ کرنے والے واقعات کا دور چلتا ہے۔ بارش میں آٹھ نو گھنٹے کا طویل انتظار، ووٹوں کا گم ہونا اور گنتی میں شامل نہ کرنا جیسے حربے عام ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے جس کے ذریعے کوئی بھی بدعنوانی کرنا ممکن ہے۔ کاغذ کی پرچی پر ووٹ ڈالنے کا عمل اس سے کہیں زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ غریب آبادیوں اور محلوں کے ووٹر، پولنگ اسٹیشن ہی سے دُور بھاگتے ہیں کیونکہ اُن کو یہ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ اگر قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کسی فرد نے ووٹ ڈالنے کی کوشش کی تو اُسے فوری طور پر گرفتار کر لیا جائے گا۔ قانون کی خلاف ورزی میں ٹریفک جرمانے کی رقم ادا نہ کرنا جیسے معمولی جرائم شامل ہیں۔

اگر نظامِ انتخابات پر اعتماد مجروح ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ووٹ کے ذریعے جیتنے والوں اور عوام الناس کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ باب ہربرٹ نے اس کی منظرکشی یوں کی ہے: موجودہ دور میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عام امریکی برسرِاقتدار گروہ سے اپنے آپ کو دُور اور لاتعلق محسوس کرتے ہیں۔

اس مسئلے کی دو جہتیں ہیں: دستوری اور سیاسی۔ سینیٹ کا رُول بائیس یقین کیا جائے یا نہ کیا جائے، سابقہ طریقے سے بہتر ہی ہے۔ اُنیسویں صدی کے بیش تر عرصے میں، قانون سازی کے راستے میں طویل تقریروں کے ذریعے رکاوٹ کو ختم کرنے اور ووٹ ڈلوانے کا اکثریت کے پاس کوئی راستہ ہی نہ ہوتا تھا۔ اس کے ذریعے کسی بھی سینیٹر کو موقع مل جاتا کہ کسی بھی اقدام کو روکنے کے لیے وہ ایوان کے اندر نہ ختم ہونے والی تقریر شروع کر دے۔

۱۹۱۷ء میں وڈرو وِلسن کے جنگ ِ عظیم اوّل میں امریکا کے حصہ لینے کے خلاف filibuster کو ناکام کرنے کے لیے سینیٹ نے رُول بائیس کی منظوری دی جس کے مطابق، یعنی ۱۰۰ میں سے ۶۰ اراکین منظوری دے دیں تو بحث ختم کی جاسکتی ہے۔ ۱۹؍جنوری کو ری پبلکن پارٹی کے اسکاٹ برائون نے مسیاچوسٹس سے ٹیڈکینیڈی کی نشست جیت لی اور سینیٹ میں ری پبلکن ووٹروں کی تعداد ۴۰ سے بڑھ کر ۴۱ ہوگئی۔ ڈیموکریٹس کے پاس کوئی راستہ نہ تھا کہ قانون سازی کے راستے میں رکاوٹ ختم کرسکیں۔

اگر ان سب اراکین کا کم آبادی والی ریاستوں سے تعلق ہوتا تو آبادی کے دسویں حصے کے یہ نمایندے، کانگرس کو بالکل بے دست و پا کرسکتے تھے۔ ایوانِ نمایندگان میں کئی نشستیں   انتخابی حلقے کی حدود میں ردّ و بدل کروا کے حاصل کی جاتی ہیں۔ ڈیموکریٹس ہوں یا ری پبلکن، اُنھوں نے ’محفوظ‘ نشستوں کا انتظام کر رکھا ہوتا ہے۔

