مئی ۲۰۱۰

فہرست مضامین

رجوع الی اللہ___ وقت کی اہم ترین ضرورت

سیّد منور حسن | مئی ۲۰۱۰ | تذکیر

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بڑا فضل اور احسان ہے ، اس کی نعمتیں بے پایاں ہیں،     کرم نوازیاں اور اپنی مخلوق کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیتیں ہر چہار طرف بکھری ہوئی ہیں، اپنے آپ کو منواتی اور چار دانگ عالم میں محبت اور الفت کاپیغام لے کر آتی ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں بندوں کا معاملہ عجیب ہے کہ اس کے وہ بندے بھی جو بظاہراس کو جانتے پہچانتے ہیں، اس کی کبریائی کے گن گاتے، اس کی بڑائی کو مانتے ہیں،اور اس کے اول و آخر اور ملجا و ماوی ہونے کو  تسلیم کرتے ہیںمگران کے اعمال و افعال ان کے ایمان، عقیدے اور ان کے ذہن وفکر کی نفی کررہے ہوتے ہیں۔ آدمی اگر دور نہ جائے اور خود اپنے اندرجھانک کردیکھے تو یہ بات دواوردو چار کی طرح واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ بندگی کے راستے پر چلنے والے بھی بار بار بار ڈگمگاتے،راہ سے بے راہ ہوجاتے ہیں، منزل کو گم کربیٹھتے ہیںاور خود اپنی ہی شناخت اور تعارف سے محروم ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں یہ سوال اٹھتاہے اور اٹھایا جانا چاہیے کہ ان اسباب و علل پر کیسے قابو پایا جائے جو بحیثیت مجموعی بندوں کی گمراہی اور اپنے رب سے دُورہونے کا سبب بنتے ہیں۔

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اس موضوع پر تفصیلی ہدایات موجود ہیں،اور جزئیات تک میں رہنمائی کی گئی ہے۔ جہاںیہ بتایا گیاہے کہ انسان ناشکرا واقع ہواہے،بھول اور غفلت کا شکار ہوجاتاہے، سر سے لے کر پیر تک احسان فراموش بن جاتا ہے،وہیں یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت اوراس کی جبلت میں رجوع کے، اپنے رب کی طرف لوٹنے پلٹنے کے بھی کئی عنوانات سجائے ہوئے ہیں۔اسی وجہ سے طبیعت اور مزاج میں ایک ندامت کی کیفیت ،اورہر غلط کام کے اوپر اپنے آپ کو ٹوکنے کا ایک جذبہ ہمیشہ موجودرہتاہے۔ ہر برائی اورگناہ پر ملول ہونے، تأسف کا اظہارکرنے اور طبیعت کے اندر ایک ہیجان کی کیفیت کے کئی حوالے سامنے آتے ہیں۔اسی کو توبہ واستغفار بھی کہا جاتاہے اور رجوع الی اللہ بھی۔ قرآن پاک میں اہل ایمان کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں پلٹنے والے، لوٹنے والے ، اپنے رب کی طرف بار بار رجوع کرنے والے، اور توبہ استغفار کرنے والے کاتذکرہ بار بار ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی یہ ادا بے حد پسند ہے کہ وہ بار بار راہ سے بے راہ ہواور بار بار اپنے رب سے رجوع کرے ، اس کی طرف واپس لوٹ آئے اور وہ اس کو معاف کردے۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اگر تم سب (ملائکہ کی طرح)بے گناہ ہو جائو اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا کرے گا جن سے گناہ بھی سرزد ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمائے گا (اور یوں اپنی شان غفاریت کا اظہار فرمائے گا)۔ (مسلم)

