مولانا عبدالحق بلوچ دو سال کی صبرآزما علالت کے بعد جو زندگی اور موت کی کش مکش سے عبارت تھی، ۲۹ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ (۱۶ مارچ ۲۰۱۰ئ) ربِ حقیقی سے جا ملے___ اِنَّا لِلّٰہ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
مولانا عبدالحق ۵ جنوری ۱۹۴۷ء کو مکران کے شمالی علاقے زمران میں پیدا ہوئے۔ وہ پیدایشی طور پر ہی ایک گردے سے محروم تھے، اس طرح صرف اس ایک گردے نے ۶۳ سال تک ان کا ساتھ دیا۔ آخری دو سال ڈائی لیسز پر زندگی گزار رہے تھے اور بالآخر ڈاکٹروں کے مشورے پر گردے کی تبدیلی (transplant) کا فیصلہ ہوا اور ان کے ایک صاحبزادے نے باپ کی زندگی بچانے کے لیے اپنا گردہ پیش کیا لیکن اللہ کا حکم کچھ اور تھا۔ جسم نے اس گردے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور بالآخر مولانا نے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی، اور تحریکِ اسلامی کے کارکنوں اور اپنے خاندان ہی کو سوگوار نہیں چھوڑا، بلوچستان کے ہرطبقے اور ہرمسلک اور ہرسیاسی وفاداری کے حامل ہزاروں انسانوں کو اَشک بار چھوڑ کر عارضی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف عازمِ سفر ہوگئے۔
مولانا عبدالحق سے میرے تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ۱۹۸۵ء کی قومی اسمبلی میں تربت سے منتخب ہوکر پہنچے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ بلوچستان سے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں جماعت اسلامی کو نمایندگی ملی تھی۔ مولانا عبدالحق نے تربت سے قومی اور صوبائی دونوں اسمبلیوں کی نشستیں جیتی تھیں اور پھر مرکزی اسمبلی کی سیٹ کو رکھ کر قومی سطح پر انھوں نے ایک کامیاب کردار کا آغاز کیا۔ پھر ۱۹۸۸ء میں وہ صوبہ بلوچستان کے امیرجماعت اسلامی مقرر ہوئے اور یہ ذمہ داری انھوں نے ۱۵ سال تک بڑی حکمت اور جانفشانی سے انجام دی۔ ۲۰۰۳ء میں مرکزی نائب امیر کی ذمہ داری سنبھالی اور آخری لمحے تک صحت کی خرابی کے باوجود تحریکِ اسلامی اور ملک و ملّت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ آخری ایام میں بھی جب بیماری نے جسمانی قوت کو شدید مضمحل کردیا تھا تحریکِ اسلامی اور پاکستان کے مسائل کے بارے میں ان کی فکرمندی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبول سے نوازے، بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات سے نوازے، آمین!
مولانا عبدالحق بلوچ ہر اعتبار سے ایک ایسے قومی اور تحریکی رہنما تھے جنھوں نے اپنے خلوص اور اپنی شب و روز کی محنت سے قیادت کے اعلیٰ مقامات کو حاصل کیا۔ ابتدائی زندگی دیہات کے زرعی ماحول میں گزاری۔ تعلیم کا آغاز اپنے شوق سے، زمین داری اور گلہ بانی کی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنے والد مولانا محمد حیات اور اپنے چچا مُلّا شفیع محمد کے دست شفقت پر کیا۔ تربت کے ہائی اسکول سے میٹرک کی سند حاصل کرکے دینی تعلیم کے لیے کراچی منتقل ہوئے۔ یہاں پہلے مدرسہ مظہرالعلوم، لیاری میں ایک سال تعلیم حاصل کی اور پھر حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے دارالعلوم کراچی کورنگی میں داخلہ لیا جہاں سے وہ ۱۹۷۳ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔
مولانا مودودیؒ کی کتب سے والد محترم کی لائبریری ہی سے تعلق قائم ہوگیا تھا۔ پھر کراچی کے قیام کے دوران تحریک کا پورا لٹریچر پڑھا اور عملاً جمعیت اور جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ البتہ باقاعدہ رکنیت کا تعلق ۱۹۸۰ء میں قائم ہوا، اور پھر اپنے خلوص، محنت، مسلسل جدوجہد اور علمی اور تنظیمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک قومی سطح کے لیڈر کی حیثیت سے اپنے نقوش چھوڑ کر رخصت ہوگئے۔