لابی کرنے والے اداروں کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے میدان میں اُترنا پڑتا ہے۔ خصوصی مفادات رکھنے والے گروہ، بڑی بڑی رقوم خرچ کرتے ہیں۔ ۱۲ فروری کو سنٹرفار ریسپونسِو پالیٹکس (Centre for Responsive Politics) کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوچکی ہے کہ سال ۲۰۰۹ء میں کمپنیوں اور دیگر اداروں نے راے عامہ ہموار کرنے اور لابی کرنے کے لیے ۵ئ۳ارب امریکی ڈالر خرچ کیے۔ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے صحت اور توانائی کے لیے جو بل پیش کیے گئے اُن کو بھرپور نشانہ بنایا گیا۔ امریکن یونی ورسٹی براے کانگریس و صدارتی مطالعات کے جیمزتھربر کے مطابق، مذکورہ رقم وہ رقم ہے کہ جس کا رجسٹرشدہ لابی اداروں نے ریکارڈ رکھا ہو۔ اس میں وہ رقم شامل نہیں ہے جو عوام کو منظم کرنے، اتحاد (coalition) قائم کرنے اور اشتہارات پر خرچ کی گئی۔ تھربر کا کہنا ہے کہ ایک سال میں واشنگٹن میں لابی کرنے کے لیے مجموعی طور پر ۹ارب  ڈالر سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں۔ قانون سازی کے طریقے کو ایک ایسے طرزِعمل سے ناشائستہ بنادیا گیا ہے جس سے بدعنوانی آسان ہوجاتی ہے۔پسندیدہ مقامی منصوبوں کو حکومت کے بڑے بڑے اخراجاتی بلوں میں سینیٹر اور اراکینِ کانگرس بل کی حمایت کے عوض شامل کرا لیتے ہیں۔ انھیں  ایئرمارک (earmark) کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سال ۲۰۰۸ء میں ۱۳ہزار مقامی منصوبوں کو اُن اخراجات کے بلوں میں شامل کرا لیا گیا جس کی کُل رقم ۱۸ ارب ڈالر تھی۔ عموعی طور پر یہ    براہِ راست یا بلاواسطہ انعام ہے جو اُن اداروں کو دیا گیا جن کے مخصوص مفادات تھے جنھوں نے سیاست دانوں کو رقوم دی تھیں۔

بِلوں کے متن میں صرف ۱۰ فی صد ایئرمارک شامل کیے جاتے ہیں۔ ان کو کمیٹیوں کی رپورٹوں میں شامل کیا جاتا ہے اور ان کی کوئی قانونی قوت بھی نہیں۔ یہ کمیٹیوں میں ہونے والی سودے بازیوں کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔ اگر کوئی صدر کسی ایک ایئرمارک کو بھی نظرانداز کرتا ہے، اسے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا خدشہ ہوتا ہے کہ اُس کے پیش کردہ بل کانگریس میں نامنظوری سے دوچار ہوجائیں۔

ملک بُری طرح تقسیم ہے۔ اپنی پارٹی کے ساتھ بڑھتی ہوئی وفاداری نے قانون سازی کے ان نقائص میں اضافہ کر دیا ہے۔ ۱۹۹۵ء میں ایوان کے اُس وقت کے اسپیکر نِیوٹ گِنگرچ نے وفاقی حکومت کے فنڈز میں کٹوتی کردی جس سے قلیل مدت کے لیے حکومت کے کام رُک گئے۔   وہ چاہتا تھا کہ بل کلنٹن، صحت عامہ کے بارے میں مزید کٹوتیوں پر رضامند ہوجائے۔

نوبل انعام پانے والے پال کروگ من کا کہنا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ امریکی سیاست کا جو حال ہے، جس طریقے سے سینیٹ کام کر رہی ہے وہ ایک فعال حکومت کے شایانِ شان نہیں۔ سینیٹروں کو چاہیے کہ خود اس حقیقت کو تسلیم کرلیںاور ان قوانین میں تبدیلیاں لائیں۔ اس کی بھی ضرورت ہے کہ طول طویل تقریروں کے ذریعے قانون سازی کو روکنے کے عمل میں بھی تبدیلی یا کمی ضرور لائی جائے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو وہ کرسکتے ہیں اور اُنھیں ضرور کرنا چاہیے‘‘۔

۱۵ فروری کو ۵۴سالہ سینیٹر ایون باییہ نے ،جو centrist ہیں، اعلان کیا کہ وہ دوبارہ منتخب نہ ہونا چاہیں گے۔ اُنھوں نے اس حیران کن فیصلے کے لیے جو دلائل دیے وہ ’چونکا دینے والی‘  گھنٹی کے مترادف ہیں: ’’تاریخی درآمد کا چیلنج امریکا کے مستقبل کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ خسارے، اقتصادیات، توانائی، صحت عامہ اور دیگر معاملات پر توجہ ازحد ضروری ہے، لیکن قانون سازی کے ہمارے ادارے کوئی قدم اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ کانگریس کی اصلاح کی جانا چاہیے‘‘۔

اُن کا مزید کہنا ہے کہ بگاڑ کی کئی وجوہات ہیں: بے حد طرف داری، بدلنے والا نظریہ،  مہم میں رقوم فراہم کرنے کا ظالمانہ نظام، انتخابی حلقوں میں حدود کی تبدیلی، سینیٹ کے ذریعے  اہم عہدوں کے لیے انتخاب پر گرفت، مخالف جماعتوں کے سینیٹروں کے درمیان باہمی رابطے میں مسلسل کمی، اور ایک ایسا نظام ہے جس میں اتفاق راے کی قیمت پر پارٹی کی وحدت برقرار رکھی جاتی ہے۔(روزنامہ ڈان، ۶ مارچ ۲۰۱۰ئ)