بخاری اور مسلم میں یہ واقعہ بیان ہواہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور صحابہ کرام ؓ حلقہ بنائے بیٹھے ہیں تاآنکہ لوگوں نے سنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر یہ کلمہ جاری ہوا کہ اس شخص کی خوشی کا کیا حال ہوگا ، اس شخص کی مسرت کا کیا حال ہوگا؟  یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم کچھ سمجھ نہیں سکے کہ کس شخص کی خوشی اور مسرت کا آپ تذکرہ فرمارہے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص ہے ، جنگل بیابان ریگستان میں چلا جاتا ہے۔ وہ ہے اور اس کا اونٹ ہے، وہ خود ہے اور اس کی سواری ہے، اور اس سواری کے اوپر اس کی ساری کائنات لدی ہوئی ہے۔اس کے کپڑے، دانہ پانی، کھانے پینے کا سامان، اور اس کی ضرورت کی تمام چیزیں اس اونٹ کے اوپر موجود ہیں۔ وہ مسافر جب چلتے چلتے تھک جاتا ہے تو یہ سوچ کر کہ کچھ دیر آرام کرلے، اونٹ سے نیچے اترتا ہے، اس کو کھڑا کرکے قریب ہی لیٹ جاتا ہے اور اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ دیر بعد جب وہ شخص بیدار ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا اونٹ تو وہاں ہے ہی نہیں، وہ چاروں طرف دوڑتا، گھومتاپھرتا اپنے اُونٹ کو تلاش کرتا ہے لیکن وہ کہیں ملتا ہی نہیں۔ہر چہار طرف اپنے اونٹ کو پکارنے کے بعد بھی جب اس کا نام و نشان نہیں ملتاتو وہ تھک ہار کر اپنی جگہ پر واپس بیٹھ جاتا ہے۔ چاروں طرف موت کے مہیب سایے اسے اپنی طرف بڑھتے نظر آتے ہیں۔ یہ خیال اسے ستانے لگتا ہے کہ اس ریگستان میں دن کی گرمی میں ہلاک ہو جاؤں گا، رات کی سردی میں مارا جاؤں گا،بھوک اورپیاس کی شدت سے اپنی جان گنوا بیٹھوں گا۔ چاروں طرف موت ہی موت اس کو نظر آتی ہے تاآنکہ زندگی سے مایوس ہو کروہ اپنے ہاتھ کو تکیہ بناتاہے اور پھراسی جگہ پر پڑ رہتاہے۔ اسی اثنا میں اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چند لمحے بعد جب وہ شخص دوبارہ بیدا ر ہوتا ہے اور آنکھ کھول کے دیکھتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کا اونٹ تو وہیں کھڑاہے،واپس آگیاہے۔ پھر آپؐ نے اس بات کو دہرایا کہ اس شخص کی خوشی کا کیا حال ہوگا، اس شخص کی مسرت کا کیاعالم ہوگا     جسے جنگل بیابان میں اپنا کھویا ہوا اونٹ واپس مل جائے۔ گویا زندگی اس کے اوپر مہربان ہوجائے، اور موت کے منڈلاتے ہوئے مہیب سایے اس سے رخصت ہوجائیں۔

ذرا غور کیجیے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ کیوں سنایا؟جو بات آپ اس سے آگے ارشاد فرمانے والے ہیں، جس امر سے لوگوں کو آگاہ کرنے والے ہیں۔ اصل تووہ ہے۔آپؐ نے صحابہ کرام ؓ کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ لوگواللہ تبارک وتعالیٰ کواس مسافر سے جسے جنگل بیابان میں اپنا کھویا ہوااُونٹ واپس مل جائے ، کہیں زیادہ خوشی ہوتی ہے جب اس کا ایک بھولا بھٹکا ہوا بندہ ، راہ سے بے راہ ہوجانے والا غفلت کا شکار بندہ ،اطراف کے حالات میں اپنے آپ کو گم کردینے اور اپنی شناخت کھو دینے والا بندہ پھر اس کی طرف لوٹتا ہے، پھر اس کی طرف پلٹتا ہے۔ پھر ندامت کے آنسو ہیں جو اس کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں،اور وہ اَن گنت حوالوں سے اپنے رب کو راضی کرنے کے بہانے تلاش کرتا ، طور طریقے اپناتا ہے۔

قرآن پاک اور احادیث میں تفصیل کے ساتھ یہ بات آئی ہے بالخصوص انبیاے کرام کے حوالے سے تو یہ بات بالکل دوٹوک ہے ، انھی لفظوں کے اندر قرآن پاک میں موجودہے کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف کوئی بندہ رجوع کرتاہے ، اپنی کسی خطااور کوتاہی کے حوالے سے معافی کا طلب گارہوتا ہے تو یہ ادا اس کواس قدر پسند آتی ہے کہ اس کی طبیعت اور کیفیت کے لحاظ سے    اللہ تعالیٰ اس کی زبان پر وہ کلمات جاری کردیتا ہے، اس کے جسم و جان کے اوپر اس عمل کو طاری کردیتاہے جو خود اس کو بڑا مقبول ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی توبہ بھی قبول ہوتی ہے،اور بارگاہ رب العزت میں درجات کی بلندی بھی اس کو مل جاتی ہے۔قرآن پاک میں نبوی دعائوں سے اس امرکا اشارہ ملتاہے:

رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ o (الاعراف۷: ۲۳) اے رب ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے درگزر   نہ فرمایا اوررحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے۔

یہ کس کی دعا ہے؟حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حواکی زبان پر یہ کلمات جاری ہیں، اپنے رب سے رجوع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی جانوں پر بڑا ظلم کیاہے، اور تیری ہی ایک ذات ہے جو مغفرت کرنے والی ہے، معاف کرنے والی ہے۔ انبیاے کرام کی جتنی بھی دعائیں ہیں، ان میں اسی کا حوالہ ملتا ہے۔

اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ o (الانبیاء ۲۱: ۸۷) نہیں ہے کوئی خدا مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا۔

یہ حضرت یونس علیہ السلام کی دعاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان پر وہ کلمات جاری کرا دیے جو   اس کو پسند ہیں، پھر ان کو قبول کرلیا۔

ہم اس موضوع کو کتابوں میں پڑھتے ہیں، بزرگوں سے سنتے ہیں تو خیال یہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی دقیق علمی موضوع ہے، اورکبھی یہ گمان گزرتا ہے کہ یہ توبڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔بلاشبہہ بڑے لوگوں کی باتیں تو ہیں ہی،اور علمی موضوع ہونے سے بھی کوئی انکار نہیںکرسکتا۔لیکن اگر ہربندے کا اپنے رب کے ساتھ تعلق ہے،اور ہر بندے کے لیے اللہ تعالیٰ نجات کے اَن گنت عنوانات چاروں طرف بکھیرتا ہے تو پھریہ تو میرا اور آپ کا موضوع ہے۔ کس سے گناہ نہیں سرزد ہوتا؟ کون ہے جو خطا کاپیکر ہونے سے انکار کرسکے؟ کس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ      وہ خیرونیکی اور بھلائی و فرمانبرداری کا  سراپاہے؟ سب اس بات سے واقف ہیں کہ بڑے بڑے عابدو زاہد اور مجاہد، اور قبولیت کا شرف حاصل کرنے والے کو بھی گناہ سے مفر نہیں ہے۔ نافرمانی کے راستے پرنہ چلنا، اس پر کسی کا قابو نہیں ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

ہر آدمی خطار کار ہے(کوئی نہیں ہے جس سے کبھی کوئی خطا اور لغزش نہ ہوئی ہو)، اور خطاکاروں میں وہ بہت اچھے ہیں جو(خطا اور قصور کے بعد)مخلصانہ توبہ کریں( اور  اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیں)۔ (ترمذی)

انسان سے گناہ تو سرزد ہوتے ہیں، دل و دماغ بار بارنافرمانی کی آماجگاہ بن جاتے ہیں، جسم و جان کی دنیا میں ان گنت مواقع پر ایسے طوفان اٹھتے ہیں جو معصیت کی طرف لے جاتے ہیں۔پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اگر انسان گنا ہ کر بیٹھے تو طبیعت پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے؟  وہ اصل مطلوب ہے۔اگر گناہ انسان کو ملول کرے اور طبیعت کے اندر ملال کی کیفیت پیدا کرے، مزاج کے اندر محرومی کا احساس پیدا کرے تو یہ توبہ اور اپنے رب کی طرف رجوع کرنے کی کیفیت ہے۔ اس کی قدر کرنی چاہیے،اور یہ محسوس کرنا چاہیے کہ اپنے رب کی طرف سے مجھے یہ توفیق    مل رہی ہے۔ اس توفیق ہی کے نتیجے میں پھر نیک اعمال کا صدور ہوتاہے اور گناہ کے مقابلے میں انسان نیکی کی طرف بڑھتاہے۔

ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں ، صحابہ کرام ؓ  آپ کے ارد گردبیٹھے ہیں اور ایک جنگ کے قیدی پکڑ کر لائے جارہے ہیں۔اسی اثنا میں صحابہؓ نے دیکھا کہ ان قیدیوںمیں ایک عورت بھی پکڑ کر لائی گئی ہے جوچیخ رہی ہے، چلارہی ہے، اور بآواز بلند مسلسل کہے جارہی ہے کہ ہاے میرا بچہ!ارے میرا بچہ کہیں پیچھے رہ گیاہے، میرا لخت جگر کہیں گم ہوگیا ہے؟ ماں کی مامتا اپنے بچے کے لیے بے چین ہے اورکہہ رہی ہے کہ مجھے تو تم یہاں قید کرکے یہاں لے آئے ہو، اس کو بھی قید کرو۔ گویا فرط محبت میں اپنے بچے کے لیے قید کی دہائی دے رہی ہے۔  صحابہ کرام ؓاس منظر کو دیکھ رہے تھے اوراس عورت کی چیخیں ان کے دل تک پہنچ رہی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو ایسے تمام مواقع پر حکمت و دانائی کے ساتھ لوگوں کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ کی آواز فضا کے اندر گونجی، اور اس خاص لمحے جب لوگ عورت کی چیخ و پکار سن رہے تھے،  آپؐ نے فرمایاکہ اے لوگو !کیا کوئی ماں اپنے بچے کو آگ میں ڈالنا پسند کرے گی؟جب ایک ماں کی دلدوزچیخیں سنائی دے رہی ہیں، ماں کی اپنے جگر گوشے کے لیے اٹھتی ہوئی آوازیں ہیں، اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کو متوجہ کرکے فرمایاکہ کیا کوئی ماں اپنے بچے کو آگ میں ڈالنا پسند کرے گی؟ صحابہ کرام ؓ حیران رہ گئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ کوئی ماں اپنے بچے کو کیسے آگ میں ڈال سکتی ہے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو! کوئی ماں اپنے بچے سے جس قدر محبت کرسکتی ہے،پیار اور وابستگی کا اظہار کر سکتی ہے،اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔بھلا وہ اپنے بندوں کو آگ میں ڈال دے گا؟ہاں، بندے اس سے رجوع تو کریں، اس سے کچھ طلب تو کریں، ہاتھ پھیلا کر اس سے کچھ عرض تو کریں، دل و دماغ کی دنیا میں اسے جگہ تو دیں،سمائیں اور بسائیں تو سہی۔ گویا بندہ ایک قدم چلے تو سہی پھر دیکھے کہ اس کا رب کیسے دس قدم چل کر اس کے پاس آتا ہے۔

ہم جس ماحول اور معاشرے میں رہ رہے ہیں، اورگناہوں نے جس طرح ہرچہار طرف اپنا جال بچھا رکھا ہے، اس میں یہ اور بھی ضروری ہے کہ اپنے رب کی طرف پلٹا جائے۔ اس کو آپ رجوع الی اللہ کہیں، توبہ و استغفار کہیں،اپنے رب کی طرف لوٹنا پلٹنا کہیں،بار بار گناہوں کی طرف جانا اور بار بار نیکیوں کی طرف آنا کہیں،لیکن یہ وہ کیفیات ہیں کہ جن سے ہمیں لازماً گزرنا چاہیے۔

یہاںپر ایک سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ہم کو انفرادی دائرے کے اندر  کش مکش کے لیے پیداکیاہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیںہے۔ انبیاے کرام کی تعلیمات اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ نظر آتا ہے، وہ انفردایت کے ساتھ اجتماعیت کو بھی اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری حج پر تشریف لائے ہیں، عرفات کے میدان میں ہزارہا ہزارلوگ موجود ہیں، الوادعی خطبہ اورآخری ہدایات ہیں جو رہتی دنیا تک آنے والے انسانوںکے لیے آپؐ ارشاد فرمارہے ہیں۔جب آپؐ اپنی بات مکمل فرمالیتے ہیں تو خطبے کے آخر میںپوچھتے ہیں کہ اے لوگوکیا میں نے رسالت اور دعوت کا حق ادا کردیا ہے؟ سب لوگ بآواز بلند پکار کر کہتے ہیںکہ حضور آپ نے دعوت بھی پہنچا دی، پیغام بھی پہنچا دیا۔نمونہ اس کا بتا دیا، عمل اس پر کرکے دکھا دیا۔چاروں طرف انسانوں کا سمندر مجسم گواہی ہے، بزبان حال بھی اور بزبان قال بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کی تصدیق کررہاہے۔ آپ صلی علیہ وسلم جب یہ سنتے ہیں تو شہادت کی انگلی کوبلندتے ہیں، کبھی آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں اور کبھی مجمع کی طرف، اور فرماتے ہیں: اللّٰھم اشھد، اللّٰھم اشھد،اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا۔

