آج جب ہم اپنے دور کے پیچیدہ اور نئے پیش آمدہ مسائل پر نظر دوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کے اہلِ علم و دانش کی تمام تر ذہنی کاوشوں اور تصور اتی پروازکے باوجود ان کے وہم وگمان میں بھی ہمارے دور کے بہت سے بڑے مسائل نہیں آسکے۔ جس طرح ہم ۱۰۰ سال یا ۵۰۰ سال بعد کے حالات کا اندازہ کرناچاہیں تو کتنے ہی دُوراندیش اور پیش بین کیوں نہ ہوں، یقینا حالات کا صحیح اندازہ نہیں کرسکیں گے۔ میں نے اپنے دور کے حالات کا جائزہ لیا، اور کچھ ایسے مسائل سامنے آئے، جن کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مسلمانوںپر ایسا وقت بھی آئے گا جب زیادہ تر عرب اور مسلم ملکوں کے حکمران اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کے بجاے انگلستان اور فرانس اور سویزرلینڈ وغیرہ کے قوانین اختیار کریں گے اور مسلمانوں پر بخوشی اس کو نافذ کریں گے۔ ہاں، ماضی میں ایسے قانون کا ذکر ملتا ہے جو منگولوں نے تلوار کے زور پر مسلمانوں پر نافذکیا تھا، لیکن یہ کہ خودمسلم حکمراں اللہ کی کتاب کو اور سنت رسولؐ کو پس پشت ڈالتے ہوئے برضا ورغبت کوئی اور قانون اختیار کریں گے، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مسلمانوںپر ایسا وقت بھی آئے گا، جب وہ بہت سارے عرب اور مسلم ملکوں میں رہتے ہوئے اپنے دین پر عمل نہیں کرسکیں گے، اور جو مسلمان زیادہ پابندی سے مسجد جائے گا وہ مشکوک بن جائے گا، اور جس کی داڑھی لمبی ہوگی، وہ مجرم شمار ہوگا، اور اگر پھر بھی وہ دین پر جمے رہنے پر مصر ہوگا تو انتہا پسند اور شدت پسند جیسے القاب سے نوازا جائے گا۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اگر مسلمان لڑکیاں یونی ورسٹیوں میں علم نافع کے حصول کے لیے جائیں گی ، خواہ وہ دین ہی کا علم کیوں نہ ہوتو انھیں حجاب میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی، اور اگر وہ حجاب کے ساتھ علم حاصل کرنا چاہیں تو انھیں اپنے ملک سے باہر جاناہوگا۔ یہ تو کسی کے ذہن میں بالکل ہی نہ آیا کہ انھیں کفرکے گہواروں،یعنی مغربی ملکوں میںاپنی منزل تلاش کرنا پڑے گی، محض اس لیے کہ وہ دوران تعلیم حجاب پہن سکیں۔ آج ترکی میں یہی ہورہا ہے، وہی ترکی جو پانچ صدیوں تک عالم اسلام کا دارالحکومت رہاہے۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک مسلم خاتون ہسپتال کے دروازے پر دردِ زہ سے کراہ رہی ہوگی اور اس کے سامنے صرف دوراستے ہوں گے یا تو بنا حجاب وہ ہسپتال جائے یا اگر اسے حجاب پہننے پر اصرار ہے تو وہاں سے دھتکار دی جائے۔ یہ آج تیونس میں ہورہا ہے، وہی تیونس جو فاتح افریقہ عقبہ بن نافع کی جاے سکونت ہے، وہاں باحجاب خواتین کو سرکاری نوکریوں سے روک دیا جاتا ہے، اور اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ کافروں کے ملکوں میں اس ظلم کا عُشرِ عشیر بھی نہیں ہوتا۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ کوئی مسلمان کافر سے درخواست کرے گا کہ وہ مسلمانوں کے شہر پر بمباری کرے اور معصوموں کو قتل کرے ، صرف اس وجہ سے کہ اس شہر پر اقتدارصالح افراد کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ہوا ، جب محمود عباس اور اس کے خائن ساتھیوں نے یہودیوں سے کہا کہ غزہ پر اس وقت تک بمباری کرتے رہیں جب تک حماس کی حکومت ڈوب نہ جائے۔ ہم نے تاریخ کی زبانی محض اتنا ہی سنا تھاکہ اندلس کے بعض حکمران کچھ شہر اور قلعے عیسائیوں کے حوالے کردینے کی سازش کیا کرتے تھے، لیکن مسلمانوں کو قتل کرنے، ان کے گھروں کو تاراج کرنے اور ان کے علما وقائدین کو مٹانے کی سازشوں میں برابر کے شریک ہوں ، ایسا تو نہیں ہوتا تھا۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک مسلمان حکومت دشمنان اسلام کی نیابت کرتے ہوئے ایک مسلم آبادی کا محاصرہ کرلے گی، فولادی دیوار کھڑی کرکے سامانِ زندگی پہنچانے کے تمام راستے بند کردیے جائیں گے۔ ہم نے قدیم حاکموں کے بارے میں ایسی خیانتیں تو نہیں سنیں۔ زیادہ سے زیادہ جو ہم نے سنا وہ یہ کہ صلیبی فوجیں جب اندلس کے مسلمانوں کا محاصرہ کرتی تھیں تو کچھ خائن حکمراں خاموش تماشائی بنے رہتے تھے، لیکن ایسا تو نہیں ہوا کہ وہ محاصرے میں شریک بھی ہوجائیں ، اور محاصرہ سخت سے سخت کردینے کی ساری مجرمانہ کوششیں کرڈالیں، اور اپنے مسلمان بھائیوں پر زمین، سمندر اور فضا کے سارے راستے مسدود کردیں۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بہت سی مسلمان حکومتیں اپنے ملازموں اور عہدے داروں کے پیچھے جاسوس لگادیں گی، جو نیک ہوگا اور نیکی کی طرف بلائے گا، وہ معتوب ہوگا اورملازمت سے ہٹادیا جائے گا،جب کہ دوسری طرف چوروں، بدکاروں اور رشوت خوروں پر نوازشیں ہوں گی۔ اور یہ ہوا، کچھ مسلم حکومتوں نے اسکولوں اور کالجوں اور تربیتی اداروں سے صالح اساتذہ کو برخاست کردیا، فوج میں سے ہر اس شخص کو نکال دیا جس پر نیک ہونے کا شبہہ ہوا، خواہ اس کی نیکی کا ثبوت محض ایک نماز ہو، جو وہ یہ سمجھ کر پڑھ رہا تھا کہ مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا ہے، اور ’قومی سلامتی‘ کا ذرا سا خطرہ جس میں بھی نظر آیا، وہ ملعون قرار پایا۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک مسلم حکمران مسجدیں بنانے سے روک دے گا، یا انھیں شہید کردے گا، اسلامی کتابیں تقسیم کرنے پر روک لگائے گا اور دین کا کام کرنے والوں کو دشمن بتاکر ان کو روزگار سے محروم کردے گا، یا ذرائع ابلاغ میں اپنی بات کہنے سے روک دے گا۔ یہ سب کچھ ہوا، اور بہت سارے مسلم ملکوں میں ہوا، کہیں کچھ کم، کہیں کچھ زیادہ۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ زنااور بدکاری کو حکومت کی سرپرستی اور تحفظ حاصل ہوگا۔ پیشہ ور عورتیں ٹیکس ادا کریں گی، وقفے وقفے سے ان کا طبی معائنہ ہوگا، تاکہ بیماریوں سے حفاظت اور زنا کے لیے اطمینان کا یقین حاصل ہوسکے، اور یہ سب قوانین اور ضابطوں کے تحت ہوگا۔ آج بعض مسلم ملکوں میں یہ سب ہورہا ہے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بیش تر مسلم ممالک قانون سازی کے ذریعے سود کو حلال کریں گے، اس کی بنیاد پر بنک قائم کریں گے، اور اپنے معاشی نظام کو اس سے باندھ لیں گے، مگر یہ بھی دیارِ اسلام میں ہوا۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب جہاد ننگ وعار بن جائے گا، اسے ناپسندیدگی اور کراہیت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور اسے شدت پسندی اور انتہا پسندی کے برابر سمجھا جائے گا۔ جہاد اور مجاہدین سے لوگ بدگمان ہوجائیں گے، حالانکہ مجاہدین تو ہمیشہ سے امت میں قابل رشک اور سرمایۂ افتخار رہے ہیں۔
کسی نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب مسلمانوں کی عورتیں بیش تر لباس سے آزاد ہوجائیں گی۔ اسلامی ملکوں کے سرکاری ٹی وی چینلوں سے عشق ومحبت کے مناظر بلکہ اور آگے بڑھ کر بیڈروم کے مخصوص مناظر دکھائے جائیں گے۔ ماضی میں تو اس کا تصور ہی نہ تھا، مگر آج بلادِ اسلامیہ میں یہ بلااتنی عام ہے کہ اعتراض کرنے والے خال خال ملتے ہیں۔
شراب کو آج لائسنس ملتا ہے، اکثر اسلامی ملکوں میں اس کی فیکٹریاں ہیں،جہاں وہ بنائی جاتی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے اسے برائیوں کی جڑ بتایا تھا، آج شراب بنانے، اس کی تشہیر کرنے اور اسے پینے میںہم کافروں سے مقابلہ کررہے ہیں۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی اسلامی ملکوں میں یہ بھی ہوگا۔
