مجھ سے بیش تر لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپ نے اسلام کیوں قبول کیا؟ مجھے اس وقت اور بھی حیرت ہوتی ہے جب مسلمان مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں۔ عام طور پر میرا یہی جواب ہوا کرتا ہے کہ یہ واحد سچا مذہب ہے۔ مجھے کوئی ایسا حادثہ پیش نہیں آیا جس میں بال بال بچنے کے بعد میں نے اسلام قبول کرلیا۔ مجھے کوئی ایسی روشنی یا نور بھی نہیں دکھائی دیا جس کی وجہ سے میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا، حتیٰ کہ مجھے پوری طرح اس بات کا علم بھی نہیں ہے کہ میں نے کب مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا۔ کچھ لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ فی الواقع مجھے خدا کی تلاش تھی، نہ زندگی کا کوئی خاص مقصد ہی میرے پیش نظر تھا۔ مجھے تو تاریخ، فلسفہ اور سوشیالوجی کے موضوع پر کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ اسی شوق کی تسکین کے لیے میں مختلف بک اسٹورز سے کتب تلاش کرتا رہتا تھا۔
یہ کوئی ۲۰۰۳ء یا ۲۰۰۴ء کی بات ہوگی۔ ایک روز میں ایک بک اسٹور میں داخل ہوا تو مجھے ایک سبز رنگ کی کتاب نظر آئی جس کا نام Islam: Values, Principles and Reality (اسلام: اقدار، اصول اور حقیقت) تھا۔ میں نے اسے اُٹھا لیا اور مجھے خیال آیا کہ اگرچہ میں کچھ مسلمانوں کو جانتا ہوں لیکن مجھے ان کے دین اور عقائد کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ یہ سوچ کر میں نے اس کتاب کو خرید لیا تاکہ یہ جان سکوں کہ اسلام کیا ہے؟ اس وقت مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کتاب کو خرید کر دراصل چار ساڑھے چار سال کی طوالت پر مبنی اُس سفر کا آغاز کر رہا ہوں جو بالآخر میرے قبولِ اسلام پر جاکر ختم ہوتا ہے۔
اسلام کے مطالعے سے قبل میرے ذہن میں اسلام کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں تھیں۔ مثال کے طور پر مجھے اس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ ایک مسلمان اپنے آپ کو کیسے ایک نیک اور اچھا انسان سمجھتا ہے، جب کہ دوسری طرف وہ اپنی بیوی کے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہو۔ مجھے اس بات پر بھی حیرت ہوتی تھی کہ مسلمان مکہ میں ایک چوکور پتھر (یعنی خانہ کعبہ) کی عبادت کیوں کرتے ہیں، جب کہ مجسموں اور عمارتوں میں کوئی طاقت نہیں ہوتی اور نہ وہ کسی کی مدد کرسکتے ہیں۔ اسی طرح میں یہ بھی نہ سمجھ سکا کہ مسلمان دوسرے مذاہب کو کیوں برداشت نہیں کرتے، بجاے اس کے کہ وہ یہ کہیں کہ سب لوگ اسی خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان باتوں کو ذہن میں رکھ کر میں نے اسلام پر مطالعہ شروع کیا۔
پہلی کتاب کے بعددوسری اور دوسری کے بعد تیسری کتاب میں پڑھتا چلا گیا۔ چند برسوں کے مطالعے کے بعد مجھے یہ پتا چلاکہ ہر وہ بات جسے میں اسلام کا حصہ سمجھتا تھا اور جس کی مخالفت کرتا تھا، درحقیقت اسلام بھی اس کی مخالفت کرتا ہے۔
میں اس نتیجے پر پہنچا کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ایک اچھا مسلمان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہو۔ مجھے یہ معلوم ہوا کہ مسلمان خانہ کعبہ کی عبادت نہیں کرتے بلکہ وہ مجسموں اور اس نوعیت کی چیزوں کی عبادت کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ بات بھی میرے علم میں آئی کہ اسلامی تہذیب اپنی پوری تاریخ میں مذہبی برداشت کی کرئہ ارض پر بہترین مثال ہے۔