یہاں ایک لمحے کو ٹھیریں اورسوچیں کہ کیا یہ کام صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص تھا؟اور ہم انفرادی اور چھوٹے چھوٹے دائروں میں وہ کام کرتے رہیں جو ہم کررہے ہیں۔اگرحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ کامل نمونہ ہے تو لازم ہے کہ اس کی مکمل اتباع اورپیروی کی جائے۔ اس حوالے سے یہ بات ہمارے سامنے رہنی چاہیے کہ یہ کامل نمونہ خالص انسانی سطح پر ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ پوری زندگی معجزات میں گزر گئی ہو،خوارق عادت چیزوں کا نمونہ بن گئی ہو۔ کون واقف نہیں ہے کہ آپؐ غم اور اندوہ کا شکار ہوتے تھے،اور ایک سال توحزن و ملال کا سال کہلایا کہ جس میں حضرت خدیجۃ الکبری ؓ اورجناب ابوطالب کا انتقال ہوا۔ آپؐ  صدمات سے دوچار ہوئے ہیں۔ آپؐ  کے نوزائیدہ بیٹے اس دنیا سے رخصت ہوئے توآنکھوں میں نمی آئی اور آنسو رواں ہوئے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ کوئی پتھر مارے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چوٹ نہ لگتی ہو۔کوئی کانٹے بچھائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام سے گزر جاتے ہوں اور کانٹے چبھتے نہ ہوں۔ کانٹے چبھتے تھے، اپنا اثر دکھاتے تھے،پتھرائو کے نتیجے میں جسم اطہر لہولہان ہوتا تھا، دندان مبارک شہید ہوتے تھے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنوں کے لیے مسرت اور کبھی غصے کااظہار کیا ہے۔

ایک موقع پر حضرت ابی ابن کعبؓ نے پوچھ لیا کہ آپ ہمارے لیے دعا نہیں کرتے، نصرت الٰہی کب آئے گی؟پوچھنے والے صحابی وہ ہیں جنھوں نے شدید ترین آزمائشیں جھیلی ہیں۔ آپؐ کعبے کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، سیدھے ہو کربیٹھ گئے، چہرہ انور غصے سے تمتما اٹھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ابھی دیکھا ہی کیاہے،تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں، ان کو آدھا زمین کے اندر گاڑ دیا جاتا تھا،اور باقی آدھے جسم کو آروں سے دو حصوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔ لوہے کی کنگھیوں سے گوشت کو ان کی ہڈیوں سے جدا کردیا جاتا تھا۔تم جلدی کرتے ہو، عجلت کا مظاہرہ کرتے ہو۔ان واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی خالص انسانی سطح پر اگر نہ گزرتی تو اسوہ کیسے بنتا کہ جس کا اتباع کیا جاتا، جس کی پیروی کی جاتی۔

انسانی سطح پر ہی یہ بات آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تھکے ہوئے گھر پہنچے ہیںاور اطلاع ملتی ہے کہ ایک قافلہ آیا ہے۔ آپؐ فوراً تیار ہو کر اس کی طرف جانا چاہتے ہیںکہ اس کو اللہ کی طرف بلائیں، توحید کا پیغام اس تک پہنچائیں، بندگی رب کا درس اس کو دیں۔ گھر والوں نے عرض کیا کہ دن بھر کے آپ تھکے ہوئے گھر لوٹے ہیں، کل چلے جائیے گا، صبح دیکھ لیجیے گالیکن بالکل انسانی دائرے میں آپ بات بیان فرما رہے ہیںکہ کیا عجب کہ یہ قافلہ راتوں رات ہی واپس چلا جائے یا آگے نکل جائے،یا جو مہلت عمل مجھے ملی ہے اور دعوت اور پیغام پہنچانے کی جو آزادی مجھے میسر ہے، صبح ہونے سے پہلے ہی وہ ختم ہوجائے۔

کیا یہ صرف علمی واقعات ہیں جو میں نے بیان کیے اور آپ نے پڑھے ہیں۔علم تو ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اس میں تو کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیںلیکن ان میں عمل کی ایک پوری دنیا بھی آبادہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہو کر آپ پر ختم نہیں ہوتی،بلکہ آپ کے بعد آپ کی امت کو اس کامکلف بنایا گیا ہے اور اس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کو قرآن میں بیان فرمایا ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ (اٰل عمرٰن۳: ۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیاہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پرایمان رکھتے ہو۔