وہ مسلمانوں کے عروج اور اقتدار کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں کسی نے نہ دیکھا اور نہ سناکہ کوئی فقیہ، اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے گرم جوشی اور تپاک سے مصافحہ کرے اور دشمنِ خدا و رسولؐ کے ساتھ ایک اسٹیج پر تشریف فرما ہو۔ انھوں نے یہ بھی نہیں سنا کہ کوئی فقیہ اسلام کہے کہ دشمنان اسلام اگر پردے اور حجاب پر پابندی لگاتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے اور وہ غلط نہیں کرتے۔ انھوں نے یہ بھی نہیں سنا کہ ایک فقیہ نقاب کے خلاف جنگ چھیڑدے اور اسے جاہلی دور کی ذلیل عادت قرار دے۔ یہ بھی نہیں سنا کہ کوئی فقیہ کہے کہ مسلمانوں کا محاصرہ کرنا، انھیں بھوکا مارنا اور انھیں ذلیل ورسوا کرنا جائز ہے۔ یہ بھی نہیں سنا کہ کسی فقیہ سے لوگوں نے کہا ہو کہ دعا کیجیے کہ مسجد اقصیٰ شہید نہ کردی جائے، تو وہ کہہ دے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک زمانہ مسلمانوں پر ایسا بھی آئے گا کہ اللہ کو بُرا کہنے پر زیادہ تر مسلم حکمراں خاموشی سادھ لیں، لیکن کسی حاکم کو برا کہنے پر ساری دنیا میں غل مچ جائے۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ دیارِ اسلام میں ایسے رسالے اور اخبارات عام ہوجائیں گے جن میں نیم عریاں عورتوں کی تصویریں ہوں گی، بے حیائی اور بدکاری کی تبلیغ ہوگی اور لادینی اور سیکولر نظریات کی ترویج کی جائے گی۔ صالحین کو انتہاپسندی کی تہمت لگاکر بدنام کیا جائے گا، جب کہ عورتوں اور مردوں کے بے قید اختلاط کی دعوت دی جائے گی۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ بہت سارے اسلامی ملکوں میں فحش اور ملحدانہ ناول اور افسانے چھپیں گے اور سرکاری انعامات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ۱۴۳۱ھ محرم کے مہینے میں ازہرکے مشایخ کی جانب سے بیان آئے گا کہ وہ عیسائیت پر ایمان رکھتے ہیں، اور عیسائیت کا ان کے دل میں احترام ہے اور چند کمزور آوازوں کے سوا کوئی اس کفر کے خلاف نہیں بولے گا۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ کافروں اور ملحدوں کو بیش تر اسلامی ملکوں میں جانے کی اجازت ہوگی اور انھیں ساری سہولتیں دی جائیں گی، لیکن اکثر مسلمانوں کو کسی دوسرے اسلامی ملک میں جانے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑیں گے، اور بعض مسلمانوں پر وہاں کے دروازے بند ہوں گے۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اسلامی ممالک میں دشمنانِ اسلام کے سفارت خانے ہوں گے، اور ان کے ساتھ تجارتی معاہدے ہوں گے۔ وہ دشمنانِ اسلام جو سرزمین اسلام پر قابض ہیں، اور مسلمانوں پر ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ وہی جب کچھ اسلامی ملکوں میں آئیں گے تو ان کا شان دار خیر مقدم ہوگا، اور پھر ان کے ساتھ بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچائی جائیں گی۔ ان سازشوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور ان میں سے بہت سی منظر عام پر آچکی ہیں۔
کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ کچھ کافر مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں گے، ان کے لیے امدادی قافلے بھیجیں گے، اوراس کے لیے انھیں مسلمانوں ہی کے ہاتھوں مار بھی کھانا پڑے گی، ذلت ورسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور شدید موسم میں ریگستانوں میں بسیرا کرنا پڑے گا۔ محض اس لیے کہ چاروں طرف سے گھرے ہوئے بھوکے اوربیمار مسلمانوں تک امداد پہنچاسکیں، جب کہ زیادہ تر مسلمان چین کی نیند سوتے رہیں۔ گویا ان کا مظلوم مسلمانوں سے کوئی رشتہ ہی نہیں!
آہ ! وہ سب کچھ ہوا جو اہلِ اسلام نے دُور دُور تک نہیں سوچا تھا، آج کے جرات مند علما اور فقہا کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور درپیش مسائل اور حالات وواقعات پر سوچنے اور بے لاگ فیصلہ سنانے کا فریضہ ادا کرنا ہوگا!آہ ! اہلِ ایمان گوشۂ تنہائی میں کب تک رہیں گے،کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عام مسلمانوں کی حالت ایسی ہے گویا اندھیری رات میں بھیڑوں کا گلہ بھٹک رہا ہو اور کوئی ان کا رکھوالا نہ ہو!!