میں اسلامی تعلیمات اور اسلام کے اُن بنیادی اصولوں کو جان گیا جن سے اسلام کا مطالعہ کرنے سے قبل بھی مجھے اتفاق تھا۔ مطالعے کے دوران میں یہ راز منکشف ہوا کہ بہت سے موضوعات پر میرا نقطۂ نظر اسلام کے نقطۂ نظر کے عین مطابق ہے۔ اسلام کے متعلق میری معلومات کا بڑا ذریعہ کتابیں تھیں۔
میرے گردونواح میں کوئی ایسی دعوتی سرگرمیاں نہ تھیں جومیرے لیے معاون و مددگار ثابت ہوتیں، اور میرے رابطے میں ایسے لوگ بھی نہ تھے جو دعوت کا کام مؤثر انداز میں کرسکیں۔ مجھے جو تھوڑی بہت مدد ملی، وہ ان لوگوں سے ملی جو میرے ملنے جلنے والے تھے۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہالینڈ میں دعوت کا کام کس حد تک منظم ہے۔
جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے سوچا کہ میں بھی روزہ رکھ کر دیکھوں۔ مجھے یہ خیال اس لیے بھی آیا کہ کسی کتاب کے مطالعے سے اُس کیفیت کا اندازہ نہیں ہوتا جو روزہ رکھ کر پیدا ہوتی ہے۔ میں نے اپنے مسلمان دوستوں سے تذکرہ کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے قرآن مجید کا ایک نسخہ حاصل کیا اور انٹرنیٹ سے ۳۰ دن میں قرآن پاک کے مطالعے کا پروگرام بھی حاصل کرلیا۔ جب میں نے ان سے کہا کہ میں مکمل قرآنِ مجید کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں اور رمضان کے بعد شوال کے روزے بھی رکھوں گا توان میں سے کچھ نے اس کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا اور نہ انھوں نے کبھی شوال کے روزے رکھے تھے۔ میں نے کچھ دودھ اور کھجوریں بھی خرید لیں اور اپنے ساتھ کام پر لے گیا تاکہ روزہ کھول سکوں اور اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ یہ سنت ہے جس پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ اگر انھوں نے روزانہ ایک پارہ نہ پڑھا تو قرآن کے مطالعے کے دوران اٹھنے والے سوالات کے جوابات میں کہاں سے حاصل کرسکوں گا۔ چنانچہ ہم نے ایک گروپ کی شکل میں قرآن کا اجتماعی مطالعہ شروع کر دیا۔ گھر کی خواتین کھانا تیار کرکے دے دیتی تھیں جو ہم اپنے کام کے دوران افطار کے بعد کھاتے تھے۔ اس طرح مجھے کچھ نئے قسم کے کھانوں کا تجربہ بھی ہوا۔ یوں ہمیں رمضان میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور بہت لطف آیا۔ اسی طرح میری زندگی کی پہلی عید بھی آئی۔
رمضان کے بعد میں اپنی زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے اپنے قصبے کی مسجد میں گیا۔ میرے نزدیک کسی اچھے کام کے لیے رقم خرچ کرنا، ایک صحیح بات تھی، اس لیے مسلمان نہ ہونے کے باوجود زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی میرے پاس کوئی وجہ نہ تھی۔ میں مسجد کے خازن سے ملا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں مسلمان ہوں؟ میں نے کہا کہ میں مسلمان نہیں ہوں، البتہ میں نے رمضان میں روزے بھی رکھے ہیں اور اب زکوٰۃ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا کہ مسلمان ہونے کے لیے جلدی نہ کریں بلکہ اپنا اطمینان کرنے کے بعد اسلام قبول کریں۔