اور فرمایا:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (اٰل عمران۳: ۱۰۴) تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔

ان آیات اور حضورنبی کریمؐ کی سیرت کی روشنی میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ  کیا ہم اپنے اعزہ واقارب، اہل خانہ، برادری اور خاندان کے بارے میں،اپنے دوست احباب کے بارے میں،سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ان تک ہم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے،دعوت کا حق ادا کردیا ہے، غلط راہوں پر جانے والوں کو بار بار متوجہ کیا اور ادھر جانے سے روکنے کی کوشش کی ہے؟حقیقت یہ ہے کہ اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، سوال کیا جائے گا۔

توبہ و استغفار ،رجوع الی اللہ اور بندوں کو بندوں کے رب کی طرف ہنکانے کا دائرہ ساری انسانیت کو محیط ہے۔ بلاشبہہ ہم اپنے آپ کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ جو واقفیت مجھے اپنی ذات سے ہے اور جو تعارف مجھے اپنے سراپا کے ساتھ ہے، وہ کسی اور کو نہیں ہے۔ اپنی اچھی اور بری عادتوں کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔ اپنے اچھے اور برے اعمال کی فہرست ہمارے سامنے ہے۔ نفس کی جو فرمایشیں روز سامنے آتی رہتی ہیں، ان سے ہم بخوبی واقف ہیں۔تو ہمیں اپنے لیے بھی یہ متعین کرلینا چاہیے کہ تذکیر کے جتنے عنوانات ہو سکتے ہیں وہ قلب و ذہن کی دنیا میں سجائے جائیں اوراپنے رب کی طرف پلٹنے اور اس سے رجوع کرنے کے جتنے حوالے ہوسکتے ہیںان سب کو  مضبوط کیا جائے، لیکن پورے معاشرے کو اللہ کی طرف رجوع کرانابھی ہماری ذمہ داری ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا تقاضا ہے۔

یہ کہنا آسان ہے کہ معاشرہ بگڑ گیا ہے لیکن جس زبان سے یہ جملہ نکلتا ہے اسی کی یہ سب سے زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بگاڑ کو دور کرے۔اس نے تو تشخیص کر لی کہ معاشرہ      بگڑا ہواہے،اور حالات کی خرابی کا شکار ہے۔یہ کہہ کر گھر میںسکون کے ساتھ بیٹھ جانا داعی کے شایانِ شان نہیں ہے۔ یہ لوگوں سے دوری اور بے زاری کی کیفیت ہے جو اسوہ حسنہ کی پیروی کرنے والے کے لیے زیبا نہیں ہے۔معاشرے کی خرابی کی اصل وجہ ہی یہ ہے کہ نصیحت ختم ہوگئی ہے اوروعظ و تلقین کا راستہ ترک اورمنکر پر ٹوکنا بند کردیاگیا ہے۔ ایسی محفلوں میں ہم شریک ہوتے ہیں جن میں برائیاں ’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ‘کاعنوان ہوتی ہیں، منکرات چاروں طرف دکھائی دیتی ہیں ۔ طبیعت اور مزاج کے اندر تھوڑی بہت گرانی تو پیدا ہوتی ہے لیکن رویے اور زبان کے اندر کم کم کوئی ایسی چیزسامنے آتی ہے جو لوگوں کو اصلاح کی طرف لے جاسکے،ان میں حالات کی خرابی کا ادراک پیدا کرسکے۔