مولانا عبدالحق کی زندگی بڑی سادہ اور ہرقسم کے تصنع سے پاک تھی۔ ان کی زندگی کا پہلا اور آخری نقش ان کی سادگی، اور ظاہر اور باطن کی یکسانی ہی کا اُبھرتا ہے۔ دنیا پرستی کا کوئی سایہ ان کی زندگی پر نظر نہیں آتا۔ مجھے اپنے ۲۵ سالہ ربط و تعلق میں دنیوی مفادات کے باب میں دل چسپی کا کوئی ایک واقعہ بھی یاد نہیں۔ روایتی دینی اور مشرقی تہذیب کا وہ ایک بے مثال نمونہ تھے اور حق کی تلاش، حق کا قبول اور حق کی راہ پر استقامت ان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ علمی اعتبار سے میں نے ان کو بہت بلندمرتبہ انسان پایا۔ ان کا مطالعہ وسیع اور حافظہ اور استحضار قابلِ رشک تھا اور اس کے ساتھ بے مثال انکسار۔ ان کی گفتگو سے ادعاے علم کا دُور دُور بھی کوئی شائبہ کبھی محسوس نہیں ہوا لیکن میں نے علمی اعتبار سے ان کو بہت ہی محکم پایا۔ کتابوں سے ان کو غیرمعمولی شغف تھا۔ ۱۹۹۳ء میں کابل میں ایک ماہ ہمیں ایک ساتھ ایک کمرے میں رہنے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں ان کی شخصیت کو سمجھنے کا نادر موقع ملا۔ سادگی کے ساتھ بذلہ سنجی اور لطیف مزاح ان کی شخصیت کا حصہ تھے لیکن ان سب سے مستزاد ان کا علمی شوق اور دعوت و خدمت کا جذبہ تھا۔ کابل کے قیام کے دوران صبح و شام میزائلوں کی بارش کے ماحول میں بھی وہ، پروفیسر ابراہیم اور یہ خاکسار بار بار کابل کے بازاروں میں پرانی کتابوں کے انبار میں گوہرمطلوب کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے، اور مولانا عبدالحق کا انہماک ہم میں سب سے زیادہ تھا۔ مولانا کا علمی ذوق بہت ہی ستھرا اور متنوع تھا۔
بلوچستان اور ملک کے مسائل پر مولانا سے جب بھی بات کرنے کا موقع ملا ان کو بہت زیرک پایا۔ معلومات کا ایک خزانہ ان کے پاس ہوتا اور یہ صرف اخباری اطلاعات پر مبنی نہیں تھا۔ ان کا ذاتی ربط ہر مکتب ِ فکر اور ہر سیاسی نقطۂ نظر کے حامل افراد سے رہتا تھا اور اس طرح ان کے سامنے مسئلے کے تقریباً تمام ہی رُخ ہوتے اور سب جماعتوں اور گروہوں کی راے اور تجزیے سے وہ واقف ہوتے تھے۔ سیاسی مسائل کو سمجھنے کے لیے یہ وسعتِ نظر اور حقیقت پسندی بے حد ضروری ہے۔ ہمارے حلقے میں سب ساتھی اس کا پورا اہتمام نہیں کرتے لیکن مولانا عبدالحق کا ربط و تعلق ہرگروہ سے تھا اور وہ ان کے فکر اور تجزیے سے بخوبی واقف ہوتے تھے، بلکہ میں یہاں تک کہنے کی جسارت کروں گا کہ ان کو سب حلقوں کا اعتماد حاصل تھا اور یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے جس کی سیاسی قیادت کو لازماً فکر کرنی چاہیے۔ ان کی وفات پر جس طرح جماعت اسلامی کے تمام کارکن اور قیادت افسردہ اور غم زدہ ہے، اسی طرح دوسرے سیاسی مسلک، حتیٰ کہ ان کے موقف کے بالکل برعکس راے رکھنے والے بھی ان کی کمی کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے لیے اَشک بار ہیں۔ اس لیے کہ ان کا مسلک بقول ماہر القادری کچھ ایسا تھا کہ ؎
وہ کوئی رند ہو، یا پارسا ہو
فقیروں کا تو یارانہ ہے سب سے
مولانا عبدالحق بلوچ کے انتقال پر جن تاثرات کا اظہار سید منور حسن، قاضی حسین احمد اور لیاقت بلوچ نے کیا ہے اس سے ملتے جلتے جذبات ہی کا اظہار نواب اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالمالک، ڈاکٹر اسماعیل بلیدی اور بلوچ نیشنل فرنٹ کے ترجمانوں نے بھی کیا ہے۔ اسی طرح افغانستان اور ایران کے رہنمائوں نے بھی اس غم میں شرکت کا اسی طرح اظہار کیا ہے جس طرح جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنوں نے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے ان کا جنازہ تربت کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں بلوچستان ہی نہیں تمام ملک سے سوگواروں نے شرکت کی اور نمازِ جنازہ پڑھانے کی ذمہ داری محترم نعمت اللہ خان صاحب نے انجام دی۔ اللہ تعالیٰ مولانا عبدالحق مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ان کی بیوہ اور بچوں کو اور تمام رشتہ داروں اور محبت کرنے والوں کو صبرجمیل سے نوازے، اور جو خلا ان کے اُٹھ جانے سے پیدا ہوا ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے، آمین!