اس کے بعد کئی ماہ گزر گئے اور میں اسلام پر مطالعہ کرتا رہا۔ بیش تر کتب جو میرے زیرمطالعہ رہیں وہ غیرمسلموں کی لکھی ہوئی تھیں، مثلاً کِرن آرمسٹرانگ۔ میں نے کچھ وقت اسلام پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کے مطالعے پر بھی لگایا۔ میں نے مذہبی بنیادوں پر انتہاپسندی اور دہشت گردی اور تہذیبوں کے تصادم جیسے موضوعات پر بھی مطالعہ کیا اور اسی طرح دیگر موضوعات بھی زیرمطالعہ رہے۔ اس تمام تر مطالعے کے نتیجے میں، میں نے جب بھی کوئی سوال اٹھایا تو اسلام کی طرف سے ہمیشہ اطمینان بخش جواب ملا۔ اطمینان بخش جواب کے حوالے سے یہ بھی واضح رہے کہ میں نے جب بھی مسلمانوں سے بات کی تو وہ مجھے مطمئن نہ کرسکے، البتہ اپنے مطالعے کے نتیجے میں جتنی معلومات بھی میں نے اکٹھی کیں، ان سے مجھے ہمیشہ اطمینان بخش جواب ملا۔
اگلے سال رمضان کے اختتام پر میں ایک بار پھر واپس اپنے قصبے کی مسجد میں گیا تاکہ اپنی زکوٰۃ ادا کرسکوں تو ایک دفعہ پھر میری ملاقات مسجد کے خازن سے ہوئی اور اس نے مجھے پہچان لیا اور مجھ سے دوبارہ پوچھا کہ کیا میں مسلمان ہوگیا ہوں؟ میں نے کہا کہ نہیں، میں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا، اور آپ ہی نے تو مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں جلدبازی نہ کروں۔ اس نے کہا کہ ہاں، میں نے جلدبازی سے منع کیا تھا لیکن اس فیصلے میں اتنی تاخیر بھی نہیں ہونی چاہیے۔
بطور غیرمسلم یہ میرا آخری سال تھا۔ اس سے قبل میں نے شراب پینا چھوڑ دی تھی۔ میں نے سگریٹ نوشی بھی ترک کر دی تھی۔ میں نے کوشش کی کہ میں آگے بڑھ کر نیکی کا کام کروں اور دوسروں کو بھی ترغیب دلائوں۔ اسی طرح خود برائی سے رُک جائوں اور دوسروں کو بھی برائی سے بچنے کی تلقین کروں۔ گویا میں نے ایک طرح سے دعوتِ دین اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔
ایک بار مجھے ترکی جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں کچھ تاریخی مساجد دیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں مجھے فطرت کی نشانیوں کو پہلی مرتبہ بغور دیکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران اللہ تعالیٰ سے قرب کی عجب کیفیت تھی اور یہ بڑھتی چلی گئی۔ کبھی کبھار میں نے اپنے انداز میں نماز بھی ادا کی جو اس نماز سے مختلف تھی جس طرح میں آج بحیثیت مسلمان نمازادا کرتا ہوں۔ اس موقع پر جس طرح سے میں نے نماز ادا کی اور جو میری قلبی کیفیت تھی، اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے اندر کوئی انقلابی تبدیلی واقع ہورہی ہے۔ میں برابر اسلام کا مطالعہ کرتا رہا، تاہم اب میں نے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال بھی شروع کردیا۔
ہالینڈ کی سماجی امور سے متعلق ایک معروف ویب سائٹ ہائیوز (Hyves) ہے جس کے ذریعے میرا ایک ڈچ نومسلم خاتون سے رابطہ ہوا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں مسلمان ہوں تو میں نے اسے بتایا کہ میں ابھی تک مسلمان نہیں ہوا ہوں۔ اس نے مجھے دعوت دی کہ میں اس کے گھر آئوں اور اس کے شوہر سے ملوں جو کہ پیدایشی طور پر مسلمان ہے، اسلام پر عمل پیرا بھی ہے اور مصر میں پیدا ہوا تھا۔ میں ان کے گھر گیا اور ان کے ساتھ کھانا کھایا اور پھر اسلام کے بارے میں بات چیت بھی کی۔ جب دوسری مرتبہ میں ان سے ملا تو انھوں نے مجھے درست طریقے سے نماز ادا کرنا سکھائی جس کے لیے میں نے ان سے درخواست کی تھی۔ میں نے اپنے طور پر بہتر سے بہتر انداز میں نماز ادا کرنے کی کوشش کی اور وہ مجھے دیکھتے رہے۔ پھر انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں واقعی اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں؟ میں نے کہا: ہاں، میں اس کے لیے تیار ہوں۔
اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں تو پہلے ہی مسلمان ہوچکا ہوں، اگرچہ میں نے باضابطہ طور پر اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ لیکن پچھلے چند برسوں سے میں اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ اللہ جو کہ خالقِ کائنات ہے، اور سچا واحد خدا ہے، اس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نہ صرف رسول ہیں بلکہ آخری رسول ہیں جنھوں نے دین کی تکمیل کی۔ میں روزہ رکھنا چاہتا تھا، زکوٰۃ ادا کرنا چاہتا تھا، نماز ادا کرنا چاہتا تھا اور آج بھی حج کے لیے میرے اندر تڑپ موجود ہے۔
میرا قبولِ اسلام کا سفر مطالعۂ کتب کے ذریعے طے پایا۔ میں نے اسلام کے نظریے سے متاثر ہوکر اسے قبول کیا۔ میرا یہ فیصلہ کوئی جذباتی فیصلہ نہ تھا بلکہ سوچا سمجھا اورمنطقی فیصلہ تھا۔ میں نے اسلام کی ان تعلیمات تک رسائی حاصل کی جو بآسانی دستیاب نہ تھیں۔ پھر ان کا موازنہ کیا اور ان پر گہرا غوروفکر کیا۔ اسلام، میرے ہرسوال کا جواب تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں نے اپنے آپ کو مسلمان کہلوانا نہ شروع کیا تو پھر میں ایک منافق ہوں گا۔
ایک یا دو ہفتے بعد، میں اور میرا مصری دوست، دونوں ایک قریبی مسجد میں گئے۔ اس نے امام صاحب کو پہلے ہی سے میری آمد کا مقصد بتا دیا تھا۔ اس موقع پر میرے والدصاحب بھی موجود تھے۔ امام صاحب نے کلمۂ شہادت لفظ بہ لفظ پڑھا، اور میں نے بھی اسی طرح لفظ بہ لفظ ادا کیا۔ میرے قبولِ اسلام کے بعد امام صاحب نے استقامت کے لیے دعا بھی کی جس کا میرے مصری دوست نے ڈچ زبان میں ترجمہ کیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں میلوں سے بھاگتا چلا آرہا تھا اور اب بالآخر منزلِ مقصود تک پہنچا ہوں۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے اندر ایک نئی روح پھونک دی گئی ہو۔ میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھیں۔ آہستہ آہستہ میں نے اپنے اُوپر قابو پایا۔ اب میں پُرسکون اور مسرور تھا۔ اسی دوران مجھے خیال آیا کہ میں نے دین کا نور پالیا ہے، چنانچہ میں نے اپنا نام نور دین رکھنے کا فیصلہ کیا۔
قبولِ اسلام کے بعد میں اپنے قصبے کی مسجد میں واپس گیا۔ جیسے ہی میں مسجد میں داخل ہوا، مجھے وہی خازن ملا جس سے میری اس سے قبل ملاقات ہوئی تھی۔ اسی نے مجھ سے ایک دفعہ پھر پوچھا کہ کیا آپ مسلمان ہوچکے ہیں؟ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: جی ہاں، میں مسلمان ہوچکا ہوں اور میرا نام نوردین ہے۔ اس نے فوراً)کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ تلاشِ حق کے ایک طویل سفر کے بعد بالآخر آپ دین حق کی نعمت سے سرفراز ہوگئے! (بہ شکریہ ہفت روزہ ریڈینس، نئی دہلی، ۳۱؍اکتوبر ۲۰۰۹ئ)
(نوردین ولڈیمن ہالینڈ کی ایک تنظیم اونٹڈک اسلام فائونڈیشن سے وابستہ ہیں اور دعوت و تبلیغ کی خدمات انجام دے رہے ہیں)