ہم جن دنیوی مسائل کا رونا روتے ہیں۔ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا ہے تو کہتا ہے کہ صاحب چار گھنٹے بجلی نہیں تھی،رات کو تو نیند ہی نہیں آئی۔اس قدر شدید حبس تھا کہ کیا بتلائوں، اور ابھی تو اپریل کا معاملہ ہے، جون جولائی میں پتا نہیں کیا کیفیت ہوگی۔ جواب ملتا ہے کہ میرے ہاں بھی پانچ گھنٹے بجلی نہیں تھی،نہ پوچھو کہ میرا کیا حال ہوا۔ آدمی حیرانی سے منہ تکنے لگتا ہے کہ اچھا  تمھارا بھی یہی معاملہ ہے۔یہ جو بجلی کے بحران کی ہم بات کرتے ہیں، گیس کی لوڈشیڈنگ،   مہنگائی و بے روزگاری اور بد امنی کے عفریت کا رونا روتے ہیں، صنعتوں کے بندہونے، تجارت کے ختم ہونے اور کسانوں کے بے حال ہونے کی دکھ بھری کہانیاں سنتے سناتے ہیں۔ تنخواہ دارکہتے ہیں کہ گھرکے اندر تین تین تنخواہیں آتی ہیں لیکن گزارہ نہیں ہوتا۔ چادر پیرکی طرف لے جائو تو سر  کھل جاتے ہیں، سر کی طرف لے جائو تو پیر کھل جاتے ہیں، اس لیے کہ تنخواہیں جتنی ہیں اتنی ہی رہتی ہیں اور مہنگائی صبح اور شام میں اپنے آپ کو دوگنا چوگنا کرلیتی ہے۔ یہ تو چند مسائل کا ذکر ہے لیکن ان کی فہرست تو طویل ہے جس سے میں اور آپ واقف ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کاکوئی دنیوی حل ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ توبہ و استغفاراور رجوع الی اللہ ہی ان تمام مسائل کااصل حل، اور زندگی کو بہتر رخ پر ڈالنے اور حالات کو کل سے بہتر آج اور آج سے بہتر کل کا عنوان بنانے کا راستہ ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:

جوبندہ استغفار کو لازم پکڑلے (اللہ تعالیٰ سے برابر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے)تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی اور مشکل سے نکلنے اور رہائی پانے کا راستہ بنا دے گا۔ اس کی ہر فکر اور پریشانی کو دور کرے گا،اسے کشادگی اور اطمینان عطا فرمائے گااور ان طریقوں سے رزق دے گا جن کا اس کو خیال و گمان بھی نہ ہوگا۔(احمد)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے دو امانیں مجھ پر نازل فرمائیں۔ (سورۂ انفال میں ارشا فرمایا گیا)کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تم ان کے درمیان موجود ہو اور ان پر عذاب نازل کردے۔اور اللہ انھیں عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا جب کہ وہ استغفار کرتے ہوں گے، معافی اور مغفرت کے طلبگار ہوتے ہوں گے۔آپؐ نے فرمایا: پھر جب میں گزر جائوں گا تو قیامت تک کے لیے تمھارے درمیان استغفار کو(بطور امان) چھوڑ جائوں گا۔(ترمذی)

توبہ و استغفار اوررجوع الی اللہ کی یہ تحریک ہی ہمیں مسائل کی دلدل سے نکال سکتی ہے۔ یہ تحریک کسی دکھاوے اور نمود و نمایش اورکسی خانہ پری اور رپورٹ کی تیاری کے لیے نہیں بلکہ طبیعت کے ابال اوربندوں کو آگ سے بچانے کے داعیے کے ساتھ ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ     اگر انفرادی دائرے میں اپنے رب سے رجوع کا کوئی حوالہ موجودہو تو چاروں طرف کے حالات میں جب لوگ راہ سے بے راہ ہورہے ہیںتوان کے لیے بھی یہ کیفیت خود بخود پیدا ہوجائے گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جس کا قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ہے:

طٰہٰ o مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی o اِلَّا تَذْکِرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی o (طٰہٰ ۲۰: ۱-۳) ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جائو۔   یہ تو ایک یاددہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرمارہاہے کہ یہ قرآن پاک ہم نے اس لیے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت کے اندر پڑ جائو،تمھارا حال تو یہ ہوگیا ہے کہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (الشعرا ۲۶:۳) ’’شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دوگے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘۔یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت ہے کہ لوگوں کے غم کے اندر گھلے جارہے ہیںکہ یہ راہ سے بے راہ اور گمراہ ہوگئے ہیں، یہ بات کو سنتے اورجانتے نہیں ہیں، مانتے اور پہچانتے نہیں ہیں۔ عمل کی دنیا میں کسی انقلاب کے لیے آمادہ و تیار نہیں ہوتے ہیں۔گویا اپنی اور لوگوں کی دنیا اور آخرت کی فکر کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے۔ناگزیر ہے کہ انفرادی دائرے میں بھی اس کی پیروی کی جائے، اوراجتماعی دائرے میں بھی ہر شخص اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کرے، اور دعوت اور رجوع الی اللہ کی تحریک کا دست و بازوبنے۔اسی میں ہمارادنیا وی مستقبل محفوظ ہے، اسی کے اندر آخرت کی کامیابی، اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کی ضمانت ہے، اور اسی کے نتیجے میں شفاعت مصطفی اوردیدار الٰہی کی توقع کی جاسکتی ہے۔